منگل، 12 دسمبر، 2017

یہود کو بیت المقدس کیوں چاہئیے؟


تحریر: سہیل احمد

یہود کو بیت المقدس کیوں چاہئیے؟
عام طور پر ہمارے ہاں یہی سمجھا جاتا ھے کہ یہود کی بیت المقدس کے ساتھ عقیدت اپنی مذہبی تاریخ اور تعلق کی وجہ سے ھے، کہ بیت المقدس ایک طرح سے یہود کی جائے پیدائش تھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور یہود کے کئی جلیل القدر انبیاء بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے اور یہ وہ سرزمین ھے جہاں یہود کی مقدس عبادت گاہ ہیکلِ سلیمانی ہوا کرتی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ہوا کرتی تھی
اس تصور کا یہ مفہوم نکلتا ھے کہ یہودی مذہب بھی گویا عیسائیت کی طرح اپنے آپ کو آسمانی مذہب مانتا ھے بس ان کے مذہب میں کچھ ایسی باتیں پیدا ہوگئی ہیں جس سے وہ حق پر نہیں رہے جیسے ان کے اندر پیدا ہونے والا نسلی فخر و غرور جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دنیا کی تمام اقوام پر برتر سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کا لاڈلا کہلواتے ہیں .
یہ مغالطہ اور اس جیسے دوسرے مغالطے ہمارے ذہنوں میں اس لئیے پائے جاتے ہیں چونکہ یہود دنیا کی وہ واحد قوم ھے جو اپنے اصل مقاصد اور نظریات دنیا سے سو پردوں میں چھپا کر رکھتی ھے.
بیت المقدس پر دوبارہ قبضے کی جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انہیں صہیونی کہا جاتا ہے اور صہیونیوں کے بارے میں یہ معلومات کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ خدا کے بجائے شیطان کی پوجا کرتے ہیں اور فری میسنز اور الومیناٹی کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کا مقصد دنیا پر ایک شیطانی قوت دجال کی حکومت قائم کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے تو ایک شیطان کی پوجا کرنے والی قوم کے لئیے بیت المقدس کی کیا اہمیت ہوسکتی ھے جس کے ساتھ ان کا رشتہ شیطانی نہیں بلکہ روحانی اور آسمانی ھے؟؟
یعنی بیت المقدس کی آسمانی تقدیس اور روحانیت یہود کے شیطانی منصوبے کے لئیے کس طرح کوئی مددگار بن سکتی ھے کہ انہیں اپنے شیطانی منصوبے کی تکمیل کے لئیے اس کی ضرورت پڑ رہی ہے!؟
اس کا جواب تھوڑا طویل ھے مختصرا ً اتنا عرض ھے کہ یہود کو بیت المقدس کی ضرورت ان کے اس آبائی تعلق اور نسبت کی وجہ سے نہیں ھے جو اسے ان کے انبیاء کی سرزمین بناتا ہے بلکہ یہود کو بیت المقدس اس لئیے چاہئیے چونکہ یہ سرزمین اور اس پر موجود ٹیمپل ان کے دنیا کی تمام اقوام پر برتری کی علامت ہوا کرتا تھا
یہود کی شیطانی محنت کا دارومدار محض پیشنگوئیوں پر ھے جس کے مطابق آخری زمانے میں ایک مسیحا (جس کی شیطانی حیثیت سے وہ بخوبی واقف تھے) آکر دنیا میں ایک دفعہ پھر یہود کو دنیا کی تمام اقوام پر برتری دلوائے گا اور چونکہ بیت المقدس ہی وہی مقام ھے جو یہود کی دوسری اقوام پر کوئی برتری کی علامت رہا ھے اور یہود کی جائے پیدائش بھی وہی تھا اس لئیے اس مقام پر پہلے قبضہ اور اسے اپنی برتری کی علامت بنانا یہود کے اولین مقاصد میں سے ھے تاکہ اپنی نسلی برتری کو دنیا والوں سے منوا کر اپنے پوری دنیا پر قبضے کے شیطانی منصوبے کی تکمیل کی جائے. تو یہود کو بیت المقدس کسی مذہبی رشتے یا تقدس کی وجہ سے نہیں چاہیے بلکہ انہیں وہ اس لئیے چاہئیے چونکہ بیت المقدس ان کی دنیا والوں پر نسلی برتری کی علامت ہے
دیوار گریہ کے ساتھ لگ کر تورات کی آہ و زاری کے ساتھ تلاوت کرتے یہودیوں سے مغالطہ نہ ہو کہ یہود اگر پوری دنیا کو اپنے مقاصد کے بارے میں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں تو اپنی قوم کے ہر فرد کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ اپنے شیطانی منصوبے کے لئیے انہیں اپنا مدد گار بنائیں. مذہب کو انہوں نے صرف اس لئیے زندہ رکھا ہوا ہے کہ یہ وہ واحد ذریعہ ھے جو ان میں نسلی تفاخر کو پیدا کرتا ہے. یہی وجہ ھے کہ آپ کو ایسے یہودی بھی ملیں گے جو ہماری طرح ان کے مذہبی ڈرامے کو کوئی حقیقت سمجھ کر صہیونیت سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آئیں گے.
یہود کی اگر اصل عبادات اور رسومات دیکھنی ہیں تو فری میسنز لاجز یا ان کے مشہور کلبز سکل اینڈ بونز اور بوہیمین وغیرہ میں دیکھی جائیں جہاں شیطان کے سامنے معصوم نوزائیدہ بچوں کو آگ میں زندہ جلایا جاتا ہے..

کوئی تبصرے نہیں: