جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

خان کہاں ہے ؟

عمران خان کیلئے تصویری نتیجہ
اس ملک کو ڈاکو اور چور کھا گئے، عوام کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا یہ آواز ہر کان تک پہنچ چکی۔ ایک وزیر با تدبیر ٹی وی پر ریوالنگ کرسی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں میری وزارت سے سابقہ چور حکمران سب کچھ لوٹ کر لے گئے وزارت کے کھاتے میں صرف تیس روپے پڑے ہیں ۔ اس پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا اس کا صدقہ کر دو۔
ہر سیاسی جماعت معاشرے کے کسی طبقے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے جہاں سے اس کو مالی کمک مہیا کی جاتی ہے۔منفرد اور طویل دھرنے کے دوران شیخ الاسلام صاحب نے رات گئے خواہش کا ااظہار کیا اور صبح ہم نے سکول کے لیے سامان لیے ٹرک موقع پر دیکھے تھے۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت جس طبقے کے مفاد کی دعویدار ہوتی ہے ، عمل اس کے بر عکس نہ ہو تو بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے یہی اعمال عوام کی اکثریت کو بد ظن کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں میں کمی کا سبب لاتعلقی کا اظہار ہے۔
عمران خان صاحب کی پی ٹی آئی کا المیہ مگر اس سے بڑھ کر ہے ۔اس جماعت کا دعویٰ تھا مر جائیں گے مگر قرض نہیں لیں گے، پورے پاکستان میں مہنگائی کو عوام نے سہہ لیا۔ہزاروں ڈیم کے بارے میں عوام کہتی ہے سو دنوں میں ہونے والاکام نہیں ہے۔مگر عوام پوچھتی ہے وہ دو ارب ڈالر کیا ہوئے جو عمران خان کے کرسی پر بیٹھتے ہی پاکستان میں آنا تھے۔ اب ہمارے وزیر خزانہ صاحب اس سوال پر ہنس دیتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ ہنسی عوام کے فہم پر ہے؟ عوام کو یہ بھی یاد ہے چوروں کی حکومت میں جو سات ارب روپے کی مبینہ روزانہ کرپشن تھی وہ اب رکی کہ نہیں ؟ تو جواب ملتا ہے پولیس اور بیرو کریسی ہماری بات ہی نہیں مانتے۔  عوام تو اس پولیس اور بیورو کریسی کو نسلوں سے جانتی ہے بس آپ کی جماعت ہی اس زمینی حقیقت سے ایک صوبے میں پانچ سال کی باری کے بعد بھی بے خبرنکلی۔عوام کو یاد ہے آپ نے پچاس بلین ڈالر سالانہ کے موصول زر کا ذکر کیا تھا۔ اس کے جواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہے اور پاک چین راہداری کی درآمدات پر تبرہ کیا جاتا ہے ، حالانکہ سابقہ وزیر اقبال احسن کا کہنا ہے کہ اس کی ادائیگی اگلے سال سے شروع ہونی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ وہ چور ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں۔ تین سوارب جو سوئس بنکوں سے پاکستان میں آنا تھے اس کا جواب وزیر اطلاعات جیسے با خبر بھی تراشنے میں ناکام ہی ہیں۔لیکن سو ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ نہ رکنے اور دس ٹریلین کا ٹیکس امیروں سے اکٹھاکر کے غریبوں پر خرچ کرنے کی امید اس دن دم توڑ گئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سابقہ بجٹ پر قلم پھیر کر اپنا بجٹ اسمبلی سے منظور کرا لیاتھا۔
نا اہل وزیر اعظم نے تین ماہ میں ملک مین بجلی پوری کرنا کا دعویٰ کیا تھا ،پہلے سو دنوں میں ان کی پھرتیاں دیکھ کر عوام کی ڈھارس بندہی تھی کہ سو دنوں مین نہ سہی پانچ سالوں میں ہی یہ گھاٹی عبور کر لی جائے۔آخر کار چار سالوں بعد عوام کے گھروں کے اندہیرے اجالے میں بدلے۔
سپریم کورٹ نے جب سے عمران خان کے بارے میں صادق و امین کی سند جاری کی تھی ۔اس کے بعد سے عوام کا خان صاحب کے اقوال پر یقین دو چند ہو گیا تھا۔ خان صاحب نے مگر پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرتے زمینی حقائق کو دیکھا تک نہیں۔
ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے، جو معاشرے کے ہر فرد کو ازبر ہوتا ہے۔اس بیانئے کو لے کر افراد اور معاشرہ آگے جاتا ہے۔امریکہ میں غلامی اسی صدی میں ختم ہوئی ہے مگر ایک شخص نے عوام کو ایک بیانیہ دیا تھا۔ اس کی تبلیغ پر اپنا تن ،من دھن لگا دیا تھا۔مگر اس کا بیانیہ سادہ اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے والا تھا۔برطانیہ میں جمہوریت کے علمبرداروں نے تاج اچھالے بنا ایسا بیانیہ عوام کو دیا جس کو رد کرنا کسی کے بس میں نہ تھا۔چین کی موجودہ ترقی بھی ایک بیانئے کا کرشمہ ہے۔ ایک شخص ایسا بیانہ لے کر اٹھا جو حکمران پارٹی کے دشمنوں کو چین لانے کی دعوت پر مشتمل تھا۔ پارلیمان کے ممبران تو دور کی بات ہے خود پارٹی کی سطح پر انگلیوں پر گنے جانے والے افراد ہی اس کے وژن پر ایمان لائے تھے۔مگر اس نے ایک ایک فرد کے پاس جا کے اپنا بیانیہ لوگوں کو سمجھایا تھا۔ آج چین کی معیشت کہاں کھڑی ہے سب کو معلوم ہے۔
عمران خان صاحب کی جماعت عوام کو بتاتی تھی یہ ہم ۲۲ سالوں سے محنت کر رہے ہیں۔ نیا پاکستان بنائیں گے ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ بلواسطہ ٹیکس ختم ہو جائیں گے، ہر شخص کو کام پر لگایا جائے گا۔ مگر کبھی وزیر خزانہ ہنس دیتے ہیں تو کبھی بتایا جاتا ہے کہ چور وزارت کے اکاونٹ میں تیس روپے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ سب سے بڑا چور تو نواز شریف بتایا جاتا تھا۔ وہ تو سزا بھگتنے کے لیے لندن سے چل کر آ گیا تھا۔اگرچور تھا، عوام پوچھتے ہیں، چوری کا مال نکلواتے کیوں نہیں۔وزیر با تدبیر فرماتے ہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔ عدالت کہتی ہے پارلیمان سست ہے۔ مگر وزیر اعظم صاحب تو کہتے ہیں می ں چھوڑوں گا نہیں ۔مگر پارٹی میں موجود سند یافتہ چوروں، ڈاکووں ، منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کا نام لیا جائے تودوسرے ہفتے نام لینے والا ملازمت سے فارغ ہو جاتا ہے۔
اب عوام کہتی ہے پی ٹی آئی نے ۲۲ سال اپنے بیانئے کو مقبول بنانے ہی میں صرف کیے ہیں۔ وہ معاشرے کے جس طبقے کے مفادات کی نگہبان ہے ان ہی کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہے۔ عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس شہداء کی جو فہرست ہے ان میں اکثریت امید کی بتی کے پیچھے دوڑ میں ہانپ کر مر جانے والوں ہی کی ہے۔
کرسی کا اپنا ہی بیانیہ ہے۔ جوانگریز کے وقت سے چلا آ رہا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا حاکم ہے باقی سب محکوم۔ 
پاکستان میں دوبارہ ایسے بیانئے کے لیے جگہ خالی ہے جہاں عوام کے ساتھ معاملہ کرنے والے پٹواری اور تھانیدار جو حکمران ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے شخص کو نہ بٹھا دیا جائے جس کو احساس ہو کہ اس کا کام عوام کی خدمت ہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ان دونوں کرسیوں کے بیچ میں کھڑے عوامی نمائندے کو بیٹھنے کے مستقل کرسی مہیا نہ کر دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی کارکن ہانپ ہانپ کر گرتے ، مرتے رہیں گے جن کو سیاسی مبلغین سیاست کی جنت برین میں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کی اولادیں تعلیم کو اور ان کا خاندان دو وقت کی روٹی کو ترس جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت مقبول تھا ۔ مگر عمل نے ہدف ہی تبدیل کر دیے ہیں ، اب ہدف پٹواری اور تھانیدار نہیں بلکہ وہ تیسرا ہے جو عوام کی خدمت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کر کے آتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا ہدف یہی تیسرا ہے ۔عوام تو یہی کر سکتی ہے خان صاحب کی بجائے نیازی صاحب پکارنا شروع کر دے۔جب عمران خان صاحب کے سابقہ شیدائی سے اس کا سبب پوچھا تو اس کا جواب تھا۔ عمران احمد نیازی میں خان کہاں ہے

پاکستان اکیلا نہیں ہے اس حمام میں


‪CBI moin akhtar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                   
پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں سی بی آئی اسکینڈل چل رہا ہے جس میں ہونے 
والی تحقیقات کے دوران سی بی آئی کے کئی ایک ڈائریکٹرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے ہیں اور ان سب کے زوال کا سبب بنے والے شخص کا نام ہے معین اختر قریشی۔
ارب پتی معین اختر قریشی کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے اور اُن کا شمار گوشت کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔انہیں سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
معین اختر قریشی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سے سرکاری افسران کو خوش رکھنے کے لیے انہیں حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ان کی طرف سے نوازے جانے والوں میں سی بی آئی افسران اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معین قریشی کا نام 2014ء میں سامنے آیا جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے سی بی آئی چیف رنجیت سنہا سے 15ماہ کے دوران 70بار ملاقات کی۔حیدرآباد دکن کے بزنس مین ستیش بابو کے مطابق انہوں نے اپنے ایک دوست کی ضمانت کے لیے معین اختر قریشی کو ایک کروڑ روپے دیے تھے۔
2014ء کے بعد بھی معین اختر قریشی کے سی بی آئی کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور پیغامات کا تبادلہ جاری رہااور اب سی بی آئی کے نئے چیف الوک ورما بھی ان سے تعلقات رکھنے کے الزام میں اپنے سارے اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قریشی نے اپنے کاروبار کا آغاز 1993ء میں رامپور میں ایک چھوٹے سے مذبح خانے سے شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار بھارت کے چند بڑے گوشت برآمدکنندگان میں ہونے لگا۔25سال کے دوران ان کی کمپنیوں کی تعداد 25ہوگئیہے اوروہ برآمدات کے علاوہ تعمیرات اور فیشن انڈسٹری میں اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔

پیر، 22 اکتوبر، 2018

آزمودہ نسخہ



یہ واقعہ مستند کتاب میں درج ہے۔ زبان دراز اور بے عمل ہجوم پر مشتمل ایک قوم ہوا کرتی تھی۔ تنظیم نام کی شے سے وہ واقف نہ تھے۔ دو وقت کی روٹی کے عوض اپنے مالکوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔ پھر قدرت نے اپنے دن پھیرنے کے قانون کے تحت چاہا ان کے دن پھیر دے۔لیکن وہ نئے سفر پر روانگی کے لیے گھر کی دہلیز ہی چھوڑنے پر تیا ر نہ تھے۔ ان ہی میں سے اللہ نے ایک بندے کو نبی بنایا۔ جو ساری بھیڑکو ہانک کر ایک میدان میں لے گئے۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں مگر ان کا اصرار تھا کہ مقابلہ ان کی بجائے ان کا نبی اور نبی کا خدا کرے۔خدا تو مقابلے میں ان کی فتح کا فیصلہ لکھ ہی چکا تھا مگر خدا نے حالات بھی ان بے عملوں کے موافق کر دیے۔ جب وہ فتح یاب ہو چکے تو ان کا قصہ اسی خدا نے ایک دوسری قوم کے سنانے کے لیے ایک دوسرے نبی کے دل پر القاء کیا ۔ اس نبی نے کتاب میں لکھوایا اور وہ کتاب پوری دنیا میں مستند مانی جاتی ہے ۔ اس دوسرے نبی کی قوم کو بھی نوازنے کا فیصلہ وہی خدا کر چکا تھا۔ نبی نے قوم کو میدان میں نکالنے کے لیے اکٹھا کیا۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں۔ اس قوم نے اپنے نبی سے کہا ۔ خدا تو آسمانوں میں اپنی کرسی پر ہی بیٹھا رہے۔ اور اپنے نبی سے کہا ہم میدان میں مقابلہ کریں گے ۔ آپ بس ہمارے درمیان موجود رہ کر ہماری ڈھارس بڑہاتے رہیں ہم آپ کے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے رہیں گے، ہم میدان میں لڑیں گے، لڑتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور اگر ضرورت پڑی تو گہرے پانیوں میں بھی کود جائیں گے۔ اس قوم کے نبی نے اپنے لوگوں کے عمل کو دیکھا ، پرکھا، ان کے کر گذرنے کی داد اس طرح دی کہ ان کو بتا دیا تم شما ل اور جنوب ، مغرب اور مشرق کے مالک بنادیے جاو گے۔ جاہ و جلال چل کر تمھیں سجدہ کرنے آئیگا۔ دنیا کی فراوانی تمھاری دہلیز پر پہنچے گی۔لوگ تمھیں حکمران بنا کر عافیت پایا کریں گے۔یہ قوم میدان امتحان سے فراغت پاتی تو کام میں جت جاتی۔کام سے فرغ ہوتی تو علم کی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی۔ یہ قوم کھانے مین سست اور کھانے کا حق ادا کرنے میں چست ہو گئی۔ اس قوم نے عملی طور پر معلوم کر لیا تھا امارت قناعت میں ہے۔ اقل طعام ان کے معدے کو سیر کرنے کا سبب بنا۔یہ کفائت شعار رات کو بے ضرورت دیا نہ جلاتے مگر بھوکی انسانیت کے لیے اپنی تجارت کے مال کا اصل بھی لٹا دیا کرتے تھے۔ان کے دبدبے کا یہ عالم ہوا کہ وہ تلوار نیام میں لیے جس شہر میں داخل ہوتے وہ شہر اپنے مکینوں سمیت ان کی جھولی میں آ گرتا۔ 
ہر طاقت کو آزمایا جاتا ہے۔ صناع اپنی صنعت کو صنعت سے آزماتا ہے، طاقت کو طاقت سے ، علم کو علم سے اور اخلاق کو اخلاق سے آزمایا جاتا ہے۔ کلاشنکوف نام کے شخص نے اپنی گن سے پہلی گولی خود چلا کر اسے جانچا تھا۔ جرنیل اپنی فوج کو آزمائشی جنگوں میںآزماتا رہتا ہے، ادیب اور شاعر وں کی محفلیں اپنے فن کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ طالب علموں کو امتحان سے گذارا جاتا ہے ۔ خدا بھی اپنے نائبیں کا محاسبہ کرنے سے نہیں چوکتا۔ 
نبوت کا در بند ہو چکا ۔ قوموں کو نوازنے کا فیصلہ اب بھی وہی خدا کرتا ہے۔جس کو نوازنا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اسباب ارزان کر دیتا ہے۔ 
جب بات اسباب کی ارزانی کی ہو تو نبی آخرالزمان کی قوم کے لیے ارزانی صرف اس کے خون کی باقی رہ گئی ہے۔ اس کا سبب لوگوں کو زبانی ازبر ہے،بتایا جاتا ہے ہم میدان میں نکلنے کی بجائے گھر کی چوکھٹ ہی کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ معدے کی ثقالت نے ہمیں کاہل کر دیا ہے۔ زبان درازی عمل سے بازی لے چکی ہے۔اخلاق روٹھ چکا ہے۔ برکت ناپیدہو گئی ہے۔ ذلت نازل ہو چکی، انصاف ناپیدہو گیا۔تعلیم بے ثمر ہو گئی۔ الفاظ محض لکیریں بن کر رہ گئے ۔ اولادیں نا فرمان ہوگئیں۔ ۔۔ وغیرہ 
کیا مرض لا علاج ہو چکا۔ کیا ہم آنکھیں بند کر کے اپنے مرمٹنے کا انتظار کریں؟
نہیں ۔ نہیں ۔ نہیں، دنیا نشیب و فراز کا نام ہے ہر نشیب کو فرازہے ۔ ہر پستی کو عروج ہے۔ ہر مجرم کے لئے کفارہ ہے۔کوئی قوم غلط نہیں ہوا کرتی مگر افراد۔ فرد ہی کو ملت کے مقدر کا ستارہ بتا یا گیا ہے۔فرد کو آج تک خود فرد ہی نے بدلا ہے۔ آج کا فرد اگر اپنی ذات ، اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنہ امت کو بدلنا چاہتا ہے کہ وہ حق کو اپنا لے۔ حق کے لیے ٓآسان ترین اور سادہ ترین لفظ ْ سچ ْ ہے۔ایسا ْ سچ ْ جو خود اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

خواتین اساتذہ کی لباس کے چناو کی آزادی

                                         


بہادر لوگ اپنے تمغوں کو اور نفیس لوگ اپنے جوتوں کو چمکا کر رکھتے ہیں۔ تمغوں کے اظہار کے مواقع 
محدود ہوتے ہیں مگر جوتے تو روز مرہ استعمال کی چیز ہے۔ چمکتے جوتے بھی تب ہی جچتے ہیں جب سارا لباس ہی اجلا ہو۔ لباس کے بارے میں سیانے کہتے ہیں، موقع محل کے مطابق اور مناسب ہونا چاہیے۔ 
امریکہ کی ایک عدالت میں1969 میں ایک مقدمہ سنا گیا جس میں موقع محل کے مطابق مناسب لباس پر بحث کر کے عدالت سے فیصلہ مانگا گیا تھا۔ اس زمانے میں امریکہ ویتنام میں جنگ لڑ رہا تھا اور امریکہ کے اندر اس جنگ کی مخالفت کے اظہار کے طور پر طلباء نے اپنے لباس پر سیاہ رنگ کی پٹیاں باندہنی شروع کی تو انتظامیہ نے سیاہ پٹیاں باندہنے پر پابندی لگا دی۔ عدالت میں لباس پہننے کی آزادی کو لے کر مقدمہ لڑا گیا۔ البتہ  عدالت نے سکول کی انتظامیہ کا یہ حق تسلیم کیا کہ وہ طلباء کے لیے 
Dress Code
 نافذ کرنے کا حق رکھتی ہے ۔ اس کے بعد سکولوں نے اپنے ڈریس کوڈ کو بطور یونیفارم نافذ کر دیا۔ اور اس یونیفارم کے علاوہ کچھ بھی پہننا ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی شمار ہونے لگا۔وقت کے ساتھ ضرورت کے مطابق اس ڈریس کوڈ میں ترامیم بھی ہوتی رہیں البتہ اس پر اس کا اتفاق ہے ایسا لباس نہ پہنا جائے :
ٌٌ جو کسی مخصوص طبقے، گروہ کا شعار ہو یا کسی تجارتی برانڈ یا لوگو کا پرچار کرتا ہوْ
 کسی نظریے ، فکر یا تحریک کو اجاگر کرتا ہو
 رنگ برنگے لباسوں کی بجائے یکساں رنگ کا لباس ہو
لباس کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ لمبائی کا بھی تعین کر دیا جائے
وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جو ترامیم ہونیں اس کے بعد 
ایسا لباس جو جنسی اشعال کا سبب بنتا ہو یا منشیات کی ترغیب دیتا ہو
ایسا لباس جو انسان کے زیر جامہ اور پردے کے مقامات کے اظہار کا سبب بنتا ہو ا پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ البتہ کچھ چیزوں کو استثناء بھی حاصل ہوا جن میں:
*لڑکیوں کا سر پر سکارف باندھنا
* لڑکوں کا پگڑی باندھنا
* کپہ ( مخصوص ٹوپی ) سر پر رکھنا
* صلیب والے نیکلس پہننا
البتہ لڑکوں کے سر کے بالوں 
* ادارے کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ترشوانا 
بھی ڈریس کوڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔
پاکستان مین نجی تعلیمی اداروں کے ڈریس کوڈ ان کے ماخذ ادارے 
Mother Institution 
کی بجائے ان اداروں کی مقامی انتظامیہ طے کرتی ہے ، جو مقامی موسم و مزاج کے مطابق ہوتے ہیں ۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علم جب سکول مین داخل ہو اس کی تعلیم کے حصول سے توجہ نہ ہٹ پائے اس کے لیے سکول کا ماحول اور اس کا لباس اس کا معاون بنے۔
تبدیلی کے اس دور میں نجی اداروں کی استانیوں کے عباء پہننے اور سر پر سکارف لینے کی ممانعت کی مہم زور شور سے جاری ہے ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اداروں کو استانیوں کے بارے میں ایسا ڈریس کوڈ تجویز کرنا چاہیے جو طلباء کو استانی کی طرف متوجہ رکھنے کا سبب بنے تاکہ دوران لیکچر طلباء کی توجہ بکھرنے سے محفوظ رہے۔
کچھ نجی سکولوں کی انتظامیہ نے اس دلیل سے متاثر ہو کر اپنی خواتین اساتذہ کو زبانی ہدایت کی ہے کہ وہ کالے رنگ کے سکارف کی بجائے شوخ رنگ کے پھول دار سکارف استعمال کریں۔کہا جاتا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس موضوع پر فکر مند لوگ دودھ ہی کے جلے ہوئے ہیں۔ جلن ، جلن ہی ہوتی ہے خواہ بلاواسطہ آگ کی ہو خواہ بلواسطہ۔
اس ملک میں کچھ نجی ادارے غیر مسلموں کے بھی ہیں۔ ان میں اسلامیات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ خواتین اساتذہ کو عباء ہی نہیں کالے سکارف پہننے کی بھی آزادی ہے۔ ان اداروں میں طلباء کو توجہ مضمون پر دینے کی تلقین کی جاتی ہے ۔ کیا مسلمان اداروں کے لیے ہی لازمی ہے کہ وہ اپنے طلباء کو خواتین اساتذہ کی ذات میں دلچسپی لینے کی ترغیب دیں۔ 

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

ذکر دو بہنوں کا


راولپنڈی کی ضلع کچہری میں ایک شخص نے عدلیہ کے کردار کا ماتم کرتے ہوے کہا تھا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ اس سفید ریش کے ساتھ ہوا یہ تھا کہ اس نے اپنے نوجوان کالجیٹ بیٹے کو موٹر سائیکل دے کر مہمانوں کے لیے سموسے لانے کے لیے بھیجا ۔ مہمان چائے پی کر چلے بھی گئے مگر نوجوان واپس نہ آیا ۔ موبائل فون پر ْ آپ کامطلوبہ نمبر بند ہے ْ کی گردان نے اسے پہلے غصہ دلایا پھر تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جب اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوا تشویش بھی گہری ہو گی ۔ کسی ممکنہ حادثے کے خوف نے سر اٹھایا ۔ شہر کے سارے ہسپتال چھان کر بیٹھے تو والد کا فون بج اٹھا۔ کال کرنے والے نے بتایا کہ میں تھانے کی حوالات میں بند اپنے عزیز سے ملنے گیا تھا۔ آپ کے بیٹے نے یہ نمبر دیا اور اطلاع دینے کی درخواست کی تھی ْ 
باپ بیٹے کی کہانی یہ تھی کہ بیٹے کو پولیس والے نے روکا ، لائسنس اور موٹر سائیکل کے کاغذات موجود تھے ۔ پولیس والے نے ایک سول کپڑوں میں ملبوس شخص کو پیر ودہائی کے بس اسٹینڈ پر چھوڑ کر آنے کا کہا، بیٹے نے گھر جلدی پہنچے اور مہمانوں تک سموسے پہچانے کا عذر پیش کیا۔ اس بات پر تلخ کلامی ہوئی ۔ سموسوں سمیت موٹر سائیکل تھانے میں اور بیٹا حوالات میں بند ہو گئے ۔ باپ نے تھانے پہنچ کر اس رویے پر احتجاج کیا تو والد کو بھی بیٹے کے ساتھ حوالات میں بند کر دیا گیا۔محکمے کے بڑوں تک بات پہنچی تو باپ پر منشیات فروشی کا مقدمہ درج ہو چکا تھا۔ عدالت میں پیشی پر ڈیوٹی مجسٹریٹ نے باپ بیٹے کی بات سنے بغیر انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بجھوا دیا ۔ اس بے انصافی پر باپ نے ہتھکڑیوں میں جکڑے دونوں ہاتھوں سے مکہ بنا کر مجسٹریٹ کو مارنے کی کوشش کی جو عدالت کے سٹینو گرافر نے ناکام بنا دی اور پولیس کو ایک اور مقدمہ درج کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ٹریفک پولیس کے اہلکار نے موٹر سائیکل کے کاغذات نہ ہونے پر لڑکے کا چالان کیا تو نوجوان نے اس سے ہاتھا پائی کی اور چالان بک ٹریفک اہلکار سے چھین کر پھاڑ دی۔ نوجوان کے باپ کے خلاف تفتیشی افسر کے پاس ایک شہری کی درخواست موجود تھی جس میں منشیات فروشی کا الزام لگایا گیا تھا ۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور ملزم کو منشیات سمیت گرفتار کر لیا۔عدالت سے باپ بیٹے کی ضمانت منظور ہونے کے بعد وکیل کے چمبر میں بیٹھے تفتیشی افسر کے مطابق جذباتی بڈھے نے خود ہی اپنے کیس کو الجھا لیا تھا۔اس کا جذباتی بڈھے کے پاس جواب نہیں تھا مگر جب بڈھے نے کہا ْ اس ملک میں انصاف مر چکاہے بس اس کی دو بہنیں رشوت اور سفارش زندہ ہیں ْ تو اس کا جواب تفیشی افسر دے سکا نہ وکیل صاحب۔میں سوچتا ہوں اس کا جواب مجسٹریٹ کے پاس بھی نہیں ہو گا جس نے ذاتی انتقام میں ایک جذباتی بڈھے پر ایک نیا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

عمران خان


چین اور پاکستان کے ایک دوسرے سے جڑے مفادات ہی ہیں جن کے باعث دونوں ممالک کی دوستی ہمالیہ کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ گہرے پانی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں اور زمین پر بھی پاک چین راہداری کی شکل میں موجود ہیں۔ 
جدید چین پاکستان سے بہت پیچھے تھا ۔ مگر اس نے تیز ترین ترقی کر کے خود کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ عمران خان صاحب لوگوں کو بتاتے ہیں ْ پاکستان چائنا کی طرح اوپر جائے گا ْ وہ پاکستان کو چین کے رستے پر ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وسط میں ان کی یہ اواز ہنر مندوں اور چھوٹے تاجروں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ وہ مڈل کلاس طبقہ بھی اس بیان کو پسند کرتا ہے جن کے چین کے ساتھ تاجرانہ روابط ہیں۔چین کے سخت اور بے رحم نظام انصاف کو وہ کرپشن ختم کرنے کا آسان حل بتاتے ہیں۔کرپشن کی بے رحم چکی میں پستا طبقہ ان کی آواز کو اپنے دکھوں کا مدادا سمجھتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان صاحب کا یہ بیانیہ بہت سے لوگوں کو پسند آتا ہے۔
برٹش کونسل کے مطابق پاکستان میں انگریزی سیکھنے اور اس کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ ہو ہے، انگریزی میڈیا اور ادب پہلے سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ بات امریکی فلموں بارے بھی سچ ہے۔پاکستانی طالب علموں کو تعلیمی وظائف زیادہ ترمغرب سے ہی آتے ہیں ۔ پاکستانی معاشرہ کا علمی، معاشی اور مقتدر طبقوں کا سماجی قبلہ مغرب ہی ہے۔
اسد عمر صاحب نے ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ْ خان صاحب پورے انگریز ہیں ْ وہ ۱۷ سال کی عمر میں لندن جا بسے تھے زندگی کا بڑا حصہ لندن اور مغرب میں گزارا، ان کا رہن سہن انگریزی ہے۔ انھوں نے اینگلو فرنچ خاندان کی جمائما خان سے شادی کی تھی۔ دو بار شہزادی ڈیانا کو لاہور لائے۔دو برطانوی بیٹوں کے باپ ہیں۔کتوں سے ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ ان کے دوست انھیں کتا بطور تحفہ دیتے ہیں۔وہ مغرب میں قانون کی حکمرانی سے اس قدر متاثر ہیں کہ اپنے جلسوں میں اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ برطانوی پارلیمان کو جمہوریت کی ماں بتاتے ہیں۔پارلیمان کیسے کام کرتی ہے سب ان کو ازبر ہے ۔ جلسوں میں برطانوی جیوری سسٹم کی تعریف کرتے ہیں۔ان کے یہ الفاظ ملک کے متوسط طبقے کو ان کے عزائم دکھائی دیتے ہیں۔انھیں یقین ہے کہ خان صاحب برطانیہ اور سکینڈینیوین ممالک جیسا فلاحی معاشرہ پاکستان میں قائم کر کے پاکستان کو جمہوری اور فلاحی ریاست میں تبدیل کر دیں گے ۔
پاکستان میں ایک بڑے بڑی تعداد میں لوگوں کے عزیزو اقارب دوبئی اور ریاض میں ہیں یہ لوگ دبئی اور ریاض کی روشن اور بلند عمارات، سامان سے لبریز دوکانوں ، نئے ماڈل کی چمکتی شفاف شاہراہوں پر دوڑتی گاڑیوں اور وہاں پر درہم و ریال کی فراوانی سے مرعوب ہیں ۔ ان لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے عمران خان پاکستان کو دوبئی کی طرح ایسا ملک بنائیں گے جہاں مغرب سے لوگ ملازمت کرنے پاکستان آیا کریں گے۔
امیر لوگ دوبئی اور سنگاپور سے متاثر ہیں۔ کھلی مارکیٹ کی بات ان کے ہاں توجہ پاتی ہے۔ سنگا پور کے سابقہ رہنماء 
Lee Kuan Yewکا ذکر خان صاحب اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اکثر کرتے ہیں ۔عمران خان صاحب اس طبقے کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو دوبئی اور سنگاپور بنانا چاہتے ہیں۔آزاد معیشت اور کھلی منڈی کے دلدادہ افراد کو خان صاحب کا یہ وژن اپنی طرف راغب کرتاہے۔
پاکستان میں جرنیل، جج ، اداروں کے سربراہاں اور خفیہ اداروں کے کرتا دھرتا کو ملا کر اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ مرحوم حمیدگل صاحب سے مثاثر ہونے کا وہ خود اعتراف کرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا ْ فوج کے ساتھ کوئی ٹکراو نہیں ہے۔ وہ کرپٹ سیاستدانوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ان سے دور ہونا چاہتی ہے ، کیا یہ غلط ہے کہ میں ان کی حمائت نہ کروں ْ اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ اور حاضر افراد کے ساتھ ان کے روابط کو وہ چھپانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ یہ سوچ اور عمل پاکستان کی مقتدر طاقتوں اور ان کے ہم نواوں کو خان صاحب کا گرویدہ بناتی ہے۔
خان صاحب پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو وہ امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ۔ امریکی امداد اور غیر ملکی شرائظ بھرے قرضوں اور گرانٹوں کو وہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔وہ ڈرون حملوں کے مخالف ہیں۔ان کا شمار طالبان کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک طالبان گمراہ لوگ ہیں ان کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ طالبان کو یہ بات سمجھانے مدرسہ حقانیہ جاتے ہیں۔ ان کی بات کے وزن کو محسوس کیا جاتا ہے۔طالبان کو ان کا بیانیہ پسند ہے
خان صاحب کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست ہے، وہ نماز ادا کرتے ہیں، ان کی پارٹی میں علماء اور مفتیان کرام موجود ہیں، اپنی جوانی مغرب میں گذارنے اور آزادانہ معاشرے کے ثمرات سمیٹنے کے بعد اسلام سے اس قدر مثاثر ہیں کہ شرعی پردہ ان کے گھر کے اندر موجود ہے۔ وہ درگاہوں اور آاستانوں پر سر خم کرتے ہیں۔ کے پی کے میں انھوں نے مساجد کے پیش اماموں کی مالی مشکلات کو کم کرنے کی سعی کی۔ایک جلسے میں انھوں نے کہا تھا ْ محمد ﷺ ایک سیاستدان تھے ْ ان کا یہ طرز کلام و حیات پاکستان میں دینی طبقات کو ان کا مداح اور پیرو کار بناتا ہے۔
وہ ہر موضوع پر بولنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہیں۔ ان کی شخصیت میں سحر اور زبان میں جادو ہے ۔ان کے پاس متاثر کن الفاظ کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ وہ لوگوں کو نہیں ان کے جذبات کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے عوام کی کمزوریوں، خواہشات، اور آگے بڑہنے کی شدید تڑپ سے آگاہ ہیں ۔ وہ اپنی کرشماتی شخصیت سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ وقت کے مشہور ترین شخص ہیں۔ بی بی سی کو ایک انٹر ویومیں انھوں نے کہا تھا ان کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور وہ ملک کو بند کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں
پاکستان کے عوام اور خود عمران خان کی پارٹی کے لوگوں میں خان صاحب کا سیاسی وژن، معاشی سمت اور تزویراتی راہ واضح نہیں ہے ۔اور اس کا سبب خود خان صاحب کا ذہن واضح نہ ہونا ہے
عمران خان صاحب کے بہت قریب اور باخبر وزیر نے ایک غیر ملکی کو انٹر ویو دیتے ہوئے اپنے لیڈر کے بارے میں کہا :
He is selling pakistanis, a dream but he is not a con man. Khan, to me, is not an ideoligist or a popupist ,but a genius at PR.
۔

جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

تیسری منزل

اپنے سکول کے زمانے میں ہم چند دوست ایک ادارے کی لائبریری میں جایا کرتے تھے ۔ اس لائبریری میں کتابوں کے علاوہ غیر ملکی اخبارات و رسائل بھی ہوا کرتے تھے۔ وہاں اس وقت کے سویت یونین کے سفارت خانے کا ْ طلوع ْ نام کا ایک مجلہ رکھا ہوتاتھا جس کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا ْ سچ کی طرح سادہ ْ ہم دوستوں نے کئی مرتبہ اس جملے کی حقانیت پر بحثیں کی مگر اس پر سب متفق ہوجاتے تھے کہ سادہ ترین چیز سچ ہی ہے مگر اس کے اندر لکھے گئے مضامین اور اعداد و شمار بار بار ہمیں بحث کرنے کر مجبور کر دیتے تھے مگر اس جملے کو غلط ثابت نہ کر پاتے تھے۔
پاکستان میں سچ سے بھی اوپر کی ایک قسم ہم نے دریافت کر کے اس کا نام ْ کھرا سچ ْ رکھا ہے ۔ یعنی سچ سے بھی اوپر کی منزل موجود ہے ۔ مگر ہم بحث کرنے والے اپنے دوستوں کو عملی زندگی کی بھول بلیوں میں کھو چکے اور نئے دوست بحث کو اختلاف اور اختلاف کو دشمنی گردانتے ہیں۔کیا دن تھے جب اختلاف رائے ادراک کے نئے در کھولا کرتے تھے۔ 
اب دوسری منزل پر بیٹھ کر ْ کڑا ْ ہی جا سکتا ہے ویسے دوستوں کی محفل ہو تو ہر روز منفرد موضوع ۔ اس منزل پر بیٹھ کر ْ طلوع ْ دور بہت دور نیچے گہرائی میں نظر آتا ہے جیسے یہ دوسری منزل کسی عمودی پہاڑی کی چوٹی پر ہو۔
دنیا میں علم کی نئی نئی جہتیں دریافت ہو رہی ہیں ہم نے مگر سچ کی تیسری منزل دریافت کر لی ہے اس کا نام تو سامنے نہیں آیا مگر بابا بھلے شاہ کے ْ علموں پئے رولے ہور ْ کے مصداق اس نے رولے بہت ڈال دیے ہیں ، سنا ہے یہ ففتھ جنریشن وار کا ایک ہتھیار ہے حالانکہ کتابیں پڑھ کر ہمیں یقین تھا ہتھیار دشمنوں کے لیے ہوتے ہیں مگرجدید حکمت عملیوں کی اس صدی میں ہدف بھی نئے ہو گئے ہیں۔ پہلے وقتوں میں علاقے فتح کیے جاتے تھے اب تسخیر اذہان پر زور ہے۔اس کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دیکھ چکے تھے البتہ افغانیوں کو تجربہ حال ہی میں ہوا ہے۔پاکستان اور اس کے ادارے ہمیشہ فرنٹ پر کھیل کر داد سمیٹنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ ہمیں قوی امید ہے اس میدان میں بھی ہم ہی سر خرو ہوں گے۔ہم نے کچھ عرصہ عربوں میں گزارا ہے عربی زبان ہماری سرائیکی سے بھی میٹھی ہے ۔ ایک لطیفہ سنا کرتے تھے جس کا ترجمہ تو نہ کر پائیں گے مگر مفہوم آپ کو بتا دیتے ہیں ْ جو کام جو کر رہا ہے اسے کرنے دیں اگر نہیں کر پا رہا ہے تو یا حبیبی میں کیسے کر پاوں گا ْ ہم مگر کر گذرنے والے لوگ ہیں ہم کر گزرتے ہیں بشرطیکہ معاوضہ ہمارے شایان شان ہو اور ڈالروں میں ہو

جمعرات، 18 اکتوبر، 2018

کالا کتا



گاوں کے چوہدری صاحب نے کتا پال رکھا تھا ، کتے کے بارے میں پورے گاوں میں مشہور تھا کہ وہ چور پکڑنے میں ماہر ہے ۔ کتے کی اس ماہرانہ خصلت کا مظاہرہ گاوں والوں نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ کتا چوہدری صاحب کی ڈنگروں والی حویلی میں ایک کمرے میں بندہا رہتا تھا۔مشکوک چورکا نام چوہدری صاحب کو پیش کیا جاتا، اگر یہ نام کسی اپنے کا ہوتا تو چوہدری صاحب فرماتے بھائی یہ بڑا الزام ہے، کتا تو کتا ہے ، پہلے کچھ انسانوں سے تحقیق کرالویہ نہ ہو بے چارہ بے گناہ مارا جائے۔ان کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر معاملہ چوہدری صاحب کی بنائی انصاف پسند پنچایت میں پیش کیا جاتا ، گواہ طلب کیے جاتے ، ثبوت مانگے جاتے۔ گاوں میں اہل گاوں کے خلاف گواہی دینے کا حوصلہ تھوڑے دال والے لوگوں میں کم ہی ہوتا ہے۔ بہر حال چوہدری صاحب خدا کا شکر ادا کرتے کہ ان سے بے انصافی کا گناہ سر زد ہونے سے اللہ نے بچا لیا ہے۔ البتہ مخالفین میں سے کسی پر الزام لگ جاتا تو اتوار کے دن کتے کو میدان میں لایا جاتا۔مشکوک چور کو میدان میں بھاگنے کے لیے کہا جاتا ساتھ ہی کتے کا پٹہ کھول دیا جاتا، کتا تماش بینوں کو نظر انداز کر کے بھاگتے چور کی لنگوٹی اتار لیتا۔
ایک دن، ایک مشکوک پکڑا گیا ، پنچایت میں پیش کیا گیا ، گواہ بھی پیش ہوئے ، ثبوت بہرحال کتے نے پیش کرنا تھا۔ جمعے والے دن مولوی صاحب نے نجس و ناپاک کتے کی مذمت کی اور بتایا کہ چوہدری صاحب اس عمل سے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ چوہدری صاحب کے کتے کا رنگ کالا ہے اور کالا کتا، کتوں میں بھی نجس ترین ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایمان تازہ ہوا ، کالے کتے سے گاوں والوں کو نفرت سی ہو گئی۔
پاکستان کے مایہ ناز ادارے نیب کی پھرتیاں ان دنوں عروج پر ہیں ، جس کو چاہتا ہے الزام لگا کر ہتھکڑی پہنا دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے گرفتار کر لیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے پنچایت بٹھا دیتا ہے۔مگر اج تک اس نے جو بھی اور جس کے خلاف بھی ثبوت اکٹھے کیے بھونڈے ہی نکلے۔سب سے مشہور کیس سابقہ نا اہل وزیر اعظم صاحب کا ہوا، ثبوت موٹے موٹے والیم کی صورت میں ٹرالیوں میں لاد کر عدالت میں لائے گئے۔ عوام کو یقین دلانے کے لیے درجنوں ٹی وی چینل ، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ کے ذریعے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔کھوجی دوسرے ملکوں مین دوڑائے گئے، خط و کتابت کے انبار لگ گٗے ، نہ عوام کو یقین آیا نہ عدالت میں کچھ ثابت ہوا۔پنجاب کے سابقہ وزیر اعلیٰ کو آشیانہ کے عنوان سے گرفتار تو کر لیا گیامگر ثبوت کی باری آئی تو نیب نے دانت نکال کے دکھا دیے ۔ نیب کا کردار چوہدری صاحب اور ان کے کالے کتے جیسا ہی ہے

منگل، 16 اکتوبر، 2018

کالم نویسی اور فنکاری


ایک صاحب اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے ، پرانے پاکستان میں کہ ہر آدمی اور ہر ادارہ ہی کرپٹ تھا، ایک 
ادارے نے میڈیا والوں میں ریوڑیاں بانٹیں۔ سرکار ی اداروں میں ایک ایک روپے کاحساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا اور کہاں خرچ ہوا۔ حساب درج رجسٹر ہو گیا ۔ آڈیٹر حساب چیک کرنے آئے جمع تفریق برابردیکھ کر رجسٹر پر آڈیٹڈ کی مہر ماری رجسٹر بند کرنے سے پہلے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر رجسٹر نمبر ، صفحہ نمبر لکھا اوررجسٹر بند کر کے دفتر سے روانہ ہو گیا۔ 
کالم نویسی آج کل قلم گھسیٹنے کا نام ہے ، گھسیٹنے کے مقاصد ہوا کرتے ہیں ، جب کسی کو گھسیٹا جاتا ہے تو عام طور پر بغض کی کہیں جلتی آگ کو ٹھنڈا کیا جا رہا ہوتا ہے، کالم نویس جو حالات کو دیکھ کر مستقبل کی پیشن گوئی کیا کرتے تھے شہر خموشاں میں جا سوٗے یا گم نامی کے اندہیروں میں گم ہیں۔
ایک محفل میں صحافت کی دنیا کے چند بڑے ایک سیاسی شخصیت کی شادی پر تبصرہ کر رہے تھے ، پاس سے گذرتے کالم نویس کو بھی پاس بٹھا لیااور جب اسے تبصرہ کی دعوت دی تو سب حیرت سے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے لگے ۔ ایک صاحب نے کہاکیا آپ یہ لکھ کر دے سکتے ہیں۔ اسی ہفتے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں ایک کالم چھپا اور جناب ارشاد احمد حقانی نے اپنا کہا لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔وہ خود تو اللہ کی جنت میں جا بسے مگر ہم نے دیکھا کہ جناب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر ہوئے۔ حرف مگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ْ حرف تمنا ْ ہوتا ہے اورثقیل ہوتا ہے، دوسرا حرف قیمت پاتا ہے ۔ جس چیز کی قیمت وصول کر لی جائے انمول نہیں رہتی۔ جب مقتول کا بیٹا خون بہا وصول کر چکا ہوپھر وعدہ خلافی جرم بن جایا کرتی ہے۔ غیرت کا با غیرت لوگ بھی اسی وقت تک ساتھ نبھاتے ہیں جب تک غیرت کو بیچ نہ دیا گیا ہو۔زبان سے نکلا لفط رقم ہو کر ہی قیمتی بنتا ہے ، اس لیے کہ اس پر عمل ہونا ہے ۔ معاہدوں کو تحریر کرنے کا مقصد انھیں پایہ تکمیل تک پہچانا ہوتا ہے۔ کالم نویس کی مثال مبلغ جیسی ہے۔ مبلغ چالیس دن کی تبلیغ میں وہ پیغام ڈیلیور نہیں کر پاتا جو ایک درویش چوبیس گھنٹوں میں کر دکھاتا ہے۔ بے عمل زبان سے معجزے برپا کر دیتا ہے جو اس کو نظر بھی آرہے ہوتے ہیں مگر درویش جانتاہے معجزے برپا کرنا ایک عہد کے بعد ممکن نہیں رہا ۔ صاحب عمل سعی کرتا ہے اور داد لوگ نتیجے کو دیتے ہیں۔
ذکر ریوڑیاں بانٹنے کا شروع کیا تھا، وہ کاغذ کا ٹکڑاایک سیاسی شخصیت کی میز پر رکھا تھا ، اس کو بھی یقین تھا یہ انٹری بوگس ہے مگر اس نے کالم نویس سے کنفرم بھی کر لیا۔ یقین حاصل کرنا ایک چلہ یا تپسیا ہے ، یہ جو ہم سنتے ہیں فلاں بزرگ نے ایک نظر میں زندگی کا رخ بدل دیا، یہ جو ہمیں یقین ہوتا ہے فلاں جو کہہ رہا ہے سچ ہی ہو سکتا ہے، یہ جو فلاں نے لکھ دیا ہے غلط نہیں ہو سکتا ۔ یہ مقام تپسیا کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے مگر اس مقام کی حفاظت لگاتار تپسیا کی متقاضی رہتی ہے۔اور اپنے مقام کی حفاظت کرنے والے لوگ رات کے اندھیرے میں معاشرے کے مجرم نہیں چھڑایا کرتے، وہ شخصیت کے سحر سے آزاد ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی پاک دامنی کے قصیدے خود نہیں لکھا کرتے اور دوسروں پر سنگ باری بھی نہیں کیا کرتے۔لفظوں سے کھیلنا ایک فن ہے ۔طلوع آفتاب سے پہلے ایک ساعت آتی ہے جب فنکاراپنے فن کی داد پاتا ہے۔ البتہ جو فنکار سر شام ہی داد لینے چوکڑی مار کر بیٹھ جائے اسے تو اس کے شعبے کے لوگ بھی فنکار نہیں مانتے ۔ ہم خوبصورت لفظوں والے فنکار کو کالم نویس کیونکر مان لیں۔ 

پیر، 15 اکتوبر، 2018

نام

میرے دوست کے گھر بیٹا پیدا ہوا میں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا جوابی پییغا م آ یا اچھے اور اسلامی نام تو بتائیں۔ بچوں کا نام رکھنا بہت آسان کام ہے ، ہفتے کے دنوں پر نام رکھنا برصغیر میں کافی مقبول عمل رہا ہے ۔ منگل سنگھ ایک فلم کا کردار تھا جو کافی مقبول ہوا۔ڈاکٹر جمعہ پاکستان کے ایک مایہ ناز معالج کا نام ہے۔ستاروں پر بھی نام رکھنا معمول ہے ۔ زہرہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک خوبصورت دوشیزہ تھی جس نے زہرہ ستارے کا روپ دھار لیا تھا ۔ زہرہ جبین، چندا، قطب الدین وغیرہ۔بعض لوگ پانی پر بھی نام رکھ لیتے ہیں جیسے سمندر سنگھ، دریا خان ۔ میں نے ایک فہرست میں نالی خان نام بھی پڑھا ہے۔کچھ حس لطیف رکھنے والے بوستان ، گل خان، گل لالہ ، گلاب سنگھ، چنبیلی قسم کے نام رکھ کر خوش ہوتے ہیں، جانوروں پر نام رکھنا اپ کو عجیب لگے گا مگر آپ کی ملاقات شیر خان سے بھی ہو سکتی ہے۔پتھرو ں پر بھی نام رکھا جا سکتاہے ۔ میرے ایک جاننے والے کانام ہیرا ہے، موتی اوروں کے علاوہ انسانوں کا نام بھی ہوتا ہے ، زمرد خان ہمارے ایک ہیرو ہیں جنھوں نے اسلام آباد میں ایک اسلحہ بردار کو قابو کیا تھا۔عقیق خان میرے دوستوں میں شامل ہے۔
آپ نے سنا ہو گا عقل مند وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتا ہے ۔ مستنصر حسین تارڑ کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر مشکل نام رکھنے سے پہلے حالات و وقعات پر غور کر لی جئے گا ، میری فرینڈ لسٹ میں عزیٰ نامکی ایک لڑکی تھی ۔ اسے مجھ سے ملاقات کا بڑا شوق تھا چند سال پہلے کراچی میں اس سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی مسٹر نکلی۔ چند دن قبل ایک یونیورسٹی کے استا د نے اپنے بیٹے کا نام موسیٰ رکھا میرے پوچھنے پر کہنے لگا عام فہم اور ْ سو بر ْ ہے۔کسی کا نام ٹھن ٹھن گوپال بھی تھا، راے چوپٹ سندھ کے ایک راجے کا نام تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ نام اہم نہیں ہے ، ابراہیم، محمد ، حسین ، احمد خان، علی، رحمت ان ناموں کو شخصیات نے عزت دی ۔ جعفر اور صادق جیسے ناموں کو بدنام بھی شخصیات نے کیا۔ مختصر ، عام فہم ، مانوس سا کوئی بھی نام رکھ لیں۔ انشاء اللہ نام عزت پائے گا ۔ 

سچ


پچیسجولائی کے عام انتخابات کے بعد جب ٹی وی پر غیر رسمی غیر حتمی نتائج دکھائے جا رہے تھے تو حلقہ این اے ۵۷ سے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور نون لیگ کے امیدوار جناب شاہد خاقان عباسی صاحب  جیت چکے تھے اور یہ نتیجہ پی ٹی وی کی سکرین پر دکھا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اقلیت کو معلوم ہے اور اکثریت بھی زیادہ بے خبر نہیں ہے۔تین ماہ میں بہت سا پانی بہہ گیا ہے، زمین بطور حقیقت سامنے ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی مقبولیت کی حقیقت این اے ۱۲۴ کے نتیجے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ تحمل مزاج، بردبار ، پاکستان کے بیٹے نے اپنے حلقے کا نتیجہ بدل دیے جانے کے واقعے کو ہرز جان بنایا نہ کوئی شکوہ زبان پر لائے البتہ لاہور ۱۴ اکتوبر کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دینے اکٹھے ہوئے حلقے کے لوگوں سے خطاب کے دوران انھوں نے بردباری سے لیکن اہم واقعہ سنایا کہ انھوں نے ۴۰ سے زیادہ پولنگ کے مراکز کے دورے کے دوران کسی ایک پولنگ کے مرکز پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزد پریذاڈنگ افسر کومرکز کا انچارچ نہیں پایا ۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے چیرمین کے سامنے ایک سنجیدہ سوال رکھا ہے۔ یہ سوال پاکستان کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ البتہ توجہ ان کے بردبار لہجے اور الفاظ کے چناو کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے۔ 
یہ ثاثر دیا جاتا ہے کہ نون لیگ مزاحمت کی سیاست کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی اس کا جواب بھی لاہور کے حلقہ این اے ۱۳۱ کے ووٹروں نے دے دیا ہے کہ جب خواجہ سعد رفیق نے اپنے پولنگ ایجنٹوں کے ذریعے نتائج حاصل کر لینے کے بعد اپنی جیت کا اعلان کر دیا تو ریٹرنگ آفیسر نے ان کے نتائج روک لیے اور خواجہ سعد رفیق کے بیان کو بتنگڑ بنانا چاہا تو ووٹر آر او کے دفتر پہنچ گئے اور نتیجہ لے کر ہی ٹلے اور ٹی وی کے سٹوڈیوز میں براجمان نام نہاد اینکروں کی قینچی کی طرح چلتی زبانیں بند ہو گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی اپنی آپ بیتی کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ وہ سیاسی مخالف کی ٹانگ پکڑ کر اس کا گھٹنا نہیں توڑیں گے۔ اس مثبت تبدیلی کا مظاہرہ اس دن دیکھنے میں آیا جس دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک اندھی گولی نے جمہوریت کی اس شمع کو بجھا دیاتو جیالوں نے میاں نواز شریف کے کندھے سر رکھ کر گریہ کر کے اپنادکھ ہلکا کیا تھا۔اسی سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف صاحبان کے دور میں کسی سیاسی مخالف پر مقدمہ نہیں بنا۔
میاں نواز شریف صاحب کی حکومت بننے کے ایک سال کے اندر ہی لندن پلان پر عمل کر کے اسلام آباد کا معاصرہ کر لیا گیا۔ریاست کی اہم عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کر کے قبریں بھی کھود لی گئیں جن میں وزیر اعظم سمیت سیاسی مخالفین کو دفنانا مقصود تھا۔ ریاست کی طاقت کی مظہر پولیس کے ایک لائق اور با کردار نوجوان افسر کو دارلحکومت کی شاہراہ دستور پر پھینٹا لگا دیا گیا۔ مگر میاں نواز شریف صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ خود ان کی ذات پر ایسی دھول اڑاہی گئی کی ناظرین کے مناظر دھندلا گئے۔ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے لوگوں کو سمجھانے کی مخلصانہ کوشش کی کہ ستر سالہ عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار یہی شخص ہے۔
ُ شدید دباو کے باوجو دمیاں صاحب نے تحمل اور بردباری سے پارٹی اور کارکنوں کو سمجھایا کہ ملک اور عوام کی خوشحالی بہتر معیشت میں پوشیدہ ہے۔اور ہمارا جارحانہ رویہ معاشی ترقی کی راہ کو مسدود کر دے گا۔جس حکمت عملی کو اپنا کر ہم نے ملک میں انفرا سٹرکچر کا جال بچھایا ہے اور پاکستان کے لیے جو دن رات کام کیا ہے وہ خواب بکھر جائے گا۔ان کو یقین ہے بے بنیاد، جھوٹے اور گھٹیا الزام اپنی موت آپ مر جائیں گے۔پاکستان کے عوام اپنے برے اور بھلے کی بہتر تمیز کر سکتے ہیں۔دوسری طرف ان کے مخالفین نے اس سوچ کو نون لیگ کی کمزوری جان کر اقتدار کی کرسی چھین لی۔
نئی حکومت کو آئے دو ماہ ہو رہے ہیں،سو دن کا ابتدائی عرصہ پالیسیوں کے بناو سنگھار اور افسران کی تعیناتی ہی مین گذر جاتا ہے مگرتاثر تو یہ دیا گیا تھا کہ ۲۰۰ قابل افراد جیب میں ہیں، توقع یہ تھی بیرون ملک مقیم پاکستانی اس حکومت کے آتے ہی ڈالر روانہ کر دیں گے،بتایا جاتا تھا ہر تعیناتی قابلیت کے بل بوتے پر ہو گی۔توقع یہ تھی کہ کفائت شعاری اپنائی جائے گی۔سنجیدہ دوست کہتے تھے ۲۲ سال کی تیاری ملک کی قسمت بدل کر رکھ دے گی۔بلند بانگ دعووں ۔ زبانی لن ترانیوں اور بے سرو پا اقدامات کے سوا مگر دو مہینوں میں عوام کو کچھ نظر نہیں آیا۔ترقی کا عمل رک چکا ہے۔بقول وزیر خزانہ ان کو ۱۷ ارب ڈالر خزانے میں ملے تھے اس کے باوجود ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملکوں ملکوں مفلسی کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا۔پی ٹی آئی کا ورکر ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چکا ہے۔ اس کو ادراک ہو گیا ہے کہ یہ صرف گرجنے والے بادل ہیں۔اس کا اندازہ ضمنی انتخاب کے نتائج کی صورت میں ہو چکا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ریوڑیاں بٹ رہی ہیں، سیاسی مخالفین پر تبرہ اونچی اواز میں بھیجا جاتا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ماہرین کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وہ لوگ جو ذاتی سرمائے کے بل بوتے پر ان شعبوں مین کچھ کر رہے تھے ان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔پہلے سو دن سورج نکلنے سے پہلے سحر کی طرح ہوتے ہیں مگر لوگ اس سحر کو صادق ماننے پر تیا ر نہیں کہ سحر صادق کے آثار ایسے نہیں ہوتے۔
لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام ہو گئے ہیں مگر خان صاحب کے مخلصین بتاتے ہیں ناکام نہیں ہوے وہ نا اہل ٹولے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کیا وزیر اعظم کو اس کا ادراک نہیں ہے؟
ہمیں یاد ہے ایسے سوال محترمہ شہید اور میاں صاحب کے بارے میں بھی پوچھے جاتے تھے۔ مگر ان کے مابین مفاہمت کی دستاویز ان کے ادراک کا اظہار تھا ۔ ہماری دلی خواہش ہے خان صاحب کامیاب ہوں۔ اپوزیشن نے اسمبلیوں میں حلف اٹھا کر اپنے اخلاص کر اظہار کر دیا ہے۔عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیاں ملک کا ہاتھ ہوتی ہیں ، ہاتھ کو دھونا یا کاٹنا ہمیشہ حکومتی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایک عاقل نے لکھا ہے ْ سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں   اس سچائی کو یوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی
میاں نواز شریف سچ کے تینوں مرحلوں سے گذر چکے البتہ عمران خان صاحب کے سچ کے پہلے مرحلے کے بارے میں ہی عوام تذبزب کا شکار ہے

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

تشدد


انسان دو قسم پر ہیں ایک وہ جو اپنے علم و تجربہ کے بل بوتے پر ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔ علم مگر ایک جاری عمل ہے جب انسان علم 
کی ایک سیڑھی طے کر کے دوسری سیڑھی کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنے سابقہ خیالات اور اعتقادات کے بل بوتے پر ہی نیا ادراک پاتا ہے وہ سابقہ ادراک کی نفی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ نیا وسیع ادراک اس کے سابقی محدود ادراک ہی کی ایک بہتر شکل ہوتی ہے۔علم حاصل کرنے اور اس کی بڑہوتی میں اختلافی دلیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ 
دوسری قسم کا انسان جب علم کا ایک زینب طے کر کے اس پر قناعت کر لیتا ہےتو وہ سابقہ زینوںکو کم تر سمجھ کر انھینں مردود قراردیتا ہے، اور علوی زینوں سے نا مانوسیت کے سبب ان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ خوفزدہ شخص اپنی لا علمی کے سبب متشدد ہو جاتا ہے ۔ گو تشدد کا سبب خوف ہوتا ہے مگرسبب لا علمی ہی بنتا ہے ۔ یہ وہ عنصر ہے جو معاشرے کو تشدد کی طرف دھکیلتا ہے ۔سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بد زبانی لچر پن اور گالی گلوچ بھی تشدد ہی کی ایک قسم ہے

جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

کٹا


ایک مراثی کے بیٹے نے آخر کار بابا جی سے جن قابو کرنے کا علم سیکھ کر ایک جن قابو کر ہی لیا۔ جن کو جو کام بتایا جاتا وہ لمحوں مین مکمل کر کے اں حاضر ہوتا اور کہتا " ہور حکم " بے چارے نےتنگ آ کر بابا جی کی مدد چاہی ، بابا جی نے پوچھا تمھارے گھر مین "مج " ہے کہنے لگا مج تو نہیں ہے کٹا ہے۔ بابا جی نے کہا ہرروز صبح کٹا کھول کر بھگا دیا کرو اور اسے پکڑنے پر لگا دیا کروتمھارا دن اچھا گذر جائے گا .

غربت کا مسئلہ

لوگ دو طرح کے  ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ اورغربت ایک مسٗلہ ہے . روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے October 2004 کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے .
 سروے کے ایک ممتاز ادارے Statisca.comکے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط 67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہےپاکستانفی آدمی فی سال131 کلو گندم پیدا کرتا ہے. بھوک مسئلہ ہے مگر سیاسی ہے





پیر، 8 اکتوبر، 2018

عصاء


اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم عطا فرمایا اور اشرف کہہ کر حکمرانی کی کرسی پر بٹھا دیا، اٹھارہ ہزار نعمتیں اس کے آگے رکھ دیں کہ اس سے لطف اندوز ہو۔ لکڑی بھی ان اٹھارہ ہزار نعمتوں میں شامل ہے، ابتداء سے ہی انسان اس نعمت سے مستفید ہوتا آ رہا ہے،کھانا پکانے ، سردیوں مین جسم تاپنے، گھر بنانے کے بعد انسان نے اسی لکڑی سے بنے کوئلے سے ریل انجن چلانے سے بجلی پیدا کرنے تک کا کام لیا۔ لکڑی سے انسان نے تسبیح بنائی، کرسی، میز اور پلنگ تیار کیے۔ عصاء بھی لکڑی کا بنا ہوتا ہے جو ان انسان اپنے مقصد کے لیے ہاتھ میں لے کر چلتا ہے۔اس کو لاٹھی ، چھڑی ،سوٹا ، لٹھ،سہارا اور ڈانگ بھی کہاجاتا ہے۔نام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ نام کے سہارے ہی تصویر ذہن میں محفوط یادداشت سے ابھرتی ہے۔
عصاء سے عقیدت اور بزرگی کا عکس ابھرتا ہے،کچھ عصاء مشہور بھی ہوئے کچھ عقیدتوں کا محور بنے، کچھ کو تاریخ نے یاد رکھا۔معلوم تاریخ میں اللہ کے نبی سلیمان کے عصاء کو خاص اہمیت حاصل ہے،نبی اللہ موسی کے عصاء کا ذکر کتاب میں محفوظ ہے،عصاء کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ نبی خاتم المرسلین نے بھی اس کو ہاتھ میں رکھا۔ موجودہ تاریخ میں میانوالی والے مولانا عبد الستار خان نیازی کے عصاء نے بھی اپنے وقت میں خوب شہرت پائی تھی۔مولانا دوسرے بزرگوں کی طرح اسے اپنے نبی کے عمل کی تقلید میں ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔انھوں نے عصاء پر گرفت مضبوط رکھی اور اللہ نے ان کے شملے کو بلند رکھااور ان کے عصاء کو کوئی دوسرا نام دینے کی کسی کو اللہ نے توفیق ہی نہ دی۔
چھڑی عصا ، ہی کی چھوٹی بہن ہے مگر نام کے بدلنے سے ہی ذہن میں موجود عصاء کے ساتھ عقیدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔چھڑی کے مختلف علاقوں میں استعمال مختلف ہیں، چھڑی کا عام استعمال کتوں سے بچنا ہے۔کچھ علاقوں میں اسے تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،بعض تعلیمی اداروں میں چھڑی کو بطورپوانٹر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سیاست میں اس سے استعفیٰ وغیرہ لینے کا کام بھی لیا جاتا رہا ہے۔
عصاء کو ڈنڈا کہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نمازی بے وضو ہو گیا ہو۔اور حقیقتا ڈنڈے کا استعمال رحمت العالمین کے پیرو کاروں کو بے وضو ہی کرتا ہے۔ڈنڈا چھڑی سے بڑا ہوتا ہے اور ہمیشہ بطور ہتھیار ہی استعمال ہوا ہے۔جس نسل نے ٹاٹ والے سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے وہ ڈنڈے کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔سرکار کے پاس بھی ایک ڈنڈا ہوتا ہے جو معلمانہ ڈنڈے سے کافی تگڑا ہوتا ہے اور پولیس کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔اور سرکار کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے کام آتا ہے۔عصر جدید میں اس کو حکومت کی رٹ قائم رکھنے کا نام دیا گیا ہے۔رٹ قائم رکھنے کی ضرورت ہر طبقے،معاشرے اور ملک میں ہوتی ہے، اس میں ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تفریق کرنا بے معنی ہے۔ڈنڈے کا سیاسی استعمال
1971
میں بنگالیوں پر ہوا تھا۔ایف ۔ایس ۔ ایف نامی ایک فورس کے پاس بھی کافی مضبوط ڈنڈا ہوتا تھا۔آئی جے آئی ایک تحریک تھی جو ڈنڈے کے ساتھ آئی تھی مگر خالی ہاتھ لوٹ گئی تھی۔
لکڑی ہی سے انسان نے دستہ دریافت کیا تھا جو مختلف ہتھیاروں کے استعمال کو سہل بنانے کے کام آتا ہے۔ جیسے درانتی، کھرپا ، بھالا، کلہاڑی وغیرہ کے دستے۔ ایک دستہ گینتی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگرسیاسی جماعت کے جھنڈے کی طرح گینتی کا دستہ بھی کثیر المقاصد شے ہے۔
2014
میں اسلام آباد میں یہ دستہ عصمت اللہ جونیجو کا سر پھاڑنے میں استعمال ہوا تھا۔پاکستان ٹیلیویژن کی عمارت پر قبضہ کرنے والوں کو
22
 کروڑ کی آبادی نے جب سے پہچاننے سے انکار کیا ہے ، اس کے بعد دستہ کا لفظ ذہن میں گڈمڈ رہتا ہے ، فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس کو متبرک عصاء کہا جائے، حکومتی رٹ قائم رکھنے والا ڈنڈا کہا جائے، با اختیار چھڑی میں شمار کیا جائے ، عوامی ڈانگ کہا جائے یا نا اہلی کی لٹھ کا نام دیا جائے۔ 

اتوار، 7 اکتوبر، 2018

کنواں اور گرگٹ

اگر دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت میسر کردی جائے، ہر بے زمین کو پانچ مرلے زمین سرکار عطیہ کر دے، سرکارپچاس لاکھ گھربناکر غریبوں کو قسطوں پر دے دے، نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دے دی جائیں، عافیہ صدیقی کو رہا کرا کر پاکستان لے آیا جائے، زرعی امرجنسی لگا کر زمین بانٹ دی جائے، سرائیکی صوبہ بنا دیا جائے، ڈیم کی تعمیرکا کام شروع ہو جائے،ڈالر کے مقابلے میں روپے کو استحقام حاصل ہو جائے،پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت کی جائے، پاکستان سے لوٹا پیسہ واپس لے آیا جائے، ماڈل ٹاون کے مقتولین کو انصاف مہیا کر دیا جائے، اختیارات کی ٹاون کی سطح تک منتقلی ہو جائے، برابری کی سطح پر بھارت بات چیت پر آمادہ ہو جائے، فوری انصاف کی فراہمی ممکن بنا دی جائے، غیرت مند انہ خارجہ پالیسی کو اپنا لیا جائے، ملک کے اندربے رحمانہ احتساب کا دور چل پڑے، 
چوروں سے ستر سالوں کی لوٹ مار کی برامد ہو جائے،ہر دولت مند کو ثابت پڑے کہ دولت کہان سے آئی ہے ، نیب ، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کو قانون کی نکیل ڈال دی جائے،تھانے میں غریب کو کرسی پر بٹھایا جائے، ملک میں انتقام نہیں ا بلکہ انصاف کی فراہمی ہونے لگے،تیس سال سے پرانے مقدمات کو نمٹادیا جائے،پاک فوج سمیت ہر ادارے میں جھاڑو پھیرکر صفائی کی جائے، پولیس کو عوام کا خادم بنادیا جائے،لینڈ رجسٹریشن کو شفا ف بنادیا جائے،صحت پر توجہمرکوز ہوجائے،تعلیم کو پورے ملک میں یکساں کردیا جائے،ٹیکس کے نظام میں بہتری لائی جائے،ریلوے میں خسارے کو ختم کر کے با منافع بنادیا جائے، بجلی کی ترسیل میں بہتری لاکرنئے پاور پلانٹ لگنا شروع ہو جائیں، ملک میں گیس کی قلت کو دور کردی جائے،پی آّ ئی اے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ائر لائن میں بدل دیا جائے،سٹیل مل کو چلا کراس سے منفع کمایا جائے،پی ٹی وی کو سرکاری کنٹرول سے آزاد کردیا جائے ، جاہ وجلال والا پروٹوکول ختم کرکے سادگی اپنالی جائے، خاندانی سیاست کا غلبہ ختم کردیا جائے، الیکشن کمیشن کو خود مختار بنادیا جائے، میڈیا کی ٓزادی کا تحفظفراہم کر دیا جائے، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لے آ کر ذمہ داروں کو جواب دہ بنایا جائے۔ ملک میں مسنگ پرسن کا مسٗلہ حل کردیا جائے،ملک سے مفرور مجرموں کو واپس لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے تو شائد ہمارے سارے نہیں تو اکثر مسائل حل ہو جائیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری اور وعدے ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں میں کیے ہیں، 
ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے انھوں نے منتیں مانی، تعویز کرائے، منتیں ترلے تک کیے کہ ایک بار ان کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے دیا جائے تو وہ ایسے معجزے کر دکھائیں گے جو لوگوں کو مطمن کر دیں گے 
یہ قوم سات دہائیوں سے انتظار کر رہی ہیں آدھی دہائی مزید انتظار کرلے گی کہ اس کے سوا اور آپشن کیا ہے 
عوام ایک اخبارمیں شائع ہونے والی خبر پر البتہ انگشت بدندان ہے کہ ْ پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والوں کے خلاف حکومت نے سخت کاروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہےْ
عوام امید کے خشک کنویں میں اس مینڈک کو دیکھنے میں بہت دلچسپی دکھا رہی ہے جس کے بارے میں افواہ ہے کہ اس نے گرگٹ کا روپ دھار لیا ہے۔

جمعہ، 5 اکتوبر، 2018

طلسماتی موتی



ااٹھاروین ترمیم کو پہلے دن سے ہی ریاست کے اداروں کے کچھ اہم افراد نے پسند نہیں کیا تھا۔ حتی ِکہ ایسا وقت بھی آیا کہ چیف آف آرمی 
سٹاف کی آواز بھی ان آوازوں میں شامل ہوگئی ۔ اب اٹھاروین ترمیم کےخلاف باقاعدہ مہم کا آغاز ہو گیا ہے اور اسے زرداری ترمیم کا نام دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہے(فوائد چوہدری نے جیو کےخانزادہ کے ساتھ انٹر ویو میں اس کا اعتراف کیا ہے)
ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ عمران خان اپنے وژن کے مطابق حکومت کو چلائیں جب مشکل فیصلہ کرنا ہو تو عوام کو اعتماد میں لیں اور کر گذریں اس طرح پارٹی اپنے منشور اور خان صاحب کے وژن کے مطابق فیصلے کرے گی تو نہ صرف پارٹی کو اہنا ہدف حاصل ہو گا بلکہ عوام کی طرف سے حمائت میں اضافہ ہو گا، یہ گروپ نہ صرف اٹھارویں ترمیم واپس لینے کے خلاف ہے بلکہ موجودہ حالات مین سیا سی مخالفت کا گراف نیچے لانے کا حامی ہے , پرانے اور بنیادی ساتھی ہونے کی وجہ سے ان کا پارٹی اور پارٹی سربراہ کے ساتھ جزبانتی لگاو ہے۔ ان لوگوں نے وفاداری اور ایثار کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے ان کو یقین ہے کہ ان کا وجود ہی اصل پارٹی ہےلہزا
فیصلے کرتے وقت ان کے جذبات کا پلڑا سیاست کے پلڑے کو بلند کر دیتا ہے . بلندی ہی مطلوب و مقصود ہے اور .. سیاست کی کس لیے جاتی ہے ؟
یہ سوال وہ جام ہے جس میں دوسرے گروپ کا سارا موقف ہی مثل میخانہ سما جاتا ہے
یہ گروپ دبے لفظوں میں خان صاحب کو ریاستی اداروں سے ڈراتا ہے اور تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اپوزیشن مضبوط ہے مینڈیٹ کمزور ہے ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے . ان لوگوں کا پارٹی کے اندر پلڑا بلند ہے تو پارٹی کے باہر بھی ایسے با اثر لوگوں کی حمائت حاصل ہے جن کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی بات کہنے کے وسیع مواقع میسر ہیں .
لوگوں نے محسوس کیا ہے کہ ، خان صاحب ,جو اپنی بات پر قائل کرنے کے ساحر ہیں , وزیر اعطم بننے کے بعد زبان کے جادو دکھانے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ مگر عملی جادو کے زور پر وہ قائد حزب اختلاف کی زبان سے یہ اگلوانے میں کامیاب ہو گئے ہین کہ اپوزیشن پنجاب کی حکومت گرانے پر نظر نہیں رکھے ہوئے ہے . جادو کا منتر جو میاں شہباز شریف کے سر چڑھ کر ان کی زبان سے بولا ہے . یہ منتر دوسرے مخالف رہنماوں بشمول میاں نواز شریف پر پڑھ کر پھونکنے کی ضرورت ہے .
پاکستان کے نامدار اخبار جنگ میں جناب ارشاد حقانی صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ و جناب آصف علی زرداری صاحب کے شادی کے فوری بعد ایک کالم میں زرداری صاحب کے صدر پاکستان بن جانے کے امکانات پر بات کی تھی .اس ذکر کا مقصود یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تجزیہ نگار اس گہرائی مین اتر جاتے ہیں جہاں دوسرے ممالک کے تجزیہ نگار پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جناب سہیل وڑائچ صاحب گہرے پانیوں سے خالص موتی چن کر لانے والے تجزیہ نگار ہیں۔ ان کا تلاش کردہ قومی مفاہمت کا موتی غالی ہی نہیں طلسماتی بھی ہے ۔ موجودہ حکومت اسے بے مول لے کر سیاست، معیشت اور استحکام کے کالے علم کے عفریت پر قابو پا سکتی ہے۔