جمعرات، 27 دسمبر، 2018

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 3

اعزاز سید

”جی سر۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نرم روی سے جواب دیتے ہیں۔
” تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے؟ ”۔ نواز شریف صفدر کو مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ ریل گاڑی لاہور سے راولپنڈی کا سفر طے کررہی ہے۔
” سر۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی۔ ”۔ کیپٹن صفدر آہستگی سے کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر انہیں مطلع کریں۔
کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے۔ تم مت جاؤ۔
وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر اپنے والد کو فون کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگتے ہیں۔
” ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ ” ان کے والد اسحاق مسرور نے ان سے کہا۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں۔
” مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ بیگم کلثوم نواز نے اسٹاف کے عملے سے قمر زمان کو مانسہرہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں خاموشی سے پتہ کریں کہ میرا مزاج اور طور طریقہ اور ہمارے خاندان کا رہن سہن اور شہرت کیسی ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کے روکنے پہ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل گئی۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ 1992 کی گرمیوں میں کیپٹن صفدر اے ڈی سی وزیر اعظم اپنی ہفتہ وار چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کے والد66 سالہ اردو شاعر اسحاق مسرور جو کہ اپنی اہلیہ حاجرہ بی بی کے ہمراہ بیٹھے تھے نے اپنے بیٹے صفدر کو بلایا۔
”صفدر، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ مانگ رہا ہے۔ ”۔ اسحاق مسرور نے صفدر سے کہا۔
” میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے اباجی۔ آپ نے ایسا یہاں تو کہہ دیا لیکن کہیں اور مت کہیے گا میری نوکری چلی جائے گی۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو جواب دیا۔
” میں نے اپنی عمر گزاری ہے اور میں تجربہ کار ہوں۔ بیگم کلثوم نواز نے تمہاری والدہ حاجرہ بی بی کو فون کیا ہے اور تمہارا رشتہ مانگا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپ کا بیٹا چاہیے۔ ” باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
اس موقع پر جواں سال کیپٹن صفدر 28 سال کے تھے جبکہ مریم نواز نے 23 اکتوبر 1991 کو اپنی اٹھارہویں سالگرہ منائی تھی۔ دونوں کے مابین دس سال کا فرق تھا جو کہ قابل قبول تھا۔ کیپٹن صفدر سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ وجیہہ صورت کیپٹن سے اپنی ٹین ایج میں ضرور متاثر ہوں گی۔
اس کے بعد دونوں خاندانوں نے شادی کی تیاری شروع کردی اور مریم اور صفدر کی شادی 25 دسمبر 1992 کو نواز شریف کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔
کیاآپ کو توقع تھی کہ آپ کی شادی مریم نواز سے ہوگی؟ میں نے کیپٹن صفدر سے ایک سیدھا سوال پوچھا۔
” نہیں بالکل نہیں۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔ کیا آپ شادی سے پہلے مریم سے ملے تھے؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ ” وہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا تھا۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا۔ جولوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز( جنہیں اب وہ امی جان کہتے ہیں) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کرلیا۔
مترجم شوذب عسکری۔
بشکریہ تجزیات ڈاٹ کام۔

کوئی تبصرے نہیں: