جمعرات، 27 اگست، 2020

جواب آں غزل



میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو 
Add
 نہیں کر رہا ۔ اس گلے سے بچنے کے لئے میں وقت کے ساتھ ساتھ چھانٹی کا عمل جاری رکھتا ہوں لیکن اس کے با وجود اس لسٹ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو معاشرتی اور دینی حوالے سے مجھ سے مختلف سوچ رکھتے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کر کے بات کو سنتے اور کچھ حاصل کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ ْ اختلاف باعث رحمت ْ اسی وقت تک ہے جب ہماری نیت رحمت کے حصول کی ہو البتہ نیت اگر فرقہ پرستی اور اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی ہو تو ایسی پوسٹ کی حقیقت کی طرف اشارہ کر دینا میرا اخلاقی منصب ہے۔۔
میرے ایک دوست نے اسلام آبا د میں میرے پیر و مرشد کے سانحہ ارتعال پر میرے لکھے ہوئے ایک  شذرے کو بنیا د بنا کر  بلند درگا ہ گولڑہ شریف کے بلند کنگروں پر سنگ باری کی کوشش ہے اور قبلہ پیر مہر علی شاہ کے صاحبزادگان کے بارے میں اپنی ذہنی پستگی اور زہر آلودہ زبان کو دراز کرتے ہوئے لکھا ہے ْ افسوس کہ پیران گولڑہ شریف ۔۔۔ 
فتنہ قادیانیت ، اس کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کے قلوب پر ْ گولڑہ شریف ْ نے جو چرکہ لگایا تھا لگتا ہے وہ زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس پیپ زدہ ْ چرکےْ سے بدبودار مواد خارج ہوتا رہتا ہے ۔ جو کبھی ْ انسانیتْ کے لفافے میں چھپایا جاتا ہے تو کبھی ْ مسلک ْ کے کیپسول میں اور اج کل ْ لبرل ازمْ کے پھول دار شاپر میں ڈہانپا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ْ بدبوْ کیسی ہی خوش شکل بوتل میں بند کر دی جائے ، ڈھکنا کھلنے پر گردو پیش کو کثیف ہی کرتی ہے ۔
میرا یہ نا دیدہ دوست ْ احمد رضا خان بریلوی کی حسام الحرمین کو جہالت اور فتنہ خیزیْ بتاتا ہے مگرْ سیف چشتائی ْ کا ذکر اس لیے نہیں کرتا کہ یہ گستاخون کی زبان درازیوں کی قاطع ہے۔
ہم لوگوں کہ یہ ریت رہی ہے کہ ذاتی تنقید اور شخصی یاوہ گوئی پر بھی مسکرا دیا کرتے ہیں۔ کہ ہمارے مرشد اعلیٰ ، رہبر کامل رسول اللہ ﷺ نے جو دین عطا فرمایا ہے اس دین کی میزان میں عفو درگذر، معافی اور احسان کا پلڑا سدا انکسار کی طرح جھکا ہی رہا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب خاتم المرسلیں کا خون مبارک نعلین مبارک کو تر کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نازل ہو کر منتظر حکم نبی ﷺ تھا تو ہمارے رحیم آقا کے لبوں سے وہ تاریخ ساز خیر خواہی ادا ہوئی کہ طائف والوں کی نسلیں سرخرو ہو رہی ہیں۔ہم اسی تعلیم کو لے کر چل رہے ہیں۔ ہم اس شجاع علی ابن طالب کے پیرو کار ہیں جو دشمن کو مغلوب کر لینے کے بعد ذاتی عناد کے شک پر عدو کے سینے سے اتر آتے ہیں ۔ ہم نے سبق یہ سیکھا کہ اصل شجاعت غصے کی حالت میں بھی حق کو تھامے رکھنے میں ہی ہے۔ 





گولڑہ شریف کے مکین رحمت العالمین کی تعلیمات کے مبلغ ہیں، ان کی نسبتیں علی سے ہوتی ہوئی مہر علی سے گذر کر یہاں تک پہنچی ہیں ۔ تدبر، فراست رواداری ن کا ہی نہیں ان کے متعلقین کا بھی زاد راہ ہے۔ اور قبلہ عالم حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے کنگروں کو اس قدر بلند فرما گئے ہیں کہ مسلکی بغض وعناد کا مارا لکھاری کیسی بھی سنگ باری کی کوشش کر لے ، اس کے سنگ کا علم و حکمت اور فیضان نبی ﷺ کے بلند کنگروں تک رسائی پانا ممکن ہی نہیں ہے۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ آسمان کی طرف منہ کر کے تھوکتے ہیں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان کے عمل پر غصہ کیا جائے۔ یہ صاحب ْ افغانستان کے ملا عمرْ اور ْ کفر کو بر سر عام برہنہ کرنے والا حق نواز جھنگھو ی ْ کو اپنا مسلکی سرمایہ جانتے ہیں، ہمیں کیا اعتراض ہے ، البتہ شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کاندہلوی کے بارے ، جو امت مسلمہ کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے ، مدعی کا دعویٰ حقائق کے بر 
خلاف  ہے ۔کہ انھوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب فضائل اعمال  میں فضائل صحابہ کے صفحہ 
142
 پر اللہ کا فرمان نقل فریایا ہے ْ جو میرے کسی ولی کو ستائے اس کو میری طرف سے لڑائی کا اعلان ہےْ اور ان کی اسی کتاب کے اصل نسخہ میں وہ عبارت حذف کر دینا جو نبی اکرم کی شان میں انھوں نے اپنے ایمان کا حصہ بتائی ہیں اور یہ ترمیم شدہ ایڈیشن ان ہی کے ْ ہاںْ سے پرنٹ شدہ ہے ورنہ تبلیغی جماعت والے تو عکسی ایڈیشن ہی استعمال کرتے ہیں۔ شیخ الحدیث محمد ذکریا کاندھلوی ، جن کو اس گئے گذرے دور میں جنت البقیع میں دفن ہونے کا شرف حاصل ہے,  کی تما م تصانیف کی ایڈٹنگ کر لیں اس کے بعد ہی آپ ان کو حق نواز جھنگوی کا ہم مسلک بتاہئے گا۔ 
مولانا اشرف علی تھانوی کو اہل تصوف کا دشمن بنا کر پیش کرنے والے ان کی مثنوی روم کی شرع میں لکھی درجن سے زیادہ جلدوں کو کہاں چھپائیں گے اور حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کی ذات پر یاوہ گوئی پر اتنا ہی عرض ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر اونچی جگہ ہاتھ مارنے کی کوشش میں بعض اوقات بے وقوف گر کر اپنی ریڑھ کی ہڈی ہی کا نقصان کر بیٹھتا ہے۔
عرض ہے ہم نے ستر سالوں میں سوائے تنقید کے کچھ نہ کیا کہ یہ کام سہل ترین ہے اور رنگ بھی چوکھا لاتا ہے ۔ اب بطور تجربہ ہی سہی ، تنقید کو چھوڑ کر تعمیر کی بات کریں۔ اہل حدیث کافر، ادیوبندیوں کے
22
  فرقے کافر، بریلویوں کے
4
  فرقے کافر،

 شیعوں کے 
21
 فرقے کافر۔   اور یہ معرکہ تنقیدی ذہن کے مولویوں ہی کا مارا ہوا ہے۔

ہم میں ایک مسلمان,  نام اان کا اشفاق احمد تھا انھوں نے بجا فرمایا تھا کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں یہ غیر مسلم ہی ہیں جو سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ 
کبھی سر سے تنقیدی ٹوپی اتار کر، مسلکی دھاری داررومال سے منہ صاف کر کے ، اس بات پر غور کی جیے گا کہ لفظ مولوی جو استا د کا ہم معنی تھا ۔ معاشرے میں گالی کیوں بن گیا۔ امام مسجد ، جو ہمارے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا ، اس کے لیے دو رکعت کے امام کی اصطلاح کسی کالجیٹ بابو نے ایجاد نہیں کی ہے۔ اور اب مولوی کو مولبی بنانے میں بھی کسی لبرل نے حصہ نہیں ڈالا ہے۔
اس حقیقت کو کون جھٹلائے گا کہ دنیا کی محرومی اور علم نافع کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور رہے گا۔ آپ کو رہنے کے لیے اٹیچڈ باتھ والا بیڈ روم چاہیں ، ڈرائنگ روم قالینوں اور فانوسوں سے آاراستہ ہو ، علم برائے فروخت کا کتبہ سیائیڈ ٹیبل پر سجا ہو، گاڑی ائر کنڈیشنڈ ہو ، عباء و جبہ لشکارے مارے اور منہ جب بھی کھلے آگ برسائے۔ اور توقع یہ ہو کہ آپ کو سب سے بڑا مسلمان سمجھا جائے کہ آپ کے پاس جنگجو لوگوں کا جتھہ ہے جو کلاشنکوف کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اور طاقت سے اسلام کا اپنا ورژن صیح ثابت کرنے کے لئے انسانی لاشے گرا کر کامیابی کا جشن مناتا ہے ۔ ہر کمزور آپ کو منافق اور محمد ﷺ کا نام لیوا آپ کو بدعتی نظر آتا ہے۔ 
آپ کو ْ گمراہْ اور ْ جاہل ْ لوگوں کے دھرنے میں ناچ اور گانا ہی نظر آیا ۔ جان کی امان ہو تو پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے جشمے کا نمبر کیا ہے۔
آپ نے یہ شعر بھی جڑ دیا ہے
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

بھائی ہم امن پسند مسلمان اور پاکستانی ہیں ، مسلمانوں کے سب فرقے ہی نہیں غیر مسلم بھی ہمارے لئے محترم ہیں، ہمیں اپنے رحمت العالمین بنی ﷺ کی تعلیمات عزیز ہیں۔ ہم اول و آخر مصطفوی ہیں اور اس پر ہم شرمندہ نہیں ہیں ، ہمیں خنجر اٹھانے کی ضرورت ہے نہ تلوار ، ہمار ا ایک مقصد حیات ہے اور وہ کتاب میں درج ہے جو محفوظ ہے اور اس کا محافظ رب محمد ﷺ خود ہے ۔
آخر میں ایک واقعہ :
یہ
1984
کی بات ہے ، میں حکومت کویت کا ملازم تھا ۔ بغداد شریف سے درگاہ غوث پاک کے سجادہ نشین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ، محفل میں عرب بھی شامل تھے ۔ ایک عمر رسیدہ شخص نے دوران گفتگو کہا ْ کوئی شخص آپ کے پر دادا کی بے ادبی کرے تویہ شدید تر ہے اس سے کہ کوئی آپ کے والدکی بے ادبی کرے ۔ مگر بسبب زمانی طور پر قریب تر ہونے کے ، آپ والد کی بے ادبی پر زیادہ رد عمل کا اظہار کریں گے ْ

ہمارے پیر اور مرشد ہمارے استاد ہوتے ہیں، ہم استادوں کی جوتیاں سیدہی کر کے ان سے علم پاتے ہیں اور ادب سیکھتے ہیں۔ ان کا رتبہ والد ہی کی طرح کا ہوتا ہے اور والد زمانی طور پر پڑدادا سے قریب تر ہوتا ہے۔ 

جمعہ، 21 اگست، 2020

بلوچستان کا سہروردی



نئے پاکستان میں سیاست دان چور اور لٹیرے بتائے جاتے ہیں اور آمروں کے دور کی خوشحالی کو یاد کر کے سرد آہ بھری جاتی ہے۔پرانے پاکستان میں کالا باغ ڈیم اورنظام مصطفی پر سیاست کی جاتی تھی تو نئے پاکستان میں انفراسٹرکچرکی تعمیر اور ذرائع آمد و رفت کی سہولیات  میں عوام کوشامل کرنے کے عمل پر چار حرف بھیجنے کی سیاست عام ہے۔ پہلے MRD   اور  ARD  بنائی جاتی تھیں اب  JIT  کا دور ہے۔  پرانے پاکستان میں سچ اشاروں کنایوں میں بولا جاتا تھا۔ اب جھوٹ ٹی وی کی سکرینوں پر دہڑلے سے بولا جاتا ہے۔ اس نئے پاکستان میں ایوان بالا کے سابق چیرمین جناب رضا ربانی نے میر حاصل بزنجو کی رحلت پر کہا ہے کہ    ان جیسا ایمان دار سیاست دان پورے پاکستان میں نہیں ہو گا    یہ منفرد قسم کا خراج تحسین ہے ۔ 

  میر حاصل بزنجو   ضیاء اور مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے۔ گرفتاریوں نے ان کا سیاسی قد اونچا کیا تو جیل نے متحمل مزاج مدبر بنانے میں کردار ادا کیا۔الیکٹڈ اور سیلیکٹڈ کی بحث میں الجھے اس معاشرے میں وہ جو دہیمے لہجے میں گہری بات کرنے کے ہنر سے آشنا تھے انھوں نے ایوان بالا میں تاریخی الفاظ کہے تھے 

               یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری طاقتیں پارلیمان سے زیادہ طاقتور ہیں   ۔

جامعہ کراچی سے تعلیم یافتہ  میر حاصل کے والد جناب غوث بخش بزنجو بلوچستان کے پہلے غیر فوجی گورنر اور آئین ساز کمیٹی کے رکن تھے تو ان کے دادا ریاست قلات کی سیاست کے روح رواں تھے ان کا عہدہ گورنر کے عہدے کے ہم پلہ تھا۔

میر حاصل بزنجو  زیادہ صوبائی اور علاقائی خود مختاری کے حامی تھے۔ جناب عمران خان بھی اقتدار حاصل ہونے سے پہلے ایسی ہی خود مختاری کے علمبردار تھے اور پولیس تک کو میونسپل کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔جناب حاصل بزنجو مسلح مزاحمت کے مخالف اور سیاسی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے ان کی رحلت پر  بجا طور پر کہا کہ    دستور، پارلیمان اور جمہوریت کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں   ۔دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار ایوان بالا کے ممبر منتخب ہونے والے میر حاصل بزنجو نے چیرمین کے انتخاب کے بعد کہا تھا    آج مجھے پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے    ان کی موت کے بعد کاش یہ شرم جمہوریت مخالف جتھوں کو آنا شروع ہو جو ملکی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج کا پیدا کرنے کا سبب ہیں۔

ان کے والد کی وسیع لاہبریری میں کارل مارکس اور لینن کی کتابوں کو دیکھ کر انھیں مارکس اور لینن کا پیروکار بتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عملی سیاست میں ان کو پیپلز پار ٹی کے قریب لانے میں کسی کتاب کا نہیں مگر  شہید بی بی کا کردار تھا۔ بی بی کی شہادت کے بعد اس کردار کو جناب آصف علی زرداری نے نبھایا حقیقت مگر یہ ہے کہ نواز شریف کے مقناطیسی مزاج نے اس جمہوریت پسند کو اپنی طرف راغب کر لیا تھا۔ وہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے کے باوجود نواز شریف کے سیاسی اتحادی تھے۔

 وہ پسماندہ طبقوں اور بے انصافی سے کچلے گئے عوام کی توانا آواز تھے۔ عدالت سے بالا بالا نظریاتی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے وہ  ناقد، معلوم اور نا معلوم کے نام پر لوگوں کے پیاروں کو اپنوں سے جدا کر دینے کے مخالف اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظلومین کو طاقت سے کچلنے پر چپ نہ رہ سکنے والے انسان تھے۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ان کی سرشت میں تھا اور ظالموں کو گلہ تھا کہ وہ سردار ہو کر لکیر کے دوسری طرف کیوں کھڑے ہیں۔   میر حاصل بزنجو بلوچستان کے    حسین شہید سہروردی    تھے۔  جون ایلیاء نے شائد ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ

                                        جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں  


بدھ، 5 اگست، 2020

ان پڑھ جاہل



ہم یقین رکھتے ہیں کہ علم کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے۔  اس فانی زمین پر علم جس شہر میں اتارا گیا۔ اس کے اکلوتے دروازے 
پر کنندہ ہے کہ ظلم  تو برداشت کر لیا جاتا ہے مگر بے انصافی تباہی لاتی ہے۔  اس جملے کو یوں ہی کہا جا سکتا ہے کہ میرٹ کے بغیر شہر کھوکھلے ہو جایا کرتے ہیں۔ کھوکھلا درخت ہو کہ معاشرہ تیز ہواوں کے سامنے سر نگوں ہو جاتا ہے۔ 
حکومت کے  لیے دولت و قوت بنیادی عوامل ہوتے ہیں اور 1947 میں جب پاکستان بن رہا تھا۔ تاج برطانیہ کے پاس دولت کی کمی تھی نہ قوت کی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد وہ فاتح قوم تھی۔ مگر ہندوستان میں اس کی اخلاقی برتری محض اس لیے ختم ہو چکی تھی وہ کچھ طبقات کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام تھی۔ 
بہادر شاہ ظفر کو اگر دو گز زمین نہ ملی تو اس کا سبب انگریزوں کے ساتھ اس کے اپنے بھی تھے جن کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا تھا۔ ترکی کے سلیمان دی گریٹ جس کی حکومت  بیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی کے وارثین جب دستبرداری کے معاہدے پر عمل کر رہے تھے تو ان کے اپنے وزیر و مشیر ان کے ساتھ نہ تھے۔اور ان کو بے انصافی نے دشمنوں کی گود میں جا بٹھایا تھا۔ یہ ماضی کی نہیں حال کی تاریخ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہم خود ستائی کے دور گذر رہے ہیں۔ ہر زبان غدار وطن اور ہر لفظ کافر دین  قرار پاتا ہے۔  دشنام طرازی سے بڑھ کر بات اغواء  باالجبر اور گولی سے بھی آگے جا چکی ہے۔ لاہور والے واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ نظریات پر روٹی کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کا جواب تھا روٹی کا بندوبست کرو نظریہ قبول ہو جائے گا۔ ایک سیاسی اجتماع کے دوران ایک صاحب نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں مقدس کتاب پکڑ کر لوگوں کو روٹی پر کتاب کو ترجیح دینے کی نصیحت کی تھی ووٹ مگر روٹی کو ملے تھے۔ انسان  کی بنیادی ضرورت روٹی ہی ہے اسی لیے  سب سے بڑی نیکی لوگوں کو کھلانا ہے تو سب سے بڑی بے انصافی خدا کے کنبے کو بھوکا رکھنا ہے۔ 
 ہم اسلام کے جس قلعے کے باسی ہیں اس کی دیواریں ضخیم اور بلند ہیں۔ اس قلعے کے اندر بعض چھتیں عام چھتوں سے چالیس گناہ زیادہ مضبوط ہیں۔ اس کی منڈیر کے کنگروں پر ایٹمی ابابیل اس قلعے کی حفاظت کرتی ہیں تو ایٹمی چھتری اس قلعے کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔  مگر اس قلعے کے باہر ہمارے کہے کا اثر نہیں ہوتا۔ ہماری دہمکیاں ہوا بھرے غبارے ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ہماری طاقت ہمارا بوجھ بن جاتی ہے۔ ہمارا نظریاتی ٖ فخرخاک راہ ثابت ہوتا ہے۔ہمارے ہمدرد بے سروپا کر دیے جاتے ہیں۔  اس قلعے کے اندر ہماری محنتیں بے ثمر رہ جاتی ہیں۔ ہماری قابلیت اور ہنر بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے فتوے نا قابل عمل بن جاتے  ہیں۔ امید وہ سہارا ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر انسان زندگی بسر کر لیتا ہے مگر مایوسی کے لشکر اس مضبوط قلعے کے خفیہ راستوں سے مانوس ہو چکے ہیں۔
ملکوں میں سویت یونین اور شخصیات میں حسین شہید سہروردی، دونوں ہی داستان بن چکے مگر ہم داستانوں سے کیا سبق سیکھیں گے۔ 
آج کل پاکستان میں ارطغرل کے کارناموں پر عوام کو ایک ڈرامہ دکھایا جا رہا ہے۔ دنیا پر 600 سال تک حکمرانی کرنے والے اس گروہ کے بارے میں کتابوں میں درج ہے وہ یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں اعلیٰ تعلیم دلوایا کرتے تھے۔پاکستان میں میٹرک تک مفت تعلیم مہیا کرنا آئینی تقاضا ہے مگر عملی طور پر     آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے    جس کا مقام   ردی کی ٹوکری    ہے ۔  اور بیانیہ یہ ہے کہ قوم ان پڑھ اور جاہل ہے۔

اتوار، 2 اگست، 2020

چاند اور ستارے


دوسرے نے پہلے کو بد دعائیں دیں۔  پہلے نے تحمل سے سنا اور جواب دیا 

  اگر روز جزا  میزان کا  پلڑا میرے گناہوں سے جھک گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے، میں اس سے بھی بد تر ہوں اور اگر گناہوں کا پلڑا  ہلکاہو کر اوپر اٹھ گیا  تو جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہے 
 
اس جملے کے پیچھے تقوی ٰ کا پہاڑ ہی نہیں علم کا گہرا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ایسا جواب کسی دوسرے نے نہیں بلکہ اس پہلے نے دیا تھا۔ جسے سابقین میں پہلا  خودعالمین کے صادق اور اللہ کے آخری نبی  ﷺ  نے بتایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل ؓ  نے اپنی وفات سے قبل کہا تھا    علم کو ان کے پاس تلاش کرنا    ۔
ان کو خود اللہ کے رسول  ﷺ  نے 300 کھجور کے درختوں اور 600  چاندی کے درہموں کے عوض عثمان بن العشال سے خرید ا ۔آزادی کا پروانہ  حضرت علی بن ابو ظالب نے لکھا اور نام  سلمان  خود رسول اللہ ﷺ  نے رکھا ۔ ان کو اپنے نام سلمان پر فخر تھا  مگر جب بات دین کی آئی تو کہا میرا نام اسلام ہے ۔ صاحب تاریخ مشائخ نقشبند نے لکھا ہے کہ کسی نے سلمان فارسی سے پوچھا تھا    آپ کا نسب کیا ہے   تو انھوں نے جواب دیا تھا    اسلام     اور کہا کہ جب ہمارا دین  اسلام ہے تو ہمارا سب کچھ اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں  باپ، بہن بھائی سے زیادہ عزیز ہے 
 
سلمان فارس میں خوشفودان نامی زرتشت کے گھر پیدا ہوئے تو ان کا نام مابہ رکھا گیا۔ اور سولہ سال کی عمر تک انھیں آتش پرستی کی تعلیم دے کر ایک معبد کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ علم کی تاثیر ہے کہ وہ اپنے طالب کے اندر مزید علم کے حصول کی آتش کو بھڑکاتا ہے۔اس آتش پرست نوجوان کی آتش بھڑکی تو اس نے شام کا ارادہ کیا۔ خاندان کے لاڈلے بیٹے کو گھر والوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکے۔ اور شام میں عیسائی راہبوں کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔ علم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے طالب پر حقیقت آشکار کرتی ہے۔ شام میں ہی انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ اصل کامیابی  کا علم اس نبی کے پاس ہو گا جن کے سارے ہی صاحبان علم منتظر تھے۔ انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی آمد یثرب میں ہوگی۔ ان نبی آخر الزمان کی پہچان کی نشانیاں بھی انھوں نے ازبر کر لیں تو یثرب کے ارادے سے بنو کلب کے کاروان کے ساتھ ہو لیے۔ وقت نے انھیں بنو قریظہ کے عثمان بن العشال کا غلام بنا دیا۔ 
خندق کی کھدائی کا مشورہ دینے والے اس ساسانی پردیسی کہ اہمیت اس وقت کھلی جب مہاجرین نے کہا سلمان ہم میں سے ہے  مگر انصار کا صرار تھا  سلمان ہم سے ہے ۔ بات اللہ کے رسول  ﷺ  تک پہنچی تو فرمایا۔     سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے   یہ ایسا شرف تھا جو صرف  حضرت  سلمان ؓ  کے حصے میں آیا ۔
صحابہ کرام ہمارے قمر نبوت کے نجوم ہیں۔ بات ستاروں کی ہو مگر استعاروں میں ہو تو علم فلکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہر ہر ستارے کی اپنی وسعت ہے۔ آسمان پر اورین بلٹ  میں تین ستارے چمکتے ہیں  
.  النقاط1
.  النیلم
  المنظقہ
یہ تینوں ستاروں کی دنیا دوسرے آسمانی ستاروں سے مختلف ہے۔ ان کی چمک کا انداز ایسا روشن ہے کہ رات کے وقت آسمان کی وسعتوں میں ان کی نشان دہی مشکل نہیں ہوتی۔ روشنی، روشنی ہی ہوتی ہے مگر روشنیوں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ قمر نبوت کے نجوم میں تین نام دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان ناموں میں:
۔  سلمان فارسی
۔ صہیب رومی 
۔  بلال حبشی ۔ شامل ہیں 
اللہ کے رسول نے ایک دفعہ چار ناموں کا ایک چارٹ بنایا تو اپنے نام کے ساتھ ان تین پردیسیوں کے نام شامل کیے۔ رسول اللہ کے دنیا سے وصال کے بعدیہ   مہاجرین   مسلمانوں کے قلوب میں  ایسے    انصار   بن کے رہے کہ  حضرت بلال کو مسلمانوں کے خلیفہ    یا سیدی    سے مخاطب ہوتے تھے  تو حضرت سلمان کو مدائن کی فرمان روائی پیش کی جاتی تھی ۔  
اصحاب رسول  ﷺ  ایسے لوگ تھے جن کے دلوں میں اللہ تعالی ٰ  نے ایمان ثبت کر دیا تھا  (المجادلہ؛؛۲۲) البتہ مسلمانوں پر دین کا یہ قرض باقی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  کے فرمان کی روشنی میں قمرو  نجوم کے استعاروں کو کھولیں تاکہ تشنگان علم  کے قلوب میں ایمان کی رسوخیت کی کونپلیں کھل کر پھول بن جائیں۔