میاں رضا ربانی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
میاں رضا ربانی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 11 مارچ، 2018

میاں رضا ربانی

                                   

گومیاں رضا ربانی نے لاہورمیں ارائیں خاندان میں ۱۹۵۳ میں انکھ کھولی تھی مگر ان کی پرورش اورتعلیم کراچی ہی میں ہوئی۔ اور انھوں نے قانون کی ڈگری جیل میں رہ کر حاصل کی۔ انھوں نے بطور وکیل پریکٹس کی مگر ان کا اصلی کام سوشلزم پر مقالہ ہے۔پیپلز پارٹی کے گہرے وفادار او ر اصولوں کے پکے رضا ربانی کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں نامزد کیا گیا تھا مگر انھوں آمر سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔بے نظیر بھٹو نے انھیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر، وزیر مملکت ، وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے مشیر کے عہدوں سے ہوتے ہوئے ۲۰۰۵ میں سینٹ کے بلا مقابلہ چیرمین منتخب ہوئے۔
بطور چیرمین سینت انھوں نے چیف جسٹس جمالی صاحب کو ہاوس میں بلایا اور پاکستان کے طاقتور آرمی چیف کو ہاوس میں خوش آمدید کہنے والے پہلے چیرمین سینٹ ہیں۔ انھوں نے اپنی الوداعی تقریر میں خود کو درویش بتایا۔ کرشنا کوہلی کو سینیٹر بنوانے میں اسی درویش کا ہاتھ تھاتوآغاز حقوق بلوچستان میں بھی اس درویش نے اپنا حصہ اپنے جثے سے بڑھ کر ڈالا۔ بے نظیر کے چہیتے رضا ربانی کو بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں تمام پاکستانی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے بڑا خراج تحسین کیا ہو سکتا ہے کہ قانونی طور پر نااہل اور عوامی طور پر مقبول نواز شریف نے کہا کہ اگر میاں رضا ربانی کو ان کی پارٹی دوبارہ چیرمین کے عہدے کے لیے نامزد کرے تو وہ ان کی حمائت کریں گے ۔پاکستان کی سیاست میں ایسی عزت آج تک کسی دوسرے سیاستدان کے حصے میں نہیں آئی ہے۔ہلال امتیاز جیسا تمغہ قوم پہلے ہی ان کے گلے میں ڈال چکی ہے۔
ان کی شخصیت میں ٹھہراو، سوچ میں گہرائی، کردار کی بلندی اور صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے حکومت کے خلاف ۷۳ رولنگ پاس کرائیں مگر انفرادی عزت اور سینٹ کے وقار پر کسی کو لب کھولنے کی جرات نہ ہوئی۔۔انھوں نے کسی پر لعنت ملامت کرنے کی بجائے جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی توانیوں کو استعمال کیا۔ان پر ایران کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھنے کا الزام نادیدہ قوتوں کی طرف سے لگایا گیا ، ان کے شیعہ ہونے پر پھبتی کسی گئی، کچھ لوگوں نے بے دین ہونے کا طعنہ دیا ، کسی نے ان کو فوج کا دشمن بتایا ۔ مگر انھوں نے پاکستان کے سب سے اونچے جمہوری ادارے میں جنرل باجوہ کا استقبال کر کے ان تما م سطحی الزامات لگانے والوں کو خاموش ہو جانے پر مجبور کر دیا۔
اپنی ماں کی تعریف کرنا عجب بات نہیں ہے مگر جب انھوں نے اپنی الوداعی تقریر میں بے نظیر بھٹو کو سیاسی ماں کہا تو ہاوس میں تالیاں بجانے والوں میں بے نظیر کے مخالفین بھی شامل تھے۔ یہ ان کی ذات کا سحر ہے جو ایوان بالا میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ان کا یہ جملہ دیر تک یاد رہے گا کہ ْ کردار اور اصول باقی رہتے ہیں ْ
انھوں نے اپنا تجربہ بھی بیان کیا اور آنے والے چیرمین کو کچھ مشورے بھی دیے ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنے والے چیرمین کو پاکستان کے چیف جسٹس سے مکالمہ کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں سیاسی شخصیات کے الوداع کے موقع پر کلمہ خیر کہنے کی ابتداء ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ازلی حریف جماعت اسلامی کے امیر نے بہرحال اس روائت کی بنیا د رکھی ہے کہ ان کے الفاظ ہیں ْ میاں رضا ربانی نے اپنے اسلوب اور بہتر کارکردگی سے سب کو متاثر کیا ہے اور پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے ْ
ان کی رخصتی صرف بطور چیرمین سینٹ ہو رہی ہے۔ ساتویں مرتبہ سینٹ کے ممبر منتخب ہونے والے , عطا ربانی  ( قائد اعظم کے اے ڈی سی ) کے بیٹے ،  رضا ربانی اس وقت کامیابی کا استعارہ ہیں۔