جمعہ، 5 اکتوبر، 2018

طلسماتی موتی



ااٹھاروین ترمیم کو پہلے دن سے ہی ریاست کے اداروں کے کچھ اہم افراد نے پسند نہیں کیا تھا۔ حتی ِکہ ایسا وقت بھی آیا کہ چیف آف آرمی 
سٹاف کی آواز بھی ان آوازوں میں شامل ہوگئی ۔ اب اٹھاروین ترمیم کےخلاف باقاعدہ مہم کا آغاز ہو گیا ہے اور اسے زرداری ترمیم کا نام دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی اس وقت دو دھڑوں میں تقسیم ہے(فوائد چوہدری نے جیو کےخانزادہ کے ساتھ انٹر ویو میں اس کا اعتراف کیا ہے)
ایک گروپ یہ چاہتا ہے کہ عمران خان اپنے وژن کے مطابق حکومت کو چلائیں جب مشکل فیصلہ کرنا ہو تو عوام کو اعتماد میں لیں اور کر گذریں اس طرح پارٹی اپنے منشور اور خان صاحب کے وژن کے مطابق فیصلے کرے گی تو نہ صرف پارٹی کو اہنا ہدف حاصل ہو گا بلکہ عوام کی طرف سے حمائت میں اضافہ ہو گا، یہ گروپ نہ صرف اٹھارویں ترمیم واپس لینے کے خلاف ہے بلکہ موجودہ حالات مین سیا سی مخالفت کا گراف نیچے لانے کا حامی ہے , پرانے اور بنیادی ساتھی ہونے کی وجہ سے ان کا پارٹی اور پارٹی سربراہ کے ساتھ جزبانتی لگاو ہے۔ ان لوگوں نے وفاداری اور ایثار کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے ان کو یقین ہے کہ ان کا وجود ہی اصل پارٹی ہےلہزا
فیصلے کرتے وقت ان کے جذبات کا پلڑا سیاست کے پلڑے کو بلند کر دیتا ہے . بلندی ہی مطلوب و مقصود ہے اور .. سیاست کی کس لیے جاتی ہے ؟
یہ سوال وہ جام ہے جس میں دوسرے گروپ کا سارا موقف ہی مثل میخانہ سما جاتا ہے
یہ گروپ دبے لفظوں میں خان صاحب کو ریاستی اداروں سے ڈراتا ہے اور تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اپوزیشن مضبوط ہے مینڈیٹ کمزور ہے ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے . ان لوگوں کا پارٹی کے اندر پلڑا بلند ہے تو پارٹی کے باہر بھی ایسے با اثر لوگوں کی حمائت حاصل ہے جن کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی بات کہنے کے وسیع مواقع میسر ہیں .
لوگوں نے محسوس کیا ہے کہ ، خان صاحب ,جو اپنی بات پر قائل کرنے کے ساحر ہیں , وزیر اعطم بننے کے بعد زبان کے جادو دکھانے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ مگر عملی جادو کے زور پر وہ قائد حزب اختلاف کی زبان سے یہ اگلوانے میں کامیاب ہو گئے ہین کہ اپوزیشن پنجاب کی حکومت گرانے پر نظر نہیں رکھے ہوئے ہے . جادو کا منتر جو میاں شہباز شریف کے سر چڑھ کر ان کی زبان سے بولا ہے . یہ منتر دوسرے مخالف رہنماوں بشمول میاں نواز شریف پر پڑھ کر پھونکنے کی ضرورت ہے .
پاکستان کے نامدار اخبار جنگ میں جناب ارشاد حقانی صاحب نے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ و جناب آصف علی زرداری صاحب کے شادی کے فوری بعد ایک کالم میں زرداری صاحب کے صدر پاکستان بن جانے کے امکانات پر بات کی تھی .اس ذکر کا مقصود یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تجزیہ نگار اس گہرائی مین اتر جاتے ہیں جہاں دوسرے ممالک کے تجزیہ نگار پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جناب سہیل وڑائچ صاحب گہرے پانیوں سے خالص موتی چن کر لانے والے تجزیہ نگار ہیں۔ ان کا تلاش کردہ قومی مفاہمت کا موتی غالی ہی نہیں طلسماتی بھی ہے ۔ موجودہ حکومت اسے بے مول لے کر سیاست، معیشت اور استحکام کے کالے علم کے عفریت پر قابو پا سکتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: