islamabad لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
islamabad لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 3 مئی، 2019

بندہ نواز


اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ" :(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ   زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا  :  " وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ، اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا  اور جس کسی نے اس اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو  نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل   و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ، خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37) انسان زمین  پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔ (البقرہ: 57) کبھی زمین   پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے  کی آزادی عطا فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔ (البقرہ: 107)  

بدھ، 1 مئی، 2019

وقت

یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔ جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔ ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

ہفتہ، 25 نومبر، 2017

فیض آباد دھرنے کی روداد



* سپریم کورٹ کے حکم پر رات بارہ بجے شروع ہونے والا "دھرنا ہٹاو" اپریشن ، بلند درگاہ گولڑہ شریف کی درخواست پرحکومت نے ملتوی تو کر دیا گیا ۔ مگر صبح سات بجے یہ اپریشن شروع کر دیا گیا، جس میں پولیس، رینجرز اور ایف سی نے حصہ لیا۔ مجموعی طور پر سیکورٹی کے 8500 جوانوں نے اس میں حصہ لیا۔


*فیض آباد ، راولپنڈی اور اسلا�آباد کو ملانے والا اہم اور مصروف ترین راستہ ہے۔ یہاں پانچ سڑکیں آپس میں ملتی ہیں۔ ایک روڈ جس کو آئی جے پی روڈ کہا جاتا ہے جی ٹی روڈ سے آتی ہے جس پر صوبہ کے پی کے سے آنی والی ٹریفک چلتی ہے ، پیر ودہائی اور دوسرے معروف شہروں کو جانی والی گاڑیوں کے اڈے بھی اس سڑک پر واقع ہیں۔
دوسری بڑی گذرہ گاہ مری روڈ ہے جس سے راولپندی کے رہائشی اسلا�آباد میں داخل ہوتے ہیں، تیسری وہ ہائی وے ہے جس پر لاہور کی جانب سے آنے والی ٹریفک چلتی ہے۔ چوتھی سڑک مری کی طرف سے آنے والی ٹریفک کی گذرگاہ ہے اور پانچویں شاہراہ اسلام آباد میں داخل ہونے کا بنیادی اور مصروف ترین رستہ ہے۔ یہاں ٹریفک کا بہاو اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ فیض آباد کے مقام پر ایک بڑا اوروسیع پل ( فلائی اور) بنایا گیا ہے ، دھرنا کے قائدین پل کے اوپر اس مقام پر تشریف فرما ہیں کہ پانچوں راستے ان کے قدموں کے نیچے ہیں اور نگاہوں کے سامنے ہیں۔


*پولیس نے اس ااپریشن کے لیے کافی تیاری کی ہوئی تھی۔ ان کی حکمت عملی کا اساسی نقطہ یہ تھا کہ کسی کو جانی نقصان پہنچائے بغیردھرنے والی جگہ کو واگذار کرایا جائے۔اس اپریشن کو عملی جذبے اور مربوط حکمت عملی سے شروع کیا گیا، تمام راستوں پر کنٹینر لگا کر اہل دھرنا کو پہلے ہی محصور کیا جا چکا تھا، پولیس نے پتھراو کر کے دھرنے کے کارکنوں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کو مرکزی مقام سے کنٹینرز کے عقب تک آنے پر مجبور کیا، جب مرکزی قام پر صرف قائدین اور سو ڈیڑھ سو کے درمیان کارکن رہ گئے تو آگ کے شعلے پھینک کر رہائشی خیموں کو نذر آتش کر دیا۔ اور پھر کثیر مقدار میں آنسو گیس پھینک کر ساری رات کے بیدار قائدین کو نڈھال کر دیا۔ پروگرام کے مطابق اس مرحلے پر پانی والی توپ سے ٹھنڈا پانی برسا کر قائدین کو جگہ چھوڑنے پر مجبور کر دینا شامل تھا، مگر اس مرحلے پر پولیس کی حکمت عملی پر ہی پانی پھر گیا۔ اور شاہدین نے پولیس کو عجلت میں دھرنے کی جگہ چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جاتے 
دیکھا۔



* اس دوران پولیس تقریبا دو سو افراد کو گرفتار کر کے اور ان کو قیدیوں کی گاڑیوں میں بند کر چکی تھی۔ اس دوران اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ۲۸ اور راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ۱۲ زخمیوں کو لایا گیا 
جن میں پولیس کے جوان بھی شامل تھے۔ پولیس کے ایک جون کی ہلاکت کی البتہ تصدیق نہ ہو سکے۔


*نومبر ۲۰۱۷ کے اس اپریشن نے نومبر ۲۰۰۷ کے اس اپریشن کی یاد تازہ کرا دی جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا اور ناکام ہو گیا تھا۔ یہ اپریشن بھی ناکام ہوا۔ دھرنا قائدین کی کمک کے لیے راولپندی، اسلام آباد سے بڑی کمک میسر آ گئی۔ اور میدان اہل دھرنا کے نام رہا۔

*جب پولیس میدان چھوڑ کر اسلام آباد کی طرف جا رہی تھی ، اس وقت کسی ذمہ دار پولیس افسر کے پاس بات کرنے کا وقت تھا نہ ہی الفاظ۔ بد دلی اور یاسیت کے ملے ملے جذبات البتہ غالب تھے۔ صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ اپریشن چھوڑ کر واپسی کا حکم آیا ہے۔


*بعد میں معلوم ہوا کہ پاک فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے طے کیے جائیں۔


*اس افراتفری میں بعض مقامی لوگوں نے جن کو معلوم تھا کہ سابقہ وزیر داخلہ کا گھر فیض آباد میں ہے ان کے گھر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی مگر صرف بیرونی گیٹ ہی کو نقصان پہنچا سکے۔




*دھرنا قائدین نے جس جرات اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب ان کے کارکن ان سے دور جا چکے تھے، ان کے گرد گھیراو تنگ کیا جا چکا تھا، اس دوران بھی ان کے جذبے کا قائم رہنا اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا، ایسا عمل ہے جو ان کے اپنے کاز سے مخلص ہونے کا پتہ دیتا ہے۔


*اس دوران چند سیاسی لوگوں کے بیان آنا بھی ہوا کے رخ کا پتہ دیتا ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کے سربراہ اور

اے این پی کے رہنماء جناب افراسیاب خٹک کے بیان قابل ذکر ہیں۔

*یہ بھی دیکھا گیا کہ کہ کچھ لوگ جو دھرنے میں شامل ہی نہیں تھے اور اس پل پر کھڑے تھے جو قائدین دھرنا کے بالکل سامنے ہے، ان کے پاس ایسی بندوقیں تھیں جن سے پولیس والوں پر ٓنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔


*یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دھرنا قائدین کو صوبہ کے پی کے سے بڑی تعداد میں علماء اور شیوخ نے ذاتی طور پر آ کر نصرت اور یک جہتی کا اعلان کیا ، مگر عملی طور پر صرف سندھ اور پنجاب ہی بند ہوا مگر پشاور میں کوئی دھرنا نہ ہوا ۔ جبکہ فیض آباد میں دھرنا قائدین کی امیدیں اس کے بر عکس تھیں۔

*اس دھرنے میں مذہبی عنصر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ البتہ سیاسی کردار کی حقیقت چند دنوں میں واضح ہو جائے گی۔

*بعض مذہبی جماعتوں او ر تنظیمیوں کی طرف سے ملا جلا رد عمل بھی چند دنوں تک ، دھندلی تصویر کو واضح کر دے گا۔

منگل، 2 دسمبر، 2014

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔

اے اللہ تيرا شکر ھے


ايک بزرگ نے اپنی کتاب ميں معاشرے کی غربت کی تصوير کشی کرتے ھوۓ لکھا تھا کہ گوشت اس وقت کھايا جاتا تھا جب کوئی انسان بيمار ھوتا يا کوئی جانور۔ يہ کوئی شرم کی بات نہ تھی بلکہ حقيقت تھی۔ اس وقت ھم اسی طرح کے غريب تھے کہ گوشت کھانے کی بنيادی ضرورت سے محروم تھے ۔ شادی بياہ ميں ايک کھانا ھوتا تھا اور وہ بھی نہاہت معمولی ۔ آج 2018 ميں جب اس علاقے کی آبادی 7 گنا بڑھ چکی ھے ، اعداد و شمار اٹھا کر ديکھ لیجيے ،ھم اس وقت کی نسبت زيادہ خوراک کھاتے ھيں، مجموعی طور پر صاف پانی کا استعمال زيادہ ھوا ھے۔ گوشت اور پروٹين والی غذا کا تناسب بھی اس وقت کی نسبت کئ گنا بڑھ گيا ھے۔ ھم نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ھنر جان ليا ھے ۔ ھم نے خوراک پيدا کرنے کے ايسے طريقے ايجاد کر ليے ھيں جو ھماری ضرورتوں سے مطابقت رکھتے ھيں۔ [شيور مرغی کی مثال سامنے رھے] ۔ ھم نے پھلوں اور سبزيوں کی پيداوار ميں قابل ذکر ترقی کی ھے۔ بنجر زمينوں کو آباد کيا ھے ۔ اور جہاں سال ميں ايک فصل حاصل کرتے تھے اب اپنی محنت و علم و فراست کے بل بوتے پر کئ فصليں اگاتے ھيں۔ زراعت کے ليے جديد ٹيکنالوجی کو ھم نے اپنی زمينی حقيقت اور رسم و رواج سے ھم آھنگ کر ليا ھے ۔ آمدورفت ے ليے سڑکوں کی لمبائی ميں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ معيار کو بھی بہتر بنايا ھے ۔ بلکہ سواريوں کی تعداد ميں بھی اضافہ کيا ھے ۔ تعليم ميں بھی 1947 ء کی نسبت آگے ھی بڑھے ھيں ۔ انسانی وسائل ميں بھی ھمارا نام اوپر ھی آيا ھے ۔ ذاتی آمدنی کے اعشاريے بھی بڑھے ھی ھيں ۔ ھم نے اپنی دفاعی صلاحيتوں کو معجزے کی حد تک بڑھايا ھے۔ پانی کے بہاوکے رخ موڑ کر ذخيرہ کرنے کے طريقے بہتر کيے ۔ نہروں کا جال بچھانے کے کام کی ابتدا علاقے ميں ھم نے کی ۔ بجلی کا استعمال [لوڈ شيذنگ کے باوجود] پھيلا ھے۔ ھمارا طرز رھاہش و ملبوسات کا معيارعلاقے کے دوسرے ممالک کی نسبت کئ گنا بہتر ھے۔ يہ ناقابل ترديد حقيقت ھے کہ غريب ترين پاکستانی بھی علاقےکے دوسرے ممالک کےغريب ترين سے کئ گنا بہترھے۔ پاکستانی معجزے سرانجام دينے والی قوم ھے۔ اس قوم نے کسی کام کو مشکل سمجھ کر منہ نہيں موڑا بلکہ مشکل ترين کام کو چيلنج سمجھ کر قبول کيا اور سرخرو ھوئی ۔ ھمارا کام کرنے کا انداز، رھن سہن کا طريقہ ، معاملات کو ديکھنے اور سمجھنے کی اہليت اور ذھنی شعور علاقےکے دوسرے ممالک کے شہريوں سے نہاہت بلند ھے۔ ھم انفرادی و معاشرتی طور پر اپنا رستہ خود بنانے والے لوگ ھيں۔ آزادی کے بعد 70 سال کی مختصرسی تاريخ ميں ھم نے ھرميدان ميں ترقی ھی کی ھے اور انفراديت یہ ھے کہ یہ ترقی اور بلندی ھم نے اپنے علاقاہی رسم و رواج اورقومی روايات کو محفوظ رکھتے ھوے کی ھے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ھے جس کو ھم نہ پہچانتے ھوں۔ ترقی کا کون سا راستہ ھے جس پر ھمارے قدم بڑھ نہ چکے ھوں۔ ھم نے ذاتی حيثيت ميں اپنی صلاحيتوں اور وساہل ميں اضافہ ھی کيا ھے۔ ھميں اپنی حماقتوں اور ناکاميوں کا ادراک ھے ، ھم نے ان سے سبق سيکھا ھے۔ ھماری سمت درست، ھماری سوچ مثبت اورھمارا ولولہ جوان ھے۔ ھم رستے کی پہچان رکھتے ھيں اور منزل بھی قلب و ذھن ميں واضح ھے۔ قائد کی فراست و احسان ھمارے دل ميں ھے ، اقبال کا درس ھم بھولے نہيں ، محمد صل اللہ عليہ وسلم کی آواز پر ھم نے لبيک کہا ھے اور اپنے رب کی رحمت سے ھم مايوس نہيں ھيں۔ اے اللہ تيرا شکر ھے۔

دو فرشتے


بابل میں وہ کنواں دیکھنے کی خواہش پر گائیڈ ہمیں کنویں تک لے گیا اور ہمیں کنویں کے متولی کے حوالے کر دیا جس نے ہمیں دونوں الٹے لٹکے ہوہے فرشتوں کا دیدار کرانا تھا۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ ہماری گناہگار آنکھیں فرشتوں کو دیکھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتیں۔ مذہبی کتب میں ان دو فرشتوں کا ذکر موجود ہے جو آزمائش کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان دو فرشتوں کی کہانی یوں ہے کہ یہ لوگوں پر سحر ، کالا جادو اور عملیات وغیرہ کاعمل کیا کرتے تھے اور اس کام کی تربیت بھی دیا کرتے تھے۔پھر ان سے کوئی ایسی لغزش سرزد ہوئی کہ بعض روائت کے مطابق وہ ستارے کی شکل میں آسمان پر ہیں اور متولی کا اصرار تھا کہ وہ اسی کنویں میں الٹے لٹکے ہوے ہیں اور یہ قیامت تک اسی حالت میں رئہں گے۔ یہ روائت بنی اسرائیل کی ان روایات میں سے ہے جن کو اسلام نے بھی اپنا لیا ۔ ما فوق الفطرت چیزیں ، جن ، فرشتے ، سحر اور کہانت انسان کے لیے 
بڑی دلچسپی کے موضوع رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ان چیزوں کے بارے میں یہ تصور مضبوط ہوا ہے کہ ان عملیات 
سے انسانی فطری خواہشات حسد ، کینہ اور انتقام پوری کی جا سکتی ہیں۔ اس تصور کو پھیلانے میں 
الیکٹرانک میڈیا کا بڑا کردار ہے
  ۔ اعتقاد کو مستحکم کرنے میں قصے ، حکایات اور سنی سنائی کہانیاں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جنات کی حکایات کا بالائی سرا حضرت سلیمان نبی اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ کر اس میں تقدس پیدا کیا جاتا ہے اور سحر وجادو کی اہمیت اس سوال کے ذریعے اجاگر کی جاتی ہے کہ " کیا رسول اللہ پر لبید نامی یہودی نے جادو نہ کیا تھا۔" قرآن پاک میں فرعون مصر اور حضرت موسی نبی اللہ کے قصے میں ہے کہ "جادو گروں کے جادو سے انہیں خیال ہوتا ہے۔کہ وہ دوڑ رہے ہیں "۔ (طہ ۔66 ) لفظ خیال غور طلب ہے۔ اعتقاد کے ساتھ جڑی دولت کا اندازہ لگانے کے لیے عامل کی اس میزان کا تصور کیجیے ، جس کے ایک پلڑے میں انتقام، عداوت ، غصہ اور کینہ رکھا جاتا ہے تو دوسرے پلڑے میں دولت رکھ کر اسے برابر کیا جاتا ہے۔ جاہلیت کا یہ کھیل طویل مدت سے جاری ہے۔ اور کھلاڑی بار بار المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ان حالات کی حوصلہ شکنی کی بجائے ، اب تفریح کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔جب کوئی منفی عمل فلاش پوائنث بن جاتا ہےتو معاشرہ پر منفی انداز میں اثرانداز ہوتا ہے۔پاکستان چونکہ مخصوص طبقات کے لیے آزاد تر ملک ہے ، اس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر مشورہ یہی ہے کہ اپنے خاندان اور خاص طور پر نوجوانوں کو ٹی وی کے ابسے پروگرامز سے دور رکھیں ورنہ منفی اثرات آپ کے گھر کا رخ اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گے ۔جن کی دسترس میں ہے انھیں عاملوں کے اشتہارات دیواروں پر لکھنے ، اخبار و رسائل میں چھاپنے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اور میڈیا میں ان حوصلہ شکنی کریں۔ کہ اصلاح کا عمل تمام خیر و بھلائی کی جڑ ہے۔