Imran Khan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Imran Khan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 18 مئی، 2020

ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا


پاکستان اور امریکہ میں وہی فرق ہے جو علامہ خادم حسین رضوی اور اور پاکستان کے مقتدرادارے میں ہے ، علامہ صاحب تاجدار ختم النبوت کا علم لے کر اٹھے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد میں دھرنا نمبر ایک  دیا عاشقان رسول ﷺ میں سے درجن بھر کا خون بہا ، ایک وفاقی وزیر کی قربانی منظور ہوئی ، الیکشن میں حصہ لیا اور اب ان کے پیروکار چھوٹے علاموں کا کردار اتنا رہ گیا تھا کہ وہ جمعہ کے اجتماع کے بعد دعا مانگتےتھے  ْ یاالہی، گستاخان رسول ﷺ پر ٓآپ کا قہر نازل ہو چکا مگر ابھی ان میں جان باقی ہے ، کربلاء کے شہیدوں کے صدقے ان کو مکمل نیست ونابود فرما اور نئے حکمرانوں کو توفیق بخش کہ وہ پانچ سال تک تیرے دین کی خدمت کر سکیں ۔ مولا کریم ان کو گستاخی رسول کی ہمت نہ دینا ورنہ ہمارے امیر المجاہدین کسی وقت بھی سر پر کفن باندھ کر نکل سکتے ہیں ْ 
مقتدر ادارہ دھرنے کے دوران غازیوں کا پشت بان بنا تھا ۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک وفاقی وزیر کی قربانی قبول فرما کر ثابت کیا تھا کہ  گستاخ اپنے انجام کو پہنچ چکے اور غازیوں کو واپشی کے لیے زاد راہ دے کر فارغ کر دیا دیا گیا تھا ۔ یہ ادارہ  عمران خان کے دھرنے کے دوران انگلی تو کھڑی نہیں کرتا مگر عوام کو کھڑا نظر آتا ہے۔اور عوام سے زیادہ خواص موجودگی سے اپنی آئندہ کی راہ منور کرتے ہیں۔
سیاست میں " کلہ" عوامْ ہوا کرتے ہیں،امریکی سیاست دانوں کا ْ کلہ ْ کس قدر مضبوط ہے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کم ہی لوگوں کو امریکی سیاستدانوں کے کلے کی مظبوطی کا ادراک ہے
پاکستان میں عوام کا تجربہ یہ ہے کہ اختیارات کا محور و مرکز ْ طاقت ْ ہی ہے۔ اور طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سیکرٹری پاکستان کے وزیر اعظم کو فون مبارک باد کا فون کریں تو اخباروں میں سرخی اور ٹی وی پر ہیڈ لائنس بنتی ہیں۔اور پاکستان کے وزیرخارجہ کے کہنے پر ہمار ا دفتر خارجہ کوئی وضاحت بھی جاری کرے گا تو اس کو ملک کے اندر نہ باہر سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمان کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہدائت کے بعد امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اب اس کی ایک فون پر لیٹ جانے والوں کی حکومت نہیں ہے۔ معلوم نہیں ڈاکڑ  صاحب کے ذہن میں لیٹ جانے والوں کے بارے میں کس کی تصویر ہے مگر مشرف اینڈ باقیات کے پیٹ میں اس بیان سے ایسا مروڑ اٹھاتھا جو ڈاکٹر کے کھڈے لائن لگ جانے کے بعد ہی ٹھیک ہوا ۔وزیر اعظم  وزارت خارجہ گئے اور بیان دیا کہ ْ کسی بھی ملک سے خواہ مخواہ کا الجھاو نہیں چاہتے . اور جوشیلے پارٹی ورکروں کو مناسب پیغام دیا۔یاد دھانی کراتے رہنا ہمارافرض ہے کہ امریکہ کا ْ کلہْ پاکستان میں بھی مضبوط ہے اور اس کلے کے رکھوالے کلے کی مضبوطی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ نواز شریف کی جیل یاترا کے بعد جوشیلے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، حکمران جس نام کا بھی ہو، عوام کا ووٹ جس کے پاس بھی ہو پہلا اور آخری پیغام یہی ہے کہ کھاو پیو موج اڑاو مگر ْ ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا ْ    

ہفتہ، 25 اپریل، 2020

ایک شخص ایک کہانی



اکبر بادشاہ نے اپنے مشیر با تدبیر سے فرمائش کی کی وہ 6 دنوں میں اس کے لیے ایک تصویر بنا کر دے ۔ بیربل نے 6 دنوں میں مطلوبہ تصویر بنا کر بادشاہ کے حضور پیش کردی ۔ بادشاہ نے اپنے دوسرے مشیروں کو بلایا اور کہا کی وہ اس تصویر کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔ سب مشیروں نے تصویر پر پنسل سے ایک ایک نقطہ لگایا اور بادشاہ کو بتایا کہ تصویر اس مقام سے ناقص ہے ۔ بیربل ، کہ انسانی نفسیات کا ماہر تھا ، نے بادشاہ کے سامنے سب مشیروں کو دعوت دی کہ وہ ایسی تصویر بنا کر دکھائیں جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ بیر بل کا یہ چیلنج کوئی ایک مشیر بھی قبول نہ 
کرسکا ۔ اکبر بادشاہ نے ڈوبتی ہوئی نظرون سے سب کو دیکھا اور کہا  " نقطہ چین  " ۔
   

یہ قصہ 
Promod Betra
نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ نقطہ چینی دنیا کا سب سے آسان کام ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مودودہ دور میں ہر وہ شخص نکتہ چینی کی زد میں ہے ۔ جو معاشرے کو کوئی تصویر بنا کر دکھاتا ہے۔ تصویر پر پنسل سے نہیں بلکہ تنقیدی مارکر سے موٹے موٹے نشان لگائے جاتے ہیں۔ کوئی ایک شخص بھی مگر مطلوبہ تصیر بنانے کے لیے میدان عمل میں نہیں اتا۔ 
معاشرہ ایک مشین کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر پرزے کو انفرادی طور پر اپنا اپنا کام خوش اسلوبی سے کرنا ہوتا ہے۔
اپنی منزل کا انتخاب اور راہ کا چناو فرد کا سب سے بڑا اخلاص ہوا کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی منازل کا تعین کر لیا ہوتا ہےوہ اس تک پہنچنے کے لیے راہ کا انتخاب بھی خود کیا کرتے ہیں۔رستے میں آنے والی رکاوٹوں اور تنقید سے دل برداشتہ نہیں ہوا کرتے۔ 
کامیاب لوگوں کی مثالوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ جاوید مثالیں موجود ہیں جنھوں نے اپنی منزل کا تعین کیا ۔ چل پڑے ، راہ کے کانٹوں سے اپنے دامن کو بچا کر رکھا اور کامیاب ہوئے۔
ہمارے بنکاری کے شعبے میں ، تعمیرات کے شعبے میں ، سائنس کے شعبے میں، تعلیم کے شعبے میں ،انسانی خدمت کے شعبے میں ، سیاست میں ، ، مذہب میں ہر طرف کامیاب لوگوں کی مثالیں موجود  ہیں تازہ  ترین واقعات میں عزت ماب فیصل ایدہی کو لوگوں نے تنقید کے لیے چنا ۔ لیکن ناقدین کی تنقید کے کانٹوں سے دل برداشہ ہوا نہ فیصل نے اپنی منزل کی راہ چھوری۔ حال ہی کی دوسری مثال تبلیغی جماعت کے مولوی طارق جمیل صاحب کی ہے۔ اس شخص پر تنقید کی بارش شروع ہوئی تو خیال تھا کہ یہ بارش اولوں میں بدلے گی  مگر آپ نے محسوس کیا ہو گا اس نے معافی مانگ کر مطلع ہی کو صاف   
  کر دیا۔ مثالوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہے مگر ہم نے جو سبق کشید کیا یہ ہے کہ  با منزل لوگ راہ کے کانٹوں سے
االجھ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کیا کرتے۔ ہمارے ہان ایسی سوچ اجنبی ہے۔مگر کامیابی کا راستہ مصالحانہ طرز عمل ہی بنتا ہے۔ 
کسی عقلمند نے کہا ہے کہ برے حالات کبھی بھی نہیں سدہرتے مگر مضبوط لوگ برے حالات میں بھی اپنا رستہ نہیں چھوڑتے۔ ہنری ٹرومیں نے ایک بار کہا تھا " اگر آپ جل جانے سے خوف زدہ ہیں تو آپ کو کچن سے باہر آ جانا چاہیے " ۔
ہم اہک پچھڑے معاشرے کے باسی ہیں ۔ یہاں جو کوئی بھی اپنی منزل رکھتا ہے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔عمران خان پر کیا کم تنقید ہوتی ہے، نواز شریف پر کیا کم بہتان لگتے ہیں لیکن نظر نہیں آتا کہ تنقید نے انھیں بددل یا مایوس کر دیا ہو۔ 
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لوگ انھیں ذہین، عقلمنداور حالات سے لڑنے والا سمجھیں۔ کوئی بھی نہیں چاہتا لوگ انھیں بے وقوف کہیں مگر صاحبان فراست افراد ہون کہ معاشرے ان کی نظر منزل پر ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ راہ کے کانٹون سے الجھتے نہیں ہیں۔ دامن بچا کر اپنی منزل کی طرف روان دواں رہتے ہیں۔  یہ ایک حقیقت ہے جو افراد معاشرون اور ملکوں تک کے لیے سچ ثابت ہوتی آئی ہے۔

پیر، 9 ستمبر، 2019

اوئے شرم کرو

پاکستان کے فوجی جوان جو غازیوں کی زندگی جیتے ہیں اور جب وطن پر قربان ہو جاتے ہیں تو ان کے گاوں اور محلے والے ان کی تربت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ ہماری بہترسالہ فوجی تاریخ قربانیوں اور معجزوں سے عبارت ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ایک تن تنہا پاکستانی مجاہداللہ اکبر کا نعرہ لگا کر دشمن کے دو سو فوجیوں کو گھیر لایا تھا۔ 

سولہ دسمبر ۱۹۷۱ کی شام کوئی پاکستانی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ ہمارے ۹۲،۰۰۰ فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مگر ایسا ہوا اور ایسا کرنے والا اس وقت کا کمانڈر انچیف اور ایسٹرن کمانڈ کا جنرل تھا۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تو اپنا پستول دشمن جنرل کے حوالے کر کے قید ہو چکا تھا مگر راولپنڈی میں کمانڈر انچیف جنرل آغا محمدیحیی خان سے جب زبردستی استعفیٰ لیا گیا تو وہ شراب کے نشے میں دہت تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید بن معاویہ شرابی تھااور شراب کے نشے میں چھڑی سے ایک متبر ک اور پاکیزہ کٹے ہوئے سر کو ٹھکورا تھا۔ یہ چھڑی بڑی ظالم شے ہے تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ڈہاکہ کے پلٹن میدان میں نیازی سے پستول لینے سے بھی پہلے اس کی چھڑی لے لی گئی تھی۔جب مغربی پاکستان میں چھڑی کے خلاف بغاوت ابھری تو یہاں بھی چھڑی والے سے چھڑی لے لی گئی۔مگر پاکستان کے فوجی جوانوں کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم جناب ذولفقار علی بھٹو شہید نے مغربی پاکستان میں انڈیا کے بارڈر پر کھڑے ہو کر فوجی جوانوں سے کہا تھاکہ یہ شکست فوجی شکست نہیں ہے بلکہ سیاسی شکست ہے۔ یہ بھٹو کا نعرہ تھا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر اپنا ایٹم بم بنائیں گے۔فوج ہتھیاروں کے بل بوتے پر لٹرتی ہے اور اسے جذبہ اپنی قوم مہیا کرتی ہے۔ہتھیار اپنا ہونے کا فلسفہ ۱۹۴۷ ہی میں پاکستانیوں کو سمجھ آ گیا تھا جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے حملہ کیا تو نظام نے جو نقد رقم دے کر بندوقیں خریدیں تھیں میدان عمل میں ناکارہ ثابت ہوئیں۔ اس وقت زمینی حالات یہ ہیں کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ا ہو یا نہ ہو مگر سبز ہلالی پرچم کے لیے چیر پھاڑنے کو بے تاب ہے۔ ۲۲ کروڑ لوگ ان کی پشت پر صرف زبانی نہیں کھڑے بلکہ نصف صدی تک تین نسلوں نے گھاس کھا کر اپنے فوجیوں کے لیے وہ بندوق تیار کر کے رکھی ہے۔جو چلے تو چاغی کے سب سے بڑے پہاڑ کو خاکستر کر کے رکھ دے اور دنیا بھر کے جنگی ماہرین اس بندوق کے موثر ہونے کی گواہی دیں۔ 

ہماری فوج وہ ہے جو تین دہائیوں سے دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ہماری دو نسلیں تو پیدا ہی دہماکوں کے دوران ہوئی ہیں اور بموں سے کھیل کر جوان ہوئی ہیں۔ ہمارے پاکستان کے بوڑہے اپنے جوان بیٹوں کے لاشوں کو دفنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جوان خون وطن کی مٹی میں ہی جذب ہوا ہے۔
سابقہ ایک سال میں اس ملک خداداد پر کون سا کالا جادو کیا گیا ہے کہ فوجی جوان حیران ہیں کہ ان کا دشمن کون ہے؟

عوام یہ جان کر دانتوں میں انگلی دے لیتی ہے کہ ووٹ کے ذریعے دشمن کو شکست فاش دی جا چکی ہے۔ پاکستانی عوام جو اداروں سے مایوس ہو چکی ہے سوائے پاک فوج کے، حیران ہی نہیں پریشان بھی ہے۔ اور اس کی پریشانی کا سبب کوئی راز نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد جو لوگ عوام پر مسلط کیے گیے ہیں۔ وہ حکمران چور اور ڈاکو بن گئے ہیں۔عوام نان جویں کر ترس رہی ہے۔ ۔ نوجوان اپنے مستقبل سے نا امید ہو چلا ہے۔ عام ٓدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔اداروں کے کرنے کے کام سوشل میڈیا فورس کے حوالے کر دیے گٗے ہیں۔ 

اس ملک کا سب سے بڑا ڈاکو آصف علی زرداری بتایا جاتا ہے مگر اس کے دور میں تو زندگی معمول پر تھی۔ ہمساٗے رشک بھری نظروں سے ہمیں دیکھا کرتے تھے۔ دشمن منہ کھولنے سے پہلے کئی بار سوچا کرتا تھا۔ سب سے بڑا چور نواز شریف بتایا جاتا ہے۔ عدالت نے تو اس کو اقامہ پر سات سال کے لیے جیل میں بھیجا ہوا ہے۔ اگر اس نے چوری کی ہے تو برآمد کیوں نہیں ہو رہی۔مگر اس کے دور میں بھی عوام کی امید کی ڈوری مضبوط ہی ہوئی تھی۔ کیا ملک کے میں موٹر ویز کا جال نہیں بچھایا گیا۔ میڑوبسوں کا چلنا اس خطے میں منفرد کام نہ تھا۔لاہور میں اورنج ٹرین پورے بر صغیر میں نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام آباد کا ہوائی اڈہ کیا چوری کا شاخسانہ ہے۔

۔یہی مودی جو پاکستانی حکمرانوں کا فون اٹھانے کا روادار نہیں ہے خود چل کر لاہور آیا تھا۔ اس کے پیش رو نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر کچھ اعترافات بھی کیے تھے۔

ہمارے حقیقت پسند وزیر خارجہ کا بیان ہے کہ پاکستانی احمقوں کی جنت میں نہ رہیں۔ حالانکہ پاکستانی خود کو دوسروں سے بہتر جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے احمقوں کی جنت میں وہ رہتے ہیں جو پاکستان کو مصر سمجھ بیٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو اس بیانئے پر یقین ہے کہ فوج اور پولیس میں ہمارے بیٹے اور بھتیجے ہیں۔ عوام اور فوجی جوانوں کا خون ایک ہے۔ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بندوق لے کر نکلیں گے تو پورا پاکستان ان کی دفاعی لائن کو قائم رکھے گا۔ ہمارے سپہ سالار کا فرمانا ہے کہ اخلاقی قوت عسکری قوت سے زیادہ فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا موجودہ مسلط کردہ حکمران قوم کو اخلاقی طور پر متحد کر رہے ہیں یا عوام اور افواج پاکستان میں غلط قہمیوں کے بیج ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے صرف منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔یہاں تو اقتدار کو ایسے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں جن کو عدالتوں نے ناہل قرار دیا ہوا ہے۔ 

یہ بیانیہ البتہ قابل قبول نہیں ہے کہ جو موجودہ حکومت کے جھوٹ کو سچ نہ مانے وہ دین کا منکر اور پاکستان کا غدار ہے۔ جو انصاف کے معیار پر انگلی اٹھائے اسے عدلیہ کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ سیاسی مخالفین کے مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سن کر انصاف کا بول بالا کیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر ظلم اور بے انصافی کا راج ہو گاتو لا محالہ قوم کی سوچ تقسیم ہو گی۔ یہ کیسا اجینڈا ہے جو عوام کو گروہوں میں بانٹ کر مایوسی کی آبیاری کررہا ہے اور امید کی ٹہنیاں کاٹ کرجلا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ ایشیاء ٹائیگر بننے سے انکار کر کے عوام کے معاشی ترقی کے عزم کے سیلاب کے آگے بند باندہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے کس منشور کا حصہ ہے۔ لوگ ووٹ منشور کو دیتے ہیں۔ یہاں منشور کو لیٹ کر رکھ دیاگیا ہے۔

غریبوں کی روزمرہ اشیائے ضرورت پر جی ایس ٹی کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین ٹیکس لگا کر رقم جہاز والوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ عمران خان کنٹینر پا کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے اوئے شرم کرو۔۔یہ تمھارے باپ کا پیشہ ہے عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ۲۰۸ ارب کس کے باپ کا پیسہ ہے جو گیس کے بلوں اور کھاد کی قیمت کے ذریعے لوٹا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو ۴۰۰ ارب کا ٹکہ لگا یا گیا مگر سرکاری خزانے میں کچھ بھی جمع نہ ہوا۔۔

وزیر اعظم کو ایسی خبریں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں، حالانکہ اس صدارتی آرڈیننس کی سمری وزیر اعظم نے قصر صدارت بھیجی تھی۔ جب ٓرڈیننس جاری ہو گیا تو دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے اس کے فضائل بیان کیے اورجب لوگ اس آرڈیننس سے مستفید ہو چکے تو وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا۔پھر اس نوٹس لینے پر قوالوں کی پوری پارٹی میدان میں اتاری گٗی جس کی سربراہی حفیظ شیخ نے کی۔ 

وزیر اعظم سیاست کو تجارت بنا کر تجارت پر سیاست کر رہے ہیں۔ انھیں قانون، آئین حتیٰ کہ اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں ہے۔جہانگیر ترین اور رزاق داود کے جہازوں میں جلنے والے ایندہن کا جب بھی لیبارٹری میں فرانزک ہوا اس میں غریب عوام کے نچوڑے خون اور محنت کے پسینے کی آمیزش ضرور ثابت ہو گی۔عوام پر ظلم، زیادتی اور بے انصافی پر حکمرانوں نے کان اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ان کو احساس ہی نہیں کہ غریب جب روزمرہ استعمال کی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو مہنگائی اسے ایسا کرنٹ مارتی ہے کہ اس کا دماغ شل ہو کے رہ جاتا ہے۔

حکومتی باجوں پر نئی دہن یہ بجائی جا رہی ہے کہ اس کرپشن کا سبب وہ عدالتی اسٹے آرڈر ہیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے جواب میں بقول عمران خان یہی کہا جا سکتا ہے اوٗے شرم کرو مگر شرم اور حیا، قانوں اور قانون کی پاسداری سے عملی طور پر حکومت ہاتھ دہو چکی ہے۔

جمعرات، 18 اپریل، 2019

کالی ٹوپی

                           
 
ملک بھر میں دہشت گردی کے سبب سناٹا تھا۔  ایک شادی کے ولیمے کی دعوت تھی ۔ اس خوشی کے موقع پر بھی شرکاء کے چہروں پر خوشی کی بجائے انجانا خوف صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ شادی ہال میں میرے ساتھ بیٹھے دوستوں میں سے ایک نے چند ہفتےقبل ہونے والی سکول کی ایک تقریب کا ذکر چھیڑ دیا ۔یہ سکول راولپنڈی میں واقع ہے مگر تقریب اسلام آباد کے ْ محفوظْ مقام کنونشن سنٹر میں ہو رہی تھی۔ میں زندگی میں پہلی بار کسی ایسی تقریب میں شریک تھا جو ان بچوں کے لیے منعقد کی گئی تھی جو چند سال سکول میں گزار کر اس قابل ہو گئے تھے کہ پہلی جماعت میں داخلہ لے سکیں۔ اس تقریب کو سکول نے بچوں کی ْ
Graduation Ceremony
 کا نام دے رکھا تھا۔ بچوں نے باقاعدہ گاون پہنے ہوئے تھے اور سروں پر وہ ٹوپی سجا رکھی تھی۔ جس کے پہننے کی آرزو پوری کرنے کے لیے ہم نے سالوں کالج جانے والے رستے کو صبح و شام ناپا تھا۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ کالی ٹوپی صرف نوجوانوں ہی کا نہیں بلکہ پہلی جماعت تک پہنچ جانے والے بچوں کا سر بھی فخر سے بلند کر دیتی ہے۔تقریب کے بعد بچے بھی اپنی ٹوپیاں اچھال رہے تھے۔ ایک بچے نے خوشی کے اظہار میں ٹوپی اچھالی۔ قبل اس کہ وہ واپس بچے تک پہنچتی میں نے اسے ہوا میں ہی پکڑ کر بچے کے سر پر پہنا دیا۔ بچہ میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے پوچھا
 ْ مسٹر گریجویٹ یہ کیا ہےْ
 اس نے کہا ْ انکل یہ میری گریجویشن کی ری ہرسل ہے ۔ْ
 اپ کیا بننا چاہتے ہوْ
 جواب بے ساختہ تھا ْ اچھا مسلمان اچھا پاکستانی اور اچھا آئی ٹی گریجویٹ ْ 
ایک پھول کی طرح مسرت و شادمانی سے سرشار خاتون نے مسکراتے ہو ئے کہا ْ مسٹر گریجویٹْ ذیشان میرا بیٹا ہے۔ میں نے کہا ْ ذیشان کے
concepts
 اس عمر ہی کافی
clear
 ہیں۔ یہ آپ کی تربیت کا چمتکار ہے یا سکول نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری تربیت کا اثر بھی ہو سکتا ہے مگر میں اس کا کریڈٹ ذیشان کے اسکول ہی کو دوں گی ۔ تقریب کے اختتام پر میری اسلام آباد سے راولپنڈی واپسی پرنسپل صاحبہ کے ساتھ بات چیت کا موضوع کلیر اور ان کلیر کونسیپٹ ہی رہا ۔ پرنسپل نے ایک واقعہ سنایا جس کا خلاصہ ہے کہ بچہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے ،بچہ کامیاب ہو کر اپنی کامیابی کا ہار والدین اور اساتذہ کے گلے میں ڈالتا ہے اور ناکام رہ جانے والا نوجوان اپنی ناکامیوں کا بار والدین اور اساتذہ پر ہی ڈالتا ہے۔ کالی ٹوپی کے بارے میں ان کا کہنا تھاہم بچوں کو گاون اور ٹوپی پہنا کر ان کے ذہن میں ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اصلی گریجویشن کی اہمیت جان سکیں۔
ایک واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ ایک بی اے والد اور ایف اے والدہ کی بیٹی نے ایک دن راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں ایم اے کی ڈگری پانے کی خوشی میں منعقدہ تقریب کے بعد یونیورسٹی کے لان میں ٹوپی اچھالی تو اس کی ماں نے لپک پر اسے ہوا ہی میں اچک لیا۔اور بیٹی کے سر پر پہنایا، لڑکی نے دوبارہ اس ٹوپی کو اچھالا تو میں نے ہوا میں اچھل کر اسے اچک لیااور اپنے دوست کے سر پر پہنانا چاہا تو اس نے ٹوپی بیٹی کے سر پر پہنا کر کہا۔ یہ ٹوپی میرے قد سے اونچی ہے۔ خوشی سے میرے دوست کا چہرہ گلاب کی طرح کھل رہا تھا۔
 ڈہائی سال کے بعد میں ایک باراسی خاندان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر اس بار چہرے اترے ہوئے تھے۔ بات ڈھکی چھپی بھی نہ تھی ۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی اپنے خاندان میں اپنی پسند کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے ۔ جب کہ لڑکی نے اس شادی سے ماں کے سامنے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی نانی کو بھلا بھیجا تھا۔ اس کا خیال تھا لڑکی کو نانی راضی کر لے گی۔ مگر نانی سے آتے ہی اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔زیب النساء میں نے تجھے کہا تھا لڑکی نے ایف اے کر لیا ہے اب اس کی شادی کردو۔ اس وقت اس کے باپ کو شوق چڑہا ہوا تھا ماسٹر کرانے کا ۔ میں نے کہا نہیں تھا جب لڑکی کا قد والد ین سے اونچا ہو جائے تو خود سر ہو جایا کرتی ہے ۔ اس کا باپ تو کہا کرتا تھا میں اپنی بیٹی کو خود اعتمادی دے رہا ہوں اب اس میں خود اعتمادی آ گئی ہے تو اس خود اعتمادی کا بوجھ اس سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس سے پوچھو تو سہی کیااللہ اور اس کے رسول کا دیا ہوا حق اس لیے چھین لینا چاہتا ہے کہ اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ لوگ تو اولاد کو خوشیاں خرید کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی ہی بیٹی کی زندگی اجیرن کرنا چاہتا ہے۔ بلاو لڑکی کو کہاں ہے۔ لڑکی کا چہرہ بھی اترا ہوا تھااور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ نانی بولتی ہی گئی بس کرو یہ ٹسوے اور باپ کا سر چومو جس نے تمھیں کالی ٹوپی پہناتے پہناتے گنجا کر لیا ہے ۔ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی کہ والدین کو رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہے۔
ٓجس شادی ہال میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہاں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں انھوں نے سیاہ جناح کیپ پہن رکھی ہے۔ شادی کی اس تقریب میں دلہن میرے دوست کی بیٹی ہے، اس دلہن کی نانی کے الفاظ  میرے ذہن میں گویا چپک ہی گئے ہیں
 ْ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی ۔۔۔رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہےْ 

جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

خان کہاں ہے ؟

عمران خان کیلئے تصویری نتیجہ
اس ملک کو ڈاکو اور چور کھا گئے، عوام کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا یہ آواز ہر کان تک پہنچ چکی۔ ایک وزیر با تدبیر ٹی وی پر ریوالنگ کرسی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں میری وزارت سے سابقہ چور حکمران سب کچھ لوٹ کر لے گئے وزارت کے کھاتے میں صرف تیس روپے پڑے ہیں ۔ اس پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا اس کا صدقہ کر دو۔
ہر سیاسی جماعت معاشرے کے کسی طبقے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے جہاں سے اس کو مالی کمک مہیا کی جاتی ہے۔منفرد اور طویل دھرنے کے دوران شیخ الاسلام صاحب نے رات گئے خواہش کا ااظہار کیا اور صبح ہم نے سکول کے لیے سامان لیے ٹرک موقع پر دیکھے تھے۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت جس طبقے کے مفاد کی دعویدار ہوتی ہے ، عمل اس کے بر عکس نہ ہو تو بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے یہی اعمال عوام کی اکثریت کو بد ظن کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں میں کمی کا سبب لاتعلقی کا اظہار ہے۔
عمران خان صاحب کی پی ٹی آئی کا المیہ مگر اس سے بڑھ کر ہے ۔اس جماعت کا دعویٰ تھا مر جائیں گے مگر قرض نہیں لیں گے، پورے پاکستان میں مہنگائی کو عوام نے سہہ لیا۔ہزاروں ڈیم کے بارے میں عوام کہتی ہے سو دنوں میں ہونے والاکام نہیں ہے۔مگر عوام پوچھتی ہے وہ دو ارب ڈالر کیا ہوئے جو عمران خان کے کرسی پر بیٹھتے ہی پاکستان میں آنا تھے۔ اب ہمارے وزیر خزانہ صاحب اس سوال پر ہنس دیتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ ہنسی عوام کے فہم پر ہے؟ عوام کو یہ بھی یاد ہے چوروں کی حکومت میں جو سات ارب روپے کی مبینہ روزانہ کرپشن تھی وہ اب رکی کہ نہیں ؟ تو جواب ملتا ہے پولیس اور بیرو کریسی ہماری بات ہی نہیں مانتے۔  عوام تو اس پولیس اور بیورو کریسی کو نسلوں سے جانتی ہے بس آپ کی جماعت ہی اس زمینی حقیقت سے ایک صوبے میں پانچ سال کی باری کے بعد بھی بے خبرنکلی۔عوام کو یاد ہے آپ نے پچاس بلین ڈالر سالانہ کے موصول زر کا ذکر کیا تھا۔ اس کے جواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہے اور پاک چین راہداری کی درآمدات پر تبرہ کیا جاتا ہے ، حالانکہ سابقہ وزیر اقبال احسن کا کہنا ہے کہ اس کی ادائیگی اگلے سال سے شروع ہونی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ وہ چور ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں۔ تین سوارب جو سوئس بنکوں سے پاکستان میں آنا تھے اس کا جواب وزیر اطلاعات جیسے با خبر بھی تراشنے میں ناکام ہی ہیں۔لیکن سو ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ نہ رکنے اور دس ٹریلین کا ٹیکس امیروں سے اکٹھاکر کے غریبوں پر خرچ کرنے کی امید اس دن دم توڑ گئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سابقہ بجٹ پر قلم پھیر کر اپنا بجٹ اسمبلی سے منظور کرا لیاتھا۔
نا اہل وزیر اعظم نے تین ماہ میں ملک مین بجلی پوری کرنا کا دعویٰ کیا تھا ،پہلے سو دنوں میں ان کی پھرتیاں دیکھ کر عوام کی ڈھارس بندہی تھی کہ سو دنوں مین نہ سہی پانچ سالوں میں ہی یہ گھاٹی عبور کر لی جائے۔آخر کار چار سالوں بعد عوام کے گھروں کے اندہیرے اجالے میں بدلے۔
سپریم کورٹ نے جب سے عمران خان کے بارے میں صادق و امین کی سند جاری کی تھی ۔اس کے بعد سے عوام کا خان صاحب کے اقوال پر یقین دو چند ہو گیا تھا۔ خان صاحب نے مگر پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرتے زمینی حقائق کو دیکھا تک نہیں۔
ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے، جو معاشرے کے ہر فرد کو ازبر ہوتا ہے۔اس بیانئے کو لے کر افراد اور معاشرہ آگے جاتا ہے۔امریکہ میں غلامی اسی صدی میں ختم ہوئی ہے مگر ایک شخص نے عوام کو ایک بیانیہ دیا تھا۔ اس کی تبلیغ پر اپنا تن ،من دھن لگا دیا تھا۔مگر اس کا بیانیہ سادہ اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے والا تھا۔برطانیہ میں جمہوریت کے علمبرداروں نے تاج اچھالے بنا ایسا بیانیہ عوام کو دیا جس کو رد کرنا کسی کے بس میں نہ تھا۔چین کی موجودہ ترقی بھی ایک بیانئے کا کرشمہ ہے۔ ایک شخص ایسا بیانہ لے کر اٹھا جو حکمران پارٹی کے دشمنوں کو چین لانے کی دعوت پر مشتمل تھا۔ پارلیمان کے ممبران تو دور کی بات ہے خود پارٹی کی سطح پر انگلیوں پر گنے جانے والے افراد ہی اس کے وژن پر ایمان لائے تھے۔مگر اس نے ایک ایک فرد کے پاس جا کے اپنا بیانیہ لوگوں کو سمجھایا تھا۔ آج چین کی معیشت کہاں کھڑی ہے سب کو معلوم ہے۔
عمران خان صاحب کی جماعت عوام کو بتاتی تھی یہ ہم ۲۲ سالوں سے محنت کر رہے ہیں۔ نیا پاکستان بنائیں گے ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ بلواسطہ ٹیکس ختم ہو جائیں گے، ہر شخص کو کام پر لگایا جائے گا۔ مگر کبھی وزیر خزانہ ہنس دیتے ہیں تو کبھی بتایا جاتا ہے کہ چور وزارت کے اکاونٹ میں تیس روپے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ سب سے بڑا چور تو نواز شریف بتایا جاتا تھا۔ وہ تو سزا بھگتنے کے لیے لندن سے چل کر آ گیا تھا۔اگرچور تھا، عوام پوچھتے ہیں، چوری کا مال نکلواتے کیوں نہیں۔وزیر با تدبیر فرماتے ہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔ عدالت کہتی ہے پارلیمان سست ہے۔ مگر وزیر اعظم صاحب تو کہتے ہیں می ں چھوڑوں گا نہیں ۔مگر پارٹی میں موجود سند یافتہ چوروں، ڈاکووں ، منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کا نام لیا جائے تودوسرے ہفتے نام لینے والا ملازمت سے فارغ ہو جاتا ہے۔
اب عوام کہتی ہے پی ٹی آئی نے ۲۲ سال اپنے بیانئے کو مقبول بنانے ہی میں صرف کیے ہیں۔ وہ معاشرے کے جس طبقے کے مفادات کی نگہبان ہے ان ہی کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہے۔ عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس شہداء کی جو فہرست ہے ان میں اکثریت امید کی بتی کے پیچھے دوڑ میں ہانپ کر مر جانے والوں ہی کی ہے۔
کرسی کا اپنا ہی بیانیہ ہے۔ جوانگریز کے وقت سے چلا آ رہا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا حاکم ہے باقی سب محکوم۔ 
پاکستان میں دوبارہ ایسے بیانئے کے لیے جگہ خالی ہے جہاں عوام کے ساتھ معاملہ کرنے والے پٹواری اور تھانیدار جو حکمران ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے شخص کو نہ بٹھا دیا جائے جس کو احساس ہو کہ اس کا کام عوام کی خدمت ہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ان دونوں کرسیوں کے بیچ میں کھڑے عوامی نمائندے کو بیٹھنے کے مستقل کرسی مہیا نہ کر دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی کارکن ہانپ ہانپ کر گرتے ، مرتے رہیں گے جن کو سیاسی مبلغین سیاست کی جنت برین میں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کی اولادیں تعلیم کو اور ان کا خاندان دو وقت کی روٹی کو ترس جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت مقبول تھا ۔ مگر عمل نے ہدف ہی تبدیل کر دیے ہیں ، اب ہدف پٹواری اور تھانیدار نہیں بلکہ وہ تیسرا ہے جو عوام کی خدمت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کر کے آتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا ہدف یہی تیسرا ہے ۔عوام تو یہی کر سکتی ہے خان صاحب کی بجائے نیازی صاحب پکارنا شروع کر دے۔جب عمران خان صاحب کے سابقہ شیدائی سے اس کا سبب پوچھا تو اس کا جواب تھا۔ عمران احمد نیازی میں خان کہاں ہے

پیر، 7 مئی، 2018

تیرے میرے خواب


                                

کہا جاتا ہے ساون کے اندھے کو ہریالی ہی نظر آتی ہے ۔ اس ایک جملے میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت کو بیان کر دیا گیا ہے۔خواب کا تعلق انسان کے طرز معاشرت اور اس کے علم سے جڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھنا یا سیدنا یوسف علیہ السلام کا گیارہ ستارون اور چاندو سورج کو سجدہ ریز دیکھنا۔
طرز معاشرت کی وضاحت ان دو غلاموں کے خواب سے ہوتی ہے جو سید نا یوسف علیہ السلام کے ساتھ قیدخانہ میں تھے ۔ ایک بادشاہ کا ساقی تھا اس نے خواب میں خود کو رس نچوڑ کر بادشاہ کو پیش کرتے دیکھا تو بادشاہ کے باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں۔
انسان کا ذہن جن معاملات کے بارے مین فکر مند ہوتا ہے ، اس کو نیند میں خواب بھی ان ہی معاملات کے متعلق نظر
آتے ہیں مثال کے طور پر مصر کے ایک بادشاہ نے خواب میں سات دبلی اور سات موٹی گائیں دیکھی تھیں۔ موجودہ دور میں ایک شخصیت نے اپنے خوابوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ ان سے رہائش و طعام و سفر کے اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
درپیش مہمات بارے خواب دیکھنے کی مثال نبی اکرم ﷺ کا جنگ بدر سے قبل دشمنوں کی تعداد بارے خواب ہے یا ہجرت نبوی ﷺ کے پانچویں سال میں آپ ﷺ کا یہ خواب کہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ ادا فرما رہے ہیں اور اطمینان سے حرم شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔جن دنوں نماز کی دعوت کے طریقوں پر غور ہو رہا تھا تو ایک صحابی رسول ﷺ نے اذان خواب میں دیکھی تھی۔
کتابوں مین مذکور ہے کہ الیاس ہاوی ، جس نے سلائی مشین بنائی تھی، دن رات اس کے ڈیزائن ذہن میں بنایا کرتا تھا تو ایک دن اس نے مکمل ڈیزائن خواب میں دیکھ لیا۔بابل کے نامور بادشاہ بنو کد نصر نے بھی آنے والے وقت میں حکمرانی کا عروج و زوال بھی خواب میں ہی دیکھا تھا۔ موجودہ دور میں ایک خواب کا چرچا رہا جس میں ایک روحانی عالمہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایک سیاسی شخصیت سے شادی کر لی تھی ۔ اور وجہ عالم رویا میں نظر آنے والا خواب بیان کیا گیا تھا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ کو نارول میں ۶ مئی والے دن گولی مار کر زخمی کرنے والے عابد نامی ملزم نے بھی اس جرم کی ہدائت ایک خواب کے ذریعے پائی تھی۔
خوابوں دیکھنا ، خواب دکھانا اور خواب کو سچ کر دکھانا ، تین مختلف قسم کے اعمال ہیں ۔ خواب ہر بینا شخص دیکھتا ہے، خواب دکھانا رہنمائی کے دعویداروں کا شغل ہے مگر خوابوں کو سچا کر دکھانا اصحاب کمال کا کام ہوتا ہے ۔
مادر زاد اندھا خواب نہیں دیکھتا، سچے خواب رحمان کی طرف سے مگر جھوٹے خواب دکھانا شیطان کا شیوہ ہے ، باکمال لوگ اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھالتے ہیں ۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر باکمال پر سنگ باری لازمی ہوئی ہے

پیر، 5 مارچ، 2018

بھٹو زندہ ہے


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ عوام اور مبصرین کی توقع کے مطابق ہی آیا ہے۔ پنجاب سے چوہدری سرور کی کامیابی بہر حال پی ٹی آٗئی کی بجائے ذاتی کہی جائے تو شائد مبالغہ نہ ہو۔ ایک کامیابی بعض اوقات بہت سی ناکامیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی ہے۔ چوہدری سرور برطانوی شہریت کے باوجود پنجاب کی سیاست کو اپنے لیڈر سے بہتر منظم کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہے بلکہ وہ ارائیں ازم کی بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کر چکے۔ جادو کی نسبت سائنس معجزہ ثابت ہو چکی۔ کپتان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنا پروگرام اور بیانیہ دینے میں ناکام ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ْ بے ووٹ ْ ہجوم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھانت متی کے کنبے کے افراد عمران خان کا گھیراو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ، حالانکہ وقت گذر چکا ہے ، سوچنا چاہیے کہ اس کے نظریاتی کارکنوں کو آخر شکوہ کیا ہے ۔ جرنیل سپاہیوں کے بل بوتے پر جنگ جیتتا ہے ۔ اور سپاہیوں کا یہ گلہ بے جا نہیں ہے کہ ْ چوری کھانے والے رانجھے ْ جسم کا ماس کاٹ کر نہیں دیا کرتے۔ مولانا سمیع الحق بارے کپتان کا فیصلہ اس کی پارٹی نے نا پسند کیا ہے اور پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنا مقام بنانے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں محنت کرنا ہو گی۔ سینٹ کے الیکشن سے فوری قبل نادیدہ قوتوں اور مہروں کا کردار عوام کو پسند آیا نہ جمہوریت ہی کو اس سے کوئی فائدہ ہوا۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے سب یہ کوشش تھی کہ کمر کے درد کا مریض تین تلوار پر کھڑا ہو کر مکہ لہرا کر کہہ سکے کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے جو سفر طے کیا ہے اس میں خونی قربانیاں شامل ہیں۔ قربانی قبولیت کا مقام نہ بھی حاصل کرے مگر قربانی کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔مکہ بازکی بیماری ختم ہوتی نظر نہیں ٓتی۔
اس الیکشن کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا پیر مذکر ہی نہیں جادو کی کاٹ کا بھی ماہر ہے۔ حالانکہ نواز شریف وزیراعظم ہاوس میں اونٹوں کی قربانی کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے سہارا دیا ہے۔ کل وقتی قائد مسلم لیگ کو نواز کر کس کو کیا حاصل ہوا ہے ۔ کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔ بیان باز بابے بھی انگشت بدنداں کی کیفیت میں ہیں۔ مگر شہباز شریف کو چوہدری سرور واقعی لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔
زرداری کی پیپلز پارٹی نے کرامت یہ دکھائی ہے کہ ایک غریب ، عورت، ہندو کو سینٹ کا ممبر بنوایا ہے ۔ لگتا ہے بلاول بھٹو زرداری میں بھٹو متحرک ہوا ہے یا واقعی ذولفقار علی بھٹو زندہ ہے۔ سنا کرتے تھے کہ جن لوگوں کو ناحق قتل کیا جاتا ہے ان کی روح زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ؟

جمعرات، 25 جنوری، 2018

کرپشن پر تنقید


منفی سیاست
زینب کے والدمحمد امین انصاری صاحب، جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں کی طرف سے شروع میں بتایا گیا تھا کہ قصور کے اس وقت کے ڈی پی او نے ان سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی ۔ اور ٹی وی چینلوں پر اس الزام کی بار بار تشہیر کی گئی، اور ایک ممبر قومی اسمبلی نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں بھی اس کا ذکر کیا ۔ اب محمدامین صاحب نے اپنے ہی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ ڈی پی او ایک ایمان دار افسر تھا ، اصل قصور وار قصور کی ڈی سی ہے، ان کے خلا ف کاروائی ہونی چاہیے۔ اس سے قبل محمد امین صاحب نے جے آئی ٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا تو فوری طور پر ان کو سربرائی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس میں اپنا مائیک بند کرنے کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو علاقے کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جہاں زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہاں زینب کے نام سے منسوب ہسپتال بنایا جائے۔
قصور میں ہونے والے درندگی کے واقعات میں متاثرہ لڑکیوں کے لواحقین میں سے عقب معراج کے والد سلامت کا کہنا ہے کہ ْ ہمارے دل کو تسلی تب ہی ہو گی جب بچی کا قاتل ہمارے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کرے ْ

نور فاطمہ کے چچا آصف رضا کا کہنا ہے ْ اگر یہی مجرم ہے تو ڈی این اے میچ کرنے کی کاپی ہمیں دی جائے ْ

عاٗشہ کے والد محمد آصف کا کہنا ہے ْ جب تک خود ملزم سے مل کر تسلی نہ کر لیں اس وقت تک پولیس کا دعویٰ تسلیم نہیں کریں گےْ ْ
یہ چند خیالات ہیں جو ان شخصیات کی ہمارے دوست شہریار صاحب سے بات چیت کے دوران سامنے آئے ہیں

پولیس کا کردار
ْ بد سے برا بد نام ْ کی سولی پر لٹکتی پنجاب پولیس کے خلاف بطور ادارہ اور اہلکاروں ک خلاف بطور فرد اس قدر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ اخلاق و حدود کی تمام فصیلیں ہی ڈھا دی گئی ہیں ۔یہ الزام تو آپ نے بھی سنا ہو گا کہ قصور کے سابقہ ڈی پی او نے زینب کے لواحقین سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی، بدھ والے دن زینب کے والد محمد امین انصاری نے اسی ڈی پی او کے بارے میں شہریار سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ ایک ایمان دار پولیس افسر تھا اور یہ کہ اسے قصور میں واپس لایا جائے۔
پکڑے گئے ملزم عمران کو جب پولیس نے گرفتار کرنا چاہا تو اس وقت کہا گیا کہ پولیس اس کیس میں ہمارے عزیزوں کو ملوث کرنا چاہتی ہے اور مقامی تھانیدار کے بارے میں ان کے کرپٹ ہونے کی پوری داستان پیش کی گئی۔اور جب میں نے اس وقت عرض کیا کہ پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو ْ معززین ْ نے نون لیگی اور پولیس کا ْ ہمدردْ ہونے کا طعنہ دیا ۔ اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم کسی صورت ْ اپنے بندےْ کو گرفتار نہ ہونے دیں گے۔بالآخر وہی ْ اپنا بندہ ْ ہی درندہ نکلا۔
ہمارے جذباتی معاشرے میں انسانی سانحات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا نئی بات نہیں ہے مگر یہ عمل غیر پسندیدہ ہی نہیں بلکہ قابل اصلاح ہے اور معاشرے کے ہمدردوں کو اس کے لیے اپنی آواز جہاں بھی اور جیسے بھی ممکن ہو بلند کرنی چاہیے۔
عوام سے خوف زدہ اشرافیہ
قصور میں زینب کے والدین کی عدم موجودگی میں نماز جنازہ کے بعد دوران دعا جو الفاظ اور لہجہ اختیار کیا گیا اس کے فوری اثرات شام تک ہی ٹی وی کی سکرینوں کی زینت بن چکے تھے ، ان عوامل نے مگر خوف زدہ اشرافیہ کو نہ صرف دیوار کے ساتھ لگا دیا بلکہ مقامی سیاسی اشرافیہ کے ڈیرے پر آتش زنی کے واقعہ نے سیاسی رہنماوں کی زبان کو بھی خاموش کرا دیا۔یہاں مقامی نون لیگی منتخب رہنماء اپنے سیاسی وزن کے بھاری بھر کم ہونے کے مغالطے کا شکار ہو گئے ۔ اور یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ وہ اپنے منصب کی بے توقیری کے خود ہی مجرم بن گئے۔ 
یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے ہمارے منتخب رہنماوں کو ، ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا پارٹی سے ہو، اس حقیقت کو ہر صورت مد نظر رکھنا چاہئے کہ علاقے کی اکثریت ان کو منتخب کر کے اپنا سیاسی وزن ان کے ہاں گروی رکھتی ہے اور ووٹ کی طاقت سے چنے گئے لیڈر ایسے موقع پر اپنا قد و وزن قائم نہیں رکھ پاتے تو ان کے بارے میں ان کی پارٹیوں کے سربراہ کو سوچنا چاہئے ۔ 
بے خوف اور نڈر لیڈر شپ کے بغیر ْ نادیدہ عناصر ْ لوگوں کو قوی دکھائی دیتے ہیں اور معاشرتی رہنمائی میں ْ طاقت ور ْ رہنا ہی اصل لیڈر شپ ہوتی ہے ۔ سیاسی کھیل میں ْ بھٹو ْ کو جب عوام نے بے بس مان لیا تب ہی ان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا گیا تھا۔ نواز شریف قانونی طور پر نا اہل ہو کر بھی ْ سخت ہڈی ْ اسی لئے ہے کہ انفرادی طور پر
ْ بہادر ْ ہے ۔
عمران خان کے خلاف اداروں کے سمن، وارنٹ اور اشتہاری قرار دینا محض اس لئے کاغذ کے ٹکڑے ثابت ہوئے کہ وہ اپنے سیاسی قد کا احساس دلانے میں کامیاب رہے۔ ووٹ کی طاقت کا ادراک کرنا اور اس کو انفرادی بہادری کا چارہ بنانا ہی سیاست کی اصل ہے اور قصور میں عوام کی ووٹ کی طاقت کے علمبردار اس امتحان میں بالکل بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ضلع بھر کے ممبران قومی و اسمبلی کو اگر ْ بکری ْ گردانا جاے تو رانا ثنا اللہ صاحب کو سیاسی ْ سانڈ ْ ہی کہا جائے گا ۔
اصل سبق ، جس کی باربار اور ہر بار نشان دہی کی جاتی ہے ، جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کا اصل سبب ہے ، اور جو خرابیوں کی جڑوں میں سب سے موٹی جڑ ہے۔ہم اپنی نجی محفلوں میں اس کو خرابی مانتے بھی ہیں مگر اجتماعی فیصلوں میں ہماری انفرادی سوچ ابھر نہیں پاتی۔
پنجاب پولیس یا سندھ پولیس کو بطور ادارہ مطعون کرنا زیادتی ہے تو یونیفارم پہن کر غیر قانونی اعمال کا مرتکب اہلکاروں اور افسران کا کھوج لگانا اور بے نقاب کرنا معاشرتی جہاد ہے۔ عدلیہ ہماری پگڑی کا شملہ ہے تو ججوں کے ذاتی فیصلوں پر تنقید خود ہمارے چیف جسٹس صاحب نے کر کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی ہے،سیاسی جماعتیں ہمارے معاشرتی ادارے ہیں ۔ ان میں شامل کسی فرد کے نظریا ت سے اختلاف کو زندگی و موت کا مسئلہ بنا لینا حماقت کے سوا کیا ہے۔ 
اپنے اداروں پر تنقید میں اس اصول کو مد نظر رکھنا چاہے کہ کرپٹ افراد پر کھل کر تنقید کریں مگر ملکی اداروں کے تقدس کو مجروح نہ ہونے دیں ، ہمارے ادارے ہمارے معاشرے ہی کا حصہ ہیں، ان میں بھی کالی بھیڑیں ہیں ۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے جو ان کالی بھیڑوں کے خلاف میدان عمل میں اتر کر ثبوت سامنے لاتے ہیں۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ معاشرے میں جس ادارے کا جو کام ہے اسے پوری ذمہ داری سے کرنے دیا جائے۔

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

اپنی ذات کا عاشق

یاسر پیرزادہ کی تحریر

ابن عربی اور رومی کی صوفیانہ تعلیمات نے اس مرد با کمال کو سلوک کی تمام منازل
 ایک ہی جست میں طے کروا دی ہیں، یہ اپنی ذات کا عاشق اور خود اپنا ہی محبوب ہے، یہ بولے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں، یہ روزانہ صبح آئینے میں خود کو دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ تمہارے والدین کس قدر خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے تمہیں جنم دیا، اس کا ہر عمل اس کا ہر فعل اس کا ہر قول ابن عربی اور رومی کے فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ابن عربی کا پرتو، رومی کا معشوق اگر کسی نے دیکھنا ہو تو پاکستان کے اس ہیرو میں دیکھ لے، من کی مراد پا لے گا۔ من کی مراد پانے کے لئے ہمارے اس ہیرو نے درویشی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، جس کے مطابق یہ اور اس کے پیروکار اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں، جو ان کی خواہشات میں رکاوٹ بنتا ہے، یہی درویشی ہے یہی عیاری۔

مجیب الرحمن اور نواز شریف



نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں مجیب الرحمن کا ذکر کر کے جہاں پاکستانیوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے وہاں سیاسی مجمع بازوں نے اس موضوع کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
16 December 1971 
کے بعد پاکستان کی سیاست میں کافی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور بعض تبدیلیوں کی ابھی تک مزاحمت جاری ہے۔ پاکستان میں مقتدر قوتوں اور عوام نے اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمارے ایسے سیاستدان جو ڈرائنگ روم کی سیاست والی اشرافیہ لیگ کے ممبر ہیں اور پاکستان میں کرسی کی سیاست کے علمبردارہیں , نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں اور تاریخی حقیقتوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے کوے کے کالے رنگ کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔شائد اسی لئے بنگلہ دیش نے ایسے پاکستانی سیاست دانوں کے مجیب الرحمن کی ذات کے متعلق بیانات پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ 

شیخ مجیب الرحمن جو بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم تھے ، نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 
1940
میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنس فیڈریشن سے کیا تھا. 
1943
میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر حسین شہید سہروردی کے معتمدبن گئے، اور تحریک پاکستان کی جدو جہدمیں بنیادی کردار ادا کرنے والے کارکنوں میں شامل تھے۔
1947
میں قیام پاکستان کے وقت وہ حسین شہید سہروردی کے قریبی قانون دان ساتھی تھے۔پاکستان بننے کے بعد انھوں نے مشرقی پاکستان سٹوڈنس بنائی ۔
1948
میں قائد اعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے دوران اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کی مخالف آواز مسلم لیگ کے اندر سے سب سے توانا آواز مجیب الرحمن کی تھی۔
1958
میں ایوب خان کے مارشل لاء کی مخالفت کی اور ۸ ۱ ماہ جیل میں رہے۔
1963
میں سہروردی اور
1964
میں خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد سیاسی خلا کو مجیب ہی نے پر کیا 
1965
میں ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی اور ۵۶ کی جنگ میں پاکستانی افواج کے ساتھ یک جہتی اور حمائت کا اعلان کیا۔
1966
میں لاہور میں چوہدری محمد علی کی معاہدہ تاشقند کے خلاف بلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران مجیب نے اپنے چھ نکات کا اعلان کیا۔
مجیب کے چھ نکات
۔ ملک مین پارلیمانی نظام ہو گا اور مرکز میں قانون سازی کے لیے نمائندگی کے لیے بنیاد آبادی پر ہو گی۔
۔ مرکز کے پاس خارجہ، دفاع ، کرنسی اور خارجہ کے محکمے ہوں گے، مالی معاملات کو صوبے طے کریں گے۔
۔ مشرقی اور مغربی صوبوں کے لیے الگ الگ فیڈرل ریزرو مالیاتی سسٹم ہوں گے یا کرنسی علیحدہ علیحدہ ہو گی۔
۔ ٹیکس اکٹھا کرنا صوبائی معاملہ ہو گا البتہ مرکز کو دفاع سمیت دوسرے محکمے چلانے کے لیے خاطر خواہ فنڈ مہیا کیا جائے
گا۔
۔ دونوں صوبوں کے لیے علیحدہ علیحدہ فارن کرنسی ونگ ہوں گے۔
۔ مشرقی ونگ کے لیے علیحدہ پیرا ملٹری فورس ہو گی۔

مجیب نے اپنے مغربی پاکستان کے ایک دورے کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ یہ بیان اس دور کی سیاست کا اہم موضوع بنا ، سول اور عسکری معاشی اخراجات پر بحث ہوئی، اور سوشل ازم کے عروج کے دور میں یہ سیاسی بیان امیر اور غریب کی تقسیم کو اجاگر کرنے کی بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
1200
میل کے فاصلے کو اجاگر کرے کا سبب بنا ۔ علاقی تعصب بمقابلہ ادارتی تعصب عروج پر پہنچا ۔الیکشن کے نتیجے میں 
169
میں سے 
167
نشستیں جیتنے والے ، اور اعلان کے باوجود اقتدار مجیب کے حوالے نہ ہو سکا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی، فوجی کاروائی شروع ہوئی ، مکتی باہنی کی آڑ میں مسلح جتھے بھارت سے آنا شروع ہوئے۔
10 Aril 1971
کو ْ مجیب نگر ْ نامی آزاد حکومت بنی اور 
16 December 1971
آزاد بنگلہ دیش بن گیا۔

ہم یہاں ایک ایسے کردار پر بحث کر رہے ہیں جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا مگر سیاسی اور معاشی نا انصافیوں نے اسے ملک توڑنے والی قوتوں کا سر غنہ بنا دیا۔ مجیب کو ملک دشمن، غدار یا جو بھی کہیں ، کہنے والوں کو حق ہے ۔اور اس کا دفاع کرنا بنگلہ دیشی حکومت کا حق ہے مگر ہمار حق ہے کہ ہم اپنے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں۔ اور پاکستان کے اور خود پاکستانی عوام کے مفاد میں اس حقیقت کا ادراک کریں
۔ ملک کے اندر ادارے اپنے طے شدہ آئینی دائروں کے اندر رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۔ ملک کے اندر دولت کی غلط تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیوں کو بلا دست طبقے سیاسی اور مذہبی اختلاف میں
ڈہال کر عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس تقسیم کی اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے خلوص
کے ادراک کی ضرورت ہے۔
۔ معاملات اقراء پروری اور ذاتی مفادات کی بجائے میرٹ پر نمٹائے جائیں۔ 
۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے اور حکومت بالا دست طبقات کی لونڈی بننے کی بجائے غریب اور بے سہارا لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے زیردست کا بازو بنے۔
۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و دوستی کو فروغ دینا چاہیے ۔

عوام کے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل ملک کے جغرافیائی تحفظ کے احساس اور استعداد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کے دفاع کے امین اداروں کو خالص اسی مقصد کے لئے فارغ کر کے ہی ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔

ملک کے اندر شہریوں کو دہشت گرد ، غدار وطن اور کافر قرار دینے کی روش جاری و ساری ہے، جاتی امراٗ کے حکمرانوں کو غدار وطن قرار دینا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنا، مولانا فصل الرحمن کو زر کا پجاری بتانا ، زرداری کو کمیشن ایجنٹ مشہور کرنا سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھ کنڈے ہیں ۔ اور ہتھ کنڈے نہ پہلے کامیاب ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔ البتہ معاشی محرومی ایسا عنصر ہے جو غداراور کافر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لیے محسن انسانیت ، نبی اکرم، خاتم المرسلین صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غربت سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

جمعہ، 19 جنوری، 2018

علامہ خادم رضوی بقابلہ بیس روپے


اخباروں میں قومی اسمبلی کی رپورٹنگ میں بتایا گیا کی جمعرات والے دن وزیر خارجہ محمد آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی ٰئی کے غلام سرور خان کی طرف سے مداخلت پر عابد شہرعلی نے لقمہ دیا
ْ خاموش بیٹھو ، عمران خان نے تجھ پر بھی لعنت بھجوائی ہےْ 
جس پر سرور خان چپ تو ہو گئے مگر ان کے چہرے پر ابھرتی ناگواری نے بہت کچھ کہہ دیا۔ بہت کچھ تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اسمبلی کے فلورپر کہا ہے، اور آصف زرداری کی لاہور میں تقریر کے فوری بعد بلاول کے ٹویٹ نے پارلیمنٹ کے حق میں ٓواز اٹھائی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹویٹ سے نا قابل توقع قسم کے کام لئے جا رہے ہیں۔ بلاول کا ٹویٹ بروقت اور کارگر رہا جو بے نظیر کی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں کو حوصلہ دے گیا جو جمہوریت کے علمبردار ہیں۔پیپلز پارٹی نے اسلام آباد کے تین ماہ پر محیط دھرنے کے دوران جمہوریت اورپارلیمنٹ کے دفاع میں جو موقف اپنایا تھا۔زرداری صاحب کی تقریر کے باوجود عوامی سطح پر بلاول اور پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر نے اپنے ذریعہ اظہار کے ذریعے پیپلز پارٹی کے بیانئے کو بر وقت سنبھال لیا۔
قادری صاحب اپنے خطابانہ جوش میں بہت ساری ایسی باتیں فرما جاتے ہیں جو دوسروں کی راہ آسان کرتی ہیں ۔ موجودہ دور میں لفظ ْ لعنت ْ کے استعمال کے بہت ارزاں ہو جانے کے باوجود اس کا ْ جچا تلا ْ استعمال ان ہی کو زیبا رہا۔البتہ عمران خان نے جب لاہور میں اس لفظ کا استعمال پارلیمنٹ کے لئے کیا تو ووٹ کی طاقت کے مبلغین حیرت زدہ ہوئے تو پارلیمنٹ کے اندر ان کے ساتھیوں کی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔ شیخ رشید نے دریاے سندھ اور دریائے اٹک سے اپنے استعفیٰ کی صورت میں جو نہر نکالنے کی راہ دکھائی ہے، وہ بھی کوئی راہ روشن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کو کیا جواب دیں اور سرور خان جیسے صحرائے سیاست کے تجربہ کار مسافر کو بھی وقتی طور پر پھبتی کے جواب کے لئے الفاظ نہ مل پائے۔عمران خان کو بقول خود کے دھرنوں کی سیاست کے بعد جو تجربہ حاصل ہو گیا ہے اس تجربے کو پارلیمانی پارٹی کے مشورے کے بغیر چنے گے الفاظ ، پارلیمنٹ میں خود ان کے ساتھیوں کو زچ کر گیا۔
بھرے جلسہ میں خان صاحب نے شیخ رشید کی استعفی ٰ دینے کی آفر پر غور کرنے کا کہہ کر کیا شیخ رشید کے اس دعوے کو سچ کر دیا ہے کہ خان صاحب سیاست کے کھلاڑی اور شیخ صاحب کوچ ہیں۔
سیاسی مبصرین اور اخباروں کے رپورٹر اور چینلوں کے کیمرے لاہور کے اس شو کو ناکام قرار دے دینے کے بعد یوں لگتا ہے کہ نون لیگ نے دفاعی حکمت عملی کے ذریعے بغیر میدان میں اترے کامیابی اپنے نام کر لی ہے۔ بے شک اس کامیابی کے بعد پنجاب حکومت ، قادری صاحب کی طرف سے مزید کسی یلغار کی تشویش سے بھی نکل چکی ہے۔کہ اس جلسے میں مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی اور لاہور کی تاجر تنظیموں کی کھلی حوصلہ شکنی نے ، شہباز شریف کی پوزیشن کو سہارا دیا ہے۔
شہباز شریف ،جن کو نون لیگ اپنا مستقبل کا وزیر اعظم مان چکی، مقتدر قوتیں اپنی نیم رضامندی کا خاموش اظہار کر چکیں، کے لئے اب بھی بزرگوں اور روحانی شیوخ سے فیض لینا باقی ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہی عوام دیکھ لے گے۔اس کے بعد الیکشن تک سیاسی ہلچل دریائے راوی کا روپ دہار لے گی کہ نہ پانی ہو گا نہ طوفان اٹھے گا ۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ پنجاب کے سیاست کے دریا میں اصل جوار بھاٹہ الیکشن سے پہلے اٹھے گا ۔ عمران خان کا سونامی 
2013 
میں نون لیگ کا نقصان کئے بغیر گذر گیا تھا مگر علامہ خادم حسین رضوی کا طوفانی بگولہ جس جولانی سے اٹھنے کو مچل رہا ہے اس سے نون لیگ کا بچنا کرامت ہو گا مگر اس بارسارے ہی صاحبان کرامات کا فیض علامہ صاحب کے ساتھ ہے ۔
رہ گئی دو روٹی کو ترستی اور بیس روپے میں میٹرو میں سفر کرتی عوام تو اس بار ایک بڑی اکثریت ْ عمر بن خطاب کے معاشی بیانئے ْ اور میٹرو کے ْ بیس روپےْ میں تقسیم ہو جائے گی۔

جمعہ، 12 جنوری، 2018

دو آتشہ

تصوف ہمیشہ سے انسانوں کی دلچسپی کا سبب رہاہے ۔ اور اہل تصوف کو ہر معاشرہ اور مذہب میں بلکہ بے مذہبوں میں بھی احترام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سب انسانوں کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں ، مثال کے طور پر ہمارے موجودہ وزیر اعظم صاحب روحانی فیض حا صل کرنے کو مفید خیال کرتے ہیں اور سابقہ دو وزرائے اعظم صاحبان جناب نواز شریف اور آصف زرداری اپنے اپنے پیر کو وزیر اعظم ہاوس میں مدعو کرتے رہتے تھے، اس سے قبل بے نظیر صاحبہ بھی مانسہرہ کے ایک بزرگ دیوانہ بابا کی چھڑی سے فیض یاب ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان بھی ایک بابے کے مرید تھے۔بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایک نانگے بابے کے آشرم پر سر جکاتے ہیں تو بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندہی کے وقت میں ان کے روحانی گرو دھرندرا بھرم چاری نے بھی خوب نام کمایا
تھا


پسماندہ معاشروں میں مذہبی اور سیاسی رہنماعوام کے نجات دہندہ مانے جاتے ہیں ۔ معاشرتی اور معاشی طور پر مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان اپنی محرومیوں کی نجات کے لیے خواب نگر کا رخ کرتا ہے۔ اور جو رہنماء اپنے پیروکار وں کو جتنا بہتر خواب دکھلا سکتا ہے وہ اتنا ہی مقبول ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہ رہنماء ، مذہبی ہو یا سیاسی ، اپنے چاہنے والوں کے پجاری کا مقام حاصل کر لیتا ہے،مگر جب یہی پجاری اس رہنماء کی عدم استعداد سے با خبرہو جاتا ہے تو اس کی مثال خواب سے بیدار ہونے والے ایک فرد کی ہو جاتی ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ خود اپنی ذات کو متحر ک کئے بغیر اپنے حالات تبدیل نہیں کر سکتا ۔مگر اس بیداری کے بعد بھی وہ مواقع کی عدم دستیابی کے باعث اور دوسری طرف رہنماء اسی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے باعث ہر وقت اپنی عدم استعداد کا پول کھل جانے سے خوفزدہ رہتا ہے ، وہ جانتاہے کہ اس کی مقبولیت کی عمارت کچی بنیاد پر کھڑی ہے اس کا خوف بھی اسے تصوف کی طرف مائل کرتا ہے۔ دراصل رہنماء و پیروکار میں مستقبل کا خوف مشترک ہوتا ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے روحانی سفر پر گامزن ہوتے ہیں، مبارک پتھروں والی انگھوٹیاں، بلند درگاہوں کا طواف ، اوروظیفوں کا ورد دراصل مستقبل کے خوف سے بچنے کے حربے ہوتے ہیں۔ اور یہ عمل اس کو قدامت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔مثال کے طور پر پچھلے دنوں عمران خان ایک ویڈیو کلپ میں اپنی انگوٹھی مین جڑے در نجف دکھاتے نظر آئے ۔ مگر چند دنوں بعد چکوال میں ہونے والے الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔حالانکہ ان کو نجومیوں نے بتایا ہوا تھا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ 
قصوں اور حکائتوں کی کتابوں کے مطابق زوال کے دور میں کمال کر دکھانا مذہب کا خاصہ ہے اور لوگ اسی خواب کی تعبیر کے لئے علامہ طاہر القادری صاحب کے گرویدہ ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے فن خطابت کی ٹکر کا کوئی دوسرا خظیب ہے ہی نہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آسائش زندگی سے مستفید ہونا سب کا حق ہے اور اس حق کا پاکستان کی نسبت کینیڈا میں بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔طاہر القادری صاحب کے نام کے ساتھ شیخ الاسلام کا لاحقہ ان کا خود اختیار کردہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی کسی کا عطا کیا ہوا ہے۔
روس کے زاروں کا تصوف کا ایک بڑا کردار راسپیوٹن ہے مگر غیر اسلامی سہاروں کی داستانوں کے کرداروں کوہم اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور ایسے کرداروں کو شیخ الاسلام کا نام دے کر مقامی بنا لیتے ہیں اور اس اپنے پن سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم تصوف کے نام پر چابک کی ضرب با آسانی سہہ لیتے ہیں مگر غیر اسلامی تاریخ کا حوالہ ہمیں سیخ پا کر دیتا ہے۔یاد رہے شیخ الاسلام صاحب عدم تشدد کے سب سے بڑے داعی ہیں

نجومی بھابی وہ نام ہے جو اخباری حلقوں میں عمران خان کی نئی بیوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ان کے بارے ہوشیار سیاسی ساتھی ہی نہیں بلکہ دینائے تصوف کے ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں علم نجوم کے ماہرین متفق ہیں کہ در نجف کی برکت حاصل ہو جانے اور گاڑی میں نجومی بھابی کو سوار کر لینے کے بعد ان کو شاہراہ دستورپر تیز رفتاری سے سفر کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ ووٹ اور جمہوریت کی اذانوں کے بیچوں بیچ عمران خان کے اس یقین کو شیخ الاسلام کی اشیر آباد بھی حاصل ہے۔ تصوف اور نجوم کے باہمی ملاپ کے بعد بہت لوگ اس دو آتشہ سے معجزہ برآمد ہونے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی بھی امید پر مینہ نہ برسائے۔

جمعرات، 4 جنوری، 2018

ائرمارشل اصغر خان



پاکستان ائرفورس کے پہلے پاکستانی سربراہ ئرمارشل اصغر خان آج 5 جنوری 2018۸ کو96 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔انھوں نے 1920 میں 19 سال کی عمر میں رائل انڈین ائر فورس میں بطور کیڈٹ شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے برطانیہ کے بہترین اداروں سے تربیت حاصل کی اور آخری ڈگر ی امپیریل دیفنس کالج سے لی۔قیام پاکستان کے وقت وہ پاکستان ائر فورس اکیڈمی کے پہلے سربراہ مقررہوئے اور 1957 میں پاکستان ائر فورس کے پہلے پاکستانی سربراہ مقرر ہوئے۔ اور 1965 کی جنگ سے قبل مستعفیٰ ہوئے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ملک کے لئے دوبارہ خدمات پیش کیں اور اس جنگ کے ہیرو گردانے جاتے ہیں۔عوام نے انھیں شاہین پاکستان کا خطاب دیا۔جنگ بندی کے بعد پی آئی اے کے سربراہ مقررہوئے اور 1968 تک خدمات انجام دیں۔
انھوں نے 1970 میں تحریک استقلال کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی اور سیاست میں سرگرم رہے مگر الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اور 2012 میں اپنی سیاسی پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف میں مدغم کر کے سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔
وہ انسانی حقوق کے سرگرم سرپرست رہے اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انسانی حقوق کے کمیشن نے انھیں سونے کا تمغہ عنائت کیا. جناح سوسائٹی نے انھیں جناح ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔