پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 4



ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک مقبرہ ہے جس میں پاکستان سے جڑی تین شخصیات کی قبریں ہیں ایک مولوی فصل الحق دوسرے خواجہ ناظم الدین الدین اور تیسرے حسین شہید سہروردی جن کی موت بیروت میں جلا وطنی میں ہوئی تھی ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا 21 توپوں کی سلامی دی گئی پاکستان کا پرچم سر نگوں کر دیا گیا اور پھر ان کی میّت کو ڈھاکہ لے جایا گیا جہاں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے صحن میں دفن کر دیا گیا
مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران 1968 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں سہروردی کے منہ پر تکیہ رکھ کر دبا دیا گیا تھا یہاں تک کہ ان کا سانس رُک گیا اور وہ فوت ہو گئے
حسین شہید سہروردی قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔
1918 میں لندن کے "گریز ان" سے تعلیم مکمل کر بنگال لوٹ کر آنے والے سہروردی نے 1946 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد اراکان کو ساتھ ملا کر کامیابی پلیٹ میں رکھ کر قائد اعظم کو پیش کی تھی۔ وہ جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔قائد نے انھیں بنگال کاوزیراعلیٰ نامزد کردیاتھا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں حسین شہید سہروردی کی شبانہ روز محنت سے حاصل کی گئی وہ مسلم لیگی حکومت تھی جس نے کانگریس کو ملک کی تقسیم پر مجبور کر دیا تھا
ان کے بارے میں ایک کالم نگار نے لکھا تھا حسین شہید سہروردی ہماری تاریخ کا وہ ہیرو ہے جسے شاید ہم نے بنگالی ہونے کی بناء پر وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔قابلیت وہ ہوتی ہے جس کا مخالفین بھی اعتراف کریں گاندھی کے الفاظ ہیں کہ جناح صاحب ایک حقیقی اسٹیٹس مین، لیاقت علی خان ایک سیاست دان اور سہروردی ایک لیڈر ہے
لاہور میں کچھ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوارن ایک صحافی نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہونے زیادتیوں کے حوالے سے سہروردی صاحب سے پوچھا کہ بابا! مشرقی اور مغربی پاکستان کو کونسی طاقت متحد رکھے ہوئے ہے؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ تین طاقتیں ہیں ً انگریزی زبان ً ً پی آئی اے ً اور ًحسین شہید سہروردی ً
وہ پاکستان کی وحدت کے سخت حامی تھےصدر ایوب خاں کو اپنی معذولی کے بعد ایک خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہےان کی خواہش تھی کہ ان کی اندگی میںمشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement ہو جائے،
انھوں نے جنرل ایوب کو کہلوایا تھا "میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں‘
ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔
جنرل ایوب نہیں چاہتے تھے کہ سہروردی پاکستان میں رہیں ۔

گوادر اج جو ترقی کی امید کا محور ہے۔ اس کے حصول کی ابتدا قائد ملت لیاقت علی خان کے دور میں ہو چکی تھی ۔ سہروردی نے اپنے دور میں اس کو آگے بڑہایا اور فیروز خان نون کے دور میں پاکستان اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

امریکہ نواز خارجہ پالیسی تو انہیں ورثے میں ملی تھی مگر بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ بھارت سے کسی بھی چپقلش کی صورت میں انہیں امریکہ سے کسی قسم کی امداد کی امید نہیں تھی جبکہ اپنے معاہدوں کے مطابق روس بھارت کے ساتھ کھڑا تھا اس لئے اس وقت انہوں نے دیانتداری سے محسو س کیا تھا کہ پاکستان کیلئے اب چین سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنا ہماری علاقائی اور دفاعی ضرورت بن گیا ہے
میں جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں امریکی صدر نکسن پہلی مرتبہ 1969 پاکستان سے پی آئی اے کی پرواز پر چین گئے تھے. جس کے بعد چین امریکہ تعلقات کا دور شروع ہوا تھا۔
سہروردی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئےتو انہوں نے عہد کیا کہ وہ توانائی کا بحران دور کریں گے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ کریں گے۔ انہوںنے پاکستانی فوج کی تنظیم نو کابھی عہد کیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایسی شراکت داری کی بنیاد رکھی جس کے تحت ایک خاص مقصد اور مفاد( ایٹمی توانائی ) کو حاصل کیا جانا تھا۔ایوب خان نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو ترک کر دیا تھا کہ ہم غریب قوم ہیں ۔ ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے

جنرل ایوب خان نے مارشل لالگانے کے بعد سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور عدالت نے یاستدانوں کو نااہل فرار دے دیا۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی پر بھی کرپشن کا کیس بنا۔ جو ایک فوجی عدالت میں چلا ۔ اس کیس کی روداد منیر احمد منیر نے لکھی ہے “ گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور اُس طرح پانچویں بڑی مملکت قائم کر دکھائی تھی۔ تقریباً یہ تمام سیاستدان 8 برس کے لیے نااہل قرار پائے۔ مارشل لا والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنے بیان صفائی میں کہا ''میں وزیر اعظم تھا۔ میں نے یہ پرمٹ جاری کیا۔ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بہ حیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ''کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ طیش میں آ کر گرجے: ''وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے request کی تھی‘‘

بیرسٹر ظہور بٹ لندن۔ جو سہروردی کے بہت قریب تھےنے لکھا ہے
جنرل ایوب خان ایک عرصہ دراز تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے
( Elective Bodies Disqualification Odrinnance 1960)
کے نام سے مارشل لاء کا ایک ضابطہ جاری کیا جسے ایبڈو (EBDO)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے تمام سیاستدانوں کو ناہل قرار دلوانا تھا جو جنرل ایوب خان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے تھے اس مقصد کیلئے ایک ٹریبونل بنایا گیا جس کے چیئر مین جسٹس اے آر چنگیز تھے جو پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے دوسرے دو ممبروں میں ایک فوجی کرنل محمد اکرم تھے اور دوسرے ایک سینئر بیوروکریٹ۔
ٹریبونل میں پیش ہو کر سہروردی صاحبؒ کہا ’’میں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں لگائے جانیوالے بد عنوانیوں کے ان الزامات کو نفرت اور حقارت کیساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ سب جھوٹے اور من گھڑت ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ کلکتہ میں وہ کتنی بڑی جائیداد کے مالک تھے جس کے عوض وہ بھی پاکستان میں متروکہ املاک پر قبضہ کرکے حقوق ملکیت حاصل کر سکتے تھے مگر انکی غیرت نے ایسا کرناگوارا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی پورے پاکستان میں ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں ہے ڈھاکہ میں وہ اپنے دوست اور روزنامہ اتفاق کے مالک مانک میاں کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ کراچی میں اپنی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی کوٹھی لکھم ہاؤس میں ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اب جا کر کہیں ڈھاکہ میں انہوں نے ایک بیگھہ زمین خریدی ہے جس پر ایک ٹھکیدار مکان تعمیر کر رہا ہے جس کی ادائیگی وہ ماہوار قسطوں میں کر رہے ہیں جس مہینے میں قسط رُک جاتی ہے‘ اس مہینے مکان کی تعمیر بھی رُک جاتی ہے‘بہر حال یہ مکان ان کی موت تک بھی مکمل نہ ہو سکا۔ ’پھر ٹریبونل کے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ گدو بیراج اور سکھر بیراج میں ہزاروں ایکڑوں کے حساب سے تقسیم کی جانیوالی زمینیں انہوں نے اپنے نام نہیں لکھوائیں بلکہ جنرل ایوب خان اور انکے دیگر تمام جرنیلوں نے اپنے ناموں پہ لکھوائی ہیں جن میں جنرل اعظم خان سے لیکر جنرل پیرزادہ تک سبھی ملوث ہیں یہ اور بات ہے کہ انکے کرتوتوں کا علم لوگوں کو کئی سالوں بعد ہو گا خود ان جرنیلوں کا اپنا تو یہ حال ہے اور بدعنوانی کے الزامات یہ مجھ پر لگا رہے ہیں۔

کلکتہ کی عدالتوں میں جس وکیل کا نام عزت سے لیا جاتا تھاجب وہ پاکستان کی وزارت عظمی سے برخاست کیا گیا تو 1۔ دیال سنگھ مینشن مال روڈ لاہور پر اپنا دفترپر ان کااپنا وکالت کا دفتر موجود تھا ۔حکومت نے انھیں معاشی طور پر محتاج کرنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ ملک کی عدالتوں کی بار کونسلوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ منٹگمری کی ایک عدالت نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔“

منیر احمد منیر نے " ان کہی سیاست " میں لکھا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ۔ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ اس کے عوض میں مجھے کشمیر لے دیں۔جب ان سے برظرفی کے کاغذات پر دستخط کرائے جا رہے تھے تو ان کی آنکھوں مین انسو تھے ۔ کسی نے پوچھا یہ انسو وزارت عظمی کے چھن جانے پر ہیں تو انھوں نے فولادی لہجے میں جواب دیا ۔ مجھے وزارت عظمی کے چھن جانے کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے یہ آنسو تو اس لیے ہیں کہ ہم نے کشمیر ہمیشہ کے لیے کھو دیا

کشمیر کے لیے انسو بہاتے ، پاکستان کے اس سابقہ وزیر اعظم کو71 سال کی عمر مین جنوری کی یخ بستہ صبح 5 بجے گرفتار کیا گیا تو ان پر گاندہی سے ہاتھ ملانے کاالزام تھا جو ملک سے سنگیں غداری تھی .ان پر غداری کا مقدمہ چلا چیل بھیجے گئے ۔ مشرقی پاکستان میں ان کی رہائی کے لیے مظاہرے شروع ہونے کے خوف سے ان کو جیل سے نکال کر ملک بدر کر دیا گیا

کوئی تبصرے نہیں: