کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، منزل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔
allah لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
allah لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منگل، 2 دسمبر، 2014
زندگی کی دوڑ
کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، منزل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔
زبان
انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔
پیر، 1 دسمبر، 2014
حب اللہ
جمعہ، 7 نومبر، 2014
حسین اور قرآن
امام حسین نے مسلمانوں کے سیاسی ،مذہبی حالات اور اعتقادات بدلنےکی سعی کے خلاف اور امت محمدی میں حقیقی اسلامی روح کو فعال کرنے کے لیے خدا کے حکم "اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی" (13:11) کی تعبیر کے لیے خروج کیا ۔ اور اس عمل کو حج پر ترجیح دی۔ ہر معاشرے کے مقدر کی لگام اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اور حکومت رعایا کی سوچ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اس قربانی نے نبی پاک کا قول کو سچ کرنے کے لیے کہ " جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے" رعایا اور حکمرانوں کے مابین خون کی لکیر کھینچی۔ امام حسین نے حکم خدا کی تعمیل میں گردنیں کٹائیں ۔اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں آجاﺅ (2:208) اور وقت کے منصف نے ان کو سر خرو ثابت کیا۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ (2:267) پر عمل کرتے ہوے نہ صرف اپنا مال و متاع بلکہ اولاد تک کوراہ خدا میں قربان کر دیا۔ جب معاشرے سے امانت کی قدرو قیمت اٹھ جائے اور عدل کی فراہمی معطل ہو پھر خدا کا حکم آتا ہے ۔ "اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ ( 4:58) اور غصب شدہ امانتوں اور مفقود عدل کی بحالی متبرک خونی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ حسین نے نانا کی امت کے لیے نانا کی پیشگوئی کو سچ کر دکھایا۔ دراصل امام حسین رشتہ داروں اور خود اپنی ذات کی قربانی پیش کر کے حکم خدا "اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو (4:135) پورا کر رہے تھے۔ امام حسین نے صلح کی ہر ممکن کوشش کر کے حکم خدا "اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائیل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجاﺅ (8:61) پر عمل پیرا ہونے کا فرض بھی نبھایا۔ واقعہ کربلا میں حکم خدا "اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو (49:6) کی اہمیت کی وسعت اور گہرائی کھل کر حقیقت آشنا ہوتی ہے۔ واقعہ کربلا رہتی دنیا تک باآواز بلند پکارتا رہے گا۔ "اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کراﺅ ۔ (49:9)
واقعہ کربلا کے اسباق 1۔ اعلی انسانی حقوق کو نہ کہ طاقت کو سماجی زندگی کی بنیاد تسلیم کرتا ہے 2۔ تکمیل ذات اور تکمیل معاشرہ کے لئے قلب وروح اور جسم و اولاد کی قربانی سےہی دونوں جہانوں میں کامیابی وکامرانی ممکن ہوسکتی ہے ۔ 3۔ حق کی راہ پر چلنے کے لئے متحد ہونا لازمی ہے ۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ' حسین' جیسی قربانی شرط اولین ہے۔ 4۔ مطمع نظر محض اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین نہیں بلکہ عدل کو زندگی دینا۔دین کی حرمت کو بچانا اور ظالم کو آشکار کرنا ہو تو شہادت حسین کہلاتی ہے۔ 5۔ مذہب کے بنیادی اصول اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے ذات و خانوادہ قربان کر دیا جائے لیکن تاریخ انسانیت میں یہ فریضہ صرف امام حسین ہی نے ادا کیا۔ 6۔ ایمان ،حیات و موت اور تقدیر اٹل حقیقتیں ہیں۔ 7۔ عبادت ، اخلاق،مقصد اورتقوی کا معیار جتنا ارفع ہو گا۔ قربانی اتنی ہی گہری ہو گی۔ 8۔ طرز حکومت کیسا بھی ہو، فرد کی بر تری کو اہمیت حاصل رہتی ہے 9۔ جن کے پاس زیادہ وسائل ہوں یا جو لوگ کسی خاص خاندان یا گروہ سے تعلق رکھتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کا وارثتی حق نہیں رکھتے۔ 10۔ سچائی ایک طاقت ہے جس سے یہ اصول رد ہوتا ہے کہ طاقت ہی حق ہے۔ 11۔انصاف و عدل کے بغیر حکمرانی کا قائم رہنا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ 12۔عقیدے اور اصول زندگی پر سمجھوتا ان کی موت ثابت ہوتا ہے۔ 13۔ حسین کی راہ پر چلنے والوں سے ذہنی کی آزادی کا حق سلب نہیں کیا جاسکتا 14۔کسی بھی انسان کو ثبوت کے بغیر مجرم نہیں گردانا جاسکتا اور یہ عمل ظلم ہی ثابت ہوا ہے۔ 15۔ مشاورت پر مبنی انتظامی نظامہی قائمرہ سکتا ہے۔ 16۔ معاشرے کےنام پر فرد کے حقوق کو قربان نہیں کیا جاسکتا ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)