جمعہ، 6 مئی، 2022

احسان



فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے

"بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "  

ہاتھوں کی کمائی




ٹیچر نے کلاس میں نویں جماعت کی طالبہ کو کام مکمل نہ کرنے پر سرزنش کی۔ لڑکی نے کلاس کے سامنے خود کو بے عزت ہوتے محسوس کیا۔ گھر آ کر اس نے رو  ر وکر والدین اور بھائیوں کو بتایا کہ ٹیچر نے اس پر زیادتی کی ہے لہذا ٹیچر کوسبق سکھایا جائے لڑکی کے دو بھائیوں نے موٹر سائیکل نکالا۔ اورسڑک کنارے جاتی ٹیچر کے گلے میں پیچھے سے کپڑا ڈال کر گرایا اور پھر سڑک پر گھسیٹا۔ چند سال  بعد اس لاڈلی بیٹی کے باپ نے مجھ سے بڑی حسرت سے کہا کہ اس کی اولاد (تین بیٹوں اور ایک بیٹی)میں سے ایک بھی میٹرک  نہ کر سکا۔ 

میں نے زندگی میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کامیاب زندگی گذار رہے ہیں اور اس کا کریڈٹ اپنے والدین، اساتذہ اور اپنے تعلیمی اداروں کودیتے ہیں۔ میں نے مگر ایسا ایک شخص بھی؎؎؎؎نہیں دیکھا جو ناکامی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا ذمہ داراپنے والدین، اپنے اساتذہ اور اپنے تعلیمی ادارے کو نہ دیتا ہو۔بلکہ کچھ لوگ اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا ذمہ دار اللہ تعالی ٰ  کو ٹھہرانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

قران پاک نے اللہ تعالی کے ایک جلیل القدر پیغمبر کے الفاظ نقل کیے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ 

٭ اس نے مجھے پیدا کیا اور مجھے راستہ دکھایا

٭ وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے

٭بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے تندرست کرتا ہے

٭وہ مجھے موت دے گا مگر دوبارہ زندہ کرے گا

٭میں امید رکھتا ہوں کہ جزاء کے دن وہ مجھے بخش دے گا

نظام قدرت ہے کہ اس نے ہر ذی روح کو عقل عطا کی ہے حتی کی صیح و غلط کا فیصلہ اس کے اندر سے اٹھتاہے۔بیماری کا سبب ہماری کوتاہی بنتی ہے مگر اللہ تعالی تندرستی دیتا ہے۔ اگر موت زندگی کو دبوچ لیتی ہے تو دوبارہ زندہ کرنے کی امید بھی وہی دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام امید کرتے ہیں کہ ایسا مہربان رب قیامت کے دن بخش بھی دے گا۔یہ چار جملے زندگی کی حقیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں امید ہی امید ہے۔ امید ہی یقین پیدا کرتی ہے اور یقین ہی انسان کو مثبت عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ مثبت عمل ہی انسان کی کامیابی کا راز ہے۔

یہ حقیت ہے کہ آدم کی اولاد غلطی سے مبراء نہیں ہے البتہ ہر غلطی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو غلط کار کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ آپ  اللہ کے باغی والدین  دیکھیں گے کہ اس کی اولاد نافرمانبردار ہے۔ استاد کا بے ادب تعلیم سے محروم رہتا ہے۔ حاسد ہر وقت بے چینی کی آگ میں زندگی گذارتا ہے۔ حرام خور بہت سی دولت حاصل کرکے بھی عزت سے محروم رہتا ہے۔ خیانت کرنے والا ہر وقت خوف زدہ  رہتا ہے۔بری صحبت پریشانیوں کی طرف لے جاتی ہے۔مگر۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب انسان خود کو بدلنے کا ارادہ کرتا ہے تو قدرت کو اپنا معاون پاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ آدم کی اولاد جبلی طور پر ہر چمکتی چیز سے متاثر ہوتی ہے۔ ایک سپیرے نے ایک بار مجھے بتایا تھا سانپ جتنا زیادہ خوبصورت ہو گا اتنا ہی زیادہ زہریلا ہو گا۔ باتونی شخص کم عقل ہوتا ہے۔خربوزے اور تربوز جیسا ہی شر بوز ہوتا ہے۔ اس کے مارکیٹ میں آنے کے بعد کہا تھا مٹھاس تو ساری (شر)میں ہی ہوتی ہے۔اور انسان مٹھاس کا رسیا ہوتا ہے۔دولت، شہرت، عزت اور خوبصورتی مٹھاس ہی تو ہیں۔

 انسانی معاشروں  میں  بد عہدی کرنے والوں پر ان ہی کے مخالفین حاوی ہو جاتے ہیں،  نا انصافی ہو تو خون ریزی اور انتشار بڑھ جاتا ہے، ناپ تول میں کمی کرنے والے معاشرے رزق میں کمی پاتے ہیں  بدکار گروہوں میں موت کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔انصاف کی کمی معاشرے میں بدامنی کا سبب بنتی ہے۔بے ادب معاشروں پر جہالت مسلط ہو جاتی ہے  اورجہلاء کی عقل ناکارہ کر دی جاتی ہے

تعلیمی ادارے مقدس ہوتے ہین ۔ اساتذہ قابل احترام ہوتے ہیں ۔ والدین محسن ہوتے ہیں ۔ جو انسان احسان ند نہیں ہوتا ۔ ادب کو نہین اپناتا اور مقدس مقامات کا تقدس برقرار نہیں رکھتا اس کو بے ادب کہا جاتا ہے ۔ بچوں کو بے ادب بنانے میں کردار اداکرنے کے بعد ۔  اولاد کا تعلیم میں پچھڑ جانے کا گلہ ، زبان سے کرنے کی بجائے دماغ سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اولاد کو پیار دی جئے مگر ادب بھی سکھائے ۔ اسی میں ان کی کامیابی ہے۔