Dilpazir Ahmad لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Dilpazir Ahmad لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 25 دسمبر، 2020

شمع و شعلہ




شمع اور شعلہ دونوں دونوں کی ابتداء آگ ہے۔ شمع نور کا استعارہ ہے اور روز اول سے ہی اہل علم اس سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ شمع کے بارے مین کہا جاتا ہے وہ اپنا وجود جلا کر ماحول کو منور کرتی ہے ۔ اس کے برعکس شعلہ دوسروں کے وجود سے اس وقت تک توانائی لے کر روشن رہتا ہے جب تک کہ جلنے والے مواد کو بالکل ہی بھسم نہ کر دے۔
مکہ کے خاندان قریش میں بنو ہاشم میں دو بھائی گذرے ہیں ایک کا وجود شمع کی طرح تھا جو اپنے ہی وجود کو جلا کر اپنے قبیلے کی حفاظت کرتا رہا۔ جب قریش نے ابو طالب (۵۳۹ ا۔۔۶۹۱) سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے سگے بھائی عبدللہ کے یتیم بیٹے کے سر سے بنو ہاشم قبیلے کی حفاظتی چھتری ہٹا لے تو اس مر د وفا شعار نے شرافت، قرابت اور انصاف کی پاسداری اپنے وجود کی قربانی کی شمع روشن کر کے کی۔ اور اپنے قببلے سمیت شعب ابو ظالب میں زندگی کا مشکل ترین وقت گذارا ۔ مگر قریش کے رسول اللہ ﷺ کی حوالگی کا مطالبہ تسلیم کیا نہ ان کو قبیلہ بدر کیا۔ ان کی وفات کے سال کو عام الحزن کا نام خود رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا۔
ابو لہب (۵۴۹۔۔۶۲۴) بھی عبدالمطلب ہی کا بیٹا تھا البتہ اس کی ماں کا تعلق قبیلہ خزاع سے تھا جو قریش کا حریف تھا۔ اس کی بیوی قریش کے سرادار ابو سفیان کی بہن تھی۔ سردار عبدلمظلب کی وفات کے بعد جب منصب تقسیم ہوئے اور سرداری ابوطالب کے حصے میں ائی تو کعبہ کے چڑہاواوں کی امانتوں کی رکھوالی ابو لہب کے حصے میں ٓئی تھی۔ اس کی ہوس اور لالچ اس دن مکہ والوں پر عیاں ہو گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ اس نے کعبہ کے خزانے کے دو سونے کے ہرن چرا لیے ہیں۔

وہ ابو ظالب کا بھائی ہونے کے باوجود انتہائی بخیل، ہمسائیگی کی روایات سے لا تعلق، قرابت کی ذمہ داریوں سے دور انتہائی ہٹ دہرم اور ذاتی انا کا شکارانسان تھا۔ نام تو اسکا عبد العزیٰ تھا مگر دراصل وہ لالچ کا بندہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کا سبب ان ﷺ کا یتیم اور دنیاوی دولت سے محروم ہونا تھا۔ اس نے ساری عمر بنو ہاشم کے خلاف قریش کا ساتھ دے کر گذاری مگر بزدلی کا عالم یہ تھا کہ جنگ بدر میں جانے کا وقت آیا تو بیمار ہو گیا۔
اہل مکہ نے اس کی کمینگی کی انتہا اس دن دیکھی جن رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے حضرت قاسم فوت ہوئے تو اس نے جشن منایا تھا


ابو لہب کی موت بڑے عبرت ناک انداز میں ہوئی ۔ اس کے جسم پر ایک دانہ نمودار ہوا جس سے گندگی اور بدبو خارج ہوتی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھالہ اس کے تمام بدن پر چھا گیا ۔ خوف کے باعث کوئی آدمی اس کے قریب نہ ۤآتا ۔ سات دنوں میں اس کا سارا وجود گل گیا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی ۔ اس کی موت کو منحوس قرار دیا گیا اور کوئی آدمی اس کی میت کے قریب نہیں جاتا تھا۔ تین دنوں بعد بد بو سے تنگ آ کر اس کے بیٹوں نے مکہ کے قبرستان کی بجائے ایک پہاڑی پر ایک گڑھا کھودا اور لکڑیوں کی مدد سے لاس کو دھکیلتے ہوئے اس گڑہے میں کر کر دور سے پتھر پھینک کر اس گڈہے کو بند کر دیا۔

جمعہ، 20 نومبر، 2020

صالح اور طالح

صالح اور طالح

راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے ایک پسماندہ علاقے چنگا  بنگیال سے تعلق رکھنے والا ایک گیارہ سالہ لڑکا جب کرکٹ اکیڈمی چلانے والے آصف باجوہ کے پاس آیا تو آصف باجوہ نے اس بچے میں بڑا کرکٹر بننے کی صلاحیت کو   تاڑ    لیا تھا۔ اور پھر یہ بچہ راولپنڈی سے لاہور  اور پھر لندن منتقل ہو گیا۔ لندن کے ایک اخبار نے اس پر سٹے بازی کا الزام لگایا تو آصف باجوہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا یہ محمد عامر کی صحبت کا اثر ہے۔

فارسی زبان کی ایک کہاوت ہے

    صحبت صالح تیرا صالح کنند۔ صحبت طالح تیرا طالح کنند    

جو لوگ بھیڑیں پالتے ہیں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب بھیڑ بیمار ہوتی ہے تو اسے دوسری بھیڑوں سے علیحدہ کردینا چاہیے۔ورنہ وہ سارے ریوڑ ہی کو بیمار کر دیتی ہیں۔ صحرا کے بدو خارش زدہ اونٹ کو دوسرے اونٹوں سے دور ہی رکھتے ہیں۔ صحبت ہر جاندار پر اثر انداز ہوتی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ انسان مگر سب سے زیادہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے۔ 

جب ہم نماز میں کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں کہ ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ دکھا تو ہمیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ہمارے ارد گرد ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان صحبت کے غلط چناو کے باعث اپنی ذات اور اپنے پیاروں کے لیے مشکلات پیدا کر لیتے ہیں۔ شیخ سعدی نے اپنی بوستان میں پرندوں کے ایک جوڑے کا ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی کو دیکھ کرمادہ نے کہا کہ اس کا ارادہ شکار کرنے کا ہے نر نے کہا یہ لباس سے شکاری نہیں لگتا۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے تیر نکالا اور نر پرندے کو شکار کر لیا۔ لاہور والے علی ہجویری  (داتا صاحب)  نے اپنی کتاب کشف المجوب میں تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین کی ہے ایک ایسے جاہل جنھوں نے صوفی کا لبادہ اوڑہا ہوا ہو۔دوسرے ایسے مبلٖٖغین جو اپنے ہی کہے پر عمل نہ کرتے ہوں اور تیسرے وہ فقراء جو قرض کی دلدل میں اتر چکے ہوں۔ یہ تینوں کسی وقت میں اپنا تیر نکال کر شکار کر سکتے ہیں۔

گئے وقتوں میں صحبت سے مراد لوگوں میں المشافہ اٹھنا بیٹھنا اور دوستیاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں صحبت کے دائرے فیس بک، نوئٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ تک ہی محدود  رہ کر لا محدود ہو چکے ہیں۔ تخم تاثیر کی عدم واقفیت کے باعث بعض اوقات ناقابل یقین واقعات جنم پذیر ہوتے ہیں۔ 

محمد عامر کی کہانی میں    نوٹ    تو مجید نامی آدمی نے گنے تھے مگر بدنامی محمد عامر کے حصے میں آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ سنبھل گیا اور کردار پر ملی گئی کالک کو اپنے عمل سے دہو ڈالا مگر ہر انسان  محمد عامر نہیں ہوتا۔ ٹخم تاثیر ہر جگہ حاوی نہیں ہوتا اکثر بری صحبتیں انسان کو تباہ کردیتی ہیں۔


 

اتوار، 2 اگست، 2020

چاند اور ستارے


دوسرے نے پہلے کو بد دعائیں دیں۔  پہلے نے تحمل سے سنا اور جواب دیا 

  اگر روز جزا  میزان کا  پلڑا میرے گناہوں سے جھک گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے، میں اس سے بھی بد تر ہوں اور اگر گناہوں کا پلڑا  ہلکاہو کر اوپر اٹھ گیا  تو جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہے 
 
اس جملے کے پیچھے تقوی ٰ کا پہاڑ ہی نہیں علم کا گہرا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ایسا جواب کسی دوسرے نے نہیں بلکہ اس پہلے نے دیا تھا۔ جسے سابقین میں پہلا  خودعالمین کے صادق اور اللہ کے آخری نبی  ﷺ  نے بتایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل ؓ  نے اپنی وفات سے قبل کہا تھا    علم کو ان کے پاس تلاش کرنا    ۔
ان کو خود اللہ کے رسول  ﷺ  نے 300 کھجور کے درختوں اور 600  چاندی کے درہموں کے عوض عثمان بن العشال سے خرید ا ۔آزادی کا پروانہ  حضرت علی بن ابو ظالب نے لکھا اور نام  سلمان  خود رسول اللہ ﷺ  نے رکھا ۔ ان کو اپنے نام سلمان پر فخر تھا  مگر جب بات دین کی آئی تو کہا میرا نام اسلام ہے ۔ صاحب تاریخ مشائخ نقشبند نے لکھا ہے کہ کسی نے سلمان فارسی سے پوچھا تھا    آپ کا نسب کیا ہے   تو انھوں نے جواب دیا تھا    اسلام     اور کہا کہ جب ہمارا دین  اسلام ہے تو ہمارا سب کچھ اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں  باپ، بہن بھائی سے زیادہ عزیز ہے 
 
سلمان فارس میں خوشفودان نامی زرتشت کے گھر پیدا ہوئے تو ان کا نام مابہ رکھا گیا۔ اور سولہ سال کی عمر تک انھیں آتش پرستی کی تعلیم دے کر ایک معبد کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ علم کی تاثیر ہے کہ وہ اپنے طالب کے اندر مزید علم کے حصول کی آتش کو بھڑکاتا ہے۔اس آتش پرست نوجوان کی آتش بھڑکی تو اس نے شام کا ارادہ کیا۔ خاندان کے لاڈلے بیٹے کو گھر والوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکے۔ اور شام میں عیسائی راہبوں کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔ علم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے طالب پر حقیقت آشکار کرتی ہے۔ شام میں ہی انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ اصل کامیابی  کا علم اس نبی کے پاس ہو گا جن کے سارے ہی صاحبان علم منتظر تھے۔ انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی آمد یثرب میں ہوگی۔ ان نبی آخر الزمان کی پہچان کی نشانیاں بھی انھوں نے ازبر کر لیں تو یثرب کے ارادے سے بنو کلب کے کاروان کے ساتھ ہو لیے۔ وقت نے انھیں بنو قریظہ کے عثمان بن العشال کا غلام بنا دیا۔ 
خندق کی کھدائی کا مشورہ دینے والے اس ساسانی پردیسی کہ اہمیت اس وقت کھلی جب مہاجرین نے کہا سلمان ہم میں سے ہے  مگر انصار کا صرار تھا  سلمان ہم سے ہے ۔ بات اللہ کے رسول  ﷺ  تک پہنچی تو فرمایا۔     سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے   یہ ایسا شرف تھا جو صرف  حضرت  سلمان ؓ  کے حصے میں آیا ۔
صحابہ کرام ہمارے قمر نبوت کے نجوم ہیں۔ بات ستاروں کی ہو مگر استعاروں میں ہو تو علم فلکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہر ہر ستارے کی اپنی وسعت ہے۔ آسمان پر اورین بلٹ  میں تین ستارے چمکتے ہیں  
.  النقاط1
.  النیلم
  المنظقہ
یہ تینوں ستاروں کی دنیا دوسرے آسمانی ستاروں سے مختلف ہے۔ ان کی چمک کا انداز ایسا روشن ہے کہ رات کے وقت آسمان کی وسعتوں میں ان کی نشان دہی مشکل نہیں ہوتی۔ روشنی، روشنی ہی ہوتی ہے مگر روشنیوں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ قمر نبوت کے نجوم میں تین نام دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان ناموں میں:
۔  سلمان فارسی
۔ صہیب رومی 
۔  بلال حبشی ۔ شامل ہیں 
اللہ کے رسول نے ایک دفعہ چار ناموں کا ایک چارٹ بنایا تو اپنے نام کے ساتھ ان تین پردیسیوں کے نام شامل کیے۔ رسول اللہ کے دنیا سے وصال کے بعدیہ   مہاجرین   مسلمانوں کے قلوب میں  ایسے    انصار   بن کے رہے کہ  حضرت بلال کو مسلمانوں کے خلیفہ    یا سیدی    سے مخاطب ہوتے تھے  تو حضرت سلمان کو مدائن کی فرمان روائی پیش کی جاتی تھی ۔  
اصحاب رسول  ﷺ  ایسے لوگ تھے جن کے دلوں میں اللہ تعالی ٰ  نے ایمان ثبت کر دیا تھا  (المجادلہ؛؛۲۲) البتہ مسلمانوں پر دین کا یہ قرض باقی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کے فرمان کی روشنی میں قمرو  نجوم کے استعاروں کو کھولیں تاکہ تشنگان علم  کے قلوب میں ایمان کی رسوخیت کی کونپلیں کھل کر پھول بن جائیں۔ 

جمعہ، 16 نومبر، 2018

تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ


کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ کر دیا جاتا تھا، دسیوں کلو میٹرکا سفر طے کرنے کے بعدشام کو جب اس کی آنکھوں سے پٹی کھلتی تھی تو وہ اسی جگہ موجود ہوتا جہاں صبح تھا۔اس کا سفر مگر بے مقصد نہیں ہوتا تھاتیل اور کھل اس لمبے سفر کا ثمر ہوتے تھے۔ تیل کسان کے جبکہ کھل بیل کے حصے میں آتی تھی۔سفر با مقصد ہو تو رائیگان نہیں جاتا بے شک دائرے ہی میں ہو۔

معاشر ے کی منزل کا تعین، راہ کا ادراک اور اجتماعی سعی کو کامیابی میں بدل دینے والے کو رہنماء کہا جاتا ہے۔رہنمائی کی اہلیت ہر فرد میں ہوتی ہے۔اپنی ذات میں اس اہلیت کو تلاش کر کے اپنی ذات ، خاندان اور معاشرے کے لیے مثبت طور پر استعمال کرنا ہر اس فرد کے لیے ممکن ہے جو اس کی جستجو رکھتا ہے۔فطرت انسان کی ہر چاہت کو پورا کرنے اور ہر سوال کا جوب دینے کی استعداد رکھتی ہے۔البتہ چاہنا اور سوال کرنا لازمی ہے ۔ کوئی جواب بنا سوال اٹھائے نہیں دیا جاتانہ بلا چاہت کوئی خواہش پوری کی جاتی ہے۔سوال اٹھانے اور چاہت کے اظہار کے لیے بنیادی علم انسان کو مہیا کیا جاتا ہے۔ ہم درسگاہوں میں دراصل اس علم کے استعمال کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔کسان کے علم کا سلیقہ ہے کہ وہ بیل کو مدد گار بنا کر استفادہ حاصل کرتا ہے۔ ابن رشد نے لوگوں کو زمین ماپنے کا گر بتایا تھاحالانکہ اس نے کسی سے سیکھا نہ تھا۔خالد بن ولید کے پاس جنگی مہارت خداداد تھی۔عمر بن عبدالعزیز کے پاس محبت و رواری کا علم ذاتی تھا۔ معاشرے میں ادیب ، موسیقار ، خطیب، سیاسی رہنماء ، طبیب اور سپہ سالار بن جانے والوں کے پاس علم خداداد ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے اپنے علم سے لیس ہوتے ہیں ، جماعت ان کے علم کو 
Channellize
 کرتی ہے۔ایک فرداگر وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے اسی جماعت میں اس سے زیادہ علم والا موجود ہو۔ حکمرانوں پر تنقید کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت خود احتسابی کے عمل سے گذر کر بہتر سے بہترین افراد کو سامنے لائے۔ تنقید ی علم بھی خداد اد ہوتا ہے البتہ سلیقہ سیکھنا پڑتا ہے ۔اور تنقید کو برداشت کرنا بھی سلیقہ کا متقاضی ہوتا ہے۔

2014
کے دھرنے کے دوران حکمرانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں غلط الزام لگائے گئے۔ ان کی ذات اور خاندان کو تضحیک کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ عوام کے لیے رستے بند کر کے سیاسی مخالفین کے لیے قبریں بھی کھود لی گئی تھیں۔اجتماعات میں ان پر جوتے پھینکے گئے، منہ کالے کیے گئے ، سر پھاڑے گئے اور گولیاں تک چلائی گئیں مگر حکمرانوں کے پاس تنقید کو برداشت کرنے کا سلیقہ تھا۔موجودہ حکمرانوں کی خامیوں میں سر فہرست تنقید برداشت کرنے کے سلیقے کا فقدان ہے۔ زبانی تنقید کے بدلے گالی دی جاتی ہیں، اخبار تنقید کرے تو اس کے مدیر کو لا پتہ کر دیا جاتا ہے۔ماوراے قانوں مقدمے اورصحافیوں کو چن چن کر ملازمت سے نکالنا ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ علم کے استعمال کے سلیقے ہی سے نا بلد نہیں بلکہ ان میں وہ خدا داد علمی استعداد ہی مفقود ہے۔

امن بنیادی انسانی ضرورت ہے ۔حکومت افراد اور معاشرے کی پاسبان ہوا کرتی ہے۔مگر اس حکومت کے دور میں معاشرے کا پاسبان سمجھی جانی والی پولیس کا ایک افسر ملک کے درالحکومت سے سورج کی روشنی میں اور کھلے بازار سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ لگے پولیس کے ناکوں کو عبور کر کے ملکی سرحد پر موجود چیتا نظر وطن کے رکھوالوں کی نظروں سے چھپا کر اسے دوسرے ملک لے جایا جاتا ہے اور وہاں سے اس کی تشدد زدہ لاش واپس بھیجی جاتی ہے۔اور وفاقی وزیر مملکت براے داخلہ اس خبر ہی کو غلط بتاتے ہیں پھر دلیل ختم ہو جانے کے بعد سارے معاملے کو حساس بتا کر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ موت سے بڑی حساسیت کیا ہوتی ہے ۔ وزیر باتدبیر کے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔ کیا حکمران پارٹی میں قابلیت کی یہی انتہا ہے یا کوئی بہتر علم والا موجود ہے۔ یہ عوام کا وہ سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں پر قرض ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قرض اور فرض ایسے واجبات ہوتے ہیں کہ ان سے انکار انسان کو معاشرے میں بے وقعت کر دیتا ہے۔ 

دولت مند اور حکمران ہمسایہ غریبوں کے لیے سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں ۔ میٹھا پھل نہ بھی کھائیں سائے سے مستفید ہوتے ہیں۔ مگر اس حکومت میں شامل دولت مند حکمران طاقت کے نشے میں ایسے سرشار ہیں کہ وہ انسان کی عظمت، احسان کی خصلت ، اپنے وقار اور حکومت کی ساکھ ہی کو بھول چکے ہیں۔ مہاجر اور غریب ہمسائے کی گائے کے اعمال پر ان کو اس قدر غصہ آتا ہے کہ گائے کوہی اپنے گھر میں باندھ لیتے ہیں مگر ان کا غصہ سرد نہیں ہوتا۔ غریب ہمسائے کے گھر کی پردہ دار خواتین کو جیل بجھواتے ہیں مگر غصہ پھر بھی نہیں اترتا ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اس علاقے ہی سے اٹھا کر ان کی نظروں سے دور بھیج دیا جائے۔ ایسا واقعہ تو کتابوں میں پڑہا نہ دانشمندوں کی زبانی سنا۔اگر حکمران ایسے نہیں ہوا کرتے تھے توجان لیں اب ہمارے موجودہ حکمران ایسے ہی ہیں۔

حکومت کے جن وزیروں اور مشیروں کا کام عوام کو خبروں کی فراہمی میں مدد کرنا ہے۔ وہ اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر با باعزت شہریوں کی پگڑیاں اچھالنا خود پر فرض کیے ہوئے ہیں۔ پارلیمان میں اپنی بد زبانی پر معافی مانگ کر دروازے سے نکل کر گلا پھاڑ کر پھر وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اپنی اس غیر اخلاقی جرات پر خود ہی نازان ہوتے ہیں۔مخالفین کو گالی دینا۔ ان کے نام بگاڑنا، بے بنیاد الزام لگانا اور اس پر مصر ہونا ان کے نزدیک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ایسی سطحی سوچ پر کوئی ٹوک دے تو اس کو ریاست کی طاقت سے ڈرا کر اطمینان پاتے ہیں۔واقعات اور اطلاعات کو عوام سے چھپانا اور غلط اطلاعات فراہم کرنا ان کا شیوہ ہے۔ اگر کوئی صحافی ایسی بات لکھ دے جو ان کے خوشامدی من کو پسند نہ آئے تو ایسے صحافی کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اٹھا لینا اور غائب کر دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے۔ لوگ قانون اور قاعدے کی بات کریں تو اس صحافی کو لوہے کی مقفل زنجیروں میں جکڑ کر اس کی تصاویر اخباروں میں چھپوا کر اپنے من کے رانجھے کو راضی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی حکمران پارٹی کے پاس علم سے لیس بس یہی چند دانے ہیں ۔ عوام اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام کا حق ہے کہ ان پر مسلط ہی کرنا ہے تو ایسا آدمی مسلط کریں ۔ جو کم از کم پارٹی کے ساتھ مخلص ہوْ۔پارٹی سے عوام کو متنفر کرنے والوں کو کون پارٹی کا ہمدرد مانے گا۔

معیشت کا شعبہ زیادہ سنجیدہ شمار ہوتا ہے۔ مگر اسی شعبے کو غیر سنجیدہ لوگوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔اس شعبے کو چلانے والے ایک صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر بتاتے ہیں کہ ان کی وزارت میں تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف تیس روپے بچے ہیں۔غربت کا جتنا ڈھندورا اس حکومت کے دور میں پیٹا گیا ہے وہ ملکی ہی نہیں عالمی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشکول توڑنے اور خود داری کا راگ الاپنے والوں نے ملکوں ملکوں پھر کر بتایا ہے کہ ہمارے پاس قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ حالانکہ ملک میں سرکاری ملازمیں 48 سے 56 گھنٹے ہفتے میں کام کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ ستر ستر گھنٹے تک کام کرتے ہیں ۔ ملک میں غریب اور متوسط طبقہ گھڑی کو دیکھے بغیر محنت میں جتا ہوا ہے۔ عوام کی طرف سے صحت و تعلیم کے لیے کوئی دباو ہے نہ مہنگائی کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا ہے۔ بلند ہے تو صرف حکمرانوں کے اخراجات کا تخمینہ۔ اس کے باوجو د عرب و چین تک ہماری نااہلی اور غربت کے چرچے ہیں ۔ ہم ایسی ایٹمی طاقت ہیں جو طالب علموں اور موبائل کے صارفین سے چندے مانگتے ہیں ۔ ریل کے مسافروں سے زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے مگر ہوائی جہاز کے مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔جنرل سیلزٹیکس کے خاتمے کا ْ لارا ْ لگا کر عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ملک میں اپنے ذاتی سرمائے سے کاروبار کرنے والے سیاسی مخالفین کو چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بیرون ملک سے دولت کما کر ملک کے اندر سرمایہ کاری کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔اور ملک کے اندر اپنی محنت اور ذہانت سے آگے بڑہنے والوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ صرف انھوں ہی نے کیوں ترقی کی ہے۔ ان جیسے دوسرے کیوں ان سے پیچھے ہیں ۔کیا قابلیت کا یہی موسی ہے یا معاشرے کو معیشت کے کوہ طور تک پہنچانے کے لیے کوئی صاحب علم بھی موجود ہے۔

قانون کی حکمرانی کا جھنڈا بلند کرتے ہوے ہم فلیگ پوسٹ ہی کو گرا بیٹھے ہیں۔وزیر اعظم صاحب سپریم کورٹ کی بار بار کی تلقین کے باوجود اپنا گھر ریگولائز کرانے پر راضی نہیں ہیں۔وزیر اور مشیر عدالت کے سمن ہی وصول نہیں کرتے یا عدالت کے بلانے پر عدالت ہی نہیں جاتے۔کابینہ کی میٹنگز میں نیب زدہ، بنک زدہ اور غیر ملکی شہریت کے لوگ دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ البتہ ان کو عدالت سے یہ گلہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین کو قانونی رعائت کیوں دی جاتی ہے۔صدر مملکت اور وزیر اعظم صاحب خود عدالتی استثناء کی چھتری تلے براجمان ہیں۔ ملک کے تحقیقاتی اداروں کو کرپشن کے وہ کیس ثابت کرنے کے لیے فارغ کر دیا گیا ہے جو عشروں قبل ثابت نہ ہو کر بند ہو چکے ہیں۔ٖغریب دوکان داروں، گھوم پھر کو پھل سبزی فروخت کرنے والوں پر قانون کو نافذ کیا جاتا ہے۔ وزیروں کے اقرباء البتہ قانون سے بالا ہیں۔

تعلیم کا حشر نشر کر دیا گیا ہے کے پی کے اور پنجاب میں سینکڑوں سکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور استادوں کو بلا وجہ حراساں کرنا اسی دور حکومت میں ممکن ہوا۔ خاص طور پر پنجاب میں تو تعلیم دشمنی جیسا رویہ اختیار کیا گیا۔ پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی۔نوکریاں دینے کی بنیاد رکھنے میں بھی ناکامی ہی کا سامنا ہے۔تعلیم یافتہ بے روزگار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔زراعت مشکلات کا شکار ہے اور کسان پر حکومتی سرمایہ کاری بند کر دی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں امید کے دیے بجھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کی البتہ پانچوں دیسی گھی میں اور سر درآمد کردہ کڑاہی میں ہے۔

کولہو کے بیل کا گول دائرے میں سفر نتیجہ خیز ہوتا ہے ۔پاکستانی عوام کی حالت اکہتر سال کے سفر کے بعد ہی کولہوکے بیل سے بھی بدتر ہے۔ اکہتر سالوں سے امید کے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چلے ہیں۔ اب تو لوگ مرنے سے بھی خوف زدہ ہیں کہ شہر خموشاں میں پلاٹ صرف نقد ادائیگی پر ہی ملتا ہے۔ حکومت سے گذارش ہے کہ مفلس اور بے وسیلہ لوگوں کے مر جانے پر میت کو دفنانے کے علاوہ کوئی اور سستا اور قانونی طریقہ نکالے کہ مرنا توآسان ہو سکے