منگل، 26 فروری، 2019

کج وی نہی ہویا


بارش برستی ہے تو زمین سراب اور جاندار فرحان ہوتے ہیں۔ مگر جب بادل بپھر جائیں تو باران رحمت زمین کے باسیوں کے لیے زحمت بن جایا کرتی ہے۔ پرامن خیر خواہ سفید بادل اگر انسان کو امید دلاتے ہیں تو گمبھیر اور سیاہ بادل انسان کو خوف زدہ کرتے ہیں۔ اس وقت آسمان پاک وبھارت پر اختلافات کے گہرے بادل ہیں۔جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں اطراف سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی ابتدا مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے علاقے ہونے والا وہ خود کش حملہ ہے جس میں بھارت کے چالیس پیراملٹری فورس کے جوان مارے گئے۔ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی ایک نوجوان نے کیا تھا۔ بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستانی خفیہ ایجنسی اور اس کی حمائت یافتہ ایک مجاہد تنظیم جیش محمد کو بتایا۔ پاکستانیوں کی طرف سے سب سے پہلا ردعمل ایک ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آیا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ یہ جیش محمد کا کام ہے ، ان لوگوں نے ریٹائرڈ جنرل کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس کی مذمت کی۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کو ْ سنجیدہ سبق ْ سکھانے کی بات کی اور سوموار والے دن بھارت نے دس ہزار کلو گرام بارود سے لیس ایک درجن معراج ۲۰۰۰ طیارے اڑائے ۔ جومقبوضہ کشمیر کے رستے آزاد کشمیر میں داخل ہوئے۔ آزاد کشمیر کی سرحد کے تین سے چار کلومیٹر کے علاقے میں بم گرکر واپس چلے گئے۔ بھارت کے ایک وزیر مملکت جو ہیں تو بھارتی ْ محکمہ زراعت ْ کے مگر انھوں نے دعویٰ کیا کہ بھارتی طیاروں نے ْ مکملْ طور پر تباہ کر دیا ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی طیارے تین چار کلومیٹر سرحد کے اندر گھس آئے تھے ۔ چوکس پاک فضائیہ کی کاروائی سے بچ نکلے اور اپنا گولہ بارود ایک ویران علاقے میں گر کر واپس چلے گئے۔میں نے اپنے دوست ندیم ڈار کو بارڈر پر فون کر کے حقیقت معلوم کرنا چائی ۔ وہ سو رہا تھا ۔ ْ کج وی نہی ہویا ْ سونے دو۔ میں نے عالمی میڈیا کو کھنگال ڈالا مگر ْ وزیر زراعتْ کا بیان مٹی میں دفن ہو چکا تھا۔اس سے قبل ایک بار بھارت نے ْ سرجیکل سٹرائیک ْ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ بعد میں پاکستانیوں کو معلوم ہوا کہ وہ تو ہو بھی چکا ۔ 
پاکستان عشروں سے حالت جنگ میں ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ گولے بارود کا خوف مدہم پڑگیا ہے ۔ مجموعی طور پر پاکستانی واناو گلگت میں ہوں یا کراچی میں موت سے بے خوف ہو چکا ہے ۔ رہ گئے کشمیری تو ان پر بھارت نے ایسا ایسا ظلم ڈہایا ہے کہ شیطان بھی ان ہتھکنڈوں پر شرمندہ نظر آتا ہے۔ کشمیری دنیا بھر میں سب سے زیادہ امن پسند تھے اور ہیں مگر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے ۔ کشمیر میں بھارتی مظالم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب امن پسند کشمیری نہتے ہونے کے باوجود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ بھارت کا ْ اٹوٹ انگ ْ کا نعرہ بکھر چکا ہے۔تاریخ بتاتی ہے جب کوئی قوم بکھرنے پر آتی ہے تو پہلے اس کے نعرے بکھرا کرتے ہیں ۔ ہر ابتداء کی ایک انتہا بھی ہوا کرتی ہے۔ ابتداء ہو چکی انتہاء زیادہ دور نہیں ہے

ہفتہ، 2 فروری، 2019

نوازشریف کی ہار اور مسلم لیگ ن


حذیفہ رحمٰن

کھلا راز


سابق وزیراعظم نوازشریف گرمجوشی سے جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کا استقبال کررہے تھے،جبکہ چیئرمین نیب چوہدری قمر الزمان ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔پی اے ایس آفیسر چوہدری قمر الزمان کے ڈرائیونگ روم میں لگی یہ تصویر تقریباََ بیس سال پرانی معلوم ہورہی تھی۔یہ شاید اس وقت کی تصویر تھی جب چوہدری قمرالزمان چیف کمشنر اسلام آباد تھے اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ عظیم نیلسن منڈیلا کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ابھی تصویر کا بغور مشاہدہ کرہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز نے مڑنے پر مجبور کردیا ۔دیکھا تو نوازشریف کے داماد کیپٹن(ر) صفدر ،سعید مہدی،پرویز راٹھور ،میاں ناصر جنجوعہ اور چوہدری مشاہد رضا کے ہمراہ ڈرائیونگ روم میں داخل ہوچکے تھے۔یہ سب دوست سابق چیئر مین نیب چوہدری قمر الزمان کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے لئے جمع ہوئے تھے ۔مجھے تصویر میں محو دیکھ کر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما چوہدری مشاہد رضا چیلانوالہ کہنے لگے کہ نوازشریف بھی نیلسن منڈیلا کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں لوٹیں گے۔چوہدری مشاہد رضا کی بات سن کر ڈرائنگ روم میں سیاسی بحث شروع ہوگئی۔نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی سے استفسار کیا کہ آپکی کتاب کہاں تک پہنچی؟ وہ روایتی انداز میں کہنے لگے کہ کتاب تو مکمل ہوگئی ہے مگر ابھی اسے چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔کیونکہ ابھی سابق وزیراعظم نوازشریف آزمائش میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کتاب میں بیان کئے گئے کسی واقعے سے تاثر جائے کہ مشکل وقت میں دوستوں پر تنقید کی ہے۔بہر حال بیوروکریسی اور سیاست کے بڑے بڑے نام چوہدری قمر الزمان کے آنگن میں موجود تھے اور سب اس بات سے متفق تھے کہ نوازشریف کی سیاست ختم نہیں ہوئی بلکہ نوازشریف کی اصل سیاست شروع ہی جولائی 2018کے بعد ہوئی ہے۔
آج سابق وزیراعظم نوازشریف جیل میں قید ہیں اور انتہائی علیل ہیں۔اللہ ان کو صحت دے۔شاید آئندہ ہفتے کے دوران ان کی ضمانت ہوجائے ۔مگر سول سروس اور سیاست کے زرخیز دماغ سمجھتے ہیںکہ رائیونڈ میں بیٹھا ہوا نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے نوازشریف سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوگا۔پنجاب کی سیاست کے ماہر سمجھے جانے والے نوازشریف رائیونڈ میں بیٹھ کر جب چاہے پنجاب میں اقتدار کا مرکز تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نوازشریف بہت مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہے۔سابق ایڈیشنل آئی جی پرویز راٹھور واقعہ سناتے ہیں کہ 2009میں جب پنجاب میں گورنر راج لگااور پوری مسلم لیگ ن پریشان تھی۔نوازشریف کی اگلے روزشہباز شریف سے رائیونڈ میں ملاقات ہوئی تو نوازشریف انتہائی اطمینان سے کہنے لگے کہ "شہباز فکر نی کرنی ،بس تسی ٹیک اوور کرن دی تیاری کرو"۔مگر کچھ غلطیاں اور چند ناعاقبت اندیش مشیران کے غلط مشورے نوازشریف کے لئے آزمائشی حالات پیدا کرتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں جن لوگوں نے نوازشریف اور راولپنڈی کے درمیان معاملات کو ڈیل کیا ،وہ سب سے بڑے قصور وار ہیں۔ایسے لوگ غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور معاملات کو بند گلی کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ شریف خاندان کے درمیان دراڑ پیدا کردی جائے۔شہباز شریف کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرکے دونوں بھائیوں کے درمیان فاصلے پیدا کئے جائیں۔جان بوجھ کر خود کو راولپنڈی کے قریب ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور ایسی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ،جس سے یہ تاثر شدت اختیار کرجائے کہ شاید شہباز شریف اور ان کے بچے اپنے تایا جان کی سوچ کے خلاف چل رہے ہیں۔نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف سے زیادہ مخلص کوئی نہیں ہوسکتا۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن میں صرف ایک ہی لیڈر ہے ،جس کا نام نوازشریف ہے اور نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے۔کیونکہ لیڈر کا متبادل ہمیشہ اس کا نظریہ ہوتا ہے۔نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔اگر نوازشریف ہارا تو مسلم لیگ ن کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔نوازشریف کی بقا میں ہی مسلم لیگ ن کی بقاہے۔اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اقتدار کے آخری سال میں نوازشریف نے بعض اداروں سے متعلق اہم معاملات شہباز شریف کے بجائے ایک وفاقی وزیر،ایک مشیر اور ایک عزیز بزنس مین کے سپرد کئے۔یہی لوگ معاملات میں گارینٹر تھے اور سب کچھ ٹھیک ہونے کی اطلاع دیتے تھے۔ٹوئٹ کی واپسی،ڈرافٹ کیا ہونا چاہئے،حساس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی اور پھر ڈان لیکس تک ۔سب کچھ یہی لوگ ڈیل کرتے رہے اور جب معاملات خراب ہوئے تو ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہی تنقید کی جاتی ہے کہ میاں صاحب کے انہی فیصلوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔مگر میری رائے ہے کہ پارٹی نوازشریف کی ہے،سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر نوازشریف ہے۔اگر کچھ غلط فیصلے ہوئے بھی ہیں تو ان کے ردعمل کا سامنا بھی تو نوازشریف ہی کررہا ہے۔مگر نوازشریف کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ضرو ر دیکھنا چاہئےاور یہ سوچنا چائیے کہ کچھ معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔اس کو ڈیل کرنے کے لئے ایسا شخص ہونا چاہئے،جو نہ صرف میاں نوازشریف سے مخلص ہو بلکہ اچھے برے وقت میں کرائے گئے فیصلوں پر پہرہ دے سکے۔دونوں فریقین کے درمیان برف کو پگھلائے ،کیونکہ قدر ت کا اصول ہے کہ بڑا آدمی کبھی بھی معاملات کو براہ راست خود ڈیل نہیں کرسکتا۔اسے درمیان میں negotiatorکی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ معاملات میں کسی بھی موڑ پر ڈیڈ لاک پیدا نہ ہو۔سابق وزیراعظم نوازشریف کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کرکے آزمائشوں کو کم کیا جاسکتا ہے ،وگرنہ نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔

تماشا جاری ہے ۔ ۔۔




پروڈا 
( Public Representation Office Disqualification Act )
نامی قانوں تو16 جنوری 1949 کو متعارف کرایا گیاتھا مگر اسے لاگو اگست 1947 سے کیا گیا تھا۔اس قانون کی زد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ اور ان کے وکیل حسین شہید سہروردی آئے۔قائد اعظم کی وفات کے بعد ان کے بنگالی ساتھی حسین شہید سہروردی ہی ایسی شخصیت تھے جو اس ملک کے حقیقی سویلین خیر خواہ تھے مگر ان کا بنگالی ہونا ریاست کے کچھ مقتدر لوگوں کو کھٹکتا تھا۔ البتہ 1949میں اس ایکٹ کے ذریعے ان سے نجات حاصل کر لی گئی۔ سندھ میں وزیر اعلیٰ پیر الہی بخش کو کرپٹ نا اہل کر دیا گیا۔1956 میں مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ابو القاسم فضل الحق کر ہٹا دیا گیا۔ یہ وہی فضل الحق تھے جنھوں نے لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد لاہور پیش کی تھی جو بعد میں قرارداد لاہور کے نام سے مشہور ہوئی۔1959 میں جنرل ایوب غداروں کو روکنے کا اپنا قانون لائے جس کو پوڈو 
Public Office Disqualification Order 
کہا گیا۔ اس آرڈر میں جنرل ایوب صاحب نے مزید ترمیم کر کے اسے ایبڈو 
Effective Bodies Disqualification Order 
کا نام دے دیا۔ اس قانون کے تحت قریب 70 اور 80 کے عدد کے درمیان سیاستدانوں پرغداری اور کرپشن کا الزام لگایا گیا۔ مغربی پاکستان سے قیوم خان بھی اس کی زد میں آئے ۔ایوب خان کے خلاف راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے ایک طالب علم عبد الحمید نے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے ایوب کتا کا نعرہ لگایا تو پولیس نے اس گولی مار کر خاموش کر دیا تو غداری کے الزامات اپنی موت آپ ہی مر گئے۔ لفظ ْ غدار ْ زہریلے سانپ جیسی گالی ہوا کرتا تھا۔ یہ گالی سیاستدانوں کو پڑنا شروع ہوئی تو اس لفظ کی تلخی کم ہونا شروع ہوئی اور جب پاکستان کے ایک سابقہ وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو غدار اور بھونکنے والا کتا کہا گیا تو جیسے سانپ کے دانت نگل گئے ہوں لفظ غدار کے خلاف پائی جانے والی نفرت کم ہو گئی۔ 

ذولفقار علی بھٹو کو ْ انڈیا کا ایجنٹ اور غدارنامی سانپْ نے ڈسنے ہی سے انکار کر دیا ۔معاشروں کو ایسے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے جو حریف کا کلیچہ چیر کے رکھ دے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں مخالفین کے لیے سیاست کی پٹاری سے سانپ کی بجائے ْ کافرْ نام کا نیا و تازہ خنجر نما فتویٰ برآمد کیا گیا۔اور ذولفقار علی بھٹو کے عقائدکے گلے پر پھرنے کی کوشش کی گئی۔ ملک کے ایک معروف صحافی نے لکھا کہ یہ شخص ہندو ہے اور اس کا نام و نسب بھی لکھ ڈالا مگر چھری نے گلا کاٹنے سے انکار کردیا۔ْ کافرْ نامی خنجرکارزار سیاست میں نامراد ہوا۔

موجودہ دور میں ْ کرپٹ ْ ایسی گالی ہے جو ہر حریف کے سینے پر ٹھاہ کر کے لگتی ہے۔ مگر ہماری عدالتوں میں ہوئی بحثوں اور میڈیا پر چلائی مہموں کے بعد عوام میں اس گالی کی سختی بھی معدوم ہوتی جارہی ہے ۔ چند سال پہلے کسی کو کرپٹ کہا جائے تو اس کا چہرہ غصے سے لال اور رویہ پیلا ہو جاتا تھا۔ اب یہ الزام سن کر لوگ ہنس دیتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ لفظ کرپٹ کا بھی استعمال سیاسی ہو گیا ہے۔

ملک میں کرپشن کا احساس1949 میں ہی ہو گیا تھا بلکہ کہا گیا کہ پاکستان کی پیدائش کے دن ہی کرپشن کے شیطان نے بھی جنم لے لیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف پہلا قانون 1949 میں بنا مگر اسے نافذ 14 اگست 1947 سے کیا گیا۔

جنرل ایوب نے مارشل لاء لگانے کے بعد اپنے عزیز ہم وطنوں کو بتایا کہ ملک میں کرپشن کے برگد کا درخت بہت تناور ہو گیا ہے اور وہ اس کو جڑوں سے اکھاڑ دیں گے ۔ البتہ اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد عوام کو نہ درخت نظر آیا نہ اس کی جڑیں نکال کر عوام کو دکھائی گئیں البتہ 1990 میں بے نظیر بھٹو کو کرپشن کے الزامات پر نکال باہر کیا تو کرپشن کو پکڑنے کے لیے پہلی بار 20 لوگون کو پرائیویٹ طور پر بی بی کی کرپشن کا سراغ لگانے کے کیے تعینات کیا گیا۔ 1992 میں صدر نے نواز شریف کو نکالا تو ان پر بھی کرپشن ہی کے الزامات لگے۔ 

1993
میں بی بی دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو نواز شریف کے خلاف موٹر وے اور یلو کیب سکیم میں کرپشن کے الزامات سامنے آئے۔ قومی بنکوں سے قرض معاف کرانے اور پنجاب میں کواپریٹو سوسائیٹیزکے ذریعے بڑی رقوم کے غبن کے الزامات سامنے آئے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف مجموعی طور پر150 مقدمات قائم ہوئے۔

1996
میں صدر نے وزیر اعظم بی بی کو بر طرف کیا تو ان پر بھی کرپشن ہی کے الزامت لگائے گئے۔ اس بار کرپشن کا سراغ لگانے کے لیے احتساب آرڈیننس لایا گیا اور عوام کو بتایا گیا کہ احتساب 1985 سے شروع کیا جائے گا۔ 

1997
میں نوازشریف کی د وبارہ حکومت بنی تو نیا احتساب بل لایا گیا۔ اور سیف الرحمن کو احتساب کا کام سونپا گیا۔ 1998 میں احتساب سیل کانام احتساب بیورو رکھ دیا گیا۔ اس بار نشانہ بے نظیر، ان کے خاوند آصف علی زرداری اور دوسرے سیاسی مخالفین بنے ۔ اس بار احتساب کی زد میں کراچی کے تاجر بھی آئے۔1999 میں بے نظیر کی ملک سے غیر موجودگی کے دوران بی بی اور زرداری پر کرپشن ثابت ہو گئی اور دونوں کو پانچ پانچ سال جیل اور 86 لاکھ ڈالر جرمانہ کی سزا سنا دی گئی۔ زرداری صاحب کو جیل بھیج دیا گیا ۔

1999 
میں جنرل مشرف نے نیب
 National Accountabilty Bureo 
متعارف کرایا۔ نیب کے پاس اختیار ہے کہ وہ بغیر عدالتی مقدمے کے کسی بھی فرد کو 90 دن تک زیر حراست رکھ سکتا ہے۔ 90 دن کے بعد بھی ملزم کو اپیل کا حق نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے ساتھی جنرل سید امجد حسین کو نیب کا چیرمین مقرر کیاتو عوام نے دیکھا کہ جنرل امجد کے کہنے پر کسی تاجر کو ہتھکڑی لگتی تھی تووزیر اعظم شوکت عزیز کے کہنے پر وہ ہتھکڑی کھل جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد نے اپنے ملک میں امیر شہزادوں اور تاجروں سے پیسے نکلوانے کے لیے ہمارے نیب کے ماڈل کو استعمال کیا تھا۔ 

اکتوبر 2007 میں جنرل مشرف نے این آر او جاری کیا۔ جس کے تحت سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریسی کے خلاف مقدمات ختم کردے گئے۔ البتہ 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ نے این ٓر او کے قانون ہی کو منسوخ کر دیا۔

اس بار نیب کی زد میں آ کر نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے سیل نمبر 1 میں ان کے بھائی شہباز شریف اسی جیل کے سیل نمبر 3 میں بند ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں وفاقی وزراء بتاتے ہیں کہ وہ بھی جلد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہوں گے ۔ اس بار نیب کی سعی کے پیچھے سیاسی قوت تحریک انصاف کی ہے۔ تحریک انصاف کے چیرمین کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین کی سند عطا کر کے ملک میں موجود چوروں اور ڈاکووں کا احتساب کرنے کا حق دے دیا ہوا ہے۔

احتساب ایسی پٹاری ہے جس کو سامنے رکھ کر مجمع لگایا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے پٹاری میں شیش ناگ ہے ۔ یہ تماشا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع کر دیا گیا تھا ۔ نئی نسل اس تماشے کو امید بھرے اشتیاق سے دیکھتی ہے ۔مگر اسے حقیقت کا احساس ہوتا ہے تو اس کی جوانی بیت چکی ہوتی ہے ۔ وہ مجمع چھوڑ کر چل پڑتی ہے تو نئی نسل نئی امیدوں سے تماشے کا حصہ بنتی ہے ۔ تماشا جاری ہے ۔۔۔
 

جمعہ، 1 فروری، 2019

صدارتی نظام اوراٹھارہویں ترمیم کاکانٹا

وجاہت مسعود

تیشہ نظر








اگر کوئی کہے کہ صدارتی نظام کی افواہوں میں
صداقت نہیں نیز یہ کہ حکومت اٹھارہویں آئینی ترمیم میں ردوبدل کا ارادہ نہیں رکھتی تو اس پر یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ حکومت کے سرکردہ ارکان مثلاً فواد چوہدری، فیصل واوڈا اور زرتاج گل ایک سے زائد بار اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بارے میں تحفظات ظاہر کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ فروری 2018 ءمیں خبر دی گئی تھی کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد سے صدارتی نظام کے قدیمی موید ڈاکٹر صاحب مسلسل صدارتی نظام کی وکالت کر رہے ہیں۔ اور اب 29 جنوری 2019ءکو روز نامہ جنگ ہی میں برادر عزیز نے بھی قائد اعظم کے جولائی 1947ء میں صدارتی نظام کو ترجیح دینے کا مفروضہ دہرایا ہے۔ گویا عرش سے فرش تک ایک ہی نور کی تجلی فروزاں ہو رہی ہے۔ موقع ہے کہ اس معاملے پر خاک نشینوں کی معروضات بھی قلم بند کر دی جائیں۔ دیکھنا چاہئے کہ صدارتی نظام کی وعید اور اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کیا ربط ہے؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپریل 2010ء میں دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا تھا۔ پارلیمانی نظام میں مقننہ کا ایوان زیریں اکثریتی رائے سے وزیر اعظم کا انتخاب کرتا ہے جو حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں فیصلہ سازی کا سرچشمہ وزیر اعظم کا منصب ہوتا ہے۔ صدارتی نظام کے حامی اختیارات کے منبع کو ایوان وزیر اعظم سے ایوان صدر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے والی اٹھارہویں ترمیم ان کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی مخالفت اور صدارتی نظام کی وکالت کے پس پشت وفاقی اکائیوں کو اختیارات کی منتقلی پر اعتراض کارفرما ہے۔ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے ایک طرف وفاقی وزرا اپنے اختیارات میں کمی پر ناخوش ہیں۔ دوسری طرف مالی وسائل میں صوبوں کیلئے مختص حصے میں اضافے سے ان صاحبان ذی وقار کو تشویش ہے جو مرکزی وسائل کے ذخائر سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ گویا یہ صوبوں اور مرکز میں اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم کی کشمکش ہے۔ اس جھگڑے میں قائد اعظم کو گھسیٹنے کا مقصد اپنے موقف میں وزن پیدا کرنا ہے۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد ایک ہی موقف بیان کیا کہ پاکستان کے آئینی خدوخال کا فیصلہ دستور ساز اسمبلی کو کرنا ہے۔ 21 مئی 1947 کو رائٹرز کے نمائندے ڈون کیمبل نے پاکستان کے مجوزہ آئینی بندوبست کے بارے میں سوال کیا تو قائد اعظم نے فرمایا’’ پاکستان کی مرکزی حکومت اور وفاقی اکائیوں میں اختیارات کی تقسیم کا فیصلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اختیار ہے، تاہم پاکستان کی حکومت عوام کی نمائندگی پر مبنی جمہوری نظام ہو گا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کو جواب دہ کابینہ حتمی طور پر رائے دہندگان کو جواب دہ ہو گی‘‘۔قیام پاکستان کے بعد 26 فروری 1948ء کو امریکی میڈیا کے نام پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ ’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو ملک کا آئین مرتب کرنا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس آئین کے حتمی خدوخال کیا ہوں گے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایک جمہوری دستور ہو گا جس میں اسلام کے بنیادی اصول مثلاً شہریوں کی مساوات اور انصاف سموئے جائیں گے۔ بہرصورت پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہو گا جسے مذہبی پیشوا کسی الوہی نصب العین کی روشنی میں چلائیں۔ ہمارے ملک میں ہندو، مسیحی اور پارسی موجود ہیں لیکن وہ سب پاکستانی ہیں‘۔
ان دونوں قابل تصدیق اقتباسات کی روشنی میں واضح ہے کہ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی پر اپنی رائے مسلط کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ تاہم انہوں نے پارلیمنٹ کو جواب دہ کابینہ اور وفاقی اکائیوں کا ذکر کر کے صدارتی نظام کا پتہ کاٹ دیا۔ اقلیتوں کی مساوی حیثیت کی حمایت اور مذہبی پیشواؤں کے اختیار کی نفی کر کے قائد اعظم نے سیکولر جمہوری پاکستان کا عندیہ دیا۔ قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی کابینہ اور وزیر اعظم کو اختیارات دے کر پارلیمانی نظام کی راہ ہموار کی کیونکہ پاکستان وحدانی ریاست کی بجائے ایک ایسے وفاق کے طور پر قائم ہوا تھا جس میں افراد کی بجائے صوبوں نے بطور وفاقی اکائی کے شمولیت اختیار کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں پالیمانی دستور کا مسودہ منظور کیا تھا۔ یہ آئین 25دسمبر 1954 ءکو نافذ العمل ہونا تھا لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے اپنے اختیارات میں کمی کو مسترد کرتے ہوئے 21 اکتوبر 1954ءکو دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔ نئی دستور ساز اسمبلی نے چوہدری محمد علی کی قیادت میں پارلیمانی نظام پر مبنی 1956ءکا آئین منظور کیا۔ اس آئین کے تحت فروری 1959 ءمیں انتخابات منعقد ہونا تھے لیکن اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958 میں دستور کی بساط لپیٹ دی۔ پاکستان کی پہلی فوجی امریت نے 1962ءمیں صدارتی نظام پر مبنی دستور مسلط کیا۔ اس دستور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔ جنوری 1965ءکے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کے منشور کا بنیادی نکتہ پارلیمانی جمہوریت کی بحالی تھا۔ 1973 ءمیں بچے کچھے پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں نے متفقہ طور پر 1973ءکا پارلیمانی دستور منظور کیا۔ 1977 میں آئین کی معطلی کے بعد جنرل ضیا الحق نے صدارتی نظام مسلط کرنے کا پیڑا اٹھایا۔ ان کی اس خواہش کے پیش نظر آئین کے شعبدہ باز شریف الدین پیرزادہ نے قائد اعظم کی ایک ایسی ڈائری دریافت کی جو لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر اور فاطمہ جناح کے علم میں بھی نہیں تھی۔ جنرل ضیا نے 12 اگست 1983 کو مجلس شوریٰ کے سامنے اس ڈائری کا انکشاف کیا۔ اس ڈائری کی حقیقت واشگاف کرنے کے لئے یہی پوچھنا کافی ہے کہ یہ ڈائری کہاں رکھی ہے اور اس کے باقی صفحات پر کیا لکھا ہے؟
جنرل ضیا نے آٹھویں ترمیم اور پھر جنرل مشرف نے سترہویں ترمیم کے ذریعے صدارتی انتظام مسلط کرنا چاہا۔ 2010ءمیں منتخب پارلیمنٹ نے پارلیمانی جمہوریت بحال کر کے وفاقی اکائیوں پر اعتماد ظاہر کیا۔ تاریخ کی اس باز آفرینی سے واضح ہے کہ پاکستان میں جمہوری ذہن مسلسل پارلیمانی جمہوریت کا حامی رہا ہے جب کہ جمہور دشمن قوتیں بار بار صدارتی نظام کا اشقلہ اٹھاتی رہی ہیں۔ پاکستان صدارتی نظام کے دوران ٹوٹا جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد سے صوبائی ہم آہنگی کی صورت حال بے حد اطمینان بخش ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کے اصول پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت دیتے ہیں۔ صدارتی نظام کے لئے دستور کو منسوخ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے ساتھ اس سے بڑی دشمنی ممکن نہیں۔ ہم جمہور کی اجتماعی فراست پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ذہانت کے خود ساختہ پتلوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔

دنیا میں ایسا بھی نہیں ہوتا!


ارشد وحید چوہدری




بچوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں اور ان کے کپڑوں پہ اپنے ہی ماں باپ کے خون کے چھینٹے ہمارے معاشرے کی وہ بھیانک تصویر ہے جس سے ہم لاکھ منہ موڑیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہمارے لاشعور سے کبھی مندمل نہیں ہوگی۔ سینکڑوں زرخیز ذہنوں کو جنم دینے والے میرے آبائی شہر ساہیوال کے نام نے شہرت بھی پائی تو ایسی کہ ہماری اجتماعی جہالت کو بیچ چوراہے میں ننگا کردیا۔ ہماری تہذیب پہ وہ طمانچہ مارا کہ جس کو جتنا بھی سہلائیں درد ختم ہونے والا نہیں ،ہمارے ضمیر پہ وہ بوجھ ڈال دیا جسے تاحیات اب سہنا ہوگا۔ جو مذہب ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے، اس کے ماننے والے تیرہ سالہ معصوم اریبہ اور اس کے والدین کو اس سفاکی سے پلک جھپکنے کی دیر میں چیونٹی کی طرح مسل دیں تو بچ جانے والے بچوں عمیر ،منیبہ اور ہادیہ کوہم کیسے جان کی حرمت کا درس دے پائیں گے۔گورنر پنجاب چوہدی سرورنے بجا فرمایا کہ ایسے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں لیکن کاش وہ قوم کو یہ بھاشن دینے سے پہلے ایسے واقعات کے رونما ہونے کے بعد ان مہذب معاشروں کے رد عمل سے بھی آگاہ کر دیتے جہاں ان جیسا کوئی حکومتی عہدیدار ایسی دیدہ دلیری سے متاثرین کے زخموں پہ نمک نہیں چھڑکتا، جہاں کوئی فیاض چوہان اس طرح کے گھنائونےجرم کے مرتکب افراد کو حکومت کی ترجمانی کرتے ہوئے کٹہرے میں کھڑے کئے بغیراگلے ہی لمحے بری الذمہ قرار نہیں دے دیتا، جہاں کوئی فواد چوہدری ریاست کا موقف دیتے ہوئے مقتولین کا خون خشک ہونے سے بھی پہلے ان کی بے گناہی پہ شک ظاہر نہیں کرتا، جہاں کوئی راجہ بشارت تحقیقات سے پہلے ہی معصوم افراد کو گناہ گار قرار دینے کا فیصلہ صادر نہیں فرماتا ، جہاں کوئی چیف ایگزیکٹو والدین اور بہن کو کھو دینے والے بچوں کو پھول پیش نہیں کرتا اور جہاں ماورائے عدالت قتل کرنے والے اہلکاروں کا اپنا ہی ادارہ اس طرح فرضی اور من گھڑت کہانی پہ مبنی سرکاری اعلامیے جاری نہیں کرتا۔ وطن کی مٹی سے کوسوں دور دیارغیر میں اپنی جوانی گزارنےوالے گورنر پنجاب کو اگر صاف گوئی کا اتنا ہی شوق تھا تو مہذب معاشرے کا یہ رخ بھی عوام کو بتاتے کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں اگر سترہ سالہ سیاہ فام انٹون روز، کار روکے جانے پہ خوف زدہ ہو کر بھاگنے کی کوشش میں پولیس افسر کی فائرنگ سےمارا جائے تو واشنگٹن انتظامیہ سمیت پورا امریکہ معصوم روز کی ہلاکت کا ذمہ دار خود کو تصور کرتا ہے، بوسٹن اور پنسلوینیا جیسی یونیورسٹیاں تحقیقاتی مقالے شائع کرتی ہیں جن میں یہ کھوج لگانے کی جستجو کی جاتی ہے کہ ایسے واقعات کے معاشرے بالخصوص سیاہ فام آبادی کی ذہنی صحت پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جہاں محض ایک پولیس اہلکار کو سزا دینے میں تمام توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے پولیس کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، اہلکاروں کی بھرتی سے، ان کی تربیت ، جانچ پڑتال اور شہریوں سے برتائو کے پورے نظام کو جدید خطوط پہ استوار کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا جاتا ہے، جہاں مستقبل میں روز جیسے بے گناہوں کی جان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایوان نمائندگان اور سینیٹ نئی قانون سازی کے لیے سوچ بچار کرتے ہیں ، چوہدری سرور صاحب جب آپ اور دیگر حکومتی ذمہ داران مسند اقتدار پہ بیٹھ کر ادھورا سچ بولیں گے یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں گے تو ساہیوال جیسے سا نحات رونما ہوتے رہیں گے۔ کاش آپ کی حکومت نے اس سے ہی سیکھ لیا ہوتا کہ رائو انوار کو بہادر بچہ قرار دیا گیا تھا تو معصوم اریبہ کو والدین سمیت اس سوچ کی بلی چڑھنا پڑا۔ جب تک ہم اپنے اپنے رائو انواروں کو تحفظ دیتے رہیں گے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھائیں گے تب تک ایسے سانحات ہمارا مقدر بنتے رہیں گے، دائرے کے اس سفر کی ذمہ داری ہم ایک دوسرے پہ ڈال کر کبھی منزل حاصل نہیں کر سکتے لیکن صد افسوس کہ طعنہ زنی کے اس رویے کی بدولت اس تاریک سرنگ کے آخرے سرے پہ بھی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ حسب روایت واقعے پہ تقاریر ہوئیں ، مذمت کی گئی اور پھر آستینیں چڑھا کر اور گلے پھاڑ کر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، کسی نے کسی کو سانحہ ماڈل ٹائون کا مرتکب قرار دیا تو کسی نے دوسرے کو سانحہ اے پی ایس یاد دلانے میں تامل نہیں کیا اور کسی نے سانحہ ساہیوال کے طعنے دے کر ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کا تاثر دیا۔ شور شرابے، احتجاج اور طنز کے دوران کسی طرف سے یہ آواز سننے کو نہ ملی کہ بس بہت ہو چکا اب 1861 کے پولیس نظام کو کسی عجائب گھر کی زینت بنا دینا چاہئے ،پولیس کو عوام کا حقیقی محافظ بنانے کے اقدامات کریں، کوئی قانون ساز پولیس اہلکاروں کی تربیت اور مجرموں سے نمٹنے سے لے کر کمیونٹی پولیسنگ کے قیام میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرتا نظر نہ آیا، کسی کو یہ تجویز دینے کی توفیق نہ ہوئی کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کے باعث ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ، کسی نے زندہ بچ جانے والے معصوم بچوں کی نفسیاتی بحالی کو ترجیح قرار دے کر مناسب اقدامات کرنے کی سفارش نہ کی، کوئی ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دینے کی ضرورت پہ زور دیتا دکھائی نہ دیا، کسی نے یہ سفارشات پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ایسے واقعات کے بعد متعلقہ اداروں اور حکومت کا رد عمل کس نوعیت کا ہونا چاہئے۔ سانحہ ساہیوال کے بعد قانون سازوں کی طرف سے ایک دوسرے پہ کی جانے والی اس طعنہ زنی پہ کوئی اچنبھا نہیں کیونکہ جب سوچ ہی یہ ہو کہ ایسے واقعات تو دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں تو پھر رویے بھی ایسے ہی جنم لیتے ہیں، یہاں صرف اتنی گزارش کہ گورنر پنجاب جیسے ارباب اختیار کاش پورا سچ بولیں کہ دنیا میں ایسے واقعات رونما ضرور ہوتے ہیں لیکن وہاں ان پہ سیاست نہیں کی جاتی بلکہ ان سے سبق سیکھا جاتا ہے۔