allah لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
allah لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 2 دسمبر، 2014

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔

پیر، 1 دسمبر، 2014

حب اللہ


فرمان الہی ھے 'ھم نے ابن آدم کو مکرم بنایا ۔(بنی اسرائیل: 70) یہ خالق کی اپنی اشرف المخلوقات سے محبت کا اظہار ھے۔ اور جب آدم نے کہا ' اے ھمارے رب ھم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اور اگر تو نے ھمیں معافی نہ دی، اور ھم پر رحم نہ کیا تو ھم بڑے نقصان سے دوچار ھو جائیں گے' ۔ تو یہ مخلوق کی اپنے خالق سے امید تھی، اور امید محبت ھی کے درجے میں ھے۔ اور بنی آدم نے محبت کے عملی اظہار کے لیے اپنی پیشانی کو خاک زمین پر رکھ دیا، اور اقرار کیا کہ اللہ سبحان بھی ھے اور اعلی بھی۔ اور ابن آدم کی اپنے رب کے حضور خاک آلودگی کواللہ کے حبیب نے مومن کی معراج قرار دیا۔ یہ محبت ھی کے قول و افعال ہیں ، جو خالق و مخلوق ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔اور اللہ کے رسول اس پر گواہ بنتے ہیں۔ یہ محبت ھی ھے کہ خالق نے فرمایا ' میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا' اور یہ بھی محبت ھی ھے کہ ' ھم تیری ھی عبادت کرتے ھیں اور تجھ سے ھی مدد چاھتے ہیں۔ خالق کی محبت کی انتہا ہے کہ وہ بنی آدم کے شرک تک کو معاف فرما دیتا ھے۔ بنی آدم کی اپنے رب سے محبت کی انتہا یہ ھے کہ وہ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر کے بھی اعتراف کرتا ھے کہ تیری عبودیت کا حق ادا نہ ھوا۔ اور یہ اعتراف بے چارگی اور عاجزی در اصل حب اللہ ھی ھے۔ صیح بخاری میں ھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے خدمت نبوت میں حاضر ھو کر عرض کیا ' یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی' اللہ کے رسول نے دریافت فرمایا ' تم نے اس کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ھے' صحابی نے ندامت کا اظہار کرتے ھوے عرض کیا کہ ' یا رسول اللہ میرے پاس نہ تو نمازوں کا ذخیرہ ھے نہ روزوں کا اور نہ ھی خیرات و صدقات کا۔ جو کچھ بھی سرمایہ ھے وہ خوف خدا اور اس کی محبت ھے اور بس' اللہ کے رسول نے فرمایا ' انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رھے گا' صدق پر مبنی جذبہ محبت بالاخر محب سے محبوب کو ملا دیتا ھے۔ صدق کے اظہار کے طور پر دعویدار کواپنے دل سے دنیا کی محبت کونکالنا ھوتا ھے ، اور اپنی جہالت کو دور کرنا ھوتا ھے کہ جاھل کو اللہ تعالی اپنا ولی نہیں بناتا ۔ عالم جب اپنے علم کو سنت نبوی کے سراج منیر کے نور سے دھو لیتا ہھے تو اس کا کاسہ دل طاھر و معطر ھو جاتا ھے ۔ اللہ خود جمیل ھے اور جمال کو پسند فرماتا ھے اور اس کی محبت بھی صرف پاکیزہ قلوب میں قرار پکڑتی ھے۔ انسان آگاہ رھے کہ اللہ واحد و احد ھےاور وھاں دوئی کا گذر نہیں ھے لہذا حب اللہ بھی صرف اسی دل میں پنپ سکتی ھے جس دل میں اللہ کی محبت کے سوا کوئی دوسری محبت نہ ھو۔ جب انسان اس مقام تک پہنچ جاتا ھے تو اللہ اس سے اس کے قلب کی 'پاکیزگی کے باعث اس سے اپنی پسندیدگی کا اعلان فرماتا ھے '(التوبہ:108)