عمل کے کرشمے
معاشرے میں خاندانی زندگی ہمیشہ سکون، محبت اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن آج یہ زندگی اتنی آسان اور سادہ نہیں رہی۔ جدید دور کی دوڑ میں جہاں سہولتیں بڑھ رہی ہیں، وہیں شک، وہم اور بے اعتمادی نے خاندان کے اندر اعتماد کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی گھروں کی خوشیاں ایک لمحے کے وہم یا ایک غلط فیصلے کی نذر ہو جاتی ہیں۔
ہمارے محلے میں کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی کہانی نے جنم لیا جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ ایک شادی شدہ جوڑا، جن میں مرد کی عمر تقریباً 55 برس کے قریب تھی، اپنے بڑے مکان میں رہتا تھا۔ گھر میں دو کتے، کچھ بلیاں اور پرندے تھے۔ ایک دن بیوی نے شوہر سے کہا کہ کیوں نہ ہم کوئی بچہ گود لے لیں۔ چند ماہ بعد یہ خواہش حقیقت بنی اور ان کے گھر ایک بچہ آ گیا۔
بچے نے ان کی زندگیوں میں خوشیوں کی بہار بھر دی۔ کتے اور بلیاں گھر سے نکل گئے۔ ماں باپ کی محبت کا مرکز یہ بچہ بن گیا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ بچہ محلے کا ایک صاف ستھرا، ذہین اور باادب نوجوان بن کر ابھرا۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ لے پالک ہے، لیکن اس حقیقت نے اس کے وقار اور کردار کو کم نہیں کیا۔
میٹرک پاس کرنے پر اس گھر میں جشن منایا گیا، مگر اسی دوران اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے سب کے سامنے بیٹے کو نصیحت کی
"بیٹا! تعلیم جاری رکھنا اور میرے خوابوں کو پورا کرنا۔"
لڑکے نے یہ وصیت اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اس نے ماسٹرز، پھر ایم فل اور بالآخر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اسی دوران والد اس کی منگنی کر چکا تھا۔ شادی کے بعد بیوی ایک مقامی اسکول میں پڑھانے لگی اور شوہر کو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری مل گئی۔ باپ اپنے انتقال سے پہلے اپنا مکان اور جائیداد اسی بیٹے کے نام کر گیا۔
اس نے اپنے باپ کا مکان ایک ریسٹ ہاؤس میں بدل دیا جہاں یتیم اور بے سہارا بچے رہنے لگے۔ آج اس گھر میں 14 بچے ہیں جنہیں وہ اور اس کی بیوی روزانہ وقت دیتے ہیں۔ جیسے کبھی اس کے والدین نے اسے اپنی گود میں پروان چڑھایا تھا، ویسے ہی اب وہ ان بچوں کو سنبھال رہا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے — وہ سوچ جو فرد، خاندان اور معاشرے کو سکون اور آسودگی دیتی ہے۔
اب ذرا دوسری طرف دیکھئے۔ ایک اور گھر کی کہانی ہے۔ ایک عورت اور اس کا شوہر، جنہوں نے
IVF
کے ذریعے والدین بننے کا فیصلہ کیا۔ عورت چاہتی تھی کہ گھر اعتماد اور محبت پر بسے لیکن شوہر کے دل میں وہم نے جگہ بنا لی۔ اس نے چھپ کر بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا کیونکہ اسے لگا بچے اس پر نہیں گئے۔ بیوی جانتی تھی کہ اگر نتیجہ منفی آیا تو گھر ٹوٹ سکتا ہے، دادا دادی کا پیار ختم ہو سکتا ہے اور بچے ساری زندگی کے لیے زخم کھا لیں گے۔
یہ ہے شک اور بدگمانی کا انجام، جو خاندان کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں صاف حکم ہے:
(اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔)
[سورۃ الحجرات: 12]
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔) [صحیح بخاری و مسلم]
یہ دونوں واقعات ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں۔ ایک طرف ایثار اور اعتماد ہے، جو ایک یتیم بچے کو خاندان، عزت اور معاشرے کے لیے روشنی بنا دیتا ہے۔ دوسری طرف شک اور بدگمانی ہے، جو خوشیوں بھرے گھر کو لمحوں میں اجاڑ سکتی ہے۔
ہمیں یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہم کون سا راستہ اپنائیں گے۔ وہ راستہ جو محبت، اعتماد اور قربانی پر مبنی ہے یا وہ جس میں شک، وہم اور خود کو ہمیشہ درست سمجھنے کا زعم چھپا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں