pak defence لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
pak defence لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 28 دسمبر، 2017

ایک ہی رستہ




پاکستان خاص طور پر اور امت مسلمہ عام طور پر اس وقت عالمی ْ نفرت ْ کا شکار ہو چکی ہے ۔اور تلخ 
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے خون کی ارزانی کا عالم یہ ہے کہ اس کی موت کا دکھ صرف اس کے خونی 
رشتے داروں تک محدود ہو گیا ہے۔



بوسینیا میں مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی منتقلی میں استعمال ہونے والے لوہے کے ایسے پنجروں میں بند کیا جاتا تھا جس میں انسان پوری طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ تین دنوں سے قید اس پنجرے میں کچھ تو مر گئے اور جو زندہ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ کئی منزلہ اس پنجرے کے اوپر والی منزل کا قیدی فطری حاجات پوری کرتا تو وہ نچلی منزلوں کے قیدیوں کے جسم اس سے آلودہ ہوتے ۔

بوسینیا کے بعد یہ ظلم کی داستان افغانستان سے بغداد تک دہرائی جاتی رہی، اور گوانتنامو بے ابھی تک وجود ہے اور اسرائیل کی جیلوں کے اندر فلسطینی مردوں ، عورتوں اور معصوم بچوں پر جو مظالم ڈہائے جا رہے ہیں ان کا تصور کر کے ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے ۔ مگر عالمی برادری سے زیادہ بے حسی مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر طاری ہے۔ اور کڑوا سچ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ہاتھ اپنی ہی رعایا کے خون سے آلودہ ہیں۔ذاتی لالچ اور اختیارات کی طمع نے ان کے سوچنے اور دیکھنے کی قوت سلب کر لی ہے اور بدیسی آقاوں کے خوف نے ان کی زبانوں کو گنگ کر دیا ہوا ہے۔ ہر قسم کی بد امنی اور خون ریزی کا الزام مسلمانوں ہی کے سر آتا ہے۔ ایسی جنگ ہے جو امن کے نام پر لڑی جا رہی ہے اس میں مرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ نان جویں کے حصول میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ 

سیاسی اور مذہبی تقسیم در تقسیم نے ہمیں بالکل ہی بے وقعت کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ یہ گتھی نہ سلجھا سکا کہ امن کے دروازے کو کہاں تلاش کیا جائے، ہمارے دینی رہنما ایسا وظیفہ ڈہونڈ نہ پائے جو اثر پذیر ہو تا۔حالت یہ ہے کہ ماہرین میں سے کوئی مشورہ دینے کی جرات کرے تو اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس پر تبرہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔

پاکستان ان انگلیوں پر گنے جانے والے ان مسلمان ممالک میں شامل ہے جس کے حواس قائم ہیں ۔ورنہ اکثر ممالک میں مایوسی امید پر غالب آ چکی ہے۔ ہم معاشرتی اور معاشی طور پر بے وقعت ہو جانے کے باوجود اپنے اخلاق اور رویوں کو بہتر کر کے کم از کم مہذب دنیا میں انسان کہلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم بتدریج صرف اپنے اخلاق ہی کو بہتر کر لیں تو بہت جلد ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اپنی بھنور میں ڈنواڈول ناو کو طوفان سے نکال سکتے ہیں۔ 

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جس کوپاکستان کی ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہوئی ہے ، حکومت پاکستان نے 25 دسمبر کو اس کی والدہ آوانتی اور اہلیہ چیتانکل سے ملاقات کرائی۔ جب کسی ملک کا کوئی جاسوس دوسرا ملک گرفتار کرتا ہے تو اس کے اعتراف جرم کے اس کو کسی قسم کی رعائت نہیں دی جاتی ۔ مگرپاکستان نے بھارت کے جتنے بھی جاسوس پکڑے اج تک کسی کو عملی طورپر سزائے موت نہیں دی گئی۔کلبھوشن جو3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار ہوا ۔ وہ حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام پر غئر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ 10 اپریل2017 کو ایک فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی، بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی جس پرعالمی عدالت نے اس مقدمے کے فیصلے تک پھانسی پر عمل درآمد روک دینے کی سفارش کی ہے۔ 

اس دوران پاکستان نے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاسوس قیدی کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات کا انتظام کیا۔ قیدی کی والدہ آوانتی اور اس کی اہلیہ چیتانکل نے 25 دسمبر کو 30 منٹ تک ملاقات کی جو در حقیقت 40 منٹ تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے لیے آنے والی اس کی اہلیہ کے جوتوں میں ایک 
chip
چھپا کر لائی گئی جو دوران تلاشی بر آمد کر لی گئی۔جس پر بھارت کی سراغ رسان ایجنسی را کے حصے میں بدنامی ہی آئی کہ اس نے اپنے ہی ملک کے شہری کو جو مکمل طور پر بھارتی حکومت کے رحم و کرم پر تھی اور اپنے قید خاوند سے ملاقات کے لئے آئی تھی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ را کی اس حرکت پر بھارت میں سنجیدہ حلقوں میں اس حرکت کو ایک اوچھی حرکت قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے خاتون کو متبادل جوتے فراہم کر کے چپ والے جوتے اپنی تحویل میں لے کر تحقیق کے لیے فورسونک لیبارٹری میں بجھوا دئے ہیں۔را کی اس حرکت کے باوجود پاکستان نے ملاقات کی اجازت دی جس پر قیدی کی ماں نے پاکستانی وزارت خارجی کا شکریہ ادا کیا۔

یہ ملاقات کر ا کر پاکستان نے اخلاقی فتح حاصل کی ہے ۔پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے تجویز پیش کی ہے کہ امت مسلمہ کے موجودہ بے چارگی کے حالات میں ہم اخلاقی طور پر انسانی ہمدردی کے طور پر فیصلے کر کے دنیا میں اپنے بدنام ہوتے چہرے کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم حامد میر کی اس تجویز سے مکمل اتفاق کرتے اس کی تائید کرتے ہیں۔اور حکومت پاکستان کیطرف سے انسانی ہمدردی 
کے تحت دی گئی ملاقات کی سہولت پر حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اخلاق کے علاوہ پیش کرنے کے لیے بچا ہی کیا ہے