منگل، 12 دسمبر، 2017

4 دجالی پروٹوکولز

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ اور فلسطین :
دوسری جنگ عظیم کی ابتداء تک فلسطین میں عوامی تحریکیں جاری رہیں کہ جن میں بعض اوقات فلسطینی عوام کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن عربوں کے محدود وسائل ، برطانیہ کی فلسطینی عوام سے دشمنی اور مخالف اقدامات اور فلسطینیوں کی غفلت کی وجہ سے کوئی خاص قابل ذکر نتیجہ حاصل نہ ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے کئی عوامل کے باعث انقلاب کی آگ ٹھنڈی پڑگئی کیونکہ جنگ سے دوچار ممالک میں شدید کنٹرول کی وجہ سے عربوں کے پاس اسلحہ اور دوسرے وسائل کی شدید کمی واقع ہوگئی ،فلسطین کا رابطہ لبنان اور شام سے مکمل طور پرمنقطع ہوگیا تھا جس کے نتیجہ میں ان دو ممالک سے ملنے والی فوجی امداد بھی رک گئی تھی۔ جنگ کی وجہ سے ایمرجینسی کے بہانہ سے فلسطینیوں کو جلاوطن، قید یا اذیتوں کا شکار بنایا جانے لگا اور فلسطینیوں کی تمام سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھی جانے لگی۔
دوسری جنگ عظیم کے دو اہم نتیجے سامنے آئے، ایک تو برطانیہ کی طاقت میں کمی اور نوآبادیوں کی خودمختاری اور دوسرا ''امریکہ'' کا نئی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا۔ سرزمین فلسطین پر صہیونی حکومت کا وجود جن دلائل کی بنیاد پر برطانیہ کے لیے اہم تھا، انہی کی بناء پر اس نئی طاقت کے لیے بھی اہمیت کا حامل تھا۔ علاوہ ازیں، امریکی حکومت پر صہیونیوں اور یہودی سرمایہ داروں کو کافی رسوخ بھی حاصل تھا۔ ان سب عوامل کی وجہ سے امریکہ نے اس حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
١٩٤٢ء میں نیویارک کے ایک ہوٹل ''بالٹی مور'' میں امریکی صہیونیوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ''ڈیوڈبن گوریان'' کی جانب سے یہ تجاویز پیش کی گئیں۔
١۔ فلسطین کی جانب نقل مکانی کی محدودیت کو ختم کرنا
٢۔ یہودی فوج کی تشکیل
٣۔ پورے فلسطین کو ایک یہودی ملک میں تبدیل کرنا
امریکی صہیونیوں کی تنظیم کی جانب سے منظور شدہ قرار داد کے بعد، امریکی صدر'' ٹرومین'' نے برطانوی وزیر اعظم ''اِٹِلی'' کو ایک خط لکھا، جس میں یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی کو آزادی دینے اور ان کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران میں برطانوی وزیر خارجہ نے عوامی پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ امریکہ اور برطانیہ کے تعاون سے فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ بناکر اقوامِ متحدہ کے سامنے پیش کردیا۔فلسطین سے برطانوی سرپرستی کا خاتمہ :
برطانیہ نے تقریباً تیس سال کے ظالمانہ تسلط اور تمام اہم امور صہیونیوں کو سپرد کرنے کے بعد ١٩٤٧ء میں اعلان کردیا کہ وہ ١٥ مئی ١٩٤٨ء تک اپنی فوجیں فلسطین سے واپس بلالے گا۔ اسی لیے برطانیہ نے اقوامِ متحدہ سے اس مسئلہ کے حل کا مطالبہ کردیا۔
اقوامِ متحدہ نے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کو فلسطین کو تقسیم کرنے کی لائن کو معین کرنے کے لیے بھیجا جس نے تحقیقات اور مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد دو رپورٹیں پیش کیں جن میں سے ایک کی حمایت میں کمیٹی کی اکثریت نے اور دوسری کی حمایت میں اقلیت (ہندوستان، ایران، یوگوسلاویہ اور آسٹریلیا) نے رائے دی۔ پہلی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے سات حصہ کیے گئے تھے، جن میں تین تین حصوں پر یہودی اور عربی حکومت کی تشکیل اور ایک حصہ جس میں بیت المقدس شامل تھا ) کو اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ دوسری رپورٹ ١٩٤٦ء میں برطانوی تجویز سے مشابہت رکھتی تھی جس کے مطابق دو قوموں پر مشتمل ایک فیڈرل ملک کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کا مرکز بیت المقدس ہوگا۔
بالآخر اکثریتی ارکان کی تجویز، لاطینی امریکہ (١٢)کے ممالک پر امریکہ کے شدید دباؤ اور روس کے تعاون سے منظور کرلی گئی، اگرچہ عرب ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبہ کی منظوری کے بعد، صحیح طور پر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک کمیٹی کو معین کیا تا کہ وہ فلسطین کی تقسیم کے منصوبہ پر نگرانی کریں، لیکن اس کمیٹی ، جنرل اسمبلی اور نہ ہی سلامتی کونسل کسی نے بھی اس نگرانی کے لیے وسائل فراہم نہ کیے اور صہیونیوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا ۔ اس کے فوراً بعد فلسطین کے تمام شہروں میں شدید اعتراضات شروع ہوگئے اور مسلمانوں نے مختلف طریقوں سے اس منصوبہ کی مخالفت کی۔
صہیونیوں نے اقوامِ متحدہ کی تقسیمِ فلسطین پر مبنی قرارداد اور برطانیہ کی فوج کی واپسی کے اعلان کے بعد ان زمینوں پر حملہ کرنا شروع کردیا جو قرارداد کے مطابق عربوں کے حصہ میں آنی تھی تا کہ برطانیہ کے نکلنے سے پہلے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آئندہ حکومت کی سرحدوں کو پھیلاسکیں۔ یہ ناانصافی دیکھ کر عربوں نے اپنی جان اور وطن کا دفاع کرنے کی کوششیں کی لیکن چونکہ صہیونی پہلے ہی سے تیار تھے ، اس لیے انہوں نے جلدہی حالات پر قابو پالیا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کے اعلان اور فلسطین سے برطانیہ کے انخلاء کی درمیانی مدت میں پوری کوشش کی گئی کہ یہودی، فلسطین پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرلیں۔ ایک طرف سے فلسطینی مسلمان، برطانوی افواج کی کڑی نگرانی میں تھے اور اپنی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہوتے دیکھ کر بھی وہ کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے، تو دوسری جانب سے، ہاگانا اور اشترن آرگون جیسے دہشت گرد دستوں نے کئی قتل عام کر کے مسلمانوں پر اس طرح سے رعب اور دہشت بٹھا دی تھی کہ وہ لوگ کوئی بھی مناسب رد عمل نہ دکھا سکیں۔
١٤ مئی ١٩٤٨ء کو فلسطین میں برطانوی نمائندہ اور دوسرے ارکانِ حکومت ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ شہر حیفا سے کشتی کے ذریعہ نکل گئے۔ ابھی یہ فوج فلسطین سے نکلی بھی نہیں تھی کہ ''بن گوریان'' کی جانب سے صہیونی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔
عرب دنیا نے اس اعلان کے بعد فیصلہ کیا کہ عربوں کی منظم فوج کو یہودیوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔ صہیونی حکومت کے اعلان کے ایک دن بعد عرب فوج فلسطین میں داخل ہوگئی اور اپنے مشترکہ بیان میں فلسطین میں صہیونی مقاصد کی مذمت کی اور اپنے تئیں اس سرزمین کے امن کا حامی گردانا۔
جنگ کے تمام محاذوں پر عربوں کو ابتدائی طور پر کامیابیاں حاصل ہوئیں اور مصر کی ہوائی فوج نے اس میں موثر کردار ادا کیا، لیکن فوج کی کمی، عرب فوجی سربراہوں کی یہودیوں کی حامی حکومتوں کے ساتھ وابستگی، بہت سے عرب سربراہانِ مملکت کی بے غیرتی اور برطانیہ کی جانب سے عربوں پر اسلحہ کی پابندی جیسے اسباب کی بناء پر عربوں کی پیش قدمی رک گئی۔ یہ جنگ آٹھ روز تک جاری رہی اور بالآخر امریکی اور برطانوی کوششوں سے جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔
سرزمین فلسطین پر صہیونی تسلط کے عوامل میں سے ایک اہم عامل، اکثر عرب سربراہوں کی سرمایہ داری نظام سے وابستگی تھی۔ مثال کے طور پر ، عرب اسرائیل جنگ کے دوران ، ماورائے اردن فوج کی سربراہی ایک انگریز میجر ''کلوپ پاشا'' کے ہاتھ میں تھی۔ ١٩١٩ء میں عرب افواج کے سربراہ فیصل بن شریف حسین (امیر مکہ) نے برطانیہ کے اکسانے پر وائز مین کے ساتھ ایک ذلت آمیز معاہدہ کیا، جس میں فیصل کے انگریز دوست لارنس نے اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدہ کے مطابق فیصل کے لیے ایک عرب سلطنت اور وائزمین کے لیے ایک خودمختار یہودی ریاست کی تجویز پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم چرچل نے اعتراف کیا ہے کہ اگر سلطان عبدالعزیز (اس وقت کے حجاز کے حکمران ) نہ ہوتے تو یہودی فلسطین پر قبضہ نہیں کرسکتے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں: