urdublogs لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
urdublogs لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 12 جولائی، 2020

چار عناصر





اقبال نے مسلمان کے بارے میں کہا تھا
قہاری و غفاری وقدوسی وجبروت
یہ چارعناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
 ہمارے ایک دوست نے  اپنے کالم میں قوم بننے کے لیے بھی چار عناصر ہی گنوائے ہیں
سرمایہ و اختیار و علم و محبت
بے شک سرمایہ اور اختیار پر حکومتوں کا حق ہوا کرتا ہے مگر علم و محبت عوام کی میراث ہوتی ہے ۔ مسائل ان ہی معاشروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں اپنی اجارہ داریوں کے حصول کے بعد عوام کی میراث پر بھی قبضہ کر لیا جائے ۔  
گلے میں گلہ بان کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے مگر اس ڈنڈے  کا اولین مقصد بکریوں کی حفاظت ہوتا ہے ۔ بکریاں نہیتی ہی ہوا کرتی ہیں مگر جب بھیڑیا آ جائے تو بزدار کے ڈنڈے کی طرف دیکھتی ہیں ۔ ہماری حکایات میں ایک ایسے بزدار کا تذکرہ ملتا ہے جو اس قدر صاحب علم تھا کہ زمین پر لکڑی سے لکیریں کھینچ کر مخاطب کا محل وقوع بتا دیا کرتا تھا۔ مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ علم عوام کا فخر اور انسان سے محبت اس کا مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔ موجودہ دور میں سرمایہ اور اختیار پر سرکار کا اجارہ ہی نہیں بلکہ مزید اختیار کی ہوس بھی پوشیدہ نہین ہے۔ گذرے زمانے میں علم برائے خود شناسی حاصل کیا جاتا تھا تو اج علم کا مقصد کم از کم ہمارے ہاں کچھ اور ہی ہے ۔
گیے وقتوں میں علم و محبت کے حصول میں صاحب سرمایہ و اختتیار حکومتیں عوام کی علم کے حصول میں عوام کی سرپرست ہوا کرتی تھیں ۔ آج حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔
حکمران اور رہنما میں فرق ہوتا ہے ۔ کسی ملک کا بادشاہ حکمران ہے تو کسی ملک کی وزیر اعظم رہنما ہے ۔ دونوں معاشروں کی سوچ رات اور دن کی طرح عیاں ہے ۔ اس فرق کو علمی تفریق کے سوا دوسرا نام دیا ہی نہیں جا سکتا ۔
مرحوم طارق عزیز (نیلام گھر والے ) نے اپنے ترکے میں ایک پنجابی کی کتاب بصورت شاعری چھوڑی ہے اس میں ایک شعر ہے
مڈھ قدیم توں دنیا اندر دو قبیلے آئے نیں
اک جنہاں زہر نی پیتے اک جنہاں زہر پلائے نیں

 مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں روز اول سے دو طبقات ہیں ایک جو زہر کا پیالہ پیتا ہے اور دوسرا جو پلاتا ہے ۔ علم انسان کوان دونوں طبقات کے اذہان کو منور کر کے عمل کی قابل عمل راہ دکھاتا ہے ۔
رہنماوں کے سرمایہ جمع کرنے اور اختیارات کی خواہش پوری کرنے میں تعلیم حائل نہیں ہوا کرتی ۔ بہت سارے ممالک اس رواں دواں کرہ ارض پر موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کو عام کیا اور امن و آشتی سے جی رہے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو علم کو پابند سلاسل کر کے خود بھی قلعوں میں بند ہیں اور ان کی عوام بھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔

دنیا میں ایسی قومیں موجود ہیں جو تباہ ہو کر وسائل کی کمی کا شکار ہو گئیں مگر انھوں نے امید کے بل بوتے پر خود کو دوبارہ قوموں کی برادری میں سر خرو کر لیا ۔ امید پر یقین علم ہی پیدا کرتا ہے ۔
علم پر بنیادی طور پر خالق کائنات کی اجارہ داری ہے ، اس نے ابن آدم پر احسان کیا اور اپنے ذاتی علم سے اسے عطا کیا ۔ ہم نے اس نعمت کے ساتھ بے انصافی یہ کی کہ انفرادی منفعت و ہوس کے بل بوتے پر کچھ علوم کو غیر نافع کا نام دیا اور اسے ایک بوری میں ڈالتے گئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بوری اس قدر ثقیل ہو چکی ہے کہ اس کو اپنی جگہ سے سرکانا افراد کے بس سے باہر ہو چکا ہے ۔ مزید ظلم یہ کہ ہم نے اس بوری کا منہ اب بھی بند نہیں کیا ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی والوں نے ابلاغیات کا علم نہیں بلکہ گوبلز کے اعمال بوری میں ڈالے تھے ۔
انسان کا عقلی ادراک کچھ بیانیوں کے تسلیم کرنے میں مزاحم ہوتا ہے ۔ جس دور میں زمین ساکت مانی جاتی تھی ، اس دورمیں بھی عقل اس بیانیے پر مطمئن نہیں تھی ۔ اگر اج ہم کچھ بیانیوں سے مطمن نہیں ہیں تو لازمی طور پر ان بیانیوں میں کہیں نہ کہیں سقم ہے ۔ گلوبل ویلج میں اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ کون سا بیانیہ اور عمل بوری کا مستحق ہے ۔ آج کے دور میں اسی استحقاق کے بیان کرنے  پر زہر پیے اور پلائے جا رہے ہیں ۔
محبت ایسا پھول ہے جو انصاف کی زمین پر اگتا ہے ہمارے ہان تو ابھی زمین ہی ہموار نہیں ہے ۔ ہم دوسروے ملکوں میں مظلوموں کو انصاف ملتا دیکھ کر خوش ضرور ہوتے ہیں ۔ مگر اپنے ہان عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے بھی بنا رکھے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ پھول اگلنے والی ہموار زمین کو لگا تار نا ہیموار کرتے رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اختیارات کسی عمارت میں قید ہیں ۔ معیشت صاحبان پنجہ کی مٹھی میں بند ہے ۔ تعلیم کے لیے ہمارے پاس بچا ہی کچھ نہیں ہے اور محبت لوک داستانوں یا فقیروں کے آستانوں تک محدود ہے ۔
عوام  کو صبر کی تلقین کتاب سے پڑھ کر سنائی جاتی ہے  اور سکون قبر میں بتایا جاتا ہے ۔
 اقبال نے سچ ہی کہا تھا ۔ 
تحقیق میرے دوست  کی بھی برحق ہے
ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو بھی برحق بتاتے ہیں
بہتر سالوں سے مگر کر وہ رہے ہیں جو ہمارا دل کرتا ہے






جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

پیر، 28 جنوری، 2019

اندھا کنواں ظالم ڈول



علم ہوکہ حکم، رویہ یا معاملہ جب اس کو فطرت کے اصول کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو ظلم کہلائے گا۔اور مظلوم وہ ہوتا ہے جس کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جاٗے جو اس کا نہ ہو۔ انفرادی زندگی میں ظلم کا نتیجہ بیماری، معذوری اور خود کشی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ خاندانوں میں ظلم نفرت، ناچاکی اور طلاق کا سبب بنتا ہے اور معاشروں میں جھوٹ، فریب، ڈاکہ ، دہاندلی اور قبضوں کا چن چڑہاتا ہے۔ ریاستی سطح پر بے اعتمادی، بد گمانی ، لوٹ کھسوٹ اور رشوت کو تقویت دیتا ہے۔ 

معاشرے کی مثال ایک دریا کی مانند ہوتی ہے جو اپنے فطری راستوں اور رفتار سے بہتا ہے۔ بہتے دریاو ں میں مخصوص موسموں میں طغیانی آنا بھی فطری عمل ہے البتہ بہتا دریا اچانک خشک ہو جائے تو یہ عمل فطری شمار ہو گا۔ پاکستان میں بہتے دریا خشک ہو گئے مگر ظلم یہ ہواکہ کسی جہاندیدہ بزرگ نے لاٹھی پکڑ کر پہاڑ پر نہ چڑہنا ہی گوارا نہ کیا۔

پاکستان کے عسکری ادارے کے ایک سربراہ نے اپنے ادارے اور حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو ادارے کے اندر سے کسی نے مزاحمت کی نہ کسی نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ وہ ملک جو بناتے وقت لاکھوں جانوں کی بلی دی گئی تھی ۔ اس کے دو لخت ہونے پر نہ کسی کی غلطی کی نشان دہی کی گئی نہ کسی پر مقدمہ چلا۔کیا اس کو ظلم کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟

ملک کی بنیاد رکھنے والوں نے صاف الفاط اور واضح لہجے میں بتایا تھا کہ یہ ایسا ملک ہوگا جہان تمام لوگوں کو امن میسر ہو گا۔ انگریز سے آزادی کا مطلب تھاشہریوں کو ریاست کے لیے قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے گا۔ انسان کی تکریم کی مثال قائم کی جائے گی تاکہ دوسرے ملکوں کو اس نظام کو اپنے ہاں نافذ کرنے کی حرص پیدا ہو۔ ظلم یہ ہوا کہ عملی طور پر ہم نے ایسا ملک بنایا جہاں انسانی جان بے وقعت ہو کر رہ گئی۔ ریاست عوام دوست کا کردار ادا کرنے کی میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ عوام دشمنی کو اپنی کامیابی گرداننے لگی۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو اپنی ہی سرزمین سے پکڑ کر دشمن کو فروخت کرے اور باقی ماندہ لوگوں کو ظلمتوں میں دھکیل کر بیرون ملک جا بسے اور ریاست چپ سادھ لے۔

ملک کی سب سے اونچی عدالت کے سب سے بڑے منصف کی عدالت میں منصف کے روبرو ایک شخص منصف پر رشوت مانگنے کا الزام لگائے ،الزام کی تردید ہو نہ عدالت کی توہین کا مقدمہ قائم کیا جائے نہ اس شخص کو پاگل خانے بھیجا جائے ۔ عدالتوں میں مقدما ت پر ریلیف دینے کی روائت تو کسی کتاب میں پڑہی نہ اخباروں مین دیکھی مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل درجنوں ملکوں سے بہتر ہے ۔ ایسی خود فریبی کو ظلم کے علاوہ دوسرا کیا نام دیا جائے۔

اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو پیشانی سے قابو کرتا ہے مگر ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے وہ مخالفین کو کرپشن کے نام پر پکڑتی ہیں۔ کرپشن وہ غبارہ ہے جس میں بے بنیاد پروپیگنڈے کی ہوا بھر کر اس کو پھلایا جاتا ہے اور عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ کرپشن سے بھرا ہوا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جو معاشرہ سول حکومت کے دوران کرپٹ ہوتا ہے ۔ کسی آمر کے آتے ہی حاجی اور پرہیز گار ہو جاتا ہے مگر جوں سول حکومت قدم رنجہ ہوتی ہے یہ شیطان اسی لمحے مخالفین پر اپنا جال پھینک کر انھیں کرپٹ بنا دیتا ہے۔ یہ جو اہل دانش کا فرما ن ہے کہ ظلم کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ ان کو کوئی جا کر خبر کرے ۔آو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ہم نے ظلم کے غبارے میں اپنے جبر سے ہوا بھر کے اسے قائم بھی رکھاہوا ہے۔

کرپشن وہ اندھا کنواں ہے جس میں بار بار ڈول ڈالا جاتا ہے ۔ پہلے لوگ ڈول ڈالنے کے اس تماشے کو اشتیاق سے دیکھتے تھے۔ مگرہر بار اور بار بار یہ ڈول بے مراد ہی واپس آیا ہے۔ اب عوام بھی جان چکی ہے اس اندھے کنویں میں امید کا گمان بھی نہیں ہے ۔ جبر مگر یہ ہے کہ یہ ظالم ڈول ڈالنے والوں کے لیے خالی نہیں ٓتا۔اور یہی سب سے بڑا ظلم ہے ۔

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

جمعہ، 13 نومبر، 2015

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔

منگل، 10 نومبر، 2015

خوشیاں اور کامیابیاں


دنیا میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک : وہ لوگ جو اپنے ذاتی تجربات سے سیکھتے ہیں۔ یہ عقلمند لوگ ہوتے ہیں۔ دو : وہ لوگ جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں۔ یہ خوش باش لوگ ہوتے ہیں۔ تین : وہ لوگ جو نہ اپنے تجربات سے کچھ سیکھتے ہیں اور نہ دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ یہ بےوقوف اور نادان لوگ ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے مایوس کھڑے ہو کر وہاں سے گزرنے والے امیر اور کامیاب آدمیوں کو دیکھ کر ان سے حسد کرنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ عقلمندی یہ ہے کہ ہم ان میں وہ جوہر تلاش کریں جن کے سبب انہوں نے یہ مقام حاصل کیا۔ ایک کامیاب انسان بھی زندگی میں پریشانیوں اور ناکامیوں کا سامنا کر سکتا ہے۔ لیکن کامیاب لوگ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں کہ کسی مصیبت کے بغیر کوئی سکون نہیں۔ کسی دکھ کے بغیر کوئی سکھ نہیں۔ کسی رنج کے بغیر کوئی راحت نہیں۔ کسی کوشش کے بغیر کوئی کامیابی نہیں ! یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کامیابی جو راتوں رات حاصل کی جاتی ہے وہ صبح طلوع ہونے سے قبل ختم ہو جاتی ہے۔ پائیدار خوشیاں اور کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی شخصیت کی کمزوریوں پر قابو پانا اور ناکامی پر کڑھنے کے بجائے نئے حوصلوں کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوگا۔

منگل، 2 دسمبر، 2014

خواتین و حضرات


ساری دنيا ميں مرد اور عورت کو قانونی طور پر برابر کے حقوق حاصل ھيں۔ مگر تيسری دنيا يعنی غير ترقی يافتہ ممالک ميں عورت اور مرد کے درميان موجود معاشی تفريق کو بہت اجاگر کر کے پيش کيا جاتا ھے۔ اور آخری سبق ‏يہ بتايا جاتا ھے کہ اگر تيسری دنيا کے معاشرے ميں ايسی تبديلی لاہی جاۓ اور معاشرے کو ايسا بنا ديا جاۓ جيسا ترقی يافتہ ممالک کے معاشرے ھيں، توعورت اور مرد کے درميان موجود معاشی تفريق ختم ھو جاۓ گی یا کم ھو جاۓ گی۔
 معاشرتی تبديلی کسی سوچ یا قانون کے تابع عمل نہيں ھے بلکہ اس تبديلی کے واقع ھونے کے ليے طويل وقت درکارھوتا ھے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنے رسم و رواج و روایات کے برعکس کسی تبديلی کو اھميت نہيں ديتا۔ پاکستان ميں مرد و زن ميں معاشی تفريق کو بالکل ابتدا ھی ميں محسوس کر ليا گيا تھا۔ اور بالکل صيح سمت ميں آگے بڑھتے ھوۓ خواتين کی تعليم کی حوصلہ افزاہی کی گی۔ ھمارا مزھبی طبقہ تو اول روز ھی سے خواتين کی تعليم کے ليے کوشاں رھا ھے اور مدارس کي صورت ميں تعليم البنات کا نيٹ ورک قائم کر کے کاميابي سے نبی اکرم کے اس فرمان کی کی لاج رکھی ھے جس فرمان ميں آپ نے خواتين کی تعليم کی تاکيد کی تھی۔ 
 خواتين ھی کی نہيں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی تعليم سے وابسطہ ھے۔ بہت ساری تلخ حقيقتوں کی طرح یہ بھی حقيقت ھے کہ ھم تعليم ميں پچھڑے ھوے ھيں۔ تمام تلخ حقيقتوں اور محروميوں کے باوجود حوصلہ افزا حقيقت یہ ھے کہ ايک مطالعے کے دوران ملک کی ايک نامور يونيورسٹی ميں  ميں 39 طلبہ و طالبات ميں طالبات کی تعداد 37 پائی گی۔ 
پاکستانی قوم، سيلابی پانی کی طرح، اپنا راستہ خود بناتی ھے ۔ ضلع راولپنڈی کے ايک ديہی علاقے ميں یہ حقيقت سامنے آئی کہ باپ اپنا نام لکھنے سے قاصر ھے 
بکہ اس کی بيٹی ماسٹر کی ڈگری رکھتی ھے 
 قوموں کی زندگی ميں 67 سال زيادہ عرصہ نہيں ھوتا ۔ کئی ترقی يافتہ ممالک کو موجودہ مقام حاصل کرنے کے اس سے طويل تر عرصہ لگا ۔ ھمارا معاشرہ صيح سمت ميں گامزن ھے ۔ زيان کے احساس نے شديد تر ھو کرسيلابی پانی سے سونامی کی شکل اختير کر لی ھے ۔ ھماری خواتين کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ انھوں نے علاقائی رسم و رواج اور روايات کی لاج رکھتے ھوئے اپنے ليے ميدان عمل کے رستے چن ليے ھيں ۔ اس ملک و قوم پر اللہ کی رحمت کی انتہا ھےکہ ھم اپنا مقدر جلر از جلد بدلنا چاھتے ھيں ليکن ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے ليے 16 سال کا عرصہ بہرحال درکار ھوتا ھے [استسناء کا نام معجزہ ھے] ۔ خدا نے ھميں اميد رکھنے کی تاکيد کی ھے ۔ ھمارے نبی اکرم نے محنت کو پسنديدہ قرار ديا ھے ۔ ھمارے قائد نے کام، کام اور کام کا درس ديا ھے ۔ ھم جفاکش قوم ھيں اور ھم نے اس حقيقت کو پا ليا ھے کہ ھماری ذاتی ، خاندانی ، معاشرتی اور قومی ترقی کا راز شور و غوغا اور بے جا تنقيد اور خود کوشی ميں نہيں ھے ۔

اے اللہ تيرا شکر ھے


ايک بزرگ نے اپنی کتاب ميں معاشرے کی غربت کی تصوير کشی کرتے ھوۓ لکھا تھا کہ گوشت اس وقت کھايا جاتا تھا جب کوئی انسان بيمار ھوتا يا کوئی جانور۔ يہ کوئی شرم کی بات نہ تھی بلکہ حقيقت تھی۔ اس وقت ھم اسی طرح کے غريب تھے کہ گوشت کھانے کی بنيادی ضرورت سے محروم تھے ۔ شادی بياہ ميں ايک کھانا ھوتا تھا اور وہ بھی نہاہت معمولی ۔ آج 2018 ميں جب اس علاقے کی آبادی 7 گنا بڑھ چکی ھے ، اعداد و شمار اٹھا کر ديکھ لیجيے ،ھم اس وقت کی نسبت زيادہ خوراک کھاتے ھيں، مجموعی طور پر صاف پانی کا استعمال زيادہ ھوا ھے۔ گوشت اور پروٹين والی غذا کا تناسب بھی اس وقت کی نسبت کئ گنا بڑھ گيا ھے۔ ھم نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ھنر جان ليا ھے ۔ ھم نے خوراک پيدا کرنے کے ايسے طريقے ايجاد کر ليے ھيں جو ھماری ضرورتوں سے مطابقت رکھتے ھيں۔ [شيور مرغی کی مثال سامنے رھے] ۔ ھم نے پھلوں اور سبزيوں کی پيداوار ميں قابل ذکر ترقی کی ھے۔ بنجر زمينوں کو آباد کيا ھے ۔ اور جہاں سال ميں ايک فصل حاصل کرتے تھے اب اپنی محنت و علم و فراست کے بل بوتے پر کئ فصليں اگاتے ھيں۔ زراعت کے ليے جديد ٹيکنالوجی کو ھم نے اپنی زمينی حقيقت اور رسم و رواج سے ھم آھنگ کر ليا ھے ۔ آمدورفت ے ليے سڑکوں کی لمبائی ميں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ معيار کو بھی بہتر بنايا ھے ۔ بلکہ سواريوں کی تعداد ميں بھی اضافہ کيا ھے ۔ تعليم ميں بھی 1947 ء کی نسبت آگے ھی بڑھے ھيں ۔ انسانی وسائل ميں بھی ھمارا نام اوپر ھی آيا ھے ۔ ذاتی آمدنی کے اعشاريے بھی بڑھے ھی ھيں ۔ ھم نے اپنی دفاعی صلاحيتوں کو معجزے کی حد تک بڑھايا ھے۔ پانی کے بہاوکے رخ موڑ کر ذخيرہ کرنے کے طريقے بہتر کيے ۔ نہروں کا جال بچھانے کے کام کی ابتدا علاقے ميں ھم نے کی ۔ بجلی کا استعمال [لوڈ شيذنگ کے باوجود] پھيلا ھے۔ ھمارا طرز رھاہش و ملبوسات کا معيارعلاقے کے دوسرے ممالک کی نسبت کئ گنا بہتر ھے۔ يہ ناقابل ترديد حقيقت ھے کہ غريب ترين پاکستانی بھی علاقےکے دوسرے ممالک کےغريب ترين سے کئ گنا بہترھے۔ پاکستانی معجزے سرانجام دينے والی قوم ھے۔ اس قوم نے کسی کام کو مشکل سمجھ کر منہ نہيں موڑا بلکہ مشکل ترين کام کو چيلنج سمجھ کر قبول کيا اور سرخرو ھوئی ۔ ھمارا کام کرنے کا انداز، رھن سہن کا طريقہ ، معاملات کو ديکھنے اور سمجھنے کی اہليت اور ذھنی شعور علاقےکے دوسرے ممالک کے شہريوں سے نہاہت بلند ھے۔ ھم انفرادی و معاشرتی طور پر اپنا رستہ خود بنانے والے لوگ ھيں۔ آزادی کے بعد 70 سال کی مختصرسی تاريخ ميں ھم نے ھرميدان ميں ترقی ھی کی ھے اور انفراديت یہ ھے کہ یہ ترقی اور بلندی ھم نے اپنے علاقاہی رسم و رواج اورقومی روايات کو محفوظ رکھتے ھوے کی ھے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ھے جس کو ھم نہ پہچانتے ھوں۔ ترقی کا کون سا راستہ ھے جس پر ھمارے قدم بڑھ نہ چکے ھوں۔ ھم نے ذاتی حيثيت ميں اپنی صلاحيتوں اور وساہل ميں اضافہ ھی کيا ھے۔ ھميں اپنی حماقتوں اور ناکاميوں کا ادراک ھے ، ھم نے ان سے سبق سيکھا ھے۔ ھماری سمت درست، ھماری سوچ مثبت اورھمارا ولولہ جوان ھے۔ ھم رستے کی پہچان رکھتے ھيں اور منزل بھی قلب و ذھن ميں واضح ھے۔ قائد کی فراست و احسان ھمارے دل ميں ھے ، اقبال کا درس ھم بھولے نہيں ، محمد صل اللہ عليہ وسلم کی آواز پر ھم نے لبيک کہا ھے اور اپنے رب کی رحمت سے ھم مايوس نہيں ھيں۔ اے اللہ تيرا شکر ھے۔

دو فرشتے


بابل میں وہ کنواں دیکھنے کی خواہش پر گائیڈ ہمیں کنویں تک لے گیا اور ہمیں کنویں کے متولی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں دونوں الٹے لٹکے ہوہے فرشتوں کا دیدار کرانا تھا۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ ہماری گناہگار آنکھیں فرشتوں کو دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ مذہبی کتب میں ان دو فرشتوں کا ذکر موجود ہے جو آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان دو فرشتوں کی کہانی یوں ہے کہ یہ لوگوں پر سحر ، کالا جادو اور عملیات وغیرہ کاعمل کیا کرتے تھے اور اس کام کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔پھر ان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ بعض روائت کے مطابق وہ ستارے کی شکل میں آسمان پر ہیں اور متولی کا اصرار تھا کہ وہ اسی کنویں میں الٹے لٹکے ہوے ہیں اور یہ قیامت تک اسی حالت میں رئہں گے۔ یہ روائت بنی اسرائیل کی ان روایات میں سے ہے جن کو اسلام نے بھی اپنا لیا ۔ ما فوق الفطرت چیزیں ، جن ، فرشتے ، سحر اور کہانت انسان کے لیے 
بڑی دلچسپی کے موضوع رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ان چیزوں کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوا ہے کہ ان عملیات 
سے انسانی فطری خواہشات حسد ، کینہ اور انتقام پوری کی جا سکتی ہیں۔ اس تصور کو پھیلانے میں 
الیکٹرانک میڈیا کا بڑا کردار ہے
  ۔ اعتقاد کو مستحکم کرنے میں قصے ، حکایات اور سنی سنائی کہانیاں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنات کی حکایات کا بالائی سرا حضرت سلیمان نبی اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر اس میں تقدس پیدا کیا جاتا ہے اور سحر وجادو کی اہمیت اس سوال کے ذریعے اجاگر کی جاتی ہے کہ " کیا رسول اللہ پر لبید نامی یہودی نے جادو نہ کیا تھا۔" قرآن پاک میں فرعون مصر اور حضرت موسی نبی اللہ کے قصے میں ہے کہ "جادو گروں کے جادو سے انہیں خیال ہوتا ہے۔کہ وہ دوڑ رہے ہیں "۔ (طہ ۔66 ) لفظ خیال غور طلب ہے۔ اعتقاد کے ساتھ جڑی دولت کا اندازہ لگانے کے لیے عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔ جاہلیت کا یہ کھیل طویل مدت سے جاری ہے۔ اور کھلاڑی بار بار المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ان حالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے ، اب تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔جب کوئی منفی عمل فلاش پوائنث بن جاتا ہےتو معاشرہ پر منفی انداز میں اثرانداز ہوتا ہے۔پاکستان چونکہ مخصوص طبقات کے لیے آزاد تر ملک ہے ، اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر مشورہ یہی ہے کہ اپنے خاندان اور خاص طور پر نوجوانوں کو ٹی وی کے ابسے پروگرامز سے دور رکھیں ورنہ منفی اثرات آپ کے گھر کا رخ اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ۔جن کی دسترس میں ہے انھیں عاملوں کے اشتہارات دیواروں پر لکھنے ، اخبار و رسائل میں چھاپنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور میڈیا میں ان حوصلہ شکنی کریں۔ کہ اصلاح کا عمل تمام خیر و بھلائی کی جڑ ہے۔

پیر، 1 دسمبر، 2014

حب اللہ


فرمان الہی ھے 'ھم نے ابن آدم کو مکرم بنایا ۔(بنی اسرائیل: 70) یہ خالق کی اپنی اشرف المخلوقات سے محبت کا اظہار ھے۔ اور جب آدم نے کہا ' اے ھمارے رب ھم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اور اگر تو نے ھمیں معافی نہ دی، اور ھم پر رحم نہ کیا تو ھم بڑے نقصان سے دوچار ھو جائیں گے' ۔ تو یہ مخلوق کی اپنے خالق سے امید تھی، اور امید محبت ھی کے درجے میں ھے۔ اور بنی آدم نے محبت کے عملی اظہار کے لیے اپنی پیشانی کو خاک زمین پر رکھ دیا، اور اقرار کیا کہ اللہ سبحان بھی ھے اور اعلی بھی۔ اور ابن آدم کی اپنے رب کے حضور خاک آلودگی کواللہ کے حبیب نے مومن کی معراج قرار دیا۔ یہ محبت ھی کے قول و افعال ہیں ، جو خالق و مخلوق ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔اور اللہ کے رسول اس پر گواہ بنتے ہیں۔ یہ محبت ھی ھے کہ خالق نے فرمایا ' میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا' اور یہ بھی محبت ھی ھے کہ ' ھم تیری ھی عبادت کرتے ھیں اور تجھ سے ھی مدد چاھتے ہیں۔ خالق کی محبت کی انتہا ہے کہ وہ بنی آدم کے شرک تک کو معاف فرما دیتا ھے۔ بنی آدم کی اپنے رب سے محبت کی انتہا یہ ھے کہ وہ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر کے بھی اعتراف کرتا ھے کہ تیری عبودیت کا حق ادا نہ ھوا۔ اور یہ اعتراف بے چارگی اور عاجزی در اصل حب اللہ ھی ھے۔ صیح بخاری میں ھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے خدمت نبوت میں حاضر ھو کر عرض کیا ' یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی' اللہ کے رسول نے دریافت فرمایا ' تم نے اس کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ھے' صحابی نے ندامت کا اظہار کرتے ھوے عرض کیا کہ ' یا رسول اللہ میرے پاس نہ تو نمازوں کا ذخیرہ ھے نہ روزوں کا اور نہ ھی خیرات و صدقات کا۔ جو کچھ بھی سرمایہ ھے وہ خوف خدا اور اس کی محبت ھے اور بس' اللہ کے رسول نے فرمایا ' انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رھے گا' صدق پر مبنی جذبہ محبت بالاخر محب سے محبوب کو ملا دیتا ھے۔ صدق کے اظہار کے طور پر دعویدار کواپنے دل سے دنیا کی محبت کونکالنا ھوتا ھے ، اور اپنی جہالت کو دور کرنا ھوتا ھے کہ جاھل کو اللہ تعالی اپنا ولی نہیں بناتا ۔ عالم جب اپنے علم کو سنت نبوی کے سراج منیر کے نور سے دھو لیتا ہھے تو اس کا کاسہ دل طاھر و معطر ھو جاتا ھے ۔ اللہ خود جمیل ھے اور جمال کو پسند فرماتا ھے اور اس کی محبت بھی صرف پاکیزہ قلوب میں قرار پکڑتی ھے۔ انسان آگاہ رھے کہ اللہ واحد و احد ھےاور وھاں دوئی کا گذر نہیں ھے لہذا حب اللہ بھی صرف اسی دل میں پنپ سکتی ھے جس دل میں اللہ کی محبت کے سوا کوئی دوسری محبت نہ ھو۔ جب انسان اس مقام تک پہنچ جاتا ھے تو اللہ اس سے اس کے قلب کی 'پاکیزگی کے باعث اس سے اپنی پسندیدگی کا اعلان فرماتا ھے '(التوبہ:108)

جمعہ، 21 نومبر، 2014

انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے

a=1 m=13 z=?

جن لوگوں کو سوال سمجھ آ گیا ہے، ان کے لے جواب مشکل نہیں ہے۔ لیکن جو سوال کو سمجھ ہی نہ سکے ان سے صیح جواب کی توقع عبث ہے۔
انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
 زندگی کے بارے میں سمجھنے والے سوال تین ہیں ۔ پہلا اور لازمی یہ کہ میں کون ہوں ، دوسرا یہ کہ میں کیوں ہوں اورتیسرا یہ کہ کامیابی کا رستہ کون سا ہے۔
 ان تینوں سوالوں کو سمجھانے کے لیے ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔صلحاء اور علماء نے اپنے اپنے طریقے سے سمجھایا ہے، انبیاء اور رسل نے بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔اور خود مالک کائنات نے ، جو انسان اور زندگی کا خالق ہے، نے بھی کھلے الفاظ میں اس کی تشریح کر دی ہے۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بادشاہ تو اللہ ہی ہے، مگر وزارت عظمی کی مسند انسان ہی کےلیے مخصوص ہے ۔اللہ نے یہ فرما کر کہ اپنی مخلوقات مںا انسان کو شرف والا بنا کر اپنا نائب کاا ہے۔اس کی مسند اعلی کو آئیے اور قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا۔اور نبو ں اور رسولوں کو اس پر گواہ بھی کر دیا۔ مگر انسان ہے کہ اس اعلی عہدے سے جڑی عظمت ، بزرگی ، اعلی اختانرات اور اللہ تعالی کی وسع مخلوقات پر حکمرانی کا حق پانے کے باوجود اس اعلی اختا رات کی حامل کرسی کی رفعت دیکھ اور محسوس کر کے خود کو حراان و پریشان پاتا ہے تو اللہ تعالی ینپا دلاتا ہے ' کات تو غور نہں کرتا زمنا مں جو کچھ ہے ، ان کو تمھارے لےم مسخر کر دیا ہے'۔ (الحج :65) انسان جب اپنے ان اختا رات پر ششدر ہوا تو بادشاہ دائم نے حوصلہ افزائی مں مزید اضافہ کر دیا ' اس نے تمہارے لےھ رات و دن۔شمس و قمر اور ستارے بھی مسخر کر دیے۔ اور یہ اس کے حکم سے ہے'۔(النحل:12) لکنے انسان کو ینن ہی نہں آ رہا کہ 'جو کچھ زمنا مںو ہے ۔ اس کے لے پددا کاز گا ہے'۔(البقرہ:29)۔یہ ہے وہ سوال جو انسان کی سمجھ مںی آ جائے تو جواب مشکل نہں ہے۔ انسان اپنی مجبوری اور بے بسی کا شکار نہںک ہے بلکہ وہ اپنے ہی اختا(رات اور مقام سے خوف زدہ ہے۔نو آموز مقرر سامعن کی تعداد کثرش سے خوف زدہ ہوتا ہے لکنب ایک مقام پر خطبس کو ینائ ہو جاتا ہے کہ اس کے سامعنض پھول ہںر۔ انسان کا اپنی ذات کا ادراک، نوآموز مقرر اور خطبو کے سفر کے درماکن معلق ہے۔ کورں کا جواب سادہ ہے کہ اشرفتا کی مسند کی اہلتن کے تواتر کا معاعر قادر مطلق سے ہر حال منو وابستگی ۔اور اس کا ینقر وہ خود دلا رہا ہے۔'مں نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لےہ تخلقک کاا ہے' اور عبادت کا پہلا مقام ہی وفاداری ہے۔انسان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد دیکھے کہ ہر ہر شے وفاداری کے دریائے عمقخ مںا غوطہ زن ہے۔' کاپ تو نے نہںف دیکھا کہ اللہ کے آگے سر جھکاتا ہے ، جو کچھ آسمان مںر ہے اور جو کچھ زمنے مںی ہے۔اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔ اور بہت سے انسان ہںم، جن پر عذاب ٹھہر چکا'۔(الصبح:18) یہاں ان بد بختوں کا بھی ذکر کر دیا جو وفاداری کے دائرے سے خود کو باہر کر بٹھےا۔خدا کے ہاں سب سے بڑی مراٹ اس کی قدرت، طاقت، استعداد اور بڑائی کا اعتراف ہے۔اور سب سے بڑی وفاداری اس کی ذات کے اعلی اور مقتدر ہونے کےاعتراف کے عقد ے سے چمٹ جانا ہے۔ حکائت: اس واقعہ نے بھارت کے ایک گاوںمیں جنم لیا اور ایک سنجیدہ شخصیت نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہےکہ ایک ہندو مزدور کا بیٹا عرصہ سے بضد تھا کہ با پو سائیکل لے کردو، غربت میں لتھڑا باپ بیٹے کی خواہش کو پورا نہ کر سکا البتہ شفقت پدری میں بیٹے کو وعدہ فردا پر ٹرخا دیتا۔وقت کے ساتھ ساتھ بیٹے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ایک دن جب رات گئے والد گھر آیا تو بیٹے نے باپ کا پلو پکڑ لیا اورپوچھا۔' تم میرے باپو ہو۔بتاو میں سائیکل کس سے مانگوں'۔باپ کی غیرت پدری جھاگ اٹھی ۔ اس وقت وہ گھر سے باہر چلا گیا لیکن واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نئی سائیکل تھی۔ حضرت محمد رسول اللہ کہ ان کے صادق ہونے کی گواہی ان کے دشمنوں نے بھی دی ہے (اور ان پر صلوات و سلام خاکی، آتشی اور نوری مخلوق اور خود خالق ارض و سماوات بھی بھجتال ہے)۔نے اپنی جان کی قسم کھا کر فرمایا کہ جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ بندہ سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی آواز سن کر منہ پھرل لتاھ ہے۔اور جب تسرگی بار بندہ پکارتا ہے تو اللہ ملائک کو ندا کرتا ہے کہ فرشتو دیکھو اڑا رہا مررا بندہ اس پر کہ جو کچھ ہو اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکاریں گے، اس لے مں نے قبول کاہ اس کی دعا کو۔ اللہ اپنے بندوں پر اپنے باپوں سے بڑھ کر کریم ہے۔اور ماوں سے بڑھ کر ہمدرد و غمگسار ہے۔لکن غر ت انسانی کا بھی تقاضا ہے کہ اگر فرمان بردار نہ بھی بنں تو کم ازکم دشمنوں کی حمائت سے تو باز رہںس۔ اگر کلمہ شکر ادا نہںی کرتے تو شکوہ مںو زبان درازی سے تو بچںل۔ نبی اکرم کے احترام و محبت کے دعووں کے باوجود اگر محمد کی سنت پر نہںز چلتے تو کم ازکم ابلس کی پرکوی ہی کو ترک کر دیں۔یاد رہے غریت مند معاشروں مںر غرمت کے نام پر خون بہہ جاتا ہے۔ اور غرتت مںہ خدا کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ کامایبی کا رستہ: کامامبی خدا کا اعتماد اور رعائت حاصل کر لنےا ہی مںک ہے۔ اور رعائت مانگنے پر رعائت بھی ملے اور ساتھ محبت بھی عطا ہو جائے تو کاا کہنا نعمت کی زیادتی کا۔کبھی غور تو کرو اللہ بندے سے محبت کے لے کس قدر بے تاب ہے۔ ایک دن حضرت جبرائلن بارگاہ نبوت مںم حاضر تھے، اور واقعہ باکن کار کہ ایک بت کا پجاری اپنے بت کے رو بہ رو یا رب یا رب پکار رہا تھا کہ مقام ربوبتج سے ندا آئی ' لبیک یا عبدی'۔ مں نے عرض کات اے مالک یہ آپ نے کسا جواب دیا۔ اللہ نے کہا کہ مراا بندہ بھول گات کہ رب مں ہی ہوں تو بطور رب مںع تو اس حققت سے آگاہ ہوں اللہ اپنے بندے کے ایک ایک عمل کو گن کر بتا رہا ہے کا اے مربے بندے اگر تو نے احسان (المائدہ: 13) کاا تو مر ی محبت تر ے لےل ہے۔ اور اگر تو توبہ(البقرہ:222) کا امدےوار ہوا تو بھی مںم تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگر تو نے مجھ پر توکل(آلعمران: 159) کال تو بھی تو مجھے محبت کرنے والا ہی پائے گا۔اور اگر تو نے زیردستوں کے ساتھ انصاف (المائدہ:42) کام تو بھی مرنا تجھ سے محبت کا اعلان ہے۔اگر تو نے تقوی(توبہ:4) اختا۔ر کاو تو بھی مں تم سے محبت کروں گا۔اور اگر تو مرگی راہ مںک مجائد بن کر جہاد(آلعمران:146) کرے گا تو بی: مرتی طرف سے بدلہ مںت محبت ہی پائے گا۔اگر تو نے پاکزرگی ( توبہ:108) اختایر کی تو بھی مںا تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگرتو نے اپنے روزمرہ کے معاملات کے دوران مرکا ذکر جاری رکھا تو بھی مرہی محبتوں کے خزائن تجھ پر نچھاور ہںھ۔احسان ہوتا ہے جب بن مانگے دیا جائے۔ اس حققتن سے کس کو انکار کی جسارت ہےکہ محسن اعظم اللہ ہی ہے۔عطا بدون استحقاق عطا کرنے کو کہتے ہںن تو اللہ جسا عطا کرنے والا اللہ کے سوا کون ہے۔ایسے رحمم و کریم، رحمان و رحمہ کا دل کی گہرائوسں سے شکر ادا کرنا، اس کی طاقت و استعداد کا ادراک کرنا ، اس کے عائد کردہ واجبات کو ادا کر کے اس کی مخلوق کی خدمت مںی جت جانا ہی کاماکبی کا راستہ ہے۔

جمعہ، 7 نومبر، 2014

عافیت سے جینا سکون سے مرنا



زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور
Option
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ
Hints
 عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔
 ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

خوشی کے راستے

پاکستان میں موٹر وے نئی نئی معرض وجود میں آئی تھی ۔ اسلام آباد سے لاھور کے درمیان سفر کے لیے حد رفتار ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ طے تھی ، جو اس ملک میں نیا تجربہ تھا ۔ یہ رفتار ڈرائیور کی توجہ concentration کی متقاضی ھوتی ھے ۔ موٹر وے سے چھوٹی سڑکیں یا ذیلی راستے نکلتے ھیں، ان ذیلی راستوں پر رفتار کم ھوتی ھے ۔ اگر موٹر وے سے نکل کر ڈرائیور ذیلی راستے پر آ جائے تو رفتارکے کم ھونے پر اس کی concentration بھی کم ھو جاتی ھے اور خود کو ھلکا پھلکا محسوس کرتا ھے ، مزید ارد گرد کی حرکات و الوان اور نظاروں سے بھی زیادہ لطف اندوز ھو سکتا ھے ۔ زنرگی کی موٹروے پر ، ھم اپنا سفر منزل کی جانب جاری رکھتے ھوے ، کبھی کبھار ذیلی راستوں پراتر کر زندگی کی لذت ، مٹھاس اور خوشی سے لطف اندوز ھو سکتے ھیں ۔ خوشی کشید کرنے والے لمحات زندگی کی ان پگڈنڈیوں میں ھی پنہاں ھوتے ھیں ۔ خوشیاں ھمارے ارد گرد موجود ھوتی ھیں اور ھم خوشی کے مواقع حاصل کر سکتے ھیں، حقیقت تو یہ ھے کہ خوشی ھمارے وجود کے اندر موجود ھوتی ھے لیکن ھمیں اس کو کشید discover کرنا ھوتا ھے ۔ خوشی کا تعلق ذھنی حالت سے وابستہ ھے ، اگر ھم فیصلہ کر لیں تو یہ ممکن ھے کہ ھم ھر وقت خوش رھیں ۔ ھر چیز کی ایک قیمت ھوتی ھے اور خوشی کی قیمت یہ ھے کہ ھم زندگی میں سے کشید کرکے خوشی کے مواقع حاصل کريں اور ان سے لطف اندوز ھوں ۔ خوش ھونا اور خوشی سے لطف اندوز ھونا دو مختلف چیزیں ھیں ۔ سمجھنے والی بات یہ ھے کہ جب ھمیں خوشی میسر ھو توھم اس سے لطف اندوز بھی ھوں ۔ ماھرین بتاتے ھیں کہ انسانی ذھن ایک وقت میں ایک ھی سوچ کو قبول کر سکتا ھے ۔ اگر ھم ذھن کو ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل کے نادیدہ خدشات میں مصروف رکھیں گے تو ھمارا ذھن سامنے آنے والی خوشیوں کا موقع گنوا دے گا کیونکہ ذھن تو ایک ھی سوچ 'لمحہ موجود' ھی کو قبول کر سکتا ھے ۔ مایوس اور ذھنی انتشارکے گرداب میں پھنسا ھوا شخص کبھی بھی لمحہ موجود کی خوشی سے لطف اندوز نہیں ھو سکتا کیونکہ وہ موٹر وے پر پوری توجہ مبذول کر کے ایک سو بیس کی رفتار کے باعث ذیلی راستوں اور پگڈنڈیوں کو دیکھ ھی نہیں رھا ۔

حزن اور خوف



اللہ سبحان تعالی کا قرآن پاک ميں ارشاد ھے ' بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی 
خوف ھو گا نہ حزن' [يونس:62] ماضی کی تلخيوں،تقصيروں،غلطيوں اور محروميوں کو 'حزن' اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات اور خسارے کے ڈر کا نام 'خوف' ھے ۔ اللہ کے دوست وہ ھيں جو حزن کو پچھتاوہ بنا کر حال کو بھولتے نہيں ھيں بلکہ وہ اس کو اپنے حال کی تعمير کے ليے بنياد بناتے ھيں ۔ ماضی ھماری گرفت سے نکل چکا ھوتا ھے،اس پر پچھتاوا وقت کے ضياع کے علاوہ کچھ نہيں ھے اور خوف کا سبب بھی حال کی بے عملی ھی کی وجہ سے ھی ھوتا ھے ۔ اللہ کے دوست حزن و خوف سے بالاتر ھو کر حال کے بہتر استعمال کا فيصلہ کرتے ھيں ۔ انسان کا خالق انسان کو عمل کے ليے متحرک کرنا چاھتا ھے اور اسے اپنے حال یعنی آج کی بہتری کے ليے ترغيب دے رھا ھے ۔ آج کے فيصلے ھی انسان کے بس ميں ھيں ۔ آج کا عمل ھی خوف سے بچا سکتا ھے اور حزن کا مداوا بن سکتا ھے ۔ دينی تعليمات کا توبہ کے عمل پر بہت زور ھے اور يہ عمل آج ھی ممکن ھے ۔ جس کا آج بے عمل ھے بے شک اس کے ليے خوف ھے ۔ فیصلہ، ارادہ اور سوچ ھی عمل کو جنم ديتے ھيں ۔ کہا گيا ھے کہ اعمال کا دار و مدار نيتوں پر ھے ۔ اچھے عمل کی نيت کرنا قابل ستائش ھے اور یہ آج ھی کرنے کا عمل ھے ۔ کہاوت ھے کہ کل کس نے ديکھا ۔ ھر وہ عمل جو ماضی کے تجربے سے کشيد کيا جائے بہتر مستفبل کی نويد لاتا ھے ۔ مشہور ماھر نفسيات ڈاکٹر صوائن ڈائر نے کہا تھا کہ ''جب آدمی موجودہ وقت [آج] ميں اپنے دل و دماغ [سچائی] کے ساتھ کوئی کار انجام ديتا ھے تو اسکی کاميابی کے سامنے کوئی ديوار کھڑی نہيں رہ سکتی'' ۔ تسليم شدہ حقيقت ھے کہ ذاتی زندگی ميں شفافيت اور سچائی اختيار کرنا ، اپنی نيت اور ارادے کو اپنی ذات کے فائدے کے ليے مثبت رکھنا، اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا اور دوسروں کے بارے سوچ کو مثبت رکھنا کاميابی کا راستہ ھے ۔ اور اسی کا نام 'توبہ' ھے ۔ یہ آج کرنے والا عمل ھے جو حزن کا مداوا کرتا اور خوف سے بھی محفوظ رکھتا ھے اور اللہ خود توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ھے [البقرہ:222]

بندہ نواز

اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لے اشرفتو کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمنت اور آسمان تمہارے تصرف مںے ہںے: جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہںو بلکہ زمنہ و آسمان مںھ جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعت مںف دے دیا : وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علمل نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کا ۔ اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حققتا کو نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کاب بلکہ اس کو ذللک و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لےو خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمنی پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمنا پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کو سرکاب کائ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پنےن کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)

احسان

فردوس بدری کے بعد آدم کی آہ و زاری اور اعتراف گناہ گاری پر خالق آدم نے آل آدم پر رحمت و نوازشات کا ايسا مينہ برسايا کہ آدمی نعمت کے حصول کے بعد اعداد کا شمار ھی بھول گيا ۔عرب کہتے ھيں ''بادشاہ کے تحفے ، بادشاہ ھی کے اونٹ اٹھا سکتے ھيں'' ۔ابن آدم کی مجال ھی نہيں کہ کریم کے شکرکا بار اٹھا سکے ۔ احسان کرنا اللہ کی صفات ميں سے ايک صفت ھے ۔ اس نے خود اپنی اس صفت سے انسان کو حصہ عطا فرمايا ھے ۔ احسان کے عمل کو ھر معاشرہ ميں قدر و عزت دی جاتی ھے ۔ یہ ايسا قابل ستائش جذبہ ھے جو انسانوں کے درميان پيار و محبت اور امن و سلامتی کو فروغ و استحکام عطا کرتا ھے ۔احسان معاشرہ ميں جرائم کی حوصلہ شکنی کی بنياد کو مستحکم کرتا ھے ۔ معاشرے کے مسابقاتی طبقات سے نفرت کی جڑوں کی بيخ کنی کرتا ھے ۔ رشتوں اور ناتوں کو گاڑھا کرتا ھے ۔ تاريخ انسانی ميں احسان کا منفرد واقعہ سيرت محمدی سے ھے کہ اللہ کے رسول نے اپنا کرتا ايک دشمن دين کی ميت کے کفن کے ليے اتار ديا اور يہ وضاحت بھی کر دی کہ جب تک اس کپڑے کا ايک دھاگہ بھی اس کے جسم پر رھے گا عذاب سے محفوظ رھے گا ۔ اللہ بہرحال اپنے نبی سے بڑا محسن ھے اور ھماری آس و اميد اسی سے ھے ۔ احسان ، بدون استحقاق ضرورت مند کی مدد کا نام ھے ۔ مصيبت زدہ کو مصيبت سے نکالنا، سڑک پر حادثے کا شکار کو مدد دينا ، مقروض کی مدد کرنا ، کمزور کی اخلاقی يا قانونی مدد کرنا احسان ميں شامل ھيں۔ جن معاشروں ميں احسان کيا جاتا ھے اور اس کا بدلہ چکايا جاتا ھے ،ان معاشروں ميں جنک و جدل ، چوری و ڈکيتی ، رھزنی و دھوکہ دھی کم ھوتی ھے ۔ يہ بات قابل غور ھے کہ معاشرہ کی بناوٹ انسانوں کے اعمال کے مطابق ھوتی ھے ، مثال کے طور پر ايک ملک ميں ''کذب بيانی'' نہ ھونے کے باعث عدالتوں ميں جج صاحبان کے پاس مقدمات بہت کم ھيں۔ جہاں صاحب ثروت لوگ ٹيکس پورا ديتے ھيں وھاں بھوک و افلاس کم ھے ۔ جہاں قرض کی ادائيگی فرض سمجھ کر کی جاتی ھے وھاں دولت کی فراوانی ھے ۔ جہاں مريضوں کی تيمارداری خدمت کے جذبے سے کی جاتی ھے وھاں بيماری کی شرع کم ھے ۔ ان باتوں کی مزيد وضاحت، خدائی حکم ، جس ميں آبپاش اور بارانی علاقوں ميں ٹيکس [عشر] کی شرع بيان کی گئی ھے، کے مطالعہ سے ھو جاتی ھے ۔ حضرت عليم نے انسان کو علم عطا فرمايا ھے، اس پر واجب ھے کہ اس علم سے اپنی ذات اور ارد گرد اپنے پياروں کو اس علم سے نفع پہنچائے اور يہ تب ھی ممکن ھے جب انسان غور و فکر کو اپنائے ۔ خدا نے انسان کو غور و فکر کی تاکيد فرمائی ھے ۔ جب انسان غور و فکر کے عمل سے گزرتا ھے تو اس پر يہ حقيقت کھلتی ھے کہ احسان کرنا اور احسان کا بدلہ چکانا ايسی خوبياں ھيں جو اللہ کے بندوں کے لئے بہت نفع رساں ھيں ۔ اس عمل کو سراھا گيا ھے اور قرآن پاک ميں رب کائنات کا واضح اعلان ھے ''اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے ساتھ ھے'' ۔

تیس سیکنڈ



''زندگی ایک ایسا سرکس ھے جس میں آپ نے دو ھاتھوں سے پانچ گیندوں کو ھوا میں بلند رکھنا ھے ۔ یہ پانچ گیندیں
 ۔ کام
۔ خاندان
۔ صحت
 ۔ دوست
۔ مذھب

 ھیں ۔ آپ کو احساس ھو چکا ھو گا کہ ان پانچ گیندوں میں صرف کام ھی ایسی گیند ھے جو ربر کی بنی ھوئی ھے اور اچھل کر دوبارہ آپ کے ھاتھ میں آ جاتی ھے ۔ جبکہ باقی چاروں گیندیں شیشے کی بنی ھوئی ھیں ، ان میں سے کوئی بھی گر جائے تو ان پر خراش آ سکتی ھے ، دراڑ پڑ سکتی ھے حتی کہ ٹوٹ بھی سکتی ھے اور ٹوٹی ھوئی گیند کبھی اچھل کر ھاتھ میں واپس نہیں آتی ۔ کام کے اوقات میں دلجمعی سے کام کریں ۔ وقت پر گھر جائیں، خاندان ، دوستوں اور مذھب کو مطلوبہ وقت دیں اور پر سکون ھو کر سوئیں ''۔ 

یہ کوکا کولا کمپنی کے سابقہ چیف ایگزیکٹو آفیسر مسٹر بارائن ڈائسون کی 30 سیکنڈ کی تفربر کا اردو ترجمہ ھے ۔

جمعرات، 6 نومبر، 2014

قرض اور فرض

قرض اور فرض اپنے ظاھر کے موافق مطلب اور معنی ميں بھی بہت قريب ھيں ۔ قرض ايک ايسی ذمہ داری ھے جو دنياوی معاملات ميں مستعمل ھے اور فرض ان ھی معنی ميں دينداری ميں ذمہ داری ھے ۔ قرض سے چھٹکارا ممکن نہيں ھے الا يہ کہ قارض کو ادا کر ديا جائے يا معاف کرا ليا جائے ۔ یہ ايسی ذمہ داری ھے جس کی ادائيگی کی تاکيد ميں اصرار ، مبالغہ کی حد تک کيا گيا ھے ۔ شہيد، جو خدا کی توجہ اور مہربانی کا زيادہ مستحق ھوتا ھے ، کو بھی قرض کی ادائيگی معاف نہيں ھے ، بلکہ اصحاب رسول صل اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں سے بعض اپنے بلند وعالی مقام کے باوجود ، جہاد کے دوران مقام شہادت پر فائز ھونے سے قبل اپنے قرض کی ادائيگی کی ذمہ داری کسی ذمہ دار شخص کو سونپا کرتے تھے ۔ جس سے قرض کی ادائيگی کی اہميت اور ضرورت واضح ھوتی ھے ۔ اگر مقروض دنيا ميں اپنا قرض ادا نہ کر پائے تو روز جزاء قارض کو حق ديا جائے گا کہ وہ سکہ رائج اليوم جزاء يعنی حسنات کی صورت اپنا قرض وصول کر لے ۔ يہ ايسا دن ھو گا جو بڑے بڑے پارسا اور عابدوں پر بھاری ثابت ھو گا ۔ اس خطرہ کو پيش لظر رکھتے ھوئے علماء اور اولياء نے بھوک و ننگ کی زحمت برداشت کر لی مگر قرض سے دور رھے ۔ موجودہ دور ميں مقروض دو اقسام ميں سے ايک قسم پر ھيں ۔ پہلی قسم ان بے بس مقروضوں کی ھے جو اپنے فرئض ادا کرتے ھوئے قرض کی دلدل يں پھنس گئے ايسے مقروضوں کے ليے اللہ ان کی ز‍ندگی ميں ھی مدد دے گا، نيت کی درستگی کے ساتھ قبل سحر کا وقت ايسے ھی مجبوروں کی دعاوں کے لیے مختص ھے'' تاکہ اللہ تیری اگلی پچھلی کوتائیاں معاف کرے''[الفتح:2] اس وقت مالک کائنات اپنے لا محدود خزانوں کے ساتھ اپنے بندوں کی حاجات پوری کرنے کے ليے بے تاب ھوتا ھے ۔ اللہ کے خزانے بہت وسيع ھيں اور انسان کی سوچ محدود ھے
 دوسری قسم کے مقروض وہ ھيں جنھوں نے اپنی زبان کے چسکے اور لقمہ شيريں اوراپنے لباس فاخرہ کے ليے کريڈٹ کارڈ استعمال کیا يا اپنی قوت خريد سے زيادہ قيمتی سواری اقساط پر خريد لی ۔ اس قسم کے مقروض اپنے اعمال سے نصيحت حاصل کريں اور اپنی خواھشات اور ضرورت کے فرق کر سمجھيں ۔ بچی کی سکول کی فيس وقت پر جمع کرانا ضرورت ھے اور اچھے ريستوران میں خود کو 
Treat 
 دينا خواھش ھے ۔ ماں کے ليے نئے نمبر کے چشمے خريدنا ضرورت ھے ليکن انٹرنيٹ پر بے مقصد 
surfing 
خواھش ھے ۔ خواھشات کوقناعت کے ذريعے قابو ميں لانا ھی عقلمندی کا راستہ ھے ۔ دوسروں کے تجربے سے سيکھنے والا عقلمند ھے تو اپنے ھی تجربہ سے سبق نہ حاصل کرنے والا عقلمندی کا دعويدار ھی ھو سکتا ھے ۔ قرض ادا کيے بغير چارہ نہيں ھے ، انسان کو قرض اتارنے کی بہت سعی و کوشش کرنی چاھيے کہ مقروض کا جنازہ تک پڑھانے سے اجتناب کيا گيا ھے ۔ قرض کی طرح فرض بھی بڑی ذمہ داری ھے اور فرائض ميں نماز کی ادائيگی سر فہرست ھے ، يہ ايسا فرض ھے جس کی ادائیگی کے وقت طواف کعبہ بھی رک جاتا ھے ۔ نصیحت زبان سے کی جاتی ھے ۔ اللہ رب العزت نے نصیحت  مگرکتاب کی صورت میں اتاری ۔