جمعہ، 30 نومبر، 2018

نیا امتحان


اس سال 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں ملک کے تمام مسالک ، وفاق ہائے مدارس کے نمائندے ، علماء کرام اور مشائخ عظام شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک اجتماعی بیان یا فتویٰ بھی جاری کیا تھامگر بوجہ اس کے متوقع نتائج سے قوم بہرہ مند نہ ہوسکی۔ اس کے بعد 19 نومبر کو چیف آف آرمی سٹاف نے بیان دیا تھا کہ ملک میں مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی کوششوں کے خلاف ایک نئے بیانئے کی ضرورت ہے۔
ہم اس وقت جس تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، اس تقسیم کے بعد حکومت پاکستان کی حالت بے دست و پا ہونے جیسی ہے۔ معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اور دینی طبقہ وسوسوں کا شکار ہے۔ بے اعتمادی لوگوں کو مایوسی کی طرف لے جا رہی ہے۔مگرپاکستان میں ایک ایسا ادارہ بھی موجود ہے جس نے ہمیشہ تلخ اور جذباتی رویوں کو علمی حکمت وفراست سے تلخیوں کو اعتدال پر لانے میں اپنا کردار مثبت طور پر ادا کیا ہے۔مثال کے طور پر ایک وقت تھا جب مغربی تعلیم سے  متاثرہ لوگوں نے پاکستان میں شور بلند کرنا شروع کیا کہ کم عمر بچیوں کی شادی بنیادی انسانی آزادی کے خلاف ہے۔جبکہ مذہبی طبقے کا خیال تھا کہ یہ اسلامی روایات کا حصہ ہے یوں معاشرہ دو بیانیوں مین بٹنے لگا تو یہ ادارہ سامنے آیا۔ اس نے بتایا اسلامی معاشروں میں شادی دو مراحل پر مشتمل ہوتی ہے ایک مرحلے کا نام نکاح اور دوسرے مرحلے کا نام رخصتی ہے ۔
دو سال قبل عدالت کے سامنے یہ مسٗلہ درپیش تھا کہ ڈی این اے ٹسٹ کو بطور عدالتی ثبوت مانا جائے یا نہیں۔ اس پر بھی اس ادارے نے اپنی علمی رائے پیش کی جس کو فریقین نے تسلیم کیا ۔پاکستان میں ایک مقدمے میں ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے تولیدگی کے عمل پر بھی اس ادارے کی سفارشات کو خوشدلی سے قبول کیا گیا۔ اس ادارےکا نام اسلامی نظریاتی کونسل ہے۔
پاکستان بنا تو ملک کو اُس کے اساسی نظریے یعنی اسلام پر اُستوارکرنے کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کا دستوراِسلامی ہوگا،یاسیکولر ؟جس پر تحریک پاکستان کے وہ رہنمامتفکرہوئے ،جنہوں نے اسلام کے نام پر اِس نوزائیدہ ملک کی بنیادرکھی تھی۔اُن ہی کے ایماء پر لیاقت علی خان قراردادِ مقاصدکی تیاری پرقائل ہوئے اورماہرین نے دستورسازی کے راہنما اصول کے طورپر قراردادِمقاصدکا مسودہ تیارکیا۔جس میں پاکستان کو اسلامی ریاست قراردیتے ہوئے،اسلامی احکام اورقوانین کی معاشرہ میں ترویج اورعمل داری کا عہدکیاگیاتھا۔ قراردادِ مقاصدکو 7مارچ 1949کودستورسازاسمبلی میں پیش کیاگیا۔جسے کافی بحث وتمحیص کے بعد 12اپریل 1949کو اسمبلی نے منظورکرلیا۔ قرارداد مقاصد دستورِ پاکستان میں بالاتر حیثیت کی حامل رہی اور اس میں ضمانت دی گئی تھی کہ ملک کے دستور و قانون کی کوئی شق قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہوگی۔اس کے باوجود ملکی آئین وقوانین کو اسلامی صورت میں منتقل کرنے کا مستقل کوئی آئینی ادارہ موجود نہیں تھا ۔اس خلاکو پُرکرنے کے لیے 1962ء میں آئین کے ارٹیکل 204 کے تحت تشکیل دیے گئے اس ادارے کا نام اسلامی مشاورتی کونسل رکھا گیاتھا۔ 1973ءکے آئین میں اس کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔  قانون پر عمل درآمدکی غرض سے آئین کی دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کا قرآن و حدیث کی روشنی میںجائزہ لے کر 15 دنوں کے اندراپنی سفارشات پیش کرنا ہوتا ہے۔ دستور کی شق نمبر 228 میں یہ کہا گیا کہ اس کے اراکین میں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ممبران کی تعداد کم از کم 8 اور زیادہ سے زیادہ 20 ہوگی جن کا انتخاب صدر پاکستان کریں گے۔ ممبران میں ایسے افراد شامل ہونگے جو اسلامی اصول و فلسفہ کی تعلیم اور معلومات رکھتے ہوں، وہ قرآن و سنت طیبہ ،معیشت اور قانونی و انتظامی امور اور پاکستان کے مسائل سے آگہی رکھتے ہوں۔ دو ممبران سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت اور چار کے لئے کم از کم 15 سال اسلامی تعلیمات و تحقیق کا تجربہ رکھنا لازمی ہے۔ ایک خاتون ممبربھی لازمی ہوگی۔ ممبران کی مدت تین سال رکھی گئی ہے۔
موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل 2016 میں سابق صرر ممنون حسین نے کی ہے جس کے چیرمیں پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب ہیں۔ اس کونسل کا 213 واں اجلاس 27 نومبر کو اسلام اباد میں ہوا جس میں پہلی دفعہ وزارت کے سطح کی دو حکومتی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
حکومت اس ادارے کو جو اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہے کو فعال کر کے اس بند گلی کو کھول سکتی ہے جس میں خود حکومت مزہبی طبقات اور پورا معاشرہ خود کو محصور تصور کرتا ہے۔
کچھ عرصہ سے یہ ادراک حقیقت بنتا جا رہا ہے کہ افراد کی بجائے اصولون کی اور شخصیات کی بجائے اداروں کو متحرک کیا جائے۔ قانون کی حکمرانی کی سمت یہ ایک مثبت اور قابل عمل قدم ہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ عوام بھی شخصیات کی
بجائے اداروں اور اصولوں کی پیروی شروع کر دے گی۔
البتہ یہ موجودہ حکومت کی فراست کا امتحان بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ عوام کی خواہش ہے کہ حکومت اس امتحان سے بھی سرخرو ہو نکلے تاکہ حکمران دلجمعی سے عوام کے اصل مسائل کی طرف توجہ دے سکیں 

پیر، 26 نومبر، 2018

تبلیغ

جناب پروفیسرڈاکٹر محمود علی انجم صاحب نے اپنی کتاب ْ نور عرفانْ میں یہ واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ایک بار مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کچھ شر پسند عناصر نے ہنگامہ برپا کر دیا، ہر طرف شور شرابہ برپا ہو گیا۔ جلسے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے چوٹی کے رہنماء موجود تھے۔رہنماوں نے سامعین کو چپ کرانے کی کوشش کی حتی ٰ کہ نہرو اور گاندہی بھی سامعین کو چپ کرانے میں ناکام رہے۔ جب سب رہنماء ناکام ہو گئے تو قائد اعظم محمد علی جناح سٹیج پر کھڑے ہوئے ، انھوں نے مجمع میں موجود سامعین پر طائرانہ نظر ڈالی اور اپنی شہادت والی انگلی بلند کر کے تحکمانہ لہجے میں بلند آواز سے کہا Silence
مجمع میں ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔

مجھے زندگی میں لا تعداد سیاسی رہنماوں، مذہبی مبلغین ، روحانی شخصیات ، سیلز کی دنیا کے ماہرین کو سننے کے مواقع ملے ہیں ان میں چند ہی لوگ ہیں جن کی باتیں اثر انگیز رہیں۔ ایک درگاہ کے باہر بیٹھا ملنگ ، جو سیف الملوک اس محویت سے پڑہا کرتا تھاکہ راہ چلتے لوگ اس کی ٓواز سن کر کھنچے چلے آتے تھے اس کی آواز میں خداد سحر کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ ملنگ میاں محمد بخش کی شخصیت میں کھو کران کی ذات کا تعارف حاصل کر چکا تھا۔
عوام میں ذات کا تعارف شخصیت کا وہ پہلو ہوتا ہے جو انسان کے اعمال کے بل بوتے پر بنتا ہے ۔ سیرت البنی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ میرا بیٹا گڑ کھانے کا رسیا ہے اس کو نصیحت فرما دیں ۔ ارشاد ہوا کل بیٹے کو لانا۔ مان دوسرے دن بیٹے کو لے کر حاضر خدمت ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے گڑ نہ کھانے کی نصیحت کی تو ماں نے عرض کیا یہی بات آپ کل کہہ دیتے تو ارشاد ہوا کل خود میں نے گڑ کھایا ہوا تھا۔
نصیحت وہی کارگر ہوتی ہے جو ناصح کے یقین کا پرتو ہو۔اصل یہ ہے کہ تبلیغ وہی موثر ہوتی ہے جس پر مبلغ خود بھی عمل پیرا ہو۔عمل سے پہلے کے زینے کا نام ارادہ ہے ۔ ارادے کو عمل کی بنیاد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ارادہ مضبوط ہو گا تب ہی عمل کا روپ دھارے گا۔ارادے سے بھی پہلے خیال نام کا زینہ آتا ہے۔ دل میں پیدا ہونے والا خیال ارادہ تب ہی بنے گاجب اراد پختہ ہو گا۔ارادے کا اظہار زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ صادق زبان سے نکلے الفاظ کی ہیبت ہوتی ہے جو جلسوں میں شر پسندوں کو مرعوب کرتی ہے۔ صادق و امین زبان سے نکلے الفاظ قلوب کو متاثر کرتے ہیں۔ کسی کی ذات میں کھو جانے کے لیے اس ذات کا ملنگ بننا پڑتا ہے ۔ ناصح کی زبان کی زبان اثر پذیر ہونے کے لیے عمل میں استقامت کی متقاضی رہتی ہے۔ تبلیغ کے لیے مبلغ کو عمل کی سیف میان سے نکال کے رکھنا لازم ہے۔ 
شاعر نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے         (علامہ اقبال : جوب شکوہ)

اتوار، 25 نومبر، 2018

ہمارا بیانیہ

ہم ہی اعلی و ارفع ہیں کیلئے تصویری نتیجہ                                     
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اس مرض کے شکار عام طور پر 15 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیںیہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔
ہٹلر کے جرمنی میں گوئبلز نام کا ایک فرد ہوا کرتا تھاجو عام طور پر ناقابل یقین خبر یا واقعے کو افراد کے ذہن میں ڈالتا اور پھر اس خبر کو اس حد تک اچھالنے کا انتطام کرتا کہ لوگ اس پر گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ گوئبلز نے جرمنی اور ہٹلر کے بارے میں لوگوں میں ایسی ایسی داستانیں پھیلا رکھی تھیں جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔البتہ اس عمل کو فن مانا گیا اور سیاست میں اس کا چلن چل نکلا۔اور اس کے شکار ہمیشہ نوجوان ہی رہے۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں، جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو عوام کو بڑی شد ومد کے ساتھ یہ  بتایا جاتا تھا کہ یہ شخص بھارتی ایجنسی "را" کا ایجنٹ اور ہندو ہے اور اس کا اصل نام گھنسی رام ہے اور پاکستان کے ایک سرکردہ صحافی کا یہ دعویٰ ریکارڈ پر موجود ہے۔
بھارت کے شہر ممبی میں مشہور زمانہ دہشت گردی کے ایک واقعے میں اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بارے میں بھارت سے ہی یہ خبر چلی تھی کہ اس کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے اور پھر پاکستان میں اس کا گاوں اور خاندان بھی دریافت ہو گیا مگر اب بھارت ہی سے خبریں آ رہی ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ بھارت سے ہے۔اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار لوگوں کی ذہن سازی میں کس قدرموثر ہے۔اس واقعے سے ذہن سازی کے لیے میڈیا کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹی وی کے ایک پروگرام جرگہ میں کہا ْ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں میڈیا کابڑا کردار ہے ْ 
پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک ، ٹی وی کھولتے تھے تو مخصوص وقت کے بعد طویل مدت کے اشتہارات چلا کرتے تھے۔ یہ اشتہار بین الاقوامی کمپنیوں کے مقبول عام برانڈ کے ہوا کرتے تھے ۔ وہ برانڈ اور اشیاء ا ب بھی موجود ہیں، کنزیومر بھی وہی ہیں مگر چند ماہ سے ٹی وی پر اشتہار غائب ہیں۔
ٹی وی کی آمدن کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات کے مطابق ْ ہماری میڈیا انڈسٹری جو 10 بلین روپے کی تھی اس کو35 بلین تک لے جایا گیا ْ پاکستان میں اشتہارات کے پیسے کو سیاست کے رخ کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور اس حقیقت سے ملک کی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن ۔ ریاستی ایجنسیاں اور خود ٹی وی کی انتظامیہ بھی باخبر تھی۔ مگر بہتی گنگا سے استفادہ نہ کرنا کسی کو بھی گوارا نہ ہوا۔عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد میڈیا سے پچیس بلین روپے کی یہ آمدن یکایک رک جانے کے بعد ہمارے اکثر میڈیا ہاوس مالی بد حالی کا شکار ہو گئے اور بہت سے نام ور اینکر پرسن اور تجزیہ کار میڈیا سے فارغ کیے جا رہے ہیں۔جس ذہن سازی کے لیے ایک بڑی رقم میڈیا انڈسٹری میں انڈیلی گئی تھی ۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اس سرمایہ کاری کو بند کر دیا گیاتو میڈیا انڈسٹری اپنی اصل اوقات پر آجانے کے بعدحکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے ان آنکھوں میں موجود سوال کو حکومت اچھی طرح سمجھتی ہے مگر ان کو میڈیا مینجمنٹ کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا ہاوسز کو زندہ رہنے کے لیے خود کو نا پسندیدہ عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔
ایک چاہت حکومت کی ہوتی ہے اور ایک چاہت عوام کی ہوتی ہے، پاکستان میں دونوں چاہتیں متوازی چلتی ہیں۔ البتہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ دونوں چاہتیں ساتھ ساتھ چلیں۔مگر ایسا بوجہ ہو نہیں پا رہا۔اور اس کے اسباب میں بڑا سبب ہمارے معاشرے میں موجود تقسیم شدہ رجحانات اور سوچ ہیں۔اکہتر سالوں میں جب عوام کو موقع ملتا ہے وہ پارلیمان اور وزیر اعظم لے آتے ہیں۔ جب مقتدر اداروں کو موقع ملتا ہے وہ صدارتی نظام کی بساط کی بچھا کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
ہماری نوجوان نسل جس کو بتایا گیا ہے ساٹھ کے عشرے میں پاکستان جرمنی کو قرض دیا کرتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ میں لاالہ الااللہ نے ہمیں فتح مبین سے ہمکنار کیا تھا۔ اکہتر میں ادہر ہم اور ادہر تم کے سیاسی نعرے نے ہمیں بے دست و پا کر دیا تھا۔ ورنہ ہم نے تو اقوام متحدہ کے ایوانوں میں قراں پاک کی تلاوت کو سربلند کر دیا تھا۔ ہمارا مقام یہ ہے کہ کعبہ میں نماز کے لیے کھڑے ہوں تو امام کعبہ ہمارے لیے اپنا مصلیٰ چھوڑ دیں۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے والے ہم ہی ہیں۔امریکہ کو تگنی کا ناچ ہم ہی نچا رہے ہیں۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں وغیرہ وغیرہ
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اور اپنے ایقان کی آخری حد تک اس کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔یہ بیماری عوام میں ہوا کرتی تھی مگر اب لگتا ہے حکمران بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ 

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد: پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پ...

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں  اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

بدھ، 21 نومبر، 2018

تبلیغی جماعت کے امیر


بزرگان دین نے ان مناظر کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کی ہے جو اسلام کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان مناطر میں بنیادی اور اہم ترین منظر تنظیم کو قائم رکھنا ہے۔ یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے کہ کائنات کا خالق ہی اس کا مالک و مختار ہے۔ سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اسی کا حق و ملکیت ہے۔ اس کے اس حق کو انسان اسی کانمائندہ بن کراستعمال کرتا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جو کہ سرانجام دینا نبی کے بعد کسی اکیلے انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے زمین پر اللہ کا ظل اللہ یا نائب یا خلیفہ یا امیر یا بادشاہ یا صدر یا جو بھی لقب اختیار کر لیا جائے ۔ عوام میں سے چنا جاتا ہے ۔ ایک جماعت شوریٰ کی شکل میں اس کو مدد و نصرت مہیا کرتی ہے۔ اور شوریٰ کے سربراہ کا کیا ہوا فیصلہ قابل تعمیل ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ میں سیاسی اتحا د کے بکھر جانے کے بعد بھی علماء اسلام نے اس منظر کو اپنے طور پر اپنی بساط کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ 
18 
نومبر 2018 کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ؒ کی رحلت کے بعد نئے امیر کے چناو کے موقع پر نوجوان نسل کووہ عمل دیکھنے کا موقع ملا جو تنظیم کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے یعنی مجلس شوریٰ کے نئے امیر کا انتخاب۔
تبلیغی جماعت کا شعار دائرہ اسلام سے باہر لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانا اور دائرۃ اسلام کے اندر مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جس فرد کی قربانی اور ایثار سب سے بڑھ کر ہو تا ہے اسی کو امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تصنیف، خاندان و معاشرتی وجاہت ، زہد و عبادت ، بدنی طاقت و ایمانی قوت کے اعتراف کے باوجود میرٹ صرف اور صرف عملی اخلاص ہی بنتا ہے۔اس کے لیے اہل مشورہ کا امیر کے چناو سے بہت عرصہ پہلے ذہن بن چکا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر اس کا صرف رسمی اعلان ہی کرنا ہوتا ہے۔ 
تبلیغی جماعت کے نئے امیر مولانا نذرالرحمان اطول اللہ عمرہ کے بارے میں شوریٰ اور تبلیغ سے جڑے بزرگوں کا ذہن پہلے ہی بنا ہوا تھاکہ ان کے ایثار کا دوسرا نعم البدل تھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی تبلیغ کی نذر کی ۔ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ ہی کافی ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل اور مولانا جمشید جیسی شخصیات کے استاد ہیں۔عام طور پر ذہن میں آتا ہے کہ استاد اس کو کہا جاتا ہے جو مخصوص اوقات میں مخصوص موضوع پر تعلیم دیتا ہے مگر یہ ایسے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ان میں روحانی عطش پید ا کر کے اسے سیراب بھی کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ باعزت صحافی شہزاد فاروقی نے تبلیغی جماعت کے سابق امیر جناب حاجی عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ایک ذاتی مشاہدہ رقم کیا تھاکہ انھوں نے خود حاجی صاحب کو رات کے آخری پہر لوٹا اور جھاڑو ہاتھ میں لیے صفائی کرتے دیکھا تھا۔انسانیت اپنے معراج پر خدمت ہی سے پہنچتی ہے۔ اورخدمت ہی دوسروں کے قلوب کو مغلوب کرتی ہے۔ علم انسان میں دو ہی خصوصیات پیدا کرتا ہے خدمت کا جذبہ یا محسن کی بغاوت، علم نافع وہی ہے جس سے خالق کی مخلوق کو نفع حاصل ہو۔ اور نو منتخب امیر پانچ دہائیوں سے رائے ونڈ میں دینی، تنطیمی، روحانی اور لوگوں کی اجتماعی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ ان کی عمر 85 سال سے زائد ہے اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور رائے ونڈ منتقلی سے قبل وہ راولپنڈی کے تبلییغی مرکز ذکریا مسجد میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرحمن صاحب مسجد ذکریا مسجد کی امامت و خطابت کو فریضہ انھام دے رہے ہیں تو دوسرے صاحبزادے مولانا عثمان صاحب فیصل آباد مرکز کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پوتے بھی رائے ونڈ کے مدرسہ العربیہ میں درس و تدریس ہی میں مصروف ہیں۔ گویا ان کی تین نسلیں دین و انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ روحانی طور پر وہ کندیاں والے مولانا خان محمد صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔تبلیغی جماعت میں امیر تکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہیں تو یہ بھی حقیقت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد ہے کہ یہاں فرد کی بجائے اصول و نظریے کی پیروی کی جاتی ہے۔ امیر سے لے کر نووارد تک سب کے پیش نظر ایسی "محنت و کوشش" ہوتی ہے جو تبلیغ کے اہداف کو حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہوں۔ اور ہدف ایک ہی ہے انسان کو بہتر روحانی طرز زندگی کی طرف مائل کرنااور یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے

منگل، 20 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: حاجی عبدلوہاب

اردو کالم اور مضامین: حاجی عبدلوہاب: اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدلوہاب صاحب کی تازہ بنی مرقد پر م...

پیر، 19 نومبر، 2018

حاجی عبدالوہاب


اتوار والے دن عشاء سے قبل ، راے ونڈ کے تبلیغی مرکز کے گیٹ نمبر 11 کے سامنے واقع قبرستان میں ، حاجی عبدالوہاب صاحب کی تازہ بنی مرقد پر میرے سامنے کھڑا ارسلان دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ، ارد گرد سے بے خبر اس کی انکھوں سے آنسو ں بہہ کر اس کے چہرے کو تر کر چکے اور شائد اپنے دل کا دکھ ہلکا کرنے کے بعد اس نے جیب سے ٹشو نکالا چہرہ صاف کیا کہ ایک نوجوان نے اس نے ہاتھ ملایا پھر دونوں گلے لگے اور نوجوان کے سینے سے ایک ْ آہ ْ نکلی۔ میرے تصور میں ایک پرانا منظر تازہ ہوگیا۔
ہمارے سامنے 5 مئی 1980 کا اخبار رکھا تھا۔ سب سے بڑی خبر یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو کی وفات کی تھی۔ ہمارا موضوع مارشل ٹیٹو کی یو گو سلاویہ کے لیے ان کی خدمات تھیں۔ ہم میں خاموش بیٹھے ہمارے ایک تبلیغی جماعت کے دوست نے پوچھا کہ کیا مرنے ولا مسلمان تھا۔ جب انھیں بتایا گیا کہ وہ غیر مسلم تھا تو ان کی زبان سے ایک ْ آہ ْ نکلی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ْ آہیں ْ دوسرے کے قلوب پر اثر انداز ہوتی ہیں یا نہیں مگر میں اس کا شاہد ہوں کہ ارسلان نامی نوجوان جو ہماری اس محفل میں موجود تھا ، کی زندگی کا رخ بدلنے والی یہی ْ آہ ْ بنی تھی ۔ایک ارسلان ہی نہیں تبلیغی جماعت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کے رخ کو خاموشی سے بدلا ہے۔ 
مسلمانوں کی پستی پر آہ و زاری کرنا ، ان کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی کرنا، کامیابی کی دوڑمیں پچھڑ جانے کی وجوہات کا احساس دلانا اور اس کام میں اپنا تن من دھن لگا دینا تبلیغی جماعت کا شعار ہے۔ اور جماعت میں اس شعار کو زندہ رکھنے کی ترغیب دینے میں حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ کا لازوال کردار ہے۔ وہ 21 سال کے نوجوان تھے جب نظام الدین میں انھوں نے مولانا الیاس ؒ کے مسلمانوں کی روحانی پستی کے درد کو اپنا درد بنا لیا اور زندگی کے سارے ماہ و سال اسی درد کے دوا بن جانے کی نذر کر دیے۔وہ مولانا یوسف کاندہلوی اور مولانا انعام الحسن جیسے دین کے مخلصین کے با اعتماد ساتھی رہے۔پاکستان میں تبلیغ کی بنیاد رکھنے والے بزرگوں میں شامل تھے اور محمد شفیع قریشی ؒ ( 1903-1971 ) اور حاجی محمد بشیر ؒ ( 1919-1992 ) کے بعد پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ وہ نظام الدین میں قائم عالمی شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ اور دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات میں ان کا منفرد مقام تھا۔ 
مسلمانوں اور اسلام کے تعلق پر تبلیغ کی تعلیمات کی روشنی میں حفیظ کا یہ شعر حسب حال ہے

بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں 

حاجی عبدلوہاب صاحب ْ رات کو سوتے وقت موت سرہانے رکھ کر سوتے او ر صبح اٹھ کر موت کو سامنے 
رکھتے ْ انھوں نے ایک اجتماع کے دوران اپنی آخری تقریر میں کہا تھا ْ توبہ بہترین عمل ہے ْ ان کی زندگی مسلمانوں کے لیے قابل تقلید ہے اور ان کے بیانات اور تقریروں پر عمل کر کے مسلمان دنیا اور آخرت میں 
سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا
(میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاوں گا (احمد ندیم قاسمی

ہفتہ، 17 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ

اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ: کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ...

جمعہ، 16 نومبر، 2018

تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ


کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ کر دیا جاتا تھا، دسیوں کلو میٹرکا سفر طے کرنے کے بعدشام کو جب اس کی آنکھوں سے پٹی کھلتی تھی تو وہ اسی جگہ موجود ہوتا جہاں صبح تھا۔اس کا سفر مگر بے مقصد نہیں ہوتا تھاتیل اور کھل اس لمبے سفر کا ثمر ہوتے تھے۔ تیل کسان کے جبکہ کھل بیل کے حصے میں آتی تھی۔سفر با مقصد ہو تو رائیگان نہیں جاتا بے شک دائرے ہی میں ہو۔

معاشر ے کی منزل کا تعین، راہ کا ادراک اور اجتماعی سعی کو کامیابی میں بدل دینے والے کو رہنماء کہا جاتا ہے۔رہنمائی کی اہلیت ہر فرد میں ہوتی ہے۔اپنی ذات میں اس اہلیت کو تلاش کر کے اپنی ذات ، خاندان اور معاشرے کے لیے مثبت طور پر استعمال کرنا ہر اس فرد کے لیے ممکن ہے جو اس کی جستجو رکھتا ہے۔فطرت انسان کی ہر چاہت کو پورا کرنے اور ہر سوال کا جوب دینے کی استعداد رکھتی ہے۔البتہ چاہنا اور سوال کرنا لازمی ہے ۔ کوئی جواب بنا سوال اٹھائے نہیں دیا جاتانہ بلا چاہت کوئی خواہش پوری کی جاتی ہے۔سوال اٹھانے اور چاہت کے اظہار کے لیے بنیادی علم انسان کو مہیا کیا جاتا ہے۔ ہم درسگاہوں میں دراصل اس علم کے استعمال کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔کسان کے علم کا سلیقہ ہے کہ وہ بیل کو مدد گار بنا کر استفادہ حاصل کرتا ہے۔ ابن رشد نے لوگوں کو زمین ماپنے کا گر بتایا تھاحالانکہ اس نے کسی سے سیکھا نہ تھا۔خالد بن ولید کے پاس جنگی مہارت خداداد تھی۔عمر بن عبدالعزیز کے پاس محبت و رواری کا علم ذاتی تھا۔ معاشرے میں ادیب ، موسیقار ، خطیب، سیاسی رہنماء ، طبیب اور سپہ سالار بن جانے والوں کے پاس علم خداداد ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے اپنے علم سے لیس ہوتے ہیں ، جماعت ان کے علم کو 
Channellize
 کرتی ہے۔ایک فرداگر وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے اسی جماعت میں اس سے زیادہ علم والا موجود ہو۔ حکمرانوں پر تنقید کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت خود احتسابی کے عمل سے گذر کر بہتر سے بہترین افراد کو سامنے لائے۔ تنقید ی علم بھی خداد اد ہوتا ہے البتہ سلیقہ سیکھنا پڑتا ہے ۔اور تنقید کو برداشت کرنا بھی سلیقہ کا متقاضی ہوتا ہے۔

2014
کے دھرنے کے دوران حکمرانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں غلط الزام لگائے گئے۔ ان کی ذات اور خاندان کو تضحیک کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ عوام کے لیے رستے بند کر کے سیاسی مخالفین کے لیے قبریں بھی کھود لی گئی تھیں۔اجتماعات میں ان پر جوتے پھینکے گئے، منہ کالے کیے گئے ، سر پھاڑے گئے اور گولیاں تک چلائی گئیں مگر حکمرانوں کے پاس تنقید کو برداشت کرنے کا سلیقہ تھا۔موجودہ حکمرانوں کی خامیوں میں سر فہرست تنقید برداشت کرنے کے سلیقے کا فقدان ہے۔ زبانی تنقید کے بدلے گالی دی جاتی ہیں، اخبار تنقید کرے تو اس کے مدیر کو لا پتہ کر دیا جاتا ہے۔ماوراے قانوں مقدمے اورصحافیوں کو چن چن کر ملازمت سے نکالنا ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ علم کے استعمال کے سلیقے ہی سے نا بلد نہیں بلکہ ان میں وہ خدا داد علمی استعداد ہی مفقود ہے۔

امن بنیادی انسانی ضرورت ہے ۔حکومت افراد اور معاشرے کی پاسبان ہوا کرتی ہے۔مگر اس حکومت کے دور میں معاشرے کا پاسبان سمجھی جانی والی پولیس کا ایک افسر ملک کے درالحکومت سے سورج کی روشنی میں اور کھلے بازار سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ لگے پولیس کے ناکوں کو عبور کر کے ملکی سرحد پر موجود چیتا نظر وطن کے رکھوالوں کی نظروں سے چھپا کر اسے دوسرے ملک لے جایا جاتا ہے اور وہاں سے اس کی تشدد زدہ لاش واپس بھیجی جاتی ہے۔اور وفاقی وزیر مملکت براے داخلہ اس خبر ہی کو غلط بتاتے ہیں پھر دلیل ختم ہو جانے کے بعد سارے معاملے کو حساس بتا کر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ موت سے بڑی حساسیت کیا ہوتی ہے ۔ وزیر باتدبیر کے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔ کیا حکمران پارٹی میں قابلیت کی یہی انتہا ہے یا کوئی بہتر علم والا موجود ہے۔ یہ عوام کا وہ سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں پر قرض ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قرض اور فرض ایسے واجبات ہوتے ہیں کہ ان سے انکار انسان کو معاشرے میں بے وقعت کر دیتا ہے۔ 

دولت مند اور حکمران ہمسایہ غریبوں کے لیے سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں ۔ میٹھا پھل نہ بھی کھائیں سائے سے مستفید ہوتے ہیں۔ مگر اس حکومت میں شامل دولت مند حکمران طاقت کے نشے میں ایسے سرشار ہیں کہ وہ انسان کی عظمت، احسان کی خصلت ، اپنے وقار اور حکومت کی ساکھ ہی کو بھول چکے ہیں۔ مہاجر اور غریب ہمسائے کی گائے کے اعمال پر ان کو اس قدر غصہ آتا ہے کہ گائے کوہی اپنے گھر میں باندھ لیتے ہیں مگر ان کا غصہ سرد نہیں ہوتا۔ غریب ہمسائے کے گھر کی پردہ دار خواتین کو جیل بجھواتے ہیں مگر غصہ پھر بھی نہیں اترتا ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اس علاقے ہی سے اٹھا کر ان کی نظروں سے دور بھیج دیا جائے۔ ایسا واقعہ تو کتابوں میں پڑہا نہ دانشمندوں کی زبانی سنا۔اگر حکمران ایسے نہیں ہوا کرتے تھے توجان لیں اب ہمارے موجودہ حکمران ایسے ہی ہیں۔

حکومت کے جن وزیروں اور مشیروں کا کام عوام کو خبروں کی فراہمی میں مدد کرنا ہے۔ وہ اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر با باعزت شہریوں کی پگڑیاں اچھالنا خود پر فرض کیے ہوئے ہیں۔ پارلیمان میں اپنی بد زبانی پر معافی مانگ کر دروازے سے نکل کر گلا پھاڑ کر پھر وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اپنی اس غیر اخلاقی جرات پر خود ہی نازان ہوتے ہیں۔مخالفین کو گالی دینا۔ ان کے نام بگاڑنا، بے بنیاد الزام لگانا اور اس پر مصر ہونا ان کے نزدیک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ایسی سطحی سوچ پر کوئی ٹوک دے تو اس کو ریاست کی طاقت سے ڈرا کر اطمینان پاتے ہیں۔واقعات اور اطلاعات کو عوام سے چھپانا اور غلط اطلاعات فراہم کرنا ان کا شیوہ ہے۔ اگر کوئی صحافی ایسی بات لکھ دے جو ان کے خوشامدی من کو پسند نہ آئے تو ایسے صحافی کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اٹھا لینا اور غائب کر دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے۔ لوگ قانون اور قاعدے کی بات کریں تو اس صحافی کو لوہے کی مقفل زنجیروں میں جکڑ کر اس کی تصاویر اخباروں میں چھپوا کر اپنے من کے رانجھے کو راضی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی حکمران پارٹی کے پاس علم سے لیس بس یہی چند دانے ہیں ۔ عوام اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام کا حق ہے کہ ان پر مسلط ہی کرنا ہے تو ایسا آدمی مسلط کریں ۔ جو کم از کم پارٹی کے ساتھ مخلص ہوْ۔پارٹی سے عوام کو متنفر کرنے والوں کو کون پارٹی کا ہمدرد مانے گا۔

معیشت کا شعبہ زیادہ سنجیدہ شمار ہوتا ہے۔ مگر اسی شعبے کو غیر سنجیدہ لوگوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔اس شعبے کو چلانے والے ایک صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر بتاتے ہیں کہ ان کی وزارت میں تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف تیس روپے بچے ہیں۔غربت کا جتنا ڈھندورا اس حکومت کے دور میں پیٹا گیا ہے وہ ملکی ہی نہیں عالمی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشکول توڑنے اور خود داری کا راگ الاپنے والوں نے ملکوں ملکوں پھر کر بتایا ہے کہ ہمارے پاس قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ حالانکہ ملک میں سرکاری ملازمیں 48 سے 56 گھنٹے ہفتے میں کام کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ ستر ستر گھنٹے تک کام کرتے ہیں ۔ ملک میں غریب اور متوسط طبقہ گھڑی کو دیکھے بغیر محنت میں جتا ہوا ہے۔ عوام کی طرف سے صحت و تعلیم کے لیے کوئی دباو ہے نہ مہنگائی کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا ہے۔ بلند ہے تو صرف حکمرانوں کے اخراجات کا تخمینہ۔ اس کے باوجو د عرب و چین تک ہماری نااہلی اور غربت کے چرچے ہیں ۔ ہم ایسی ایٹمی طاقت ہیں جو طالب علموں اور موبائل کے صارفین سے چندے مانگتے ہیں ۔ ریل کے مسافروں سے زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے مگر ہوائی جہاز کے مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔جنرل سیلزٹیکس کے خاتمے کا ْ لارا ْ لگا کر عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ملک میں اپنے ذاتی سرمائے سے کاروبار کرنے والے سیاسی مخالفین کو چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بیرون ملک سے دولت کما کر ملک کے اندر سرمایہ کاری کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔اور ملک کے اندر اپنی محنت اور ذہانت سے آگے بڑہنے والوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ صرف انھوں ہی نے کیوں ترقی کی ہے۔ ان جیسے دوسرے کیوں ان سے پیچھے ہیں ۔کیا قابلیت کا یہی موسی ہے یا معاشرے کو معیشت کے کوہ طور تک پہنچانے کے لیے کوئی صاحب علم بھی موجود ہے۔

قانون کی حکمرانی کا جھنڈا بلند کرتے ہوے ہم فلیگ پوسٹ ہی کو گرا بیٹھے ہیں۔وزیر اعظم صاحب سپریم کورٹ کی بار بار کی تلقین کے باوجود اپنا گھر ریگولائز کرانے پر راضی نہیں ہیں۔وزیر اور مشیر عدالت کے سمن ہی وصول نہیں کرتے یا عدالت کے بلانے پر عدالت ہی نہیں جاتے۔کابینہ کی میٹنگز میں نیب زدہ، بنک زدہ اور غیر ملکی شہریت کے لوگ دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ البتہ ان کو عدالت سے یہ گلہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین کو قانونی رعائت کیوں دی جاتی ہے۔صدر مملکت اور وزیر اعظم صاحب خود عدالتی استثناء کی چھتری تلے براجمان ہیں۔ ملک کے تحقیقاتی اداروں کو کرپشن کے وہ کیس ثابت کرنے کے لیے فارغ کر دیا گیا ہے جو عشروں قبل ثابت نہ ہو کر بند ہو چکے ہیں۔ٖغریب دوکان داروں، گھوم پھر کو پھل سبزی فروخت کرنے والوں پر قانون کو نافذ کیا جاتا ہے۔ وزیروں کے اقرباء البتہ قانون سے بالا ہیں۔

تعلیم کا حشر نشر کر دیا گیا ہے کے پی کے اور پنجاب میں سینکڑوں سکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور استادوں کو بلا وجہ حراساں کرنا اسی دور حکومت میں ممکن ہوا۔ خاص طور پر پنجاب میں تو تعلیم دشمنی جیسا رویہ اختیار کیا گیا۔ پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی۔نوکریاں دینے کی بنیاد رکھنے میں بھی ناکامی ہی کا سامنا ہے۔تعلیم یافتہ بے روزگار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔زراعت مشکلات کا شکار ہے اور کسان پر حکومتی سرمایہ کاری بند کر دی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں امید کے دیے بجھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کی البتہ پانچوں دیسی گھی میں اور سر درآمد کردہ کڑاہی میں ہے۔

کولہو کے بیل کا گول دائرے میں سفر نتیجہ خیز ہوتا ہے ۔پاکستانی عوام کی حالت اکہتر سال کے سفر کے بعد ہی کولہوکے بیل سے بھی بدتر ہے۔ اکہتر سالوں سے امید کے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چلے ہیں۔ اب تو لوگ مرنے سے بھی خوف زدہ ہیں کہ شہر خموشاں میں پلاٹ صرف نقد ادائیگی پر ہی ملتا ہے۔ حکومت سے گذارش ہے کہ مفلس اور بے وسیلہ لوگوں کے مر جانے پر میت کو دفنانے کے علاوہ کوئی اور سستا اور قانونی طریقہ نکالے کہ مرنا توآسان ہو سکے

بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

پیر، 12 نومبر، 2018

دیتے ہیں پہرہ ملک سرکار کے روضے پر


ان کی وجہ شہرت تو ان کی فتوحات، بہادری، عدل ، غریب پروری اور خاندانی وجاہت ہے۔ ان کے بارے میں مشہور مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے ْ میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مگر خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیزکے بعد نورالدین سے بہترکوئی حکمران میری نظر سے نہیں گذرا ْ 
نور الدین زنگی کا زیر نظر واقعہ اسلامی تاریخ میں محبان رسول اللہ ﷺ کے قلوب کو حرارت حب النبی سے گرماتا ہے۔ اس واقعہ کو مشہور عالم حضرت شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ْ تاریخ مدینہْ میں نقل فرمایا ہے۔
ہجری 557 میں عیسائیوں نے مراکش میں یہ سازش کی کہ مدینہ المنورہ کی مسجد نبوی میں موجود قبر رسول اللہ ﷺ سے جسد مبارک کو چوری کیا جائے۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو آدمیوں نے خود کو مختص کیا اور سازش کی تکمیل کے لیے حجاج کے ساتھ مراکش سے مکہ آئے۔ رسوم حج کی مکہ میں تکمیل کے بعد وہ دونوں مدینہ المنورہ آئے اور مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں مسجد کی دیوار سے متصل ایک مکان لے کر رہائش رکھ لی۔مکان کے فرش سے انھوں نے قبر مبارک تک سرنگ کھودکر جسد انور ﷺ تک پہنچنا تھا۔ وہ حب النبی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی اسے تھیلوں میں ڈال کر شام کے وقت جنت البقیع میں موجود قبور پر بکھیر دیتے۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ مدینے میں کسی کو ان پر شک تک نہ ہوا ۔ مدینہ المنورہ اس وقت دمشق میں موجود سلطان نورالدین زنگی کی سلطنت میں شامل تھا۔ 558 ہجری میں سلطان اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ اسے خواب میں دو اشخاص دکھا کر حکم دیا گیا 
ْ ہمیں ان کے شر سے بچاو ْ 
سلطان نے بیدار ہو کر وضو کیا ۔ دو رکعت ادا کی اور اپنے مشیر خاص جمال الدین اصفہانی کو بلایا ۔ اصفہانی سے مشورے کے بعد اس نے اسی وقت بیس آدمی منتخب کیے اور مدینہ المنورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اس تیز رفتاری سے سفر کیا کہ 25 دنوں کا سفر 16 دنوں میں طے کر کے شام سے پہلے مدینہ المنورہ پہنچ کر مسجد البنوی میں نماز ادا کی اور زیارت قبر مبارک سے فارغ ہو کر حاکم مدینہ کے ذریعے اعلان کرایا کہ مدینے میں موجود تمام بیرونی زائرین آ کر وقت کے سلطان کی طرف سے اپنا اپنا تحفہ وصول کر یں۔ لوگ آتے گئے اور تحائف وصول کرتے رہے حتیٰ کہ سب لوگ تحفہ وصول کر چکے۔ مگر سلطان کو وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھاٗے گئے تھے، سلطان نے پوچھا 
ْ کیا مدینہ کا ہر شخص مجھ سے مل چکا ْ 
جواب ہاں مین پا کر سلطان نے دوبارہ پوچھا
ْ کیا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ْ حاکم مدینہ نے کہا ْ سوائے دو آدمیوں کےْ 
دو آدمی ۔۔۔ ْ وہ کون ہیں اور تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ْ 
مراکش کے دو متقی ہیں، درود پڑہتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد قبا جاتے ہیں ، فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ْ 
سلطان نے کہا ْ سبحان اللہ ْ اور تحفہ لینے انھیں بلا بھیجا 
ْ الحمداللہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی سے تحفہ یا خیر خیرات لینے کی ضرورت نہیں ْ 
جب سلطان تک یہ جواب پہنچا تو بردبار سلطان اپنے ادمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر جا پہنچا۔ان کو دیکھتے ہی سلطان نے انھیں پہچان لیا
تم کون ہو اور کیوں آئے ہوْ 
ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے، اب روضہ رسول کے سائے میں زندگی گذارنا چاہتے ہیںْ 
سلطان نے کہا ْ تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہےْ 
سلطان کی عقابی نگاہ فرش پر بچھی جائے نماز کے نیچے بچھی چٹائی پر جم کر رہ گئی۔ چٹائی ہٹانے کا حکم ہوا۔ چٹائی کے نیچے بڑا پتھر ظاہر ہوا ۔ پتھر کو ہٹایا گیا تو وہ سرنگ ظاہر ہو گئی جو فرش میں کھودی گئی تھی اور اس کا رخ قبر مبارک کی طرف تھا۔ سلطان کے آدمی نے سرنگ میں اتر کودیکھا اورحقیقت حا ل سے سلطان کو آگاہ کیا۔سلطان غصے مین لرز رہا تھا۔ مگر اس کی زبان سے صرف اتنا نکلا
ْ کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ْ 
سچ بولنے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ سازش بے نقاب ہو چکی تھی۔ وہ فرمانروا جس کا نام سن کر حکمرانوں کے دل دہل جاتے تھے ۔ دونوں کے مکان میں طیش بھرے جذبات کے ساتھ موجود تھا۔ اپنے جرم کی سنگینی کا بھی انھیں ادراک تھا، انھوں نے اقرار کیا کہ وہ مسیحی ہیں، اور مراکش میں تیار کی گئی اس سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کے جسد مبارک کو سرنگ لگا کر چرانا تھا۔سلطان جس سرعت سے دمشق سے مدینہ پہنچا تھا ۔ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مجرمین کے سر تن سے جدا کر دیے گئے۔ اس موقع پر سلطان نورالدین زنگی نے بلند آواز میں کہا ْ میرا نصیب ! پوری دنیا میں اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا ْ 
سلطان نورالدین زنگی نے 15 مئی 1174 کو 58 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس نے 1146 سے 1174 تک 28 سال حکمرانی کی۔ 1977 میں شام کے شہر حمص میں مجھے اس نامور اور معزز حکمران سلطان نورالدین زنگی کی قبر پر حاضری اور فا تحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔سفید سنگ مرمر کی قبر کے نیچے محو استراحت اس عظیم حکمران کی کامرانیاں تاریخ کی کتابون میں رقم ہیں مگر یہ منفرد واقعہ اہل ایمان کے دلوں پر رقم ہے۔

آنکھین ، کان اور دماغ


پاکستان کی عمر کے لحاظ سے پاکستانیوں نے کچھ زیادہ ہی حکومتیں بگھتائی ہیں ۔ اس کا سبب کھوجتے کھوجتے لوگوں نے
موٹی موٹی کتابیں تخلیق کیں ۔ مقالے لکھے اور لیکچردیے. حالانکہ حل ہمیشہ سادہ سا ہوتا ہے۔ گھر کے سربراہ کو اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے اپنی اولاد اور ان کی اولاد کے خیالات کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ورنہ نوجوان سوچ دادا یا نانا کو اوقات دکھا دیتی ہے ۔ بات ایک ہی ہے اور اٹل ہے “ مان لو یا منا لو “ بات چیت ، مکالمہ اسی کو کہا جاتا ہے۔میں ایک ایسے شخص کو جانتاہوں جس نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بجھوایا ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ بیٹی نے فون پر ماں کو بتایا کہ وہ اپنے ایک کلاس فیلو پاکستانی سے شادی کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ ماں نے رات کو اپنے خاوند کو بتایا ۔ باپ صاحب فرست ہی نہیں جہان دیدہ بھی تھا اس کا جواب تھا کہ جب بیٹی کو یونیورسٹی میں داخل کرا رہےتھے تو ہمارا مقصد تعلیم کے ساتھ اسے خود اعتمادی دلانا بھی تھا۔ اس وقت وہ تعلیم  کے لحاظ سے ہم دونوں سے آگے ہے ، زندگی اس کی اپنی ہے مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کچھ روایات ہیں ۔ بیٹی کو بتاو ہمیں اس کی پسند پر بھروسہ ہے مگر لڑکے کو چاہیے اپنے والدین کو ہمارے پاس رشتہ مانگنے بھیجے ۔ دوسرے دن ماں نے لڑکی تک بات پہچائی جو شادی تین دن بعد بدیسمیں ہونے والی تھی  ملتوی ہو ئی ۔ اب لڑکی اپنی ماں سے بات کرتی تو لڑکا بھی اپنی ہونے والی ساس سے بات کرتا۔اور یہ بات لڑکے نی اپنی ہونے والی ساس کو بتائی کہ وہ دوماہ بعد پاکستان آکر شادی کریں گے۔میں اس شادی میں موجود تھا دونوں خاندان شیر و شکر تھے، دلہا اور دلہن فرحان تھے ۔ ایک باپ کی فراست نے دو خاندانوں کو جوڑ دیا تھا۔ ایسے شادیوں کے بعد جان لینے اور دینے کے واقعات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
ملک بھی گھر ہی کی طرح ہوتے ہیں ، حکمرانی اور رہنمائی میں وہی فرق ہے جو موت اور حیات میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں جناب عمران خان صاحب کی حکومت ہے ، ان کے مشیر ان و وزراء ان کے کان اور آنکھیں ہیں۔ انسان کانوں سے سنتاہے اور آنکھون سے دیکھتا ہے مگر فیصلہ دماغ کرتا ہے۔ خان صاحب اگر فیصلہ کرنے والا دماغ ہیں تو ان کے کان اور آنکھیں دو مناطر پیس کر رہی ہیں ۔ دونوں مناظر پیش کرنے والے ان کے اپنے ہی ہیں ۔ ان کی مدد گار ٹیم دو گروہوں مین بٹی ہوئی ہے ۔ ایک گروہ خاموشی سے عوام کی خدمت کا راہ دکھا رہا ہے ۔ دوسرا بے چین گروہ ہے جو ہر مخالف کو لٹکا دینے کا مبلغ ہے ۔اکہتر سالہ پاکستان ، قرضوں میں جکڑا، انصاف کے لیے عدالتوں کی چھوکٹوں پر دھکے کھاتا ہوا ، بچوں کی تعلیم کو ترستا ، تعلیم یافتہ اولاد کے لیے نوکریوں کا سوالی، تقسیم در تقسیم معاشرے میں دشمنیوں سے اکتایا ہوا، رہنے کے لیے اپنی چھت کو ترسا ہوا، اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے امن اور خود داری کی آس لگائے وزیر اعطم ہاوس کی طرف دیکھ رہا ہے ۔یہ فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ وہ حکمران بنیں گے یا رہنماء ۔ رہنماء صاحب فراست ہو تو دشمنی کی دہلیز پر کھڑے دو خاندانوں کو شیر و شکر کر دیتا ہے ۔ پاکستان کی عمر کے لحاظ سے پاکستانیوں نے کچھ زیادہ ہی حکومتیں بگھتائی ہیں ۔ کوئی تو ہو جو فراست کی راہ چنے کان اور آنکھیں دو مختلف مناطردکھا رہی ہیں فیصلہ مگر دماغ نے کرناہے ۔ اور حکومت کا دماغ وزیر اعظم ہی ہیں

اتوار، 11 نومبر، 2018

سیاسی طغیانی کے بعد مٹی میں دھنسا ہوا ڈرم


لاہور ہائیکورٹ کا راولپنڈی بنچ پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے ، جی ٹی روڈ 
کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور جانے والوں کو دور سے نظر آتا ہے۔ اسی پہاڑی کے نیچے سواں بس اڈہ ہے اور اس اڈے سے متصل ایک پل کانام بھی سواں پل ہی ہے جس کے نیچے سے دریاے سواں گذرتا ہے اورراولپنڈی سے آنے والا نالہ لئی بھی اسی مقام پر ان پانیوں میں گڈمڈ ہو جاتا ہے۔بالائی علاقوں میں بارش کے بعد سارا پانی اسی پل کے نیچے سے طغیانی بن کر گذرتا ہے ۔ راہ گیر اس پل پر کھڑے ہو کر بپھرے پانیوں کی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور پل کے نیچے سے گذرتے بپھرے پانیونوں کی طاقت کے شاہد بنتے ہیں۔اسی پل پر کھڑے ہو کر ایک سیلاب کے دوران میں نے دیکھا تھا کہ پانی بڑے بڑے ڈرم دبوچ کر اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ ایک ہفتے بعد راولپنڈی سے چک بیلی خان جاتے ہوتے میں نے ایک ڈرم اسی دریا کے پاٹ میں زمین میں دھنسا ہوا دیکھا تھا۔میرا خیال ہے کہ انفرادی طور پر لوگوں نے لوہے کے اس ڈرم کو جو تارکول سے بھرا ہوا تھا ، نکالنے کی ناکام کوشش کی ہو گی مگر اجتماعی طاقت سے یہ ڈرم باہراور زیر قبضہ آسکتاتھا ۔ شاہد ہماری اجتماعی خلاقیات ابھی اس قدر نہیں گری ہے۔

سیاسی واقعات بھی طغیانی کی مانند ہوتے ہیں ۔ سیلاب اتر جانے کے بعد کئی ْ ڈرمْ مٹی میں دبے رہ جاتے ہیں ۔ پاکستانی سیاست میں ایک طغیانی 2014 میں اسلام آباد میں آئی تھی۔126  دن کے دھرنے اور ماڈل ٹاون میں معصوم لاشوں کی یادگار کی صورت میں کئی ْ تارکول بھرے ڈرم ْ اہل بصارت کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے اس سیاسی سیلاب کا منبع لندن تھا اور مقدار و والیم کے والو چند افراد کے ہاتھ میں تھے۔ اس مصنوعی طغیانی کے بہاو میں جن کوآنا تھا ان میں پاکستان چین معاشی رہداری کی نیم سوختہ اینٹیں اور نون لیگ کے وزیر اعظم کی کرسی شامل تھی۔

عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈا پور نے ’’دنیا ‘‘ ٹی وی کے اینکر معیز پیر زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ لندن پلان کے حوالہ سے جو خبریں آتی رہی ہیں وہ درست ہیں ۔ ہمارے سربراہ طاہر القادری صاحب سے لندن میں عمران، چودھری پرویز اٰلہٰی اور چودھری شجاعت حسین نے ملاقات کی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ نواز حکومت کو گرانا ہے۔

 ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی نے گنڈا پور صاحب کے بیان کی تائید میں بیان دیاتھا کہ قادری صاحب نےایم کیو ایم  لندن کے سیکرٹریٹ کو فون کر کے پیشکش کی تھی کی حکومت گرانے میں ان کا ساتھ دیا جائے توبدلے میں کراچی 
ایم کیو ایم 
کےحوالے کر دیا جائے گا

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نےلندن پلان بارے ایک نجی ٹی وی کو آنٹر ویو یتے یوئے   
 تصدیق کی  کہ لندن پلان موجود تھا  ۔
انہوں نے کہا کہ 2014ء میں لندن پلان تشکیل دیا گیا اور ہم اس پلان کے اہم کردار تھے۔ ہمارا مقصد ملک میں نظام کی تبدیلی تھا اس لیے ہم لندن پلان میں شامل ہوئے۔ 
لیکن ہمیں یہ نہیں علم تھا کہ اس پلان کو عملی جامعہ پہنانے والے نظام تبدیلی نہیں صرف نواز شریف حکومت ہٹانا چاہتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں سب کا کڑا احتساب ہو اور موجودہ پارلیمانی نظام کو بھی تبدیل کیا جائے۔ 
یہ نظام ملک میں کرپشن اور بد امنی کی بڑی وجہ ہے۔ جس کے بعد ہم نے لندن پلان میں شامل ہونے کا حتمی فیصلہ کیا

مخدوم جاوید ہاشمی صاحب نے بھی اس سخن کو اپنا موضوع بنایا اور کہا 
خود عمران خان نے ان سے لندن میں رابطوں کی تصدیق کی تھی۔ہاشمی صاحب نے تو پلان بی، سی اور ڈی کی موجودگی کا بھی ذکر کیا تھا۔اور جیو نیوز سے وابستہ مرتضیٰ علی زیدی کی یہ شہادت بھی موجود ہے کہ 28, 29۔  اور 30 جون کو برطانوی شہری زلفی بخاری کے دفتر میں یہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ 

ان ملاقاتوں کو میڈیا مین لندن پلان کا نام دیا گیااور روزنامہ امت نے اس بارے میںلکھا تھا  
 کہ لندن پلان کا مقصد اقتصاد ی راہداری کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنا ہے ۔قادری کے منصوبے میں برطانیہ ، امریکہ بھارت اور ایران کے نام سامنے آئے  ۔ طاہر القادر ی کو کلبھوشن کی گرفتاری کے بعدپاکستان بھیجنے کا منصوبہ بنایاگیا ۔اسی سال مارچ کے آخری عشرے میں طاہر القادری صوفی کانفرنس کی آڑ میں بھارت گئے تھے۔ جہاں 18مارچ کو ان کی ملاقات بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی راکے اعلیٰ افسران سے کرائی گئی اخبار  کے مطابق ملاقات کا مقام دہلی میں راکا ذیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفینس اسٹڈیز اینڈ اینالیسز تھا اور قادری کو منصوبے کے بارے میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی چیئرمین بریگیڈئر (ر) رومل ڈاھیا نے بریف دی تھی ۔ اور طاہر القادری کو یہ مشن سونپا گیا کہ پاکستان میں کسی بھی صورت فرقہ ورانہ کشید گی کو ہوا دی جائے ۔ تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر اتنی سست ہوجائے کہ چین اس منصوبے سے اکتا جائے ۔  طاہر القادری بظاہر پاناما لیکس کے دبائو کا شکار نواز حکومت ایک دھکا اور دینا چاہتے تھے ، لیکن اس موقع پر بھارتی حکومت کی توجہ کا مرکز طاہر القادری تھے ۔ جو پاکستان کے لیے ایک نیا منصوبہ 
importance of moderate islam for south east asia 
کے عنوان سے بھارتی انسٹی ٹیوٹ میں پیشکر چکے تھے ۔ طاہر القادری نے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی تائید کرنے کی بجائے مذمت کی اور بھارتی ٹی وی چینل اے بی این کو انٹرو یو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے موقف کو درست نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کی جانب سے بھارت پر لگائے جانے والے کسی بھی الزا م کی تائید نہیں کرتے اور پاکستان کو بھارت کے تحفظات پر غور کرنا چاہئے ۔  مارچ 2016میں طاہر القادری کو پورے بھارت کا دورہ کرایا گیا ۔ اس دوران وہ راجستھان ، آندھراپردیشن اور حیدر آباد دکن بھی گئے بھارتی حکومت کی جانب سے طاہر القادری کی جماعت منہاج القرآن کے نام سے پورے بھارت میں شاخیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
   
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق شہباز شریف نے  19 ستمبر 2014 کوکہا کہ لندن پلان کے پیچھے وہی لوگ ہیں جنھوں نے 
قرضے معاف کرائے اور پنجاب بینک میں ڈاکے ڈالےہیں

  نواز شریف نے کہا کہ لندن پلان بےنقاب ہوگیا ۔ عمران خان اور طاہر القادری کی لندن ملاقات کا حال سب کے سامنے ہے ۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف کوارڈینیٹر پاکستان مسلم لیگ ن محمد صدیق الفارق نے کہا کہ لندن پلان بنانے والوں کا منصوبہ ہے کہ لاشیں گرا کر اور مظلوم بن کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔ لندن پروگرام بے نقاب ہونے کے ڈر سے قادری چودھری گٹھ جوڑ نے  
عدالتی کمیشن کے بائیکاٹ کا علان کیا ہے۔
ہ
کچھ لوائی کورٹ نے 1990 میں  طاہر القادری کو جھوٹا مکار قرار دیا ۔ ہےگوں کا اس پر اتفاق ہے  کہ لندن پلان اسٹبلشمنٹ نے تیار کیا ہے اور اس کی وجہ نواز شریف کی جانب سے افغانستان اور بھارت بارے ڈیپ سٹیٹ یا تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنا اور مشرف کے ٹرائل پر اصرار  کرنا ہےاور پاکستان میں ملٹری بزنس کے مفادات کے آڑے آنا ہے

جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں اشاروں کی صورت میں  قادری و عمران کے
 دھرنوں و انقلاب کو انھوں نے بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سابق و موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا اور ظہیر الاسلام کے  ذھن کا مشترکہ منصوبہ قرار دیا لندن پلان کے شور ہی میں لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا تھا
محمد صدیق الفاروق نے کہاتھا
  سانحہ ماڈل ٹاون  سازش ہے

 سلیم صافی کے بقول “لندن پلان ” کا بلیو پرنٹ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے نے تیار کیا اور اسے کینیڈین حکام کے حوالے کیا – یہ لندن پلان مغربی ملکوں نے پانچ سال پہلے تیار کرلیا تھا اور اس کی بنیادی وجہ مغربی ملکوں کا یہ یقین تھا کہ دیوبندی سلفی انتہا پسند عالمی جہاد پاکستان سے بیٹھ کر چلارہے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے ان کا ٹکراؤ سنی صوفی بریلوی اور شیعہ سے کرانا بہت ضروری ہے – بقول سلیم صافی مغربی طاقتوں نے نے یہ کام ڈاکٹر طاہر القادری کے سپرد کردیا اور ڈاکٹر قادری نے اس پلان پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک طرف تو پاکستان میں شیعہ تنظیم مجلس وحدت المسلمین اور سنّی بریلوی تنظیم سنّی اتحاد کونسل کا سہارا لیا اور بعدازاں اس میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الہی بھی شامل ہوگئے- سلیم صافی کے بقول اس کی کچھ کڑیاں جو مل نہیں رہی تھیں وہ جاوید ہاشمی نے ملادیں کہ عمران خان بھی اس پلان میں شامل تھے اور لندن میں ان کی قادری اور چودھری شجاعت سے ملاقات ہوئی تھی سلیم صافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے میں آصف زردای کا ڈبل رول ہے اور ان کے کہنے پر چودھری برداران، قادری کے ساتھ ہوئے اور اب تک ان کے ساتھ ہیں


سیاسی طغیانی کے بعد لندن پلان ایسا تارکول بھرا ڈرم ہے جو سیلابی مٹی میں پھنسا ہوا ہے انفرادی قوت اس کو نکالنے میں ناکام ہے ۔ کیا ہمارا اجتماعی سیاسی شعور اس قابل ہے کہ اس پھنسے ہوے ڈرم کو نکال کر کنارے لگائے تاکہ سیاسی پانی کا بہاو رواں دوان رہے اور ایک اور جمہوری حکومت کسی اور پلان کے نتیجے میں گرنے پر مجبور نہ ہو  

ہفتہ، 3 نومبر، 2018

اونچا شملہ اور چاں چاں کرتی چپل


اکلوتی ، سب سے بڑی، حافظہ بیٹی کے سر پر چادر ڈالی، اس کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا مگر اس کے دماغ نے کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔ وقت جو ستم کر کے گذر گیا تھا اس کو واپس موڑنا اس کے بس میں نہیں تھا۔پہلی بار ، زندگی میں پہلی بار، اس کے گھر والوں ، پوتوں اور نواسوں نے سفاک لہجے میں سنا ْ عبد الطیف کو بلاو میں نے عشاء کے بعد فیصلہ کرنا ہےْ 
حاجی حاحب ، جو حج کرنے سے پہلے سارے گاو ں کے ماسٹر جی تھے، گاوں کی سب سے باعزت شخصیت تھے۔ مگر اج اس عزت کا جنازہ گھر سے ملحقہ کھیت میں نکلنے لگا تھا ۔ عشاء کے بعد ان کے چھ بیٹے، اکیس پوتے، تیرہ نواسے اور گھر کی ساری خواتین موجود تھیں جب عبدالطیف کی چیختی چپلوں نے اس کی آمد کا اعلان کیا۔ عبد ا لطیف نے چپل اتارے اونچے لہجے میں السلام علیکم کہاسوتیلے والد کے ساتھ جھک کرمصافحہ کیا اور ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔حاجی صاحب نے فیصلہ کن اور گرجدار میں کہا ْ عبدالطیف تینڈی جتی دی چاں چاں کدن مکیسی ْ 
یہ واقعہ خود اسی سالہ مولانا لطیف نے نوشہرہ کے اکوڑہ خٹک سے واپسی پر سنایا۔ ہم ملک کے نامور عالم دین مولانا سمیع الحق کا جنازہ پڑھ کر واپس آ رہے تھے۔ مولانا مرحوم کے علم کے شجر تناور تھے ایسا شجر جس کے سائے میں نام ور ہستیاں راحت پاتی تھیں ان کی روادار فطرت کی مثال ہے کہ بھٹو کے وقت مین تشکیل پانے والی آئی جے آئی جس کے سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے اور جب مولانا سمیع الحق کی سربراہی کی باری آئی تو وہ ازخود اس سے دستبردار ہو گئے اس شجر کی شاخیں شہبازوں سے خوف زدہ چڑیوں کو گھونسلہ بنانے میں کبھی بھی مانع نہیں ہوئیں۔وہ تین بار پاکستان کی پارلیمان بالا کے ممبر رہے ۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ملا عمر اور جلال الدین حقانی خود کو ان کا شاگرد بتاتے اور مولانا فضل الرحمن بتاتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ سال ان کے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔امریکہ کا سفیر ان کے در پر حاضر ہوتا تھا۔ سعودیہ والے اس کی اقتداء میں نماز پڑہتے تھے ، پاکستان کے علماء ان کی بات مانتے تھے مغرب نے انھیں طالبان کے باپ کا خطاب دیا تو طالبان کو فرحت ہوئی ۔ وہ اول و آخر پاکستانی تھے ۔ ان کے والد مولانا عبدالحق نے تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا تھا۔ اس علمی گھرانے نے سیاست میں قدم رکھا تو لوگوں نے نہ صرف مولانا سمیع الحق کے والد صاحب کو بلکہ بیٹے مولانا حامد الحق کو بھی قومی اسمبلی میں اپنی ترجمانی کے لیے منتخب کیا۔ایک مسلمان ملک پر روس نے قبضہ کیا تو وہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں کے سب سے بڑے خیر خواہ کے طور پر سامنے آئے۔ امریکہ نے اپنے پنجے گاڑہے تو بھی وہ حکومت پاکستان کی پالیسوں کے ہم نوا بنے ۔ ۲۰۱۴ میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے طالبان نے ان کا نام لیا۔ دینی مدرسوں کے نصاب میں بہتری لانے کی ہر حکومتی آواز کی انھوں نے تبلیغ کی۔جو لوگ ان کے نزدیک تھے ان کے دلوں میں ان کے لیے احترام تھا، جو ان سے ملاقات کرتا ان کی شخصیت سے مرعوب ہوتا ۔ دور کے نکتہ چین بھی ان کی سیاسی زندگی میں کوئی سکینڈل ڈھونڈے میں ناکام ہی رہے۔
میں نے مولانا لطیف سے سوال یہ کیا تھا کہ ہمارے علماء اپنے اپنے مقام پر قوی ہونے کے باوجود اسلام کی طاقت میں اضافہ کیوں نہیں کر پاتے ہیں ۔تو مولانا نے اپنا ذاتی واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں ایسا خطیب ہوں کہ دور دور سے لوگ مجھے خطاب کے لیے لینے آتے ہیں ۔ مگر میں اپنے دادا کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز نہیں پڑہتا تھا ۔ میری وجہ سے میرے دادا کا خاندان دو حصوں میں بٹ گیا۔ میں اپنے چاچا( سوتیلے باپ) سے نفرت کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کر سکا مگر بھائیوں کا معاشرتی مقابلہ کرنے کے لیے خطیب پاکستان بن بیٹھا ۔ میں نے اسلام کو چھوڑ کر مسلک کو اپنالیا ۔ میں ہنسے مجمع کو رلانے کے فن سے آشنا ہو گیاتھا ۔ میں نے اونچا شملہ اور چیختی چپل کو صرف اس لیے اپنا لیا تھا کہ دو دونوں چیزیں میرے چاچے کو پسند نہ تھیں۔اس دن میں بہت خوش تھا جس دن ایک معمولی تنازعے پر جرگہ منعقد ہوا اورمیں نے چاچے کو سر پنچ ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد جب بھی کوئی مسٗلہ میرے چاچے کے سامنے آتا ۔ میرا چاچا لوگوں کو تھانے کی راہ دکھاتا۔ میں خود سے شرمسار رہنے لگا مجھے چاچے کا کوئی ایسا عمل یاد نہ تھا جو نفرت کا باعث ہوتا۔ اب میں کسی بہانے کا انتظار کر رہا تھا ۔ پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے سارے گاوں کو ششدر کر دیا کسی نے میری بھتیجی کے سر سے چادر کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔ میں گیا تو چاں چاں کرتی چپل پہن کے اور اونچا شملہ رکھ کے تھا ۔ مگر میں نے شملہ چاچے کے قدموں میں رکھ دیا تھا اور واپس ننگے پاوں آیا تھا۔ پھر میں نے اس بد بخت کو ڈہونڈ نکالا ۔ سارا گاوں متفق تھا کہ فیصلہ جرگے میں ہو اور چاچا جو فیصلہ کرے سب کو منظور ہو گا۔ عین موقع پر چاچے نے کہا میں تو فریق ہوں تم فیصلہ کرو۔ میرا فیصلہ غصہ بھرا تھا ، مگر گاوں والوں کو منظور تھا۔ میرا چاچا اٹھ کھڑا ہو اکہا میں بطور فریق مجرم کو معاف کرتا ہوں، معافی نہ مجھے منظور تھی نہ گاوں والوں کو۔ چاچے سے اپنا کرتا اتار کر پیٹھ ننگی کر لی ۔کہا اپ لوگوں نے سزا دینی ہے تو مجھے دو۔ سب کے ساتھ میری نظریں بھی جھک گئیں۔ بغاوت پر آمادہ مجرم ایسے جھکا کہا اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا ۔ مولانا لطیف نے میرے کندہے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ اللہ اس لیے خدا ہے کہ وہ احسان کرتا ہے۔چند لمحے کی خاموشی کے بعد کہا جس شخص کا جنازہ پڑھ کر آرہے ہیں وہ میرے چاچے جیسا تھا وہ کہتا تو نہیں تھا کہ مگر اس کا مدعا یہی ہوتا تھا کہ دیندار بننا ہے تو دستار کاشملہ اونچا کرنے اور چاں چاں کرتی چپل سے پرہیز کرو۔