Dilpazir Ahmad ، اردو کالم ۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Dilpazir Ahmad ، اردو کالم ۔ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 30 ستمبر، 2021

اناج کے پڑولے سے شلوار تک


 


دنیا میں کمیونزم ناکام ہوئی تو روس کے پندرہ ٹکڑے ہو گئے۔ یوگوسلاویہ بھی ٹوٹا اور اس کے آٹھ حصے ہوئے۔ چیکو سلواکیہ چار ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ بوسنیا ہرزگوینیا دو حصوں میں بٹا۔ ان ممالک کے پاس عسکری طاقت موجود اور اسلحہ کے انبارتھے۔ لش پش وردیوں میں ملبوس فوجی اور خود کو ناقابل شکست تصور کرتے جرنیلوں کو مگر جوہر دکھانے کا موقع ہی نہ ملا۔جب پاکستان دو لخت ہوا تو سبب فوج کی قلت یا اسلحہ کی نایابی نہ تھی بلکہ معاشی محرومی نے اپنا کام دکھایا تھا۔

لوگوں کو خواب دکھایا جاتا ہے۔ رہنماراہ متعین کرتے ہیں اور عوام تعبیر پانے کے لیے معجزے برپا کرتی ہے۔ چین نے اوپن ڈور پالیسی برپا کی تو ان کے رہنماء نے عوام کو ایک خواب دیکھایا، عوام کے لیے محنت کا میدان ہموار کیا اور مختصر عرصے میں مثالی معاشی کامیابی حاصل کر لی۔

پاکستانی عوام میں سے جن لوگوں کو آزاد معاشروں مین محنت کرنے کے لیے میدان میسر آتا ہے۔ وہ چند سالوں میں اپنی اہلیت کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ ملک کے اندر ایسا نہیں ہے کہ محنت نہیں کی جاتی بلکہ حقائق یہ ہیں کہ محنت کش موجود ہیں مگر ہمارے رہنماء بے راہ ہو چکے ہیں۔

موجودہ حکومت ہی کو دیکھ لیں دو سالوں کی پرامید محنت نے اقتدار تو دلوا دیا مگر تین سالوں کی کارکردگی نے عوام کو مایوسی کے گڑہے میں دھکیل دیا ہے۔ ہمارے رہنماوں کی ساری صلاحتیں اس پر ضائع ہو رہی ہیں کہ ان کی کارکردگی پر جو دو حرف لکھے اس پر چار حرف بھیجے جائیں۔ کارکردگی یا سمت کی درستگی پر تبصرہ ذات پر حملہ تصور کیا جاتا ہے اور سیاسی مجاہدین کو ان پر چڑھ دوڑنے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔

بدیسی آقاوں نے ہمیں مذہبی طور پر تقسیم کر رکھا تھاتو دیسی آقاوں نے مذہبی ہی نہیں لسانی، علاقائی، نسلی اور طرح طرح کی معاشرتی تقسیم میں الجھا رکھا ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں تقسیم اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ اختلافات سے خیر برآمد کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ کسی کا بیانیہ مقدس ہے تو کسی کی شخصیت۔ ڈہول قابلیت اور انصاف کا پیٹا جا رہا ہے۔ حالانکہ عدالت اعتراف کر چکی ہے کہ انصاف دینے میں ناکام ہے۔بیانوں اور تقریروں کا مقابلہ جاری ہے۔ یہ فقرہ کہ ( امیر کے لیے ڈالر مہنگا اور غریب کے لیے روپیہ سستا کر دیا گیا ہے) کسی دوسرے سیارے سے درآمد نہیں ہوا بلکہ یہ چرب زبانی کا اعجاز ہے۔صحت کے میدان میں رنگین کارڈ تقسیم کر کے اپنوں کا پیٹ بھر دیا گیا ہے مریض البتہ ہسپتالوں کے دروازوں کے باہر سسک رہے ہیں۔ امن و امان کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو گی کہ تحفظ فراہم کرنے والے ادارے خود نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی چھتری تانے ہوئے ہیں۔

پاکستانی سخت جان لوگ ہیں عشروں سے برے حالات کا پہلوان بن کر مقابلہ کر رہے ہیں۔خوراک مگر پہلوان کو بھی درکار ہوتی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مرد سارا دن مشقت کرتا اور عورت سستی خوراک کے حصول کے لیے قطاروں میں دن گذارتی ہے۔زرعی ملک کا المیہ یہ ہے کہ گندم اور چینی درآمد کی جاتی ہے۔ حکومتی وزراء میڈیا پر بیٹھ کر آٹے اور چینی کے جس نرخ کا اعلان کرتے ہیں۔ حکومت خود اپنے سٹورز پر اس نرخ پر سپلائی دینے میں ناکام ہے۔

غربت کی ندی کے ایک کنارے پر ووٹ کو عزت دو کا غلغلہ ہے دوسری جانب الیکٹرانک ووتنگ مشین زندگی اور موت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ایک فریق حکمرانوں سے کرسی چھین لینا چاہتا ہے تو دوسرا مخالفین کو صفحہ ہستی ہی سے مٹا دینے کا متمنی ہے۔

جب چند ممالک ٹوٹ رہے تھے اسی دور میں ٹوٹا ہوا مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہو رہے تھے تو اس کے اسباب میں بڑا سبب مالی خوشحالی تھی۔عقل، ذہانت اور صلاحیت کے اظہار کے خالی پیٹ نہ ہونا شرظ ہے

(جنھاں دے پڑولے دانے انھاں دے کملے وی سیانے)

یہ معاشی مجبوری ہوتی ہے جو اخلاق اور منفی رویوں کر فروغ دیتی ہے اور اس فروغ میں روز بروز فروغ ہی ہو رہا ہے۔نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ بے روزگاروں کو مصروف رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پر جنسی ٹوٹے ریلیز کیے جاتے ہیں۔ نوجوان کبھی شلوار کے درشن کرتے ہیں اور کبھی اتری ہوئی پتلون سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ دراصل یہ ثبوت ہے اس مالی بدحالی کا جس نے قوم کے اخلاق کو پست کر دیا ہوا ہے۔

جمعرات، 15 اکتوبر، 2020

اردو کالم اور مضامین: جواب آں غزل

اردو کالم اور مضامین: جواب آں غزل: میرے اس فیس بک کے اکاونٹ میں جب دوستوں کی تعداد ۵ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے تو نئے دوستوں کو گلہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ان کو  Add  نہیں کر ...

جمعہ، 21 اگست، 2020

بلوچستان کا سہروردی



نئے پاکستان میں سیاست دان چور اور لٹیرے بتائے جاتے ہیں اور آمروں کے دور کی خوشحالی کو یاد کر کے سرد آہ بھری جاتی ہے۔پرانے پاکستان میں کالا باغ ڈیم اورنظام مصطفی پر سیاست کی جاتی تھی تو نئے پاکستان میں انفراسٹرکچرکی تعمیر اور ذرائع آمد و رفت کی سہولیات  میں عوام کوشامل کرنے کے عمل پر چار حرف بھیجنے کی سیاست عام ہے۔ پہلے MRD   اور  ARD  بنائی جاتی تھیں اب  JIT  کا دور ہے۔  پرانے پاکستان میں سچ اشاروں کنایوں میں بولا جاتا تھا۔ اب جھوٹ ٹی وی کی سکرینوں پر دہڑلے سے بولا جاتا ہے۔ اس نئے پاکستان میں ایوان بالا کے سابق چیرمین جناب رضا ربانی نے میر حاصل بزنجو کی رحلت پر کہا ہے کہ    ان جیسا ایمان دار سیاست دان پورے پاکستان میں نہیں ہو گا    یہ منفرد قسم کا خراج تحسین ہے ۔ 

  میر حاصل بزنجو   ضیاء اور مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے۔ گرفتاریوں نے ان کا سیاسی قد اونچا کیا تو جیل نے متحمل مزاج مدبر بنانے میں کردار ادا کیا۔الیکٹڈ اور سیلیکٹڈ کی بحث میں الجھے اس معاشرے میں وہ جو دہیمے لہجے میں گہری بات کرنے کے ہنر سے آشنا تھے انھوں نے ایوان بالا میں تاریخی الفاظ کہے تھے 

               یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری طاقتیں پارلیمان سے زیادہ طاقتور ہیں   ۔

جامعہ کراچی سے تعلیم یافتہ  میر حاصل کے والد جناب غوث بخش بزنجو بلوچستان کے پہلے غیر فوجی گورنر اور آئین ساز کمیٹی کے رکن تھے تو ان کے دادا ریاست قلات کی سیاست کے روح رواں تھے ان کا عہدہ گورنر کے عہدے کے ہم پلہ تھا۔

میر حاصل بزنجو  زیادہ صوبائی اور علاقائی خود مختاری کے حامی تھے۔ جناب عمران خان بھی اقتدار حاصل ہونے سے پہلے ایسی ہی خود مختاری کے علمبردار تھے اور پولیس تک کو میونسپل کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔جناب حاصل بزنجو مسلح مزاحمت کے مخالف اور سیاسی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے ان کی رحلت پر  بجا طور پر کہا کہ    دستور، پارلیمان اور جمہوریت کے لیے ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں   ۔دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار ایوان بالا کے ممبر منتخب ہونے والے میر حاصل بزنجو نے چیرمین کے انتخاب کے بعد کہا تھا    آج مجھے پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے    ان کی موت کے بعد کاش یہ شرم جمہوریت مخالف جتھوں کو آنا شروع ہو جو ملکی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج کا پیدا کرنے کا سبب ہیں۔

ان کے والد کی وسیع لاہبریری میں کارل مارکس اور لینن کی کتابوں کو دیکھ کر انھیں مارکس اور لینن کا پیروکار بتانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عملی سیاست میں ان کو پیپلز پار ٹی کے قریب لانے میں کسی کتاب کا نہیں مگر  شہید بی بی کا کردار تھا۔ بی بی کی شہادت کے بعد اس کردار کو جناب آصف علی زرداری نے نبھایا حقیقت مگر یہ ہے کہ نواز شریف کے مقناطیسی مزاج نے اس جمہوریت پسند کو اپنی طرف راغب کر لیا تھا۔ وہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے کے باوجود نواز شریف کے سیاسی اتحادی تھے۔

 وہ پسماندہ طبقوں اور بے انصافی سے کچلے گئے عوام کی توانا آواز تھے۔ عدالت سے بالا بالا نظریاتی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے وہ  ناقد، معلوم اور نا معلوم کے نام پر لوگوں کے پیاروں کو اپنوں سے جدا کر دینے کے مخالف اور نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے مظلومین کو طاقت سے کچلنے پر چپ نہ رہ سکنے والے انسان تھے۔ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا ان کی سرشت میں تھا اور ظالموں کو گلہ تھا کہ وہ سردار ہو کر لکیر کے دوسری طرف کیوں کھڑے ہیں۔   میر حاصل بزنجو بلوچستان کے    حسین شہید سہروردی    تھے۔  جون ایلیاء نے شائد ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ

                                        جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں