byurdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
byurdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

منگل، 14 نومبر، 2017

ہمارا مولا






امریکہ کے صدر جناب ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر نے ان کو ْ بڈھا ْ کہہ کر ان کی توہین کی ہے مگر وہ شمالی کوریا کے صدر جناب کم کو ْ ٹھگنا ْ یا ْ موٹا ْ نہیں کہیں گے ۔ 

اس کو کہتے ہیں کچھ بھی نہ کہنے کا دعویٰ اور کہہ بھی دینا ۔ 

الفاظ کا چناو ایک فن ہے ، اور الفاظ چننے میں کچھ لوگ بڑے فنکار ہوتے ہیں ۔بڑ ے لوگ مگر عام طور پر فنکار ہی ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں امریکی صدر بڑے فنکار ہیں۔ یہ بھی غلط نہ ہو گا اگر ہم کہیں فنکار لوگ بڑ ے ہوتے ہیں۔بڑے ہونے کے لیے کسی نہ کسی فن کا کاریگر یا ماہر ہونا لازمی ہے ۔موجودہ دور میں 
خطابت بڑا ْ زر آمدْ فن ہے، اس فن میں کچھ لوگ بغیر پی ایچ ڈی کے ماسٹر ہوتے ہیں جیسے ہمارے
مولانافضل الرحمن صاحب ۔ اس فن میں کوئی دوسرا مولانا، ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ 

دوسرے کی جیب سے روپیہ نکالنا بھی ایک فن ہے ۔ ہمارے کئی فن کار یہ کام کرتے ہیں اور اس روپے کو عوام کے لئے نفع رسان ادارے بنا کر داد بھی پاتے ہیں۔ایسا ہی ایک فنکار عبدالستار ایدھی بھی تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی جنت میں ، اس بھیک مانگنے والے اور لوگوں کے ناجائز بچے پالنے والے ، کی روح کو سکون دے اور درجات بلند کرے۔وہ عمر کے آخری حصے تک ْ بڈھا ْ ہوا نہ اس کا قد ْ ٹھگنا ْ تھا ۔ البتہ وہ مولانا ضرور تھا ۔ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے
ْ ہمار ا مولا ْ 

بدھ، 14 جنوری، 2015

کتا کی وفاداری کی تعریف


کتا کی وفاداری کی تعریف
۔ بلاشبہ وفاداری ایک خوبی ہے، جو کتے میں پائی جاتی ہے (اور جس سے سب سے پہلے خود انسان کو عبرت پکڑنی چاہئے تھی )
مذمتی خصوصیات
۔ کتے کی سب سے بُری صفت یہ ہے کہ وہ اپنی برادری یعنی کتوں سے نفرت کرتا ہے، اسی وجہ سے جب ایک کتا دُوسرے کتے کے سامنے سے گزرتا ہے وہ ایک دُوسرے پر بھونکنا شروع کردیتے ہیں،
کتا کلچرکی مذمت
جن چیزوں کو آدمی خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، ان کے اثرات اس کے بدن میں منتقل ہوتے ہیں، خنزیر کی بے حیائی اور کتے کی نجاست خوری ایک ضرب المثل چیز ہے۔ جو قوم ان گندی چیزوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرے گی اس میں نجاست اور بے حیائی کے اثرات سرایت کریں گے، جن کا مشاہدہ آج کی سوسائٹی میں کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے ۔ موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو اقوامِ دُنیا میں سب سے زیادہ کتوں سے محبت کرنے والے لوگ ھی لوگوں کے دشمن ھیں ۔
کتوں کے لیے ٹرسٹ
اہلِ یورپ کی کتوں سے محبت کا اندازہ اس واقعے سے خوب لگایا جاسکتا ہے کہ جب انگلستان کی مشہور خاتون ”مسز ایم سی وہیل“ بیمار ہوئی تو اس نے وصیت کی کہ اس کی تمام املاک اور جائیداد کتوں کو دے دی جائے۔ خاتون کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اب اس کی تمام جائیداد کے وارث کتے ہیں، اس جائیداد سے کتوں کی پروَرِش، افزائشِ نسل ایک ٹرسٹ کے تحت جاری ہے۔ ف
رشتہ کتے والے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔
مشکوٰة صفحہ:۳۸۵ میں صحیح مسلم کے حوالے سے اُمّ الموٴمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ: ایک دن صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی افسردہ اور غمگین تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آج رات جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر وہ آئے نہیں، (اس کا کوئی سبب ہوگا ورنہ) بخدا! انہوں نے مجھ سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ پھر یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتے کے پلے کا خیال آیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ چنانچہ وہ وہاں سے نکالا گیا، پھر جگہ صاف کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے وہاں پانی چھڑکا۔ شام ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت فرمائی کہ آپ نے گزشتہ شب آنے کا وعدہ کیا تھا (مگر آپ آئے نہیں)، انہوں نے فرمایا: ہاں! وعدہ تو تھا مگر ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر ہو۔
کتا پالنے کی اجازت
شکار کے لئے، یا غلہ اور کھیتی کے پہرے کے لئے یا ریوڑ کے پہرے کے لئے،اگر مکان غیرمحفوظ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے کتا پالنا علما کے نزدیک صحیح ھے۔
کتا نجس ہے
اس کے جھوٹے برتن کو سات دفعہ دھونے اور ایک دفعہ مانجھنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ نجس برتن تو تین دفعہ دھونے سے شرعاً پاک ہوجاتا ہے۔
پیاسا کتا اور جنت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کے مارے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اُس نے اپنا موزہ اتارا اور اس میں پانی بھر کر اس کو پلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اس کے بدلے جنت میں داخل کر دیا
کتے کا احادیث بخاری میں ذکر
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے( کتے کے شکار کے بارے میں) پُوچھا تو آپﷺ نے فرمایا جب تو اپنا سدھایا ہوا ( شکاری) کتا چھوڑے وہ شکار کو مار دے تو اس کو کھالو، اور اگر وہ اس میں سےکچھ کھالے تو تم مت کھاؤ، اس لیے کہ یہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہے، میں نے عرض کی بسا اوقات میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور اس کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شریک ہوجاتا ہے آپﷺ نے فرمایا: ایسا شکار مت کھاؤ کیوں کہ آپ نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی نہ کہ اس پر۔
کتا کس مٹی سے بنایا گیا
بعض معاشروں میں مشہور ھے کا کتا اسے مٹی سے بنا جس مٹی سے آدم کو بنایا کیا تھا .اللہ تعالی نے جب انسان کو بنایا تو اس کی ناف میں جو گڑھا ہے وہاں سے مٹی نکال کر پھینک دی تو اس مٹی میں شیطان نے اپنا لعاب دہن ملا دیا بھر اس مٹی سے کتا بنایا گیا۔اسی لئے کتے میں وفاداری اور صفات لاجواب ہیں . یہ غلط ہے اور محض من گھڑت قصے ھیں ۔
سیاست میں کتے کا ذکر
کتے کی ذات کا سیاسی استعمال پاکستان میں پہلی بار جنرل پرویز مشرف نے کیا ۔ایک کالم نگار نے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ھوے لکھا کہ نواز شریف کا کتا ، کتا اورعمران کا کتا شیرو
کتے کا لعاب
کتے کے لعاب میں ایک خاص قسم کا زہر ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اور یہی وہ زہر ہے جو کتے کے کاٹنے سے آدمی کے بدن میں سرایت کرجاتا ہے سائنسی تحقیقات کے مطابق کتے کے جراثیم بے حد مہلک ہوتے ہیں، اور اس کا زہر اگر آدمی کے بدن میں سرایت کرجائے تو اس سے جاں بر ہونا اَزبس مشکل ہوجاتا ہے۔
امریکی کتا
طالبان نے دسمبر2013 میں اتحادی افواج کا ایک کتا پکڑا تو معلوم ھوا وہ کرنل ھے ۔
اصحاب کہف اور کتا
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہيں : اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنی کتاب میں اصحاب کھف کی شان بیان کرتےہوۓ اس کتے کا ذکر کرنا اور اس کا غارکی چوکھٹ پرپاؤں پھیلاۓ ہوۓ ہونا اس بات پردلالت کرتا ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت کا بہت عظیم فائدہ ہے ۔ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی اس آيت کی تفسیر بیان کرتےہوۓ کہتے ہيں : ان کا کتا بھی اس برکت میں شامل ہوا اس حالت میں انہیں جونیند آئ اس کتے کوبھی اسی طرح نیندحاصل ہوئ ، اوراچھے لوگوں کی صحبت کا یہی فائدہ ہے ، جس کی بناپراس کتے کا بھی ان لوگوں ساتھ ذکراور شان ومقام ہوا ۔اھـ اوراسی معنی پر انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے آپ نے اس شخص فرمایا جس نے یہ کہا تھا کہ میں اللہ تعالی اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ، تو فرمایا ، تواس کے ساتھ ہی ہوگا جس سے محبت کرتا ہے ۔ بخاری و
مسلم ۔

کتے کی دس صفات 

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.
کہ کتے کے اندر دس صفات ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی انسان کہ اندر پیدا ھو جائے تو وہ ولی اللہ بن سکتا ھے. فرماتے ہیں کہ
1: کتے کے اندر قناعت ہوتی ھے. جو مل جائے اسی پر قناعت کر لیتا ھے. راضی ہو جاتا ھے. یہ قانعین یا صابرین کی علامت ھے.
2: کتا اکثر بھوکا رہتا ھے. یہ صالحین کی نشانی ھے.
3: کوئی اس پر زور کی وجہ سے غالب آجائے تو یہ اپنی جگہ چھڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ھے. یہ راضیین کی علامت ھے.
4: اس کا مالک اسے مارے بھی سہی تو یہ مالک کو چھوڑ کر نہیں جاتا. یہ مریدان صادقین کی نشانی ھے.
5: اگر اس کا مالک کھانا کھا رھا ہو تو باوجود طاقت اور قوت کے یہ اس کھانا نہیں چھینتا،دور سے ہی بیتھ کر دیکھتا رہتا ھے. یہ مساکین کی علامت ھے.
6: جب مالک اپنے گھر میں ہو تویہ دور جوتے کے پاس بیٹھہ جاتا ھے. ادنٰی جگہ پہ راضی ہو جاتا ھے. یہ متواضعین کی علامت ھے.
7: اگر اس کا مالک اسے مارے اور تھوڑی دیر کے لیے چلا جا ئے اور پھر مالک دوبارہ اسے ٹکٹرا ڈال دے تو دوبارہ آکر کھا لیتا ھے اس سے ناراض نہیں ہوتا. یہ کاشعین کی علامت ھے.
8: دنیا میں رہنے کے لئے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا. یہ متوکلین کی علامت ھے.
9: رات کو بہت کم سوتا ہے. یہ محبین کی علامت ھے.
10: جب مرتا ھے تو اس کی کوئی میراث نہیں ہوتی.یہ زاہدین کی علامت ھے.
غور کریں کہ کیا ان صفات میں سے کئی صفت ھم میں بھی موجود ھے!

پیر، 12 جنوری، 2015

جن کا قصہ


جن اور انسان اللہ تعالی کی دو ایسی مخلوق ہیں جو باقی مخلوق سے مختلف اور برتر ہیں ۔ انسان خاکی ہے تو جنات آتشی مخلوق ہے ۔ ایک خاک کا پتلا ہے تو دوسرا آگ کا شعلہ ۔ لیکن انسان ساری مخلوق سے ،حتی کہ جنات سے بھی برتر ہے ۔ محمدعربی رسول اللہ کی بعثت سے قبل عوب معاشرہ جنوں کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے میں شہرت رکھتا تھا ۔ بھارت کے بعض ہندو جنوں کے پجاری ہیں اور بعض انھیں تابع رکھنے اور ان سے کام لینے کا دعوی بھی رکھتے ہیں ۔ مگر جنات کے معاملہ میں عرب ہنود سے بیت آگے تھے ۔ عربوں میں جنات کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے کے عمل نے باقاعدہ ایک پیشہ کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ بعض اوقات عامل مونث جنات سے شادی بھی کر لیتے تھے ۔عربوں کے مطابق جو جنات جنگلوں اور صحراوں میں رہتے تھے اور بھیس بدل کر انسانوں کو دہوکہ دیتے تھے ان کا نام انھوں نے غول رکھا ہوا تھا ۔ اور اس کے مونث کو سعلہ کہتے تھے ۔ عمرو بن یربوع نامی عامل نے ایک سعلہ سے شادی بھی کر رکھی تھی ۔اور اس سے اس کی اولاد بھی ہوئی تھی ۔‍ قرآن مجید میں جس ملکہ بلقیس کا ذکر ہے اس کے بارے میں یمنیوں اور عربوں کا اعتفاد تھا کہ وہ ایک سعلہ ہی کے پیٹ سے تھی ۔ عربوں کے اعتقاد کے مطابق جنوں کے کی کئی اقسام اور قبیلے تھے ۔ ابسے جنات جو انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ان کا نام عامر تھا ۔ جو جنات لوگوں کو ڈراتے اور خوفزدہ کرتے تھے ان کا نام انھوں نے روح رکھا ہوا تھا ۔ شریر جنات کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جو جن بالکل قابو میں نہ آ سکے اور انسان کے مقابلے پر آمادہ ہو اس کو عفریت کا نام دیتے تھے ۔ حضرت علی کے والد ابوطالب کے بڑے بیٹے کا نام طالب تھا ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور پھر ان کا کوئی پتہ نہ چل سکا ۔ جنات کو تابع کرنے کے عمل میں بعض اوقات جنات عاملین پر حاوی ہو جاتے اوربعض اوقات عامل جنات کو مار بھی دیا کرتے تھے ۔ مشہور ہے کہ طہوی نامی عامل نے ایک بھوت کو جان سے مار دیا تھا ۔ پیشہ ور عاملین کاہن کہلاتے تھے اس کا دعوی تھا کہ جنات ان کے تابع ہیں جو ان کو غائب کی خبریں مہیا کرتے ہیں ۔ ان کا معاشرتی اور معاشی معیار عام لوگوں کے مقابلے میں بہت بلند ہوتا تھا ۔ ماخوذ ازکتاب ' الحیوان جاحظ '

منگل، 2 دسمبر، 2014

وحشی کا قصہ


حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ کے سگے چچا تھے ۔ بہادر اور دبنگ شخصيت کے مالک ، خوش شکل ، خوش اطوار ، زبان کے پکے اور خطرہ کے وقت ثابت قدم رھنے والے ۔ نسبی وجاھت اس کے علاوہ تھی ۔ ايک جنگ کے دوران ان کی تلوار نے اوروں کے ساتھ ايک ايسے سورماء کو بھی کاٹ گرايا جو اپنے قبيلے کا سردار بھی تھا ۔ بدلہ لينے کے ليے قبيلے نے ايک اور جنگ کی تياری شروع کر دی ليکن يہ عام آدمی کا بدلہ نہ تھا ۔ اس کے خاندان کی ايک عورت نے حضرت حمزہ کا کليجہ چبانے کی قسم کھائی اور اس مقصد کے ليے وحشی نامی ايک غلام کو دولت کے لالچ ميں تيار کيا ۔ ياد رھے اس وقت جنگ سورماء اور بہادر جنگجو لوگوں کے درميان ھوا کرتی تھی اور وحشی جيسے غلام کو جس طرح استعمال کيا وہ جنگی روايات کے خلاف اور دھوکہ تھا ۔ جناب امير حمزہ عين جنگ کے گمسان کے وقت جب بہادری کے جوھر دکھا رھے تھے اس وقت وحشی نے انھيں دھوکہ سے شہيد کر ديا ۔ اور اپنی کاميابی کی قيمت وصول کرنے جب مکہ پہنچا تو اس کو سوائے مايوسی کے کچھ حاصل نہ ھوا ۔ اور دولت بھرے وعدے کی ايفا سے انکار کر ديا گيا ۔ وحشی نے اپنے دل ميں کہا کہ ميں حضرت حمزہ کو تو زندہ کر نہيں سکتا ، کيوں نہ اپنی آخرت ھی سنواروں ۔
وہ ايک آدمی کے واسطے سے نبی اکرم سے معافی کا خواستگار ھوا ۔ اپنے جرم کی سنگينی کا بھی احساس تھا ، پوچھا کيا در گذر اور معافی کی گنجائش نکل سکتی ھے ۔ رحمت العالمين کی طرف سے جواب آياھاں
' اگر تو توبہ کر لے تو ضرور گنجائش ھے ۔
وحشی نے پھر کہلوايا کہ ميں ضمانت چاھتا ھوں ۔
حضور اکرم نے فرمايا ميں ضمانت ديتا ھوں ۔
وحشی کا خوف کم نہ ھوا پھر کہلوا بھيجا کہ آپ کے خدا کا يہ فرمان ھے کہ آپ کو خود کسی امر کا اختيار نہيں ھے ۔ ضمانت تو اس کی چاھيے جس کے اختيار ميں کچھ ھو ۔اس پر فرشتے نے رب العالمين کا حکم پہنچايا کہ
جس نے شرک نہ کيا اس کی بخشش اللہ کی مشيت پر ھے
  وحشی کا خوف پھر بھی دور نہ ھوا اور کہلا بھيحا کہ
بخشش کا حال اس کی مرضی پر ھے ، مجھے نہيں معلوم کہ وہ مجھے بخشے گا کہ نہيں لہذا اس سے بہتر شرط چاھتا ھوں تاکہ آپ کی اتباعت ميں آ جاوں، اس پر حکم نازل ھوا کہ
وہ لوگ جنھوں نے کسی دوسرے معبود کو نہ پکارا، کسی شخص کو بلا جرم اور گناہ قتل نہ کيا اور زنا کے مرتکب نہ ھوے ۔ وحشی کا خوف بڑھ گيا اور کہلا بھيجا کہ ميں تو تينوں کا مرتکب ھوں وہ مجھے نہيں بخشے گا ۔ اس سے بہتر کوئی شرط ھو تو ميں حاضر ھوتا ھوں ۔
 جواب آيا مگر جس نے توبہ کی اور عمل صالح کيا ۔ خوف زدہ کا خوف دور نہ ھوا ۔ کہلا بھيجا کہ ايمان تو لے آوں گا مگر عمل صالح کی شرط پوری نہ کر سکوں گا ۔ اس سے بہتر شرط ھو تو حاضر ھوتا ھوں ۔
اس پر قرآنی فرمان آيا ' کہدو، اے ميرے بندے ، جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کيا ھے ، رب کی رحمت سے مايوس نہ ھونا ، اللہ تمام گناھوں کو معاف کر دے گا ۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحمت کرنے والا ھے' ۔
اس پر وحشی مطمن ھو گيا اور دربار نبی ميں حاضر ھو کر مسلمان ھو گيا۔ بعد میں وحشی نے جنگ یمامہ میں خالد بن ولید کے زیرکمان  مسیلمہ کذاب کوقتل کر کے اھل ایمان کے دلوں کو راحت پہنچائی ۔
اے اللہ ، اے محمد کے رب ، اے وحشی کو معاف کرنے والے کريم ، اگر تو نے ھم سے بڑے کسی گناہگار کو معاف کيا ھے تو ھميں بھی بخش دينا اور محشر کے دن ذلت اور ندامت سے محفوظ رکھنا اور چشمہ کوثر سے سيراب کرنا ۔ امين

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔

دو فرشتے


بابل میں وہ کنواں دیکھنے کی خواہش پر گائیڈ ہمیں کنویں تک لے گیا اور ہمیں کنویں کے متولی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں دونوں الٹے لٹکے ہوہے فرشتوں کا دیدار کرانا تھا۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ ہماری گناہگار آنکھیں فرشتوں کو دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ مذہبی کتب میں ان دو فرشتوں کا ذکر موجود ہے جو آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان دو فرشتوں کی کہانی یوں ہے کہ یہ لوگوں پر سحر ، کالا جادو اور عملیات وغیرہ کاعمل کیا کرتے تھے اور اس کام کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔پھر ان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ بعض روائت کے مطابق وہ ستارے کی شکل میں آسمان پر ہیں اور متولی کا اصرار تھا کہ وہ اسی کنویں میں الٹے لٹکے ہوے ہیں اور یہ قیامت تک اسی حالت میں رئہں گے۔ یہ روائت بنی اسرائیل کی ان روایات میں سے ہے جن کو اسلام نے بھی اپنا لیا ۔ ما فوق الفطرت چیزیں ، جن ، فرشتے ، سحر اور کہانت انسان کے لیے 
بڑی دلچسپی کے موضوع رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ان چیزوں کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوا ہے کہ ان عملیات 
سے انسانی فطری خواہشات حسد ، کینہ اور انتقام پوری کی جا سکتی ہیں۔ اس تصور کو پھیلانے میں 
الیکٹرانک میڈیا کا بڑا کردار ہے
  ۔ اعتقاد کو مستحکم کرنے میں قصے ، حکایات اور سنی سنائی کہانیاں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنات کی حکایات کا بالائی سرا حضرت سلیمان نبی اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر اس میں تقدس پیدا کیا جاتا ہے اور سحر وجادو کی اہمیت اس سوال کے ذریعے اجاگر کی جاتی ہے کہ " کیا رسول اللہ پر لبید نامی یہودی نے جادو نہ کیا تھا۔" قرآن پاک میں فرعون مصر اور حضرت موسی نبی اللہ کے قصے میں ہے کہ "جادو گروں کے جادو سے انہیں خیال ہوتا ہے۔کہ وہ دوڑ رہے ہیں "۔ (طہ ۔66 ) لفظ خیال غور طلب ہے۔ اعتقاد کے ساتھ جڑی دولت کا اندازہ لگانے کے لیے عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔ جاہلیت کا یہ کھیل طویل مدت سے جاری ہے۔ اور کھلاڑی بار بار المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ان حالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے ، اب تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔جب کوئی منفی عمل فلاش پوائنث بن جاتا ہےتو معاشرہ پر منفی انداز میں اثرانداز ہوتا ہے۔پاکستان چونکہ مخصوص طبقات کے لیے آزاد تر ملک ہے ، اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر مشورہ یہی ہے کہ اپنے خاندان اور خاص طور پر نوجوانوں کو ٹی وی کے ابسے پروگرامز سے دور رکھیں ورنہ منفی اثرات آپ کے گھر کا رخ اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ۔جن کی دسترس میں ہے انھیں عاملوں کے اشتہارات دیواروں پر لکھنے ، اخبار و رسائل میں چھاپنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور میڈیا میں ان حوصلہ شکنی کریں۔ کہ اصلاح کا عمل تمام خیر و بھلائی کی جڑ ہے۔

پیر، 1 دسمبر، 2014

حب اللہ


فرمان الہی ھے 'ھم نے ابن آدم کو مکرم بنایا ۔(بنی اسرائیل: 70) یہ خالق کی اپنی اشرف المخلوقات سے محبت کا اظہار ھے۔ اور جب آدم نے کہا ' اے ھمارے رب ھم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ، اور اگر تو نے ھمیں معافی نہ دی، اور ھم پر رحم نہ کیا تو ھم بڑے نقصان سے دوچار ھو جائیں گے' ۔ تو یہ مخلوق کی اپنے خالق سے امید تھی، اور امید محبت ھی کے درجے میں ھے۔ اور بنی آدم نے محبت کے عملی اظہار کے لیے اپنی پیشانی کو خاک زمین پر رکھ دیا، اور اقرار کیا کہ اللہ سبحان بھی ھے اور اعلی بھی۔ اور ابن آدم کی اپنے رب کے حضور خاک آلودگی کواللہ کے حبیب نے مومن کی معراج قرار دیا۔ یہ محبت ھی کے قول و افعال ہیں ، جو خالق و مخلوق ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔اور اللہ کے رسول اس پر گواہ بنتے ہیں۔ یہ محبت ھی ھے کہ خالق نے فرمایا ' میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا' اور یہ بھی محبت ھی ھے کہ ' ھم تیری ھی عبادت کرتے ھیں اور تجھ سے ھی مدد چاھتے ہیں۔ خالق کی محبت کی انتہا ہے کہ وہ بنی آدم کے شرک تک کو معاف فرما دیتا ھے۔ بنی آدم کی اپنے رب سے محبت کی انتہا یہ ھے کہ وہ اپنی جان کا نزرانہ پیش کر کے بھی اعتراف کرتا ھے کہ تیری عبودیت کا حق ادا نہ ھوا۔ اور یہ اعتراف بے چارگی اور عاجزی در اصل حب اللہ ھی ھے۔ صیح بخاری میں ھے کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے خدمت نبوت میں حاضر ھو کر عرض کیا ' یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی' اللہ کے رسول نے دریافت فرمایا ' تم نے اس کے لیے کیا سامان تیار کر رکھا ھے' صحابی نے ندامت کا اظہار کرتے ھوے عرض کیا کہ ' یا رسول اللہ میرے پاس نہ تو نمازوں کا ذخیرہ ھے نہ روزوں کا اور نہ ھی خیرات و صدقات کا۔ جو کچھ بھی سرمایہ ھے وہ خوف خدا اور اس کی محبت ھے اور بس' اللہ کے رسول نے فرمایا ' انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رھے گا' صدق پر مبنی جذبہ محبت بالاخر محب سے محبوب کو ملا دیتا ھے۔ صدق کے اظہار کے طور پر دعویدار کواپنے دل سے دنیا کی محبت کونکالنا ھوتا ھے ، اور اپنی جہالت کو دور کرنا ھوتا ھے کہ جاھل کو اللہ تعالی اپنا ولی نہیں بناتا ۔ عالم جب اپنے علم کو سنت نبوی کے سراج منیر کے نور سے دھو لیتا ہھے تو اس کا کاسہ دل طاھر و معطر ھو جاتا ھے ۔ اللہ خود جمیل ھے اور جمال کو پسند فرماتا ھے اور اس کی محبت بھی صرف پاکیزہ قلوب میں قرار پکڑتی ھے۔ انسان آگاہ رھے کہ اللہ واحد و احد ھےاور وھاں دوئی کا گذر نہیں ھے لہذا حب اللہ بھی صرف اسی دل میں پنپ سکتی ھے جس دل میں اللہ کی محبت کے سوا کوئی دوسری محبت نہ ھو۔ جب انسان اس مقام تک پہنچ جاتا ھے تو اللہ اس سے اس کے قلب کی 'پاکیزگی کے باعث اس سے اپنی پسندیدگی کا اعلان فرماتا ھے '(التوبہ:108)

جمعہ، 7 نومبر، 2014

عافیت سے جینا سکون سے مرنا



زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور
Option
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ
Hints
 عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔
 ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

حزن اور خوف



اللہ سبحان تعالی کا قرآن پاک ميں ارشاد ھے ' بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی 
خوف ھو گا نہ حزن' [يونس:62] ماضی کی تلخيوں،تقصيروں،غلطيوں اور محروميوں کو 'حزن' اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات اور خسارے کے ڈر کا نام 'خوف' ھے ۔ اللہ کے دوست وہ ھيں جو حزن کو پچھتاوہ بنا کر حال کو بھولتے نہيں ھيں بلکہ وہ اس کو اپنے حال کی تعمير کے ليے بنياد بناتے ھيں ۔ ماضی ھماری گرفت سے نکل چکا ھوتا ھے،اس پر پچھتاوا وقت کے ضياع کے علاوہ کچھ نہيں ھے اور خوف کا سبب بھی حال کی بے عملی ھی کی وجہ سے ھی ھوتا ھے ۔ اللہ کے دوست حزن و خوف سے بالاتر ھو کر حال کے بہتر استعمال کا فيصلہ کرتے ھيں ۔ انسان کا خالق انسان کو عمل کے ليے متحرک کرنا چاھتا ھے اور اسے اپنے حال یعنی آج کی بہتری کے ليے ترغيب دے رھا ھے ۔ آج کے فيصلے ھی انسان کے بس ميں ھيں ۔ آج کا عمل ھی خوف سے بچا سکتا ھے اور حزن کا مداوا بن سکتا ھے ۔ دينی تعليمات کا توبہ کے عمل پر بہت زور ھے اور يہ عمل آج ھی ممکن ھے ۔ جس کا آج بے عمل ھے بے شک اس کے ليے خوف ھے ۔ فیصلہ، ارادہ اور سوچ ھی عمل کو جنم ديتے ھيں ۔ کہا گيا ھے کہ اعمال کا دار و مدار نيتوں پر ھے ۔ اچھے عمل کی نيت کرنا قابل ستائش ھے اور یہ آج ھی کرنے کا عمل ھے ۔ کہاوت ھے کہ کل کس نے ديکھا ۔ ھر وہ عمل جو ماضی کے تجربے سے کشيد کيا جائے بہتر مستفبل کی نويد لاتا ھے ۔ مشہور ماھر نفسيات ڈاکٹر صوائن ڈائر نے کہا تھا کہ ''جب آدمی موجودہ وقت [آج] ميں اپنے دل و دماغ [سچائی] کے ساتھ کوئی کار انجام ديتا ھے تو اسکی کاميابی کے سامنے کوئی ديوار کھڑی نہيں رہ سکتی'' ۔ تسليم شدہ حقيقت ھے کہ ذاتی زندگی ميں شفافيت اور سچائی اختيار کرنا ، اپنی نيت اور ارادے کو اپنی ذات کے فائدے کے ليے مثبت رکھنا، اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا اور دوسروں کے بارے سوچ کو مثبت رکھنا کاميابی کا راستہ ھے ۔ اور اسی کا نام 'توبہ' ھے ۔ یہ آج کرنے والا عمل ھے جو حزن کا مداوا کرتا اور خوف سے بھی محفوظ رکھتا ھے اور اللہ خود توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ھے [البقرہ:222]