ہفتہ، 7 جنوری، 2023

شادی کس سے کی جائے


 


شادی کس سے کی جائے 
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کم لوگ ہی دے پاتے ہیں۔ہر نوجوان مرد خوبصورت ، نیک سیرت ، تعلیم یافتہ ، اچھے خاندان کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتاہے

اور ہر نوجوان لڑکی کا اصرار ہے ، کہ اسے خوبصورت ، تعلیم یافتہ او ر معاشی طور پر مضبوط شریک حیا ت ملے۔

کیا تعلیم یافتہ ہونا ہی خوبی ہے
تعلیم ایسی نعمت ہے جو انسان کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ تعلیم کو پیغمبروں کی میراث بتایا جاتا ہے ۔ اس دنیا کی سب سے زیادہ عالی شان ہستی نے علم کی تعریف میں خالق کاہنات کو علیم بتایا ۔ علم ایک زیور ہے اور زیور خواتین پر ہی جچتا ہے ، اور جس خاندان یا گھرانے میں کسی تعلیم یافتہ عورت کا وجود ہو جائے ، وہ گھرانہ ایک نسل بعد ہی ممتاز ہو جاتا ہے ۔ کسی نے علم کے حصول کے لیے طویل سفر کرنے کی ہدائت کی اور کسی نے تعلیم یافتہ ماں کو معاشرے کی کامیابی قرار دیا، موجودہ دور میں دنیا میں ایسے معاشرے بطور مثال موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کے بل بوتے پر ایک نسل کی طوالت میں اپنے معاشرے کو با عزت بنا دیا
جی ہاں ۔ ہم سفر کے چناؤ میں تعلیم کو ضرور اہمیت دیں ، اس سلسلے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کا ہم سفر آپ سے زیادہ تعلیم رکھتا ہو تویہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی ، خاص طور پر مرد حضرات اگر اس حقیقت کا ادراک کر لیں تو ان کا گھرانہ بہت جلد ترقی و کامیابی سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔یہ سوچ کہ بیوی کا خاوند سے کم تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے ایک منفی سوچ ہے ، جو گھریلو اور خاندانی ترقی میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرتی،
بچہ، جس گھرانے میں انکھ کھولتاہے ، جس معاشرت میں پل کر جوان ہوتا ہے، جن بزرگوں سے متاثر ہوتا ہے، یہ سارے عوامل نوجوان کے اعتقادات بن چکے ہوتے ہیں۔تعلیم ایسے نوجوان کے خیالات کی تطہیر میں مدد گار ضرور ہوتی ہے ۔
علموں بس کریں او یار
پنجابی زبان کے ایک بالغ الذہن شاعر ، اپنے اعتقادات کے عظیم مبلغ اور علم کے بڑے داعی نے درج بالا کلمات علم کی مذمت میں نہیں کہے بلکہ ان تعلیم یافتہ لوگوں کی مذمت کے لیے کہے ہیں جن کا
ْ تعلیم نے کچھ بھی نہ بگاڑا ْ
گو ایسے افراد کم ہی ہوتے ہیں جو اپنے علم کے نور کی روشنی میں چلنے کے منکر ہوں مگر ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ اس لائن میں سب سے پہلا نام ابلیس کا ہے جس کے علم نے اسے سوائے تکبر کے کچھ نہ دیا ۔ ہمارے معاشرتی زندگی میں ہم اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو کھلی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں جن کی مثال
ْ کتاب بردار گدہا ہے ْ
ہم سفر کے چناؤ سے قبل اس بات کی چھان پھٹک کر لینی چاہیے کہ اپ کا ساتھی کتاب بردار ہی نہ ہو ۔ اس کے جانچتنے کے طریقے ہیں مثال کے طور پر جو تعلیم یافتہ مرد ، محنت سے جی چرانے والا ہو ، رشتوں کی اہمیت سے منکر ہو ، تکبر کا شکار ہو ، ملازمت اس لیے نہ کرتا ہو کہ اس کے معیار کی نہیں ہے ۔۔۔ عورت ، اپنے جسم ، گھر بار کی صفائی، رویوں کی ترتیب ، رشتوں کی پہچان ، اپنے فرائض سے بے خبر ہو تو ایسے تعلیم یافتہ لوگ بے ضرر نہیں ہوتے گو آٹے میں نمک کا وجود لازمی ہے مگر اس کی زیادتی کھانے کے عمل ہی کو بد مزہ بنا دیتی ہے اور کھانے کو بد مزہ کرنے والا عنصر ایک ہوتا ہے مگر باورچی کی طویل محنت کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے

 

جمعہ، 6 جنوری، 2023

نصیحت کیا ہے؟





سال دو ہزار سولہ میں دنیا بھر کے اخبارات میں جاپان میں بننے والی مصنوعات پر ایک بحث جاری تھی۔  اس بحث کا سبب جاپانی کی ایک گاڑیاں بنانے والی کمپنی  ٹویوٹا  کا یہ اعلان تھا کہ وہ دنیا بھر سے  چودہ لاکھ تیس ہزار گاڑیاں واپس منگوا رہی ہے اور خود کمپنی نے بتایا کہ ان گاڑیوں مین نصب ائر بیگ کمتر معیار کے ہیں۔
جنگ کے بعد جب جاپان نے عالمی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات  فروخت کے لیے پیش کیں تو یورپ اور امریکہ میں ان مصنوعات کے متعلق عام آدمی کا تصور یہ تھا کہ جاپانی مصنوعات ناقابل اعتبار کھلونے ہیں۔ بلکہ یورپ میں اچھے سٹور جاپانی مصنوعات اپنی دوکانوں میں رکھ نا  اپنی دوکان کی توہین خیال کرتے تھے۔ 
انیس سو پینتالیس تک پوری دنیا کی سڑکوں پر امریکی گاڑیوں کا راج تھا۔ جنرل موٹرز کے دفتر پر لگا جھنڈا ایک گھمنڈ کے ساتھ لہراتا تھا۔ پھر یورپ میدان میں اترا۔اور تیس سالوں میں دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں سولہ ملین ووکس ویگن سڑکوں پر دوڑا دیں ۔ ٹویوٹا موجود تھی مگر غیر معروف تھی۔
انیس سو چون میں جاپان کی بڑی مصنوعات بنانے والی ایک سو چالیس کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو اور تین سو سے زائد مینیجرز نے جاپان کے سائنسدانوں کی یونین کے ساتھ مل کر ایک سیمنیار منعقد کیا۔ جو دو ہفتے سے زائد عرصہ تک چلا۔ اس سیمینار میں مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے پر غور کیا گیا اور کچھ فیصلے کیے گئے۔ان فیصلوں میں پہلا فیصلہ یہ اعتراف تھا کہ ان کی مصنوعات کا معیار ناقص ہے۔ اعتراف ایسا عمل ہے جو آگے بڑہنے کی راہ کھولتا ہے۔ ایسے اعتراف کی ہر تہذیب و تمدن،  معاشرہ اور مذہب حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اعتراف میں فرد ہو کہ کمپنی، معاشرہ ہو کہ ملک اپنی غلط ہونے کو تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی معاشروں میں اس عمل کو توبہ کہا جاتا ہے۔ جاپانیوں نے توبہ کی اور ہر کمپنی اور ادارے میں معیاریا  کوالٹی کنٹرول کے شعبے قائم کیے۔ اور اس شعبوں کے معیار کو بہتر کرتے رہنے کا انتظام کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاند پر جانے والے 
 Apollo 11
 میں الیکٹرونکس سرکٹ کا پچھتر فیصد حصہ جاپان نے تیار کیا تھا۔  اپالو  کی چاند پر لینڈنگ کے دوران اس کے جسم سے ایک چھوٹا سا پرزہ ٹوٹ کر چاند کی سطح پر گر گیا تو ناسا کے مرکز میں سوال اٹھا کہ بلین ڈالر ز کے پرجیکٹ کو اس پرزے کی علیحدگی کے بعد سٹارٹ کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ چاند کی سطح پر موجود دو  اور چاند کے مدار میں چکر لگاتے تیسرے خلاباز کی زندگی پر سوال اٹھنا شروع ہوئے تو مرکز میں موجود جاپانی مطمن رہے انھیں معلوم تھا۔ اس پرزے کے گر کر علیحدہ ہو جانے کے باوجود اپالو کو دوبارہ سٹارٹ کر لیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اپالو  کے کامیاب مشن نے جاپان کی الیکٹرانک سرکٹ والی مصنوعات کو دنیا بھر میں ایسی مقبولیت ملی کہ الیکٹرنک  سرکٹ  اور معیا ر جاپان کے نام کے ساتھ نتھی ہو گئے۔ 
جاپانیوں کی کامیابی کی کہانی ہر شعبے میں ایسی ہی رہی۔ انھوں نے معیار کی جانچ کو کنٹرول کرنے والے شعبے کی زبردست نگہداشت کی اور دنیا نے دیکھا جنرل موٹرز کے ہیڈ کوارٹر پر جاپان کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ یہ وہی جاپان تھا جو جنگ کے دوران اپنے دو شہروں کو ایٹم بم کی موت سلا چکا تھا۔ فوج ہار چکی تھی۔ عوام مایوس تھی۔ شکست کا معاہدہ ان کے گلے کا ہار بن چکا تھا۔ مگر انھوں نے اپنی تمام ناکامیوں کا اعتراف کیا۔ اور نئی نسل کو تعلیم دی۔ تعلیم کا معیار اتنا بلد کر دیا کہ پرائمری سکول میں ہی جاپانی بچہ زندگی گذارنے کا اخلاق سیکھ لیتا ہے۔  ایک امریکی
William Ouchi 
 کے مطابق جاپانیوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کا معیاربہتر کرنے کے لیے پرائمری سکول کے استاد کا وظیفہ اور معاشرتی اعزازیونیورسٹی کے پروفیسروں والا کر دیا تھا۔ یوں جاپان کا اعلی ترین دماغ بچوں کا استاد بن گیا۔ جب تعلیم میں معیار آیا تو سوچ بھی معیاری ہو گئی۔ معیاری سوچ ہی معیاری مصنوعات پیدا کرتی ہے۔  پست ذہن اعلی اخلاقی کا مظاہرہ کر سکتا ہے نہ معیاری مصنوعات پیدا کر سکتا ہے۔ آج جاپان  اعلی کوالٹی کی اونچی سیڑہی پر براجمان ہو چکا ہے  تو اس کا سبب معاشرے کے اعلی اخلاق ہیں۔  اخلاق تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں۔  معیاری تعلیم صرف اعلی دماغ دے سکتا ہے ۔ جاپان میں تعلیم میں معیار بلند کرنے والا شعبہ آج بھی متحرک ہے اور ہو لمحہ معیار کو برقار رکھنے میں نہیں بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اللہ تعالی کی دنیا وسیع ہے۔ ہر فرد،  قوم اور معاشرے کے اپنے تجربات ہوتے ہیں۔ کچھ افراد اور معاشرے پڑھ کر سبق حاصل کرتے ہیں۔ کچھ دیکھ کر نصیحت پکڑتے ہیں۔ کچھ اپنے ہی تجربات سے سبق پاتے ہیں۔ مگر وہ معاشرہ بد بخت ہو جاتا ہے۔ جو اعتراف نہیں کرتا اور توبہ سے تائب رہتا ہے۔ اللہ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے کہ انسان کے لیے اتنی ہی کامیابی ہے جتنی وہ کوشش کرے گا۔


 

پیر، 2 جنوری، 2023

عجیب موت




رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

کیفی اعظمی

اس کے جنازے میں پورا شہر ہی امڈ ۤآیا تھا ۔ علاقے میں اس کی شہرت تھی ۔ ہر چھوٹا    بڑا اس سے واقف تھا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹے بچوں کے اصرار پر ان کے والدیناس سے بچوں کی ملاقات کرانے بھی لے آتے ۔ وہ بچوں ان کے والدین کی پانی سے تواضح کرتا۔  ملاقات کرنے کے لیے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ہر شناسا و ناشناسا کو بھی پانی پلایا کرتا تھا ۔ لوگ بھی پیاسے ہوں یا نہ ہوں اس سے پانی ضرور پیا کرتے تھے ۔ یوں لگتا تھا اس کی زندگی کا مقصد ہی لوگوں کو پانی پلانا تھا ۔ یہ کام اس نے اپنے مرنے کے بعد شروع کیا تھا ۔  

جی آپ نے صیح پڑھا کہ یہ کام اس نے موت کے بعد شروع کیا تھا ۔ مرنے سے پہلے تو اس نے پانی کا گلاس تو بہت بڑا ہوتا ہے پانی کا قطرہ تک کسی کو پینے کے لیے نہیں دیا تھا ۔ اس کو اس بات کا احساس بھی مرنے کے بعد ہوا تھا ۔ یہ حقیقت بھی مرنے کے بعد فرشتوں نے اسے بتائی تھی کہ اس نے زندگی میں ایک بار کسی مہمان کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ حالانکہ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کسی کو دودھ کا گلاس پلایا ہو مگر جب فرشتوں نے اسے یاد کرایا تو اسے وہ اجبنی یاد آ گیا جو اس کے ڈنگروں والے باڑے کے پاس سے گذر رہا تھا ۔ اور بچھی ہوئی چارپائی اور حقہ دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنی گائے کا دودھ دوھ رہا تھا ۔ اس نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس پردیسی کو دودھ کا پیالہ پیش کیا ۔ اجنبی سے حقہ سے منہ ہٹایا ۔ دودھ کا پیالیہ لیا ۔ اور ایک ہی سانس میں پی کر ہاتھوں سے مونچھوں پر لگے دودھ کو صاف کیا ۔ پیالہ چارپائی پر رکھا اور چل دیا۔ 

اس کی زندگی بھی گوجرخان کی ڈھوک حیات علی میں دوسرے لوگوں ہی کی طرح تھی ۔ صبح اٹھتے ہی کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاتا ۔ اس کے بعد ڈنگروں کےپٹھوں کا انتظام کرتا ۔ شام کو دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ دوہتھا ۔ اس کی زندگی رواں دواں تھی ۔ صحت بھی ٹھیک تھی مگر اچانک فوت ہو گیا ۔ گھر میں ماتم کہرام برپا کر دیتا ہے ۔ حیات علی کے گھر میں بھی کہرام برپا تھا ۔ جو سنتا اس بے وقت موت پر حیران ہوتا مگر موت سے مفر کسے ہے ۔ حقیقت کو قبول کرنا پڑتا ہے ۔اس کی موت کی حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا گیا ۔ دور پار کے رشتے داروں کو فوتیدگی کی اطلاع دے دے گئ۔ قبر تیار کر لی گئی ۔ جب اس کا جنازہ اٹھایا گیا تو حیات علی اٹھ بیٹھا۔ عزاداروں نے چارپائی نیچے رکھ دی ۔ حیات علی نے بتایاوہ واقعی مر گیا تھا ۔ اور فرشتے اسے لے کر ایک لمبے ویران صحرا سے گذر کر ایک ایسے میدان میں لے کر گئے جہاں مرے ہوئے لوگوں کا رش تھا ۔ حیات علی کو بمعہ  اس کے کاغذات کے کو لے جانے والوں نے  اس میدان میں موجود ایک منشی کے سامنے پیش کیا ۔ اس نے کاغزات دیکھ کر حیات علی کو لے جانے والوں کو ڈانٹا کہ تم غلط آدمی کو اتھا لائے ہو ۔ جلدی سے واپس جاو اور مانکیالہ والے حیات علی کو لے کر آو۔ ڈھوک حیات علی والوں نے یہ سنتے ہی چالیس کلومیٹر دور مانکیالا کی طرف بندے دوڑائے انھوں نے واپس آ کر تصدیق کی کہ جب حیات علی ذندہ ہوا اسی وقت مانکیالہ والے حیات علی کا انتقال ہوگیا تھا۔ 

اصل کہانی مگر مانکیالہ والے حیات علی کی وفات کے بعد شروع ہوئی ۔ ہوا یہ کہ حیات علی کو جب مرنے کےبعد ایک بیابان صحرا سے گذارا جا رہا تھا تو اسے پیاس کی شدت نے پانی مانگنے پر مجبور کر دیا مگر اس کے دونوں نامانوس ساتھیوں میں سے ایک نے کہا تم نے تو پوری زندگی میں کسی کو پانی پلایا ہی نہیں اس لیے تمھیں پانی نہیں دیا جا سکتا۔ حیات علی کی عتش کی زیادتی پر دوسرے ساتھی نے کہیں جھانک کر دیکھا اور پہلے ساتھی کو بتایا کہ اس نے ایک راہ گیر کو دودھ کا گلاس پلایا تھا ۔ لہذا اسے دودھ کا ایک گلاس پیش کر دیا گیا ۔ 

   دوبارہ جی اٹھنے کے بعد حیات علی نے اپنی ڈھوک میں کنواں کھدوایا ۔ 

سارا دن اس کنویں کی منڈھیر پر بیٹھا رہتا اور ہر آنے جانے والے واقف و نا وقف کو پانی پلاتا ۔ اسی عمل کے دوران اس کی موت آگئی علاقے بھر کے لوگ اسے جانتے تھے ۔ اکثر نے اس کے ہاتھ سے پانی پیا ہوا تھا ۔ اس کی موت علاقے میں بڑی موت تھی سارا علاقہ جنازہ پڑہنے امڈ ۤایا تھا ۔

یہ کہانی ہمیں بیرون ملک مقیم ایک گوجرخانی نے سنائی تھی ۔ ہم نے گوجر خان جاکر اس محلے میں لوگوں سے معلومات حاصل کی ۔ کئی نوجوان اس کہانی سے نا آشنا تھے ۔ اکثر بزرگوں نے مگر اس کہانی کی تصدیق کی ۔ ذاتی طور پر اس کہانی کی صحت پر یقین ہو جانے کے باوجود اسے لکھنے پر دل مائل نہ ہوا۔  پھر گوجرخان کی معروف صوفی شخصیت جناب پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس کی تصدیق کی تو ہم بھی اس کو ضبط تحریر میں لانے پر جرات کر لی ۔