جمعہ، 25 دسمبر، 2020

شمع و شعلہ




شمع اور شعلہ دونوں دونوں کی ابتداء آگ ہے۔ شمع نور کا استعارہ ہے اور روز اول سے ہی اہل علم اس سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ شمع کے بارے مین کہا جاتا ہے وہ اپنا وجود جلا کر ماحول کو منور کرتی ہے ۔ اس کے برعکس شعلہ دوسروں کے وجود سے اس وقت تک توانائی لے کر روشن رہتا ہے جب تک کہ جلنے والے مواد کو بالکل ہی بھسم نہ کر دے۔
مکہ کے خاندان قریش میں بنو ہاشم میں دو بھائی گذرے ہیں ایک کا وجود شمع کی طرح تھا جو اپنے ہی وجود کو جلا کر اپنے قبیلے کی حفاظت کرتا رہا۔ جب قریش نے ابو طالب (۵۳۹ ا۔۔۶۹۱) سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے سگے بھائی عبدللہ کے یتیم بیٹے کے سر سے بنو ہاشم قبیلے کی حفاظتی چھتری ہٹا لے تو اس مر د وفا شعار نے شرافت، قرابت اور انصاف کی پاسداری اپنے وجود کی قربانی کی شمع روشن کر کے کی۔ اور اپنے قببلے سمیت شعب ابو ظالب میں زندگی کا مشکل ترین وقت گذارا ۔ مگر قریش کے رسول اللہ ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ تسلیم کیا نہ ان کو قبیلہ بدر کیا۔ ان کی وفات کے سال کو عام الحزن کا نام خود رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا۔
ابو لہب (۵۴۹۔۔۶۲۴) بھی عبدالمطلب ہی کا بیٹا تھا البتہ اس کی ماں کا تعلق قبیلہ خزاع سے تھا جو قریش کا حریف تھا۔ اس کی بیوی قریش کے سرادار ابو سفیان کی بہن تھی۔ سردار عبدلمظلب کی وفات کے بعد جب منصب تقسیم ہوئے اور سرداری ابوطالب کے حصے میں ائی تو کعبہ کے چڑہاواوں کی امانتوں کی رکھوالی ابو لہب کے حصے میں ٓئی تھی۔ اس کی ہوس اور لالچ اس دن مکہ والوں پر عیاں ہو گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ اس نے کعبہ کے خزانے کے دو سونے کے ہرن چرا لیے ہیں۔

وہ ابو ظالب کا بھائی ہونے کے باوجود انتہائی بخیل، ہمسائیگی کی روایات سے لا تعلق، قرابت کی ذمہ داریوں سے دور انتہائی ہٹ دہرم اور ذاتی انا کا شکارانسان تھا۔ نام تو اسکا عبد العزیٰ تھا مگر دراصل وہ لالچ کا بندہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کا سبب ان ﷺ کا یتیم اور دنیاوی دولت سے محروم ہونا تھا۔ اس نے ساری عمر بنو ہاشم کے خلاف قریش کا ساتھ دے کر گذاری مگر بزدلی کا عالم یہ تھا کہ جنگ بدر میں جانے کا وقت آیا تو بیمار ہو گیا۔
اہل مکہ نے اس کی کمینگی کی انتہا اس دن دیکھی جن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسم فوت ہوئے تو اس نے جشن منایا تھا


ابو لہب کی موت بڑے عبرت ناک انداز میں ہوئی ۔ اس کے جسم پر ایک دانہ نمودار ہوا جس سے گندگی اور بدبو خارج ہوتی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھالہ اس کے تمام بدن پر چھا گیا ۔ خوف کے باعث کوئی آدمی اس کے قریب نہ ۤآتا ۔ سات دنوں میں اس کا سارا وجود گل گیا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔ اس کی موت کو منحوس قرار دیا گیا اور کوئی آدمی اس کی میت کے قریب نہیں جاتا تھا۔ تین دنوں بعد بد بو سے تنگ آ کر اس کے بیٹوں نے مکہ کے قبرستان کی بجائے ایک پہاڑی پر ایک گڑھا کھودا اور لکڑیوں کی مدد سے لاس کو دھکیلتے ہوئے اس گڑہے میں کر کر دور سے پتھر پھینک کر اس گڈہے کو بند کر دیا۔