جمعہ، 1 اگست، 2025

بنی اسرائیل کون تھے؟




بنی اسرائیل کون تھے؟

بنی اسرائیل کا مطلب ہے "حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد"۔ عربی میں "بنی" کا مطلب ہے "بیٹے" اور "اسرائیل" حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا، جس کا مطلب بعض روایات کے مطابق "اللہ کا بندہ" یا "اللہ کا مجاہد" لیا جاتا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ قرآن و بائبل دونوں میں ان کا ذکر ہے اور ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی ابتدا اور تاریخی پس منظر:

بنی اسرائیل درحقیقت ایک قوم تھی جس کی شروعات حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں سے ہوئیں۔ انہی بارہ بیٹوں کی نسل آگے جا کر بارہ قبائل میں تقسیم ہوئی، جو مجموعی طور پر "بنی اسرائیل" کہلائے۔ یہ قوم سب سے پہلے شام، فلسطین اور مصر کے علاقوں میں آباد ہوئی۔
مصر میں قیام اور غلامی:

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کے بعد بنی اسرائیل مصر منتقل ہوئے، جہاں ابتدائی دور میں انہیں عزت ملی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ فرعونوں کے دور میں یہ قوم غلامی، مظالم اور ذلت کا شکار ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خروج مصر:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی اور رہائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ انہوں نے فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی اور انہیں مصر سے نکال کر وعدے کی سرزمین (فلسطین) کی طرف روانہ کیا۔ اس واقعے کو "Exodus" یا خروجِ مصر کہا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی خصوصیات اور ان کی غلطیاں:

بنی اسرائیل وہ قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء، معجزات اور آسمانی کتابوں سے نوازا۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے کئی واقعات، ان کی آزمائشوں، ناشکری، انبیاء کی نافرمانی اور بعض اوقات ان کی ہٹ دھرمی کا تفصیلی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی میں سے تھے۔
کیا موجودہ دور کے یہودی بنی اسرائیل ہیں؟
نسلی اعتبار سے:

جی ہاں، موجودہ دور کے بہت سے یہودی نسلی طور پر بنی اسرائیل کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سفاردی، اشکنازی اور مزراحی یہودی شامل ہیں، جو دنیا بھر میں آباد ہیں اور اپنی جڑیں قدیم بنی اسرائیل سے جوڑتے ہیں۔

لیکن اس بارے میں کئی تاریخی، مذہبی اور سائنسی اختلافات بھی موجود ہیں:
1. خالص نسل کا دعویٰ مشکوک:

ہزاروں سالوں میں بنی اسرائیل کی نسل میں مختلف قوموں کی آمیزش ہوئی، غلاموں، نو مسلموں، شادیوں اور مختلف اقوام میں میل جول کے باعث اب یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ تمام یہودی خالص بنی اسرائیل ہیں۔
2. خزر یہودیوں کا معاملہ:

تاریخی شواہد کے مطابق 8ویں صدی میں وسط ایشیا کی ایک قوم "خزر" نے اجتماعی طور پر یہودیت قبول کی، حالانکہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا۔ موجودہ دور کے مشرقی یورپ کے کئی اشکنازی یہودی انہی خزر قوم کی نسل سے سمجھے جاتے ہیں، اس لیے انہیں خالص بنی اسرائیل ماننا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
3. مذہب اور نسل کی تفریق:

یہودیت ایک مذہب بھی ہے اور نسل بھی۔ کچھ لوگ پیدائشی یہودی ہوتے ہیں (یعنی بنی اسرائیل کی نسل سے)، کچھ لوگ وقت گزرنے کے ساتھ مذہبِ یہودیت قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہر یہودی کو نسلِ بنی اسرائیل سمجھنا درست نہیں۔
خلاصہ:

موجودہ دور کے بیشتر یہودی خود کو بنی اسرائیل کی اولاد سمجھتے ہیں اور مذہبی و تاریخی حوالوں سے اس پر فخر کرتے ہیں، مگر تاریخی اعتبار سے ان کی نسل کی خالص حیثیت پر سوالات موجود ہیں۔ بعض یہودی حقیقی بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جبکہ بہت سے یہودی دیگر اقوام کی نسل سے ہیں جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ یہودیت قبول کی۔

اسلامی نقطہ نظر:
قرآن مجید بنی اسرائیل کو بطور قوم مخاطب کرتا ہے اور ان کے واقعات میں عبرت، ہدایت اور انتباہ کی نشانیاں بیان کرتا ہے۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ اللہ کے نزدیک کسی قوم کی اصل اہمیت تقویٰ اور عمل کی بنیاد پر ہے، محض نسل یا حسب نسب کی بنیاد پر نہیں۔
نتیجہ:

نسلی اعتبار سے بنی اسرائیل کی موجودگی آج بھی دنیا میں پائی جاتی ہے، مگر خالص نسل کی پہچان تاریخی اور سائنسی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ اصل کامیابی نسل میں نہیں، بلکہ عمل، کردار اور اللہ کی رضا میں ہے، جو ہر انسان کے لیے کھلا راستہ ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: