جمعہ، 28 ستمبر، 2018

انصاف کے گلے میں ہڈی



ْکیا پاکستان میں کرپشن صرف سیاستدان کرتے ہیں ْ
اگر یہ سوال ملین ڈالر کا ہے تو اس کا جواب بلین ڈالر کا ہے۔ روپے کی بجائے ڈالر کا ذکر اس لیے ہے کہ دھندہ سارا ڈالر ہی میں کیا جاتا ہے۔ چند دن قبل سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے رہنماء جہانگیر ترین کی نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے کی درخواست داخل کی گئی تھی جو رد کر دی گئی اور جہانگیر ترین کی نا اہلیت کو برقرار رکھا گیا۔اس کیس کے فیصلے سے حلیفوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہوے اور حریفوں کو افاقہ ہوا ۔مگر حیرت انگیز بات ہے دونوں فریق سیاسی وابستگی کے باعث آزردہ یا خوش ہیں ، کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ۷ بلین پونڈ کا محل لندن مین واقع ہے اور ترین صاجب اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں یا ان سے تسلیم کرا لی گئی ہے کیسے خریدا گیا ، رقم کہاں سے آئی اور لند ن کیسے پہنچی۔اس کا جواب ترین صاحب کے پاس نہیں ہے۔
جہانگیر ترین تعلیم یافتہ شخصیت ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ۔ ان کی اعلی انتظامی صلاحیتوں کا ادراک خاندان والوں کو اس وقت ہوا جب ان کی شادی رحیم یار خان کے ایک اثرو رسوخ والے اور مالی طور پر آسودہ خاندان میں ہوئی۔ ان کی بیگم کے بھائی جناب مخدوم احمد ۱۹۸۸ میں وزیر تھے۔
مخدوم صاحب ایک متحرک سیاسی شخصیت ہیں انھون نے اپنے آبائی علاقے جمال دین والی میں شوگر مل لگانے کا ارادہ کیا اور ترین صاحب کی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور اپنی کمپنی ترین صاحب کے حوالے کر کے انھیں انتظامی خود مختاری بھی دے دی۔ترین صاحب نے مل کی تنصیب خوش اسلوبی سے کرکے اسے متاثرکن انداز میں چلایا۔اور بہت جلدکاروباری حلقے میں اپنا نام بھی منوایا۔مضبوط مالی بنیادمعاشرتی تعارف کا سبب بناکرتی ہے ۔۱۹۹۷ کے انتخابات کے بعد شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی بنے تو مخدوم صاحب نے ان کا تعارف وزیر اعلی سے کرایا اور شہباز شریف نے انھیں زرعی ترقی کا مشیر بنا لیا۔کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ نواز شریف کے ذہن سے شہباز شریف کے ذریعے ترین صاحب تک آیا اور اس منصوبے پر پنجاب میں ترین صاحب نے زبردست کام کیا اور ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کی وساطت سے سرمایہ پاکستان آنا شروع ہوا۔سکیم یہ تھی کہ حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے لیے انتہائی کم شرح منافع پر قرضہ مہیا کرے گی۔بوجہ یہ سکیم ناکام ہوگئی البتہ ترین صاحب نے تین بلین روپے کا قرض بنک سے لے لیا ہوا تھا۔جو شہباز شریف کے ساتھ اختلافات کا سبب بنا۔
۲۰۰۲ کے جنرل الیکشن کے وقت مخدوم صاحب رحیم یار خان کے ضلعی ناظم تھے ۔ انھوں نے اپنے حلقے سے ترین صاحب کو الیکشن مین جتوایا۔
مشرف کے دور میں ترین صاحب وفاق میں وزیر بنا دیے گئے۔مخدوم صاحب بھی چوہدریوں کی قاف لیگ میں تھے ۔ ان کے بنیادی اختلافات تو پرویز الہی کے ساتھ تھے جو ۲۰۰۵ میں پرویز مشرف سے تعلقات خراب ہونے کا بہانہ بنے۔ مخدوم صاحب قاف لیگ کو چھوڑ کر اپنے رشتے دار پیر پگاڑہ کی فنکشنل لیگ میں چلے گئے۔ جب کہ ترین صاحب نے مشرف کا ساتھ دیا اوروزارت کو محفوظ رکھا۔اس کے باوجود جب مشرف کے اقتدار کا جہاز چیف جسٹس بھنور میں ہچکولے لے رہا تھا اور ترین صاحب نے مخدوم احمد محمود کی وساطت سے فنکشنل لیگ کو جوائن کر لیا۔اورپارٹی ٹکٹ لے کر پھر منتخب ہوئے اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بنا دیے گئے۔
اسی دوران ترین صاحب نے مخدوم صاحب والی شوگر مل اپنی تحویل میں لینا چاہی تو معلوم ہوا کہ مخدوم صاحب کے ۳ بلین کے شیئر ترین صاحب کے نام ہو چکے ہیں، بورڈ آف ڈائرکٹرز میں اکثریت ان کی ہم نواہوں کی ہو چکی ہے۔ مخدوم صاحب کو کارگذاری معلوم ہوئی تو انھوں نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر کے مل پر کر قبضہ کر لیا اور علاقے سے ترین صاحب کو بے دخل کر دیا۔
مشرف کی حکومت میں وزارت کے دوران کی لیز پر حاصل کردہ زرعی زمین کا رقبہ چوبیس ہزار ایکڑ اور بعض دستاویزات کے مطابق پچیس ہزار ایکڑ تک پہنچ گیا۔ اور مقامی لوگوں کا اصرار ہے کہ حقیقت میں یہ رقبہ چالیس ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔اس دوران ان کی دو شوگر ملیں بھی بن گئیں اور گنا ان کی اپنی زمین سے آتا ہے۔
پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں قانون اندھا ہوتا ہے۔مگر پاکستان میں قانون کے کے کانوں کی سماعت کم نہیں ہے ۔فیصلہ فائل کو دیکھ کر ہوتا ہے۔اورفائل بتاتی ہے ۷ بلین پونڈ کا محل لندن مین واقع ہے اور ترین صاجب اس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں یا ان سے تسلیم کرا لی گئی ہے کیسے خریدا گیا ، رقم کہاں سے آئی اور لند ن کیسے پہنچی۔