منگل، 12 دسمبر، 2017

2 دجالی پروٹوکولز

صہیونی پر وٹوکول یا ان کے بنیادی اعتقادات

صہیونیوں نے اپنے ناپاک ارادوں کو چند اصولوں کی صورت میں بیان کیا ہے، جو ''پروٹوکول'' کے نام سے معروف ہیں۔ صہیونی اداروں نے ١٨٩٧ ء میں ایک نشست منعقد کی جس میں چند ایک فیصلے کیے گئے۔ اس میٹنگ کے احوال کو سپرد قلم کرکے اس کا نام ''پروٹوکول'' رکھا گیا۔ ان ''پروٹوکلولز'' کا مجموعہ ایک کتاب میں شائع ہوا لیکن ہر بار چھپنے کے فوراً بعد وہ کتاب نایاب ہوجاتی ہے کیونکہ یہودی اسے فوری طور پر خرید لیتے ہیں۔
پروٹوکول کے بنیادی نکات :
پروٹوکولز کی تشریح اور اس پر لکھے گئے مقدمہ کے مطالعہ سے تین بنیادی نکتے سامنے آتے ہیں:
ِ ١۔ آزادی پسند اصولوں پر فلسفی تنقید اور آمرانہ حکومت کی تعریف
٢۔ عالمی آمرانہ حکومت کے قیام کے لیے یہودیوں کو اطمینان
دلانے کے لیے اجتماعی جنگ کا منصوبہ
٣۔ اس منصوبہ کے بنیادی نکات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیشگوئی (٩)
یہودی منصوبہ بندی کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے صہیونی درج ذیل امور پر کام کرتے ہیں:
١۔ فلسطین پر قبضہ اور خطہ میں یہودیوں کو جمع کرنا۔
٢۔ عالمی صہیونی حکومت کے قیام کے لیے کوششیں ۔
٣۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے نسلی برتری کا خیال خام اور اس سیاسی نظریہ کو انجام دینے کا اعتقاد یہودیوں کا اسلحہ ہے۔
٤۔ ہر ممکن طریقہ سے مذہبی اعتقادات اور ایمان اور درحقیقت تمام توحیدی ادیان خاص طور پر اسلام کو محو کر دینا، اگرچہ اس عمل کو دینی رنگ ہی دینا پڑے۔
کلی طور پر صہیونزم اپنے اہداف کے حصول کے لیے درج ذیل پروگرام پر عمل کرتا ہے :
لوگوں کے مذہبی اعتقادات کو مشکوک بنانا، مذہبی رہنماؤں کو راستہ سے ہٹانا، دہشت گردی، فریب اور دھوکہ دہی، فحاشی کی ترویج، بے رحمی اور قتل و غارتگری، غیر اخلاقی حرکتوں کی تبلیغ، لوگوں کو عیش و عشرت میں مشغول کرنا، برائیوں کا فروغ، نمود و نمائش، لوگوں کو سیاسی مسائل سے دور کرنا، تفرقہ ڈالنا، جنگیں کروانا اور دوسرے ممالک پر قبضہ کرنا۔
یہود اور یہودیت کے ساتھ صہیونزم کا تضاد:
صہیونی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے تمام مظالم یہودیوں کے اعتقادات اور آرزوؤں کے مطابق ہیں۔ اسی لیے اپنے مظالم کے جواز کے لیے وہ تمام عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ یہودیوں سے منسوب نعروں، اشاروں، علامتوں اور رنگوں سے استفادہ کرتے ہیں اور اس طرح سے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی تمام وحشیانہ اور انسانیت سوز کاروائیوں کو دینی نقاب کے پیچھے چھپالیں اور عالمی حمایت حاصل کرسکیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
یہودیت اور صہیونزم کے درمیان واضح فرق موجود ہے۔ ''یہودی'' اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ان احکام کا پابند ہو جو خداوند عالم کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے اور ان کی گفتار و کردار انہی حدود میں رہ کر اس طرح سے ہوکہ اسے بری صفت، بداخلاقی اور ناشائستہ عمل سے روک دے اور اسے سچائی، نیکی اور انسانوں کے درمیان اچھے تعلقات کی طرف رہنمائی کرے جو کہ ایک خدائی انسان کا خاصہ ہے۔
سچا یہودی نہ صرف اپنے دین کے اصولوں کا اعتقاد رکھتا ہے، بلکہ اس کے احکام پر عمل بھی کرتا ہے۔ وہ خود کو بندگانِ خدا میں سے ایک بندہ اور اسے اپنے اعمال پر نگراں سمجھتا ہے جبکہ صہیونزم دنیاوی اہداف رکھنے والا ایک سیاسی نظریہ ہے جو نہ صرف یہ کہ مذکورہ بالا صفات سے بالکل بے بہرہ ہے بلکہ اس کے برعکس سوچتا ہے اور اس کے برخلاف ہی عمل کرتا ہے۔
دوسرے ممالک پر تسلط، تجاوز کی ہوس، شیطنت اور اختلاف ڈالنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ہر طریقہ سے رقم بٹورنا، دوسروں کے مال قبضہ کرلینا اور دوسری ہزاروں اخلاقی برائیاں صہیونزم کی واضح صفات میں سے ہیں۔
صہیونیوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا کو یہ باورکرادیں کہ جو صہیونی نہیں ہے، وہ یہودی نہیں ہے۔ جب کہ دنیا بھر کی یہودی تنظیموں کی صہیونی سیاست سے مخالفت اس دعویٰ کو مسترد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، خود مختار یہودی تنظیمیں ، صہیونیوں کے برخلاف ، امن و آشتی کے ساتھ اور اپنے ہی ملک (جہاں وہ رہائش پذیر ہوں) میں موجود حکومتی نظام میں ضم ہو کر رہنا چاہتی ہیں۔
حقائق، دستاویزات، یہودیوں حتیٰ کہ یہودی رہنماؤں کے مطابق صہیونزم، یہودیت سے علیحدہ چیز ہے کہ جس نے لفظ یہود سے سوء استفادہ کرتے ہوئے، بہت سے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایک یہودی رہنما کا کہنا ہے:
'' صہیونزم نے دین یہود کو اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔''
ایرانی یہودیوں کی روشن خیال انجمن کا آرگن تموز لکھتا ہے :
'' صہیونیوں۔۔۔۔ کا دینِ یہود کی توحیدی اقدار اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے خدائی احکامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔''
تاریخی شواہد کے مطابق صہیونزم کا نظریہ پرداز تھیوڈور ہرٹزل بے دین تھا اور خدا پر کوئی اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔
دوسری جانب سے، تمام صہیونی ، یہودی نہیں ہیں ، بلکہ بہت سے صہیونی رہنما اور سرکردہ افراد غیر یہودی رہے ہیں۔ یورپی اور امریکی سامراجی حکومتوں کے بعض سربراہوں اور حکومتی افراد نے یہودی نہ ہونے کے باوجود ، صہیونزم کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعتراف اور عملی طور پر اس پر فخر بھی کیا ہے۔ شایانِ ذکر ہے کہ سارے '' اسرائیلی'' بھی یہودی نہیں ہیں، کیونکہ یورپی اور امریکی ممالک سے کوچ کرنے والے افراد میں سے بہت سے لوگ یہودی نہیں تھے بلکہ وہ نسلاً بھی یہودی نہیں تھے۔

کوئی تبصرے نہیں: