ہفتہ، 9 دسمبر، 2017

ہمارے حصے کا کام




زمین کی ملکیت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نجی دوسری اجتماعی، اجتماعی املاک کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک اجتماعی شاملات اور دوسری سرکاری زمین ْ کھلیان ، راستے، پتن ، عبادت گائیں، وغیرہ شاملات کہلاتی ہیں اور ، ،ہسپتال،پارک، سڑکیں، ہوائی اڈے، ریل کی پٹڑیاں ،عدالتیں، دفاتر ، حکمرانوں کی رہائش گائیں وغیرہ سرکاری املاک ہوتی ہیں، اگر ایک گاوں یا محلہ کی ساری نجی املاک کوئی فرد خرید لے تو ان املاک سے جڑی ساری شاملات خود بخود خریدار کی ملکیت میں چلی جائیں گی۔ اسلام آباد میں ایک فرد نے سیکڑوں ایکڑ اراضی خرید کر جب ملحقہ شاملات پر قبضہ کر لیا تو فروخت کنندگان باوجود قوت و کوشش کامیاب نہ ہو سکے کہ خریدار کا قانونی حق تھا۔



ارض فلسطین
دوسری جنگ عظیم میں ترکی میں حکمران ْ خلافت عثمانیہ ْ تاج برطانیہ سے شکست کھا کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو ارض فلسطین برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔ برطانیہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہودیوں کی فلسطینوں سے ویران اور زرعی اراضی کی خریداری کی حوصلہ افزائی کی۔خدائی خدمتگار تحریک کے بانی اور سیاستدان خان عبدالغفار خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں ، کہ انھوں نے اپنے دورہ فلسطین کے درمیان دیکھا کہ فلسطینی اپنی نجی زرعی زمینیں غیر ملکیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ جب پورے کا پورا علاقہ فروخت کر دیا گیا تو اس سے ملحقہ شاملات یہودیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اور سرکاری املاک تاج برطانیہ نے یہودیوں کے حوالے کر دیں یوں یہودی ایک کے بعد دوسرے علاقے کے مالک بنتے چلے گئے



جدید ہتھیار
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی علاقے کو فتح کرنے کے لئے زمینی راہ تلاش کی جاتی ہے، مگر فلسطین کو فتح کرنے کے لیے زمینی راستہ کی بجائے مکر و فریب، ذہنی تیاری، وسائل کی حاضری اور جذبات کے ردعمل کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ابتداء میں قانون و اخلاق کا سہارا لیا گیا اور جب قوت حاصل کر لی گئی تو قانون و اخلاق کی تشریح یوں کی گئی کہ ْ کوئی قوم علاقے کی مالک نہیں ہوتی بلکہ ملکیت کا دعویٰ تب ہی قابل قبول ہوتا ہے جب ْ صداقت کے ساتھ طاقت ْ بھی شامل ہو۔ اس اصول کو اردو کے ایک محاورے میں ْ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ْ کہا جاتا ہے۔



اصل طاقت
بیان کیا جاتا ہے، گو افسانہ ہے، کہ ایک طوفان میں گھرے ہوائی جہاز میں موجود بچے نے کہا تھا کہ اس جہاز کا پائلٹ میرا باپ ہے، جو مجھے اپنی جان سے عزیز رکھتا ہے اور عملی طور پر دنیا کے بہترین پائلٹوں میں شمار ہوتا ہے، اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے بچانے کے لئے اپنی ساری توانائیوں کو برو کار لائے گا۔ پاکستان میں جنرل مشرف کے دور میں لال مسجد پر حملہ ہوا تو ٹی وی پر ایک طالبہ نے چشم پرنم کے ساتھ کہا تھا کہ حکمران تو باپ کی طرح ہوتا ہے۔ باپ جیسے حکمرانوں میں عمر بن خطاب کا نام لیا جا تا ہے اور ان کے اخلاص کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے ، مگر عمر ثانی تو پیدا ہوا مگر جب طویل انتظار کے بعد بھی عمر ثالث پیدا نہ ہو سکا تو اخلاص کے حصول کے لئے ووٹ کی پرچی ایجاد ہوئی، جب صدر امریکہ کہتے ہیں کہ اسرائیل میں حقیقی جمہوریت ہے تو ان کی بات کو ، کہ اسرائیلی شہری جو دنیا کے مختلف کونوں سے آ کر بسے ہیں ، تسلیم کرتے ہیں۔ عوام اور حکمرانوں کے مابین اعتماد ہی اصل طاقت ہوتی ہے ۔ 



عوام و حکمران
مشرق وسطیٰ میں لبنان ایسا ملک ہے جو جمہوری اخلاص کے باعث اپنی مذہبی اور مسلکی تقسیم کے باوجود اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے جبکہ عراق و شام لہولہان ہیں ۔مصریوں نے اپنے منتخب صدر کو ذلیل کرنا شروع کیاتو ان کی اپنی عزت بھی خاک ہو رہی ہے۔ 



فتح و شکست
القدس پر یہودیوں کا قبضہ ہو جانا ان کی فتح ہے مگر مفتوح کے لئے ادراک کرنے کا مقام یہ ہے کہ وہ تعداد ووسائل کے لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں۔ ترکی میں میلوں لمبی ریلی سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکوں کے دل مفتوحین کے ساتھ دھڑکتے ہیں، لبنان ، مصر، اردن والوں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، جذبات کا اظہار تو پاکستان، ایران اور دوسرے عرب اور افریقی ممالک میں بھی ہوا ہے حتیٰ کہ جرمنی و لندن سمیت سارے یورپی ممالک نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ۔کرنے کو تو واشنگٹن میں وائٹ ہاوس کے سامنے بھی مظاہرہ ہوا ہے مگر کیا ان مظاہروں سے طاقت کشید کر کے اس کو بطور قوت پیش کیا گیا ہے ؟ جواب ہے نہیں۔۔۔!!!
عام مسلمانوں کو، جو القدس سے کسی بھی طرح کی وابستگی رکھتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ناکامی اپنی غلطی اور بے عملی کا ثمر ہوتی ہے ۔میدان سے غیر فاتح ہو کر لوٹنے کا مطلب ہمیشہ کی شکست نہیں ہوتا ۔ انفرادی اور قومی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ 



آج مسلمانوں پرْ مصیبت ْ کی گھڑی ہے مگر میرے کانوں میں ایک آواز بچپن سے گونجتی ہے ْ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا ْ اس آواز کے الفاظ کی بجائے مجھے وہ لہجہ متاثر کرتا ہے جس لہجے کی مضبوطی پر کروڑوں مسلمانوں نے یقین کر کے اپنا اپنا اعتماد قائد اعظم کی جھولی میں ڈالا تھا۔اور اسی نسل نے اس نحیف البدن کو چو مکھی لڑائی میں سرخرو ہوتے دیکھا۔ 
مسلمان اس دن بھی مصیبت میں تھے جس دن ایک عالمی جنگ میںخلافت عثمانیہ کو شکست ہوئی اور اس کے حصے بخرے ہوئے۔مگر کیا آج ترکی دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہو چکا۔قائد اعظم کا پاکستان جب دو لخت ہوا وہ دن بھی پاکستانیوں پر ْ مصیبت ْ کا دن تھا کہ اس دن رات کے کھانے کی کسی کو یاد نہ تھی ، مگر کیا آج پاکستان دنیا کی چند اور اسلامی دنیا کی وحید ایٹمی طاقت نہیں ہے ؟ 
کیا مسلمانوں نے اپنے وقت کی معلوم ساری دنیا پر حکمرانی نہیں کی ؟ بے شک کی ہے اور اب مسلمان تنگی کے وقت سے گذر رہے ہیں ۔ اس وقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول کا فرمان ہے ْ تنگی کے وقت فراخی کا انتظار کرنا بہترین عبادت ہے ْ 
ایک ہوتی ہے شکست ، جس کے بعد قوم در بدر ہو جاتی ہے ، مایوسی چھا جاتی ہے اور انسان اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جو حالات سے مایوس ہو جاتا ہے ۔ مسلمانوں کو تو حکم یہ دیا گیا ہے کہ ْ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا ْ ہم اللہ تعالیٰ
کے اس حکم کو ہر گز پس پشت نہیں ڈالتے ۔ 
اسی یوروشلم میں جب مسلمان داخل ہوئے تھے تو مفتوح لوگوں نے ان کے ہاتھ چومے تھے، یہی یوروشلم جب مسلمانوں سے چھنا تھا تو اس وقت بھی مسلمانوں نے ایک عہد کیا تھا اور اس عہد کو پورا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔ وقت کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دھراتا ہے ، آج اگر وقت نے ایک ایسا ورقہ پلٹا ہے جس کی تحریر ہمارے دلوں پر خنجر چلاتی ہے مگر یہ وقت کی کتاب کا آخری صفحہ ہر گز نہیں ہے ، اور نہ ہی یہودیوں کو آسانی سے یہاں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ 



ہمارے کرنے کا کام
مسلمان اس وقت در بدر ہیں نہ ہی دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں، ہمارے اپنے ممالک ہیں، زمین وزر کی بھی کمی نہیں ہے ۔ وسائل و ذرائع بھی دستیاب ہیں۔ادارے بھی موجود ہیں ، 



کمزور و بے کار ہی سہی اسلامی سربراہی کانفرنس بھی موجود ہے ، دکھاوے کا ہی سہی چالیس ملکی اسلامی اتحاد بھی موجود ہے ،



 ہمارے کرنے کا کام صرف ایک ہے وہ یہ کہ ہم ْ ہر فن مولا ْ ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو کر اپنے اپنے ذمہ طے شدہ کام پر توجہ دیں ۔ زمین کا سینہ چیرنا کسان کا فرض ہے تو صنعت کا پہیہ مزدور کو چلانا ہے ، انصاف عدالتوں نے مہیا کرنا ہے تو امن و امان پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ وطن کا دفاع ہماری پاک فوج کے ہاتھوں محفوظ ہے ، حکومت کرنا سیاست دانوں کا کام ہے مگر یہ بد بخت ، چور ، لٹیرے ، بکے ہوئے ، دشمنوں کے ایجنٹ ، ذاتی تجوریاں بھرنے والے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اس کے باوجود یہ کام بہرحال سیاستدانوں ہی کا ہے۔ ہم عوام کی خطا یہ ہے کہ ہم اپنے رہنماوں کو ووٹ دے کر بھول جاتے ہیں کہ وہ اسی کرپٹ معاشرے کا حصہ ہیں ہم ان کا احتساب تو دور کی بات ہے پلٹ کر ان کی طرف دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ سیاسی رہنماء اپنے جلسے میں موجودتعداد سے قوت کشید کرکے طاقتور ہو جاتا ہے مگر ہم اس کی غلطی پر اسے ٹوکتے تک نہیں ہیں۔ کیا یہ نا ممکن کام ہے کہ ہم گاوں اور محلے کے چند لوگ وفد کی صورت میں اپنے اس رہنماء کے پاس جا کر یہ مطالبہ کریں کہ امریکی صدر نے ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور جارحیت پر مبنی یہ اعلان کیا ہے کہ اسرائیل میں امریکہ سفارت خانہ تل ابیب کی بجائے یوروشلم منتقل کر دیا جائے۔ لہذا آپ ہماری نمائندگی کا حق ادا کریں اور ہمارے جذبات مقامی حکومت ، صوبائی اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے توسط سے وزارت خارجہ تک پہنچائیں ۔ اور وزارت خارجہ عالمی فورموں پر ہمارے جذبات کی ترجمان بنے ۔اور ہم اپنا یہ مطالبہ بار بار اور اس وقت تک دہراتے رہیں جب تک ہماری حقیقی جذبات اسمبلیوں اور حکومت کی آواز نہ بن جائیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں: