جمعہ، 13 نومبر، 2015

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔

منگل، 10 نومبر، 2015

خوشیاں اور کامیابیاں


دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک : وہ لوگ جو اپنے ذاتی تجربات سے سیکھتے ہیں۔ یہ عقلمند لوگ ہوتے ہیں۔ دو : وہ لوگ جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ یہ خوش باش لوگ ہوتے ہیں۔ تین : وہ لوگ جو نہ اپنے تجربات سے کچھ سیکھتے ہیں اور نہ دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہ بےوقوف اور نادان لوگ ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے مایوس کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والے امیر اور کامیاب آدمیوں کو دیکھ کر ان سے حسد کرنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ ہم ان میں وہ جوہر تلاش کریں جن کے سبب انہوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ ایک کامیاب انسان بھی زندگی میں پریشانیوں اور ناکامیوں کا سامنا کر سکتا ہے۔ لیکن کامیاب لوگ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ کسی مصیبت کے بغیر کوئی سکون نہیں۔ کسی دکھ کے بغیر کوئی سکھ نہیں۔ کسی رنج کے بغیر کوئی راحت نہیں۔ کسی کوشش کے بغیر کوئی کامیابی نہیں ! یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کامیابی جو راتوں رات حاصل کی جاتی ہے وہ صبح طلوع ہونے سے قبل ختم ہو جاتی ہے۔ پائیدار خوشیاں اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی شخصیت کی کمزوریوں پر قابو پانا اور ناکامی پر کڑھنے کے بجائے نئے حوصلوں کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوگا۔

اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے




سعودی عرب کے رہائشی ایک شخص نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا تھا اس فون نمبر پر رابطہ کرو اور فلاں شخص کو عمرہ کراوٴ۔ فون نمبر بڑا واضح تھا۔ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص محلے کی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے بتایا: امام مسجد نے کہا فون نمبر یاد ہے تو پھر اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو۔ اگلے روز اس شخص نے خواب میں بتلایا ہوا نمبر ڈائل کیا ، جس شخص نے فون اٹھایا اس سے ضروری تعارف کے بعد اس نے کہا: مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔ جس آدمی کو اس نے فون کیا وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا کونسے عمرہ کی بات کرتے ہو؟ میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز بھی ادا نہیں کی اور تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!! جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ اس سے اصرار کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی ! میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا۔ خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے وآپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے...... وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو خواب والے شخص نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا... دونوں شخص مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ، انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔ اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔ حرم سے نکلنے لگے تو وہ شخص جو بہت کوشش سے عمرہ کرنے پر آمادہ ہوا تھا کہنے لگا: '' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔'' اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے۔ جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا ..... جب کافی دیر گزرگئی تو اس کے دوست نے اسے ہلایا ... جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے ساتھی کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی.... اپنے ساتھی کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش ! ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا...... اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی..... اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، خواب دیکھنے والے شخص نے اپنے وعدہ کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا.... چند ایام گزرنے کے بعد خواب دیکھنے والے شخص نے اس فوت ہونے والے کی بیوہ کو فون کیا۔ تعزیت کے بعد اس نے کہا : '' میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی نیکی یا عادت تھی کہ اس کا انجام اسقدر عمدہ ہوا۔ اسے حرمِ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی..... بیوہ نے کہا: بھائی تم درست کہتے ہو میرا خاوند کوئی اچھا آدمی نہ تھا۔ اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا۔ اور شراب پینے کا عادی تھا، میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی .... ہاں ! مگر اس کی ایک عادت یہ تھی کہ ''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جہاں اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا، اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ '' یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور ساتھ میرے خاوند کے لئے دعا کرتی: '' اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے'' قارئینِ کرام اسطرح اس بیوہ کی دعا اللّٰہ تعالٰی نے قبول فرمالی۔ اور اس شرابی کا اتنے عمدہ طریقے پر خاتمہ ہوا کہ اس پر ہر مسلمان کو رشک آتا ہے۔ قارئینِ کرام اس بات کو ہمیشہ یاد رکھئے کہ اللّٰہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ..... '' بھلائی کے کام آدمی کو بری موت سے بچاتے ہیں۔'' ('دعاوٴں کی قبولیت کے سنہرے واقعات'' سے ماخوذ)

بدھ، 14 جنوری، 2015

کتا کی وفاداری کی تعریف


کتا کی وفاداری کی تعریف
۔ بلاشبہ وفاداری ایک خوبی ہے، جو کتے میں پائی جاتی ہے (اور جس سے سب سے پہلے خود انسان کو عبرت پکڑنی چاہئے تھی )
مذمتی خصوصیات
۔ کتے کی سب سے بُری صفت یہ ہے کہ وہ اپنی برادری یعنی کتوں سے نفرت کرتا ہے، اسی وجہ سے جب ایک کتا دُوسرے کتے کے سامنے سے گزرتا ہے وہ ایک دُوسرے پر بھونکنا شروع کردیتے ہیں،
کتا کلچرکی مذمت
جن چیزوں کو آدمی خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، ان کے اثرات اس کے بدن میں منتقل ہوتے ہیں، خنزیر کی بے حیائی اور کتے کی نجاست خوری ایک ضرب المثل چیز ہے۔ جو قوم ان گندی چیزوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرے گی اس میں نجاست اور بے حیائی کے اثرات سرایت کریں گے، جن کا مشاہدہ آج کی سوسائٹی میں کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے ۔ موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو اقوامِ دُنیا میں سب سے زیادہ کتوں سے محبت کرنے والے لوگ ھی لوگوں کے دشمن ھیں ۔
کتوں کے لیے ٹرسٹ
اہلِ یورپ کی کتوں سے محبت کا اندازہ اس واقعے سے خوب لگایا جاسکتا ہے کہ جب انگلستان کی مشہور خاتون ”مسز ایم سی وہیل“ بیمار ہوئی تو اس نے وصیت کی کہ اس کی تمام املاک اور جائیداد کتوں کو دے دی جائے۔ خاتون کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اب اس کی تمام جائیداد کے وارث کتے ہیں، اس جائیداد سے کتوں کی پروَرِش، افزائشِ نسل ایک ٹرسٹ کے تحت جاری ہے۔ ف
رشتہ کتے والے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔
مشکوٰة صفحہ:۳۸۵ میں صحیح مسلم کے حوالے سے اُمّ الموٴمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ: ایک دن صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی افسردہ اور غمگین تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آج رات جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر وہ آئے نہیں، (اس کا کوئی سبب ہوگا ورنہ) بخدا! انہوں نے مجھ سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ پھر یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتے کے پلے کا خیال آیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ چنانچہ وہ وہاں سے نکالا گیا، پھر جگہ صاف کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے وہاں پانی چھڑکا۔ شام ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت فرمائی کہ آپ نے گزشتہ شب آنے کا وعدہ کیا تھا (مگر آپ آئے نہیں)، انہوں نے فرمایا: ہاں! وعدہ تو تھا مگر ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر ہو۔
کتا پالنے کی اجازت
شکار کے لئے، یا غلہ اور کھیتی کے پہرے کے لئے یا ریوڑ کے پہرے کے لئے،اگر مکان غیرمحفوظ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے کتا پالنا علما کے نزدیک صحیح ھے۔
کتا نجس ہے
اس کے جھوٹے برتن کو سات دفعہ دھونے اور ایک دفعہ مانجھنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ نجس برتن تو تین دفعہ دھونے سے شرعاً پاک ہوجاتا ہے۔
پیاسا کتا اور جنت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کے مارے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اُس نے اپنا موزہ اتارا اور اس میں پانی بھر کر اس کو پلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اس کے بدلے جنت میں داخل کر دیا
کتے کا احادیث بخاری میں ذکر
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے( کتے کے شکار کے بارے میں) پُوچھا تو آپﷺ نے فرمایا جب تو اپنا سدھایا ہوا ( شکاری) کتا چھوڑے وہ شکار کو مار دے تو اس کو کھالو، اور اگر وہ اس میں سےکچھ کھالے تو تم مت کھاؤ، اس لیے کہ یہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہے، میں نے عرض کی بسا اوقات میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور اس کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شریک ہوجاتا ہے آپﷺ نے فرمایا: ایسا شکار مت کھاؤ کیوں کہ آپ نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی نہ کہ اس پر۔
کتا کس مٹی سے بنایا گیا
بعض معاشروں میں مشہور ھے کا کتا اسے مٹی سے بنا جس مٹی سے آدم کو بنایا کیا تھا .اللہ تعالی نے جب انسان کو بنایا تو اس کی ناف میں جو گڑھا ہے وہاں سے مٹی نکال کر پھینک دی تو اس مٹی میں شیطان نے اپنا لعاب دہن ملا دیا بھر اس مٹی سے کتا بنایا گیا۔اسی لئے کتے میں وفاداری اور صفات لاجواب ہیں . یہ غلط ہے اور محض من گھڑت قصے ھیں ۔
سیاست میں کتے کا ذکر
کتے کی ذات کا سیاسی استعمال پاکستان میں پہلی بار جنرل پرویز مشرف نے کیا ۔ایک کالم نگار نے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ھوے لکھا کہ نواز شریف کا کتا ، کتا اورعمران کا کتا شیرو
کتے کا لعاب
کتے کے لعاب میں ایک خاص قسم کا زہر ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اور یہی وہ زہر ہے جو کتے کے کاٹنے سے آدمی کے بدن میں سرایت کرجاتا ہے سائنسی تحقیقات کے مطابق کتے کے جراثیم بے حد مہلک ہوتے ہیں، اور اس کا زہر اگر آدمی کے بدن میں سرایت کرجائے تو اس سے جاں بر ہونا اَزبس مشکل ہوجاتا ہے۔
امریکی کتا
طالبان نے دسمبر2013 میں اتحادی افواج کا ایک کتا پکڑا تو معلوم ھوا وہ کرنل ھے ۔
اصحاب کہف اور کتا
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہيں : اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنی کتاب میں اصحاب کھف کی شان بیان کرتےہوۓ اس کتے کا ذکر کرنا اور اس کا غارکی چوکھٹ پرپاؤں پھیلاۓ ہوۓ ہونا اس بات پردلالت کرتا ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت کا بہت عظیم فائدہ ہے ۔ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی اس آيت کی تفسیر بیان کرتےہوۓ کہتے ہيں : ان کا کتا بھی اس برکت میں شامل ہوا اس حالت میں انہیں جونیند آئ اس کتے کوبھی اسی طرح نیندحاصل ہوئ ، اوراچھے لوگوں کی صحبت کا یہی فائدہ ہے ، جس کی بناپراس کتے کا بھی ان لوگوں ساتھ ذکراور شان ومقام ہوا ۔اھـ اوراسی معنی پر انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے آپ نے اس شخص فرمایا جس نے یہ کہا تھا کہ میں اللہ تعالی اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ، تو فرمایا ، تواس کے ساتھ ہی ہوگا جس سے محبت کرتا ہے ۔ بخاری و
مسلم ۔

کتے کی دس صفات 

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.
کہ کتے کے اندر دس صفات ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی انسان کہ اندر پیدا ھو جائے تو وہ ولی اللہ بن سکتا ھے. فرماتے ہیں کہ
1: کتے کے اندر قناعت ہوتی ھے. جو مل جائے اسی پر قناعت کر لیتا ھے. راضی ہو جاتا ھے. یہ قانعین یا صابرین کی علامت ھے.
2: کتا اکثر بھوکا رہتا ھے. یہ صالحین کی نشانی ھے.
3: کوئی اس پر زور کی وجہ سے غالب آجائے تو یہ اپنی جگہ چھڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ھے. یہ راضیین کی علامت ھے.
4: اس کا مالک اسے مارے بھی سہی تو یہ مالک کو چھوڑ کر نہیں جاتا. یہ مریدان صادقین کی نشانی ھے.
5: اگر اس کا مالک کھانا کھا رھا ہو تو باوجود طاقت اور قوت کے یہ اس کھانا نہیں چھینتا،دور سے ہی بیتھ کر دیکھتا رہتا ھے. یہ مساکین کی علامت ھے.
6: جب مالک اپنے گھر میں ہو تویہ دور جوتے کے پاس بیٹھہ جاتا ھے. ادنٰی جگہ پہ راضی ہو جاتا ھے. یہ متواضعین کی علامت ھے.
7: اگر اس کا مالک اسے مارے اور تھوڑی دیر کے لیے چلا جا ئے اور پھر مالک دوبارہ اسے ٹکٹرا ڈال دے تو دوبارہ آکر کھا لیتا ھے اس سے ناراض نہیں ہوتا. یہ کاشعین کی علامت ھے.
8: دنیا میں رہنے کے لئے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا. یہ متوکلین کی علامت ھے.
9: رات کو بہت کم سوتا ہے. یہ محبین کی علامت ھے.
10: جب مرتا ھے تو اس کی کوئی میراث نہیں ہوتی.یہ زاہدین کی علامت ھے.
غور کریں کہ کیا ان صفات میں سے کئی صفت ھم میں بھی موجود ھے!

پیر، 12 جنوری، 2015

جن کا قصہ


جن اور انسان اللہ تعالی کی دو ایسی مخلوق ہیں جو باقی مخلوق سے مختلف اور برتر ہیں ۔ انسان خاکی ہے تو جنات آتشی مخلوق ہے ۔ ایک خاک کا پتلا ہے تو دوسرا آگ کا شعلہ ۔ لیکن انسان ساری مخلوق سے ،حتی کہ جنات سے بھی برتر ہے ۔ محمدعربی رسول اللہ کی بعثت سے قبل عوب معاشرہ جنوں کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے میں شہرت رکھتا تھا ۔ بھارت کے بعض ہندو جنوں کے پجاری ہیں اور بعض انھیں تابع رکھنے اور ان سے کام لینے کا دعوی بھی رکھتے ہیں ۔ مگر جنات کے معاملہ میں عرب ہنود سے بیت آگے تھے ۔ عربوں میں جنات کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے کے عمل نے باقاعدہ ایک پیشہ کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ بعض اوقات عامل مونث جنات سے شادی بھی کر لیتے تھے ۔عربوں کے مطابق جو جنات جنگلوں اور صحراوں میں رہتے تھے اور بھیس بدل کر انسانوں کو دہوکہ دیتے تھے ان کا نام انھوں نے غول رکھا ہوا تھا ۔ اور اس کے مونث کو سعلہ کہتے تھے ۔ عمرو بن یربوع نامی عامل نے ایک سعلہ سے شادی بھی کر رکھی تھی ۔اور اس سے اس کی اولاد بھی ہوئی تھی ۔‍ قرآن مجید میں جس ملکہ بلقیس کا ذکر ہے اس کے بارے میں یمنیوں اور عربوں کا اعتفاد تھا کہ وہ ایک سعلہ ہی کے پیٹ سے تھی ۔ عربوں کے اعتقاد کے مطابق جنوں کے کی کئی اقسام اور قبیلے تھے ۔ ابسے جنات جو انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ان کا نام عامر تھا ۔ جو جنات لوگوں کو ڈراتے اور خوفزدہ کرتے تھے ان کا نام انھوں نے روح رکھا ہوا تھا ۔ شریر جنات کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جو جن بالکل قابو میں نہ آ سکے اور انسان کے مقابلے پر آمادہ ہو اس کو عفریت کا نام دیتے تھے ۔ حضرت علی کے والد ابوطالب کے بڑے بیٹے کا نام طالب تھا ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور پھر ان کا کوئی پتہ نہ چل سکا ۔ جنات کو تابع کرنے کے عمل میں بعض اوقات جنات عاملین پر حاوی ہو جاتے اوربعض اوقات عامل جنات کو مار بھی دیا کرتے تھے ۔ مشہور ہے کہ طہوی نامی عامل نے ایک بھوت کو جان سے مار دیا تھا ۔ پیشہ ور عاملین کاہن کہلاتے تھے اس کا دعوی تھا کہ جنات ان کے تابع ہیں جو ان کو غائب کی خبریں مہیا کرتے ہیں ۔ ان کا معاشرتی اور معاشی معیار عام لوگوں کے مقابلے میں بہت بلند ہوتا تھا ۔ ماخوذ ازکتاب ' الحیوان جاحظ '