TLYR لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
TLYR لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 19 جنوری، 2018

علامہ خادم رضوی بقابلہ بیس روپے


اخباروں میں قومی اسمبلی کی رپورٹنگ میں بتایا گیا کی جمعرات والے دن وزیر خارجہ محمد آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی ٰئی کے غلام سرور خان کی طرف سے مداخلت پر عابد شہرعلی نے لقمہ دیا
ْ خاموش بیٹھو ، عمران خان نے تجھ پر بھی لعنت بھجوائی ہےْ 
جس پر سرور خان چپ تو ہو گئے مگر ان کے چہرے پر ابھرتی ناگواری نے بہت کچھ کہہ دیا۔ بہت کچھ تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اسمبلی کے فلورپر کہا ہے، اور آصف زرداری کی لاہور میں تقریر کے فوری بعد بلاول کے ٹویٹ نے پارلیمنٹ کے حق میں ٓواز اٹھائی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹویٹ سے نا قابل توقع قسم کے کام لئے جا رہے ہیں۔ بلاول کا ٹویٹ بروقت اور کارگر رہا جو بے نظیر کی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں کو حوصلہ دے گیا جو جمہوریت کے علمبردار ہیں۔پیپلز پارٹی نے اسلام آباد کے تین ماہ پر محیط دھرنے کے دوران جمہوریت اورپارلیمنٹ کے دفاع میں جو موقف اپنایا تھا۔زرداری صاحب کی تقریر کے باوجود عوامی سطح پر بلاول اور پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر نے اپنے ذریعہ اظہار کے ذریعے پیپلز پارٹی کے بیانئے کو بر وقت سنبھال لیا۔
قادری صاحب اپنے خطابانہ جوش میں بہت ساری ایسی باتیں فرما جاتے ہیں جو دوسروں کی راہ آسان کرتی ہیں ۔ موجودہ دور میں لفظ ْ لعنت ْ کے استعمال کے بہت ارزاں ہو جانے کے باوجود اس کا ْ جچا تلا ْ استعمال ان ہی کو زیبا رہا۔البتہ عمران خان نے جب لاہور میں اس لفظ کا استعمال پارلیمنٹ کے لئے کیا تو ووٹ کی طاقت کے مبلغین حیرت زدہ ہوئے تو پارلیمنٹ کے اندر ان کے ساتھیوں کی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔ شیخ رشید نے دریاے سندھ اور دریائے اٹک سے اپنے استعفیٰ کی صورت میں جو نہر نکالنے کی راہ دکھائی ہے، وہ بھی کوئی راہ روشن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کو کیا جواب دیں اور سرور خان جیسے صحرائے سیاست کے تجربہ کار مسافر کو بھی وقتی طور پر پھبتی کے جواب کے لئے الفاظ نہ مل پائے۔عمران خان کو بقول خود کے دھرنوں کی سیاست کے بعد جو تجربہ حاصل ہو گیا ہے اس تجربے کو پارلیمانی پارٹی کے مشورے کے بغیر چنے گے الفاظ ، پارلیمنٹ میں خود ان کے ساتھیوں کو زچ کر گیا۔
بھرے جلسہ میں خان صاحب نے شیخ رشید کی استعفی ٰ دینے کی آفر پر غور کرنے کا کہہ کر کیا شیخ رشید کے اس دعوے کو سچ کر دیا ہے کہ خان صاحب سیاست کے کھلاڑی اور شیخ صاحب کوچ ہیں۔
سیاسی مبصرین اور اخباروں کے رپورٹر اور چینلوں کے کیمرے لاہور کے اس شو کو ناکام قرار دے دینے کے بعد یوں لگتا ہے کہ نون لیگ نے دفاعی حکمت عملی کے ذریعے بغیر میدان میں اترے کامیابی اپنے نام کر لی ہے۔ بے شک اس کامیابی کے بعد پنجاب حکومت ، قادری صاحب کی طرف سے مزید کسی یلغار کی تشویش سے بھی نکل چکی ہے۔کہ اس جلسے میں مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی اور لاہور کی تاجر تنظیموں کی کھلی حوصلہ شکنی نے ، شہباز شریف کی پوزیشن کو سہارا دیا ہے۔
شہباز شریف ،جن کو نون لیگ اپنا مستقبل کا وزیر اعظم مان چکی، مقتدر قوتیں اپنی نیم رضامندی کا خاموش اظہار کر چکیں، کے لئے اب بھی بزرگوں اور روحانی شیوخ سے فیض لینا باقی ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہی عوام دیکھ لے گے۔اس کے بعد الیکشن تک سیاسی ہلچل دریائے راوی کا روپ دہار لے گی کہ نہ پانی ہو گا نہ طوفان اٹھے گا ۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ پنجاب کے سیاست کے دریا میں اصل جوار بھاٹہ الیکشن سے پہلے اٹھے گا ۔ عمران خان کا سونامی 
2013 
میں نون لیگ کا نقصان کئے بغیر گذر گیا تھا مگر علامہ خادم حسین رضوی کا طوفانی بگولہ جس جولانی سے اٹھنے کو مچل رہا ہے اس سے نون لیگ کا بچنا کرامت ہو گا مگر اس بارسارے ہی صاحبان کرامات کا فیض علامہ صاحب کے ساتھ ہے ۔
رہ گئی دو روٹی کو ترستی اور بیس روپے میں میٹرو میں سفر کرتی عوام تو اس بار ایک بڑی اکثریت ْ عمر بن خطاب کے معاشی بیانئے ْ اور میٹرو کے ْ بیس روپےْ میں تقسیم ہو جائے گی۔