اتوار، 9 دسمبر، 2018

زندگی کی حراست


پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعدسب سے پہلا کام یہ کیا کہ اقوام عالم میں پاکستان کی معاشی ترقی کے بارے میں جو تصور بن رہا تھا۔ اس کو غلط ثابت کیا۔ سابقہ حکومت کے وہ سارے منصوبے جن میں حکومت کو عوام کی تائید شامل تھی۔ مثال کے طور پر میٹرو اور توانائی سے متعلق منصوبے ، ان کو کرپشن کا گڑھ بتایا ۔ سب سے زیادہ اعتراض ملتان میٹرو پر سامنے آئے۔ جب اس منصوبے کو موازنہ پشاور میٹرو سے کیا جاتا ہے تو بالکل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ اورنج ٹرین ایسا منصوبہ تھا جس نے عوام ، حکومت اور سرمایہ کاروں کو نئے خواب دیکھنے کا حوصلہ دیا تھا۔ ایک سفارت کار نے ان دنوں سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن اسلام آباد سے ناشتہ کر کے ٹرین سے کراچی جا کر میٹننگ اٹینڈ کروں گااور دوپہر کا کھانا کھا کر رات کو واپس اسلام آباد ہوں گا۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہوتا جب اسلام آباد سے کراچی تک بلٹ ٹرین چل چکی ہوتی۔ اورنج ٹرین کے منصوبے کو سست روی کا شکار کر کے عوام کی امنگ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ایسی ٹھیس پہنچائی گئی ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے پوری ایک نسل درکار ہوگی ۔
پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن وہ داستان ہے جو 1954 سے مسلسل بیان کی جارہی ہے۔ پہلے عوام اس داستان سے متاثر ہوتی تھی۔ محدود ذرائع ابلاغ اور میڈیا پر سرکاری کنٹرول کے باعث عوام حقیقت حال جاننے سے محروم ہوتی تھی۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں ۔ عوام نے 200 ارب والے بیانیے پر یقین کیا۔ کرپشن کرنے والوں پر چار حرف بھی بھیجے مگر چند ہفتوں بعد ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جس صحافی نے چار حرف بھیجے تھے حکومتی عہدیداروں سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ قلم کی نوک سے نکلے یہ حروف اب کس  پر بھیجوں؟
جو مقدمات کرپشن کے نام پر حکومت مخالف جماعتوں پر چل رہے ہیں ان پر بہترین تبصرہ پاکستان کے صدر جناب عارف علوی نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں ْ فضول مقدمات ْ کی اصطلاح استعمال کرکے کیاہے
نیب کے کردار کے بارے میں ہر با عزت شخض تبصرہ کرنے سے گریزاں رہتا ہے ۔ اس ادارے کی کارستانیاں دیکھ کر ماضی میں پنجاب میں چلی ایک تحریک کی یاد آتی ہے جس کا نام تھا ْ پگڑی سنبھال جٹا ْ نیب کا چیلنج ہے ْ پگڑی بچا کے دکھا جٹا ْ نیب کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ شریف لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالے ۔ نیب لوگوں کے بارے میں تو سپریم کورٹ کی سن سکتی ہے مگر شریفوں کا مسٗلہ دوسرا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جن کو نیب نے گرفتار کیا اور طویل ریمانڈ پر اپنی تحویل میں رکھا ، نے عدالت سے ضمانت پررہا ہونے کے بعد جو انکشافات کیے ہیں ان سے نیب کے سیاسی تعصب بارے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے انکشافات میں ایک یہ ہے کہ ان پر سابقہ حکومت کے ایک وزیر کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباو ڈالا گیا ۔۔ سرگودہا یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر کے ساتھ نیب کے نوجوان افسر کی بدتمیزی کی خبریں اور گرفتار ملزمان کے خاندان کے افراد کی موجودگی میں تشدد کر کے سابقہ حکومت کے خلاف بیان لینے کی کوشش جیسے الزام عام ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنماء جناب عارف علوی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ نیب تحقیقاتی نہیں بلکہ سیاسی ادارہ ہے۔ اس فتوےٰ کے بعد اس ادارے بارے کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہی ہے۔ 
سابقہ آمر پرویز مشرف کے کارناموں میں پی سی او کا نفاذ ایسا کارنامہ تھا جس سے ہمارا معاشرہ بہت زیادہ متاثر ہو۔ اس کے سب سے زیادہ اثرات عدلیہ کے فیصلوں میں دیکھے گئے۔ عوام پی سی او ججوں کے بعض فیصلوں کو پڑھ کر حیران ہوتی ہے اور بعض  مقدمات کی کاروائی پر ششدر رہ جاتی ہے۔  قانون کے طالب علموں، وکلاء اور سول سوسائٹی نے اکہتر سالوں میں بہت کچھ سیکھا ہے البتہ اس انکشاف پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ سب سے زیادہ سبق عوام نے سیکھا ہے کہ وہ اکہتر سالوں سے ہربے انصافی کا بلا واسطہ ہدف رہے ہیں۔ عوام میں ایک یقین پایا جاتا ہے کہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو گا ۔ ایک وقت آئے گا کہ پاکستانی معاشرہ ہر قسم کی آمرانہ سوچ کی باقیات سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہو گا۔
پاکستان کی بنیا د رکھنے اور اس کو بنانے والے رہنماوں کے اپنی زندگی کے دن پورے کر لینے کے بعد جب ملک حکمرانوں کے زیر تسلط آ گیا اور پورے مغربی پاکستان کے صوبے کے گورنر نے لوگوں کو اپنی مونچھ سے ڈرانا شروع کر دیا تو پھر حکمرانوں کو اپنی ہی عوام سے خطرہ پیدا ہو گیا۔ روٹ لگنے اور سڑکوں پر مسلح محافظوں کو قطار اندر اندر قطار کھڑا کرنے کی ضرورت ایوب خان کے دور میں محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔افراد اداروں پر حاوی ہونا شروع ہو گئے۔ پھر ادارے ایک دوسرے کے حریف بننے لگے۔ ایک دوسرے کونیچادکھاتے دکھاتے ہم اپنے ہی دو ٹکڑے کر بیٹھے۔ ایک دانشمند نے کہا تھا کہ لوگوں کی غلطیوں سے سیکھو مگر ہم نے اپنی ہی غلطیوں کو غلطی ہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارے غلط ہونے کا ثبوت ہمارے پروٹوکول ہیں۔ جس دن ریاست ، حکومت اور عوام کی سوچ ایک جیسی ہو جائے گی اس دن پروٹوکول خود بخود ختم ہو جائے گا اور مسلح محافظوں اور ہٹو بچو پکارتے ہوٹروں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔ اس وقت تکمحفوظ دفاتر، پناہ گاہ بنے ادارے اور جان بچانے والی سیکیورٹی اور گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ ایمبولنس کی بھی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کہنا کہ پروٹول نہیں لیں گے سیکورٹی سے احتراز نہ کریں گے۔ بڑے گھرکے اندر چھوٹی رہائش مین رہیں گے۔ پاکستان اتنا بڑا ملک ہے اور عوام کا دل اس قدر وسیع ہے کہ انھیں آپ کے گھروں اور گاڑیوں پر کبھی اعتراز رہا ہی نہیں مگر یہ من کا چور ہے جو شور مچاتا ہے۔شور تو گرجتے بادل بھی بہت مچاتے ہیں۔ برستی بارش کو کان پھاڑتی گرج سے نہیں ، ملی میٹر سے ناپا جاتا ہے۔ جی کامیابی جان ، مال اور وقت لگا کر زینہ بزینہ ہی حاصل ہوتی ہے اور اس کے ماپنے والےپیمانے بھی طویل نہین ہوا کرتے ۔ ہمیں ایسا بیانیہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو نوجوان نسل کو یقین دلا سکے کہ کارخانہ قدرت میں ہر پرزے کا ایک مقام ہے۔ جب تک ایسا بیانیہ تراش نہیں لیا جاتا اس وقت تک آپ پروٹول کول اور سیکیورٹی کی اپنی تعریف بیان کرتے رہیں گے اور عوام اس پروٹوکول پر چار حرف بھیجتے رہیں گے۔مگر عوام کو یہ رویہ بھی پسند نہیں ہے کہ اداروں کے ملازمین کو ان ہی کے ادارے میں حکومتی وزراء اور مشیران دھکےماریںیا غریب ہمسائے کا جینا حرام کر دیں
وزیر اعظم صاحب کی ہمشیرہ محترمہ پر لگے مالی بد عنوانی کے الزامات کو جس طرح قانونی طور پر طے کیا گیا ہے ۔ اس عمل پر حزب اختلاف کی کسی جماعت نہ میڈیا نہ ہی عوام نے کوئی نقطہ چینی کی ہے۔ کیا مالی معاملات کو نمٹانے کایہ طریقہ اس طریقے سے بہتر ثابت نہیں ہوا جو طریقہ حکمران پارٹی کے مخالفین پر آزمایا جا رہا ہے۔البتہ یہ بیان حکومتی پارٹی کے اندر سے آیا ہے کہ ان سائیڈ ٹریڈنگ جرم نہیں ہے ۔ اس کو کہتے ہیں آ بیل مجھے مار
الزام تراشی اور بے بنیاد الزام ایسے اعمال ہیں ۔ جن سے ہمارا عدالتی نظام منفی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔ سیاسی مقدمات کے عدالتی فیصلوں پر عوام کی رد عمل اس کا واضح ثبوت ہیں۔
کھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف​
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا


کوئی تبصرے نہیں: