اتوار، 31 دسمبر، 2017

بے نظیر کی ڈائری



میرے دوسرے دور حکومت میں مجھے جی ایچ کیو میں سیکورٹی کے بارے میں بریفنگ کے لئیے دعوت دی گئی ڈائریکٹر آف ملٹری آپریشنز میجر جنرل پرویز 
مشرف (جو بعد میں چیف آف اور صدرمملکت بنا) نے بریفنگ دی
اس بریفنگ میں ایک بار پھر دہرایا گیا کہ پاکستان سرینگر پر قبضہ کیسے کرے گا مشرف کے آخری الفاظ کے مطابق جنگ بندی ہوجائے گی جبکہ سری نگر پاکستان کے قبضے میں ہوگا اس کے بعد کیا ہوگا ؟میرا سوال تھا وہ میرے سوال پر حیران ہوا اور کہنے لگا اگلا قدم یہ ہوگا کہ پاکستان کا جھنڈا سرینگر پارلیمنٹ پر لہرا رہاہوگا اس کے بعد کیا ہوگا؟؟ میں نے پھر سوال کیا ، آپ اقوام متحدہ کا دورہ کریں گئی اور انہیں بتائیں گئ کہ سرینگر پر پاکستان کا قبضہ ہے ، اور پھر کیا ہوگا میں نے سوال کیا ، مجھے محسوس ہوا کہ جنرل مشرف نے ایسے سوالات کے جوابات کی تیاری نہیں کی تھی وہ گھبرا گیا اس نے کہا آپ انہیں دنیا کی نقشے میں تبدیلی کے لئیے کہیں گئی اور نئے جغرافیائی حقائق کو تسلیم کرنے پر توجہ دلائیں گئی،
اور کیا آپ جانتے ہیں اقوام متحدہ مجھے کیا بتائے گی میں نے جنرل مشرف کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا ، کمرے کا ماحول سنجیدہ ہوگیا ، میں نے زور دے کر کہا سلامتی کونسل ہمارے خلاف مذمت کی قرارداد پاس کرے گی اور ہمیں سرینگر سے واپسی کا مطالبہ کرے گی ہمیں اپنی کوششوں کا کوئی صلہ نہیں ملے گا بلکہ بےچارگی اور تنہائی ہمارا مقدر ہوگی اسکے بعد میٹنگ کا اختتام کر دیا گیا ، ،

جمعرات، 28 دسمبر، 2017

ایک ہی رستہ




پاکستان خاص طور پر اور امت مسلمہ عام طور پر اس وقت عالمی ْ نفرت ْ کا شکار ہو چکی ہے ۔اور تلخ 
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے خون کی ارزانی کا عالم یہ ہے کہ اس کی موت کا دکھ صرف اس کے خونی 
رشتے داروں تک محدود ہو گیا ہے۔



بوسینیا میں مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی منتقلی میں استعمال ہونے والے لوہے کے ایسے پنجروں میں بند کیا جاتا تھا جس میں انسان پوری طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ تین دنوں سے قید اس پنجرے میں کچھ تو مر گئے اور جو زندہ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ کئی منزلہ اس پنجرے کے اوپر والی منزل کا قیدی فطری حاجات پوری کرتا تو وہ نچلی منزلوں کے قیدیوں کے جسم اس سے آلودہ ہوتے ۔

بوسینیا کے بعد یہ ظلم کی داستان افغانستان سے بغداد تک دہرائی جاتی رہی، اور گوانتنامو بے ابھی تک وجود ہے اور اسرائیل کی جیلوں کے اندر فلسطینی مردوں ، عورتوں اور معصوم بچوں پر جو مظالم ڈہائے جا رہے ہیں ان کا تصور کر کے ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے ۔ مگر عالمی برادری سے زیادہ بے حسی مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر طاری ہے۔ اور کڑوا سچ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ہاتھ اپنی ہی رعایا کے خون سے آلودہ ہیں۔ذاتی لالچ اور اختیارات کی طمع نے ان کے سوچنے اور دیکھنے کی قوت سلب کر لی ہے اور بدیسی آقاوں کے خوف نے ان کی زبانوں کو گنگ کر دیا ہوا ہے۔ ہر قسم کی بد امنی اور خون ریزی کا الزام مسلمانوں ہی کے سر آتا ہے۔ ایسی جنگ ہے جو امن کے نام پر لڑی جا رہی ہے اس میں مرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ نان جویں کے حصول میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ 

سیاسی اور مذہبی تقسیم در تقسیم نے ہمیں بالکل ہی بے وقعت کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ یہ گتھی نہ سلجھا سکا کہ امن کے دروازے کو کہاں تلاش کیا جائے، ہمارے دینی رہنما ایسا وظیفہ ڈہونڈ نہ پائے جو اثر پذیر ہو تا۔حالت یہ ہے کہ ماہرین میں سے کوئی مشورہ دینے کی جرات کرے تو اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس پر تبرہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔

پاکستان ان انگلیوں پر گنے جانے والے ان مسلمان ممالک میں شامل ہے جس کے حواس قائم ہیں ۔ورنہ اکثر ممالک میں مایوسی امید پر غالب آ چکی ہے۔ ہم معاشرتی اور معاشی طور پر بے وقعت ہو جانے کے باوجود اپنے اخلاق اور رویوں کو بہتر کر کے کم از کم مہذب دنیا میں انسان کہلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم بتدریج صرف اپنے اخلاق ہی کو بہتر کر لیں تو بہت جلد ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اپنی بھنور میں ڈنواڈول ناو کو طوفان سے نکال سکتے ہیں۔ 

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جس کوپاکستان کی ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہوئی ہے ، حکومت پاکستان نے 25 دسمبر کو اس کی والدہ آوانتی اور اہلیہ چیتانکل سے ملاقات کرائی۔ جب کسی ملک کا کوئی جاسوس دوسرا ملک گرفتار کرتا ہے تو اس کے اعتراف جرم کے اس کو کسی قسم کی رعائت نہیں دی جاتی ۔ مگرپاکستان نے بھارت کے جتنے بھی جاسوس پکڑے اج تک کسی کو عملی طورپر سزائے موت نہیں دی گئی۔کلبھوشن جو3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار ہوا ۔ وہ حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام پر غئر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ 10 اپریل2017 کو ایک فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی، بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی جس پرعالمی عدالت نے اس مقدمے کے فیصلے تک پھانسی پر عمل درآمد روک دینے کی سفارش کی ہے۔ 

اس دوران پاکستان نے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاسوس قیدی کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات کا انتظام کیا۔ قیدی کی والدہ آوانتی اور اس کی اہلیہ چیتانکل نے 25 دسمبر کو 30 منٹ تک ملاقات کی جو در حقیقت 40 منٹ تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے لیے آنے والی اس کی اہلیہ کے جوتوں میں ایک 
chip
چھپا کر لائی گئی جو دوران تلاشی بر آمد کر لی گئی۔جس پر بھارت کی سراغ رسان ایجنسی را کے حصے میں بدنامی ہی آئی کہ اس نے اپنے ہی ملک کے شہری کو جو مکمل طور پر بھارتی حکومت کے رحم و کرم پر تھی اور اپنے قید خاوند سے ملاقات کے لئے آئی تھی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ را کی اس حرکت پر بھارت میں سنجیدہ حلقوں میں اس حرکت کو ایک اوچھی حرکت قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے خاتون کو متبادل جوتے فراہم کر کے چپ والے جوتے اپنی تحویل میں لے کر تحقیق کے لیے فورسونک لیبارٹری میں بجھوا دئے ہیں۔را کی اس حرکت کے باوجود پاکستان نے ملاقات کی اجازت دی جس پر قیدی کی ماں نے پاکستانی وزارت خارجی کا شکریہ ادا کیا۔

یہ ملاقات کر ا کر پاکستان نے اخلاقی فتح حاصل کی ہے ۔پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے تجویز پیش کی ہے کہ امت مسلمہ کے موجودہ بے چارگی کے حالات میں ہم اخلاقی طور پر انسانی ہمدردی کے طور پر فیصلے کر کے دنیا میں اپنے بدنام ہوتے چہرے کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم حامد میر کی اس تجویز سے مکمل اتفاق کرتے اس کی تائید کرتے ہیں۔اور حکومت پاکستان کیطرف سے انسانی ہمدردی 
کے تحت دی گئی ملاقات کی سہولت پر حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اخلاق کے علاوہ پیش کرنے کے لیے بچا ہی کیا ہے

منگل، 26 دسمبر، 2017

اخلاق کا شکستہ ترازو



عظیم مصلح شیخ فریدالدین عطّار رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اے پیارے بھائی! اگر تم کامل عقل رکھتے ہو تو لوگوں سے نرم اور شیریں گفتگو کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص ترش رو اور سخت بات کہنے کا عادی ہو تو دوست بھی اس سے دور بھاگ جاتے ہیں

آج اکثر و بیشتر مسلمانوں میں خوش خلقی، خندہ روئی، کشادہ پیشانی اور فراخ دلی جیسی عمدہ صفات ناپیدہوتی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت بتلائی ہے 

حضرت ابوالدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کے ترازو میں اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بدگو کو مبغوض رکھتے ہیں۔
  
ہم اپنی زبان کو شیریں کر کے اپنے ارد گرد خوشیوں میں اضافہ  کر سکتے ہیں

پیر، 25 دسمبر، 2017

ایمان کانٹا




گل خان کی نوکری چھن گئی ۔ آدمی با عزم تھا ۔ سحری کے وقت منڈی گیا ،پھول گوبھی کی ایک بوری خریدی ، سڑک پر وہی بوری بچھائی اور شام تک ساری گوبھی بیچ کر فارغ ہو گیا مگر کچھ آوازیں اس کا پیچھا کر رہی تھیں
ْ تم بغیر ترازو گوبھی بیچ رہے ہوْ 
ْ تمھارے پاس ترازونہیں ہے ْ 
ْ گوبھی بیچنی ہے تو ترازو رکھو ْ 
ْ ترازو کے بغیر سودا بیچنا حرام ہے ْ 
اگلے دن بازار گیا ، ترازو کی دوکان ڈھونڈی۔
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی بازار میں ایسی ترازو بک رہی تھیں جو کم تولتی ہیں ، زیادہ تولنے والی ترازو بھی موجود تھی ۔
صیح ترازو بھی رکھی ہوئی تھی ۔ایمان کانٹا کا لیبل چسپاں تھا، دوکاندار کے بقول اس کے گاہک بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
ایمان کانٹا کا لیبل مگر سب پر چسپاں تھا۔

ابھی کرنے کا کام



تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل صاحب نے ، اور میں موجود تھا قریب 30 منٹ کا وعظ فرمایا اور آخر 
میں انھوں بات کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ ْ ابھی کرنے کا کام ْ یہ ہے کہ ہم توبہ کریں 

پاکستان میں سیاسی ، معاشی، معاشرتی،عدلی،علمی اور مذہبی بد عنوانیوں کو لے کر بہت سارے مسائل ہیں جو ستر سالوں میں پیدا ہوئے ہیں ان کا ازالہ یا درستگی سات دنوں میں ممکن نہیں ہے ۔ مگر ایک کام ہم آج ہی کر سکتے ہیں 

ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اپنے نبی ﷺ پر جان نچھاور کرنے کے لئے مستعد ہیں، بزرگوں کا احترام ہمارے دل میں ہے،مظلوم کی مدد کو ہمار دل تڑپتا ہے ۔ہم توہر طرح سے اچھے ہیں مگر ہمارے لیڈر اچھے نہیں ہیں، ہم تو انصاف پسند ہیں مگر ہمارے منصف بدعنوان ہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں مگر پولیس کرپٹ ہے، روادار ہیں مگر محلے کا مولوی فرقہ پست ہے۔ ہماری مسجدوں م امام باگاہوں، کلیساوں اور دوسرے معبدوں میں جو مارا ماری ہوتی ہے اور خون انسانی کی ارزانی ہے وہ ہمارا عمل نہیں ہے ۔ دشمن ملکوں اور ایجنسیوں کے لوگ ہیں ۔ یہ ہے وہ بیانیہ جو ہر تیسرے شخص کی زبان پر ہے ۔ 

میں نے ایک بار گھروالوں کو ، کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی ، نصیحت کی کہ جب کمرہ میں کوئی نہ ہو تو لائٹ اور پنکھا بند رکھا جائے۔ اسی دن رات کو دیر سے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ سب لوگ سو رہے ہیں مگرایک کمرے میں ٹی وی چل رہا ہے، پنکھا اور بلب بھی آن ہے۔ دوسرے دن میں نے سب سے چھوٹے بیٹے سے اپنی نصیحت کے بارے میں پوچھا جو اس یاد تھی ، بڑے بیٹے سے پوچھا کہ میرے نصیحت پر عمل کیوں نہیں ہوا ۔ بحث چل نکلی اور معلوم ہوا کہ ہر ٓدمی کے کرنے کا کام کوئی بھی نہیں کرتا ۔

معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنے حصہ کا فرض ادا کئے بغیر دوسروں سے توقع رکھنا یا یہ شرط رکھنا ، چونکہ سارا معاشرہ غیر ذمہ دار ہے اس لئے میں بھی غیر ذمہ دار ہوں انتہائی بودی دلیل ہے ۔

ہمارا فوری اور ممکن کام یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے حصے کا فرض ادا کریں ۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا فرض ہے 



کہ وہ معاشرے کو تعلیم دیں ۔ معاشرتی تعلیم عمل سے ہی ممکن ہے۔ ذاتی بے عملی کے باوجود تنقیدی ذہن ، اپنا فرض پورا کئے بغیر تنقیدی زبان اور قلم ۔ وہ معاشرتی برائی ہے جس نے سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ 

ہے کوئی مرد مجاہد جو اپنی ذات سے جہاد شروع کرے۔اور یہی ْ ابھی کرنے کا کام ہے ْ ْ ٓ

تقسیم کی دیوار


آج 25 دسمبر 2017 کے دن ہم پاکستان میں ہم کرسمس منا رہے ہیں اور قائداعظم کا یوم پیدائش بھی ، اسی ہفتے پاکستان میں قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ایک امیر زادے کی رہائی پر پاکستان کے قانون عدل پر تبصرے موجود ہیں ، اسی ماہ ایک ایسی عورت کی عدالت میں بے گناہی ثابت ہوئی جو اپنی جوانی جیل کی نظر کر چکی ہے۔ اسی ماہ کوئٹہ کے ایک چرچ پر حملہ ہوا اور کرسمس کے منتظر پاکستانی افسردہ ہو کر رہ گئے۔دسمبر ہی میں امریکی صدر نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اعلان پر فلسطینیوں کے پر امن احتجاج پر اسرائیل کے ظلم کے ایسے مظاہر منظر عام پر آئے ہیں کہ انسانیت پر نم ہو گئی ہے۔آسٹریلیا کے ایک شہر میں ایک نوجوان نے تیز رفتار گاڑی راہ گیروں پر چڑہا دی اور اس کے اس عمل پر مختلف زاویوں سے بحث جاری ہے۔ اسی مہینے میں دنیا بھر کی اسلامی ریاستوں کا ترکی میں اجتماع ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اسلامی ملک کے وزیر خارجہ نے عثمانی ترک خلیفہ پر چور ہونے کا الزام لگایا ۔اسی مہینے میں اسرائیل کے وزیر اعظم نے یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر ان کی متوقع طور پر گرم جوشی سے مہمان نوازی نہ ہوئی۔ اور اسی ماہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف ایک قرار داد پر امریکہ بالکل تنہا نظر آیا مگر ااپنی ویٹو کی طاقت کے بل بوتے پر بچ نکلا۔ مگر اسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار دادمنظور کی جس نے امریکہ اور اسرائیل کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا۔یہ صرف دسمبر کے مہینے کے نمائندہ واقعات ہیں ۔ پورا سال انسانیت پر نم ہی رہی ، امن عنقاء ہی رہا ۔ ظلم کے ہاتھ لمبے رہے اور ظالم کی سنگ دلی میں اضافہ ہی ہوا ۔ یہ حقیقت ہے انسانیت تقسیم ہے ، ظالم کے ہاتھ میں وسائل کا ڈندا ہے اور مظلوم بے وسیلہ ہے۔ معاشی ، معاشرتی، قانونی اور اخلاقی پابندیوں میں جکڑا انسان دیوار کے باہر حیران و پریشان ہے تو دیوار کے دوسری طرف اندرخانے میں بسنے والا انسان سائنسی ترقی سے لیس اکیسویں صدی کی ایجادات سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ 
نفرت کی دیوار کے پار جو اندرون خانہ ہے اس میں رنگ و نسل کی تقسیم ہے نہ مذہب و فرقے کی، نہ معاشرتی پس منظر پر سوال اٹھتا ہے نہ اخلاق پر۔ صرف ایک قدرہے جو سب کو متحد کئے ہوئے ہے اوراس کا نام ہے ْ ظلم ْ 
آج کے دن ہمیں اللہ کے نبی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی تعلیمات کا اس زاویہ سے مطالعہ کرنا چاہئے کہ کہیں ہم ان کی بتائی ہوئی راہ کے برعکس ظالم ٹولے کا حصہ تو نہیں ہیں۔


قائد اعظم کا حق ہے کہ اہل پاکستان ان کی انسان دوستی، رواداری ، قانون کی حکمرانی کی حمائت ، اور عدل اجتماعی بارے ان کی تعلیمات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ کہیں ہم ظلم کی دیوار کے پار ظالموں کا آلہ کار تو نہیں ہیں

ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

غلام ابن غلام


میرے یہاں آنے کا مقصد اس قبر پر فاتحہ پڑہنے اور روحانی فیض حاصل کرنے کا تھا جس میں بلال بن رباح نامی ایک صحابی محو استراحت ہیں۔   مگر یہاں پہنچ کر اس قبر کے پاوں کی جانب کھڑے ہو کرمیرے دعا گو ہاتھ توبلند ہو گئے اور سورۃ الفاتحہ کی قرات بھی کر لی مگر میری آنکھوں کے سامنے حجاز کے شہر مکہ کا وہ منظر گھوم رہا ہے جو صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت نے بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

 میں زمانہ جاہلیت میں حج کے لیے گیا تو دیکھا کہ بلال کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کیساتھ باندہا ہوا ہے 
اور انھیں ادہر ادہر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلال مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں میں لات ، عزیٰ ، سہل ، نائلہ ، بوانہ اور اساف تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں ْ

کتابوں میں درج ہے کہ یہ پچاس گز لمبا موٹا سا رسہ اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا اس رسے کی سختی بلال کا گلہ زخمی کیے ہوئے تھِی اور اس سے خون رس رہا تھا، مگر لڑکوں کے لیے کھیل اور بڑوں کے لیے عام معمول کہ جب ایک غلام اپنے آقا کی منشاء کے خلاف سوچے تو ایسے غلام کو سبق سکھانا معمول کی بات تھی ۔شام ڈھلے اس غلام کو بھوک و پیاس کی حالت میں اس کے آقا کے حوالے کر دیا گیا جس نے اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا اور سورج غروب ہونے کے بعد اس کو برہنہ کر کے اس پر چمڑے سے بنے کوڑے سے اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں،تو اذیت دینے والوں کے ہاتھ رک گئے وہ جانتے تھے بنی جمہ کی ملکیت یہ غلام ان کے ہاتھوں جان بحق ہو گیا تو ان کی بھی خیر نہیں۔
یہ ایک دن یا ایک رات کا واقعہ نہیں تھا بلکہ امیہ کا یہ زرخرید غلام دن رات اس عذاب میں مبتلاء تھا
حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ خود حضرت بلالؓ نے ایک جنگ کے دوران امیہ کی طرف اشارہ کرکے بتا یا کہ 
ْ اس امیہ نے ایک روز گرمی کے دنوں میں باندھ کر ساری رات اسی حالت میں رکھا اور پھر دوپہر کے وقت مجھے ننگا کر کے سنگریزوں پر لٹا دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیے ۔ میں بے ہوش ہو گیا ، معلوم نہیں کس نے میرے سینے سے پتھر ہٹائے ، جب مجھے ہوش آیا شام کا وقت تھا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ْ 
حضرت
بلال  کے باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ حمامہ اباسینا نامی ایک بستی کی رہائشی تھی جو موجودہ اتھوپیا میں ایک قصبہ ہے ۔ حمامہ کا تعلق ایک باعزت خاندان سے تھا مگر وہ اپنے گھر سے اغوا ہوئی اور عام الفیل والے سال میں بطور کنیز مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی مکہ پہنچی ، غلامی ہی کی حالت میں اس کی شادی رباح نامی ایک عرب غلام سے ہوئی ۔ان کے ہاں  بلال پیدا ہوئے ، یعنی پیدائشی غلام۔ جب بلال جوان ہوئے تو ان کو غلامی کی منڈی میں لایا گیا جہان امیہ بن خلف نے انھیں خرید لیا۔ بلال  انتہائی محنتی ، مالک کے ساتھ مخلص ، راست گو ، منکسر المزاج ، دوسروں کا احترام کرنے والے اور خش گلو تھے۔ ان کی محنت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر مالک کی بکریا ں چراتے اور رات کو پوری بوری غلے کی پیس ڈالتے، ۔ مگر وہ انسانی تقسیم میں بٹے معاشرے میں اپنی ذاتی خوبیوں کے باوجود ابھر نہ سکے البتہ ان کی ایمانداری اور راست بازی کے سبب عربوں کے بت خانے کی چابیاں ان کے پاس ہوا کرتی تھیں اور ان کی سریلی اور حیرت انگیز آواز نے ان کو جاہلوں کے دلوں میں ممتاز ضرور کیا تھا۔اور امیہ بن خلف کے بارہ  غلاموں میں مالک کے سب سے زیادہ فرمانبرداراور قابل اعتماد تھے۔ 

مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو ایسی درد بھری اذیتیں دی گئی کہ پڑھ کر انسان افسردہ اور انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے مگر مکہ کے اس دور جاہلیت میں مظلوم حضرت بلا ل کو گرمیوں کی کڑکتی دوپہر میں اذیت خانے سے نکالا جاتا، پیا سے ، زخمی، بے یار و مدد گار مظلوم کو گرم ریت پر نوکیلے سنگریزے بچھا کر برہنہ حالت میں منہ کے بل لٹا دیا جاتا اور ان کی پشت اتنی بھاری چٹان رکھی جاتی جس کو کئی لوگ مل کر اٹھاتے ۔ اور اس دن تو مکہ کی عورتوں نے اپنے مکانوں کی کھڑکیاں بندکر لیں جس دن بلا ل کو صحرا میں نصب اس کھمبے کے ساتھ باند ھ دیا گیا ۔جس کی تنصیب کا مقصد ہی غلاموں کو اس کے ساتھ باندھ کر ایسی سزا دینا مقصود تھا جس کو دیکھنا عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ 

رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی حالت زار پر بے چین تھے ایک بار انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا 
ْ اگر میرے پاس رقم ہوتی تو میں بلال کو خرید لیتا ْ 
حضرت ابو بکرؓ نے امیہ کے پا س جا کر کہا کہ بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اگر وہ اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے تو اس میں تمھارا کیا نقصان ہے ۔ اگر تم اس پر مہربانی کرو تو قیامت والے دن تم پر مہربانی کی جائے گی۔ مگروہ قیامت ہی کو کب مانتا تھا۔کہا یہ میرا غلام ہے میں جیسا چاہوں اس کیساتھ سلوک کروں۔
حضرت ابو بکر نے کہا تم طاقت ور ہو جب کہ یہ بچارا بے بس غلام ہے ۔ اس پر ظلم تمھاری شان کے خلاف ہے ۔اور عربوں کی روایات کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔
اس کے جواب میں امیہ نے کہا او ابو قحافہ کے بیٹے اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔
حضرت ابوبکر سے پوچھا کیا قیمت لو گے 
امیہ نے کہا تمھارے پاس جو فسطاط نامی رومی غلام ہے وہ مجھے دے دو اور اس کو لے جاو۔ حضرت ابو بکر راضی ہو گئے تو امیہ کے اندر کا تاجر جاگ اٹھا اس نے کہا فسطاط کے ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی ہو اور چالیس اوقیہ چاندی بھی۔ ابو بکر نے سودا منظور کیا ۔ بلال کو اٹھایا اپنی چادر سے ان کا بدن صاف کیا۔ نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
جب بلال رسول اللہ کے پاس لائے گئے ، انھیں دیکھ کر رسول اللہ کی انکھیں بھر آئیں، حضرت علیؓ جو اس وقت کم سن تھے بولے آپ انھیں دیکھ کر رو کیو رہے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا ْ علی یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہےْ 
رسول اللہ نے بلال کو گلے سے لگایا اور فرمایا ْ بلال جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے اول شخص تم ہوْ 
حضرت ابو بکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گواہ رہئے گا میں نے بلال کو آزاد کیا۔اللہ کے رسول نے صدیقؓ کے حق میں دعا فرمائی۔

ایک مغربی تاریخ دان نے لکھا ہے کہ محمد نے بلال کواپنا فنانس سیکرٹری مقر ر کر دیا تھا۔ لیکن حقیقت تو  یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس فنانس نام کی کوئی شے موجود ہی نہ تھی ۔
نبی اکرم ﷺ کی ہدائت پر بلال نے ایک مفلوک الحال بھائی کو غلہ، کمبل اور کپڑے ادہار لے کر دئے اور اپنی ذات کو یہودی کے پاس رہن رکھ دیا ۔

 حضرت بلال رسول اللہ کا  نیزہ اٹھا کر رسول اللہ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔ اور جب رسول اللہ نماز کے لیے قیام 
فرماتے تو بلال اپنا نیزہ سامنے گاڑ دیا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ قباء تشریف لے جاتے تو بلال کی اذان سے مسلمانوں کو رسول اللہ کی آمد کی خبر ہو جاتی۔ اذان بلالی گویا نبی اکرم ﷺ کے موجود ہونے کا نشان بن گئی تھی ، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب بلال دمشق سے زیارت کے لئے مدینہ تشریف لائے تو صبح کے وقت اہل مدینہ نے وہ اذان سنی جو رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی خبر دیا کرتی تھی تو اہل مدینہ آنسو بہاتے  
ہوئے گھروں سے مسجد کی طرف دوڑ پڑے تھے ۔ 
 حضرت بلال نے خلیفہ دوئم سیدنا عمر بن خطاب کے دور میں بیت المقدس میں بھی اذان دی تھی
حضرت بلال نے یمن میں ہندنامی عورت سے نکاح کا پیغام بھجوایا تو ھند کے گھر والوں نے رسول اللہ ﷺ سے تصدیق چاہی تو انھیں جواب ملا ْ تمھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم ایک جنتی شخص کو اس کی حیثیت سےکم خیال کرو ْ 
حضرت بلال نے عدی بن کعب کے خاندان میں بھی شادی کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ہمشیرہ ان کے نکاح میں تھیں۔ بنو زہرہ میں بھی ان کی زوجہ تھی۔ حضرت ابو درداء کے خاندان کی ایک عورت ان کی زوجہ بنیں۔ اور حضرت ابو بکر کی صاحبزادی کے ساتھ بلال کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے کرایا تھا۔ 

تاریخ انسانیت اور روسائے مکہ نے فتح مکہ والے دن اپنی آنکھون سے دیکھ لیا کہ  ایک غلام ابن غلام ، غربت میں پسا ہوا، رنگ دار بلال  " اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے " کی عملی تفسیر بن کر مقام ابراہیم اور حجر اسود سے بلند تر ، مقدس ترین بیت اللہ ، کی چھت پر کھڑا ہے ۔ 
  اور اپنی   دلپذیر آواز میں بر ملا پکار پکار کر کہہ رہا  ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر

عقائد کا اختلاف

عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔ انسان اس بارے میں کلیتاََ آزاد ہے کہ اپنے دلی یقین کے مطابق جو عقیدہ چاہیے اپنائے اور اپنی نجات جن نظریات پر چاہیے تصور کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ اپنے عقائد کو جبراََ کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کر ے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم و تعدی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا صرف ایک طریق ہے کہ امن و سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہو کر ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہء نظر کو دیانتداری سے سنا جائے اور جو بات ہمارے نزدیک درست نہ ہو بڑے احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جائے۔ مضبوط دلائل سے اپنے مذہب کی حقانیت واضح کی جائے اور دوسرے کے کے نقطہ نظر یا عقیدہ کے نقائص کو ہمدردانہ انداز میں سامنے لایا جائے۔ بےجا الزامات سے گریز کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کریں جس سے نفرت بڑھے۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ہمارے نظریات اور محترم شخصیات کو بُرا بھلا کہا جائے، ہمیں بھی دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چا ہیے۔

جمعرات، 21 دسمبر، 2017

خوف اور غصہ

1984
 کاذکر ہے ، حکومت کویت اپنے اداروں میں کمپیوٹر کو متعارف کرارہی تھی۔ اس کام کا ٹھیکہ امریکی نیوی کے ایک کنٹریکٹر کے پاس تھا ۔ اس ٹیم میں ہم دو پاکستانی اور چند بھارتی بھی بطور معاون ساتھ تھے 
ایکوپمنٹ اور ماہرین سب امریکی تھے ۔میرا زندگی میں امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کا پہلا تجربہ تھا ۔مگر بچپن کی سنی یہ بات سچ لگی کہ بعض اقوام کی سوچ بعض اقوام سے دس سال اور بعض سے پچاس سال آگے کی ہوتی ہے۔ایک پسماندہ ملک کے نوجوان کا ترقی یافتہ ملک کے تجربہ کار فرد سے متاثر ہونااور وہ بھی اپنے باس سے ، معمول کی بات ہے ۔ مگر اس کی باتیں حقیقت کی ترجمان ہوتی تھیں، ایک باراس نے وزارت ک ایک انتظامی نوٹس پر کہا تھا ْ عرب وہ ریوڑ ہے جس نے اپنے جاہل غلہ بان سے امید لگا رکھی ہےْ 



زندگی میں ملنے والے لوگوں کو انسان بھول جاتا ہے مگر کچھ باتیں بھلائے نہیں بھولتیں مثال کے طور پر
1977
 میں عراق میں میرا ایک لولیگ دمشق کا یہودی تھا اور جب اس نے نصیحت بھرے لہجے میں بتایا کہ عرب اسرائیل کا مقابلہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ اسرائیلیوں کے اعمال ان کی سو سالہ سوچ بچار سے کشید ہوکر 
نکلتے ہیں

ٓآج آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک گاڑی راہ چلتے لوگوں پر چڑھ دوڑی تو میرا پہلا رد عمل یہ ہوا کہ 
معلوم کروں ڈرائیور مسلمان تو نہیں ؟ 

بد قسمتی سے
32
 سالہ ڈرائیور گو آسٹریلین ہے مگر پتہ لگا لیا گیا ہے کہ وہ افغان الاصل ہے اور اس نے داڑہی بھی رکھی ہوئی ہے۔اس کا ساتھی جو اس واقعے کی فلم بنا رہا تھا بتایا گیا ہے کہ اس کی تلاشی کے دوران اس کے بیگ سے تین خنجر بر آمد ہوئے ہیں


میرے ذہن میں خوف تو لاکھوں لوگوں کے ذہن میں ( غلط ہی سہی) غصہ ہے ، اور خبر پڑہنے والوں کے فوری رد عمل میں سے ایک جملہ میرے ذہن میں اٹک کر رہ گیا ہے

 ْ مجرموں کو ڈرائیونگ کا کوئی حق نہیں ہے ْ

کیا پے در پے راہ گیروں کو کچلنے کا عمل ایک دن ْ مجرموں ْ سے گاڑی ڈرائیو کرنے کا حق چھین لے گا۔

بدھ، 20 دسمبر، 2017

ٹھنڈ




آج دفتر ْ ٹھنڈا ٹھارْ ہے ، گل خان نے دودھ والی چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سردی کی شدت پر تبصرہ 
کیا۔چائے میری طرح گل خان کی بھی کمزوری ہے ، وہ جتنی اچھی چائے بناتا ہے اس سے بھی اچھا قہوہ بناتا ہے ۔ راولپنڈی چھاونی کے علاقے میں میرے دفتر میں صبح سے ہی دوستوں کی رونق لگ جاتی ہے ، اس رونق کو گل خان کے ماہر ہاتھوں کا بنا قہوہ بہت تقویت پہنچاتا ہے ۔آج مگر دفتر میں رونق کی عدم موجودگی نے گل خان کو ہی نہیں مجھے بھی احساس دلایا کہ ْ ٹھنڈ ْ زیادہ ہے

میرے دفتر میں رونق لگانے والے ایک گروپ کو گل خان ْ نادیدہ قوت ْ کا نام دیتا ہے ۔ اس گروپ میں زیادہ لوگ 
پردیس پلٹ ہیں اور عام طور پر ْ زائد العمرْ کم لوگ عسکری اداروں کے پنشن یافتہ ، اس سے بھی کم علمائے دین جو اس عمر میں لکھنے لکھانے کی بجائے زبانی جہاد کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور بالکل کم تعداد ایسے تاجروں کی ہے جو تجارت میں خسارہ سہہ چکے مگر مشورہ دینے میں خود کو صف اول میں رکھتے ہیں۔

اس گروپ کے تمام ممبران میں کچھ باتیں مشترک ہیں مثلا ان پر کوئی گھریلو مالی ذمہ داری نہیں ہے ، زندگی جیسے بھی گذری مگر اس وقت ان کی پانچوں دیسی گھی میں اور سر ائر کنڈیشنڈ کمروں میں نرم تکئے پر ہے۔ان کے پسندیدہ موضوع مذہب اور سیاست ہے۔ مذہب پربات کے دوران ان ک منہ سے دلیل اور تاریخی حوالوں کی گردان نئے سامع کو ان کی علمی رفعت کا گرویدہ بنا دیتی ہے پرانے سامعین البتہ دوران گفتگو پہلو بدلتے رہتے ہیں۔فیض آباد دھرنے کے دوران ڈنڈے اٹھائے لفافے وصولتے نوجوان ان کے اصلی جانباز اور حرمت مقدسین کے محافظین ہیں۔اور کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر سر پر باندھ لینا ایسا واقعہ ہے کہ کربلا کی یاد تازہ کرتا ہے۔

سیاسی میدان میں ، اسلام آباد میں دھرنہ نمبر ۱ کے دوران پارلیمنٹ کے احاطے میں قبریں کھودنا اور کفن بیچنا پسندیدہ عمل بتاتے ہیں ۔ اور موجود حکومت سے شہیدوں کے قصاص کی وصولی ایسا عمل بتاتے ہیں کو اسرائیل کوفتح کرنے جیسا ہے کہ موجودہ حکمرانوں اور اسرائیلیوں میں تفریق کرنا اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن سے غداری جیسا عمل ہے۔
ان کی ذاتی کاوشوں میں افواہ سازی اور اس کو پھیلانا، بے بنیاد خبروں کی تراش ، لمبی خواہشات کی طلب ، اور ماہریں کی حکومت کی خواہش شامل ْ حالْ ہے


آرمی چیف کے سینٹ کے دورے کے بعد ْ نا دیدہ گروپ ْ کے ایک دوست کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ کل سے ان کا گلہ خراب ہے اور ٹھنڈ کی بھی شکائت ہے ۔دوسرے ، تیسرے حتیٰ پورے سات لوگوں سے فون پر رابطہ کیا ۔ سب پر ٹھنڈ ہی پڑی ہوئی ہے۔ آخری فون کر کے میں نے گل خان کو مخاطب کیا ْ ٹھنڈ ْ واقعی 
زیادہ ہے


منگل، 19 دسمبر، 2017

16 دسمبر کے حوالے سے آصف محمود کی فریاد

مکتی باہنی ، ہم اور وہ
آصف محمود
یہ ستمبر 2006کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلہ دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال ہونے کو آئے ہیں ،کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ ای میل بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، یہ بھی ایک داستان ہے۔یہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کی بات ہے۔جون 2006 میں مطیع الرحمن کی قبر کشائی کر کے اس کی میت مشرف نے بنگلہ دیش کے حوالے کی۔یہ وہی مطیع الرحمن ہے جس نے غداری کی اور راشد منہاس کا جہاز ہائی جیک کرکے بھارت لے جانے کی کوشش میں مارا گیا۔راشد منہاس کو نشان حیدر دیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت پینتیس سال کوشش کرتی رہی کہ اس کی لاش کراچی کے قبرستان سے نکال کر ڈھاکہ لے جائی جائے لیکن پاکستان نے بنگلہ دیش کی یہ درخواست قبول نہیں کی۔مشرف حکومت نے ایک دن خاموشی سے یہ فیصلہ کر لیا جس غدار کی وجہ سے راشد منہاس شہید ہوئے اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کر دی جائے۔ بنگلہ دیش سے ایک ٹیم کراچی پہنچی، مطیع الرحمن کی قبر کشائی ہوئی ، اس کی لاش بنگلہ دیش کے پر چم میں لپیٹ کر ڈھاکہ پہنچا دی گئی۔ڈھاکہ میں اسے غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ میر پور کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔
بنگلہ دیش نے سرکاری طور پر بتایا کہ مطیع الرحمن کی خدمات صرف یہ نہیں کہ پاک فضائیہ کا ایک جہاز اس نے اغواء کرنے کی کوشش کی بلکہ دوران سروس جب وہ کراچی سے چھٹیوں پر مشرقی پاکستان گیا تو رائے پور کے علاقے رام نگر میں اس نے ایک کیمپ قائم کیا جہاں وہ مکتی باہنی کے مسلح نوجوانوں کی تربیت بھی کرتا رہا۔یہ کام نواز شریف یا بے نظیر کے دور حکومت میں ہوا ہوتا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا لیکن چونکہ آمروں کو یہ ایک اضافی فائدہ میسر رہا ہے کہ وہ ملک توڑیں یا آئین ان کی حب الوطنی ہر حال میں سلامت رہتی ہے اور اس پر کوئی آنچ نہیں آتی اس لیے مشرف دور میں جب یہ کام ہوا تو نہ کوئی آواز اٹھی نہ شور مچا نہ کسی نے احتجاج کیا۔پرویز مشرف نے نہ صرف مکتی باہنی کے اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کی بلکہ اس سے قبل جب انہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو مکتی باہنی کے قاتلوں کے لیے قائم کردہ یادگار پر بھی حاضری دے آئے اور معذرت بھی فرما آئے۔
یہ خبر پڑھی تو دکھ ہوا اور میں نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل بھیجی اور چند سوالات پوچھے:
1 ۔چند سال قبل پر ویز مشرف مکتی باہنی کے غداروں کی یادگار پر تو تشریف لے گئے کیا انہیں اس بات کی بھی توفیق ہوئی کہ 5 دسمبر 1971 کو دیناج پور میں ہلی کے مقام پر شہید ہونے والے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر پر بھی حاضری دیں ؟
2۔ میجر اکرم راجشاہی ڈویژن کے ضلع بوگرہ میں کہیں دفن ہیں۔کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ میجر اکرم شہید کی قبر کس حال میں ہے؟کیا ان کے یوم شہادت پر سفارت خانے کی طرف سے ان کی قبر پر چند پھول رکھے جاتے ہیں یا جناب سفیر محترم کو بھی علم نہیں کہ قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟
3۔ مجھے ان کی قبر کی کچھ تصاویر چاہییں ، کیا میں توقع رکھوں کہ سفارت خانہ مجھے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر کی چند تصاویر بھیج سکے؟
4۔میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ کیا میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر وہاں ابھی موجود ہے یا مکتی باہنی نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس کے نشان مٹا دیے ہیں؟
5۔ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش لے جا سکتا ہے تو کیا آپ میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے؟
وہ دن اور آج کا دن سفارت خانے نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔آج بنگلہ دیش میں ’ البدر‘ کے شہداء کو ایک ایک کر کے دی جانے والی پھانسیوں نے ان سوالات کا درد ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش اپنے غداروں اور قاتلوں کو عزت دے رہا ہے اور ہم اپنے مظلوم اور بہادر سپاہیوں کو بھول گئے۔ وہ مکتی باہنی کے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کی میت پینتیس سال بعد بھی لے جاتا ہے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفناتا ہے اور ہم اپنے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر نہ احتجاج کر سکتے ہیں نہ بنگلہ دیش سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا شہید تھا ااس کی میت پاکستان کے حوالے کر دی جائے ہم اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ مکتی باہنی کے مطیع الرحمن سے البدر کے مطیع الرحمان تک ، نام ایک ہے مگر کہانیاں دو ہیں۔یہ کہانیاں بتاتی ہیں قومیں جب اپنی اساس سے بے نیاز ہو جائیں تو خزاں کے پتوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔ہم جیسے طالب علموں کو تو کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہمارے میجر اکرم شہید کی قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔شہید کو واپس لانا اور پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں تو کوئی خبر نہیں جہاں شہید دفن ہوئے وہ مقام کس حال میں ہے۔
بنگلہ دیش نے مکتی باہنی کو یاد رکھا ، ان کے لیے وظائف مقرر کیے ، ان کی یادگار بنائی، ان کے جرائم کی پردہ پوشی کی، باقاعدہ ایک قانون بنا دیا کہ مکتی باہنی نے جو بھی کیا اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی اور اس کے اراکین کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو گی۔لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم اپنے شہداء کو بھول گئے۔ہمیں اپنی’ البدر ‘یاد رہی نہ خاکی وردی میں جان سے گزر جانے والے شہداء یاد رہے۔آج آپ کو حکمرانوں اور ان کے طفیلیوں کے نام پر بہت کچھ ملتا ہے۔ آدھے ادارے بھٹو سے منسوب ہو گئے ا ور آدھے شریفوں سے لیکن البدر کے شہداء کے نام پر نہ کوئی یاد گار ہے نہ کسی سڑک یا چوراہے کو ان سے منسوب کرنے کی کسی نے ضرورت محسوس کی۔دنیا میں آج تک یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری ہے کہ پاکستان نے بہت ظلم کیے لیکن ہم آج تک دنیا کے سامنے حقائق نہیں رکھ سکے کہ مکتی باہنی نے کیا کیا؟
ہمارے نصاب میں نہ بھارت کے کردار کا ذکر ہے نہ مکتی باہنی کی درندگی کا ، نہ ہی ہم نے نصاب میں بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی کہ البدر کیا تھی ۔حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے نجی سکول قائم کیے اور تو نصاب میں ترکی کے سلطان مراد پر تو سبق شامل کر لیے جو بغیر نکاح کے حرم آباد رکھتا تھا اور بعض مورخین کے نزدیک ہم جنس پرست بھی تھا لیکن انہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ملا عبد القادر سے لے کر مطیع الرحمن نظامی تک کسی ایک شہید کا تذکرہ نصاب میں شامل کر دیتے کہ یہ بوڑھے آج پچاس سال بعد بھی پاکستان کے نام پر ہنستے ہوئے قربان ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کیجیے۔ نئی نسل کو بتائیے کیا ہوا تھا اور سچ کیا تھا۔اسے اندھیرے میں رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دشمن کے
پروپیگنڈے کے سامنے شعوری طور پر پسپا ہونے لگتی ہے۔ اور یہ حادثہ لمحہ لمحہ ہو رہا ہے۔فکر کی دنیا میں اس ملامتی تصوف کو پھیلنے سے روکنا ہے تو قوم کو اعتماد دینا ہو گا۔پورے قد سے کھڑے ہو کر بات کرنا سیکھیے۔

جمہوریت

ملک میں پہلامارشل لاء نافذہواتو پہلا پتھر جس ادارے کے صحن میں آکر گراوہ پاکستانی عدلیہ تھی ۔ ریکارڈ پر ہے کچھ ہمدردوں نے اس کو عدلیہ کی بے توقیری کا پہلا پتھر قرار دیا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ْ دوسروں کی نہ سننے مگر اپنی ہانکنے ْ والے لوگ ہیں۔ ملک پر یحییٰ خان اینڈ فرینڈز نے قبضہ کیا تو عدلیہ کے صحن کی بجائے کھڑکی پر پتھر برسے ۔ جب جنرل مشرف کا مارشل لاء فضاوں سے نازل ہوا تو عدلیہ کے دروازے پر پتھر مارے گئے اور نواز شریف اور جہانگیر ترین کے مقدمات کے فیصلوں کے بعد حالت یہ ہو گئی ہے کہ پر امن عدالت کی با عزت کرسی پر بیٹھنے والے عادل ْ بابے ْ اور کچھ کے نزدیک ْ بابے رحمتے ْ کی چارپائی پر آ بیٹھے ہیں۔ 

ادارتی بے توقیری ایک ہی لمحے میں نازل نہیں ہوتی مگر ادارے چلانے والوں کے مکافات عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پاکستانی عدلیہ البتہ وہی کاٹ رہی ہے جو کچھ اس نے بویا تھا۔آج عزت ماب چیف جسٹس عوام سے عزت کے طلب گار ہیں اور لوگوں نے جوابی بیانئے کے سنگریزے پھینک کر جواب دیا ہے۔اور حالت ْ این جا رسید ْ کہ لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ ْ بابے رحمتے ْ کو اب کیا کرنا چاہئے۔مگر پاکستانی عوام اپنی عدلیہ کی اس بے توقیری پر رنجیدہ ہے۔ 

عوام کو پولیس کے ادارے سے بھی بہت گلہ ہے مگر جس دن دھرنا نمبر ۱ میں پولیس والوں کو ْ پھینٹی ْ لگوائی گئی اس دن عوام کے دل دکھے تھے ایک نوجوان نے کہا تھا ْ ان کرپٹ پولیس والوں ْ سے بدلہ لیتے لیتے ہم نے ایک ادارے پر ظلم کیا ہے ۔ اور فیض آباد کے دھرنے کے ڈراپ سین والے دن لوگوں نے کہا ہم اپنے ایک ادار ے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔ 

جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام اور حکمران اپنے خود مختار اداروں کے ذریعے اپنی ذمہ داریاں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے دوسروں اداروں کو عزت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں گو جمہوریت ابھی نو زائیدہ ہی کی طرح ہے مگرہمارے عزائم اور رویے البتہ جمہوری نہیں ہیں۔ حکمرانوں کا رویہ نہ ہی عوام کی سوچ جمہوری ہے۔ اداروں کا ایک دوسرے سے طرز عمل بھی غیر جمہوری ہے۔ 

ہمارے اس طرز عمل نے عوام کو فائدہ پہنچایا ہے نہ اداروں کو۔ ایک ایک کر کے ہم اپنے اداروں کو خود کمزور اور بے بس کر رہے ہیں ۔ عدلیہ کی بے بسی کا اظہار جو منصف اعلیٰ کی طرف سے ہوا ہے ۔ اسی  کا مظہر ہے۔ 

پاکستان اپنے جغرافیائی وقوع اور دستیاب وسائل کے با وصف ، پاکستانی عوام ہر حال میں جینے کی راہ تلاش کر لینے کی قابلیت کے با وصف ، موجود ادارے اپنے تجربات کی بدولت ، افواج پاکستان اپنے پیشہ ورانہ عزم کی بدولت وہ نعمتیں ہیں جو اس وقت موجود ہ ہیں۔ ضرورت اور شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور طرز عمل کو جمہوری سوچ کے مطابق کر لیں ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی بچا ہی نہیں ہے۔

اتوار، 17 دسمبر، 2017

تراشے



16
دسمبر
1971
سے پہلے اخبارات میں سے تراشے 

انتخابات آپ نے کرائے ہیں ، فیصلہ عوام نے دیا ہے ۔ عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

پنجابی فوجی جرنیل اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر تحریک پاکستان میں دی گئی قربانیوں کے انکار کا مرتکب ہو رہے ہیں

عوامی لیگ نے پورے پاکستان میں اکثریت حاصل کی ہے، اخلاقی اور قانونی طور پر اس کو اقتدار منتقل کر دینا ضروری ہے

جنرل یخییٰ فوجی آمر ہے، عدالت آمر کر رستہ دیتی ہے اور عوامی نمائندوں کو جیل بھیج دیتی ہے۔عدالتی فیصلے قانونی نہیں سیاسی ہیں

فوجی آمر اور ان کے کاسہ لیس سیاستدان ملک کو نقصان پہنچا کر ہی دم لیں گے

آپ ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس نہ بلاو ، اسلام آباد مین ہی بلا لو، اجلاس تو بلاو ۔ ہمارے مطالبے کی مخالفت کرن والے نا عاقبت اندیش لوگ ہیں

پاکستان بچ گیا ۔۔۔ میرا خیال اس کے برعکس ہے

موجودہ حالات میں نوشتہ دیوار کو پڑہنے کے لیے زیادہ بصیرت اور علمی قابلیت درکار نہیں ہے

بنگالی پاکستان توڑنے کے مخالف ہیں۔بنگالیوں نے تو پاکستان بنایا ہے۔ البتہ فوجی آمریت کے مخالف ہیں

عوام سے مسترد شدہ سیاستدان جرنیلوں کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں

بھارت کو آپ نے خود موقع دیاہے کہ وہ دنیا میں آپ کو بدنام کرے۔ آپ اسمبلی کا اجلاس بلائیں۔نہ زمین پر زلزلہ آئے گا نہ آسمان گرے گا ۔حالات بہترہو جائیں گے

عوامی فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتا ، ماضی اور مستقبل میں ہی نہیں حال میں بھی عوامی فیصلہ ہی درست ہے

ہم پنجابیوں کے خلاف نہیں ہیں پنجابی تو خود مظلوم ہیں البتہ جرنیلوں کو ہمارے قد پر اعتراض ہے

ناظم الدین کا قصور بنگالی ہونا نہیں بلکہ اس نے جرنیلوں کی کاسہ لیسی سے انکار کیا تھا

مولوی تمیز الدین کو تو عدالت نے دھتکار کر مشرقی پاکستان پر نہیں پاکستان پر ظلم کیا تھا

حسین شہید سہروردی کو غدار کہنے والے یہ بھی بتا دیں کیا وہ پاکستان کا غدار تھا 

ہم نے تو برابری کے اصول پر بھی امین ہی کہا تھا ۔ 

حکومت کا ہر بیان، ہر عمل ، ہر ضابطہ پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ ہی کرتا ہے

مشرقی پاکستان کے لوگ اپنے آئینی اور قانونی حقوق مانگتے ہیں ، یہ پاکستان سے غداری نہیں ہے مگر جرنیل اسے غداری سے تعبیر کرتے ہیں

ملک میں اس وقت سیاسی  چینی بے عوام کے منتخب نمائندوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔عدالتوں کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں

بیلٹ کی قوت کو بلٹ سے دبانا ممکن نہیں ہے۔ اس سوچ کو نہ بدلا گیا تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔

عدالتوں کے پاس جرنیلوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے مگر عوام کو دینے کے لیے صرف اگلی تاریخ ہے

جمعہ، 15 دسمبر، 2017

ابودیس


ابو دیس مشرقی بیت المقدس میں ایک غیر معروف قصبہ ہے۔فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین اوسلو میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے اس قصبے کا کنٹرول مشترکہ طور پر اسرائیل اور فلسطینی اٹھارٹی کے پاس ہے۔ جیسے مسجد اقصیٰ کا مشترکہ کنٹرول ہے۔ جن لوگوں کو مسجد اقصیٰ جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہے کہ مسجد کے باہر اسرائیلی سیکورٹی کی عمل داری ہے البتہ مسجد کے دروازے میں داخل ہونے کے بعداندرونی سیکورٹی فلسطینیوں کے پاس ہے۔ 
آئندہ چند ماہ میں مسلمان ابو دیس کے نام سے مانوس ہو جائیں گے اور اس کی قصبے کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔ کیونکہ ابو دیس نے ہی فلسطین کا دارلحکومت بننا ہے ۔جس کی بیرونی سیکورٹی اسرائیل کے پاس اور اندرونی سیکورٹی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہو گی۔اور فلسطینیوں کو اس پر راضی کرنے والے ان کے عرب سرپرست ہی ہوں گے۔



اس قصبے کا امتیاز یہ ہے کہ گھر کی چھت پر چڑھ کر دیکھیں تو مسجد اقصی کا گنبد نظر آتا ہے

بدھ، 13 دسمبر، 2017

حسب توقع



امریکی صدر ٹرمپ کے القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے اعلان کے بعد فلسطین مین جو قتل و غارت و بربریت کا اسرائیل نے جو غیر انسانی ستم شروع کیا ہے ۔ اور خون مسلم کی ارزانی کا جو مظاہرہ ہو رہا ہے اس پر افغانستان سے لے کر لیبیا تک اور ملائیشیا سے لے کر افریقہ تک مسلمانوں کے دل افسردہ ہیں۔ ترکی کے کے صدر جناب طیب اردگان جو ستاون ملکی اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیرمین ہیں ، نے استنبول میں مسلمان ممالک کے سربراہان کا اجلاس طلب کیا تھا ۔ جس میں وینزیلا کے صدر بطور مبصر شریک ہوئے۔ اس اجلاس مین تقریر کرتے ہوئے فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ امریکہ اپنے اس اعلان کے بعد امن مذاکرات میں اپنا کردار کھو چکا ہے۔
ترکی کے صدر نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کے پاس توپ و بم ، جہاز اور ایٹمی ہتھیار ہیں مگر اس کے باوجود آپ طاقتور نہیں ہیں۔ ہاں آّپ طاقتور ہوتے اگر آپ حق پر ہوتے۔
اردن کے شاہ عبدللہ نے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ طے کیے بغیر ہمارے علاقے میں امن نہیں ہو سکتا۔
ایران کے صدر روحانی نے کہا کہ امریکہ کے حالیہ اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صیہونت کے مفادات کا پاسبان ہے۔
مصر، سعودیہ اور امارات نے اس اجلاس میں حکومتی نمائندے بھیجے ہیں اورسعودیہ نے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ مشرقی القدس فلسطین کا دارلحکومت ہے۔
کمزور، نحیف ، نفاق کا شکار اور مصلحت کے مارے مسلمان حکمرانوں سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جارہی تھی

منگل، 12 دسمبر، 2017

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔

سری نگر سے قندھار تک اور فلوجہ سے یروشلم تک صرف مسلمان کا لہو بہہ رہا ہے اور کٹہرے میں بھی وہی کھڑا ہے۔وہی گھائل ہے لیکن اسی کو انتہا پسند کہا جاتا ہے۔اسی کی پور پور لہو ہے لیکن وہی دہشت گرد ہے۔اسی کی زمین پر قبضہ کر کے اس کے گھروں کو میدان جنگ بنا دیا گیا لیکن اسی کو امن کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے بچے اس عالم میں قتل کیے جا رہے ہیں کہ ماں کے دودھ کی خوشبو ابھی ان کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوئی ہوتی لیکن وہی وحشی کہلاتا ہے۔جن کے نتھنوں سے لہو ٹپکتا ہے اور جن کے فسانوں سے بوئے خون آتی ہے وہ امن کے علمبردارہیں ، وہ مہذب ہیں ، وہ شائستہ ہیں ۔
اب سوال صرف اتنا سا ہے : ثنا خوان تقدیس مغرب کہاں ہیں؟ کہیں مل جائیں تو بس اتنا کہنا ہے: کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔
آصف محمود

8 دجالی پروٹوکولز

یہودی ایجنسی اس کے لئے ضرورت ہے ایک مضبوط بنیاد قائم
دجالی پروٹوکولز امریکی یہودی مفکر، چومسکی "، امریکی نظام نے
(یہودی نظام) وہ دنیا کے حکمران ہونا ضروری ہے
یہودی اپنے مقاصد کے لیے ہر برائی اور بد عنوانی عالمی طور پر برے اور کرپشن دہشت گردی، بنیاد پرستی، قوم پرستی اور نسلی تنازعات کو دنیا میں پھیلا کر اپنی حکومت بنارہے ہیں
دجالی پروٹوکولز 1896 میں، منظور کیا گیا تھا جس کے مشن کی تکمیل، ایک منصوبہ بندی کی گئی اگست 31،1897 اجلاس باسل میں منعقد کیا گیا تھا. یہودی موجود تھےاسی منصوبہ بندی پر 1جنوری 1920، اقوام متحدہ کے لیگ کے منصوبہ پیش کیا گیا 24 اکتوبر، 1945 کو اقوام متحدہ قیام عمل میں آگیا اقوام متحدہ قیام کا مقصد چھوٹے اور کمزور ممالک پر بڑی طاقتور حکومتوں کے فیصلے مسلط کرانا ہیں اقوام متحدہ کے قیام کے زریعے یہودیوں کا پوری دنیا پر دجالی حکومت کا خواب حقیقت میں بدل گیا اور پوری دنیا کی معشت پر قبضہ کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڑ بینک جیسے ادارے قائم کیے گئے اس کے ساتھ یہودیوں کو ایک طاقتور اور مضبوط بیس کی ضرورت تھی جس کی مدد سے اپنی دجالی حکومت کو پوری دنیا میں چلایا جاسکے اس لیے امریکہ ایک آئیڑل ملک کرار ادا کر رہا ہے یہودی مفادات کو پوری دنیا میں تحفط دینے میں ہے اس کے لیے
یہودیوں نے 1921 لندن میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کہا کیا یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ،
انٹرنیشنل کے امریکن انسٹی ٹیوٹ
کس طرح امریکہ کو کنٹرول کرنا چاہئے
اس کے لیے اقوام متحدہ اور ایک تنظیم بنائی جائے جو
مستقبل میں امریکہ پر مکمل کنٹرول کے اس کو یہودی اعلی گھروں تک پہنچنے کے قابل ہو اور یہودیوں کے ایجنٹ امریکہ کے اعلی عہدوں پر فائز ہو جائے اس کے لیے1921 میں کونسل برائے خارجہ تعلعقات (سی ایف آر) رکھا گیا'خارجہ تعلقات کی کونسل کی مدد سے یہودی ارکان ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک اعلی عہدوں پرآنا شروع ہو گئے بینک اور سیاسی اہم پر اعلی عہدوں اور سیاسی جماعتوں یہودی قبضےآگئی .اب تک جتنے بھی امریکی صدر بن رہیں ہیں سب کا تعلق CFR سے ہے اورCFR انہوں نے کے رکن ان کے نائب جارج بش منتخب کرنے کے لئے مجبور کیا گیا تھا
جارج بش کے عہدہ سنبھالنے کے بعد، CFR کے ایک رکن تھے
صدر گئیر ینگ حملوں پر ریگن قاتلانہ حملے کا مقصد
جارج بش وسیع اختیارات میں حکومت کے ارکان پھاڑنا دھونا
313 اور وہ تمام CFR ارکان کلنٹن صدارت جب
CFR کی یہودی کو مرکز حکومت چلانے کے لئے 'میں منتخب کریں. یہی وجہ ہے کہ کے ارکان کی سب سے زیادہ CFR حکومتی ارکان کی ہوتی ہے یہودی دجالی منصوبوں کو کامیاب کرنے کے لیے امریکی حکومت کو استمال کر رہیں ہیں اور امریکی حکومت میں موجود اپنے سیاسی ایجنٹوں کی مدد سے دنیا میں دجالی حکومت قائم کررکھا ہے اور دنیا میں فتنہ پیدا کر رکھا ہے
آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کر رہی ہیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی ہیں۔ ’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہم یہودیوں کے لیئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو۔ اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔‘‘ یہ اقتباس یہودیوں کی مقبول کتاب ’’ پروٹوکولز ‘‘ کے بارہویں باب سے لیا گیا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے مگر کئی اعتبار سے انوکھی ہے کیونکہ اس کتاب کو دنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی داناؤں کی ایک پوری جماعت نے لکھا ہے۔ پروٹوکول نامی اس کتاب میں صرف پوری دنیا کے میڈیا پر کنٹرول ہی نہیں بلکہ وسیع تر اسرائیل کا جو پلان بتایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی بہت جلد پوری دنیا پر قابض ہو جائیں گے جبکہ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول بھی لکھے ہیں کہ دنیا پر قبضے کے بعد وہ کس طرح حکومت کرینگے۔ پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل تعداد چالیس سے زیادہ بتائی جاتی ہے
’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسی دجالی دستاویز ہے جسے دُنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی دانائوں ( مفتنوں اور شرپسندوں)کی ایک پوری جماعت نے صدی پہلے تحریر کیا’’پروٹوکولز‘‘یہودیوں کی وہ عالمی سازشیں جس کی مدد سے وہ پوری دنیا میں دجالیت کوفروغ دے گے اپنی دجالی حکومت کو قائم کرے گے یہودی دنیا والوں پر اپنی مزعوم قدرت اور دنیاوی نظام پر اپنی تصوراتی گرفت کے اظہار کے لئے دنیا کے ہر قوم ومذہب کے عوام کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ہمارا درپردہ کتنا اختیار ہے، تمہارے نظاموں پر۔ تاکہ بے دنیا کی اکثریت کے حامل بے سروسامان نا سمجھ لوگ انہی کو کل طاقت کا دیوتا سمجھ کران سے پینگیں بڑھائیں۔ صہونیوں نے اپنا گریٹر اسرائیل کا پلان بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح دنیا پر قابض ہوں گے اور کس طرح حکومت کریں گے ۔ کس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا ہے آزادی صحافت ، آزادی رائے جیسی جو خرافات انہوں نے ہم میں پیدا کی ہیں اس سے وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اور آخر میں انہوں نے بتایا ہوا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے آزادی رائے کا پرچار کرنے والے کس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیں گے اور سٹاک مارکیٹ جیسے تصوارت جو ان لوگوں نے پیدا کیے ھوئے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ بعد میں ختم کردیں گے ۔ کس طرح انہوں نے دوسرے ممالک کو قرضوں جیسی لعنت میں پھنسایا ھوا ہے۔ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول لکھے ہیں کہ وہ جب حکومت کریں گے تو کس طرح کریں گے
ایک مشہور’’ دجالی پروٹوکولز" کے مطابق ایسے افراد کو قومی حکمرانی سونپی جائے گی جنکا ماضی کالا ہو، تاکہ وہ اپنے پوشیدہ "راز" افشاں ہونے کے خوف سے رہتی حکومت تک صیہونی ایجنڈے کی غلامی کریں۔
" دجالی پروٹوکولز"‘ کے بارہویں باب میں میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس کے ذریعے برین واشنگ یا ذہنی دھلائی کرکے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا پلان بھی شامل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودی اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر کنٹرول بارے اس کتاب میں جو پروٹوکولز شامل ہیں اُن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہم یہودیوں کیلئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریںجن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو۔ اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔
" دجالی پروٹوکولز" کے مطابق عالمی ذرائع ابلاغ خاص صیہونی میڈیا سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی حالات پر اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اسکے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین واشنگ کرکے یہودی مفادات کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد، دہشت پسند اور اسلام کو ناقابلِ عمل دین باور کراتا ہے ۔ مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے کبھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے جاری کئے جاتے ہیں تو کبھی ’’مسلمانوں کی معصومیت‘‘ کے عنوان سے طنزیہ فلمیں بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے سوشل میڈیا کو بھی ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مخالف اسلامی میڈیا اتنا طاقتور نہیں کہ اپنے خلاف ہونیوالے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دے سکے۔

’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسی مقبولِ عام دستاویز ہے جسے دُنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی دانائوں ( مفتنوں اور شرپسندوں)کی ایک پوری جماعت نے صدی پہلے تحریر کیا۔ بظاہر دیکھنے میں یہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے مگر کئی اعتبار سے انوکھی ہے۔ اس کتاب میں وسیع تر اسرائیل کا جو پلان بتایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صیہونیت بہت جلد پوری دُنیا پر چھا جائے گی اور یہودیوں کا معیشت، سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی پر مکمل کنٹرول ہوگا۔
" دجالی پروٹوکولز" کے مطابق اسرائیل کے یہودیوں کو فلسطین کا ۴۷فیصد حصہ دیا گیا لیکن تقسیم فلسطین کے اعلان کے بعد یہودیوں نے جارحیت کے ذریعے فلسطین کے ۷۰فیصد خطے پر برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں قبضہ کیا
یہود کے بزرگوں کی صدیوں پرانی خواہش ہے اس مقصد کیلئے یہود کے اکابرین صدیوں سے سازشیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف کینیڈا میں ۱۹۹۳ء میں چھپنے والی کتاب پاؤن اِن دی گیم"" دجالی پروٹوکولز" میں اس کے مصنف بحریہ کے کمانڈر ولیم نے کیا۔ مصنف مذکور نے تحریری شہادتوں کے حوالے سے لکھا ہے تمام عالمی جنگوں اور بغاوتوں کے پیچھے یہودی ہاتھ صاف نظر آتا ہے۔ یہودی ساری دنیا پر اور خصوصاً عالم اسلام پر جس طرح قبضہ کرنا چاہتا ہے وہ پلان اس نے اس " دجالی پروٹوکولز"کتاب میں بے نقاب کئے ہیں۔ وسیع تر اسرائیل کا یہودی پلان اس منصوبے کا اہم حصہ ہے امریکہ اور اس کے حواری یہود کے اس پلان کی تکمیل کیلئے اسرائیل کیلئے کام کر رہے ہیں۔ دنیا پر صیہونی تسلط کیلئے ۱۸۹۷ء میں یہودیوں کی تنظیم فری میسن کے اعلیٰ درجے کے اکابرین نے کئی برسوں کے صلاح مشوروں کے بعد "" دجالی پروٹوکولز"" کے نام سے ایک دستاویز تیار کی، پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل تعداد ۲۴ہے۔ ۱۹۰۵ء میں روس کے ایک چرچ کے پادری پروفیسر سرجائی اے نائلس نے ان دستاویزات کو ایک کتابچے کی شکل میں روسی زبان میں شائع کر دیا۔ ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء اس کے انگریزی ترجمے امریکہ اور برطانیہ میں شائع ہوئے۔ نائلس کو اس کتابچے کی ایک نقل اس کے ایک دوست کے ذریعے ملی جو کہ اصل مسودے کا صحیح ترجمہ تھا۔ یہ مسودہ انتہائی خفیہ اجلاس کی کارروائی پر مشتمل تھا جو ایک عورت چرانے میں کامیاب ہو گئی جو کہ فرانس میں منعقد ہوا جس کا آغاز فرانس سے ہوا تھا اس خفیہ اجلاس کا نام تھا۔ MASONIC CONSPIRACY The nest of Jewish
(یہودی خفیہ تنظیم کی سازشوں کا آشیانہ) اس کتابچے کا نام "Protocols of the meeting of the Zions elders." ہے۔

پاکستان میں پہلی بار مصباح السلام فاروقی نے "جی وِش کنسپائریسی" کے نام سے پروٹوکولز کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ یہودی اس کے نسخے خرید کر تلف کرتے رہے" دجالی پروٹوکولز"کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے بیشتر اہم واقعات، انقلابات، حکومتوں کی تبدیلیاں وغیرہ صیہونی منصوبوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ ۱۹۱۷ء کا روس کا کمیونسٹ انقلاب بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا مارکس اور لینن دونوں یہودی تھے، ملاحظہ ہو پروٹوکولز کا مندرجہ ذیل پیراگراف ”ترجمہ… ماضی کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات یہودی بزرگوں کے مرتب کردہ خفیہ دستاویزات کے عین مطابق رونما ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں جنگ وجدل، انقلابات، قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، مستقل بے چینی دراصل چور دروازوں سے پوری دنیا کو زیرنگیں کرنے کے حربے ہیں۔
پروفیسر نائلس کو روس کی کمیونسٹ حکومت سے پروٹوکولز کا انکشاف کرنے پر قید کی سزا ملی اور وہ قید میں ہی اذیتیں پا کر جنوری ۱۹۲۹ء کو انتقال پاگیا۔ پروفیسر نائلس کی کتاب پر پابندی لگادی گئی اور کتاب اپنے پاس رکھنے پر سزائے موت کا اعلان کیا گیا۔اس کتاب میں بینجمن ڈزرائلی (اصل نام اسرائیلی) نے ۱۸۴۸ء میں کہا تھا۔ ترجمہ ”کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ دنیا کے جو حکمران نظر آ رہے ہیں ان کے پیچھے حکومت کرنے والے ہاتھ اور ہوتے ہیں اس نے کہا کہ درپردہ لوگ تمام کے تمام یہودی ہوتے ہیں“۔ —حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے کئی سال پہلے فرمادیا تھا : فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔۔۔ آج پوری دنیا کا معاشی نیٹ ورک دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ اس وقت امریکہ جیسی سپر پاور سمیت تقریبا تمام دنیا کے معاشی نیٹ ورک پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں،عالمی میڈیا یہودیوں کے پاس ہے۔ زیر نظر کتاب میں عالمی یہودی منصوبے کی خفیہ دستاویزات فراہم کی گئی ہیں۔جو یہودیوں کے اصل چہرے سے نقاب کشائی کرتی ہیں۔
’’ دجالی پروٹوکولز" صہونیوں نے اپنا گریٹر اسرائیل کا پلان بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح دنیا پر قابض ہوں گے اور کس طرح حکومت کریں گے ۔ کس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا ہے آزادی صحافت ، آزادی رائے جیسی جو خرافات انہوں نے ہم میں پیدا کی ہیں اس سے وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اور آخر میں انہوں نے بتایا ہوا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے آزادی رائے کا پرچار کرنے والے کس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیں گے اور سٹاک مارکیٹ جیسے تصوارت جو ان لوگوں نے پیدا کیے ھوئے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ بعد میں ختم کردیں گے ۔ کس طرح انہوں نے دوسرے ممالک کو قرضوں جیسی لعنت میں پھنسایا ھوا ہے۔ آخر میں انہوں نے چند’’ دجالی پروٹوکولز" لکھے ہیں کہ وہ جب حکومت کریں گے تو کس طرح کریں گے۔
یہودیوں نے اپنے مذہب کو اعلی و ارفع ثابت کرنے اور مثالی یہودی حکومت کے قیام کے لیے ’’ دجالی پروٹوکولز" تیار کیا ہے جن کا تعلق زندگی کے سبھی شعبہٴ حیات سے ہے جس میں اس کے اغراض ومقاصد کے ساتھ ساتھ ان کے طریقہٴ نفاذ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے پروٹوکول نمبر14 جو مذاہب وزبانوں کے بارے میں ہے جس کا عنوان ہے ”دنیا کے سارے مذاہب کے خلاف جنگ اور فحش ادب کا فروغ“۔مذاہب کے بارے میں پروٹوکول14 میں کہا گیا ہے ” ہمارے فلاسفر غیر یہودیوں کے مختلف اعتقادات کی تمام خامیوں کو زیرِ بحث لائیں گے، ان کا مذاق اڑائیں گے، اور ان کے پیروکاروں کو اعتقادات ومذاہب سے بدظن کریں گے تاکہ لوگ مذہب سے بیزار ہو کر ان کے راستہ پر چل پڑیں۔ اسی پروٹوکول کی ایک شق ہے ”فحش لٹریچر کا فروغ“ اس میں درج ہے ”ہم عوام کی تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعہ مخربِ اخلاق ادب کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے، ہمارے دانشور جنہیں غیر یہود کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی، ایسی تقاریر ومضامین تیار کریں گے جن کا ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تاکہ نئی نسل ہماری متعین کردہ راہوں پر گامزن ہوسکیں،،۔اس پروٹوکول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودیوں نے دنیا کے ہر گوشہ میں اپنے ایجنٹ مقرر کررکھے ہیں جو زرخرید غلاموں کی طرح ان کے اشاروں پر رقص کرتے ہیں، ان کے افکار ونظریات کی تبلیغ کرتے ہیں، اپنی تقریروں وتحریروں سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی مختلف لسانی تحریکوں کے سہارے فحش لٹریچر کی نشرواشاعت کرکے، کبھی مذہب مخالف افکار و نظریات کا پرچار کرکے اور کبھی دین پسند ومذہبی لوگوں کو بے وقوف ونادان ثابت کرکے۔پاکستان اور انڈیا میں، اردو زبان میں لکھنے والے ایسے زر خرید غلاموں کی ایک بڑی ٹیم ہے جو اپنے آقا کے اشاروں کے مطابق ہی کام کرتی ہے۔ چونکہ ان کے آقا کے خاص نشانے پر ہے ؛مذہب ِاسلام اور مذہبی مسلمان۔ اس لیے یہودی پروٹوکول کے مطابق، یہ زر خرید غلام اپنی تحریروں و تقریروں سے اسلام کے بنیادی عقائد کو نشانہ بناتے ہیں، اپنی خودساختہ عقلی دلیلوں سے مبادیٴ اسلام کا انکار کرتے ہیں اور اپنے فلسفیانہ وعقلی ومنطقی دلائل سے اپنے قارئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مبادیٴ اسلام واسلامی عقائد ہی ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسلام ہی نے ان کی قوتِ فکر کو مفلوج کردیا ہے۔ اس طرح وہ اپنے قارئین کی ذہنوں میں دین کے بارے میں شک کا بیج بونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر اس کی مسلسل آبیاری کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ الحاد وزندیقیت کا ایک تناور درخت نہیں بن جاتااور جس کی بیخ کنی تقریباً ناممکن ہو۔یہ خود ساختہ دانشورانِ اردو مذہبی مسلمانوں کو، یہودی پروٹوکول کے مطابق، اپنی لعن و طعن کا نشانہ بھی بناتے ہیں، ان کے مختلف مذہبی اعتقادات کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے مذہبی حرکات وسکنات پر قہقہے لگاتے ہیں اور الٹے سیدھے اخباری بیانات کے ذریعہ ان کو ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں۔قوم یہود کی پالیسیوں کے مطابق، اردو کے ان نام نہاد مصنفوں اور خودساختہ دانشوروں نے پاکستان اور انڈیا میں ایک گھناوٴنا ادبی و ثقافتی ماحول تیار کیا ہے جسکی اساس ہے مے نوشی، عریانیت وفحاشیت اور جنسی ہوس پرستی۔ یہ خود شراب کے نشہ میں دھت رہتے ہیں اور اپنی تحریروں سے اپنے قارئین کو بھی اسکی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ فحش کاری کے بدترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس پر نادم وشرمندہ ہونے کے بجائے، نہ صرف اس کا اظہار اپنے ندیموں کی محفل میں کرتے ہیں بلکہ ان سیاہ کارناموں کو نمک مرچ لگا کر اپنے تحریروں کے ذریعہ قارئین تک پہنچاتے ہیں تاکہ انہیں صراطِ مستقیم سے نکال کر اس راستہ پر چلنے کے چھوڑ دیں جس راستے میں قدم قدم پر دلدل ہے تاکہ وہ اس میں دھنستا رہے یہاں تک کہ اس کا وجود ختم ہوجائے۔ ان خودساختہ دانشوروں نے اس یہودی طرزِ تحریر کو اتنا جاذب و دلکش بنا دیا ہے کہ اردو زبان کا ہر رنگ روٹ کاسی فکرواسلوب کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اردوزبان کی یہ عام روایت بن گئی ہے کہ ا س زبان میں جو شخض اسلام کے خلاف جو نازیبا کلمات ادا کرے، مسلمانوں کو گالیاں دے، ان کو دہشت گرد ثابت کرے اور اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دے، زیادہ فحش وعریاں لٹریچر لکھے، شراب پئے اور اپنے آپ کو جتنا بڑا شرابی ثابت کرلے جائے وہ اتنے ہی بڑے انعام واکرام اور ایوارڈ کا مستحق ہوتا ہے۔ ایسے خود ساختہ دانشوروں کی خوب پذیرائی ہوتی ہے ان پر انعام واکرام کی بارش کی جاتی ہے، انہیں ایوارڈس سے نوازا جاتا ہے،اندرون وبیرون ملک کے سفر کرائے جاتے ہیں اور اردو اخبارات ورسائل میں یہ تشہیر کیا جاتا ہے کہ یہی حضرات ہیں اصلی وحقیقی دانشور، یہی ہیں خادمِ اردو، اور اردو کی فروغ وترقی کے لیے یہ حضرات ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ انہیں حضرات کی کوششوں سے اردو اب تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ اردو کا فروغ ہورہا ہے اور مسلسل ترقی کے مراحل طے کررہی ہے۔ذرا کوئی ان خود ساختہ دانشوروں سے پوچھے کہ کیا دو چار فحش افسانے اور غزلیں لکھ دینے سے کیا کوئی خادمِ اردو ہوجاتا ہے؟ اردو کے سچے اور مخلص خادم ہیں مدارسِ اسلامیہ اور ان کے اساتذہ وطلباء۔ یہ وہ حضرات ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اردو ہے، اردو ہی بولتے اور لکھتے ہیں، اردو میں ہی مختلف سماجی و دینی مسائل پر مضامین لکھتے ہیں، اردو جرائد ومجلات نکالتے ہیں، اردو میں ہی سیرت، مغازی، تاریخ، تفسیر و حدیث کی ضخیم کتابیں تصنیف کرتے ہیں نیز ان کا اسلوب نگارش نیز فکرو خیال ان خودساختہ دانشوران اردو سے کہیں ارفع واعلی ہوتا ہے۔ اسے مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے جیسے عبدالماجد دریابادی، سلیمان سلمان منصوپوری، علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالحسن ندوی، قاضی اطہر مبارکپوری، شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ، عبدالمعید مدنی وغیرہ۔ان مخلص دانشوروں نے ہمیشہ سماجی فلاح وبہبود، اصلاحِ معاشرہ، اسلامی ثقافت، برگزیدہ شخصیات، جیسے اہم موضوعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایانیز ہر اس فکر کی مخالفت کی جو کسی بھی مہذب معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہو۔ ان کا اسلوبِ نگارِش بھی معیاری ہے جس میں پختگی و سادگی ہے لیکن ایسے جلیل القدر مصنفین کو کبھی نہیں سراہا گیا، ان کے اوپر کبھی انعام واکرام و ایوارڈس کی بارش کی گئی۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان محترم شخصیات نے کبھی بھی تخریبی ادب تخلیق نہیں کیا جو یہودی ’’ دجالی پروٹوکولز" کے عین مطابق ہو۔ اگر یہ حضرات بھی وہی کرتے جو اس ’’ دجالی پروٹوکولز" کا تقاضہ ہے تو ان پر بھی انعام و اکرام کی بارش کی جاتی

1903 میں پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف دا زائیون کے حصوں کو ایک روسی اخبار زنامیہ (دا بینر) میں سلسلہ وار شائع کیا گیا۔ پروٹوکولز کا جو متن مسلسل جاری رہا اور جس کا درجنوں دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا وہ دراصل پہلی مرتبہ 1905 میں روس میں "دا گریٹ اِن دا سمال: دا کمنگ آف دا اینٹی۔ کرائیسٹ اینڈ دا رول آف سیٹن آن ارتھ" کے دیباچے کے طور پر چھپا جسے روسی مصنف اور تصوف پسند سرگی نائلس نے تحریر کیا۔
اگرچہ پروٹوکولز کی اصل ابتدا کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے تاہم اِس کا مقصد یہودیوں کو ریاست کے خلاف سازش کرنے والوں کے طور پر ثابت کرنا تھا۔ 24 اسباق یا پروٹوکولز مبینہ طور پر یہودی لیڈروں کی ملاقاتوں کی تفصیل ہے۔ پروٹوکولز میں دنیا پر حکمرانی کرنے کی غرض سے یہودیوں کے "خفیہ منصوبوں" کی تفصیل "بیان" کی گئی ہے۔ اِن کی رو سے دنیا پر حکمرانی کا مقصد معیشت کو چالاکی سے برتنے، ذرائع ابلاغ پر کنٹرول حاصل کرنے اور مذاہب کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کے ذریعے حاصل کیا جانا تھا۔
1917 میں روسی انقلاب کے بعد بالشوک تحریک کے نقل مکانی کرنے والے مخالفین پروٹوکولز کو مغربی دنیا میں لائے۔ جلد ہی اِن کی جلدیں یورپ، امریکہ، جنوبی امریکہ اور جاپان میں پھیل گئیں۔ پروٹوکولز کا عربی زبان میں ترجمہ 1920 کی دہائی میں سامنے آیا۔
کلیدی کار ساز شخصیت ہینری فورڈ کے اخبار "دا ڈیربورن انڈیپنڈنٹ" نے 1920 میں پروٹوکولز کے چند حصوں پر مشتمل مضامین کا سلسلہ چھاپنا شروع کیا۔ مضامین کا سلسلہ "دی انٹرنیشنل جیو" نامی کتاب میں شامل کیا گیا۔ اِس کتاب کا کم سے کم 16 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ایڈولف ہٹلر اور بعد میں پراپیگنڈے کے نازی وزیر بننے والے جوزف گوئبیلز دونوں نے فورڈ اور "دی انٹرنیشنل جیو" کی تعریف کی۔
قوم پرست جرمن نازی دور
1933 جرمنی میں نازی برسر اقتدار آتے ہیں۔ نازی پارٹی دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے پہلے پروٹوکولز کے کم سے کم 23 ایڈیشن شائع کرتی ہے۔
ہٹلر کے نزدیک پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی معاشی تباہی اور ذلت کا سبب جرمنی کی فوجی مہم جوئی نہ تھی بلکہ اسکی وجہ یہودی اور انکے ایجنٹ تھے، یعنی بینکرز، ڈیموکریٹس اور کمیونسٹ تھے جنہوں نے جرمنی قوم سے غداری کی تھی اور لاکھوں جرمن قوم کی موت کے زمہ دار تھے جن کی وجہ سے جرمنی کو شکست ہوئی تھی
نازی پارٹی کے نظریہ ساز ایلفریڈ روزن برگ نے 1920 کی دہائی کے دوران ہٹلر کو اُس وقت پروٹوکولز سے روشناس کرایا جب وہ اپنے عالمی نظرئیے کی تشکیل میں تھا۔ ہٹلر نے اپنی اولین تقاریر میں سے کچھ میں پروٹوکولز کا حوالہ دیا اور اپنے تمامتر کیریر کے دوران اِس تصور سے بھرپور فائدہ اُٹھایا کہ "یہودی بالشوک" دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے سازش کر رہے ہیں۔
1920 اور 1930 کے عشروں کے دوران "صیہونی زعماء کے خفیہ اجلاسوں کی تفصیل" نےقوم پرست جرمنی نازی میں اہم کردار ادا کیا۔قوم پرست جرمن نازی پارٹی نے 1919 اور 1939 کے دوران پروٹوکولز کے کم از کم 23 ایڈیشن شائع کئے۔ 1933 میں قوم پرست جرمن نازیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ اسکولوں نے طلبا کو نظریاتی تعلیم دینے کیلئے پروٹوکولز کو استعمال کیا۔
١٩٢٢میں امریکہ میں کار بنانے والی ایک کمپنی کے مالک ھنری فورڈ نے اپنے ایک اخبار میں اس کتاب کی قسط وار اشاعت شروع کر دی تھی ۔ جس پر بعد میں یہودیوں نے پابندی لکائی تھی اس کتاب کو بعد ازاں "دی انٹرنیشنل جیو" کے نام سے قسط وار شایع کیا گیا جو جرمنی جیسے ممالک میں جہاں کی معیشت پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد بری طرح متاثر ہوئی تھی ، بہت مقبول ہوئی- جاپان جیسے ممالک بھی شامل ہیں جہاں یہودی مخالف جزبات موجود ہیں۔
تمام ترعرب اور اسلامی دنیا میں بیشتر اسکولوں میں پروٹوکولز کو حقائق کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ان گنت سیاسی تقریریں، اداریے حتٰی کہ بچوں کے کارٹون تک پروٹوکولز سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ 2002 میں مصر کی حکومت کے زیر کنٹرول ٹیلی ویژن نے پروٹوکولز پر مبنی سلسلے وار پروگرام پیش کئے جس کی امریکی محکمہ خارجہ نے مذمت کی تھی۔ فلسطینی تنظیم حماس نے پروٹوکولز سے ایک حصہ لیا ہے۔یہودیوں کی اصلیت کو دنیا کے سامنے لے کر آئے
انٹرنیٹ پر پروٹوکولز تک رسائی میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر یہودیوں کی اصلیت کو دنیا کے سامنے دکھانے کی خاطر پروٹوکولز کے استعمال کو آسان کر دیا ہے۔ آج انٹرنیٹ پر معمول کی ایک سرچ کے نتیجے میں لاکھوں ایسی ویب سائٹس سامنے آتی ہیں جو پروٹوکولز کو فروخت کرتی ہیں، اِس پر بحث پیش کرتی ہیں
کسی مفکر کا کہنا ہے کہ ”پروپیگنڈا ذہین لوگوں پر احمقانہ تأثرات ڈالنے کا نام ہے“، بہ الفاظ دیگر پروپیگنڈا محض جھوٹ اور فریب ہے جو کہ عصرحاضر میں سب سے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے، پروپیگنڈے کا اصول یہی ہے کہ بات اس طرح کہی جائے کہ پروپیگنڈا،پروپیگنڈا محسوس نہ ہو،ذرائع ابلاغ میں اس ہتھیار کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہوا جب برطانوی فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا تو امریکی ذرائع ابلاغ نے فتح کا سہرا برطانوی فوج کے سر باندھنے کے بجائے امریکی افواج کے سر باندھااوریہ پروپیگنڈا کیا کہ انہی کی بدولت یورپ نازیوں سے محفوظ رہ سکا ہے ، یہ پروپیگنڈا اتنا موٴثر ثابت ہوا کہ یورپی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ امریکہ ان کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ،اس وقت سے لے کر آج تک ذرائع ابلاغ اس موٴثر ہتھیار کو کسی نہ کسی شکل میں مستقل استعمال کرتے چلے آرہے ہیں،عالمی ذرائع ابلاغ خالص یہودی میڈیا ہے جو ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے اور یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا ہتھیارسمجھا جاتا ہے حتی کہ عالمی حالات پر اس کی اتنی گہری چھاپ ہے کہ ہر مشہور لیڈر یہودی میڈیا کی خوشامد کرتا نظر آتا ہے ،در اصل اس کے ذریعے یہودیوں نے اپنے دانشوروں کے ”پروٹوکولز“ کو عملی جامہ پہنایا ہے ، ”یہودی پروٹوکولز“ کے بارہویں باب میں درج ہے کہ ”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنی سے ادنی خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہودیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو ،اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو“۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے مخفی نہیں ،اگرغور کریں تو دور حاضر کی بظاہرتمام تر قی وخوشحالی ، سائنسی ایجادات اور تحقیقات کا ادراک انہی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ، سیٹلائٹ کی ایجاد نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک محلے کی طرح کردیا ہے ،دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے تمام واقعات ٹیلی وژن سکرین پر دیکھے جاسکتے ہیں ،ذرائع ابلاغ نے معلومات اور آگہی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ، اسی کے ذریعے کثرت معلومات کافتنہ تیزی سے پھلتا پھولتا جارہا ہے ،عالمی آگہی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر شخص اس سے واقف ہوتا ہے ،یہ ذرائع ابلاغ کا کمال ہے کہ اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی ۔ ذرائع ابلاغ کی افادیت مسلم ہے لیکن اس کے منفی پہلو بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ مخصوص مفادات کے حصول کے لیے ان کا استعمال نیز تشہیر کے لیے جو اشتہار دیے جاتے ہیں وہ اکثر مبالغے پر مبنی ہوتے ہیں اور مارکیٹنگ کے لیے جو نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے ہیں وہ مخصوص گروہوں کے مفادات کے لیے ہوتے ہیں اور عام آدمی کو اس سے نقصان پہنچتا ہے ، پھر قومی وبین الاقوامی ایجنسیاں انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں ، حکومتیں اور بین الاقوامی طاقتیں اپنی عوام کو مطیع رکھنے کے لیے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے ایک خاص نقطہ نظر پروان چڑھاتی ہیں اور رائے عامہ کو متأثر کرنے یازیادہ دکھانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے ، عوام کی برین واشنگ کے لیے میڈیا ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے،نائن الیون کے حادثے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جس قدر غلیظ مہم چلائی ہے اس سے مسلمانوں کے تشخص کو بڑا نقصان پہنچا ہے ، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ذرائع ابلاغ کو فحاشی ،عریانی اور بداخلاقی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہاہے جو معاشرے کی عمومی اخلاقی فضا کو تباہ کرنے کا ایک مہلک طریقہ ہے،دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لیے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کررہی ہیں اور اپنے اہداف ومقاصد کے حصول میں کامیاب ہیں، خلاصہ یہ کہ آج میڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے لے جاسکتا ہے ،لوگ غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر میڈیا کے ذریعے پھیلائی ہوئی باتوں کو بسروچشم قبول کرلیتے ہیں،گویا میڈیا واضح الفاظ میں دن کو رات ، سفید کو سیاہ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی خدمات انجام دے رہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ علماء کو میڈیا خصوصا ٹی وی چینل پر آجانا چاہیے اور اسلام کے متعلق جو شکوک و شبہات اور پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں اس کا دفاع ٹی وی چینل پہ آکر کرنااز حد ضروری ہے اور اس طرح صحیح اسلامی عقائد ،نظریات اور افکار کی تبلیغ بھی خود بخود ہوجائے گی ،اس ضمن میں وہ یہ دلیل دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ ”شدت پسند علماء “ ابھی نہیں تو کچھ عرصے بعد ضرور مان جائیں گے جس طرح لاوٴڈ اسپیکر کے مسئلے میں علماء نے شروع میں اختلاف کیا اور نہ مانا لیکن پھر کچھ عرصے بعد خود ہی زور وشور سے اس کا استعمال شروع فرمادیا ،لیکن یہ کہنے والے ٹی وی کی خرابیوں ،مفسدات اورمہلکات سے شاید اپنی نظریں چرالیتے ہیں ، میڈیا خصوصا ٹی وی چینل پہ آکر اسلام کی خدمت کسی طور ممکن نہیں ،ہاں! البتہ اسلام اور مسلمانوں کی توہین وتضحیک ضرور ممکن ہے ۔ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ کبھی نہیں ہوسکتا ،ایک چینل کے تئیس گھنٹے توعریانی ،فحاشی وگمراہی کے لیے مخصوص ہو اور ایک گھنٹہ ”اسلام“ کے لیے، میڈیا کے ذریعے جو حضرات اسلام کی تبلیغ وترویج چاہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی کچرے کے ڈھیر پر عنبر وعودجیسی خوشبو رکھ دی جائیں اوروہاں سے گذرنے والوں کے بارے میں امید کی جائے کہ وہ اس کچرے کنڈی میں رکھی خوشبو سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے ، ٹی وی چینل کا ”رنگین اسلام“ اس وقت مسلمان اورخاص طور پر غیر مسلموں میں اسلام کے متعلق تشویش کا باعث بن رہا ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک مسئلہ کسی چینل پر فرض بتایا جاتا ہے ، دوسرے چینل پر اس کو بدعت کہتے ہیں اور تیسرا چینل اس کو سنت ثابت کررہا ہوتا ہے ،ذرا سوچیے ! ٹی وی دیکھنے والا ایک سادہ لوح آدمی اس سے اسلام کے متعلق کیا انتشار کا شکار نہیں ہوگا ؟! پھر ٹی وی پر اسلام کے متعلق مذاکروں میں ہر خاص وعام کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ آکر جس طرح چاہیں اسلام کو تختہٴ مشق بنائیں اور ان نام نہاد ”اسلامی اسکالرز“ میں عالم غیر عالم کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی اور اس کے ذریعے لوگوں کو لاشعوری طور پر یہ پیغام دینا بھی مقصود ہوتا ہے کہ ہر راہ چلتا پھرتا شخص اپنے تفہیم دین کے پر چارکا ”فطری حق “رکھتا ہے اور یہ نازک اور اہم دینی مسائل پرگفتگو کرنا صرف ”ملاوٴں “ ہی کی ٹھیکیداری نہیں ہے ۔ اور اگر کسی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں کسی صحیح اور مستند عالم دین کو بلا بھی لیا جائے تو اس کے بلانے سے دین کی صحیح رہنمائی مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کو بلاکر دیگر لادین اور ملحد شرکاء کے اسلام کے متعلق ایسے فتنہ پرور سوالات و اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جنہیں سن کر کان ہی پکڑے جاسکتے ہیں،فارسی ادب کی سدا بہار کتاب ”گلستان “ کے چوتھے باب میں شیخ سعدی نے ایک حکایت بیان کی ہے کہ ایک عالم کا ایک ملحد کے ساتھ مناظرہ ہوگیاعالم نے اس بے دین کے سامنے ہار مان لی اور پیچھے ہٹ گیا ، کسی نے اس عالم سے پوچھا کہ جناب باوجود آپ علم وفضل رکھنے کے ایک ملحد سے مناظرے میں ہار گئے اور اس پردلائل کے ذریعے قابو نہ پاسکے ؟عالم نے جواب دیا کہ میرا علم تو قرآن ، حدیث اور فقہاء ومشائخ کے اقوال ہیں وہ ملحد ان سے عقیدت ہی نہیں رکھتا تو مجھے اس کا کفر سننا کس کام آئیگا؟بس اسی لیے میں نے ہار ماننے میں ہی عافیت جانی:
آنکس کہ بقرآن و خبر زو نرہی
آنست جوابش کہ جوابش ندہی
چنانچہ بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ مستند علماء سے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن سے مقصد اس سوال میں پوشیدہ فتنہ کی نشر واشاعت ہو جس کے نتیجے میں دیکھنے والی عوام اس عالم کے جواب کی طرف تو غورنہیں کرتی اور اس فتنہ پرور سوال پر خود ان کے دل ودماغ میں اسلام کے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہوتے ہوتے اس سوال کی بازگشت زبان زد عام ہوجاتی ہے۔ ایک اوراہم چیز جو محسوس کی گئی کہ ان مواصلاتی اسلامی مذاکروں کے شروع ہوجانے سے عام آدمی بھی بلا سوچے سمجھے اسلام کے نازک اور دقیق مباحث کے بارے میں اپنی فہم اور سوچ کے بیان کرنے میں جری ہوگیا ہے جبکہ اس سے قبل عام لوگ اس قسم کے مسائل میں دخل اندازی نہیں کرسکتے تھے ،اور ان پروگراموں کی ”قابل قدر خدمت“ یہ ہے کہ دین کے مسلمہ اورمتفقہ مسائل کو موضوع بحث بناکر اس کو اختلافی بنایاجائے، مکالمہ یا تقریب بین المذاہب کے نام پر وحدت ادیان کو فروغ دیا جائے ، فکری اور نظریاتی گمراہیوں کو عقلی بنیادوں پر پھیلایاجائے ، اسلام کی تشریح وتعبیر عرب جاہلیت کے دور اورزمانے کے ساتھ مخصوص کی جائے۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے اسلام کی صحیح خدمت یا کم از کم دفاعی خدمت ممکن ہے تویہ بات بھی غور کی محتاج ہے کہ نائن الیون کے بعد سے عالمی میڈیا نے اسلام کی بنیادوں پر جو رکیک حملے کیے ان کا اب تک کتنا دفاع ہوسکا ؟ پھر آج سے پندرہ سال پیچھے لوٹ کر دیکھیے جب کیبل ،ڈش اور چینلز کی بھرمار نہ تھی تب ہمارے معاشرے کے حالات کیسے تھے اور آج جب کہ میڈیا کا ہر چینل بزعم خود اسلام کی خدمت انجام دے رہا ہے تو اخلاقی گراوٹ ، فحاشی وعریانی کا ایک سیلاب ہے جو امنڈتا چلا آرہا ہے ،اور جب سمجھ دار اور باشعور عوام یا علماء کی طرف سے اس فحاشی وعریانی کے خلاف احتجاج کیا جائے تو ان کا یہ رد عمل پہلے سے موجود خانوں میں ”فٹ“ کردیا جاتا ہے کہ مذہبی عناصر ہمیشہ یہی رونا روتے رہتے ہیں حالانکہ اب عریانی وفحاشی کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمگیریت (گلوبلائزیشن )کا اہم جز ہے اورابلاغ کے تمام ذرائع بالخصوص ٹیلی وژن اب معاشرے کی تشکیل نو کے لیے استعمال ہورہے ہیں ، پھر یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اب توعریانی وفحاشی زندگی کا معمول بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت نے اس فتنے کو گھر گھر پھیلانے کے لیے کیبل سسٹم شروع کردیا ، پہلے ڈش ہوا کرتا تھا ، لینے والا آدمی ڈرتا تھا کہ گھر کی چھت پر اس منحوس چھتری کو کیوں رکھا جائے ؟ یاکسی کی جیب گنجائش نہیں دیتی تھی کہ وہ ڈش خریدے ، حکومت نے آسانی کردی کہ گھر گھر ، بستی بستی کیبل سسٹم پھیلا دیا کہ صرف چند روپوں میں مہینے بھر کی عیاشی کوآسان بنادیااور دیکھا جائے تو یہ وہ واحد عیاشی ہے جس میں امیر وغریب برابر کے شریک ہیں ،اور تو اور بعض چینلز پر ہم جنس پرستی کے جواز اور نفاذ سے متعلق پروگرام پیش کیے جارہے ہیں اور اس کے لیے جو دلائل پیش کیے گئے وہ خالص کفر والحاد پر مبنی جن کو نقل کرنے کی راقم یہاں سکت نہیں رکھتا
حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے کئی سال پہلے فرمادیا تھا : فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔۔۔ آج پوری دنیا کا معاشی نیٹ ورک دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ اس وقت امریکہ جیسی سپر پاور سمیت تقریبا تمام دنیا کے معاشی نیٹ ورک پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں،عالمی میڈیا یہودیوں کے پاس ہے۔ زیر نظر کتاب میں عالمی یہودی منصوبے کی خفیہ دستاویزات فراہم کی گئی ہیں۔جو یہودیوں کے اصل چہرے سے نقاب کشائی کرتی ہیں۔
۔مسلمانو! جوش سے نہیں ہوش سے کام لو، رطب ویابس، تعمیری اور تخریبی ادب کو پہچانو، تعمیری ادب کو دل سے لگاوٴ اور تخریبی ادب کا بائیکاٹ کرو، بہروپئے اور سنجیدہ مصنفین و ادباء کو کے درمیان فرق کو سمجھو، سنجیدہ، شریف اور صاف گو جرائدومجلات و مصنفین وادباء کا دامے درمے قدمے سخنے ساتھ دو۔ فحاشی و عریانیت کو عام کرنے والے یہودی ایجنٹوں کو دھتکارو، اپنے افرادِ خانہ کو تعمیری ادب پڑھنے کی تلقین کرو اور تخریبی ادب سے باز رکھو۔ یہودی ایجنٹوں کے حربہ کو پہچانو جو مسلم معاشرہ میں مشاعروں، ادبی محفلوں اور فحش لٹریچر کے ذریعہ عریانیت و فحش کاری کو عام کرنا چاہتے ہیں جو ادب برائے اصلاحِ معاشرہ نہیں بلکہ ادب برائے ذہنی عیاشی ہے۔مسلمان تو کیا ، دنیا کی “اکثریت“ جو کہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، وہ انسے نا علم ہے ۔ جمہوریت کی آڑ میں جیسے گھناؤنے جرم و ظلم یہ صیہونی افراد کر چکے ہیں۔ ان سے پردہ فاش کرنا ضروری ہےجمہوریت ایک باطل نظامِ حکومت ہے جو کفار نے اسلام کے نظامِ سیاست خلافت کے مقابلے پر بنایا ہوا ہے، ہم کبھی بھی فلاح نہیں حاصل کرسکتے جب تک اس باطل نظام کی جگہ اسلام کا نظام حکومت خلافت قائم نہیں کریں گے
تحریر مصنف
ڈاکٹر ابوبکر جواد