بدھ، 6 دسمبر، 2017

سیکولرازم




سعودیہ ایک وسیع اور تاریخی ملک ہے۔ وہاں ، اگر کہا جائے ، دین لوگوں کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ قبائل پرمشتمل اس ملک کے ایک صوبے نجد میں جو روایات کا قلعہ کہا جاتا ہے میں اشیقر نامی قلعے سے متصل ایک ویران گلی میں ایک نوجوان لڑکی نے علاقے کی روایات سے ہٹ کر ایسا لباس زیب تن کیا جو اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ وہ لڑکی کوئی عام لڑکی نہ تھی، اس کا نام خلود ہے جو سعودیہ کی ایک پروفیشنل ماڈل ہے، جب خلود سکرٹ پہن کر ایک ویران گلی میں چہل قدمی کر رہی تھی اس کے اس عمل کو فلمایا گیا۔ لوگوں نے اس کی شکائت کی  . اس کے خلاف تفتیش ہوئی ، اس کے جرم کو نا قابل گرفت بتاتے ہوئے اس کے خلاف تفتیش بند کر دی گئی۔ البتہ اس کاویڈیو 
 کلپ ایک بحث کا عنوان بن گیاکہ  " فرد کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نہیں۔

اب ایک مثال پاکستان کی، ایک دھرنے میں موجود ایک علامہ صاحب کے طرز تخاطب کو بنیاد بنا کر ، مولویوں ، علماء اور دینی مبلغین کے طرز تخاطب کو دین سے جوڑ کر دین کی بے ثمراتی پر بحث شروع کر دی گئی ہے۔ اوربحث کا مرکز ی نقطہ یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے کو دینی ہونا چاہیے یا سیکولر ؟ 

سوشل میڈیا ایسا فورم ہے جہاں آ پ اپنا بیانیہ دوسرے کی رضامندی کے بغیر بھی اس کے ذہن میں انڈیل سکتے ہیں۔ جب پکتی دیگ میں خیالات کا ایک دانہ بھی ڈال دیا جائے تو اس نے پک جانا ہے اور کسی مرحلے پر اس کے اثرات بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر جاری سیکولرازم پر تبصروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہمارے لبرلز ہیں جن کو ْ دیسی ْ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک روایات، اخلاقیات اور دین ایسے سنگ گراں ہیں جو معاشرے اور ملک کی ترقی میں حائل ہیں ۔ 

یہ بحث اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معاشرے کے تعلیم یافتہ ، قوم پرست اور دین دار طبقے کو اس بحث کا حصہ بن جانا چاہئے تاکہ نوجوان ذہن یک طرفہ بیانئے سے متاثر ہونے سے پہلے بیانئے کا دوسرا رخ بھی جان سکے۔

کوئی تبصرے نہیں: