منگل، 2 دسمبر، 2014

وحشی کا قصہ


حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ کے سگے چچا تھے ۔ بہادر اور دبنگ شخصيت کے مالک ، خوش شکل ، خوش اطوار ، زبان کے پکے اور خطرہ کے وقت ثابت قدم رھنے والے ۔ نسبی وجاھت اس کے علاوہ تھی ۔ ايک جنگ کے دوران ان کی تلوار نے اوروں کے ساتھ ايک ايسے سورماء کو بھی کاٹ گرايا جو اپنے قبيلے کا سردار بھی تھا ۔ بدلہ لينے کے ليے قبيلے نے ايک اور جنگ کی تياری شروع کر دی ليکن يہ عام آدمی کا بدلہ نہ تھا ۔ اس کے خاندان کی ايک عورت نے حضرت حمزہ کا کليجہ چبانے کی قسم کھائی اور اس مقصد کے ليے وحشی نامی ايک غلام کو دولت کے لالچ ميں تيار کيا ۔ ياد رھے اس وقت جنگ سورماء اور بہادر جنگجو لوگوں کے درميان ھوا کرتی تھی اور وحشی جيسے غلام کو جس طرح استعمال کيا وہ جنگی روايات کے خلاف اور دھوکہ تھا ۔ جناب امير حمزہ عين جنگ کے گمسان کے وقت جب بہادری کے جوھر دکھا رھے تھے اس وقت وحشی نے انھيں دھوکہ سے شہيد کر ديا ۔ اور اپنی کاميابی کی قيمت وصول کرنے جب مکہ پہنچا تو اس کو سوائے مايوسی کے کچھ حاصل نہ ھوا ۔ اور دولت بھرے وعدے کی ايفا سے انکار کر ديا گيا ۔ وحشی نے اپنے دل ميں کہا کہ ميں حضرت حمزہ کو تو زندہ کر نہيں سکتا ، کيوں نہ اپنی آخرت ھی سنواروں ۔
وہ ايک آدمی کے واسطے سے نبی اکرم سے معافی کا خواستگار ھوا ۔ اپنے جرم کی سنگينی کا بھی احساس تھا ، پوچھا کيا در گذر اور معافی کی گنجائش نکل سکتی ھے ۔ رحمت العالمين کی طرف سے جواب آياھاں
' اگر تو توبہ کر لے تو ضرور گنجائش ھے ۔
وحشی نے پھر کہلوايا کہ ميں ضمانت چاھتا ھوں ۔
حضور اکرم نے فرمايا ميں ضمانت ديتا ھوں ۔
وحشی کا خوف کم نہ ھوا پھر کہلوا بھيجا کہ آپ کے خدا کا يہ فرمان ھے کہ آپ کو خود کسی امر کا اختيار نہيں ھے ۔ ضمانت تو اس کی چاھيے جس کے اختيار ميں کچھ ھو ۔اس پر فرشتے نے رب العالمين کا حکم پہنچايا کہ
جس نے شرک نہ کيا اس کی بخشش اللہ کی مشيت پر ھے
  وحشی کا خوف پھر بھی دور نہ ھوا اور کہلا بھيحا کہ
بخشش کا حال اس کی مرضی پر ھے ، مجھے نہيں معلوم کہ وہ مجھے بخشے گا کہ نہيں لہذا اس سے بہتر شرط چاھتا ھوں تاکہ آپ کی اتباعت ميں آ جاوں، اس پر حکم نازل ھوا کہ
وہ لوگ جنھوں نے کسی دوسرے معبود کو نہ پکارا، کسی شخص کو بلا جرم اور گناہ قتل نہ کيا اور زنا کے مرتکب نہ ھوے ۔ وحشی کا خوف بڑھ گيا اور کہلا بھيجا کہ ميں تو تينوں کا مرتکب ھوں وہ مجھے نہيں بخشے گا ۔ اس سے بہتر کوئی شرط ھو تو ميں حاضر ھوتا ھوں ۔
 جواب آيا مگر جس نے توبہ کی اور عمل صالح کيا ۔ خوف زدہ کا خوف دور نہ ھوا ۔ کہلا بھيجا کہ ايمان تو لے آوں گا مگر عمل صالح کی شرط پوری نہ کر سکوں گا ۔ اس سے بہتر شرط ھو تو حاضر ھوتا ھوں ۔
اس پر قرآنی فرمان آيا ' کہدو، اے ميرے بندے ، جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کيا ھے ، رب کی رحمت سے مايوس نہ ھونا ، اللہ تمام گناھوں کو معاف کر دے گا ۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحمت کرنے والا ھے' ۔
اس پر وحشی مطمن ھو گيا اور دربار نبی ميں حاضر ھو کر مسلمان ھو گيا۔ بعد میں وحشی نے جنگ یمامہ میں خالد بن ولید کے زیرکمان  مسیلمہ کذاب کوقتل کر کے اھل ایمان کے دلوں کو راحت پہنچائی ۔
اے اللہ ، اے محمد کے رب ، اے وحشی کو معاف کرنے والے کريم ، اگر تو نے ھم سے بڑے کسی گناہگار کو معاف کيا ھے تو ھميں بھی بخش دينا اور محشر کے دن ذلت اور ندامت سے محفوظ رکھنا اور چشمہ کوثر سے سيراب کرنا ۔ امين

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔

خواتین و حضرات


ساری دنيا ميں مرد اور عورت کو قانونی طور پر برابر کے حقوق حاصل ھيں۔ مگر تيسری دنيا يعنی غير ترقی يافتہ ممالک ميں عورت اور مرد کے درميان موجود معاشی تفريق کو بہت اجاگر کر کے پيش کيا جاتا ھے۔ اور آخری سبق ‏يہ بتايا جاتا ھے کہ اگر تيسری دنيا کے معاشرے ميں ايسی تبديلی لاہی جاۓ اور معاشرے کو ايسا بنا ديا جاۓ جيسا ترقی يافتہ ممالک کے معاشرے ھيں، توعورت اور مرد کے درميان موجود معاشی تفريق ختم ھو جاۓ گی یا کم ھو جاۓ گی۔
 معاشرتی تبديلی کسی سوچ یا قانون کے تابع عمل نہيں ھے بلکہ اس تبديلی کے واقع ھونے کے ليے طويل وقت درکارھوتا ھے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے رسم و رواج و روایات کے برعکس کسی تبديلی کو اھميت نہيں ديتا۔ پاکستان ميں مرد و زن ميں معاشی تفريق کو بالکل ابتدا ھی ميں محسوس کر ليا گيا تھا۔ اور بالکل صيح سمت ميں آگے بڑھتے ھوۓ خواتين کی تعليم کی حوصلہ افزاہی کی گی۔ ھمارا مزھبی طبقہ تو اول روز ھی سے خواتين کی تعليم کے ليے کوشاں رھا ھے اور مدارس کي صورت ميں تعليم البنات کا نيٹ ورک قائم کر کے کاميابي سے نبی اکرم کے اس فرمان کی کی لاج رکھی ھے جس فرمان ميں آپ نے خواتين کی تعليم کی تاکيد کی تھی۔ 
 خواتين ھی کی نہيں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی تعليم سے وابسطہ ھے۔ بہت ساری تلخ حقيقتوں کی طرح یہ بھی حقيقت ھے کہ ھم تعليم ميں پچھڑے ھوے ھيں۔ تمام تلخ حقيقتوں اور محروميوں کے باوجود حوصلہ افزا حقيقت یہ ھے کہ ايک مطالعے کے دوران ملک کی ايک نامور يونيورسٹی ميں  ميں 39 طلبہ و طالبات ميں طالبات کی تعداد 37 پائی گی۔ 
پاکستانی قوم، سيلابی پانی کی طرح، اپنا راستہ خود بناتی ھے ۔ ضلع راولپنڈی کے ايک ديہی علاقے ميں یہ حقيقت سامنے آئی کہ باپ اپنا نام لکھنے سے قاصر ھے 
بکہ اس کی بيٹی ماسٹر کی ڈگری رکھتی ھے 
 قوموں کی زندگی ميں 67 سال زيادہ عرصہ نہيں ھوتا ۔ کئی ترقی يافتہ ممالک کو موجودہ مقام حاصل کرنے کے اس سے طويل تر عرصہ لگا ۔ ھمارا معاشرہ صيح سمت ميں گامزن ھے ۔ زيان کے احساس نے شديد تر ھو کرسيلابی پانی سے سونامی کی شکل اختير کر لی ھے ۔ ھماری خواتين کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ انھوں نے علاقائی رسم و رواج اور روايات کی لاج رکھتے ھوئے اپنے ليے ميدان عمل کے رستے چن ليے ھيں ۔ اس ملک و قوم پر اللہ کی رحمت کی انتہا ھےکہ ھم اپنا مقدر جلر از جلد بدلنا چاھتے ھيں ليکن ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے ليے 16 سال کا عرصہ بہرحال درکار ھوتا ھے [استسناء کا نام معجزہ ھے] ۔ خدا نے ھميں اميد رکھنے کی تاکيد کی ھے ۔ ھمارے نبی اکرم نے محنت کو پسنديدہ قرار ديا ھے ۔ ھمارے قائد نے کام، کام اور کام کا درس ديا ھے ۔ ھم جفاکش قوم ھيں اور ھم نے اس حقيقت کو پا ليا ھے کہ ھماری ذاتی ، خاندانی ، معاشرتی اور قومی ترقی کا راز شور و غوغا اور بے جا تنقيد اور خود کوشی ميں نہيں ھے ۔

اے اللہ تيرا شکر ھے


ايک بزرگ نے اپنی کتاب ميں معاشرے کی غربت کی تصوير کشی کرتے ھوۓ لکھا تھا کہ گوشت اس وقت کھايا جاتا تھا جب کوئی انسان بيمار ھوتا يا کوئی جانور۔ يہ کوئی شرم کی بات نہ تھی بلکہ حقيقت تھی۔ اس وقت ھم اسی طرح کے غريب تھے کہ گوشت کھانے کی بنيادی ضرورت سے محروم تھے ۔ شادی بياہ ميں ايک کھانا ھوتا تھا اور وہ بھی نہاہت معمولی ۔ آج 2018 ميں جب اس علاقے کی آبادی 7 گنا بڑھ چکی ھے ، اعداد و شمار اٹھا کر ديکھ لیجيے ،ھم اس وقت کی نسبت زيادہ خوراک کھاتے ھيں، مجموعی طور پر صاف پانی کا استعمال زيادہ ھوا ھے۔ گوشت اور پروٹين والی غذا کا تناسب بھی اس وقت کی نسبت کئ گنا بڑھ گيا ھے۔ ھم نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ھنر جان ليا ھے ۔ ھم نے خوراک پيدا کرنے کے ايسے طريقے ايجاد کر ليے ھيں جو ھماری ضرورتوں سے مطابقت رکھتے ھيں۔ [شيور مرغی کی مثال سامنے رھے] ۔ ھم نے پھلوں اور سبزيوں کی پيداوار ميں قابل ذکر ترقی کی ھے۔ بنجر زمينوں کو آباد کيا ھے ۔ اور جہاں سال ميں ايک فصل حاصل کرتے تھے اب اپنی محنت و علم و فراست کے بل بوتے پر کئ فصليں اگاتے ھيں۔ زراعت کے ليے جديد ٹيکنالوجی کو ھم نے اپنی زمينی حقيقت اور رسم و رواج سے ھم آھنگ کر ليا ھے ۔ آمدورفت ے ليے سڑکوں کی لمبائی ميں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ معيار کو بھی بہتر بنايا ھے ۔ بلکہ سواريوں کی تعداد ميں بھی اضافہ کيا ھے ۔ تعليم ميں بھی 1947 ء کی نسبت آگے ھی بڑھے ھيں ۔ انسانی وسائل ميں بھی ھمارا نام اوپر ھی آيا ھے ۔ ذاتی آمدنی کے اعشاريے بھی بڑھے ھی ھيں ۔ ھم نے اپنی دفاعی صلاحيتوں کو معجزے کی حد تک بڑھايا ھے۔ پانی کے بہاوکے رخ موڑ کر ذخيرہ کرنے کے طريقے بہتر کيے ۔ نہروں کا جال بچھانے کے کام کی ابتدا علاقے ميں ھم نے کی ۔ بجلی کا استعمال [لوڈ شيذنگ کے باوجود] پھيلا ھے۔ ھمارا طرز رھاہش و ملبوسات کا معيارعلاقے کے دوسرے ممالک کی نسبت کئ گنا بہتر ھے۔ يہ ناقابل ترديد حقيقت ھے کہ غريب ترين پاکستانی بھی علاقےکے دوسرے ممالک کےغريب ترين سے کئ گنا بہترھے۔ پاکستانی معجزے سرانجام دينے والی قوم ھے۔ اس قوم نے کسی کام کو مشکل سمجھ کر منہ نہيں موڑا بلکہ مشکل ترين کام کو چيلنج سمجھ کر قبول کيا اور سرخرو ھوئی ۔ ھمارا کام کرنے کا انداز، رھن سہن کا طريقہ ، معاملات کو ديکھنے اور سمجھنے کی اہليت اور ذھنی شعور علاقےکے دوسرے ممالک کے شہريوں سے نہاہت بلند ھے۔ ھم انفرادی و معاشرتی طور پر اپنا رستہ خود بنانے والے لوگ ھيں۔ آزادی کے بعد 70 سال کی مختصرسی تاريخ ميں ھم نے ھرميدان ميں ترقی ھی کی ھے اور انفراديت یہ ھے کہ یہ ترقی اور بلندی ھم نے اپنے علاقاہی رسم و رواج اورقومی روايات کو محفوظ رکھتے ھوے کی ھے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ھے جس کو ھم نہ پہچانتے ھوں۔ ترقی کا کون سا راستہ ھے جس پر ھمارے قدم بڑھ نہ چکے ھوں۔ ھم نے ذاتی حيثيت ميں اپنی صلاحيتوں اور وساہل ميں اضافہ ھی کيا ھے۔ ھميں اپنی حماقتوں اور ناکاميوں کا ادراک ھے ، ھم نے ان سے سبق سيکھا ھے۔ ھماری سمت درست، ھماری سوچ مثبت اورھمارا ولولہ جوان ھے۔ ھم رستے کی پہچان رکھتے ھيں اور منزل بھی قلب و ذھن ميں واضح ھے۔ قائد کی فراست و احسان ھمارے دل ميں ھے ، اقبال کا درس ھم بھولے نہيں ، محمد صل اللہ عليہ وسلم کی آواز پر ھم نے لبيک کہا ھے اور اپنے رب کی رحمت سے ھم مايوس نہيں ھيں۔ اے اللہ تيرا شکر ھے۔

دو فرشتے


بابل میں وہ کنواں دیکھنے کی خواہش پر گائیڈ ہمیں کنویں تک لے گیا اور ہمیں کنویں کے متولی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں دونوں الٹے لٹکے ہوہے فرشتوں کا دیدار کرانا تھا۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ ہماری گناہگار آنکھیں فرشتوں کو دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ مذہبی کتب میں ان دو فرشتوں کا ذکر موجود ہے جو آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان دو فرشتوں کی کہانی یوں ہے کہ یہ لوگوں پر سحر ، کالا جادو اور عملیات وغیرہ کاعمل کیا کرتے تھے اور اس کام کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔پھر ان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ بعض روائت کے مطابق وہ ستارے کی شکل میں آسمان پر ہیں اور متولی کا اصرار تھا کہ وہ اسی کنویں میں الٹے لٹکے ہوے ہیں اور یہ قیامت تک اسی حالت میں رئہں گے۔ یہ روائت بنی اسرائیل کی ان روایات میں سے ہے جن کو اسلام نے بھی اپنا لیا ۔ ما فوق الفطرت چیزیں ، جن ، فرشتے ، سحر اور کہانت انسان کے لیے 
بڑی دلچسپی کے موضوع رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ان چیزوں کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوا ہے کہ ان عملیات 
سے انسانی فطری خواہشات حسد ، کینہ اور انتقام پوری کی جا سکتی ہیں۔ اس تصور کو پھیلانے میں 
الیکٹرانک میڈیا کا بڑا کردار ہے
  ۔ اعتقاد کو مستحکم کرنے میں قصے ، حکایات اور سنی سنائی کہانیاں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنات کی حکایات کا بالائی سرا حضرت سلیمان نبی اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر اس میں تقدس پیدا کیا جاتا ہے اور سحر وجادو کی اہمیت اس سوال کے ذریعے اجاگر کی جاتی ہے کہ " کیا رسول اللہ پر لبید نامی یہودی نے جادو نہ کیا تھا۔" قرآن پاک میں فرعون مصر اور حضرت موسی نبی اللہ کے قصے میں ہے کہ "جادو گروں کے جادو سے انہیں خیال ہوتا ہے۔کہ وہ دوڑ رہے ہیں "۔ (طہ ۔66 ) لفظ خیال غور طلب ہے۔ اعتقاد کے ساتھ جڑی دولت کا اندازہ لگانے کے لیے عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔ جاہلیت کا یہ کھیل طویل مدت سے جاری ہے۔ اور کھلاڑی بار بار المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ان حالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے ، اب تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔جب کوئی منفی عمل فلاش پوائنث بن جاتا ہےتو معاشرہ پر منفی انداز میں اثرانداز ہوتا ہے۔پاکستان چونکہ مخصوص طبقات کے لیے آزاد تر ملک ہے ، اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر مشورہ یہی ہے کہ اپنے خاندان اور خاص طور پر نوجوانوں کو ٹی وی کے ابسے پروگرامز سے دور رکھیں ورنہ منفی اثرات آپ کے گھر کا رخ اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ۔جن کی دسترس میں ہے انھیں عاملوں کے اشتہارات دیواروں پر لکھنے ، اخبار و رسائل میں چھاپنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور میڈیا میں ان حوصلہ شکنی کریں۔ کہ اصلاح کا عمل تمام خیر و بھلائی کی جڑ ہے۔

پیر، 1 دسمبر، 2014

حب اللہ


فرمان الہی ھے 'ھم نے ابن آدم کو مکرم بنایا ۔(بنی اسرائیل: 70) یہ خالق کی اپنی اشرف المخلوقات سے محبت کا اظہار ھے۔ اور جب آدم نے کہا ' اے ھمارے رب ھم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اور اگر تو نے ھمیں معافی نہ دی، اور ھم پر رحم نہ کیا تو ھم بڑے نقصان سے دوچار ھو جائیں گے' ۔ تو یہ مخلوق کی اپنے خالق سے امید تھی، اور امید محبت ھی کے درجے میں ھے۔ اور بنی آدم نے محبت کے عملی اظہار کے لیے اپنی پیشانی کو خاک زمین پر رکھ دیا، اور اقرار کیا کہ اللہ سبحان بھی ھے اور اعلی بھی۔ اور ابن آدم کی اپنے رب کے حضور خاک آلودگی کواللہ کے حبیب نے مومن کی معراج قرار دیا۔ یہ محبت ھی کے قول و افعال ہیں ، جو خالق و مخلوق ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔اور اللہ کے رسول اس پر گواہ بنتے ہیں۔ یہ محبت ھی ھے کہ خالق نے فرمایا ' میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا' اور یہ بھی محبت ھی ھے کہ ' ھم تیری ھی عبادت کرتے ھیں اور تجھ سے ھی مدد چاھتے ہیں۔ خالق کی محبت کی انتہا ہے کہ وہ بنی آدم کے شرک تک کو معاف فرما دیتا ھے۔ بنی آدم کی اپنے رب سے محبت کی انتہا یہ ھے کہ وہ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر کے بھی اعتراف کرتا ھے کہ تیری عبودیت کا حق ادا نہ ھوا۔ اور یہ اعتراف بے چارگی اور عاجزی در اصل حب اللہ ھی ھے۔ صیح بخاری میں ھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے خدمت نبوت میں حاضر ھو کر عرض کیا ' یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی' اللہ کے رسول نے دریافت فرمایا ' تم نے اس کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ھے' صحابی نے ندامت کا اظہار کرتے ھوے عرض کیا کہ ' یا رسول اللہ میرے پاس نہ تو نمازوں کا ذخیرہ ھے نہ روزوں کا اور نہ ھی خیرات و صدقات کا۔ جو کچھ بھی سرمایہ ھے وہ خوف خدا اور اس کی محبت ھے اور بس' اللہ کے رسول نے فرمایا ' انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رھے گا' صدق پر مبنی جذبہ محبت بالاخر محب سے محبوب کو ملا دیتا ھے۔ صدق کے اظہار کے طور پر دعویدار کواپنے دل سے دنیا کی محبت کونکالنا ھوتا ھے ، اور اپنی جہالت کو دور کرنا ھوتا ھے کہ جاھل کو اللہ تعالی اپنا ولی نہیں بناتا ۔ عالم جب اپنے علم کو سنت نبوی کے سراج منیر کے نور سے دھو لیتا ہھے تو اس کا کاسہ دل طاھر و معطر ھو جاتا ھے ۔ اللہ خود جمیل ھے اور جمال کو پسند فرماتا ھے اور اس کی محبت بھی صرف پاکیزہ قلوب میں قرار پکڑتی ھے۔ انسان آگاہ رھے کہ اللہ واحد و احد ھےاور وھاں دوئی کا گذر نہیں ھے لہذا حب اللہ بھی صرف اسی دل میں پنپ سکتی ھے جس دل میں اللہ کی محبت کے سوا کوئی دوسری محبت نہ ھو۔ جب انسان اس مقام تک پہنچ جاتا ھے تو اللہ اس سے اس کے قلب کی 'پاکیزگی کے باعث اس سے اپنی پسندیدگی کا اعلان فرماتا ھے '(التوبہ:108)

اتوار، 23 نومبر، 2014

مسکرانا صدقہ ہے



مسکرائٹ خوشی کا اظہار ہی نہیں ہے۔بلکہ خوشیاں بکھیرنے کا سبب بھی ہے۔یہ آپ کی شخصیت کو ہر دل عزیز بناتی ہے۔مسکراتے چہرے پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ مسکرائٹ صدقہ ہے۔ کسی صاحب اقتدار اور بزرگ کا مسکرا کر دیکھنا زیر دستوں اور کم سنوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔گھر میں مسکرائٹ خوشیاں بکھیرتی ہے،دوستوں کے مابین رشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔مسکرانا انسان کے خوش اور مطمن ہونے کا اظہار ہے۔اور مذہبی نقطہ نظر سے شکر میں داخل ہے۔ ایک عقلمند نے کہا ہے کہ دن کو مسکرایا کرو کہ مسکرائٹ لوگوں کو پسند ہے اور رات کو رویا کرو کہ رونا اللہ کو پسند ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت میں مسکرایا کرو کہ یہ شکر کا اظہار ہے اور تنہائی میں رویا کرو کہ اللہ سبحان تعالی کی نعمتوں کا شکر بجا لانا ممکن ہی نہیں ہے اور اپنی اس بے بسی پر آنسو بہانا اظہار خاکساری اور عبودیت ہے۔اور شکر میں داخل ہے۔ اللہ سبحان تعالی کے شکر کا بہترین اور چنیدہ وقت قبل سحر کا ہے۔کہ یہ فیصلوں پر عمل درآمد کا وقت ہے۔دشمن عام طور پر اسی وقت یلغار کرتا ہے۔مجرموں کو تختہ دار پر اسی وقت لٹکایا جاتا ہے اور انسان کی قسمت کے فیصلوں پر عمل درآمد کا وقت بھی یہی ہے۔ جو لوگ اس گھڑی خوف زدہ اور چوکنا رہتے اور عجز و انکسار چہروں پر سجا کر بے بسی اور محتاجی کے آنسو وں کے ساتھ مالک کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں ان کو معاف کیا جاتا ہے۔ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے اور اللہ سبحان تعالی کے مابین رشتے کی حقیقت کو پا جائے اور کامیابی کی معراج یہ ہے کہ انسان یہ ادراک حاصل کر لے کہ کریم کے کرم کا شکر بجا لانا اس کے بس میں ہی نہیں ہے۔ جب انسان اس ذہن کے ساتھ علیم کے دربار میں کھڑا ہوتا ہے تو دہ علم کی حقیقت سے روشناس کر دیا جاتا ہے۔

جمعہ، 21 نومبر، 2014

انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے

a=1 m=13 z=?

جن لوگوں کو سوال سمجھ آ گیا ہے، ان کے لے جواب مشکل نہیں ہے۔ لیکن جو سوال کو سمجھ ہی نہ سکے ان سے صیح جواب کی توقع عبث ہے۔
انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
 زندگی کے بارے میں سمجھنے والے سوال تین ہیں ۔ پہلا اور لازمی یہ کہ میں کون ہوں ، دوسرا یہ کہ میں کیوں ہوں اورتیسرا یہ کہ کامیابی کا رستہ کون سا ہے۔
 ان تینوں سوالوں کو سمجھانے کے لیے ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔صلحاء اور علماء نے اپنے اپنے طریقے سے سمجھایا ہے، انبیاء اور رسل نے بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔اور خود مالک کائنات نے ، جو انسان اور زندگی کا خالق ہے، نے بھی کھلے الفاظ میں اس کی تشریح کر دی ہے۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بادشاہ تو اللہ ہی ہے، مگر وزارت عظمی کی مسند انسان ہی کےلیے مخصوص ہے ۔اللہ نے یہ فرما کر کہ اپنی مخلوقات مںا انسان کو شرف والا بنا کر اپنا نائب کاا ہے۔اس کی مسند اعلی کو آئیے اور قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا۔اور نبو ں اور رسولوں کو اس پر گواہ بھی کر دیا۔ مگر انسان ہے کہ اس اعلی عہدے سے جڑی عظمت ، بزرگی ، اعلی اختانرات اور اللہ تعالی کی وسع مخلوقات پر حکمرانی کا حق پانے کے باوجود اس اعلی اختا رات کی حامل کرسی کی رفعت دیکھ اور محسوس کر کے خود کو حراان و پریشان پاتا ہے تو اللہ تعالی ینپا دلاتا ہے ' کات تو غور نہں کرتا زمنا مں جو کچھ ہے ، ان کو تمھارے لےم مسخر کر دیا ہے'۔ (الحج :65) انسان جب اپنے ان اختا رات پر ششدر ہوا تو بادشاہ دائم نے حوصلہ افزائی مں مزید اضافہ کر دیا ' اس نے تمہارے لےھ رات و دن۔شمس و قمر اور ستارے بھی مسخر کر دیے۔ اور یہ اس کے حکم سے ہے'۔(النحل:12) لکنے انسان کو ینن ہی نہں آ رہا کہ 'جو کچھ زمنا مںو ہے ۔ اس کے لے پددا کاز گا ہے'۔(البقرہ:29)۔یہ ہے وہ سوال جو انسان کی سمجھ مںی آ جائے تو جواب مشکل نہں ہے۔ انسان اپنی مجبوری اور بے بسی کا شکار نہںک ہے بلکہ وہ اپنے ہی اختا(رات اور مقام سے خوف زدہ ہے۔نو آموز مقرر سامعن کی تعداد کثرش سے خوف زدہ ہوتا ہے لکنب ایک مقام پر خطبس کو ینائ ہو جاتا ہے کہ اس کے سامعنض پھول ہںر۔ انسان کا اپنی ذات کا ادراک، نوآموز مقرر اور خطبو کے سفر کے درماکن معلق ہے۔ کورں کا جواب سادہ ہے کہ اشرفتا کی مسند کی اہلتن کے تواتر کا معاعر قادر مطلق سے ہر حال منو وابستگی ۔اور اس کا ینقر وہ خود دلا رہا ہے۔'مں نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لےہ تخلقک کاا ہے' اور عبادت کا پہلا مقام ہی وفاداری ہے۔انسان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد دیکھے کہ ہر ہر شے وفاداری کے دریائے عمقخ مںا غوطہ زن ہے۔' کاپ تو نے نہںف دیکھا کہ اللہ کے آگے سر جھکاتا ہے ، جو کچھ آسمان مںر ہے اور جو کچھ زمنے مںی ہے۔اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔ اور بہت سے انسان ہںم، جن پر عذاب ٹھہر چکا'۔(الصبح:18) یہاں ان بد بختوں کا بھی ذکر کر دیا جو وفاداری کے دائرے سے خود کو باہر کر بٹھےا۔خدا کے ہاں سب سے بڑی مراٹ اس کی قدرت، طاقت، استعداد اور بڑائی کا اعتراف ہے۔اور سب سے بڑی وفاداری اس کی ذات کے اعلی اور مقتدر ہونے کےاعتراف کے عقد ے سے چمٹ جانا ہے۔ حکائت: اس واقعہ نے بھارت کے ایک گاوںمیں جنم لیا اور ایک سنجیدہ شخصیت نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہےکہ ایک ہندو مزدور کا بیٹا عرصہ سے بضد تھا کہ با پو سائیکل لے کردو، غربت میں لتھڑا باپ بیٹے کی خواہش کو پورا نہ کر سکا البتہ شفقت پدری میں بیٹے کو وعدہ فردا پر ٹرخا دیتا۔وقت کے ساتھ ساتھ بیٹے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ایک دن جب رات گئے والد گھر آیا تو بیٹے نے باپ کا پلو پکڑ لیا اورپوچھا۔' تم میرے باپو ہو۔بتاو میں سائیکل کس سے مانگوں'۔باپ کی غیرت پدری جھاگ اٹھی ۔ اس وقت وہ گھر سے باہر چلا گیا لیکن واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نئی سائیکل تھی۔ حضرت محمد رسول اللہ کہ ان کے صادق ہونے کی گواہی ان کے دشمنوں نے بھی دی ہے (اور ان پر صلوات و سلام خاکی، آتشی اور نوری مخلوق اور خود خالق ارض و سماوات بھی بھجتال ہے)۔نے اپنی جان کی قسم کھا کر فرمایا کہ جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ بندہ سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی آواز سن کر منہ پھرل لتاھ ہے۔اور جب تسرگی بار بندہ پکارتا ہے تو اللہ ملائک کو ندا کرتا ہے کہ فرشتو دیکھو اڑا رہا مررا بندہ اس پر کہ جو کچھ ہو اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکاریں گے، اس لے مں نے قبول کاہ اس کی دعا کو۔ اللہ اپنے بندوں پر اپنے باپوں سے بڑھ کر کریم ہے۔اور ماوں سے بڑھ کر ہمدرد و غمگسار ہے۔لکن غر ت انسانی کا بھی تقاضا ہے کہ اگر فرمان بردار نہ بھی بنں تو کم ازکم دشمنوں کی حمائت سے تو باز رہںس۔ اگر کلمہ شکر ادا نہںی کرتے تو شکوہ مںو زبان درازی سے تو بچںل۔ نبی اکرم کے احترام و محبت کے دعووں کے باوجود اگر محمد کی سنت پر نہںز چلتے تو کم ازکم ابلس کی پرکوی ہی کو ترک کر دیں۔یاد رہے غریت مند معاشروں مںر غرمت کے نام پر خون بہہ جاتا ہے۔ اور غرتت مںہ خدا کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ کامایبی کا رستہ: کامامبی خدا کا اعتماد اور رعائت حاصل کر لنےا ہی مںک ہے۔ اور رعائت مانگنے پر رعائت بھی ملے اور ساتھ محبت بھی عطا ہو جائے تو کاا کہنا نعمت کی زیادتی کا۔کبھی غور تو کرو اللہ بندے سے محبت کے لے کس قدر بے تاب ہے۔ ایک دن حضرت جبرائلن بارگاہ نبوت مںم حاضر تھے، اور واقعہ باکن کار کہ ایک بت کا پجاری اپنے بت کے رو بہ رو یا رب یا رب پکار رہا تھا کہ مقام ربوبتج سے ندا آئی ' لبیک یا عبدی'۔ مں نے عرض کات اے مالک یہ آپ نے کسا جواب دیا۔ اللہ نے کہا کہ مراا بندہ بھول گات کہ رب مں ہی ہوں تو بطور رب مںع تو اس حققت سے آگاہ ہوں اللہ اپنے بندے کے ایک ایک عمل کو گن کر بتا رہا ہے کا اے مربے بندے اگر تو نے احسان (المائدہ: 13) کاا تو مر ی محبت تر ے لےل ہے۔ اور اگر تو توبہ(البقرہ:222) کا امدےوار ہوا تو بھی مںم تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگر تو نے مجھ پر توکل(آلعمران: 159) کال تو بھی تو مجھے محبت کرنے والا ہی پائے گا۔اور اگر تو نے زیردستوں کے ساتھ انصاف (المائدہ:42) کام تو بھی مرنا تجھ سے محبت کا اعلان ہے۔اگر تو نے تقوی(توبہ:4) اختا۔ر کاو تو بھی مں تم سے محبت کروں گا۔اور اگر تو مرگی راہ مںک مجائد بن کر جہاد(آلعمران:146) کرے گا تو بی: مرتی طرف سے بدلہ مںت محبت ہی پائے گا۔اگر تو نے پاکزرگی ( توبہ:108) اختایر کی تو بھی مںا تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگرتو نے اپنے روزمرہ کے معاملات کے دوران مرکا ذکر جاری رکھا تو بھی مرہی محبتوں کے خزائن تجھ پر نچھاور ہںھ۔احسان ہوتا ہے جب بن مانگے دیا جائے۔ اس حققتن سے کس کو انکار کی جسارت ہےکہ محسن اعظم اللہ ہی ہے۔عطا بدون استحقاق عطا کرنے کو کہتے ہںن تو اللہ جسا عطا کرنے والا اللہ کے سوا کون ہے۔ایسے رحمم و کریم، رحمان و رحمہ کا دل کی گہرائوسں سے شکر ادا کرنا، اس کی طاقت و استعداد کا ادراک کرنا ، اس کے عائد کردہ واجبات کو ادا کر کے اس کی مخلوق کی خدمت مںی جت جانا ہی کاماکبی کا راستہ ہے۔

جمعہ، 7 نومبر، 2014

عافیت سے جینا سکون سے مرنا



زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور
Option
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ
Hints
 عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔
 ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

خوشی کے راستے

پاکستان میں موٹر وے نئی نئی معرض وجود میں آئی تھی ۔ اسلام آباد سے لاھور کے درمیان سفر کے لیے حد رفتار ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ طے تھی ، جو اس ملک میں نیا تجربہ تھا ۔ یہ رفتار ڈرائیور کی توجہ concentration کی متقاضی ھوتی ھے ۔ موٹر وے سے چھوٹی سڑکیں یا ذیلی راستے نکلتے ھیں، ان ذیلی راستوں پر رفتار کم ھوتی ھے ۔ اگر موٹر وے سے نکل کر ڈرائیور ذیلی راستے پر آ جائے تو رفتارکے کم ھونے پر اس کی concentration بھی کم ھو جاتی ھے اور خود کو ھلکا پھلکا محسوس کرتا ھے ، مزید ارد گرد کی حرکات و الوان اور نظاروں سے بھی زیادہ لطف اندوز ھو سکتا ھے ۔ زنرگی کی موٹروے پر ، ھم اپنا سفر منزل کی جانب جاری رکھتے ھوے ، کبھی کبھار ذیلی راستوں پراتر کر زندگی کی لذت ، مٹھاس اور خوشی سے لطف اندوز ھو سکتے ھیں ۔ خوشی کشید کرنے والے لمحات زندگی کی ان پگڈنڈیوں میں ھی پنہاں ھوتے ھیں ۔ خوشیاں ھمارے ارد گرد موجود ھوتی ھیں اور ھم خوشی کے مواقع حاصل کر سکتے ھیں، حقیقت تو یہ ھے کہ خوشی ھمارے وجود کے اندر موجود ھوتی ھے لیکن ھمیں اس کو کشید discover کرنا ھوتا ھے ۔ خوشی کا تعلق ذھنی حالت سے وابستہ ھے ، اگر ھم فیصلہ کر لیں تو یہ ممکن ھے کہ ھم ھر وقت خوش رھیں ۔ ھر چیز کی ایک قیمت ھوتی ھے اور خوشی کی قیمت یہ ھے کہ ھم زندگی میں سے کشید کرکے خوشی کے مواقع حاصل کريں اور ان سے لطف اندوز ھوں ۔ خوش ھونا اور خوشی سے لطف اندوز ھونا دو مختلف چیزیں ھیں ۔ سمجھنے والی بات یہ ھے کہ جب ھمیں خوشی میسر ھو توھم اس سے لطف اندوز بھی ھوں ۔ ماھرین بتاتے ھیں کہ انسانی ذھن ایک وقت میں ایک ھی سوچ کو قبول کر سکتا ھے ۔ اگر ھم ذھن کو ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل کے نادیدہ خدشات میں مصروف رکھیں گے تو ھمارا ذھن سامنے آنے والی خوشیوں کا موقع گنوا دے گا کیونکہ ذھن تو ایک ھی سوچ 'لمحہ موجود' ھی کو قبول کر سکتا ھے ۔ مایوس اور ذھنی انتشارکے گرداب میں پھنسا ھوا شخص کبھی بھی لمحہ موجود کی خوشی سے لطف اندوز نہیں ھو سکتا کیونکہ وہ موٹر وے پر پوری توجہ مبذول کر کے ایک سو بیس کی رفتار کے باعث ذیلی راستوں اور پگڈنڈیوں کو دیکھ ھی نہیں رھا ۔

حزن اور خوف



اللہ سبحان تعالی کا قرآن پاک ميں ارشاد ھے ' بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی 
خوف ھو گا نہ حزن' [يونس:62] ماضی کی تلخيوں،تقصيروں،غلطيوں اور محروميوں کو 'حزن' اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات اور خسارے کے ڈر کا نام 'خوف' ھے ۔ اللہ کے دوست وہ ھيں جو حزن کو پچھتاوہ بنا کر حال کو بھولتے نہيں ھيں بلکہ وہ اس کو اپنے حال کی تعمير کے ليے بنياد بناتے ھيں ۔ ماضی ھماری گرفت سے نکل چکا ھوتا ھے،اس پر پچھتاوا وقت کے ضياع کے علاوہ کچھ نہيں ھے اور خوف کا سبب بھی حال کی بے عملی ھی کی وجہ سے ھی ھوتا ھے ۔ اللہ کے دوست حزن و خوف سے بالاتر ھو کر حال کے بہتر استعمال کا فيصلہ کرتے ھيں ۔ انسان کا خالق انسان کو عمل کے ليے متحرک کرنا چاھتا ھے اور اسے اپنے حال یعنی آج کی بہتری کے ليے ترغيب دے رھا ھے ۔ آج کے فيصلے ھی انسان کے بس ميں ھيں ۔ آج کا عمل ھی خوف سے بچا سکتا ھے اور حزن کا مداوا بن سکتا ھے ۔ دينی تعليمات کا توبہ کے عمل پر بہت زور ھے اور يہ عمل آج ھی ممکن ھے ۔ جس کا آج بے عمل ھے بے شک اس کے ليے خوف ھے ۔ فیصلہ، ارادہ اور سوچ ھی عمل کو جنم ديتے ھيں ۔ کہا گيا ھے کہ اعمال کا دار و مدار نيتوں پر ھے ۔ اچھے عمل کی نيت کرنا قابل ستائش ھے اور یہ آج ھی کرنے کا عمل ھے ۔ کہاوت ھے کہ کل کس نے ديکھا ۔ ھر وہ عمل جو ماضی کے تجربے سے کشيد کيا جائے بہتر مستفبل کی نويد لاتا ھے ۔ مشہور ماھر نفسيات ڈاکٹر صوائن ڈائر نے کہا تھا کہ ''جب آدمی موجودہ وقت [آج] ميں اپنے دل و دماغ [سچائی] کے ساتھ کوئی کار انجام ديتا ھے تو اسکی کاميابی کے سامنے کوئی ديوار کھڑی نہيں رہ سکتی'' ۔ تسليم شدہ حقيقت ھے کہ ذاتی زندگی ميں شفافيت اور سچائی اختيار کرنا ، اپنی نيت اور ارادے کو اپنی ذات کے فائدے کے ليے مثبت رکھنا، اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا اور دوسروں کے بارے سوچ کو مثبت رکھنا کاميابی کا راستہ ھے ۔ اور اسی کا نام 'توبہ' ھے ۔ یہ آج کرنے والا عمل ھے جو حزن کا مداوا کرتا اور خوف سے بھی محفوظ رکھتا ھے اور اللہ خود توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ھے [البقرہ:222]

بندہ نواز

اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لے اشرفتو کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمنت اور آسمان تمہارے تصرف مںے ہںے: جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہںو بلکہ زمنہ و آسمان مںھ جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعت مںف دے دیا : وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علمل نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کا ۔ اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حققتا کو نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کاب بلکہ اس کو ذللک و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لےو خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمنی پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمنا پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کو سرکاب کائ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پنےن کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔

تیس سیکنڈ



''زندگی ایک ایسا سرکس ھے جس میں آپ نے دو ھاتھوں سے پانچ گیندوں کو ھوا میں بلند رکھنا ھے ۔ یہ پانچ گیندیں
 ۔ کام
۔ خاندان
۔ صحت
 ۔ دوست
۔ مذھب

 ھیں ۔ آپ کو احساس ھو چکا ھو گا کہ ان پانچ گیندوں میں صرف کام ھی ایسی گیند ھے جو ربر کی بنی ھوئی ھے اور اچھل کر دوبارہ آپ کے ھاتھ میں آ جاتی ھے ۔ جبکہ باقی چاروں گیندیں شیشے کی بنی ھوئی ھیں ، ان میں سے کوئی بھی گر جائے تو ان پر خراش آ سکتی ھے ، دراڑ پڑ سکتی ھے حتی کہ ٹوٹ بھی سکتی ھے اور ٹوٹی ھوئی گیند کبھی اچھل کر ھاتھ میں واپس نہیں آتی ۔ کام کے اوقات میں دلجمعی سے کام کریں ۔ وقت پر گھر جائیں، خاندان ، دوستوں اور مذھب کو مطلوبہ وقت دیں اور پر سکون ھو کر سوئیں ''۔ 

یہ کوکا کولا کمپنی کے سابقہ چیف ایگزیکٹو آفیسر مسٹر بارائن ڈائسون کی 30 سیکنڈ کی تفربر کا اردو ترجمہ ھے ۔

جمعرات، 6 نومبر، 2014

قرض اور فرض

قرض اور فرض اپنے ظاھر کے موافق مطلب اور معنی ميں بھی بہت قريب ھيں ۔ قرض ايک ايسی ذمہ داری ھے جو دنياوی معاملات ميں مستعمل ھے اور فرض ان ھی معنی ميں دينداری ميں ذمہ داری ھے ۔ قرض سے چھٹکارا ممکن نہيں ھے الا يہ کہ قارض کو ادا کر ديا جائے يا معاف کرا ليا جائے ۔ یہ ايسی ذمہ داری ھے جس کی ادائيگی کی تاکيد ميں اصرار ، مبالغہ کی حد تک کيا گيا ھے ۔ شہيد، جو خدا کی توجہ اور مہربانی کا زيادہ مستحق ھوتا ھے ، کو بھی قرض کی ادائيگی معاف نہيں ھے ، بلکہ اصحاب رسول صل اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں سے بعض اپنے بلند وعالی مقام کے باوجود ، جہاد کے دوران مقام شہادت پر فائز ھونے سے قبل اپنے قرض کی ادائيگی کی ذمہ داری کسی ذمہ دار شخص کو سونپا کرتے تھے ۔ جس سے قرض کی ادائيگی کی اہميت اور ضرورت واضح ھوتی ھے ۔ اگر مقروض دنيا ميں اپنا قرض ادا نہ کر پائے تو روز جزاء قارض کو حق ديا جائے گا کہ وہ سکہ رائج اليوم جزاء يعنی حسنات کی صورت اپنا قرض وصول کر لے ۔ يہ ايسا دن ھو گا جو بڑے بڑے پارسا اور عابدوں پر بھاری ثابت ھو گا ۔ اس خطرہ کو پيش لظر رکھتے ھوئے علماء اور اولياء نے بھوک و ننگ کی زحمت برداشت کر لی مگر قرض سے دور رھے ۔ موجودہ دور ميں مقروض دو اقسام ميں سے ايک قسم پر ھيں ۔ پہلی قسم ان بے بس مقروضوں کی ھے جو اپنے فرئض ادا کرتے ھوئے قرض کی دلدل يں پھنس گئے ايسے مقروضوں کے ليے اللہ ان کی ز‍ندگی ميں ھی مدد دے گا، نيت کی درستگی کے ساتھ قبل سحر کا وقت ايسے ھی مجبوروں کی دعاوں کے لیے مختص ھے'' تاکہ اللہ تیری اگلی پچھلی کوتائیاں معاف کرے''[الفتح:2] اس وقت مالک کائنات اپنے لا محدود خزانوں کے ساتھ اپنے بندوں کی حاجات پوری کرنے کے ليے بے تاب ھوتا ھے ۔ اللہ کے خزانے بہت وسيع ھيں اور انسان کی سوچ محدود ھے
 دوسری قسم کے مقروض وہ ھيں جنھوں نے اپنی زبان کے چسکے اور لقمہ شيريں اوراپنے لباس فاخرہ کے ليے کريڈٹ کارڈ استعمال کیا يا اپنی قوت خريد سے زيادہ قيمتی سواری اقساط پر خريد لی ۔ اس قسم کے مقروض اپنے اعمال سے نصيحت حاصل کريں اور اپنی خواھشات اور ضرورت کے فرق کر سمجھيں ۔ بچی کی سکول کی فيس وقت پر جمع کرانا ضرورت ھے اور اچھے ريستوران میں خود کو 
Treat 
 دينا خواھش ھے ۔ ماں کے ليے نئے نمبر کے چشمے خريدنا ضرورت ھے ليکن انٹرنيٹ پر بے مقصد 
surfing 
خواھش ھے ۔ خواھشات کوقناعت کے ذريعے قابو ميں لانا ھی عقلمندی کا راستہ ھے ۔ دوسروں کے تجربے سے سيکھنے والا عقلمند ھے تو اپنے ھی تجربہ سے سبق نہ حاصل کرنے والا عقلمندی کا دعويدار ھی ھو سکتا ھے ۔ قرض ادا کيے بغير چارہ نہيں ھے ، انسان کو قرض اتارنے کی بہت سعی و کوشش کرنی چاھيے کہ مقروض کا جنازہ تک پڑھانے سے اجتناب کيا گيا ھے ۔ قرض کی طرح فرض بھی بڑی ذمہ داری ھے اور فرائض ميں نماز کی ادائيگی سر فہرست ھے ، يہ ايسا فرض ھے جس کی ادائیگی کے وقت طواف کعبہ بھی رک جاتا ھے ۔ نصیحت زبان سے کی جاتی ھے ۔ اللہ رب العزت نے نصیحت  مگرکتاب کی صورت میں اتاری ۔

کامیابی اور ناکامی

کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ھوتی ھے لیکن وہ دن یادگار ھوتا ھے جس دن انسان ادراک کر لیتا ھے کہ اس کی مشکلات اور ناکامیوں کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ وہ خود ھے ۔ جس لمحہ انسان پر یہ حقیقت آشکار ھو جاتی ھے گویا اس کی زندگی میں ایک مثبت انقلاب برپا ھو جاتا ھے ۔ اس حقیقت کا ادراک کسی بھی وقت ھو سکتا ھے ، اس کے لیے کسی خاص عمر یا واقعہ کا رونما ھونا شرط نہیں ھے بلکہ یہ ایک لمحہ ھوتا ھے جب انسان کا ذھن روشن ھو جاتا ھے اور زندگی کارخ بدل جاتا ھے ۔ انسانی سوچ دو قسم کی ھوتی ھے ،مثبت اور منفی ، جب تک انسان منفی سوچوں کے ساتھ زندگی گذارتا رھتا ھے وہ اپنی مشکلات کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھتا رھتا ھے، اور منطقی نتیجے کے طور پر وہ منتظر رھتا ھے کہ ان مشکلات کا ازالہ بھی وہ دوسرے ھی کریں، جو کبھی نہیں ھوتا ۔ لیکن جس لمحہ انسان پر یہ حقیقت آشکار ھوتی ھے کہ اس کی ناکامیوں اور محرومیوں کا سبب اس کی آپنی ذات ھے تو یہ لمحہ اور ادراک اس کی منفی سوچ کو مثبت کرنے میں مددگار ھوتا ھے ۔ جو شخص ذاتی محرومیوں کا ذمہ دار معاشرےاور عزیزوں کو جانے وہ اس طالب علم کی طرح ھے جواپنی ناکامی کا ذمہ دار اساتذہ اور ادارے کو گردانے ، لیکن جس لمحہ طالب علم پر یہ حقیمت عیاں ھوتی ھے کہ اگر اس نے آگے بڑھنا ھے تو اساتذہ کی عدم توجہی اور ادارے کا کرداربہت پیچے رہ جاتے ھیں ۔ اس کا اپنی ذات پر انحصار اسے محنت کرنا سکھاتا ھے ۔ ایک ایسے شخص نے جو ناکام زندگی کے 35 قیمتی اور اساسی سال ضائع کر چکا تھا اور اپنی مشکلات کا ذمہ دار عزیزوں اور سسرال کو اور کبھی اپنی بیوی کے رویے کو بتایا کرتا تھا ۔ اپنی تعلیمی ناکامیوں کا ذمہ دار والدین کو، گھر کے تلخ ماحول کا ذمہ داراپنی بیوی کو اور الجھنوں کا ذمہ دار اپنی معصوم اور ناسمجھ بیٹی کو ٹھہراتا تھا، حتی کہ اپنی روایات کو قائم نہ رکھ سکنے کا ذمہ دار اپنی ساس کو بتایا کرتا تھا ۔ ایک دن کسی کی کوئی بات اس کے ذھن کے بند دریچے کھول گئی اور حقیقت اس پر واضح ھو گئی ، اس نے اپنی ذات کو پا لیا اور اس کی سوچ منفی سے مثبت ھوگئی ۔ بس ادراک کے ایک لمحہ نے انقلاب برپا کر دیا ۔ اب اس کی بچی خوشیوں کا محورھے ، تو بیوی کو ھمدرد اور محبت کرنے والی پاتا ھے ۔ ساس کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں غور سے سنتا ھے ۔ اور محنت اور لگن کو اپنی زندگی کا شعار ایسے سلیقہ سے بنایا کہ اسے منزل صاف دکھائی دے رھی ھے ۔ وہ اپنے گھر کی بنیاد اعتماد، محبت اور محنت پر استوار کر چکا ھے ۔ اس کا کہنا ھے کہ اس نے اپنے دشمن نا امیدی ، بد گمانی ، بد زبانی کو پہچان لیا ھے اور دھکے دے کر اسے اپنی ذات سے باھر نکال دیا ھے ۔ اور خود اعتمادی ، محبت ،اچھا بول اور اچھی سوچ کو دوست بنا کر کامیابی کا راز پا لیا ھے ۔ کامیابی انسان کے اندر سےپیدا ھوتی ھے ، جن لوگوں کواس حقیقت کا ادراک ھو جاتا ھے وہ قدرت ، حالات اور عزیزواقارب کو معاون اور مددگار پاتے ھیں ۔

حسین اور قرآن



امام حسین نے مسلمانوں کے سیاسی ،مذہبی حالات اور اعتقادات بدلنےکی سعی کے خلاف اور امت محمدی میں حقیقی اسلامی روح کو فعال کرنے کے لیے خدا کے حکم "اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی" (13:11) کی تعبیر کے لیے خروج کیا ۔ اور اس عمل کو حج پر ترجیح دی۔ ہر معاشرے کے مقدر کی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے  ۔ اور حکومت رعایا کی سوچ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس قربانی نے نبی پاک کے قول کو سچ کرنے کے لیے کہ " جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے" رعایا اور حکمرانوں کے مابین خون کی لکیر کھینچی۔ امام حسین نے حکم خدا کی تعمیل میں گردنیں کٹائیں ۔اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ (2:208) اور وقت کے منصف نے ان کو سر خرو ثابت کیا۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ (2:267) پر عمل کرتے ہوے نہ صرف اپنا مال و متاع بلکہ اولاد تک کوراہ خدا میں قربان کر دیا۔ جب معاشرے سے امانت کی قدرو قیمت اٹھ جائے اور عدل کی فراہمی معطل ہو پھر خدا کا حکم اترتا ہے ۔ "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ ( 4:58) اور غصب شدہ امانتوں اور مفقود عدل کی بحالی متبرک خونی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ حسین نے نانا کی امت کے لیے نانا کی پیشگوئی کو سچ کر دکھایا۔ دراصل امام حسین رشتہ داروں اور خود اپنی ذات کی قربانی پیش کر کے حکم خدا "اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو (4:135) پورا کر رہے تھے۔ امام حسین نے صلح کی ہر ممکن کوشش کر کے حکم خدا "اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائیل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاﺅ (8:61) پر عمل پیرا ہونے کا فرض بھی نبھایا۔ واقعہ کربلا میں حکم خدا "اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو (49:6) کی اہمیت کی وسعت اور گہرائی کھل کر حقیقت آشنا ہوتی ہے۔ واقعہ کربلا رہتی دنیا تک باآواز بلند پکارتا رہے گا۔ "اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کراﺅ ۔ (49:9) واقعہ کربلا کے اسباق 
۔ اعلی انسانی حقوق کو نہ کہ طاقت کو سماجی زندگی کی بنیاد تسلیم کرتا ہے 2۔ تکمیل ذات اور تکمیل معاشرہ کے لئے قلب وروح اور جسم و اولاد کی قربانی سےہی دونوں جہانوں میں کامیابی وکامرانی ممکن ہوسکتی ہے ۔ 3۔ حق کی راہ پر چلنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے ۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ' حسین' جیسی قربانی شرط اولین ہے۔ 4۔ مطمع نظر محض اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین نہیں بلکہ عدل کو زندگی دینا۔دین کی حرمت کو بچانا اور ظالم کو آشکار کرنا ہو تو شہادت حسین کہلاتی ہے۔ 5۔ مذہب کے بنیادی اصول اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے ذات و خانوادہ قربان کر دیا جائے لیکن تاریخ انسانیت میں یہ فریضہ صرف امام حسین ہی نے ادا کیا۔ 6۔ ایمان ،حیات و موت اور تقدیر اٹل حقیقتیں ہیں۔ 7۔ عبادت ، اخلاق،مقصد اورتقوی کا معیار جتنا ارفع ہو گا۔ قربانی اتنی ہی گہری ہو گی۔ 8۔ طرز حکومت کیسا بھی ہو، فرد کی بر تری کو اہمیت حاصل رہتی ہے 9۔ جن کے پاس زیادہ وسائل ہوں یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وارثتی حق نہیں رکھتے۔ 10۔ سچائی ایک طاقت ہے جس سے یہ اصول رد ہوتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے۔ 11۔انصاف و عدل کے بغیر حکمرانی کا قائم رہنا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ 12۔عقیدے اور اصول زندگی پر سمجھوتا ان کی موت ثابت ہوتا ہے۔  13۔ حسین کی راہ پر چلنے والوں سے ذہنی  آزادی کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا 14۔کسی بھی انسان کو ثبوت کے بغیر مجرم نہیں گردانا جاسکتا اور یہ عمل ظلم ہی ثابت ہوا ہے۔ 15۔ مشاورت پر مبنی انتظامی نظامہی قائم رہ سکتا ہے۔ 16۔ معاشرے کےنام پر فرد کے حقوق کو قربان نہیں کیا جاسکتا ۔

وقت کی قسم

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن چکی ہوتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

توحید اور توبہ

توحید کے پانچ مختلف درجے ہیں۔پہلے درجہ میں وہ گروہ ہے جو زبان سے اللہ سبحان و تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے مگر دل سے اس کا انکار کرتا ہے۔ایسے لوگوں کو منافق کہا جاتا ہے۔یہ گروہ نبی اکرم کے زمانے میں ہی معرض وجود میں آ چکا تھا ۔منافقت ایک مذموم عمل ہے۔دوسرے درجہ میں وہ لوگ آتے ہیں۔ جو زبان سے اللہ سبحان و تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔دل سے بھی اسے سچا جانتے ہیں۔مگر عمل نہیں کرتے۔ ایسے لوگ عام مسلمان کہلائیں گے۔ان کا معاملہ بندے اور اللہ سبحان و تعالی کے درمیان ہے۔تیسرا درجہ میں وہ لوگ آتے ہیں جو زبان سے اللہ سبحان و تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں، دل میں اعتقاد بھی صیح ہے اور اپنے اس عقیدہ پر دلیلیں بھی رکھتے ہیں۔یہ گروہ علماء کا ہے۔چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے، جو دل سے توحید کے قائل ہیں، زبانی اعتقاد بھی رکھنے ہیں اور عمل صالح کے ذریعے اللہ سبحان و تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی و کوشش میں لگے رہتے ہیں۔یہ لوگ اولیاء اللہ ہیں۔ اور اس سے ارفع مقام پانچواں درجہ ہے۔ انسان کی ذاتی ترقی اور عروج کے تمام زینے یہیں سے شروع ہو کر رفعتوں کی طرف جاتے ہیں۔انسانی زندگی میں سب سے اہم اور بنیادی علمی ادراک یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کا جائزہ لے کہ اس کی سوچ،اعتقاد اور اعمال کا مقام کیا ہے۔قرآن نے اس عمل کو غور و فکر کہا ہے۔اور یہ غور و فکرانسان کے مقام کا تعین کرتا ہے ۔ اپنے مقام کے ادراک اور اس سے اعلی و ارفع مقام کی آرزو و سعی کا کرنے کا ارادہ قابل شتائش ہے اور اس ارادے کا نام توبہ ہے۔توبہ پسندیدہ عمل ہے اور توبہ کرنے پر اصرار کیا گیا ہے۔ترقی اور ذاتی بہتری کے تمام راستے توبہ کے عمل کو اختیار کرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔مذہب امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ انسان  انفرادی زندگی میں امن و سلامتی لا کر زندگی میں محنت کرنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔امن و سلامتی اپنے کردار اور رویوں کا محاسبہ کر کے توبہ ہی کے عمل سے زندگی میں آ سکتی ہے،۔انسان اچھے عمل کا ارادہ کرتا ہے مگر بوجہ اس پر عمل درآمد کا موقع نہیں ملتا۔ کوئی حرج نہیں اگر ایک بار موقع کھو گیا تو یہ عمل دوارہ کیا جا سکتا ہے۔اگر ایک بار اچھے ارادے پر عمل درآمد کا موقع نہیں ملا تو دوبارہ کیا جا سکتا ہے اور اور بار بار توبہ کرنا ہی انسانیت ہے۔اچھا ارادہ قابل ستائش عمل ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی گہی ہے۔ہمارسے معلم اور رہنما نبی اکرم دن میں ستر باریا سو بار توبہ کر لیا کرتے تھے۔انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنی تخلیق کا مقصد سمجھے ۔ اللہ سبحان و تعالی کی کتاب اور اس کا ترجمہ پزہے۔تفسیر کو پڑہنا بھی زیادہ فائدہ مند ہے۔نبی اکرم کی سیرت کا مطالعہ انسانی میں مثبت تبدیلی کا راستہ کھولتا ہے۔ذاتی زندگی میں انقلاب سوچ میں مثبت تبدیلی ہی سے ممکن ہے۔اور مثبت تبدیلی خلوص اور سچائی کے ساتھ اپنے خیالات،معاملات ،رویے اور اخلاق کا جائزہ لینے سے ہی آتی ہے۔اور اسی جائزہ کا نام توبہ ہے۔علماء اور صلحاء نے بار بار اس عمل کو دہرایا اور رفعتوں کے زینے چڑہتے گئے۔توحید کی اصلیت عمل ہے اور عمل کے لیے توبہ اہم زینہ ہے۔اور عمل کا ماخذ و اصل کلام اللہ سبحان و تعالی ہی ہے۔ معلومات کو خبر کہا جاتا ہے اور علم اور خبر دو مختلف چیزیں ہیں۔جب انسان خلوص نیت یعنی توبہ کے ساتھ سیرت نبی اکرم اور قرآن سے علم پائے گا تو توحید کی راہ کی اصلیت اس پر واضح ہوتی چلی جائے گی۔یہ ہمارے ہی کرنے کا کام ہے اور اس سے ہماری ہی ذات کو فائدہ ہوگا۔اور یہ انفرادی فائدہ ذات میں مثبت تبدیلی لائے گا۔آخری حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ افراد سے ہی بنتا ہے
ماخوذ از مکتوبات صدی