جمعرات، 27 دسمبر، 2018

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 2

اعزاز سید

وزیر اعظم کا موٹر کاروان کیپٹن صفدر کے گھر کے قریب جا رکا۔ کیپٹن صفدر گاڑی سے نکل کر دوڑے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سے پہلے ہی اپنے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو اطلاع کریں کہ وی وی آئی پی مہمان آئے ہیں۔ ان کی والدہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئی تھیں۔ ان کے والد جو کہ مطالعہ کے شوقین اور اردو کے شاعر تھے، وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔
” ابا جان ، وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ آئے ہیں۔ ” یونیفارم میں ملبوس کیپٹن صفدر نے دس مرلے کے مکان میں واقع مطالعے کے کمرے میں موجود اپنے باپ کو حیران کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
اسحاق مسرور، جو کہ یوٹیلیٹی سٹور سے ریٹائرڈ ملازم تھے جلدی سے اپنے گھر سے باہر آئے۔ جلدی میں وہ کتاب رکھنا بھی بھول گئے جسے وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ان کی ایک انگلی ان دوصفحوں کے درمیان ہی تھی جہاں وہ پڑھتے ہوئے رکے تھے۔
کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو میاں صاحب اور ان کی اہلیہ سے تعارف کروایا۔ ان کے والد نے دونوں میاں بیوی کا استقبال کیا اور انہیں گھر لے جاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پہلے سے اطلاع کردیتے تو ان کے لئے باقاعدہ انتظامات کیے جاتے۔
گھر میں داخل ہوکر بیگم کلثوم نواز نے جائزہ لیا۔ مہمانوں کو برآمدے میں بٹھایا گیا۔ مہمانوں نے کیپٹن صفدر سے ان کی والدہ کا پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئی ہیں۔
پنجرے میں بند ایک خوبصورت طوطے پر خاتون اول کی نگاہ گئی تو وہ اس کے پاس چلی گئیں۔ کیپٹن صفدر نے بیگم کلثوم نواز کی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ یہ طوطا ان کی والدہ کا پالتو ہے اور یہ باتیں بھی کرتا ہے۔ ” میاں مٹھو، یہ بی بی جی ہیں۔ ” کیپٹن صفدر نے طوطے کو مخاطب کرکے کہا۔
جی بی بی جی۔ جی بی بی جی۔
طوطا رٹالگانے لگا۔ بیگم کلثوم نواز حیران رہ گئیں۔ وزیر اعظم بھی اپنے اے ڈی سی کے والد سے ملاقات پر خوش ہوئے۔ کیپٹن صفدر اپنے والدین کے چار بیٹوں میں تیسرے نمبر پہ ہیں۔ جبکہ ان کی کوئی بہن نہیں ہے۔ اتفاق یہ کہ جب وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں آئے تو کوئی بھی بھائی گھر پہ نہیں تھا۔
چونکہ ان کی والدہ بھی گھر پہ نہیں تھیں، لہذا وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں دس سے پندرہ منٹ رکے اور پھر وادی کاغان کی طرف اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔ وادی کاغان پہنچے تو وہاں میاں شہباز شریف بھی اپنے پروگرام کے مطابق پہلے سے موجود تھے۔ بیگم کلثوم نواز نے میاں شہباز شریف کو بتایا کہ وہ کیپٹن صفدر کے گھر رکے تھے۔

وزیر اعظم کے ساتھ روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کیپٹن صفدر نے جولائی 1990 میں سول سروسز کے ٹریننگ پروگرام کا خط وصول کیا جس میں انہیں ضلعی انتظامیہ کے اٹھارہویں کامن کورس میں شرکت کا کہا گیا۔
صفدر نے اپنے افسران بالا بشمول وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ اب یہاں سے روانہ ہوں گے اور سول سروسز میں شامل ہوں گے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرےساتھ یہیں ڈیوٹی کرو۔ صفدر ر ک گئے اور ایسے انتظامات کر لیے کہ وہ آئندہ سال یہ ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ان کا فوجی کیریر ختم ہورہا تھا اور یہ وقت فوج سے سول ادارے میں منتقل ہونے کا وقت تھا۔ تاہم وہ ابھی تک وزیر اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
صفدر نے وزیر اعظم کے ساتھ ذمہ داری جاری رکھی۔ وزیر اعظم کے چاروں بچوں بشمول سب سے بڑی بیٹی مریم اس جوان سال وجیہہ صورت کیپٹن کو وزیر اعظم ہاؤس میں دیکھتے تھے۔ ایک سال گزر گیا اور جواں سال کیپٹن کی سول سروسز ٹریننگ کا مرحلہ دوبارہ آن پہنچا تو اس نے ایک پھر وزیر اعظم کو اپنی روانگی کا بتایا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ براستہ ٹرین لاہور جارہے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنے ڈبے میں تھے جب عملے نے انہیں بتایا کہ انہیں وزیراعظم نے طلب کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے ڈبےمیں آتے ہیں۔ اپنے ڈبے میں وزیراعظم اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور بزرگ گھریلو خدمتگار صوفی بیگ کے ہمراہ ہیں۔
وزیر اعظم انہیں بیٹھ جانے کو کہتے ہیں۔ صفدر بیٹھ جاتے ہیں تو کلثوم نواز انہیں میز پر رکھی ٹوکری سے پھل کھانے کا کہتی ہیں۔ صفدر احترام سے نہ کرتے ہیں۔
”کیا تم ہمیں چھوڑ رہے ہو؟ ” نواز شریف پوچھتے ہیں۔
جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں: