اتوار، 21 جون، 2020

آدمی ہر دل عزیز تھا


  
عبد العزیزپاکستانی جب جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تو اس منٹگمری (سائیوال) کے کربلا روڈ پر اسے رہنے کے  کے لیے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ ہوا۔ بلوے کا دور تھا۔ طارق عزیز بن عبدالعزیز  نے غربت،  محرومی،  نا انصافی  اور انسان کے ہاتھوں انسانیت کو قتل ہوتے اپنی دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سنتے کان بھی رکھتا تھا اور  اس کے سینے میں انسان دوست دل بھی تھا ۔



   ایک دفعہ چندہ لینے کے لیے "اس" بازار میں گیا۔ایک طوائف نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ طارق نے بھرے بازار میں اس کے پاوں چوم لیے    طارق عزیز کے بارے میں یہ جملہ راجہ انور  (جو ذولفقار علی بھٹو کے مشیر تھے) نے اپنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن میں لکھا ہے۔ 

طارق عزیز جب سائیوال سے لاہور کے لیے چلا  تو اس کی منزل فلمی دنیا تھی۔اس نے ہوٹلوں میں میز صاف کیے،  گاڑیوں کو 
دہویا،  لاہور کی سڑکوں پر سویا مگر اس نے ہار نہیں مانی۔اس نے خواب بڑا دیکھا ہوا تھا۔ قانون فطرت ہے کہ بار بار کی ناکامی انسان کو کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔ طارق عزیز کو کامیابی کی راہ ریڈیو پاکستان لے گئی۔ ریڈیو پاکستان کی بغل میں جب صدر ایوب خان نے 1964 میں پی ٹی وی کا افتتاح کیاتو ٹی وی پر افتتاحی اعلان کرنے والا طارق عزیز تھا۔1975 میں پروڈیسر عارف رانا کے ساتھ مل کر ظارق عزیز نے نیلام گھر کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئیز شو       ابتداء  ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے    سے شروع ہوتا اور    پاکستان زندہ باد   کے الفاظ پر ختم ہوتا مگر جمعرات کے دن ایک گھنٹے کا نیلام گھر اس لحاظ سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس نے نوجوانوں میں علم سیکھنے  اور کتاب پڑہنے کی جوت ہی نہیں جگائی بلکہ اپنی اقدار و روایات سے بھی روشناس کرایا۔ طارق عزیز خود طالب علم، کتاب دوست،  صداکار، شاعر، کمپیئر ، ادب شناس ہونے کے ساتھ بڑا پاکستانی بھی تھا۔ اس نے نیلام گھر کے ناظرین میں وطن کی محبت جاگزیں کی۔
  
بچپن کی محرومیوں نے اسے ما وزے تنگ کی بائیں بازو کی ناو میں بٹھا دیا تھا۔ جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں ماو کی دی ہوئی ٹوپی لہرائی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو طارق عزیز نے اکثر پاکستانیوں کی طرح بھٹو کا ساتھ دیا۔ مگر 1989  تک پیپلز پارٹی کی ناو کے لیے راوی کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ اب قوم کا نجات دہندہ نواز شریف تھا۔ طارق عزیز نے قوم کا ساتھ دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جب میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع ہوا اور کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو طارق عزیز کی ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہو گئیں۔ یہ المیہ سب ہی پاکستانیوں کا ہے اور طارق عزیز  تو بڑا پاکستانی تھا۔دراصل  وہ ایک نظریاتی، اصول پرست،  عوام دوست اور ذہین انسان تھا۔اس نے کہاتھا۔
مڈھ  قدیم توں دنیا اندر  دو قبیلے آئے نے
اک جنھاں زہر نی پیتے  دوجے جنہاں زہر پیائے نے

طارق عزیز کے حاسد اسے سیکولر بتاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کہا کرتا تھا    خاک میں خاک ہونے سے پہلے اس خاک
 شفا  (قران)  کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لو۔ دنیا بھی خوش اگلا جہاں بھی خوش 

 اس نے انسانیت،  سالگرہ،  قسم اس وقت کی ، کٹاری ، چراغ کہاں روشی کہاں اور ہار گیا انسان جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا مگر اس کو کامیاب انسان  نیلام گھر  نے بنایا۔ طارق عزیز کا بات کرنے کا،  لبا س پہننے کا  اور کام کرنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ جو کام کرتا  اس پر طارق عزیز کی چھاپ لگ جاتی۔آج مختلف چینلز پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی نیلام گھر تک نہیں پہنچ پایا۔ نیلام گھر پر طارق عزیز کی چھاپ لگ چکی تھی۔

وہ لکھاری بھی تھا مگر اپنی ہی طرز کا۔ اس نے کالم بھی لکھے مگر دوسروں سے مختلف، اس کے کالموں کے مجموعے کانام  داستان  ہے۔  اس نے ہمزاد دا دکھ  کے نام سے پنجابی میں شاعری بھی کی مگر اپنے ہی انداز میں۔ 
طارق حسن پرست بھی تھا۔ اس کا کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ   پندرہویں صدی    اس کی حسن پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کراچی ہی میں اس نے  کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ سے شادی کر لی ۔ ایک بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔

اس کی موت پر انور شعور نے کہا تھا

وہ دیکھنے کی چیز دکھانے کی چیز تھا
طارق عزیز آدمی ہر دل عزیز تھا