منگل، 30 جنوری، 2018

مالی خودمختاری


1984
 کی بات ہے کویت میں مقیم ایک پاکستانی خاندان اس وقت پریشانی کا شکاردیکھا جب ان کی پاکستانی خادمہ جو ان کے خاندان کے فرد کی طرح تھی ، پاکستان میں بعض ذاتی مجبوریوں کے باعث اچانک پاکستان چلی گئی،۶ افراد پر مشتمل اس خاندان کے سارے ہی افراد زندگی کی آسائشیں کمانے میں اس قدر مصروف تھے کہ ان کو سونے اورکھانے اور نمازکے لیے وقت نکالنا پڑہتا تھا۔ میاں صاحب نے عارضی طور پر دفتر سے ایک بنگالی لڑکے کو گھر بجھوا دیا اس کے باوجود کھانا ہوٹل سے آتا، کپڑے باہر سے استری کرائے جاتے وغیرہ اور جب میاں صاحب نے بتایا کہ خادمہ مل سکتی ہے مگر فلپائنی ہے اور غیر مسلمہ بھی تو سب نے رضامندی کا اظہار کیا۔ مگر پورے گھر کو جہاں ایک عورت سنبھالتی تھی اب دو عورتیں اور ایک مرد بھی اتنا کام نہ کر پاتے تھے۔ مگر میاں صاحب کی بیگم کو بڑی پریشانی ان کے غیر مسلم ہونے پر تھی ، تاجر میاں صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ بیگم کو ان کے مسلمان بنانے کا آئیڈیا دیا جوکارگرثابت ہوا ۔ فلپائنی دونوں عورتیں تو دو ہفتے میں ہی مسلمان ہو گئیں مگر سیالکوٹ سے بلایا گیا شفقت عیسائی ہی رہا۔
رمضان کے مہینے میں ان کے ہاں افطاری کے بعد با جماعت نماز کی امامت تو میاں صاحب نے کرائی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں اپنی اولا د اور نو مسلم خادماوں کی امامت میاں صاحب کی بیگم کرتی ہیں ۔ ان کے بیٹے اپنی ماں کا امام بننے کی جرات سے عاری تھے اور یہ پاکستانی تہذیبی اور خاندانی احترام تھا۔
ایک بارمیں نے دوبئی میں ایک مصریہ کی امامت میں اس کی کمپنی کے ملازمین کو نماز پڑھتے دیکھا تو سوچا اس کی مالی خودمختاری نے اس عورت کو مردوں کا بھی امام بنا دیا حالانکہ ان جاہل مردوں کے معاشرہ میں جس میں عورت کا وجود جنس کے علاوہ ہر قسم کی شرمندگی کا حوالہ تھا۔اور سبب بے توقیری کا مالی بے اختیاری تھی ۔ 
ایک فرد، جو خود میں ادارہ تھے، علم حال و مستقبل کے حامل تھے،جبریل ان کے ہاں حاضری دیا کرتے تھے، ان کی رضاعی ماں ان کے پاس آئے تو احترام میں چادر بچھا دیا کرتے تھے، رضاعی بہن کی خواہش پوری کر کے دشمنوں کو بھی حیران کر دیا کرتے تھے۔ اپنی بیٹی کے احترام میں خلاف معمول کھڑے ہو جایا کرتے تھے ، ان میں اتنی اخلاقی جرات تھی اپنی زوجہ سے محبت کا اقرار اپنی زبان سے کر لیتے تھے ۔
دوبئی میں مقیم مصر کی ام ایمن جب بتاچکی کہ اس کی کمپنی اس کے باپ کے ترکے میں اس کے حصے میں آئی تھی۔تو اس کی زبان پر نبی الامی کے لئے درود سلام کیساتھ ہمارے لیے پانچ منٹ کا لیکچر تھا
کل ایک دوست نے یہ تصویر شیئرکی ہے اس پر تبصرہ علماء دین کا منصب ہے 


اتوار، 28 جنوری، 2018

نیا اسلوب



شیخ الاسلام کے تبحر علمی کا اعتراف صوفیاء عظام کو بھی تھا گو علماء اس دور میں ہر قسم کی اعترافی بدعت سے مبرا رہے ۔مشائخ نے انھیں مسند ارشاد پر بٹھا کراپنے فیض سے نوازاان کا طوطی چار سو سلطنت بولنے لگاپھر حب
مال وجاء نے کروٹ بیداری لی تو شیخ نے کامیابی سے اس مرحلے کو بھی عبور کرلیاویزے،اقامے اور بدیسی پاسپورٹ جیب میں آئے۔لباس رہن سہن اور طرز عبادت کو نیا اسلوب عطا فرما کر مجددیت کا زینہ عبور کر ڈالااب جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے تو فوٹو گرافر تصویر بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا ہے۔ یہ کرم کے فیصلے ہیں یہ ادب کا مقام ہے

جمعرات، 25 جنوری، 2018

قاضی اور مولوی

تحریر: مظہر چوہدری


نہ جانے کیوں آج مجھے لودھراں کی وہ مظلوم خاتون یاد آرہی ہے جو اپنے شوہر اور دیگر اہلخانہ کیساتھ کراچی گئی۔اسے مزار قائد کے سیکورٹی منیجر نے موقع پاکر اغواکرلیا اور اپنے دفتر لے جاکر بے حرمت کر دیا۔ معاملہ مزار قائد کا نہ ہوتا تو شاید دب جاتا مگر بابائے قوم کے مزار پر ایسی گھنائونی حرکت پر پولیس بھی متحرک ہو گئی۔ ملزم پکڑے گئے ان کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔جس طرح آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا اسی طرح دس برس قبل پیش آنے والے واقعہ سے متعلق بھی استغاثہ کا یہی خیال تھا لیکن ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج شرقی جناب ندیم احمد خان نے یہ کہتے ہوئے ملزموں کو باعزت بری کر دیا کہ عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم نہیں کرتی اگر مدعیہ کے پاس تذکیۃالشہود کے عین مطابق چار گوا ہ موجود ہیں تو پیش کیا جائے ۔جج صاحب نے اپنے اس فیصلے کی تائید میں نہ صرف قرآن کی ایک آیت پڑھی بلکہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا حوالہ بھی دیا ۔15مارچ 2008ء کو سرزد ہونے والے اس جرم کا فیصلہ اپریل 2013ء میں سنایا گیا جبکہ تین ماہ بعد جولائی 2013ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ ڈی این اے کو زنابالجبر کے مقدمات میں بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جا سکتا

کرپشن پر تنقید


منفی سیاست
زینب کے والدمحمد امین انصاری صاحب، جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں کی طرف سے شروع میں بتایا گیا تھا کہ قصور کے اس وقت کے ڈی پی او نے ان سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی ۔ اور ٹی وی چینلوں پر اس الزام کی بار بار تشہیر کی گئی، اور ایک ممبر قومی اسمبلی نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں بھی اس کا ذکر کیا ۔ اب محمدامین صاحب نے اپنے ہی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ ڈی پی او ایک ایمان دار افسر تھا ، اصل قصور وار قصور کی ڈی سی ہے، ان کے خلا ف کاروائی ہونی چاہیے۔ اس سے قبل محمد امین صاحب نے جے آئی ٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا تو فوری طور پر ان کو سربرائی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس میں اپنا مائیک بند کرنے کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو علاقے کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جہاں زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہاں زینب کے نام سے منسوب ہسپتال بنایا جائے۔
قصور میں ہونے والے درندگی کے واقعات میں متاثرہ لڑکیوں کے لواحقین میں سے عقب معراج کے والد سلامت کا کہنا ہے کہ ْ ہمارے دل کو تسلی تب ہی ہو گی جب بچی کا قاتل ہمارے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کرے ْ

نور فاطمہ کے چچا آصف رضا کا کہنا ہے ْ اگر یہی مجرم ہے تو ڈی این اے میچ کرنے کی کاپی ہمیں دی جائے ْ

عاٗشہ کے والد محمد آصف کا کہنا ہے ْ جب تک خود ملزم سے مل کر تسلی نہ کر لیں اس وقت تک پولیس کا دعویٰ تسلیم نہیں کریں گےْ ْ
یہ چند خیالات ہیں جو ان شخصیات کی ہمارے دوست شہریار صاحب سے بات چیت کے دوران سامنے آئے ہیں

پولیس کا کردار
ْ بد سے برا بد نام ْ کی سولی پر لٹکتی پنجاب پولیس کے خلاف بطور ادارہ اور اہلکاروں ک خلاف بطور فرد اس قدر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ اخلاق و حدود کی تمام فصیلیں ہی ڈھا دی گئی ہیں ۔یہ الزام تو آپ نے بھی سنا ہو گا کہ قصور کے سابقہ ڈی پی او نے زینب کے لواحقین سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی، بدھ والے دن زینب کے والد محمد امین انصاری نے اسی ڈی پی او کے بارے میں شہریار سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ ایک ایمان دار پولیس افسر تھا اور یہ کہ اسے قصور میں واپس لایا جائے۔
پکڑے گئے ملزم عمران کو جب پولیس نے گرفتار کرنا چاہا تو اس وقت کہا گیا کہ پولیس اس کیس میں ہمارے عزیزوں کو ملوث کرنا چاہتی ہے اور مقامی تھانیدار کے بارے میں ان کے کرپٹ ہونے کی پوری داستان پیش کی گئی۔اور جب میں نے اس وقت عرض کیا کہ پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو ْ معززین ْ نے نون لیگی اور پولیس کا ْ ہمدردْ ہونے کا طعنہ دیا ۔ اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم کسی صورت ْ اپنے بندےْ کو گرفتار نہ ہونے دیں گے۔بالآخر وہی ْ اپنا بندہ ْ ہی درندہ نکلا۔
ہمارے جذباتی معاشرے میں انسانی سانحات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا نئی بات نہیں ہے مگر یہ عمل غیر پسندیدہ ہی نہیں بلکہ قابل اصلاح ہے اور معاشرے کے ہمدردوں کو اس کے لیے اپنی آواز جہاں بھی اور جیسے بھی ممکن ہو بلند کرنی چاہیے۔
عوام سے خوف زدہ اشرافیہ
قصور میں زینب کے والدین کی عدم موجودگی میں نماز جنازہ کے بعد دوران دعا جو الفاظ اور لہجہ اختیار کیا گیا اس کے فوری اثرات شام تک ہی ٹی وی کی سکرینوں کی زینت بن چکے تھے ، ان عوامل نے مگر خوف زدہ اشرافیہ کو نہ صرف دیوار کے ساتھ لگا دیا بلکہ مقامی سیاسی اشرافیہ کے ڈیرے پر آتش زنی کے واقعہ نے سیاسی رہنماوں کی زبان کو بھی خاموش کرا دیا۔یہاں مقامی نون لیگی منتخب رہنماء اپنے سیاسی وزن کے بھاری بھر کم ہونے کے مغالطے کا شکار ہو گئے ۔ اور یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ وہ اپنے منصب کی بے توقیری کے خود ہی مجرم بن گئے۔ 
یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے ہمارے منتخب رہنماوں کو ، ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا پارٹی سے ہو، اس حقیقت کو ہر صورت مد نظر رکھنا چاہئے کہ علاقے کی اکثریت ان کو منتخب کر کے اپنا سیاسی وزن ان کے ہاں گروی رکھتی ہے اور ووٹ کی طاقت سے چنے گئے لیڈر ایسے موقع پر اپنا قد و وزن قائم نہیں رکھ پاتے تو ان کے بارے میں ان کی پارٹیوں کے سربراہ کو سوچنا چاہئے ۔ 
بے خوف اور نڈر لیڈر شپ کے بغیر ْ نادیدہ عناصر ْ لوگوں کو قوی دکھائی دیتے ہیں اور معاشرتی رہنمائی میں ْ طاقت ور ْ رہنا ہی اصل لیڈر شپ ہوتی ہے ۔ سیاسی کھیل میں ْ بھٹو ْ کو جب عوام نے بے بس مان لیا تب ہی ان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا گیا تھا۔ نواز شریف قانونی طور پر نا اہل ہو کر بھی ْ سخت ہڈی ْ اسی لئے ہے کہ انفرادی طور پر
ْ بہادر ْ ہے ۔
عمران خان کے خلاف اداروں کے سمن، وارنٹ اور اشتہاری قرار دینا محض اس لئے کاغذ کے ٹکڑے ثابت ہوئے کہ وہ اپنے سیاسی قد کا احساس دلانے میں کامیاب رہے۔ ووٹ کی طاقت کا ادراک کرنا اور اس کو انفرادی بہادری کا چارہ بنانا ہی سیاست کی اصل ہے اور قصور میں عوام کی ووٹ کی طاقت کے علمبردار اس امتحان میں بالکل بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ضلع بھر کے ممبران قومی و اسمبلی کو اگر ْ بکری ْ گردانا جاے تو رانا ثنا اللہ صاحب کو سیاسی ْ سانڈ ْ ہی کہا جائے گا ۔
اصل سبق ، جس کی باربار اور ہر بار نشان دہی کی جاتی ہے ، جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کا اصل سبب ہے ، اور جو خرابیوں کی جڑوں میں سب سے موٹی جڑ ہے۔ہم اپنی نجی محفلوں میں اس کو خرابی مانتے بھی ہیں مگر اجتماعی فیصلوں میں ہماری انفرادی سوچ ابھر نہیں پاتی۔
پنجاب پولیس یا سندھ پولیس کو بطور ادارہ مطعون کرنا زیادتی ہے تو یونیفارم پہن کر غیر قانونی اعمال کا مرتکب اہلکاروں اور افسران کا کھوج لگانا اور بے نقاب کرنا معاشرتی جہاد ہے۔ عدلیہ ہماری پگڑی کا شملہ ہے تو ججوں کے ذاتی فیصلوں پر تنقید خود ہمارے چیف جسٹس صاحب نے کر کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی ہے،سیاسی جماعتیں ہمارے معاشرتی ادارے ہیں ۔ ان میں شامل کسی فرد کے نظریا ت سے اختلاف کو زندگی و موت کا مسئلہ بنا لینا حماقت کے سوا کیا ہے۔ 
اپنے اداروں پر تنقید میں اس اصول کو مد نظر رکھنا چاہے کہ کرپٹ افراد پر کھل کر تنقید کریں مگر ملکی اداروں کے تقدس کو مجروح نہ ہونے دیں ، ہمارے ادارے ہمارے معاشرے ہی کا حصہ ہیں، ان میں بھی کالی بھیڑیں ہیں ۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے جو ان کالی بھیڑوں کے خلاف میدان عمل میں اتر کر ثبوت سامنے لاتے ہیں۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ معاشرے میں جس ادارے کا جو کام ہے اسے پوری ذمہ داری سے کرنے دیا جائے۔

اتوار، 21 جنوری، 2018

مریکہ اور پاکستانی پولیس

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تواس کے عزم کا رخ مسلمان ممالک کی طرف تھا۔ جب حکمرانوں پر دباو بڑھا اور ان کی سانس پھولنا شروع ہوئی تو دھیمے لہجے میں استفسارشروع ہوا کہ دہشت گردی کی تعریف کر کے بتائی جائے ۔ تعریف تو نہ بتائی گئی مگر ملکوں ملکوں دہشت گردی کے خلاف قانون بننا شروع ہو گئے۔ پاکستان میں بھی یہ قانون بنا کر رانجھا راضی کر لیا گیا۔ اگرامریکہ نیاسلامی ممالک پر اس قانون کو دہاندلی سے استعمال کیا تو مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے مقامی قانون کو اپنے عوام پر نافذ کرکے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ مگر اس ناقص حکمت عملی کوجہاں امریکہ نے اپنے کرپٹ حلیف حکمرانوں کے ذریعے نافذ کرکے بے گناہوں کے خون مین ہاتھ رنگے وہاں پاکستان میں اس قانون کو پولیس نے اس عجلت میں بنائے گئے قانون کے نفاذ میں اتنا خون بہایا کہ دہشت گرد ہی ختم ہو گئے مگر پولیس کا جذبہ مانند نہیں پڑہا ۔ شروع میں جب کہا گیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پیسہ بنانے اور ذاتی مخالفتوں کو مٹانے کا دہندا شروع ہو گیا ہے تو اس آواز پر کسی نے کان ہی نہ دہرے ۔ پھر یہ تماشا شروع ہوا کہ پولیس دہشت گردی کے الزام میں بندہ مارتی اور وہ بعد میں بے گناہ ثابت ہوتا مگر سرکار نے ْ مٹی پاو ْ کی پالیسی جاری رکھی اور قاتلوں کا حوصلہ بڑہتا گیا۔ان کیسوں میں قاتل سرکاری اہل کار اور مقتول بے دست و پا و وسائل سے عاری عوام ہے۔ مگر عوام کی سنائی سرکار کے ہاں نہیں ہے، موم بتی مارکہ سول سوسائٹی کو مخصوص نوعیت کے کیس کی حمائت سے فرصت نہیں ہے، عجب تماشہ ہے ہمارے ادارے دوسرے اداروں کو تو ٹھیک کرنے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں مگر اپنی ادارتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کی چیخ و پکار اہمیت ہی کھو چکی ہے۔نا امیدی سے منع فرمایا گیا ہے ورنہ حالات مایوس کر دینے والے ہی ہیں۔برطانیہ کے گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 
2015
میں پاکستان میں پولیس مقابلوں میں 
2018
افراد مارے گئے ہیں۔پاکستان کے ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سال
2016
صرف سندھ میں مارچ اور جولائی کے دوران صرف چھ ماہ میں 
732
پولیس مقابلوں میں 
160
بندے پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے
اعداد و شمار کی فہرست طویل ہے ، اور انسانی زندگی مختصر ، اور قیمتی بھی ،آدم کی اولادزمین پر اللہ کا نائب ہے۔ اخلاق، قانون، منت سماجت، نصیحت کو نہیں مانتے ہو ۔ خدا کی پکڑ مگر بہت سخت ہے

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

اپنی ذات کا عاشق

یاسر پیرزادہ کی تحریر

ابن عربی اور رومی کی صوفیانہ تعلیمات نے اس مرد با کمال کو سلوک کی تمام منازل
 ایک ہی جست میں طے کروا دی ہیں، یہ اپنی ذات کا عاشق اور خود اپنا ہی محبوب ہے، یہ بولے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں، یہ روزانہ صبح آئینے میں خود کو دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ تمہارے والدین کس قدر خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے تمہیں جنم دیا، اس کا ہر عمل اس کا ہر فعل اس کا ہر قول ابن عربی اور رومی کے فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ابن عربی کا پرتو، رومی کا معشوق اگر کسی نے دیکھنا ہو تو پاکستان کے اس ہیرو میں دیکھ لے، من کی مراد پا لے گا۔ من کی مراد پانے کے لئے ہمارے اس ہیرو نے درویشی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، جس کے مطابق یہ اور اس کے پیروکار اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں، جو ان کی خواہشات میں رکاوٹ بنتا ہے، یہی درویشی ہے یہی عیاری۔

مجیب الرحمن اور نواز شریف



نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں مجیب الرحمن کا ذکر کر کے جہاں پاکستانیوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے وہاں سیاسی مجمع بازوں نے اس موضوع کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
16 December 1971 
کے بعد پاکستان کی سیاست میں کافی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور بعض تبدیلیوں کی ابھی تک مزاحمت جاری ہے۔ پاکستان میں مقتدر قوتوں اور عوام نے اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمارے ایسے سیاستدان جو ڈرائنگ روم کی سیاست والی اشرافیہ لیگ کے ممبر ہیں اور پاکستان میں کرسی کی سیاست کے علمبردارہیں , نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں اور تاریخی حقیقتوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے کوے کے کالے رنگ کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔شائد اسی لئے بنگلہ دیش نے ایسے پاکستانی سیاست دانوں کے مجیب الرحمن کی ذات کے متعلق بیانات پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ 

شیخ مجیب الرحمن جو بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم تھے ، نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 
1940
میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنس فیڈریشن سے کیا تھا. 
1943
میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر حسین شہید سہروردی کے معتمدبن گئے، اور تحریک پاکستان کی جدو جہدمیں بنیادی کردار ادا کرنے والے کارکنوں میں شامل تھے۔
1947
میں قیام پاکستان کے وقت وہ حسین شہید سہروردی کے قریبی قانون دان ساتھی تھے۔پاکستان بننے کے بعد انھوں نے مشرقی پاکستان سٹوڈنس بنائی ۔
1948
میں قائد اعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے دوران اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کی مخالف آواز مسلم لیگ کے اندر سے سب سے توانا آواز مجیب الرحمن کی تھی۔
1958
میں ایوب خان کے مارشل لاء کی مخالفت کی اور ۸ ۱ ماہ جیل میں رہے۔
1963
میں سہروردی اور
1964
میں خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد سیاسی خلا کو مجیب ہی نے پر کیا 
1965
میں ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی اور ۵۶ کی جنگ میں پاکستانی افواج کے ساتھ یک جہتی اور حمائت کا اعلان کیا۔
1966
میں لاہور میں چوہدری محمد علی کی معاہدہ تاشقند کے خلاف بلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران مجیب نے اپنے چھ نکات کا اعلان کیا۔
مجیب کے چھ نکات
۔ ملک مین پارلیمانی نظام ہو گا اور مرکز میں قانون سازی کے لیے نمائندگی کے لیے بنیاد آبادی پر ہو گی۔
۔ مرکز کے پاس خارجہ، دفاع ، کرنسی اور خارجہ کے محکمے ہوں گے، مالی معاملات کو صوبے طے کریں گے۔
۔ مشرقی اور مغربی صوبوں کے لیے الگ الگ فیڈرل ریزرو مالیاتی سسٹم ہوں گے یا کرنسی علیحدہ علیحدہ ہو گی۔
۔ ٹیکس اکٹھا کرنا صوبائی معاملہ ہو گا البتہ مرکز کو دفاع سمیت دوسرے محکمے چلانے کے لیے خاطر خواہ فنڈ مہیا کیا جائے
گا۔
۔ دونوں صوبوں کے لیے علیحدہ علیحدہ فارن کرنسی ونگ ہوں گے۔
۔ مشرقی ونگ کے لیے علیحدہ پیرا ملٹری فورس ہو گی۔

مجیب نے اپنے مغربی پاکستان کے ایک دورے کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ یہ بیان اس دور کی سیاست کا اہم موضوع بنا ، سول اور عسکری معاشی اخراجات پر بحث ہوئی، اور سوشل ازم کے عروج کے دور میں یہ سیاسی بیان امیر اور غریب کی تقسیم کو اجاگر کرنے کی بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
1200
میل کے فاصلے کو اجاگر کرے کا سبب بنا ۔ علاقی تعصب بمقابلہ ادارتی تعصب عروج پر پہنچا ۔الیکشن کے نتیجے میں 
169
میں سے 
167
نشستیں جیتنے والے ، اور اعلان کے باوجود اقتدار مجیب کے حوالے نہ ہو سکا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی، فوجی کاروائی شروع ہوئی ، مکتی باہنی کی آڑ میں مسلح جتھے بھارت سے آنا شروع ہوئے۔
10 Aril 1971
کو ْ مجیب نگر ْ نامی آزاد حکومت بنی اور 
16 December 1971
آزاد بنگلہ دیش بن گیا۔

ہم یہاں ایک ایسے کردار پر بحث کر رہے ہیں جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا مگر سیاسی اور معاشی نا انصافیوں نے اسے ملک توڑنے والی قوتوں کا سر غنہ بنا دیا۔ مجیب کو ملک دشمن، غدار یا جو بھی کہیں ، کہنے والوں کو حق ہے ۔اور اس کا دفاع کرنا بنگلہ دیشی حکومت کا حق ہے مگر ہمار حق ہے کہ ہم اپنے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں۔ اور پاکستان کے اور خود پاکستانی عوام کے مفاد میں اس حقیقت کا ادراک کریں
۔ ملک کے اندر ادارے اپنے طے شدہ آئینی دائروں کے اندر رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۔ ملک کے اندر دولت کی غلط تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیوں کو بلا دست طبقے سیاسی اور مذہبی اختلاف میں
ڈہال کر عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس تقسیم کی اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے خلوص
کے ادراک کی ضرورت ہے۔
۔ معاملات اقراء پروری اور ذاتی مفادات کی بجائے میرٹ پر نمٹائے جائیں۔ 
۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے اور حکومت بالا دست طبقات کی لونڈی بننے کی بجائے غریب اور بے سہارا لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے زیردست کا بازو بنے۔
۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و دوستی کو فروغ دینا چاہیے ۔

عوام کے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل ملک کے جغرافیائی تحفظ کے احساس اور استعداد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کے دفاع کے امین اداروں کو خالص اسی مقصد کے لئے فارغ کر کے ہی ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔

ملک کے اندر شہریوں کو دہشت گرد ، غدار وطن اور کافر قرار دینے کی روش جاری و ساری ہے، جاتی امراٗ کے حکمرانوں کو غدار وطن قرار دینا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنا، مولانا فصل الرحمن کو زر کا پجاری بتانا ، زرداری کو کمیشن ایجنٹ مشہور کرنا سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھ کنڈے ہیں ۔ اور ہتھ کنڈے نہ پہلے کامیاب ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔ البتہ معاشی محرومی ایسا عنصر ہے جو غداراور کافر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لیے محسن انسانیت ، نبی اکرم، خاتم المرسلین صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غربت سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

جمعہ، 19 جنوری، 2018

علامہ خادم رضوی بقابلہ بیس روپے


اخباروں میں قومی اسمبلی کی رپورٹنگ میں بتایا گیا کی جمعرات والے دن وزیر خارجہ محمد آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی ٰئی کے غلام سرور خان کی طرف سے مداخلت پر عابد شہرعلی نے لقمہ دیا
ْ خاموش بیٹھو ، عمران خان نے تجھ پر بھی لعنت بھجوائی ہےْ 
جس پر سرور خان چپ تو ہو گئے مگر ان کے چہرے پر ابھرتی ناگواری نے بہت کچھ کہہ دیا۔ بہت کچھ تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اسمبلی کے فلورپر کہا ہے، اور آصف زرداری کی لاہور میں تقریر کے فوری بعد بلاول کے ٹویٹ نے پارلیمنٹ کے حق میں ٓواز اٹھائی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹویٹ سے نا قابل توقع قسم کے کام لئے جا رہے ہیں۔ بلاول کا ٹویٹ بروقت اور کارگر رہا جو بے نظیر کی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں کو حوصلہ دے گیا جو جمہوریت کے علمبردار ہیں۔پیپلز پارٹی نے اسلام آباد کے تین ماہ پر محیط دھرنے کے دوران جمہوریت اورپارلیمنٹ کے دفاع میں جو موقف اپنایا تھا۔زرداری صاحب کی تقریر کے باوجود عوامی سطح پر بلاول اور پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر نے اپنے ذریعہ اظہار کے ذریعے پیپلز پارٹی کے بیانئے کو بر وقت سنبھال لیا۔
قادری صاحب اپنے خطابانہ جوش میں بہت ساری ایسی باتیں فرما جاتے ہیں جو دوسروں کی راہ آسان کرتی ہیں ۔ موجودہ دور میں لفظ ْ لعنت ْ کے استعمال کے بہت ارزاں ہو جانے کے باوجود اس کا ْ جچا تلا ْ استعمال ان ہی کو زیبا رہا۔البتہ عمران خان نے جب لاہور میں اس لفظ کا استعمال پارلیمنٹ کے لئے کیا تو ووٹ کی طاقت کے مبلغین حیرت زدہ ہوئے تو پارلیمنٹ کے اندر ان کے ساتھیوں کی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔ شیخ رشید نے دریاے سندھ اور دریائے اٹک سے اپنے استعفیٰ کی صورت میں جو نہر نکالنے کی راہ دکھائی ہے، وہ بھی کوئی راہ روشن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کو کیا جواب دیں اور سرور خان جیسے صحرائے سیاست کے تجربہ کار مسافر کو بھی وقتی طور پر پھبتی کے جواب کے لئے الفاظ نہ مل پائے۔عمران خان کو بقول خود کے دھرنوں کی سیاست کے بعد جو تجربہ حاصل ہو گیا ہے اس تجربے کو پارلیمانی پارٹی کے مشورے کے بغیر چنے گے الفاظ ، پارلیمنٹ میں خود ان کے ساتھیوں کو زچ کر گیا۔
بھرے جلسہ میں خان صاحب نے شیخ رشید کی استعفی ٰ دینے کی آفر پر غور کرنے کا کہہ کر کیا شیخ رشید کے اس دعوے کو سچ کر دیا ہے کہ خان صاحب سیاست کے کھلاڑی اور شیخ صاحب کوچ ہیں۔
سیاسی مبصرین اور اخباروں کے رپورٹر اور چینلوں کے کیمرے لاہور کے اس شو کو ناکام قرار دے دینے کے بعد یوں لگتا ہے کہ نون لیگ نے دفاعی حکمت عملی کے ذریعے بغیر میدان میں اترے کامیابی اپنے نام کر لی ہے۔ بے شک اس کامیابی کے بعد پنجاب حکومت ، قادری صاحب کی طرف سے مزید کسی یلغار کی تشویش سے بھی نکل چکی ہے۔کہ اس جلسے میں مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی اور لاہور کی تاجر تنظیموں کی کھلی حوصلہ شکنی نے ، شہباز شریف کی پوزیشن کو سہارا دیا ہے۔
شہباز شریف ،جن کو نون لیگ اپنا مستقبل کا وزیر اعظم مان چکی، مقتدر قوتیں اپنی نیم رضامندی کا خاموش اظہار کر چکیں، کے لئے اب بھی بزرگوں اور روحانی شیوخ سے فیض لینا باقی ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہی عوام دیکھ لے گے۔اس کے بعد الیکشن تک سیاسی ہلچل دریائے راوی کا روپ دہار لے گی کہ نہ پانی ہو گا نہ طوفان اٹھے گا ۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ پنجاب کے سیاست کے دریا میں اصل جوار بھاٹہ الیکشن سے پہلے اٹھے گا ۔ عمران خان کا سونامی 
2013 
میں نون لیگ کا نقصان کئے بغیر گذر گیا تھا مگر علامہ خادم حسین رضوی کا طوفانی بگولہ جس جولانی سے اٹھنے کو مچل رہا ہے اس سے نون لیگ کا بچنا کرامت ہو گا مگر اس بارسارے ہی صاحبان کرامات کا فیض علامہ صاحب کے ساتھ ہے ۔
رہ گئی دو روٹی کو ترستی اور بیس روپے میں میٹرو میں سفر کرتی عوام تو اس بار ایک بڑی اکثریت ْ عمر بن خطاب کے معاشی بیانئے ْ اور میٹرو کے ْ بیس روپےْ میں تقسیم ہو جائے گی۔

پیر، 15 جنوری، 2018

گیارہ ستاروں میں قطبی ستارہ


لاہور میں سیاسی اکابرین خواب بھی دیکھتے ہیں اور ان پر عذاب بھی یہیں نازل ہوتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستارے اور گیارہ پارٹیوں کی یاد سترہ جنوری کو پاکستان کے زندہ دلوں کے اسی شہر میں تازہ کی جائے گی۔

نوابزادہ نصراللہ خان کو تانگہ پارٹی کا لقب دیا گیا تھا مگر ان کے سیاسی قد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید نے علم نجوم کے ذریعے ٹی وی کے چینلوں کوریٹنگ کے بہت تحفے دیے مگر سیاسی لیڈر جب تک ووٹ نہ جیت سکے اس کو مخالفین کے طعنے ہی مار دیتے ہیں۔اسلا�آباد میں ایک سیاست دان نے سامنے بٹھا کر کہا کہ تمھاری بولتی تمھارے گھر میں آ کر بند کی ہے ۔ مگر موجودہ ٓوازوں میں بلند تر آواز شیخ صاحب ہی کی ہے۔ 

موجودہ گیارہ ستاروں میں قطبی تارہ طاہر القادری کی ذات کی ہے۔ شریفوں کی اتفاق مسجد سے اڑان کے بعد طائر نے پنجاب کا لباس اتار کر عربوں کی ْ توپ ْ اور ترکوں کی "ٹوپی " پہن کر پاکستان کے پاسپورٹ کو بھی خیر آباد کہہ دیا تو برطانیہ میں ان کے مالی معاملات زیر بحث آئے ۔ اور یہ خوف ابھرا کہ پاکستان میں قران کی راہ منور کرنے پر لوگوں کا ایثار مایوسی پا کر چراغوں کو گل بھی کر سکتا ہے مگر عالم کی جب پانچوں گھی میں ہوں اور خوراک مین باداموں کے کشتے بھی شامل ہوں تو علم کا نور منور ہوتا ہے، اور قادری صاحب تو فلسفے اور منطق کے شارح ہیں۔

ہماری امیدوں کے مرکز اور انقلاب کے سرخیل کپتان کا پہلا کارنامہ 
Electables 
کا باسی اچاراکٹھا کرنا ، دوسرا اپنے نظریاتی جانبازوں کو دیوار کے ساتھ لگانا تیسرا نظریات اور جدوجہد کی بجائے تعویزوں اور پہاڑوں کی بلندیوں پہ چلے کاٹنا۔ سیاست کے بابوں کی تنقیدی سوچ کی اقتداء مگر اسد عمر جیسے منظم کی موجودگی میں جلسوں کی افرادی قوت کو ووٹ کی طاقت میں نہ بدل سکنا، اور سب سے بڑھ کر منفی تنقید اور نا مانوس بیانئے نے سنجیدہ ہمدردوں کو مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ حلق کی پوری قوت کے ساتھ آپ کے بیانیے کو الیکٹرانک میڈیا اور قلم کی پوری طاقت سے پرنٹ میڈیا میں عوام کو سمجھانے والے آپ سے شاقی ہیں۔ جناب آپ ناکام ٹولے میں گھرکر مخلصین سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں اور آپ کی میڈیا ٹیم کی کار گذاری یہ ہے کہ اس نے نئے پاکستان کے نعرے کے علمبردار کو کرسی کو ترستا شخص بنا دیا ہے ۔ البتہ ضد نے آج تک اور کس کی راہ سہل کی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر محترم صادق اور امین ہونے کے باوجود اپنے روائتی ووٹر سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ سیاست قریہ بلا ہے ، قاضی اللہ کو پیارے ہو چکے اور جس طلسم کے لوگ گرویدہ تھے وہ طلسم ٹوٹ چکا مگر جماعت اسلامی محدود سیاسی ووٹ بنک کے باوجود اپنا مقام رکھتی ہے ،کپتان نے جو فیض حاصل کرنا تھا کر چکے۔ اب کے جماعت اپنے اصل کی طرف پلٹے گی مگر مال روڈ پرنکلنے والی بارات میں جماعت کی افرادی قوت محدود ہی رہے گی۔ 
زرداری کی پیپلز پارٹی کو بے نظیر بھٹوکے بیٹے کی پارٹی بننے میں وقت درکار ہے اور فی الحال لاہور میں وہ قحط الرجال کا شکار ہے۔
لاہور میں یہ اجتماع شہباز شریف کی سیاسی زیست کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا تھا ۔مگر سیاست بڑا بے رحم کھیل ہےْ ۔ بازی گروں نے بازی زبردست بچھائی ہے ۔یہ بازی مگرشطرنج کی ہے ۔ غلط چال کا ادراک کھلاڑیوں کو فروری کے مہینے میں ہوگا ۔ ناکامی کا بوجھ مگراناڑی پر نہیں ، کھلاڑی پر ہی ہوتا ہے۔

لال حویلی سے اٹھایا گیا یہ تاثر اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہاہے کہ فوج اور عدلیہ بطور ادارہ کپتان کی پشت پر ہیں۔ اس رنگ بازی نے ان دو اداروں کو جو چونا لگایا ہے اس کے بعد ان اداروں میں اگر کوئی ہمدرد تھا بھی تو اب نہیں ہے۔

اتوار، 14 جنوری، 2018

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں  اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

مضبوط قلعہ کا کمزور مقام


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ 
اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا تو طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔
بر صغیر میں ایک گروپ قادری صاحب کی سوچ سے بھی تیز تر نکلا ۔ یہ گروپ جو بر صغیر میں ٹائی مگر یورپ پہنچ کر ٹائی اتار کر ٹوپی پہن لیتاہے ۔ 
کتنی بڑی محنت وکوشش وجدو جہد ہے دین کی تبلیغ کی , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ 
پتلون پوشوں پر پاکستان اور برطانیہ میں لگے جنسی دھبے ,اور ٹائی پوشوں کے برطانیہ میں حالیہ جنسی سکینڈل کے بعد معلوم ہوا دین کے مضبوط قلعے کی کمزور دیوار کا نام جنسی بے راہ روی ہی ہے ۔ 
مذہبی جنسی بے راہ روی کو انگریزی میں سوچیں تو الفاظ بھیانک دکھائی دیتے ہیں۔ 
اللہ کا حکم البتہ یہ ہے کہ اس کے کلام کی تلاوت سے قبل تعوذ کا ورد کر لیا جائے

عقلی میزان بمقابلہ اجتماعی ہاہاکار


سوچنا ، سمجھنا ، عقل کی میزان میں تولنا، فیصلہ کرنا، اور ۔۔۔ فیصلہ ہمارے جذبات سے ٹکرا جائے تو اپنی عقل کے فیصلے ہی کو دیوار کے ساتھ دے مارنا۔ یہ عمل اگر انفرادی طور پر غلط ہے تو اجتماعی طور پر بھی قال قبول نہیں ہو سکتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایسے عمل کوماہرانہ سعی سے قابل قبول بنا کر اپنے فن کی داد وصول کی جاتی ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ بن جاتا ہے۔

اور یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی چلن بن چکا ہے۔غصے کا تعلق محرومیوں ،معاشرتی نا انصافیوں اور پیٹ کی بھوک سے جوڑا جاتا ہے۔مگر ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ ہمارے ماہرین نہائت کامیابی سے اس غصے کا رخ اپنے مخالفین کی جانب موڑ دیتے ہیں۔یہ جو کہا گیا تھا کہ علم معیشت کی نئی راہیں کھولتا ہے تو اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ نئی راہیں تخلیق کرنی پڑتی ہیں اور ہر نئی راہ کی ایک منزل بھی ہوا کرتی ہے لیکن اس نئی منزل کی معاشرتی اقدار بھی اب ماہرین ہی طے کیا کریں گے۔

 اپریل 1985 کوکراچی میں بشریٰ زیدی نام کی ایک 20 سالہ لڑکی کو ایک تیز رفتار منی بس نے اسے کچل دیا۔مہاجر گھرانے کی بشریٰ کی موت پر احتجاج شروع ہوا ، مہاجر پشتون کشمکش میں کتنی جانیں گئی کتنے زخمی ہوئے اور کتنا معاشی نقصان ہوا سو ہوا مگر علاقہ میں کرفیو نافذ رہا ۔حتیٰ ناظم آباد کے ہر گھر میں ایک بالٹی پانی ہر وقت موجود رہتا تھا کہ کسی بھی وقت شروع ہو جانے والے آنسو گیس سے بچاو کیا جا سکے۔البتہ عشروں بعد جب بشریٰ کا خاندان بیرون ملک مقیم ہو گیا تو معلوم ہوا بس کا ڈرائیور تو کشمیری تھا۔اور علاقے کے لوگ سیاسی طور پراستعمال ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ، ڈھیر میں سے ایک مثال ہے کہ کیسے عام آدمی شاطروں کے منصوبوں کی بھٹی کا ایندہن بن کر خاکستر ہوتا ہے

سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور کارکنوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا مقصد حاصل کریں گے ۔البتہ مذہبی جماعتیں جو دین کے نام پر قائم ہیں اور اپنا مقصد دین کی ترویج بتاتی ہیں ۔ ان سے منسلک لوگ سیاسی طور پر معصوم مگر دینی پر پر مخلص ہوتے ہیں۔جب ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت علمائے پاکستان ، مثال کے طور پر مذہبی مزاج کی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر کبھی کوئی معترض نہیں ہوا۔ منہاج القرآن کے ادارے کے سربراہ جناب طاہر القادری صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر سب کے رو برو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا تھا ۔ ان کی دینی خدمات کے صلہ میں ، اور سیاست میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر یقین کر کے ، مسلمانوں نے ان پر ہن نچھاور کر دیا مگر کچھ سالوں بعد ہی ان کے معاشی اسکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لوگوں کی شکایات سامنے آئیں کہ ان کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور وہ قادری صاحب کے اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہیں۔ اس پر جب ادارے کے اندر سے آواز بلند ہوئی تو ان کو ادارے میں تنظیم کے نام پر چپ کرایا گیاتو کئی لوگ جو اہم تنظیمی عہدیدار تھے ، انھوں نے شیخ الاسلام صاحب سے دوری اختیار کر لی۔مگر اب قادری صاحب کے پاس وسائل کی کثرت اور تشہیر کا وسیع میدان ہونے کے باعث چند دینی اور شفاف ذہن کے لوگوں کے چلے جانے پر کوئی تشویش نہ تھی۔ 

اسلام آباد میں دھرنے کی مخالف میں مشورہ دینے والوں اور دین کے نام پر حکمران گنجے ٹولے کی قبریں کھودنے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی پچھلی صفوں مین بھیج دیا گیا ، کچھ تو جوتے پہن کر گھر جا چکے جو باقی ہیں وہ حیران ہیں کہ بولیں تو کیا اور چپ رہیں تو کیوں؟

قادری صاحب کا یکم جنوری کا طے شدہ مارچ ملتوی ہو ا اور 8 جنوری کی تایخ دی گئی۔ پھر سیاسی بھرم کو قائم رکھنے کے لیے 
17
 جنوری کی تاریخ دی گئی۔ اس دوران قصور والا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پوری  ملک سے جاندار مزاحمتی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔قصور کے محمد امین جو مظلومہ زینب کے والدہیں ، ایک استاد اور شریف النفس انسان ہیں اور قادری صاحب کی پارٹی سے منسلک بھی ہیں، عمرے کی ادائیگی کے سفر کو مختصر کر کے واپس گھر پہنچے تو ، اطلاع کے باوجود کہ وہ رستے میں ہیں قادری صاحب نے جنازہ پڑہا دیا۔ قادری صاحب ،جو پاکستان کے بے مثل خطیب ہیں، نے اپنی طویل دعا کے ذریعے اپنے نوجوان کارکنوں ایسا دینی فیض تقسیم کیا کہ چند گھنٹوں میں قصور کے ڈی سی کے دفتر کا گیٹ ٹوٹ گیا ، دو گاڑیاں جل گئیں ، کئی نجی املاک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ یاد رہے یہ واقعہ اس شہر میں پیش آّ رہا ہے جو بھارتی سرحد سے صرف
70
  کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔دو دن" میرا سوہنا شہر قصور" آگ کے شعلوں میں جلتا رہا ۔ اور مطالبہ یہ تھا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف اور وزیر قانوں ثنا اللہ مستعفی ہوں ۔ اصل ہدف تو شہباز شریف ہے ثنا اللہ کا نام تو محض قافیہ کا حصہ ہے۔ ہمیں ثنا اللہ سے د لچسپی ہے نہ شہباز شریف سے لگاو کہ اگر ان کے اعمال درست ہوتے تو دن دہاڑے یہ درندگی ممکن ہی نہ تھی۔ البتہ شام کو وضو کے بعد متبرک ہاتھ چہرے پر پھیر کر خود کو غیر سیاسی منوانے کے اصرار پر تعجب کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔

دین کے نام پر سیاسی کاز کے لیے اپنے دو کارکن مروا دینے سے شک ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے سینوں میں شاید انسان کا دل ہی نہیں ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین جن میں گنجا شہباز شریف اور اس کے چمچے شامل ہیں ۔ ان کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گی۔اور اس غریب راہ گیر کے خاندان کی اللہ تعالی نصرت فرمائے کہ وہ نہ قادری صاحب کا مرید تھا نہ شہباز کا پٹواری۔ اللہ تعالیٰ قائد کے اس پاکستان میں راہگیروں کو محفوظ رکھے
سوچئے گا ۔ ا نفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ کیوں بن جاتا ہے

جمعہ، 12 جنوری، 2018

دو آتشہ

تصوف ہمیشہ سے انسانوں کی دلچسپی کا سبب رہاہے ۔ اور اہل تصوف کو ہر معاشرہ اور مذہب میں بلکہ بے مذہبوں میں بھی احترام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سب انسانوں کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں ، مثال کے طور پر ہمارے موجودہ وزیر اعظم صاحب روحانی فیض حا صل کرنے کو مفید خیال کرتے ہیں اور سابقہ دو وزرائے اعظم صاحبان جناب نواز شریف اور آصف زرداری اپنے اپنے پیر کو وزیر اعظم ہاوس میں مدعو کرتے رہتے تھے، اس سے قبل بے نظیر صاحبہ بھی مانسہرہ کے ایک بزرگ دیوانہ بابا کی چھڑی سے فیض یاب ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان بھی ایک بابے کے مرید تھے۔بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایک نانگے بابے کے آشرم پر سر جکاتے ہیں تو بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندہی کے وقت میں ان کے روحانی گرو دھرندرا بھرم چاری نے بھی خوب نام کمایا
تھا


پسماندہ معاشروں میں مذہبی اور سیاسی رہنماعوام کے نجات دہندہ مانے جاتے ہیں ۔ معاشرتی اور معاشی طور پر مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان اپنی محرومیوں کی نجات کے لیے خواب نگر کا رخ کرتا ہے۔ اور جو رہنماء اپنے پیروکار وں کو جتنا بہتر خواب دکھلا سکتا ہے وہ اتنا ہی مقبول ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہ رہنماء ، مذہبی ہو یا سیاسی ، اپنے چاہنے والوں کے پجاری کا مقام حاصل کر لیتا ہے،مگر جب یہی پجاری اس رہنماء کی عدم استعداد سے با خبرہو جاتا ہے تو اس کی مثال خواب سے بیدار ہونے والے ایک فرد کی ہو جاتی ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ خود اپنی ذات کو متحر ک کئے بغیر اپنے حالات تبدیل نہیں کر سکتا ۔مگر اس بیداری کے بعد بھی وہ مواقع کی عدم دستیابی کے باعث اور دوسری طرف رہنماء اسی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے باعث ہر وقت اپنی عدم استعداد کا پول کھل جانے سے خوفزدہ رہتا ہے ، وہ جانتاہے کہ اس کی مقبولیت کی عمارت کچی بنیاد پر کھڑی ہے اس کا خوف بھی اسے تصوف کی طرف مائل کرتا ہے۔ دراصل رہنماء و پیروکار میں مستقبل کا خوف مشترک ہوتا ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے روحانی سفر پر گامزن ہوتے ہیں، مبارک پتھروں والی انگھوٹیاں، بلند درگاہوں کا طواف ، اوروظیفوں کا ورد دراصل مستقبل کے خوف سے بچنے کے حربے ہوتے ہیں۔ اور یہ عمل اس کو قدامت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔مثال کے طور پر پچھلے دنوں عمران خان ایک ویڈیو کلپ میں اپنی انگوٹھی مین جڑے در نجف دکھاتے نظر آئے ۔ مگر چند دنوں بعد چکوال میں ہونے والے الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔حالانکہ ان کو نجومیوں نے بتایا ہوا تھا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ 
قصوں اور حکائتوں کی کتابوں کے مطابق زوال کے دور میں کمال کر دکھانا مذہب کا خاصہ ہے اور لوگ اسی خواب کی تعبیر کے لئے علامہ طاہر القادری صاحب کے گرویدہ ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے فن خطابت کی ٹکر کا کوئی دوسرا خظیب ہے ہی نہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آسائش زندگی سے مستفید ہونا سب کا حق ہے اور اس حق کا پاکستان کی نسبت کینیڈا میں بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔طاہر القادری صاحب کے نام کے ساتھ شیخ الاسلام کا لاحقہ ان کا خود اختیار کردہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی کسی کا عطا کیا ہوا ہے۔
روس کے زاروں کا تصوف کا ایک بڑا کردار راسپیوٹن ہے مگر غیر اسلامی سہاروں کی داستانوں کے کرداروں کوہم اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور ایسے کرداروں کو شیخ الاسلام کا نام دے کر مقامی بنا لیتے ہیں اور اس اپنے پن سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم تصوف کے نام پر چابک کی ضرب با آسانی سہہ لیتے ہیں مگر غیر اسلامی تاریخ کا حوالہ ہمیں سیخ پا کر دیتا ہے۔یاد رہے شیخ الاسلام صاحب عدم تشدد کے سب سے بڑے داعی ہیں

نجومی بھابی وہ نام ہے جو اخباری حلقوں میں عمران خان کی نئی بیوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ان کے بارے ہوشیار سیاسی ساتھی ہی نہیں بلکہ دینائے تصوف کے ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں علم نجوم کے ماہرین متفق ہیں کہ در نجف کی برکت حاصل ہو جانے اور گاڑی میں نجومی بھابی کو سوار کر لینے کے بعد ان کو شاہراہ دستورپر تیز رفتاری سے سفر کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ ووٹ اور جمہوریت کی اذانوں کے بیچوں بیچ عمران خان کے اس یقین کو شیخ الاسلام کی اشیر آباد بھی حاصل ہے۔ تصوف اور نجوم کے باہمی ملاپ کے بعد بہت لوگ اس دو آتشہ سے معجزہ برآمد ہونے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی بھی امید پر مینہ نہ برسائے۔

منگل، 9 جنوری، 2018

'کیونکہ'

 عظیم الرحمٰن عثمانی 
خوب جان لیں کہ مرد فطرتاً کنوارہ ہے اور اگر اسے ذرا بھٹکنے کا موقع مل جائے تو آوارہ بھی ہے. کوئی حاجی صاحب اگر ٹوپی لگا کر اور تسبیح تھام کر اس مخفی مردانہ رغبت کی اپنے اندر ہونے کی نفی کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یا تو انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے یا پھر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور اگر کوئی خاتون یہ سوچتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے والد یا میرے بھائی یا میرے بہنوئی ایسے نہیں ہیں تو وہ ایک سراب میں جی رہی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ مخالف جنس کیلئے ایک فزیکلی فٹ مرد کا دل ضرور بچوں کی طرح مچلتا ہے. گویا دل تو بچہ ہے جی !
.
کس کو پتہ تھا؟ پہلو میں رکھا .. دل ایسا پاجی بھی ہوگا
ہم تو ہمیشہ، سمجھتے تھے کوئی .. ہم جیسا حاجی ہی ہوگا
.
فرق فقط اتنا ہے کہ ایک مہذب انسان تہذیب نفس کے سبب اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دیئے رکھتا ہے. جب کے دوسرا انسان اپنی نفسی و جنسی خواہش میں ایسا بے لگام ہوتا ہے کہ کچھ وقت بعد لاعلاج ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بوڑھے مردوں میں بھی آپ کو ایسے ایسے ٹھرکی ملتے ہیں کہ آدمی سر پیٹ لے.
.
کچھ خواتین یہ غلط فہمی بھی پال لیتی ہیں کہ 'کیونکہ' وہ بہت حسین ہیں اسلئے انکے لئے مردوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے. حالانکہ مرد کی عورت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے وہ اکثر کسی خاص سراپے کا محتاج نہیں ہوتا. گویا خاتون موٹی ہوں، دبلی ہوں، گوری ہوں، کالی ہوں، حسینہ ہوں، عام صورت ہوں. غرض جو بھی حال ہو مردوں کا ایک جم غفیر ان کا پرستار بن جائے گا. یہ اور بات کہ ان میں شاذ ہی کوئی ایسا نکلے جو فی الواقع نکاح کا متمنی ہو. اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گھر پر رشتے آنے کی لائن کبھی نہیں لگے گی مگر کالج، یونیورسٹی، محلے، فیس بک ہر جگہ مرد آگے پیچھے گھوم رہے ہوں گے. جیسے سب سے بڑی حور پری یہی ہیں. اصولاً تو جب باہر ہزاروں مرد مداح بنے ہوئے ہیں تو کم از کم آٹھ دس تو رشتے ہر وقت آئیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا. عقلمند عورت وہ ہے جو غیر مردوں کی اس پذیرائی سے مسرور ہوکر اٹھلاتی نہ پھرے بلکہ اپنی قابلیت اور شخصیت کو مضبوط بنانے پر دھیان دے. تاکہ کل جب رشتے کی بات ہو تو کوئی سینسبل انسان اس سے نکاح کا متمنی ہو.

مر گئے


دلدل

پتہ نہیں وہ کالج میں آ کر مٹھو بناتھا یا بچپن سے تھا مگر میں گھریلو تربیت کی مجبوری کے تحت اسے ہمیشہ عبدالوہاب کہہ کر مخاطب کرتا اور میرا یہ عمل ہی ہماری دوستی کی بنیا د بنا ۔ رزق کمانے کا مرحلہ آیا تو انکشا ف ہوا میرا دانہ پانی بیرون ممالک میں بکھرا ہوا ہے ۔ رزق کے تعاقب میں کویت پہنچا ، ایک دن کویت یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں کسی نے میری پشت پرکھڑے ہو کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا
 ْ میں کون ْ 
میں نے چار سالوں کے ساتھ اور سات سالوں کے فراق کے باوجود عبد الوہاب کی آواز پہچان لی ۔ پردیس میں ایسی ملاقات کی مٹھاس کا ادراک کوئی پردیسی ہی لگا سکتا ہے۔ 
نو دولتیوں کے ملک میں تازہ تازہ بنائی گئی صاف و سیدہی سڑکوں پرہماری دوستی کی گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑہی۔ فروانیہ سے احمدی جانے والی تازہ بنی ہائی وے پر دوستی کی گاڑی تیز رفتاری کی آخری حد کو چھو گئی تومیں نے عبدالوہاب کو مٹھوکے نام سے پکارا ۔ اس نے گاڑی روک دی ، گاڑی سے اترا میں بھی اتر آیا ، ہم دونوں گلے ملے، دوستی کا ایک سنگ میل طے ہوا ، اورہم ہنستے ہوئے پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔



پاکستان میں ہم دونوں ایک دوسرے کے گھر والوں سے آشنا ہی نہیں  بلکہ ہماری دوستی نے دونوں خاندانوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔عبدالوہاب کے خاندان کے اعتقادات کی وجہ سے ہی میں نے ْ ابن تیمیہ ْ کو پڑہنا شروع کیا تھا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا عبدالوہاب نے ْ کشف المجوب ْ خریدی ہے ۔ مگر اس وقت ہمار ا موضوع تبلیغی جماعت تھی ، مٹھو مجھے کئی بار جمعرات کے اجتماع میں لے جانے کی کوشش کر چکاتھا مگر اس دن وہ بہت سنجیدہ ہو گیا ۔ مگر میں سنجیدہ تو نہ ہوا مگر میں نے تبلیغ کے بارے جہاں سے بھی میسر ہوا معلومات اکٹھی کرنی شروع کر دی۔ مولانا حافظ محمد الیاسؒ کے خاندان اور خود ان کی ذات بارے میرے تجسس کا سبب مٹھو کی شخصیت تھی کہ میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹائی اتاری، رنگین شرٹ پہننا چھوڑا اور پھر جب میں نے دیکھا کہ وہ ْ ثوب ْ جس کو مقامی لوگ دشداشہ کہتے وہ پہنا ہے تو میں نے کہا

ْ مٹھو تمھاری نوکری گئی ْ 
اور چند ہفتوں بعد ہی اس نے کہا
ْ منہ کھول کر زبان دکھاوْ 
میں نے گمان کیا اس کو ملازمت سے برخواست کر دیاگیا ہے
ْ جس کمپنی میں تم کام کرتے ہو ، اس میں جب تم پنڈلیاں ننگی کرنے کی سنت پوری کرو گئے تو
 پیشن گوئی کرنے کے لئے زبان کا کالا ہونا لازمی نہیں ہے ْ 
ْ دین کا کام قربانی مانگتا ہے ْ اس نے مطمن لہجے میں جواب دیا ۔ اب وہ کھل کر مرد میدان بن گیا مگر پردیس میں ملازمت کے بغیر رہنا نا ممکنات میں سے ، ایک مشترکہ دوست آصف کی سعی کام آئی، انٹرویو ہواشرائظ ملازمت پہلی ملازمت سے بہت بہتر۔ ابھی خوشی اور اطمینان سے سیر بھی نہ ہوئے تھے کہ آصف نے سرگوشی کی 
ْ اپنے دوست کو سمجھاو ْ کیوں، کیا ہوا ۔ 
آصف کی کمپنی سیکنڈ کی سوئی کی طرح وقت کے ساتھ چلتی اور ان کا لبنانی 
HR
 انچارج لباس کے رنگ تک کا خیال رکھتا تھا۔ سالوں پہلے آصف نے مجھے بتایا کہ ایک دن اس نے آصف کو اپنے دفتر میں بلایا اور ایک جرابوں کا جوڑاگفٹ کیا اور ساتھ نصیحت کی بے جوڑ رنگوں کا امتزاج شخصیت کا اچھا تاثر نہیں چھوڑتا ۔ 
آصف کی تشویش بجا تھی لیکن میرا ذاتی تجربہ کہتا تھا مٹھو نے میری بھی ماننی نہیں ہے ، جوانی کے ان دنوں، میں یقین سے کہتا تھا مذہبی لوگ ضدی ہوتے ہیں ۔ کمپنی نے اسے نکالا تو نہیں کہ ان دنوں کویت میں افرادی قوت کی قلت ہوا کرتی تھی ۔ البتہ مٹھو کو سٹور میں بھیج دیا گیا ۔ 

ہیر بھی راضی رانجھا بھی خوش ، مگر ترقی کی امید ْ مافی ْ ۔

خدا کی ذات بھی بڑی بے نیاز ہے مٹھو کی نمازوں کی برکت تھی ،اس کے ایمان کی قبولیت  یا قدرت اس 
پر مہربان تھی ۔ مٹھو نے عمرہ کرنے کی ٹھانی ۔ ایک ہفتے کی چھٹی کمپنی سے مانگی کمپنی نے انکار کر دیا ۔ مذہبی کی ضد اٹھ کھڑی ہوئی ،استعفیٰ لکھا ، کمپنی نے نا منظور کر دیا ، دین اور دنیا میں چناو کا مرحلہ 
آ گیا اور کمپنی کے مالک کے روبرو مستعفیٰ ہونے پیش ہوگیا ۔

مشرق وسطیٰ میں جہاں کفالت کا نظام رائج ہے، مستعفی ہونیکامطلب صرف ملازمت چھوڑنے تک محدود)
(نہیں ہوتا 
شام کو شاداب چہرے کی وجہ پوچھی ۔ روداد سنائی کہ وہ مستعفیٰ ہونے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا مالک نے وجہ دریافت کی ، مینیجر سے انٹر کام پر چھٹی کی سفارش کی اورچھٹی مل گئی
آصف کا، میرا بھی خیال تھا تعلیم یافتہ ملازمین کی کمی کی کرامت ہے مگر جب وہ اہلیہ اور بچی سمیت عمرہ کر کے واپس آیا توپتہ چلا کمپنی کے مالک کا ہم سفر تھا اور اس کی جیب سے دھیلا بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ اس سفر نے مٹھو کو مالک کے اس قدر قریب کر دیا کہ اس کے لیے آسانیوں ، آسائشوں اور ترقی کا دروازہ کھل گیامگر مٹھو کا اصرار تھا یہ دین سے لگاو کا دنیامیں انعام ہے ، اس کے اس یقین نے اسے تبلیغ کے اس قدر قریب کر دیا کہ اب وہ دفتر سے سیدھا خیطان کے علاقے میں واقع تبلیغ کے مرکز آتا اور رات گئے گھر پہنچتا ۔ اپنی اہلیہ کو بھی اس نے اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا ۔ اس کے کان میں وہ ایسا دم پھونکتا کہ متمول خاندان کی خوش لباس لڑکی نے بھی ْ راہبانہ ْ روش اپنا لی ہوئی تھی ۔ میری زوجہ کا ماننا تھا کہ ْ تعلیم یافتہ ْ لڑکی مظلوم ہے مگر اسے حیرت تھی کہ وہ ْ مطمن ْ ہے

ٓاس زمانے میں آصف کہا کرتا تھا ْ تبلیغ ایسی دلدل ہے جو اس میں اتر گیا اس کا واپس نکل آنا کرامت نہیں بلکہ معجزہ ہے ْ 


ہم نے مٹھو کو اس دلدل سے نکالنے کی بہت کوشش کہ مگر الٹا وہ ہمیں اپنے ساتھ گھسیٹنے کی کوشش کرتا ۔ اسکے پاس رٹے رٹائے دلائل تھے مگر ہمارے دلائل کار گر تھے۔ مارا پردیس آنے کا مقصد دینار کمانا تھا مگر وہ ہمارے مقصد کو حقیر بنا کے پیش کرتا اور حوروں کی خیالی مگردلکش تصویریں اور جنت میں شیش محلوں کی نظافت کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتا ۔ میں تنہائی میں اکثر اس کے بارے سوچتا مٹھو پاگل نہیں ہے اس کا خاندان تبلیغ سے کوسوں دور ہے ، اس کی بیوی اور اس کا خاندان بھی اس قریے میں نامانوس ہیں ، کیا تبلیغ واقعی اطمینان بخش ہے ۔ مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔

جمعرات کی رات ، میرے گھر آصف اپنے دونوں بچوں و بیوی،رشید اپنی بیٹی و بیوی اور نجم اپنے بیٹے اور مادام ، کہ ہم اس کی بیوی کو اسی نام سے پکارتے تھے۔ موجود تھے ۔ مادام کی پیدائش کراچی کی، ابتدائی   تعلیم کویت کی اور ڈگری امریکہ کی 
Stanford
یونیورسٹی کی تھی۔ ہماری بیویوں میں اس کا معاشرتی قد سب سے لمبا تھا۔جمعرات کی اس رات ہم تاش کھیل رہے تھے ۔ میری اہلیہ نے چائے بنائی مادام ٹرے پکڑے کمرے میں آئی ۔ دوسری خواتین دوسرے کمرے میں ایک انڈین ڈرامہ دیکھ رہی تھیں ، میرے کانوں نے سنا 
ْ نجم آپ نے نماز نہیں پڑہی ، ٹائم ضائع ہی کر رہے ہیں ْ 
کہا جاتا ہے آندھی میں پہلے اونچے درخت گرتے ہیں ۔میں نے دل میں کہا یہ امریکہ پلٹ اور سرو قد درخت گر چکا ۔
مادام تو چائے رکھ کر چلی گئی مگر رشید نے نجم کو مخاظب کیا ْ لگتا ہے مادام کا مٹھو کے گھر آنا جانا زیادہ ہو گیا ہے ْ 
یہ فقرہ غزل کا مطلع ثابت ہوا ، بحث لمبی ہوتی گئی اور مقطع پر صبح کی آذان نے پہنچایا ، اس دن میرے رہائش پر صبح کی نماز باجماعت ہوئی نجم نے جس اعتماد اور لہجے میں قرات کی صاف معلوم ہو گیا وہ تجربہ کار ہے ،ناشتے کے بعد سب اپنے گھروں میں سونے چلے گئے ۔ میں بستر پر لیٹا تو اہلیہ نے رات کو دیکھے کے ڈرامے کے ڈائیلاگ کے انداز میں کہا 
 ْ گھر میں درجن بھر جائے نمازیں تو ہونی ہی چاہئے ْ 

رزق انسان کو اپنے پیچھے دوڑاتا ہے ، نجم کینیڈا جا بسا ، آصف نے دوبئی میں گاڑیوں کا شو روم کھول لیا ، مٹھو تبلیغ کرتے کرتے رائے ونڈ میں  زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر چکا، رشید اس مختصر سے گلوبل ولیج میں لا پتہ ہو گیا ۔ سب سے آخر میں واپس آ کر راولپنڈی میں بس جانے والا میں تھا۔

میرا بیٹا پانچویں جماعت میں فرسٹ آیا ۔ میں نے اہلیہ سے کہا میرا دل کرتا ہے اس لائق بچے کو قرآن کا 
حافظ بناوں۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا
ْ آپنے تو میرے دل کی بات کہہ دی ْ 
جب بیٹا حافظ بن کے واپس آیامیں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا 
ْ کیا ہماری سوچیں مٹھو کی ذات سے مثاتر ہیں ْ 

ہماری ہی نہیں سب کیْ اس کا اشارہ ہمارے دوسرے مشترکہ دوستوں کی طرف تھا ، عدنان تبلیغ میں چلہ لگانے کے بعد باقاعدگی سے تبلیغ کے نصاب پر چل رہا تھا۔ نجم خود بھی با عمل ہو چکا تھا اور بیٹے کو بھی شام کے وقت اسلامک سنٹر میں بھیجتاتھا، اور اس کے تیونسی استاد کو امید تھی وہ اسلام کا مبلغ بنے گا۔ آصف کی گھریلو زندگی اور بچوں میں دینداری ظا ہر تھی۔ 

نجم کا کہنا تھا یہ سال یادگار ہی رہے گا، اس کا خیال تھا ہم لوگ عملی زندگی کی انتہا کی طرف رواں دواں ہیں، بچے جوان ہو چکے ہیں، ان کی شادیاں کرنی ہیں پھربڑہاپا سر پر کھڑا ہے ہم لوگ مکہ میں حج کی سعادت حاصل کر کے رسول اللہ کے حرم کی زیارت کے لیے مدینہ المنورہ کی جانب محو سفر تھے ۔ اس سفر میں کینیڈا سے نجم اس کی بیوی اور تین بچے ساتھ تھے ، اس کا بڑا بیٹا محمد علی کویت میں ہمارے بچوں کے ساتھ کھیل چکا تھا ، فاطمہ اور زینب کینیڈا کی پیدائش تھے۔نجم کے دو دوست بمع خاندان ساتھ تھے ، ذوالفقار ، ہمار کالج کا ساتھی ۔ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ آسٹریلیا سے آیا تھا ،امارا ت سے آصف اور اس کا خاندان اور پاکستان سے ہم کل بارہ خاندان یہ سفر کر رہے تھے۔روابط کی ان فراوانیوں کے دور میں، عملی اجتماع جس میں ایک ہاتھ دوسرے کو چھو سکے ، گو بہت بھلا محسوس ہوتا ہے مگر نایاب ہو جانے کو جلدی میں ہے ۔

اس سفر میں مٹھو ہمارے ساتھ نہ تھا مگر ہمارے رابطے میں تھا، دراصل اس کی دینی مصروفیات ایسی تھیں کہ اس کی ذات سے رابطہ بہت ہی کم ہوتا مگر اس کا خاندان ہماری دوستی کی ٹیم کا سرگرم ممبر تھا۔مٹھو بنیادی طور پر میرا دوست تھااور کویت میں رہائش کے دوران سب سے زیادہ قریب بھی۔مگر اس کی ذات اور خوبیوں سے ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ مرعوب مسز اورنجم ہی تھے۔ مسز نجم تو ان کو اپنا روحانی رہنما کہتے نہ تھکتی تھیں۔ انھوں نے اپنے خاندان کی زندگی کا رخ ہی تبدیل کر دیا تھا۔میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ مسز نجم نے بیت اللہ میں دعا مانگی ہے کہ اس کے حافظ قرآن اور بنک مینیجر بیٹے کی شادی مٹھوکی بیٹی سے ہو جائے۔
کینیڈا سے نجم کا خاندن میرے گھر میں مہمان بن کر آیامگر اصل خوشی یہ تھی کہ اس کی بارات ہمارے گھر سے نکلے کی اور ہم مٹھو کی بیٹی کو بیاہ کر اپنے گھر لائیں گے۔ میری بیٹی نے دلہن کے کمرے کی سجاوٹ پر مشورے بھی شروع کر دئے تھے ۔
محمد علی گو میرے بڑے بیٹے سے دوسال بڑا تھا مگر وہ چند گھنٹوں میں ہی دوست بن گئے تھے ۔اور مسز نجم تو حج کے بعد ، پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا ، عمل، پاکیزگی اور انکسار کے اس مقام پر ہیں جو ہم کتابوں میں پڑہتے تھے۔ ان کے اعمال تو نورانی تھے ہی ان کی گفتگو اور لہجے سے بھی ایمان کی پاکیزگی ٹپکتی تھی۔

ان کا ہمارے گھر میں پہلا دن تھا ۔ہم لوگ رات بارہ بجے سونے کے لئے اٹھے ۔ رات کو تین بجے میں حاجت کے لئے اٹھا ۔ محمد علی جس کمرے مین سویا تھا اس کی روشنی جل رہی تھی۔ میرا خیال تھالمبے سفر اور دن بھر کی مصروفیات اور لمبی گپ کے بعد نوجوان بستر پربے سدھ پڑا سو رہا ہوگا۔ مگر میں نے کویت میں پیدا ہونے والے، کینیڈا سے ڈگری حاصل کرن والے اس نو خیز کے عمل کو دیکھا تو میری آنکھیں کھلی ہی رہ گئی اور کلیجہ منہ کو آگیا۔ یہ تربیت ہے نورانی صورت والی مسز نجم کی


میں نے دیکھا تھا محمد علی کے سامنے ٹیب کھلا ہوا ہے ، اوروہ مدہم آواز میں تلاوت کر رہا ہے، آنکھوں سے شبنم گر رہی ہے میں نے اس کے سر ہاتھ پھیرا ماتھا چوما اور کہا 
ْ بیٹا سو جاو رات بہت ہو چکی ْ 
ْ ْ ہو سوری اپ میری وجہ سے ڈسٹرب ہوئے ْ اس نے محسوس کیا شائد اس کی آواز مجھے سونے نہیں دی رہی ہے ۔
ْ میں آپ کی آواز سے نہیں اٹھابلکہ واش روم جانے کے لیے اٹھا تھا، آپ سو جاو ، صبح اٹھ کر تلاوت کر لینا ْ 
۔ اصل میں ْ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ْ میں پچھلے دو دنوں میں اپنی منزل پوری نہیں کر پایا ہوں ْ 
میں واپس بستر پر آیا تو نیند اڑ چکی تھی ۔ جب میں محمد علی کی عمر کا تھا۔ فلم چل پڑی ، ایک کے بعد ایک کلپ ، ایک صورت کے بعد دوسری صورت ، تصویروں کے اس سفر میں بار بار میرا ذہن ْ محمد رسول اللہ ْ کی طرف جاتا مگر تصویر نہ پاکر ْ مٹھو ْ کے ہیولے کی طرف مڑ جاتا ۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا مٹھو نے تو زندگی کی معراج حاصل کر لی ۔ میرے اندر کا انسان جو مٹھو کو  فرسودہ خٰیالات کا حامل بتاتا تھا ۔ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ 
ْ ْ وہاب سے منسوب ْ عبد الوہاب ْ میرے منہ سے نکلا
ْ عبد الوہاب رائے ونڈ میں سو رہا ہے آپ بھی سو جائین اور مجھے بھی سونے دیں ْ میری اہلیہ نے مشورہ دیا
ہمیں خوشی تھی کہ ایسا رشتہ ہونے جارہا ہے جس کی بنیا د ْ حب اللہْ یا ْ حب دین ْ ہے ۔ میں میری اہلیہ میرے بچے، نجم ،بھابی ان کے تینوں بچے ، یوں لگتا تھا اور میری اہلیہ نے کہہ بھی دیا کہ عید کے دن کی طرح لگ رہا ہے۔ مجھے معلوم تھا مٹھو کا فون صرف رات کو کھلا ہوتا ہے میں نے اسے مطلع کیا اس کا مگر جواب تھا وہ جماعت کے ساتھ ہے جمعرات کو واپس مرکز اور جمعہ والے دن گھر آئے گا ۔ ہم لوگ اندر 
سے خوش تھے ، بات بات پر ہنستے تھے، میں نے شوخی بگھاری ْ بدھ سارے کم سدھْ اسپر قہقے لگے ۔ دوسرے دن مری کے مال روڈ سے نکلتی ایک پکڈنڈی کنارے بڑے پتھر پر بیٹھ کر نجم نے میرے اور اپنے 
بچوں کو بتایا ۔ مٹھو کیسا ، دین کے نام پر قربانی کرنے والا نیک انسان ہے کہ اس نے ہم جیسے دین سے پچھڑے دوستوں پر اپناکتنا وقت اور توانائی خرچ کی کہ ہم اللہ اور اللہ کے رسول کی راہ پر آ جائیں ۔ اس نے اعتراف کیا ہم تو اس راہ پر ، میں نے دیکھا آصف نے ہونٹ چنائے اور آنکھوں کی نمی کو سنبھالا، لیکن ہم نے اپنی اولاد کو قبلہ رخ کر دیا ہے ، اس نے مٹھو کے لیے عقیدت بھرے خوبصورت الفاظ استعمال کیے اور ہم نے تائید کی۔ آصف کا چھوٹا بیٹا بولا مٹھو انکل تو فرشتہ ہیں ۔محمد علی نے اسے بتایا ْ انسان فرشتوں سے سینئر ہوتے ہیں ْ


جمعہ کی نمازکے بعدہم ہنستے قہقے لگاتے مٹھو کے گھر پہنچے ہم خوشیوں کے پیام بر جو تھے ۔ خود مٹھو نے ہمارا استقبال کیا، مردوں کو بیٹھک میں اور عورتوں کو اندر علیحدہ بٹھا دیا گیا ۔ نجم کو اچھا لگا ، ہم لوگ ایک شرعی ماحول کے حامل گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔مغرب کی نماز محلے کی مسجد میں ابھی نامکمل ہی تھی کہ مٹھو نے باہر کا رخ کیا ، میرا گمان صیح نکلا۔ وہ مجھ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا تھا ، بات مختصر تھی اور دو ٹوک تھی ۔میں نے حیرت سے سنا ْ ہم لوگ جٹ ہیں میں مٹروے سے کیسے بیٹی بیاہ دوں ْ میرے جذبات رو دئے ، دل چاہتا تھا مٹھو سے بات کروں اس کو قائل کروں اس کی آنکھوں میں ضدی انسان صاف نظر آرہا تھا ۔ دوسرے لوگ بھی نماز پڑھ کر باہر نکل آئے ۔ گھر آئے کھانا تیار تھا ۔ سب نے کھایا مگر میں نے زہر مار کر ہی رہا تھا کہ نجم نے اشارے شروع کیے کہ بات شروع کروں لیکن میں اشارے نہیں سمجھ رہا تھا ۔ مجبورا نجم نے خود ہی ، کویت میں ساتھ گذرے واقعات کی یاد دہانی سے ابتداء کی اپنی دینی نالائقیوں پر تاسف کا اظہار کیاا، محمد علی کی تعلیم، حفظ قرآن، جامعہ الازہر میں سال بھر کی اقامت،جاب سے ہوتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ کھانے کے بعد خواتین کو بھی بلا لیا جائے کہ اب ہم آپس میں رشتے دار بننے جا رہے ہیں ۔ مٹھو کا تیار جواب یہ تھا 
ْ میرے گھر کی خواتین نا محرم کے سامنے نہیں آتیں ْ 
اور رشتے داری کا جواب دینے کے لیے میرے طرف اشارہ کیا لیکن آج اشارے میری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے ۔بھلا ہو موذن کا ، کہ کلمہ کبریائی بلند کیا ۔مٹھو نماز کے لیے اٹھا ۔اس کے ساتھ سب اٹھ دئے۔ میں نے کہا مجھے اہلیہ سے بات کرنی ہے آپ لوگ جائیں ، میں نے فون کر کے اہلیہ کو بلایا۔ مٹھوکی بیوی بھی آ گئی، علیک سلیک کے بعد میں نے گلہ کیا کہ آپ نے مٹھو کو بے خبر رکھا ، عورت مسکرا دی ، سالوں پہلے اس مسکراہٹ میں جو تقدس ہوتا تھا اس کی جگہ مجھے عزم دکھائی دیا ۔اور اس کا عملی اظہار بھی دیکھ لیا کہ انھوں نے سب خواتین کو بھی بیٹھک میں بلا لیا، میری اہلیہ میرے پہلو لگ کے بیٹھی۔ میرا سوال جوا ب کا منتظر تھا 
ْ بھائی صاحب ْ 
میں نے سنا اور سنتاہی چلا گیا نمازی واپس آ گئے ، آصف نے جھجک کر سلام کیا مگر جلدجھجک ختم ہو گئی، ماحول میں گرم جوشی در آئی، مٹھو کو مگر میں نے گرم جوشی سے دور ہی پایا ۔ وہ گفتگومیں شامل رہا مگر شکستہ لفظوں اور ٹوٹے عزم کے ساتھ۔ چائے کا دور چلتا اور باتوں کا نیا دور شروع ہو جاتا ۔ رشتہ رات ہی کو طے ہو چکا تھا ۔ مگر منگنی کی رسم دن کو رکھی گئی۔ 
مٹھو کی برادری اور محلہ سے بہت لوگ جمع تھے ، ڈھول والے بھی آگئے، گھر کے اندرسب کو نظر آ گیا فیصلے کی چابی کہاں ہے، فیصلے ہو چکے تھے، کل لڑکی نے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنا تھا، برات نے ہفتہ کے دن آناتھا۔ ہم واپس گاڑیوں میں بیٹھے گھر کے سب افرادنے پر تپاک مگرمیں نے عبدالوہاب کو پکار کر گلے لگایا ۔
میرے ساتھ میری اہلیہ دو بچے اور مسز نجم تھیں ۔
میں نے کہا ْ عبدالوہاب کے گھر تو انقلاب آچکا ہے 
ْ آپ نے مٹھو کو عبدالوہاب کہا ، میری اہلیہ نے چونک کر پوچھا
ْ اب بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد ہمیں ایک دوسرے کو عزت والے نام سے پکارنا چاہیے ْ 
ْ راستے سے مٹھائی لے لیں،ہم معرکہ سر کے واپس آ رہے تھے ، خوشی کا موقع ہے ْ میں نے گاڑی روکی ، مٹھائی لی ۔
دوسری گاڑی سے میری بیٹی ، نجم کی دونوں بیٹیاں باہر آئیں ، انکل ہمیں ڈھولک لینی ہے ، مجھے معلوم تھا یہ شرارت میری شہزادی ہی کی ہے ۔ خوشی کا موقع تھا ۔ پردیس میں بستے پھولوں کی زندگی میں پھر یہ دن آئے نہ آئے ۔ میں نے خواہش پوری کردی۔


یک ہفتہ میرے گھر میں خوشیاں اچھلتی ، کودتی اور ناچتی رہیں، نجم کے خاندان کی اگلی نسل میرے خاندان کی اگلی نسل کے ساتھ گھل مل گئی تھی ۔ میں اور میری اہلیہ نے بھی اس موقع کو یادگار بنانے کی اپنی بساط بھر سہی کی۔ ہم نے خالص پنجابی رسم ورواج پورے کئے۔ میری شہزادی اور نجم کی بیٹیوں نے دلہن کے کمرے کو سجانا شروع کیاتومجھے سامان کی لمبی لسٹ تھما دی ۔ میں اندر سے خوش تھا مگر اپنا آپ دکھایا
ْ باقی تو سب ٹھیک ہے مگر لوہے کی تار کو کیا کرنا ہےْ 
میں نے دیکھا تینوں بچیوں کے منہ لٹک گئے ۔ میں نے تینوں کو ساتھ لیا ۔ انھوں نے جو چاہا لیا۔
تینوں بچیاں سارا دن کمرے کی سجاوٹ میں گزارتیں۔اور شام کو تالا لگا کر رکھتی کہ کوئی دیکھ نہ پائے۔ مسز نجم کو بھی اس کی بیٹیوں نے اصرارکے باوجود چابی نہ دی ۔یہ کمرہ اسی دن کھلے گا جس دن ہماری بھابی یہاں آئے گی۔ بچوں کی ضد پر وہ بھی مسکرا دیں۔
زندگی میں بچوں کی، ان کی خوشیوں کی، خوشی کے موقع پر ان کی ضد کی، ضد پوری کرنے پر مسرت کی ، جو خوشیاں ہوتی ہیں ان کو الفاظ میں کون ڈھال پایا ہے ۔ 

میری اہلیہ ے پوچھا 
ْ دلہن کو کیا دینا ہے ْ 
ْ جو مرضی ہے دے دو ْ 
ْ ایک لہنگا دے دیں، اور برات کا استقبال اپنے ذمہ لے لیں ْ 
ْ تمھارا دماغ ٹھیک ہے ْ حالات تمھارے سامنے  ہیں 
ْ کیا ہوا ہے ہمارے حالات کو ۔ ہمارے اوپر اللہ کا شکر ہے ، آپ ے ساریزندگی محنت  کی ہے ، کسی ضرورت مند کے لیےچند ٹکوں کا ایثار ہی کام آئے گا ْ 
اس نا شکری عورت کے منہ سے میں نے زندگی میں پہلی بار اپنی محنت کا اعتراف سنا لیکن سبب سمجھ نہ آیا
ْ کھل کر بات کرو ْ 
ْ لڑکی نے جو لہنگا پسند کیا ہے اس کی قیمت پچپن ہزار ہے
ْ تو کیا ہوا ۔ لے کر دے گا نا اس کا ب ۔۔۔۔
میں بات پوری نہ کر سکا ۔ مجھے ْ ضرورت مند ْ کا مطلب بھی سمجھ آ گیا ۔ اور چالیس سالوں سے ذہنی کشمکش سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ 
ْ تمیں معلوم ہے میں تمھاری کوئی بات نہیں ٹالتا جو مرضی ہے لے دو ْ ْ

ایسا کرتے ہیں صبح خالدہ اور دلہن کو ان کے گھر سے لیتے ہیں مارکیٹ سے واپسی پر میرج ھال والے کو   پے منٹ  کر دیں گے

بکنگ تو خالدہ نے پہلے ہی کرائی ہوئی ہے 
بکنگ بھی خالدہ نے کرائی ہے ۔۔۔ اتنا بھی نہ کر  سکا ایک باپ ۔۔۔۔۔