منگل، 25 دسمبر، 2018

سیاسی بھنڈی


جب دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا تو اسلام آباد میں کہا جاتا تھا ۔ شہر بستے بستے بستا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ آیا تھا کہ شہر بسانے کے لیے جو انفرا سٹرکچر اور باسیوں کے رہنے کے لیے کو مکانات درکار ہوتے ہیں ، ان کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اس محنتی قوم نے اسلام آباد کو بسا لیا۔پاکستان کی بہترین شاہرائیں اور عمدہ عمارتیں تیار ہو گئیں اور نفیس سرکاری ملازمین اس شہر کی رونق ہو چکے۔البتہ ترقی کا عمل جاری و ساری ہے میٹرو کی شکل میں بین الاقوامی معیار کے ذرائع آمد رفت مہیا ہو گئے ۔ ہوائی اڈہ چھوٹا پڑ گیا تو کھلے مقام پر وسیع اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوائی اڈہ آپریشنل ہو گیا۔ سر سبز اسلام آباد میں مزید شجر کاری کر کے مزید شاداب بنا دیا گیا۔ تاریخ بیان کرتی یادگار بھی عوام نے دیکھ لی۔ بچوں کے لیے رنگ برنگے چڑیا گھر تو باسیوں کے لیے باغات اور پارک بھی موجود ہیں۔ دوکانیں ائر کنڈیشنڈ اور آسائش زندگی سے بھری ہوئی ہیں۔ اس شہر کے بارے جو خواب بنانے والوں نے دیکھا تھا شہری اس کی تعبیر پا رہے ہیں۔ اس شہر میں ایسی کشش ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے لوگ آ کر یہاں بس گئے ہیں۔ اس شہر کو دیکھنے باہر سے آیا ہوا شخص سار ا شہر گھوم کر ہوٹل کی بالکونی میں پڑا انگریزی کا اخبار پڑھ کر فرحت سی محسوس کرتا ہے۔ اس شہر میں زیادہ لوگ اردو کا اخبار پڑہتے ہیں ۔کچھ لوگ شام کا اخبار شوق سے پڑہتے ہیں۔اردو کے اخبار سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر میں ایک صنعتی علاقہ بھی ہے جس میں کام کرنے والے مہینوں اپنی تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک سبزی منڈی بھی ہے جہان سنگل دیہاڑی سولہ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ ان پر شکوہ رہائشی عمارتوں میں گھریلو ملازمین بھی بستے ہیں۔ جو چوبیس گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔ ہر سیکٹر میں ایک تھانہ بھی پایا جاتا ہے، جس میں حوالات بھی ہوتی ہے اورحوالاتیون کی کہانیاں دل چیرتی ہیں۔ ایک ڈی چوک بھی ہے جہاں ہر قسم کی زبان درازی ، اظہار رائے کے نام پر کی جاتی ہے۔شام کے اردو اخبار کے قارئین کی دنیا اسلام آباد میں ہونے کے باوجود وکھری ہی ہے۔ اس وکھری دنیا میں بھی سبزی منڈی کا اپنا ہی حسن ہے۔ یہاں دیر کا عبدالخبیر ، خیر پور کا محمد اسلم، مظفر گڑھ کا کرم الہی، نواب شاہ سے آیا مکھوبھی ہے۔ یہاں آپ پاکستان کی کوئی بھی زبان بولیںآپ کو بات کرنے والا لازمی مل جائے گا۔ منڈی میں زندگی ظہر کے بعد انگڑائی لیتی ہے۔ رات کو دن ہوتا ہے اور سورج سوا نیزے پر آ جائے تو مزدور کی دیہاڑی پوری ہوتی ہے۔ ان کے پاس گرمیوں میں ایک چادر اور سردیوں میں ایک رضائی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی ضرورت دیہاڑی اور مجبوری نیند ہوتی ہے۔ یہ کبھی شاہرہ دستور پر چڑھے ہیں نہ قصر صدارت سے انھیں کوئی سروکار ہے۔ وزیر اعظم ہاوس کو دیکھنے کے متمنی ہیں نہ پارلیمان کو۔ حوالات سے وہ پناہ مانگتے ہیں۔ انصاف سے وہ مایوس ہی نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو وہ حسرت اور نفرت سے نہیں دیکھتے اونچی عمارتوں سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

سبزی منڈی میں پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ مزدوری کے لیے آنے کا نام بدل دیا جاتا ہے ۔بوڑھا معراج دین ْ باباماجھا ْ ۔ محمد اسلم ، اسلو ۔ جاوید خان ، جیدا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہان عزت صرف گاہک پاتا ہے اور صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ گاہک کے علاوہ بھی بہت لوگ یہاں آتے ہیں ، نام ان کے بھی بدل جاتے ہیں ۔ جیسے ڈنڈا، مکھی ، بجلی ، شرمن ٹینک ۔۔۔
یہاں اخبارات شام ہی کے مقبول ہیں ، ایک پڑہتا ہے ، سننے والے سر دھنتے ہیں ۔ سیاسی بیانات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی البتہ بیان بازوں کے نام انھوں نے اپنے ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ کوئی ٹماٹر ہے تو کوئی بینگن، کسی کانام کریلا رکھا ہوا ہے تو کسی کا آلو۔ میں نے پہلی بار سنا کوئی بھنڈی بھی ہے ۔ ذہن پر بہت زور دیا۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا،یہ بھنڈی کون ہے ؟ ْ نئے سیزن کی تازہ پیداوار ہے ْ سمجھ نہ پایا ۔ اچھا اتنا ہی بتا دو مذکر ہے کہ مونث ۔۔۔ ْ مذکر اور مونث کا تو پتہ نہیں لیکن ہے لیس دارْ 

کوئی تبصرے نہیں: