اتوار، 16 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 2
--------------------------
ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو اس کے انتظام و انصرام کرنے والے نوجوانوں میں مولوی فضل الحق پیش پیش تھے۔ مسلم لیگ کے آئین اور منشور کی تیاری کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی‘ مولوی فضل الحق اس کمیٹی میں بھی شامل تھے۔آپ 1935ءسے 1937ءتک ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن رہے1937میں بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ مولوی فضل الحق نے قراردادلاہور کے لیے اہم کام کیا جس کی وجہ سے انہیں شیر بنگال کا خطاب ملا۔ مارچ 1940ءکو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں , قائد اعظم سمیت مشورے سے طے ہوا تھا کہ علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں لاکھوں افراد پورے برصغیر سے شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کی اور اس میں شیر بنگال مولوی ابو قاسم فضل الحق نے تاریخی قرارداد لاہور پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت والا شمال مشرقی حصہ جس میں بنگال اور آسام شامل ہیں اور شمال مغربی حصہ جس میں پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور کشمیر کے علاقے ہیں‘ ان سب پر مشتمل آزاد مملکت قائم ہونی چاہیے۔ شیر بنگال نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ پورے برصغیر میں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ جہاں جہاں مسلمان بکھرے ہوئے ہیں‘ ان کو ایک کیا جائے۔ برصغیر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے زعماءنے شیر بنگال کی تائید کی اور بعد میں قائد اعظمؒ نے اپنے خطاب میں اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آج سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ”ہماری منزل ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں بسنے کے لیے ایک خطہ کی ضرورت ہے“
مولوی فضل الحق نے 1930ء سے 1932ء تک لندن میں منعقد ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں وائسرائے ہند نےبحیثیت وزیراعلیٰ بنگال آپ کو دفاع کے لیے قائم کونسل کا رکن نامزد کیا ۔ قائداعظم نے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے آپ پر کونسل سے مستعفی ہونے کے لیے کہا ۔ آپ نے قائداعظم کے حکم کو تسلیم کیا اور دفاع کونسل سے مستعفی ہوئے .
آزادی کے بعد 1947 سے 1952 تک آپ مشرقی پاکستان کے ایڈوکیٹ جنرل رہے ۔
1954 وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔ 1955 میں آپ کو مرکزی حکومت میں وزریر داخلہ اور 1956 تا 1958 گورنر مشرقی پاکستان بنایا گیا ۔ آپ 1961 تک وفاقی وزیرخوراک و زراعت بھی رہے ۔ آپ 27 اپریل 1962 کو فوت ہوئے ۔ 30 اپریل 1962 کو آپ کی وفات پر پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے ۔ آپ کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں دفن کیا گیا ۔ بعد میں اسی مقبرے میں پاکستان کے سابقہ وزراء اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی دفن ہوئے ۔


کوئی تبصرے نہیں: