پیر، 17 جنوری، 2022

چھ سیکنڈ میں تینوں بے نقاب




میں صبح کام
 کے لیے نکلتا ہوں تو میرے راستے میں جو پہلا ٹریفک سگنل آتا ہے وہ راولپنڈی کی مال روڈ پر واقع پی سی ہوٹل کی بغل میں ہے ۔ یہ سگنل مال روڈ پر چلنے والی ٹریفک کے لیے   60سیکنڈ کے لیے جب کہ دوسری سڑک پر موجود ٹریفک کے لیے صرف 10 سیکنڈ کے لیے کھلتا ہے ۔ کام پر بر قت پہنچنے کی دوڑ میں شامل لوگوں کے کیے آدہا سیکنڈ کا وہ وقفہ بھی بہت لمبا محسوس ہوتا ہے جس میں سگنل کی بتی پیلی ہوتی ہے ۔ چند ہفتے قبل اسی سگنل پر میری آنکھوں کے سامنے اس آدہے سیکنڈ کی دوڑ جیتنے کے چکر میں 2 موٹر سائیکل سوارحادثے کا شکار ہوئے اور پنجاب حکومت کی مہیا کردہ 1122 ایمرجنسی سروس کی ایمبولینس میں لیٹ کر ہسپتال کو روانہ ہوئے ۔ 17 جنوری 2022 کی صبح پیش آنے والا واقعہ مگر بالکل ہی مختلف ہے ۔ میں اس سگنل سے 50 گز دور ہی تھا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ مجھے اس سگنل پر رکنا ہوگا ۔ میں ذہنی طور پر رکنے کے لیے تیار تھا اور سڑک پر لگی سفید لکیر پر پہنچا تو سگنل سرخ ہو چکا تھا ۔ میں رک گیا مگر میرے دائیں طرف ایک آلٹو گاڑی نے لائن کو عبور کیا ۔ اس کے ڈرائیور کا ارادہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بتی کے سرخ ہونے کے باوجود دوسری طرف کے اشارے میں آدہے سیکنڈ کے وقفے سے فاہدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ مگر عملی طور پر ہوا یہ کہ میری بائیں جانب سے ایک تیز رفتا ر موٹر سائیکل جس پر 2 نوجوان سوار تھے نے آلٹو والے کی چوائس سے فائدہ اٹھانے کے لیے عجلت دکھائی ۔ مگر دیر ہو چکی تھی مال روڈ پر ٹریفک کے سیلاب نے موٹر سائیکل سوار کو ایمرجنسی میں بریک لگانے پر مجبور کر دیا ۔ موٹر سائیکل تو رک گیا مگر آلٹو والے کے فرنٹ بمپر نے موٹر سائیکل کے پچھلے مڈ گارڈ کو چھو لیا ۔ اس پرموٹر سائیکل سوار نے موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا ۔ دونوں نیچے اترے اور آلٹو والے کو نظروں ہی نظروں میں للکارا ۔ آلٹو والا بھی اسی نلکے کا پانی پیا تھا ۔ اس نے دروازہ کھولا نیچے اترا ۔ اسی دوران میری بائیں جانب سے ایک موٹر سائیکل سوار نمودار ہوا جوپنڈی کی اس سردی کا ننگے سر بغیر دستانوں اور بغیر جرابوں کے کھلے چپل پہن کر مقابلہ کر رہا تھا مگر میں اس کی پھرتی اور قوت فیصلہ پر دل ہی دل میں داد دیے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس نے فوری طور پر موبائل نکالا اور ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ میں نے سوچا یہ واقعہ جو بھی رخ اختیار کرے گا اس کی مکمل عکاسی کی ویڈیو اس نوجوان کے پاس ہو گئی ۔ البتہ آلٹو والے کی جرات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی کیونکہ وہ کوئی فیصلہ کر کے دونوں موٹر سائیکل سواروں کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کا لباس دیکھ کر میرے ذہن میں اپنے خاندان کے وہ نوجوان آئے جو فیلڈ میں سیلز کا کام کرتے ہیں ۔ اور صبح جب تیار ہو کر نکلتے ہیں تو ایسا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ شائد کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نہیں تو ایم ڈی ضرور ہوں گے مگر تجربہ کار لوگ ان کی موٹر سائیکل  کی خستہ حالی سے اصلیت جان لیتے ہیں ۔ آلٹو اور اس کے ڈرائیور کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک تاثر ابھرا کہ سیلز مین نے اپنی دن رات کی محنت سے کمپنی کو مجبور کر دیا ہے کہ اسے فیلڈ مینیجر کی پوسٹ پر ترقی دے ۔ اور ترقی پانے کے بعد سیلز مین نے پہلا کام یہ کیا ہے کہ اپنا موٹر سائیکل بیچ کر اوراپنی   ساری جمع پونجی لگا کر یہ گاڑی خریدی ہے تاکہ خود کو یقین دلا سکے کہ وہ اب مینیجر ہے ۔ یہ صرف میرے ذہن میں چلنے والے قیاس تھے ۔ مگر اس کے گاڑی سے اتر نے کے بعد جو پہلی چیز میں نے نوٹ کی وہ اس کے چہرے پر فیصلہ بھری مسکراہٹ تھی ۔ کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے جو مسکراہٹ ہوتی ہے وہ کسی بڑی فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔ ایک طرف دو کڑیل نوجواں دوسری طرف فیصلہ کن مسکراہٹ ۔ ۔ ۔ مگر پھر میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا کہ میں مجبور ہو کر اسے لکھ رہا ہوں ۔ 6 سیکنڈ میں ایسا منظر پیش ہوا جس میں معاشرے کے تین کردار سامنے آئے ۔ پہلا  اخلاق کی ظاقت دوسرا پہلو غیر متوقع رد عمل پر ششدر رہ جانا اور تیسرا معاشرے کی تماش بین خصلت ۔

ہوا یہ  کہ آلٹو سے اترنے والے نوجوان نے مسکراتے چہرے کے ساتھ عمل پر آمادہ شخص کو گلے لگایا ۔ اور اپنے اس عمل کو تین بار دہرایا اور ساتھ اس کی زبان پر ورد جاری تھا "آ پ ناراض نہ ہوہیے گا" ، "آپ ناراض نہ ہوہیے گا" ۔ ۔ عمل کو غیر متوقع رد عمل نے ششدر کر کے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔ آلٹو سوار نے "غلطی کس کی" کو موضوع ہی نہیں بنایا تھا ۔ اتنی دیر میں ہماری طرف کی بتی سبز ہو چکی تھی اور ٹریفک چل پڑی ۔ میں نے نکلتے ہوئے آلٹو والے کو انگوٹھا کھڑا کے شاباس دی ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ فتح مند مسکراہٹ ۔ اسی دوراں بائیں جانب سے آوازآئی ۔ شٹ ۔ میرے ذہن نے معاشرے کے سوشل میڈیا کے رسیا تماش بین طبقے کی نماہندہ ۔ ۔ ۔ مگر میں نے اپنی اس سوچ کو خود ہی بے دردی سے کچل دیا اور گھڑی پر نظر دوڑائی تو چھ سیکنڈ مین 3 کردار بے نقاب ہو چکے تھے ۔ 


جمعہ، 7 جنوری، 2022

دادے کا پوتا



ذوالفقار کا گھر اپنے باپ کے گھر، باری صاحب کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر ہے۔ سات سالہ عمار نے اپنے دادا باری صاحب کو بتایا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے دادا کے گھر میں رہنا چاہتا ہے۔ عملی طور پر اس  نے کتابوں کا اور کپڑوں کا بیگ بھی تیار کر لیا تھا۔

باری صاحب کے بیٹے ذولفقار کا نکاح میں نے ہی پڑہایا تھا۔اس وقت سات سالہ عمار بہت ہی کیوٹ سا  بچہ ہے۔ مودب اور ذہین، اور کیوں نہ ہو باپ بھی تعلیم یافتہ ہے اور ماں بھی ٹیچر ہے۔ 

ٓآج سے بیس تیس پہلے گھر سے بھاگنے والے بچوں کہ عمر سولہ سال سے زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ انٹرنیٹ نے آ کر وقت کر تیز تر کر دیاہے۔ جو کام سولہ سال کی عمر کا بچہ کرتا تھا۔اب وہ سات سال کا بچہ کررہا ہے۔ 

ذوالفقار کے گھر کا ماحول ایسا ہی ہے جیسا متوسط طبقے کے خاندانی لوگوں کا ماحول ہوتا ہے۔ مودب  رکھ  رکھاو سے لیس میاں بیوی نے اپنے بچے کی ضروریات کا کافی خیال رکھا ہوا ہے۔ بچے کو گھر کا کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت کے علاوہ  اس کو ٹیب بھی ملا ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے بچے کو لاڈلا رکھا ہوا ہے تو غلط نہ ہو۔

باری صاحب کا پوتا ہی نہیں بلکہ کئی گھرانوں کے بچے اپنے والدین سے شاکی ہیں۔ باری صاحب جب بھی اپنے بیٹے کے گھر جاتے ہیں  تو انکی توجہ کا مرکز ان کا پوتا ہی ہوتا ہے۔ اور پوتا بھی جب اپنے دادا، دادی کے گھر آتا ہے تو بھی اسے خوب توجہ ملتی ہے۔  بچے کے والد رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ کھانا کھا کر وہ کمپیوٹر کے سامنے کمپنی کے کھاتے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تو والدہ سکول سے واپسی کے بعد گھر کے کام کاج میں مشغول ہو جاتی ہے۔ مہمانوں کا آنا جاتا بھی رہتا ہے۔ ان حالات میں بچہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے جو محبت  اسکے دادا اور دادی کرتے ہیں ویسی محبت اسکے والدین اس سے نہیں کرتے۔ 

آج کے دور کا بچہ، جوان اور بوڑہا  ہر شخص دوسرے کی توجہ اور وقت کا طلب گار ہے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیوی اور خاوند، بہن اور بھائی اور والدین سوشل میڈیا پر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ان حالات میں سات سالہ بچہ اس داد ہی کے گھر جائے گا نا جو اسکو وقت دیتے ہیں۔