PTI لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
PTI لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 2 اگست، 2019

امید کی نوید

متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ  کے قریب ایک گاوں میں پیش آنے والا واقعہ ہے۔  فرید خان نامی ایک شخص نے شیر شاہ سوری   (1486۔ 1545)  کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کے کنارے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹنا شروع کیا۔ گاوں کے ایک فرد نے اسے سرکاری درخت کاٹنے سے منع کیا مگر فرید خان نے سنی ان سنی کردی اور اپنا کام جاری رکھا۔ دیہاتی گاوں سے کچھ اور لوگوں کو بلا لایا جنھوں نے اس اجنبی کو سرکاری درخت نہ کاٹنے کی تلقین کی۔ اجنبی نے ان کی بات بھی نہ مانی تو یہ لوگ گاوں کے مکھیا کو بلا لائے۔ مکھیا نے آتے ہی گرجدار لہجے میں کہا میں اس گاوں کا مکھیا ہوں یہ سرکاری درخت تم نہیں کاٹ سکتے۔ فرید خان نے کلہاڑا پھینک دیا۔ چہرے پر پڑا نقاب اتار دیا۔ ایک فوجی دستہ بھی سامنے گیا۔ گاوں والوں پر منکشف ہوا کہ درخت پر کلہاڑا چلانے والا فرید خان المعروف شیر شاہ سوری ہے۔ علاقے بھر کی انتطامیہ بھی دوڑی آئی۔ شیر شاہ سوری نے کہا ایک درخت کاٹنے پر تم سب لوگ دوڑے آئے ہومگر یہاں ایک مسافر قتل ہوا تھا۔ ایک مہینہ ہونے کو ہے اور تمھارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے مجرم زنجیروں میں جکڑا ہوا بادشاہ کے قدموں میں پڑا تھا۔یہ واقعہ اسلام آباد میں واقع ایوان بالا میں چیرمین سینٹ کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے یاداشت میں تازہ ہوا ہے۔
انسان کے کندہوں پر سوار کرامالکاتبین کے اعمال لکھنے کا سلیقہ یہ ہے کہ گناہ کو ایک جب کہ نیکی کو دس سے ضرب دے کر لکھتے ہیں۔لیکن دنیاوی اداروں کی بنائی ہوئی فائلوں میں انسانوں کی بد اعمالیوں کو قیافے سے درج کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے در گذر کیا جاتا ہے۔ بلکہ قیافہ گروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ گناہگاروں کو وقت پڑہنے پر اپنا اعمال نامہ پڑہا بھی دیتے ہیں۔ 
 قران پاک میں درج نبی اللہ حضرت یونس کی دعا سے ماخوذ ہے کہ کامل اور سبحان صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ انسان بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ کچھ خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی پردہ پوشی قائم رکھنے کے لیے بدنامی اور تاریک مستقبل کی سرنگ اور مال و زر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔حکمرانی بڑی ظالم شے ہوتی ہے۔ تخت اور تختہ منتخب کرنے کا چوائس مہیا کرتی ہے۔انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جنھوں نے پھانسی کا پھندا اپنے ہاتھ سے اپنے گلے میں پہنا ہے۔ ایسے انسان لوگوں کے ہیروز ہوتے ہیں۔ معاشروں میں ایسے ہیروزبھی پائے جاتے ہیں جو مشکل وقت پڑنے پر زیرو بن جایا کرتے ہیں۔یکم اگست والے دن ایوان بالا میں اپوزیشن رہنما راجہ ظفرالحق نے سینٹ کے چیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ کر سنائی تو پی پی پی اور نون لیگ سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں کے 64 ممبران نے کھڑے ہو کر اور کندہے سے کندہا ملا کر اس کی تائید کی۔پھر خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کو پچاس ووٹ ملے۔ 14  ووٹ یا تو حکومتی امیدوار کو ملے یا جان بوجھ کر ضائع کر دیے گئے۔ جرنیلی سڑک کے کنارے لگے 14 درخت نامعلوم طاقتوں نے کاٹ ڈالے۔ نہ شیر شاہ سوری موجود ہے جو ان کٹے درختوں کا حساب لے نہ اداروں ہی کو کوئی زحمت کرنے کی فکر ہے۔ عوام البتہ حیران ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔گو یہ تصویر جاذب نظر نہیں ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بڑا امید افزاء ہے۔خاص طور پر پاکستان میں بسنے والے جمہویت پسندوں کے لیے یہ واقعہ امید کی نوید ثابت ہوا ہے۔پاکستان،  جہاں بہت سے کام پہلی بار ہو رہے ہیں، یہ ادراک بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری پودا اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کسی کو اعلانیہ اس پر کلہاڑا چلانے کی جراٗت نہیں ہو رہی۔ سینٹ کے ہال میں، گیارہ سالوں کی ٹوٹی پھوٹی، نحیف و لنگڑاتی جمہوریت نے اپنے آپ کو یوں منوایا ہے کہ چودہ منحرفین خود کو اس قدر مجبور پاتے ہیں کہ کھڑے ہونے والوں کے کندہے کے ساتھ کندہا ملانے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت یہ منحرفین ہیں ہی نہیں، انھوں نے تو اپنے بے وضو اماموں کی اقتداء میں تکبیر تحریمہ کے لیے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھا لیے ہیں۔ ان کی نماز کے کامل نہ ہونے کے فتوئے مسجد کے باہر کھڑے لوگ لگا رہے ہیں۔ امام کی مسکراہٹ کا قاتل پن بتا رہا ہے کہ منافقت کے حمام میں کپڑوں سمیت گھس آنے کا اشارہ حمام کے اندر سے ملا ہے، اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ دولت انسان کو مصلحت کیش بنا دیتی ہے۔ اور پاکستان میں سیاست کے رقص سے فیض یاب ہونے کے لیے    مینوں دہرتی قلعی کرا دے    والی ضرورت پورا کرنا ہوتی ہے۔بے سلوٹ اجلے جامے، چون ہزار کے جوتے، بیٹھنے کے لیے کھلے ڈلے ڈیرے، ڈیروں میں ہمہ وقت روشن چولہے، مہمان نوازیاں، سفر کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں، مہلک اسلحہ بردار محافظ، محلے اور گاوں کے معاملات کا مالی تحفظ، ان سب سے بڑھ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے چندے، پھر جلسوں اور جلوسوں پر اٹھنے والے اخراجات کے سامنے دو ہندسوں میں ناپ لیے جانے والے کروڑوں کی اہمیت ہی کیاہے۔ جب یہ بھی معلوم ہو کہ زر کی تھیلی اٹھانے سے انکار کی صورت میں ناگ کاٹ کھائے گا۔ایسے میں کوئی دیوانہ ہی ہیرو بننے کی کوشش کرے گا۔
 اس بھدی تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے صرف 11 سال کے جمہوری دور کے بعد ہی ممکن ہوا ہے کہ اعلانیہ مارشل لاء نہیں لگایا جا سکا۔ جمہوری عمل کے دشمن یہ چودہ لوگ بھی، ووٹنگ کے بعد ہونے والے حزب اختلاف کے اجلاس میں موجود تھے یعنی ان تاریک ستاروں کی قسمت میں روشن ہونا نہیں ہے۔
صرف گیارہ سالوں میں عوام کو جمہوریت کا یہ پودا کچھ نہ کچھ پھل دینے لگا ہے۔

ہفتہ، 20 جولائی، 2019

پٹکے


پاکستان کا نظام عدل اور تفتیش کا انتظام برطانیہ کا بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ کے تفتیشی ادارے اپنی مستعدی کی شہرت کے باوجود بعض مقدمات میں پھنس جایا کرتے تھے اور تفتیش آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ اٹھارویں صدی میں لندن کی پولیس نے جرائم میں ملوث گروہوں کی سر کوبی کے لیے ادارے سے باہر کے لوگوں کو مجرموں گروہوں میں شامل کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ گینگ میں شامل ہو کر جرم کرتے اور ساتھ ساتھ مخبری کا فریضہ بھی سرانجام دیتے۔ جب مجرم گینگ پکڑا جاتا تھا یہ مخبر بھی گرفتار شدگان میں شامل ہوتے۔انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ پولیس عدالت کے سامنے مخبر سے کیا گیا معافی کا وعدہ رکھتی اور عدالت مخبر کو رہا کر دیتی۔ اس بندوبست کا بانی لندن کا ایک قانون دان اور جج فیرنی چارلس (متوفی ۴۹۷۱)  تھا۔ لندن میں اس بندوبست کی کامیابی کے بعد اس بندوبست کو انڈیا میں بھی رائج کیا گیا۔ مگر یہاں اس بندوبست میں وہ شفافیت نہیں رہی جو لندن میں تھی۔ 
پاکستان میں فوجداری مقدمات میں یہ بندوبست اب بھی موجود ہے البتہ سیاسی مقدمات میں اس کا استعمال  ۷۷۹۱ میں جنرل ضیاء االحق کے دور میں کامیابی سے ہوا۔ اس دور میں میں فیڈرل سیکورٹی فورس کے دو افسران اور ایک سپاہی وعدہ معاف گواہ بنے۔ ان کی گواہی پر پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس کے بعد جو بھی سیاسی کیس بنا اس میں عام طور پر وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وعدہ معاف گواہ عدالت میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔اور اس مجرم کی نشان دہی کرتا ہے جس کے ایماء پر اس نے جرم کیا ہوتا ہے۔ مقدمے کے اختتام پر تفتیشی ادارہ عدالت سے اس کی معافی کی درخواست کرتا ہے۔ یہ اختیار عدالت کا ہوتا ہے کہ وہ وعدہ معاف گواہ کر بری کر دے یا اسے سزا دے۔ 
ایم کیو ایم کے رہنماء الطاف حسین پر مقدمات بننا شروع ہوئے تو صولت مرزا کا نام بطور وعدہ معاف گواہ سامنے آیا۔صولت مرزا کو گو پھانسی دے دے گئی مگر اس کی وجوہات سیاسی تھیں۔
پاکستان میں سابقہ صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی بنیاد وعدہ معاف گواہوں کے بیانات پر رکھی گئی۔ لیاری گینگ کے مشہور کیس میں زرداری صاحب کے خلاف مقدمات ایک وعدہ معاف گواہ عزیر بلوچ کے بیانات پر رکھی گی۔جج ارشد ملک کی عدالت میں زرداری صاحب اور محترمہ فریال تالپور کے خلاف چلنے میں مقدمے میں شیر محمد کا نام بطور وعدہ معاف گاہ سامنے آیا۔ 
سابق وایر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور مقدمے میں شائد رفیع صاحب وعدہ معاف گاہ بنے۔
راجہ پرویز مشرف کے خلاف ایک وعدہ معاف گواہ رانا محمد امجد ہیں۔
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے مقدمے کے وعدہ معاف گواہ گلزار احمد ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں 
جنرل مشرف کے دور میں اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ بنا کر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔
مشرف ہی کے دور میں نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنا تھا اس میں وعدہ معاف گواہ امین اللہ چوہدری بنے۔
موجودہ دور چوروں اور ڈاکووں کے خلاف، سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے صادق اور امین کی سند پانے والوں کا ہے۔ مگر تمام مقدمات کے ساتھ کوئی نہ کوئی وعدہ معاف گواہ جڑا ہوا ہے مثال کے طور پر سابقہ وزیر ریلوے 
خواجہ رفیق کے خلاف کرپشن کے مقدمے میں قیصر امیں بٹ، سلیمان شہباز کے خلاف مقدمے میں مشتاق چینی،شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ، سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مقدمے میں عابد سعید وعدہ معاف گواہ ہیں۔ 
پاکستان میں جتنے بھی سی ایس پی افسر وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ اپنے اعترافی بیان کے چند دنوں بعد ہی رہا ہو کر گھر واپس آجاتے ہیں۔ البتہ شہبازشریف کے خلاف مقدمات سے جڑے ایسے گواہوں کو رہا نہ کرنے کی وجوہات قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشرتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کو بھی وعدہ معاف گواہ کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جنھوں نے نیب کی کوششوں کے باوجود وعدہ معاف گواہ کا پٹکا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کیا ہے ایک نام کیپٹن محمد صفدر اعوان کا ہے جنھوں نے نواز شریف کے پناما کیس میں اور دوسرا نام عبدالجبار قدوائی کا ہے جنھوں نے آصف زرداری کے خلاف بے نامی مقدمات میں وعدہ معاف گاہ بننے سے انکار کیا۔
وعدہ معاف گواہوں کے بارے میں پاکستان کے ماہر قانون سابقہ جسٹس ناصر الملک صاحب نے ایک مقدمے کے فیصلے میں لکھا تھا کہ ایسے گواہوں کے بیان پر انحصارکر کے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔


جمعرات، 6 جون، 2019

سمرقندی جج


حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مسلمانوں کے ایک کمانڈر  قنیبہ بن مسلم نے اسلام کے بتاٗے ہوئے کچھ اصول نظر انداز کر کے سمرقند پر قبضہ کر لیا۔ مفتوعہ آبادی عیسائیوں کی تھی۔ پادری نے ایک پیامبر کے ذریعے خلیفہ کو ایک خط بجھوایا جس میں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شکائت کی گئی تھی۔جب یہ خط خلیفہ کو پیش کیا گیاتو خلیفہ نے اسی خط کی پشت پر لکھا   عمر بن عبدالعزیز کی جانب سے اپنے عامل کے نام، ایک منصف مقرر کروجو پادری کی شکائت سنے   
پادری اس حکم کو دیکھ کر مایوس تو ہوا مگر اس نے مناسب سمجھا کہ یہ پیغام سمرقند میں خلیفہ کے گورنر تک پہنچائے۔ جب گورنر نے اپنے خلیفہ کا حکم نامہ دیکھا تو اس نے اسی وقت جمیع نامی ایک منصف مقرر کر دیا۔ جمیع نے اپنی عدالت سجائی۔پادری اور قنیبہ دونوں کو طلب کر لیا۔ قاضی نے دونوں کو ایک جیسا پروٹوکول دیا۔ پہلے شکائت کنندہ پادری کی بات سنی گئی۔ پادری نے کہا  کمانڈر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ دعوت اسلام دی کہ اس پر سوچ بچار کرتے۔ 
منصف نے قنیبہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا تو قنیبہ نے کہا جنگ تو ہوتی ہی فریب ہے۔ اور یہ کہ سمرقند کے جوار میں لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی بجائے ہماری مزاحمت کی تھی۔لہذا ہم نے حملہ کر کے سارے سمرقند پر قبضہ کر لیا۔
منصف نے پوچھا  پیشگی اطلاع دی تھی یا نہیں۔ قنبیہ کے پاس خاموشی کے سوا جواب نہ تھا۔وہ خاموش رہے تو منصف نے کہا   قنبیہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہو۔اب عدالت حکم جاری کرے گی۔۔ اور عدالت نے کمانڈر کو اپنی فوج سمیت سمرقند سے نکل جانے کا حکم سنا دیا۔
قصص من التاریخ نامی کتاب کے مصنف شیخ علی طنطاوی نے اس قصے کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس دن شام کے وقت سمر قند والوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر واپس جا رہا ہے اور پیچھے گرد و غبار کے بادل ہیں۔ گرد کے بیٹھ جانے کے بعد
سمرقندیوں کو حقیقت حال معلوم ہوئی۔ ان کو احساس ہوا کہ ان کے عارضی حکمرانوں کا ان کے ساتھ برتاو ان کے پرانے حکمرانوں کی نسبت اخلاقی، معاشرتی اور معاملات کے لحاظ سے بہت بہتر تھا۔لوگ اسی پادری کے پاس گئے جس نے قنیبہ کی شکائت کی تھی اور اسے مجبور کیا کہ وہ ان کیساتھ جا کر نئے حکمرانوں کو پاس لائے۔مسلمانوں بطور حکمران واپس آئے۔ طویل عرصہ سمر قند پر حکومت کی اور ایک وقت آیا کہ سمر قند مسلمانوں کا دارلخلافہ بھی بنا۔
عمر بن عبدالعزیر کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔اور ان کے منصفوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ منصف کا کام انصاف کرنا ہے خواہ وہ اپنی حکومت ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔ یہ ایسا اصول ہے جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا پھل انتہائی شیرین ہوتا ہے۔ انصاف کے طلب گار ہمیشہ کمزور طبقات ہوا کرتے ہیں۔ منصف انصاف کر کے کمزور کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو بالا دست طبقات کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نا عاقبت اندیش حکمران تو منصف کی کرسی ہی کو الٹا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک جج کی کرسی کو الٹانے کی کوشش میں خود جنرل صاحب کی کرسی الٹ چکی ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت کو سہارا دیتے وقت اور حکومت کی اعانت کے دوران تو جج اچھا تھا مگر جب ایک فیصلہ جو ابھی آنا تھا اور مشرف حکومت کو شک تھا کہ فیصلہ خلاف بھی آ سکتا ہے تو جج کو جی ایچ کیو میں بلا کر اس سے استعفیٰ طلب اور گاڑی سے جھنڈا اتار لیا گیا۔ ایک جج جو سالوں سے فیصلے کر رہا ہے اس کے سب فیصلے تو منظور ہوں مگر حکومت کی مستقبل کی پلاننگ میں کوئی فیصلہ روڑا بنتا نظر آئے تو پہلے اس کے خلاف سوشل میڈیا پر تحریک چلائی جائے۔ پھر اپنے تنخواہ دار صحافیوں اور ٹی وی کے اینکروں کی مدد سے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جائے تو عوام بھی ششدر ہو کر رہ جاتی ہے۔
 دنیا دوسروں کی غلطیوں سے سیکھتی ہے  ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیاں دنیا کے لیے مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہر دور حکومت میں کچھ جج حکمرانوں کی نظروں میں کھٹکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران بھی سابقہ روایات کو برقرار رکھنے کی رسم پر پورا اتر رہے ہیں    

منگل، 25 دسمبر، 2018

سیاسی بھنڈی


جب دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا تو اسلام آباد میں کہا جاتا تھا ۔ شہر بستے بستے بستا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ آیا تھا کہ شہر بسانے کے لیے جو انفرا سٹرکچر اور باسیوں کے رہنے کے لیے کو مکانات درکار ہوتے ہیں ، ان کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اس محنتی قوم نے اسلام آباد کو بسا لیا۔پاکستان کی بہترین شاہرائیں اور عمدہ عمارتیں تیار ہو گئیں اور نفیس سرکاری ملازمین اس شہر کی رونق ہو چکے۔البتہ ترقی کا عمل جاری و ساری ہے میٹرو کی شکل میں بین الاقوامی معیار کے ذرائع آمد رفت مہیا ہو گئے ۔ ہوائی اڈہ چھوٹا پڑ گیا تو کھلے مقام پر وسیع اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوائی اڈہ آپریشنل ہو گیا۔ سر سبز اسلام آباد میں مزید شجر کاری کر کے مزید شاداب بنا دیا گیا۔ تاریخ بیان کرتی یادگار بھی عوام نے دیکھ لی۔ بچوں کے لیے رنگ برنگے چڑیا گھر تو باسیوں کے لیے باغات اور پارک بھی موجود ہیں۔ دوکانیں ائر کنڈیشنڈ اور آسائش زندگی سے بھری ہوئی ہیں۔ اس شہر کے بارے جو خواب بنانے والوں نے دیکھا تھا شہری اس کی تعبیر پا رہے ہیں۔ اس شہر میں ایسی کشش ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے لوگ آ کر یہاں بس گئے ہیں۔ اس شہر کو دیکھنے باہر سے آیا ہوا شخص سار ا شہر گھوم کر ہوٹل کی بالکونی میں پڑا انگریزی کا اخبار پڑھ کر فرحت سی محسوس کرتا ہے۔ اس شہر میں زیادہ لوگ اردو کا اخبار پڑہتے ہیں ۔کچھ لوگ شام کا اخبار شوق سے پڑہتے ہیں۔اردو کے اخبار سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر میں ایک صنعتی علاقہ بھی ہے جس میں کام کرنے والے مہینوں اپنی تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک سبزی منڈی بھی ہے جہان سنگل دیہاڑی سولہ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ ان پر شکوہ رہائشی عمارتوں میں گھریلو ملازمین بھی بستے ہیں۔ جو چوبیس گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔ ہر سیکٹر میں ایک تھانہ بھی پایا جاتا ہے، جس میں حوالات بھی ہوتی ہے اورحوالاتیون کی کہانیاں دل چیرتی ہیں۔ ایک ڈی چوک بھی ہے جہاں ہر قسم کی زبان درازی ، اظہار رائے کے نام پر کی جاتی ہے۔شام کے اردو اخبار کے قارئین کی دنیا اسلام آباد میں ہونے کے باوجود وکھری ہی ہے۔ اس وکھری دنیا میں بھی سبزی منڈی کا اپنا ہی حسن ہے۔ یہاں دیر کا عبدالخبیر ، خیر پور کا محمد اسلم، مظفر گڑھ کا کرم الہی، نواب شاہ سے آیا مکھوبھی ہے۔ یہاں آپ پاکستان کی کوئی بھی زبان بولیںآپ کو بات کرنے والا لازمی مل جائے گا۔ منڈی میں زندگی ظہر کے بعد انگڑائی لیتی ہے۔ رات کو دن ہوتا ہے اور سورج سوا نیزے پر آ جائے تو مزدور کی دیہاڑی پوری ہوتی ہے۔ ان کے پاس گرمیوں میں ایک چادر اور سردیوں میں ایک رضائی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی ضرورت دیہاڑی اور مجبوری نیند ہوتی ہے۔ یہ کبھی شاہرہ دستور پر چڑھے ہیں نہ قصر صدارت سے انھیں کوئی سروکار ہے۔ وزیر اعظم ہاوس کو دیکھنے کے متمنی ہیں نہ پارلیمان کو۔ حوالات سے وہ پناہ مانگتے ہیں۔ انصاف سے وہ مایوس ہی نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو وہ حسرت اور نفرت سے نہیں دیکھتے اونچی عمارتوں سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

سبزی منڈی میں پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ مزدوری کے لیے آنے کا نام بدل دیا جاتا ہے ۔بوڑھا معراج دین ْ باباماجھا ْ ۔ محمد اسلم ، اسلو ۔ جاوید خان ، جیدا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہان عزت صرف گاہک پاتا ہے اور صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ گاہک کے علاوہ بھی بہت لوگ یہاں آتے ہیں ، نام ان کے بھی بدل جاتے ہیں ۔ جیسے ڈنڈا، مکھی ، بجلی ، شرمن ٹینک ۔۔۔
یہاں اخبارات شام ہی کے مقبول ہیں ، ایک پڑہتا ہے ، سننے والے سر دھنتے ہیں ۔ سیاسی بیانات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی البتہ بیان بازوں کے نام انھوں نے اپنے ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ کوئی ٹماٹر ہے تو کوئی بینگن، کسی کانام کریلا رکھا ہوا ہے تو کسی کا آلو۔ میں نے پہلی بار سنا کوئی بھنڈی بھی ہے ۔ ذہن پر بہت زور دیا۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا،یہ بھنڈی کون ہے ؟ ْ نئے سیزن کی تازہ پیداوار ہے ْ سمجھ نہ پایا ۔ اچھا اتنا ہی بتا دو مذکر ہے کہ مونث ۔۔۔ ْ مذکر اور مونث کا تو پتہ نہیں لیکن ہے لیس دارْ 

جمعہ، 28 ستمبر، 2018

انصاف کے گلے میں ہڈی



ْکیا پاکستان میں کرپشن صرف سیاستدان کرتے ہیں ْ
اگر یہ سوال ملین ڈالر کا ہے تو اس کا جواب بلین ڈالر کا ہے۔ روپے کی بجائے ڈالر کا ذکر اس لیے ہے کہ دھندہ سارا ڈالر ہی میں کیا جاتا ہے۔ چند دن قبل سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے رہنماء جہانگیر ترین کی نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے کی درخواست داخل کی گئی تھی جو رد کر دی گئی اور جہانگیر ترین کی نا اہلیت کو برقرار رکھا گیا۔اس کیس کے فیصلے سے حلیفوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہوے اور حریفوں کو افاقہ ہوا ۔مگر حیرت انگیز بات ہے دونوں فریق سیاسی وابستگی کے باعث آزردہ یا خوش ہیں ، کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ۷ بلین پونڈ کا محل لندن مین واقع ہے اور ترین صاجب اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں یا ان سے تسلیم کرا لی گئی ہے کیسے خریدا گیا ، رقم کہاں سے آئی اور لند ن کیسے پہنچی۔اس کا جواب ترین صاحب کے پاس نہیں ہے۔
جہانگیر ترین تعلیم یافتہ شخصیت ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ۔ ان کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کا ادراک خاندان والوں کو اس وقت ہوا جب ان کی شادی رحیم یار خان کے ایک اثرو رسوخ والے اور مالی طور پر آسودہ خاندان میں ہوئی۔ ان کی بیگم کے بھائی جناب مخدوم احمد ۱۹۸۸ میں وزیر تھے۔
مخدوم صاحب ایک متحرک سیاسی شخصیت ہیں انھون نے اپنے آبائی علاقے جمال دین والی میں شوگر مل لگانے کا ارادہ کیا اور ترین صاحب کی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور اپنی کمپنی ترین صاحب کے حوالے کر کے انھیں انتظامی خود مختاری بھی دے دی۔ترین صاحب نے مل کی تنصیب خوش اسلوبی سے کرکے اسے متاثرکن انداز میں چلایا۔اور بہت جلدکاروباری حلقے میں اپنا نام بھی منوایا۔مضبوط مالی بنیادمعاشرتی تعارف کا سبب بناکرتی ہے ۔۱۹۹۷ کے انتخابات کے بعد شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی بنے تو مخدوم صاحب نے ان کا تعارف وزیر اعلی سے کرایا اور شہباز شریف نے انھیں زرعی ترقی کا مشیر بنا لیا۔کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ نواز شریف کے ذہن سے شہباز شریف کے ذریعے ترین صاحب تک آیا اور اس منصوبے پر پنجاب میں ترین صاحب نے زبردست کام کیا اور ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کی وساطت سے سرمایہ پاکستان آنا شروع ہوا۔سکیم یہ تھی کہ حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے لیے انتہائی کم شرح منافع پر قرضہ مہیا کرے گی۔بوجہ یہ سکیم ناکام ہوگئی البتہ ترین صاحب نے تین بلین روپے کا قرض بنک سے لے لیا ہوا تھا۔جو شہباز شریف کے ساتھ اختلافات کا سبب بنا۔
۲۰۰۲ کے جنرل الیکشن کے وقت مخدوم صاحب رحیم یار خان کے ضلعی ناظم تھے ۔ انھوں نے اپنے حلقے سے ترین صاحب کو الیکشن مین جتوایا۔
مشرف کے دور میں ترین صاحب وفاق میں وزیر بنا دیے گئے۔مخدوم صاحب بھی چوہدریوں کی قاف لیگ میں تھے ۔ ان کے بنیادی اختلافات تو پرویز الہی کے ساتھ تھے جو ۲۰۰۵ میں پرویز مشرف سے تعلقات خراب ہونے کا بہانہ بنے۔ مخدوم صاحب قاف لیگ کو چھوڑ کر اپنے رشتے دار پیر پگاڑہ کی فنکشنل لیگ میں چلے گئے۔ جب کہ ترین صاحب نے مشرف کا ساتھ دیا اوروزارت کو محفوظ رکھا۔اس کے باوجود جب مشرف کے اقتدار کا جہاز چیف جسٹس بھنور میں ہچکولے لے رہا تھا اور ترین صاحب نے مخدوم احمد محمود کی وساطت سے فنکشنل لیگ کو جوائن کر لیا۔اورپارٹی ٹکٹ لے کر پھر منتخب ہوئے اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بنا دیے گئے۔
اسی دوران ترین صاحب نے مخدوم صاحب والی شوگر مل اپنی تحویل میں لینا چاہی تو معلوم ہوا کہ مخدوم صاحب کے ۳ بلین کے شیئر ترین صاحب کے نام ہو چکے ہیں، بورڈ آف ڈائرکٹرز میں اکثریت ان کی ہم نواہوں کی ہو چکی ہے۔ مخدوم صاحب کو کارگذاری معلوم ہوئی تو انھوں نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے مل پر کر قبضہ کر لیا اور علاقے سے ترین صاحب کو بے دخل کر دیا۔
مشرف کی حکومت میں وزارت کے دوران کی لیز پر حاصل کردہ زرعی زمین کا رقبہ چوبیس ہزار ایکڑ اور بعض دستاویزات کے مطابق پچیس ہزار ایکڑ تک پہنچ گیا۔ اور مقامی لوگوں کا اصرار ہے کہ حقیقت میں یہ رقبہ چالیس ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔اس دوران ان کی دو شوگر ملیں بھی بن گئیں اور گنا ان کی اپنی زمین سے آتا ہے۔
پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں قانون اندھا ہوتا ہے۔مگر پاکستان میں قانون کے کے کانوں کی سماعت کم نہیں ہے ۔فیصلہ فائل کو دیکھ کر ہوتا ہے۔اورفائل بتاتی ہے ۷ بلین پونڈ کا محل لندن مین واقع ہے اور ترین صاجب اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں یا ان سے تسلیم کرا لی گئی ہے کیسے خریدا گیا ، رقم کہاں سے آئی اور لند ن کیسے پہنچی۔ 

پیر، 5 مارچ، 2018

بھٹو زندہ ہے


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ عوام اور مبصرین کی توقع کے مطابق ہی آیا ہے۔ پنجاب سے چوہدری سرور کی کامیابی بہر حال پی ٹی آٗئی کی بجائے ذاتی کہی جائے تو شائد مبالغہ نہ ہو۔ ایک کامیابی بعض اوقات بہت سی ناکامیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی ہے۔ چوہدری سرور برطانوی شہریت کے باوجود پنجاب کی سیاست کو اپنے لیڈر سے بہتر منظم کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہے بلکہ وہ ارائیں ازم کی بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کر چکے۔ جادو کی نسبت سائنس معجزہ ثابت ہو چکی۔ کپتان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنا پروگرام اور بیانیہ دینے میں ناکام ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ْ بے ووٹ ْ ہجوم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھانت متی کے کنبے کے افراد عمران خان کا گھیراو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ، حالانکہ وقت گذر چکا ہے ، سوچنا چاہیے کہ اس کے نظریاتی کارکنوں کو آخر شکوہ کیا ہے ۔ جرنیل سپاہیوں کے بل بوتے پر جنگ جیتتا ہے ۔ اور سپاہیوں کا یہ گلہ بے جا نہیں ہے کہ ْ چوری کھانے والے رانجھے ْ جسم کا ماس کاٹ کر نہیں دیا کرتے۔ مولانا سمیع الحق بارے کپتان کا فیصلہ اس کی پارٹی نے نا پسند کیا ہے اور پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنا مقام بنانے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں محنت کرنا ہو گی۔ سینٹ کے الیکشن سے فوری قبل نادیدہ قوتوں اور مہروں کا کردار عوام کو پسند آیا نہ جمہوریت ہی کو اس سے کوئی فائدہ ہوا۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے سب یہ کوشش تھی کہ کمر کے درد کا مریض تین تلوار پر کھڑا ہو کر مکہ لہرا کر کہہ سکے کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے جو سفر طے کیا ہے اس میں خونی قربانیاں شامل ہیں۔ قربانی قبولیت کا مقام نہ بھی حاصل کرے مگر قربانی کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔مکہ بازکی بیماری ختم ہوتی نظر نہیں ٓتی۔
اس الیکشن کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا پیر مذکر ہی نہیں جادو کی کاٹ کا بھی ماہر ہے۔ حالانکہ نواز شریف وزیراعظم ہاوس میں اونٹوں کی قربانی کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے سہارا دیا ہے۔ کل وقتی قائد مسلم لیگ کو نواز کر کس کو کیا حاصل ہوا ہے ۔ کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔ بیان باز بابے بھی انگشت بدنداں کی کیفیت میں ہیں۔ مگر شہباز شریف کو چوہدری سرور واقعی لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔
زرداری کی پیپلز پارٹی نے کرامت یہ دکھائی ہے کہ ایک غریب ، عورت، ہندو کو سینٹ کا ممبر بنوایا ہے ۔ لگتا ہے بلاول بھٹو زرداری میں بھٹو متحرک ہوا ہے یا واقعی ذولفقار علی بھٹو زندہ ہے۔ سنا کرتے تھے کہ جن لوگوں کو ناحق قتل کیا جاتا ہے ان کی روح زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ؟

پیر، 15 جنوری، 2018

گیارہ ستاروں میں قطبی ستارہ


لاہور میں سیاسی اکابرین خواب بھی دیکھتے ہیں اور ان پر عذاب بھی یہیں نازل ہوتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستارے اور گیارہ پارٹیوں کی یاد سترہ جنوری کو پاکستان کے زندہ دلوں کے اسی شہر میں تازہ کی جائے گی۔

نوابزادہ نصراللہ خان کو تانگہ پارٹی کا لقب دیا گیا تھا مگر ان کے سیاسی قد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید نے علم نجوم کے ذریعے ٹی وی کے چینلوں کوریٹنگ کے بہت تحفے دیے مگر سیاسی لیڈر جب تک ووٹ نہ جیت سکے اس کو مخالفین کے طعنے ہی مار دیتے ہیں۔اسلا�آباد میں ایک سیاست دان نے سامنے بٹھا کر کہا کہ تمھاری بولتی تمھارے گھر میں آ کر بند کی ہے ۔ مگر موجودہ ٓوازوں میں بلند تر آواز شیخ صاحب ہی کی ہے۔ 

موجودہ گیارہ ستاروں میں قطبی تارہ طاہر القادری کی ذات کی ہے۔ شریفوں کی اتفاق مسجد سے اڑان کے بعد طائر نے پنجاب کا لباس اتار کر عربوں کی ْ توپ ْ اور ترکوں کی "ٹوپی " پہن کر پاکستان کے پاسپورٹ کو بھی خیر آباد کہہ دیا تو برطانیہ میں ان کے مالی معاملات زیر بحث آئے ۔ اور یہ خوف ابھرا کہ پاکستان میں قران کی راہ منور کرنے پر لوگوں کا ایثار مایوسی پا کر چراغوں کو گل بھی کر سکتا ہے مگر عالم کی جب پانچوں گھی میں ہوں اور خوراک مین باداموں کے کشتے بھی شامل ہوں تو علم کا نور منور ہوتا ہے، اور قادری صاحب تو فلسفے اور منطق کے شارح ہیں۔

ہماری امیدوں کے مرکز اور انقلاب کے سرخیل کپتان کا پہلا کارنامہ 
Electables 
کا باسی اچاراکٹھا کرنا ، دوسرا اپنے نظریاتی جانبازوں کو دیوار کے ساتھ لگانا تیسرا نظریات اور جدوجہد کی بجائے تعویزوں اور پہاڑوں کی بلندیوں پہ چلے کاٹنا۔ سیاست کے بابوں کی تنقیدی سوچ کی اقتداء مگر اسد عمر جیسے منظم کی موجودگی میں جلسوں کی افرادی قوت کو ووٹ کی طاقت میں نہ بدل سکنا، اور سب سے بڑھ کر منفی تنقید اور نا مانوس بیانئے نے سنجیدہ ہمدردوں کو مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ حلق کی پوری قوت کے ساتھ آپ کے بیانیے کو الیکٹرانک میڈیا اور قلم کی پوری طاقت سے پرنٹ میڈیا میں عوام کو سمجھانے والے آپ سے شاقی ہیں۔ جناب آپ ناکام ٹولے میں گھرکر مخلصین سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں اور آپ کی میڈیا ٹیم کی کار گذاری یہ ہے کہ اس نے نئے پاکستان کے نعرے کے علمبردار کو کرسی کو ترستا شخص بنا دیا ہے ۔ البتہ ضد نے آج تک اور کس کی راہ سہل کی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر محترم صادق اور امین ہونے کے باوجود اپنے روائتی ووٹر سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ سیاست قریہ بلا ہے ، قاضی اللہ کو پیارے ہو چکے اور جس طلسم کے لوگ گرویدہ تھے وہ طلسم ٹوٹ چکا مگر جماعت اسلامی محدود سیاسی ووٹ بنک کے باوجود اپنا مقام رکھتی ہے ،کپتان نے جو فیض حاصل کرنا تھا کر چکے۔ اب کے جماعت اپنے اصل کی طرف پلٹے گی مگر مال روڈ پرنکلنے والی بارات میں جماعت کی افرادی قوت محدود ہی رہے گی۔ 
زرداری کی پیپلز پارٹی کو بے نظیر بھٹوکے بیٹے کی پارٹی بننے میں وقت درکار ہے اور فی الحال لاہور میں وہ قحط الرجال کا شکار ہے۔
لاہور میں یہ اجتماع شہباز شریف کی سیاسی زیست کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا تھا ۔مگر سیاست بڑا بے رحم کھیل ہےْ ۔ بازی گروں نے بازی زبردست بچھائی ہے ۔یہ بازی مگرشطرنج کی ہے ۔ غلط چال کا ادراک کھلاڑیوں کو فروری کے مہینے میں ہوگا ۔ ناکامی کا بوجھ مگراناڑی پر نہیں ، کھلاڑی پر ہی ہوتا ہے۔

لال حویلی سے اٹھایا گیا یہ تاثر اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہاہے کہ فوج اور عدلیہ بطور ادارہ کپتان کی پشت پر ہیں۔ اس رنگ بازی نے ان دو اداروں کو جو چونا لگایا ہے اس کے بعد ان اداروں میں اگر کوئی ہمدرد تھا بھی تو اب نہیں ہے۔