Mecca لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Mecca لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 4 اپریل، 2020

سکون صرف قبر میں ہے



   ڈیڑھ ارب ہو کر بھی مسلمان ابابیلوں کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں اور اسی لاکھ اسرائیلیوں سے ہماری جان چھڑائیں۔ خدا کی قسم آج اگر ابابیل آئیں بھی تو کنکر یہودیوں کو نہیں مسلمانوں کو ماریں گی    یہ جملہ کہنے والے نجم الدین اربکان (1926-2011) سکون پا چکے مگر بے سکونوں نے ابابیل دیکھ لیے البتہ ان کی  چونچ اور پنجوں میں کنکر نہیں تھے۔ ابابیل آئے انھوں نے اللہ کے گھر کے گرد چکر لگائے۔ ایمان والوں نے اس کی ویڈیوبنائی اور یہ ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل رہی۔ کچھ ٹی وی چینل نے بھی اس منظر کو دکھا کر اہل ایمان کا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔
  اہل ایمان کا ذکر آئے تو چند معلوم اور بے شمار نامعلوم شخصیات کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ پھر ان سب کے سرخیل کا نام مبارک ذہن میں آتا ہے۔ تو بطور مسلمان اپنا سر اپنے ہی سامنے جھک جاتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ ارب میں سے اکثر  کے سر اپنے ہی سامنے جھکے ہوئے ہیں۔    اکثر    کے علاوہ  بھی مگرسارے ہی سرجھکے ہوئے ہیں۔ سر اسی کے سامنے جھکتا ہے جو بر تر ہو۔ 
برتری کی معلوم تاریخ میں پہلا نام خود آدم کا ہے۔ اس گناہ گار نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اعتراف کا اعجاز ہے کہ خود شناسی کی پہچان کراتا ہے    جو خود شناس نہیں ہے وہ حقیقت شناس نہیں ہے   ۔ 
  
اس لسٹ میں ایک نام ابراہیم بن آزر کا ہے جو اتنا صاحب ثروت تھا کہ مال و مویشی کی حفاطت کے لیے ساٹھ ہزار سے زیادہ ملازمین رکھتا تھا۔مگر   فضول خرچ تھا نہ اپنی دولت پر اتراتا تھا    اس کے توکل کا عالم دنیا جانتی ہے  اور معلوم رہے    خدا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے  
یونس بن متی بھی اسی قبیل سے تھا، ایسے الفاظ سے توبہ کی جو صبح قیامت تک ریکارڈ رکھے جائیں گے کیونکہ   خدا توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
ایوب کا صبر تو زمانے میں ضرب المثال ہے۔ اسی لیے خدا اس سے محبت کرتا ہے اور اعلان عام ہے   خد ا  صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے  
مصر کے عزیز کے مشیر اعلی اوروزیریوسف کا نام تب سے اب تک لیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی پاکیزگی کی حفاطت کر کے وہ مثال چھوڑی ہے کہ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب میں لکھ دیا گیا   خدا پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے  
داود  نام مگر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں یکساں مقدس ہے۔ وجہ اس کی عادل ہونا ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان کے کیے ہوئے فیصلے اج بھی ججوں کے لیے مشعل راہ ہیں مگر    خدا انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے   
کائنات کے خالق نے وہ صفات گن کربتا دی ہیں کہ انسان خود میں پیدا کر لے تو وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ 
مائیکل ہارٹ (پیدایش 1932)  نے اپنی کتاب  The 100 - A ranking of The Most 
ٰInfluential Person in History  اور  برطانوی تاریخ دان تھامس کالائل  (1795 -1881)  نے اپنی کتاب  On Heros, Hero Worship, and The Heroic in History 
میں جس شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے، اور مسلمان جنھیں خدا کا بھیجاہوا پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی زندگی میں وہ ساری ہی صفات موجود تھیں جن صفات کے حامل سے خدا محبت کرتا ہے۔
اسی نبی ورسول کی زبان سے کہلایا گیا:
   کہہ دو ،  اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی کرو، خدا تم سے محبت کرے گا  
بے شک خدا جن سے محبت کرتا ہے، ان کی حفاطت کے لیے ابابیلیں بھیجتا ہے اگر وہ قلت میں ہوں۔ جیسے عبدالمظلب اور ان کا گروہ  
یہ وہی خدا ہے جس کے نبی کے بے عمل پیروکاروں نے کہا تھا ہم کمزور ہیں ہماری طرف سے عمل ٓپ اور ٓپ کا خدا کریں۔
با عمل 313 ہی ہوں تو خدا ابابیلیں نہیں فرشتے بھیجتا ہے۔ 
ڈیڑھ ارب تو موجود ہیں مگر انھیں سکون چاہیے۔ کہنے والے نے یہ کہہ کر تاریخ رقم کر دی کہ    سکون تو صرف قبر میں ہے   
   آخر دعا کرین بھی تو کس مدعا کے ساتھ
    کیسے زمین کی بات کہیں آسمان سے ہم   (احمد ندیم قاسمی)

ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

غلام ابن غلام


میرے یہاں آنے کا مقصد اس قبر پر فاتحہ پڑہنے اور روحانی فیض حاصل کرنے کا تھا جس میں بلال بن رباح نامی ایک صحابی محو استراحت ہیں۔   مگر یہاں پہنچ کر اس قبر کے پاوں کی جانب کھڑے ہو کرمیرے دعا گو ہاتھ توبلند ہو گئے اور سورۃ الفاتحہ کی قرات بھی کر لی مگر میری آنکھوں کے سامنے حجاز کے شہر مکہ کا وہ منظر گھوم رہا ہے جو صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت نے بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

 میں زمانہ جاہلیت میں حج کے لیے گیا تو دیکھا کہ بلال کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کیساتھ باندہا ہوا ہے 
اور انھیں ادہر ادہر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلال مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں میں لات ، عزیٰ ، سہل ، نائلہ ، بوانہ اور اساف تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں ْ

کتابوں میں درج ہے کہ یہ پچاس گز لمبا موٹا سا رسہ اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا اس رسے کی سختی بلال کا گلہ زخمی کیے ہوئے تھِی اور اس سے خون رس رہا تھا، مگر لڑکوں کے لیے کھیل اور بڑوں کے لیے عام معمول کہ جب ایک غلام اپنے آقا کی منشاء کے خلاف سوچے تو ایسے غلام کو سبق سکھانا معمول کی بات تھی ۔شام ڈھلے اس غلام کو بھوک و پیاس کی حالت میں اس کے آقا کے حوالے کر دیا گیا جس نے اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا اور سورج غروب ہونے کے بعد اس کو برہنہ کر کے اس پر چمڑے سے بنے کوڑے سے اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں،تو اذیت دینے والوں کے ہاتھ رک گئے وہ جانتے تھے بنی جمہ کی ملکیت یہ غلام ان کے ہاتھوں جان بحق ہو گیا تو ان کی بھی خیر نہیں۔
یہ ایک دن یا ایک رات کا واقعہ نہیں تھا بلکہ امیہ کا یہ زرخرید غلام دن رات اس عذاب میں مبتلاء تھا
حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ خود حضرت بلالؓ نے ایک جنگ کے دوران امیہ کی طرف اشارہ کرکے بتا یا کہ 
ْ اس امیہ نے ایک روز گرمی کے دنوں میں باندھ کر ساری رات اسی حالت میں رکھا اور پھر دوپہر کے وقت مجھے ننگا کر کے سنگریزوں پر لٹا دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیے ۔ میں بے ہوش ہو گیا ، معلوم نہیں کس نے میرے سینے سے پتھر ہٹائے ، جب مجھے ہوش آیا شام کا وقت تھا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ْ 
حضرت
بلال  کے باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ حمامہ اباسینا نامی ایک بستی کی رہائشی تھی جو موجودہ اتھوپیا میں ایک قصبہ ہے ۔ حمامہ کا تعلق ایک باعزت خاندان سے تھا مگر وہ اپنے گھر سے اغوا ہوئی اور عام الفیل والے سال میں بطور کنیز مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی مکہ پہنچی ، غلامی ہی کی حالت میں اس کی شادی رباح نامی ایک عرب غلام سے ہوئی ۔ان کے ہاں  بلال پیدا ہوئے ، یعنی پیدائشی غلام۔ جب بلال جوان ہوئے تو ان کو غلامی کی منڈی میں لایا گیا جہان امیہ بن خلف نے انھیں خرید لیا۔ بلال  انتہائی محنتی ، مالک کے ساتھ مخلص ، راست گو ، منکسر المزاج ، دوسروں کا احترام کرنے والے اور خش گلو تھے۔ ان کی محنت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر مالک کی بکریا ں چراتے اور رات کو پوری بوری غلے کی پیس ڈالتے، ۔ مگر وہ انسانی تقسیم میں بٹے معاشرے میں اپنی ذاتی خوبیوں کے باوجود ابھر نہ سکے البتہ ان کی ایمانداری اور راست بازی کے سبب عربوں کے بت خانے کی چابیاں ان کے پاس ہوا کرتی تھیں اور ان کی سریلی اور حیرت انگیز آواز نے ان کو جاہلوں کے دلوں میں ممتاز ضرور کیا تھا۔اور امیہ بن خلف کے بارہ  غلاموں میں مالک کے سب سے زیادہ فرمانبرداراور قابل اعتماد تھے۔ 

مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو ایسی درد بھری اذیتیں دی گئی کہ پڑھ کر انسان افسردہ اور انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے مگر مکہ کے اس دور جاہلیت میں مظلوم حضرت بلا ل کو گرمیوں کی کڑکتی دوپہر میں اذیت خانے سے نکالا جاتا، پیا سے ، زخمی، بے یار و مدد گار مظلوم کو گرم ریت پر نوکیلے سنگریزے بچھا کر برہنہ حالت میں منہ کے بل لٹا دیا جاتا اور ان کی پشت اتنی بھاری چٹان رکھی جاتی جس کو کئی لوگ مل کر اٹھاتے ۔ اور اس دن تو مکہ کی عورتوں نے اپنے مکانوں کی کھڑکیاں بندکر لیں جس دن بلا ل کو صحرا میں نصب اس کھمبے کے ساتھ باند ھ دیا گیا ۔جس کی تنصیب کا مقصد ہی غلاموں کو اس کے ساتھ باندھ کر ایسی سزا دینا مقصود تھا جس کو دیکھنا عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ 

رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی حالت زار پر بے چین تھے ایک بار انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا 
ْ اگر میرے پاس رقم ہوتی تو میں بلال کو خرید لیتا ْ 
حضرت ابو بکرؓ نے امیہ کے پا س جا کر کہا کہ بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اگر وہ اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے تو اس میں تمھارا کیا نقصان ہے ۔ اگر تم اس پر مہربانی کرو تو قیامت والے دن تم پر مہربانی کی جائے گی۔ مگروہ قیامت ہی کو کب مانتا تھا۔کہا یہ میرا غلام ہے میں جیسا چاہوں اس کیساتھ سلوک کروں۔
حضرت ابو بکر نے کہا تم طاقت ور ہو جب کہ یہ بچارا بے بس غلام ہے ۔ اس پر ظلم تمھاری شان کے خلاف ہے ۔اور عربوں کی روایات کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔
اس کے جواب میں امیہ نے کہا او ابو قحافہ کے بیٹے اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔
حضرت ابوبکر سے پوچھا کیا قیمت لو گے 
امیہ نے کہا تمھارے پاس جو فسطاط نامی رومی غلام ہے وہ مجھے دے دو اور اس کو لے جاو۔ حضرت ابو بکر راضی ہو گئے تو امیہ کے اندر کا تاجر جاگ اٹھا اس نے کہا فسطاط کے ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی ہو اور چالیس اوقیہ چاندی بھی۔ ابو بکر نے سودا منظور کیا ۔ بلال کو اٹھایا اپنی چادر سے ان کا بدن صاف کیا۔ نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
جب بلال رسول اللہ کے پاس لائے گئے ، انھیں دیکھ کر رسول اللہ کی انکھیں بھر آئیں، حضرت علیؓ جو اس وقت کم سن تھے بولے آپ انھیں دیکھ کر رو کیو رہے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا ْ علی یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہےْ 
رسول اللہ نے بلال کو گلے سے لگایا اور فرمایا ْ بلال جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے اول شخص تم ہوْ 
حضرت ابو بکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گواہ رہئے گا میں نے بلال کو آزاد کیا۔اللہ کے رسول نے صدیقؓ کے حق میں دعا فرمائی۔

ایک مغربی تاریخ دان نے لکھا ہے کہ محمد نے بلال کواپنا فنانس سیکرٹری مقر ر کر دیا تھا۔ لیکن حقیقت تو  یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس فنانس نام کی کوئی شے موجود ہی نہ تھی ۔
نبی اکرم ﷺ کی ہدائت پر بلال نے ایک مفلوک الحال بھائی کو غلہ، کمبل اور کپڑے ادہار لے کر دئے اور اپنی ذات کو یہودی کے پاس رہن رکھ دیا ۔

 حضرت بلال رسول اللہ کا  نیزہ اٹھا کر رسول اللہ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔ اور جب رسول اللہ نماز کے لیے قیام 
فرماتے تو بلال اپنا نیزہ سامنے گاڑ دیا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ قباء تشریف لے جاتے تو بلال کی اذان سے مسلمانوں کو رسول اللہ کی آمد کی خبر ہو جاتی۔ اذان بلالی گویا نبی اکرم ﷺ کے موجود ہونے کا نشان بن گئی تھی ، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب بلال دمشق سے زیارت کے لئے مدینہ تشریف لائے تو صبح کے وقت اہل مدینہ نے وہ اذان سنی جو رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی خبر دیا کرتی تھی تو اہل مدینہ آنسو بہاتے  
ہوئے گھروں سے مسجد کی طرف دوڑ پڑے تھے ۔ 
 حضرت بلال نے خلیفہ دوئم سیدنا عمر بن خطاب کے دور میں بیت المقدس میں بھی اذان دی تھی
حضرت بلال نے یمن میں ہندنامی عورت سے نکاح کا پیغام بھجوایا تو ھند کے گھر والوں نے رسول اللہ ﷺ سے تصدیق چاہی تو انھیں جواب ملا ْ تمھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم ایک جنتی شخص کو اس کی حیثیت سےکم خیال کرو ْ 
حضرت بلال نے عدی بن کعب کے خاندان میں بھی شادی کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ہمشیرہ ان کے نکاح میں تھیں۔ بنو زہرہ میں بھی ان کی زوجہ تھی۔ حضرت ابو درداء کے خاندان کی ایک عورت ان کی زوجہ بنیں۔ اور حضرت ابو بکر کی صاحبزادی کے ساتھ بلال کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے کرایا تھا۔ 

تاریخ انسانیت اور روسائے مکہ نے فتح مکہ والے دن اپنی آنکھون سے دیکھ لیا کہ  ایک غلام ابن غلام ، غربت میں پسا ہوا، رنگ دار بلال  " اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے " کی عملی تفسیر بن کر مقام ابراہیم اور حجر اسود سے بلند تر ، مقدس ترین بیت اللہ ، کی چھت پر کھڑا ہے ۔ 
  اور اپنی   دلپذیر آواز میں بر ملا پکار پکار کر کہہ رہا  ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر

منگل، 10 نومبر، 2015

اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے




سعودی عرب کے رہائشی ایک شخص نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اس سے کہہ رہا تھا اس فون نمبر پر رابطہ کرو اور فلاں شخص کو عمرہ کراوٴ۔ فون نمبر بڑا واضح تھا۔ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا مگر اس نے وہم جانا اور خواب کو نظر انداز کردیا۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص محلے کی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اسے بتایا: امام مسجد نے کہا فون نمبر یاد ہے تو پھر اس شخص سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو۔ اگلے روز اس شخص نے خواب میں بتلایا ہوا نمبر ڈائل کیا ، جس شخص نے فون اٹھایا اس سے ضروری تعارف کے بعد اس نے کہا: مجھے خواب میں کہا گیا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کرواوٴں ، لہذا میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں ۔ جس آدمی کو اس نے فون کیا وہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا کونسے عمرہ کی بات کرتے ہو؟ میں نےتو مدت ہوئی کبھی فرض نماز بھی ادا نہیں کی اور تم کہتے ہو کہ تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو....!! جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ اس سے اصرار کرنے لگا۔ اسے سمجھایا کہ ... میرے بھائی ! میں تمہیں عمرہ کروانا چاہتا ہوں ، سارا خرچ میرا ہوگا۔ خاصی بحث اور تمہید کے بعد آدمی اس شرط پر رضامند ہوا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا مگر تم مجھے وآپس ریاض میرے گھر لیکر آوٴ گے اور تمام تر اخرجات تمہارے ہی ذمہ ہونگے...... وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو خواب والے شخص نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ شرابی ہے اور نماز کم ہی پڑھتا ہے۔ اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہ ہی شخص ہے جسے عمرہ کرنے کے لئے خواب میں تین مرتبہ کہا گیا... دونوں شخص مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ میقات پر پہنچے تو انہوں نے غسل کرکے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے ، انہوں نے بیت اللّٰہ کا طواف کیا ۔ مقامِ ابرہیم پر دو رکعت نمازادا کی، صفا و مرہ کے درمیان سعی کی ۔ اپنے سروں کو منڈوایا اور اسطرح عمرہ مکمل ہوگیا۔ اب انھوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی ۔ حرم سے نکلنے لگے تو وہ شخص جو بہت کوشش سے عمرہ کرنے پر آمادہ ہوا تھا کہنے لگا: '' دوست حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں ، نجانے دوبارہ عمرہ کی توفیق ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔'' اسے کیا اعتراض ہوتا اس نے کہا: '' نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو۔ اس نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے۔ جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا ..... جب کافی دیر گزرگئی تو اس کے دوست نے اسے ہلایا ... جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے ساتھی کی روح حالتِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی تھی.... اپنے ساتھی کی موت پر اسے بڑا رشک آیا اور وہ روپڑا کہ یہ تو حسنِ خاتمہ ہے، کاش ! ایسی موت میرے نصیب میں ہوتی، ایسی موت تو ہر کسی کونصیب ہو،وہ اپنے آپ سے ہی یہ باتیں کر رہا تھا...... اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، اور احرام پہنا کر حرم میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہزاروں فرزندان اسلام نے اس کا جنازہ پڑھا اور اس کی مغفرت کے لئے دعا کی گئی..... اس دوران اس کی وفات کی اطلاع ریاض اسکے گھروالوں کو دی جاچکی تھی، خواب دیکھنے والے شخص نے اپنے وعدہ کے مطابق اس کی میت کو ریاض پہنچا دیا،جہاں اسے دفن کر دیا گیا.... چند ایام گزرنے کے بعد خواب دیکھنے والے شخص نے اس فوت ہونے والے کی بیوہ کو فون کیا۔ تعزیت کے بعد اس نے کہا : '' میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی نیکی یا عادت تھی کہ اس کا انجام اسقدر عمدہ ہوا۔ اسے حرمِ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں موت آئی..... بیوہ نے کہا: بھائی تم درست کہتے ہو میرا خاوند کوئی اچھا آدمی نہ تھا۔ اس نے ایک لمبی مدت سے نماز روزہ بھی چھوڑ رکھا تھا۔ اور شراب پینے کا عادی تھا، میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کرسکتی .... ہاں ! مگر اس کی ایک عادت یہ تھی کہ ''وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کیساتھ رہتی ہے، ''میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جہاں اپنے بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں لاتا وہ اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا، اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا کہ میں نے کھاناباہر رکھ دیا ہے، اسے اٹھا لو۔ '' یہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور ساتھ میرے خاوند کے لئے دعا کرتی: '' اللّٰہ تمہارا خاتمہ بالخیر کرے'' قارئینِ کرام اسطرح اس بیوہ کی دعا اللّٰہ تعالٰی نے قبول فرمالی۔ اور اس شرابی کا اتنے عمدہ طریقے پر خاتمہ ہوا کہ اس پر ہر مسلمان کو رشک آتا ہے۔ قارئینِ کرام اس بات کو ہمیشہ یاد رکھئے کہ اللّٰہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ..... '' بھلائی کے کام آدمی کو بری موت سے بچاتے ہیں۔'' ('دعاوٴں کی قبولیت کے سنہرے واقعات'' سے ماخوذ)