ابھی گذشتہ جمعرات کی بات ہے فون پر ایک برخور دار نے سلام کے بعد پوچھا، ’لالا پشتون کلچر ڈے کب ہے؟‘ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا ’کیوں؟‘، بولا ’ایسے ہی‘۔میں جان گیا کہ ہو نہ ہو یہ تین مارچ کو بلوچ کلچر ڈے کے جواب میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
آخر صوبہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون اسی مقصد کے لیے تو ساتھ باندھے گئے ہیں تاکہ ایک حرکت کرے تو دوسرے کو تکلیف ہو اور دوسرا  کھجلی بھی کرے تو اگلا بھی جواباً کھجلی شروع کردے۔
ان کے سیاسی اور ثقافتی پیچ  اس انداز میں کسے گئے ہیں کہ تہذیبی اور سیاسی عمل کی ساری توانائی اس امر پر صرف ہوتی رہے کہ بلوچستان سٹڈی سنٹر میں لٹکا ہوا مشکیزہ بلوچ کا ہے یا پشتون کا۔
بہر حال میں نے کہا کہ جناب پشتون کلچر ڈے میں ابھی آٹھ ماہ باقی ہیں۔یہ 23 ستمبر کو  ہوگا تاہم اس سال اسی روز  کو محرم کی نویں بھی ہے، لہٰذا کلچر ڈے کا کوئی جواز نہیں۔پھر بولے کہ آپ دیکھ لیں نو مارچ کو پشتونوں نے اگر۔۔۔ میں نے جملہ مکمل کرتے ہوئے کہا کہ’ کوئی تیر مارا ہو‘،  بولے ’ہاں ہاں‘۔میں نے جنتری نکالی، کوئی تیر نہیں مارا تھا دیگر سیکڑوں دنوں کی طرح یہ بھی ایک خالی دن تھا۔ 
بعد میں پتہ چلا کہ ژوب میں یکایک نو مارچ کو ایف سی کی جانب سے ’پشتون کلچر ڈے‘ کا اہتمام کیا گیا ہے۔مجھے زرا سا عجیب لگا۔ادھر ادھر کھنگالا اور سوشل میڈیا پر آوارہ گردی کی تو پتہ چلا کہ منطور پشتین اسی دن ژوب میں اپنے قبائلی قافلے سمیت پہنچ رہے ہیں اور یہاں پر جلسہ کرنے والے ہیں۔
اسی دن فیس بک پر ’مدظلہ‘ زاہد حامد نے منظور پشتون کو ’این ڈی ایس‘ اور ’را‘ کا ایجنٹ، محمود خان اچکزئی کا چیلہ اور جیو ٹی وی کو اس طاغوتی قوت کا ہمنوا بتایا۔
یہ دیکھ کر میری دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔پتہ چلا کہ پشتون کلچر ڈے کے اس بے برگ و بہار صحرا میں کوئی پھول نہ کھل سکا، تو ژوب کو فٹ بال ٹیموں کو دوستانہ میچ کھیلنے کے لیے اسی میدان میں بلا لیا گیا جہاں منظور پشتون کے لیے سٹیج سجایا گیا تھا۔
شومئی قسمت یہاں بھی تمام تر سٹار فٹ بالروں نے سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ  کرتے ہوئے میدان میں اترنے سے انکار کردیا۔یوں 9 مارچ کو منظور پشتون کے جلسے میں ژوب جیسے دیہی ضلعے میں کم و بیش 10 ہزار لوگوں  نے شرکت کی۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مکمل بلیک آوٹ کے باوجود دسیوں نوجوانوں نے کھڑے ہوکر لائیو ویڈیوز چلائیں جنہیں بیک وقت لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور مرکزی دھارے کے میڈیا  پر خوب لعن طعن کی۔
جب یہی قافلہ ژوب سے ڈیڑھ، دو سو کلومیٹر کی مسافت پر قلعہ سیف اللہ جیسے چھوٹے میں قصبے میں پہنچا تو یہاں بھی ہزاروں لوگوں  نے ان کا خیر مقدم کیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں بچیوں اور خواتین نے بھی جلسے میں شرکت کی۔
عین جلسے کے وسط میں تھری جی کا رابطہ ’منقطع‘ ہوگیا۔واللہ عالم عجیب ’تکنیکی خرابی‘ تھی جو جلسہ ختم ہوجانے کے بعد ٹھیک ہوگئی۔
اس کے بعد یہ قافلہ آگے خانوزئی کی جانب بڑھا، جو کہ قلعہ سیف اللہ سے بھی چھوٹا قصبہ ہے۔یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ یہاں تو سرے سے کوئی تھری جی کا تکلف ہی نہیں۔مقامی افراد بتاتے ہیں کہ گذشتہ نو مہنے سے ان کے سیل فون کسی انٹرنیٹ کنکشن سے’آلودہ‘ نہیں ہوئے ہیں۔
اب جب 11 مارچ کو کوئٹہ میں ایک گرینڈ جلسہ ہونے جارہا ہے، میڈیا کی اندھی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے۔ان کے کانوں میں روئی ٹھونس دی گئی اور ان کی زبانوں پر جھوٹ اُگلنے کا معجون مرکب رکھ دیا گیا۔

 فون اور انٹرنیٹ کے بند ہونے کی نوید بھی سنادی گئی تو مجھے زرا سا گمان ہوا کہ بقول زاہد حامد کے اس ایجنٹ کے پٹاری میں آخر کس طرح کا سانپ چھپا ہوا ہے جس سے زہد و ریا کے سارے سانپ  اور ان کے تخلیق کار ڈر رہے ہیں۔
میں نے ان کی تحریک کا مطالعہ شروع کیا۔منظور کی کئی تقاریر سنیں اور پھر یہی نتیجہ نکالا کہ منظور کی دل کو چھو لینے والی، سادہ اور بر محل باتوں کی پُرکاری واقعی اتنی سحر انگیز ہے جو باآسانی کذب و ریا کے مصنوعی بیانیوں کو نگل سکتی ہے۔
منظور پشتون اور ان کی ’پشتون قومی تحریک‘ کا بیانیہ اور ان کے مطالبات انتہائی سادہ ہیں۔
انہیں نہ تو سی پیک میں سے کوئی شاہراہ چاہیے، نہ ہی بجلی کی رائلٹی، نہ میڈیکل سیٹوں کا کوٹہ ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ  اپنے ہاں کسی یونیورسٹی کے کھولے جانے کے طلب گار ہیں۔
وہ زندگی کے بنیادی حق کا مطالبہ کرر ہے ہیں، وہ حق جو ریاست پاکستان اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت تمام انسانوں کو حاصل ہے۔
وہ تو اپنے ہی ملک کے اداروں سے استدعا کرر ہے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے گھروں سے بے دخل کر دیے جانے کے بعد گارڈر، سریا، لکڑی، دروازے، دریچے اور اینٹیں کہاں گئیں؟کیا ان کے جانے کے بعد کوئی ایسی مخلوق نازل ہوئی تھی جس کی خوراک لکڑی، لوہا اور پتھر تھی؟
’آپ کی اس ’خوشخبری‘ کے بعد کہ علاقہ صاف ہوچکا ہے، ہم واپس اپنے علاقوں میں لوٹنے لگے تو پتہ چلا کہ قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھی ہیں، جن سے اب تک 80 بچے معذور ہوچکے ہیں۔
جب جنگجوؤں کے ساتھ تعلق کے شبہے میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ عسکری زعما تو  جیل سے رہا ہوکر گھر بھی پہنچ گئے لیکن  جنہیں شک کی بنیاد پر اٹھایا گیا ان کا کیا بنا؟؟؟
راؤ انوار اور اس کی طرح کے کئی بھیڑیوں کو  گرفتار نہ کرکے ریاستی ادارے کیا تاثر دینا چاہتے ہیں؟
قدم قدم پر چیک پوسٹیں بنا کر اور روزانہ لاکھوں لوگوں کو  تنگ کرنے سے کس طرح کے امن کا  آتا ہے؟مقامی معدنیات  پر قبضوں سے کس طرح کے بھائی چارے کی فضا قائم کیا جارہا ہے؟‘ وغیرہ وغیرہ۔
یہ سارے ایسے سوالات ہیں جو آج سے پہلے پاکستان میں رہنے والی دیگر محکوم قوموں نے بھی پوچھے تھے۔
آج مقتدر حکام سے ایک بار پھر یہی سوال پوچھے جارہے ہیں جن کا خاطر خواہ جواب دینے کے لیے ریاست کی داخلہ اور خارجہ پالیسی از سر نو ترتیب دینا ہوگی۔
اگرچہ گذشتہ سال پاکستان میں بیانیے کی جنگ جیتنے کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن منظور اور ان کے ہزاروں لاکھوں ساتھیوں اور مداحوں کی عدم تشدد پر مبنی تحریک کی حرارت اور حرکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ کوئی علٰحیدگی پسند تنظیم یا تحریک نہیں، پاکستان کے آئینی ضابطوں میں رہتے ہوئے، حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر کسی کو کیا اعتراض ہے؟
ریاستی ادارے جعلی کلچر ڈے اور فٹ بال میچ کا باسی چورن بیچنے، نیٹ بند کرنے، فون کے روابط کاٹنے اور جعلی قسم کے پشتون قوم پرستی کے ترانے الاپنے کے بجائے مکالمے، برداشت اور تحمل سے کام لیں۔ان پر زمین تنگ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ فراخ دلی سے معاملہ کریں۔آخر کو ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔
چند بدقسمت ریاستیں سانپ کی طرح اپنے ہی بچوں کو نگلنے کی جبلت پر کاربند رہتی ہیں۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ بچوں کو اپنے سائے میں لینا ہے یا ۔۔۔