منگل، 12 دسمبر، 2017

6 دجالی پروٹوکولز

صہیونی بزرگوں کے پروٹوکولز (The Protocols of the elders of Zion)
یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا۔ قدامت پسند لوگ یہودیوں کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہودی بیشتر دوسرے لوگوں کے برعکس انٹرنیشنل تھے۔ وہ تقریباً ہرملک میں رہتے تھے اور اکثر اعلیٰ عہدوں اور دولت کے مالک تھے۔ ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود وہ الگ تھلگ تھے۔ وہ اپنی الگ زبان میں عبادت کرنے، دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں کرنے کے اقرار کرتے اور تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے۔ لوگ انہیں کسی عظیم راز کا پاسبان سمجھتے تھے۔
انہی دنوں تقریباً اسّی صفحات کی ایک کتاب سامنے آئی۔ یہ جرمن اور انگریزی زبان میں تھی۔ انگریزی میں اس کا نام The Protocols of the Elders of Zion تھا۔ یہ ہدایات اور لائحہ عمل پر مشتمل تھی کہ موجودہ طاقتوں، سلطنتوں، حکومتوں اور چرچوں کو کس طرح ختم کر کے ایک نئی عالمی حکومت قائم کی جائے جس کا سربراہ خاندان دائو دی کا سپریم یہودی آمر ہو۔ پروٹوکولز میں ہدایت کی گئی کہ اس مقصد کے لیے طبقاتی نفرت پیدا کی جائے۔ جنگوں کو ہوا دی جائے۔ انقلاب لائے جائیں اور قومی اداروں کو بدنام کیا جائے۔
روایتی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے لبرل ازم کو فروغ دیا جائے۔ اس سے سوشلزم آئے گا اور پھر کمیونزم ریاستیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا کو ایک نئے نظام کی تلاش ہو گی اور فری میسن کی مدد سے ہم اس کے لیے تیارہوں گے۔ پروٹوکول جو بیس سرخیوں کے تحت مینجمنٹ کے لیکچروں کی طرح ہیں۔ پہلے پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں اچھی فطرت والوں کے مقابلے میں بدفطرت افراد زیادہ ہیں اس لیے تعلیمی مباحث سے زیادہ تشدد موثر ہوسکتا ہے۔ پروٹوکولز میں ضابطہ پالیسی، سیکورٹی، اسلحہ بندی، اجارہ داری، پریس، ٹیکس پالیسی اور تعلیم کے ابواب ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک ا نتخابی منشور نظر آتا ہے لیکن اسے رائے دہندگان سے پوشیدہ رکھنا ہے۔ اس کا انداز میکاولی کاہے کہ انسانوں کی کمزوریوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ پروٹوکول 12 میں کہا گیا ہے کہ ادب اور صحافت سب سے اہم تعلیمی قوتیں ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ رسالوں اور اخباروں کے مالک بن جائیں گے لیکن لوگوں کے شک سے بچنے کے لیے تمام رسالے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ظاہری شکل، خیالات اور رجحانات میں ایک دوسرے سے ہٹ کر ہوں گے۔ یہ رسالے ہر مکتبہ فکر کے ہوں گے۔ ارسٹوکریٹک، ری پبلکن، انقلابی حتیٰ کہ انارکسٹ بھی۔ ہندو دیوتا وشنو کی طرح ان کے ایک سو ہاتھ ہوں گے اور ہر ہاتھ کی نبض مختلف ذہنی رجحان کے تحت ہو گی۔ فحش اور عریاں مواد بھی خوب پھیلایا جائے گا تاکہ وہ تقریروں اور پارٹی پروگراموں سے زیادہ راحت پائیں۔
جرمن ایڈیشن کے ایڈیٹر 74 سالہ سابق فوجی افسر، زوربیک نے لکھا کہ اگست 1897ء میں سوئس شہر باتل میں پہلی صہیونی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی ضرورت پر غور کیا گیا۔ کانگریس کے دس اجلاس ہوئے جن کی صدارت بابائے صیہونیت ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل نے کی۔
انہوں نے ہی یہ پروٹوکول بیان کیے۔ ہرشخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ 9 پروٹوکولز کا مسودہ کہیں لے جانے والے ایلچی نے بھی اپنی قیمت وصول کی۔ اسے مسودہ کہیں پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ فرنکفرٹ کے میسنک لاج میں روسی سیکرٹ پولیس کا ایک ایجنٹ اسے ملا جس کے ساتھ نقل نویسوں کی ایک ٹیم بھی تھی۔ ایلچی نے قیمت وصول کی اور ایک رات کے لیے مسودہ ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے راتوں رات اصل زبان (شاید عبرانی) میں اس کی نقل تیار کی۔ صبح کو ایلچی نے مسودہ واپس لیا اور تاریخ سے غائب ہو گیا۔ نقل روس پہنچی جہاں سکالرز نے اس کا ترجمہ کیا۔
1905ء میں ماسکو کے ایک سکالر سرگئی اے فیلوس نے ایک کتاب "The Great in the small" لکھی۔ پروٹوکولز اس میں بطور ضمیمہ شامل تھے۔ زوربیک کے جرمن ایڈیشن کے بعد پروٹوکولز کے کئی یورپی زبانوں میں تراجم شائع ہوئے۔ امریکہ میں تین مختلف ایڈیشن چھپے۔ اس کے بعد عربی ترجمہ بھی آ گیا۔ ہرجگہ سکالرز اور حکمرانوں میں اس کاچرچا ہونے لگا۔ 1919ء میں ایک اور کتاب چھپی Friedrich wichtl کی اس کتاب The World Freemasunry world revolution میں یہودیوں اور فری میسن کے بارے میں وہی خیالات تھے جنہیں پروٹوکولز نے تقویت دی تھی 

کوئی تبصرے نہیں: