urdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
urdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 17 جون، 2025

"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"




دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری

چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز، اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے، اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری

امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے، جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ

امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ، اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین

اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ

امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"

بدھ، 11 جون، 2025

طاق اور دیا



 

1980 

کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"

میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)

انہوں نے دوسرا سوال کیا: "کیا وہ مسلمان تھا؟"
میں نے بتایا کہ "اس کی ساری زندگی کمیونزم کے نفاذ کی جدوجہد میں گزری ہے۔"
عبدالباسط نے سرد آہ بھری، "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھا۔
میں نے حیرت سے پوچھا: "آپ کو ٹیٹو کے مرنے کا دکھ ہے؟"
ان کا جواب آج تک میرے دل میں نقش ہے:
"میں ٹیٹو کو نہیں جانتا، مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پڑھے لکھے شخص تک میں اسلام کی حقانیت کا پیغام نہ پہنچا سکا۔"

یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔

ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔

معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔

علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے 


پیر، 9 جون، 2025

صاف ستھرا پنجاب



یقین کیجیے، عید الاضحیٰ 2025 کے موقع پر پنجاب میں صفائی کے انتظامات نے ہر دل کو خوش کر دیا۔ اس بار صورتحال مختلف تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذاتی دلچسپی لیکر صفائی مہم کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا تھا۔ ان کا وژن تھا کہ عید کی خوشیاں شہر و دیہات میں صفائی کی خوبصورتی کے ساتھ منائی جائیں تاکہ شہریوں کو نہ صرف سکون ملے بلکہ ماحول بھی صاف ستھرا ہو۔

وزیر اعلیٰ کی نگرانی میں پنجاب بھر میں صفائی کے ایک منظم اور وسیع منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ 180,000 سے زائد صفائی کارکنوں کو متحرک کیا گیا اور 36,000 سے زائد گاڑیاں، ہزاروں بیلچے اور ہینڈ کارٹس ہر شہر کے کونے کونے تک پہنچائے گئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک نظم و ضبط اور سنجیدگی کی علامت تھی جو وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ممکن ہو سکی۔

لاہور ڈویژن میں خصوصی توجہ دی گئی جہاں 754 کیمپ قائم کیے گئے تاکہ شہری آسانی سے قربانی کی آلائشیں جمع کرا سکیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر صفائی کے عمل کی نگرانی کے لیے سیف سٹی اتھارٹی اور ڈرون کیمرے بھی استعمال کیے گئے، تاکہ کوئی کمی بیشی نہ رہے۔ بدبو کو ختم کرنے کے لیے لاکھوں لیٹر گلاب کے پانی اور فینائل کا استعمال ہوا، جو اس مہم کی باریکیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ صفائی مہم محض ایک انتظامیہ کی کوشش نہیں بلکہ ایک وژن تھی جس نے پنجاب کو صاف ستھرا اور خوشبودار بنایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی نے ثابت کیا کہ اگر قیادت سنجیدگی سے کام کرے تو معمولی مسائل بھی عظیم کامیابیوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس عید پر، پنجاب نے نہ صرف قربانی دی بلکہ صفائی کے جذبے کی بھی قربانی دی، جس کا سہرا بلا شبہ وزیر اعلیٰ کی قیادت کو جاتا ہے۔

یہی جذبہ ہے جو ہمارے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا، اور یہی مثال باقی صوبوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔

حقیقی آزادی



کہتے ہیں انسان نے آگ جلانا سیکھا، شکار کرنا سیکھا، زبان بنائی، شہر آباد کیے —
مگر وہ خوف سے کبھی آزاد نہ ہو سکا۔
وہ غار کے دور میں بھی ڈرتا تھا — اندھیری راتوں، درندوں اور گرجدار بادلوں سے۔
اور آج… وہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ڈرتا ہے — افلاس سے، عذاب سے، بیماری سے، دوزخ سے، موت سے۔
یہ خوف — کبھی مذہب کے لبادے میں آتا ہے، کبھی دنیاوی محرومیوں کے روپ میں، اور کبھی انسان کے اپنے نفس سے۔
تاریخ میں مارٹن لوتھر کے زمانے کا واقعہ درج ہے کہ
ایک کسان نے انڈ لجنس
indulgence
خریدنے کے بعد وہ سوال کر لیا جو خوف کی بنیاد ہلا گیا:
"اگر میں قتل کر دوں، تو کیا بچ جاؤں گا؟"
"ہاں!" پادری نے اطمینان سے جواب دیا۔
اور کسان نے اُسے قتل کر دیا — کیونکہ معافی نامہ وہ پہلے ہی خرید چکا تھا۔
یہاں ہر محلے میں ایک پیر، ہر چینل پر ایک مبلغ، ہر فیس بک پیج پر ایک مجازی شیخ موجود ہے۔
وہی خوف بیچا جا رہا ہے — صرف انداز بدلا ہے۔
چندہ نہ دیا؟ خدائی عذاب!
کسی فقیر کو انکار کیا؟ رزق بند ہو جائے گا!
فلاں بزرگ کے مزار پر حاضری نہ دی؟ سانحہ ہو جائے گا!
سوال کر لیا؟ ایمان خطرے میں ہے!
اس کے عالوہ
غربت کا خوف، بے روزگاری کا خوف، کاروبار کے تباہ ہونے کا خوف، فصل نہ اُگنے کا خوف، بچوں کے بچھڑنے کا خوف…
ان سب خوفوں کے بیچ انسان جیتا نہیں، بس زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
لیکن ان سب خوفوں سے بڑا ایک ہی ہے: موت کا خوف۔
موت — جو کسی وقت، کسی شکل میں آ سکتی ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے: موت کے بعد کا انجام۔
کیا ہم نجات پائیں گے؟
کیا بخشش ممکن ہے؟
یا ہم ہمیشہ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے؟
یہ سوالات صرف مذہب سے وابستہ نہیں، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
خوف… کیا ہمیشہ برا ہے؟
نہیں۔
خوف کبھی کبھی تحفظ دیتا ہے۔
دوزخ کا خوف ہی ہے جو ہمیں جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔
غربت کا اندیشہ ہی ہمیں محنت پر اکساتا ہے۔
اپنوں کے بچھڑنے کا ڈر ہمیں ان کی قدر سکھاتا ہے۔
لیکن…
جب خوف انسان کی آزادی، رائے، ضمیر اور سوال کو کچلنے لگے —
تو وہ صرف ایک شکنجہ ہوتا ہے، ایک اندھی تقلید کا بوجھ، جس کے نیچے انسان سانس لینا بھول جاتا ہے۔
نجات کا واحد دروازہ: سچائی اور شعور
قرآن کہتا ہے:
"فَلا تَخافُوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ"
(ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو)

اتوار، 8 جون، 2025

دودھ سے گولی تک




کبھی گائے دودھ دیتی تھی، آج گولیاں دیتی ہے۔ کبھی گائے کا تقدس ماں کے رتبے تک محدود تھا، آج وہ مسلمانوں پر موت کا پروانہ بن چکی ہے — کہیں دادری میں اخلاق مارا جاتا ہے، کہیں فلسطین میں مسجد اقصیٰ کے گرد سرخ گائیں گردش کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے: یہ تقدس کب زہر بن گیا؟ اور کیسے ہنود و یہود نے اس "مقدس جانور" کو مسلمانوں کے خلاف اتحاد کی بنیاد بنا دیا؟
بھارت میں گائے کو "گاؤ ماتا" کہا جاتا ہے۔ رگ وید سے لے کر منوسمرتی تک ہندو مت کی کتب گائے کو دھرتی کی ماں، رزق کی دیوی، اور امن کی علامت قرار دیتی ہیں۔ مگر جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو یہی گائے امن کی جگہ نفرت کی علامت بن گئی۔ اخلاق احمد ہو، پہلو خان ہو، یا جنید — سب کے قاتل یہی گائے کے رکھوالے تھے۔
کشمیر میں تو حد ہی ہو گئی: عید پر قربانی کرنے کی کوشش پر گھروں پر چھاپے، مسجدوں کے سامنے گاؤ رکشکوں کی پہرہ داری، اور گوشت کھانے پر دہشت گردی کے الزامات۔
اب آ جائیے فلسطین کی طرف۔ وہاں بھی ایک گائے کا ذکر ہو رہا ہے — سرخ گائے، یعنی "Red Heifer"۔ یہ وہی گائے ہے جسے یہودی عقیدے میں پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کتابِ گنتی کے مطابق اس گائے کی راکھ سے طہارت حاصل کی جاتی تھی۔
مگر بات یہیں نہیں رکی۔ صہیونی گروہوں نے اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کے مقام پر تیسرا ہیکل بنانے سے پہلے سرخ گائے کی قربانی ضروری ہے۔ چنانچہ امریکہ سے پانچ سرخ گائیں منگوائی گئیں، اور انہیں اسرائیل لا کر خاص مقام پر رکھا گیا۔
یہ ایک مذہبی حربہ نہیں، ایک سیاسی تلوار ہے — جس کا ہدف صرف مسجد اقصیٰ نہیں، بلکہ پورا فلسطین ہے۔
 افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل ان معاملات میں ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ ان کا اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی ہو چکا ہے۔ دونوں ریاستوں کا ہدف مسلم اکثریتی علاقے — کشمیر اور فلسطین — اور دونوں نے اپنے اپنے مقدس بیانیے — گائے اور ہیکل — کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک کشمیری نوجوان نے کہا:
"بھارت کہتا ہے کہ یہ گائے مقدس ہے، ہم کہتے ہیں کہ ہماری جان بھی مقدس ہے، مگر گائے بچ جاتی ہے اور ہم مر جاتے ہیں۔"
یہی آواز فلسطین کے ایک بچے کی زبانی بھی سنی جا سکتی ہے:
"یہ سرخ گائے جب بھی شہر میں آتی ہے، ہمیں لگتا ہے ہماری مسجد کی چھت ہٹائی جائے گی۔"
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہندو قوم پرستی اور صہیونی تحریک دونوں نے اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا؟ یا یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے؟ اگر ہم تاریخ پڑھیں، سیاست سمجھیں، اور آج کے عالمی اتحاد و معاہدات کا تجزیہ کریں، تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ گائے اب صرف جانور نہیں — یہ ایک نظریاتی بارود ہے جس کے ایک سرے پر بھارت، دوسرے پر اسرائیل، اور درمیان میں صرف مسلمان۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم "مقدس" اور "مسلح" کے فرق کو سمجھیں۔ گائے کو مذہب کا تقدس تو مل سکتا ہے، مگکسی انسان کا خون بہانے کا جواز نہیں۔۔۔ 
کشمیر میں نہ فلسطین میں

جمعہ، 6 جون، 2025

ایک سادہ سوال







فلسطین کی سرزمین مسلسل خون سے رنگین ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر بار جب اسرائیل غزہ پر حملہ کرتا ہے، ایک طاقتور ریاست اس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے — امریکہ۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سوال صرف اسرائیل اور فلسطین تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ پوری عالمی سیاست، طاقت، انصاف اور اقوام متحدہ کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات صرف سفارتی نہیں، بلکہ گہرے عسکری مفادات پر مبنی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔ کانگریس ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 تک امریکہ، اسرائیل کو 150 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے چکا ہے، جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
یہ امداد صرف ہتھیاروں یا ٹیکنالوجی کی حد تک محدود نہیں، بلکہ اس میں انٹیلی جنس، میزائل ڈیفنس سسٹمز، اور مشترکہ عسکری مشقیں بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی "آئرن ڈوم" سسٹم کی بڑی فنڈنگ بھی امریکی بجٹ سے آتی ہے۔
جب بھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا استعمال کر کے اسے روک دیتا ہے۔ 1972 سے لے کر اب تک امریکہ نے 45 سے زائد بار اسرائیل کے حق میں ویٹو استعمال کیا ہے۔ 2023 میں جب 14 ممالک نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، تو امریکہ نے اکیلے اسے ویٹو کر کے مسترد کر دیا۔
اب 2025 میں بھی اسئ عمل کو دہرایا گیا ہے
یہ ویٹو دراصل بین الاقوامی انصاف کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ عالمی امن کی علمبردار کہلاتی ہے، اور دوسری طرف وہ طاقتور ممالک کے مفادات کی بندی بن کر رہ گئی ہے۔
مغربی میڈیا کی اکثریت اسرائیل کے بیانیے کو تقویت دیتی ہے۔ وہ حملہ آور کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے اور حقیقی متاثرین کی آوازوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام عوام تک حقائق بہت محدود اور مسخ شدہ 
صورت میں پہنچتے ہیں۔
سیکورٹی کونسل میں ویٹو کے نام پر جو بے انصافی کی جاتی ہے ۔اس نے سیکورٹی کونسل کے وجود پر بالخصوص اور اقوام متحدہ پر بالعموم سوال اٹھا دیے ہیں ۔ سیکورٹی کونسل کے منافقانہ کردار نے عملی طور پر دنیا بھر کی عقل اجتماعی اور امن کی کوششوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے
 اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے
کیا ہم ہمیشہ ویٹو پاور کے سامنے لاشیں گنتے رہیں گے؟
یہ کالم کسی مخصوص نظریے کی تائید نہیں کرتا، بلکہ
ایک  ساہ سدوال اٹھاتا ہے
جب موجودہ عالمی نظام مسلسل ناکام ہو رہا ہو، تو کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم کسی متبادل کی تلاش شروع کریں؟
اگر دنیا کی طاقتور اقوام واقعی انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہیں، تو انہیں سب کے لیے ایک جیسے اصول اپنانے ہوں گے۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں، تو پھر دنیا کو یہ مان لینا چاہیے کہ انصاف کا نظام صرف طاقت کی چھتری کے نیچے زندہ ہے۔

قربانی کا بنیادی فلسفہ




آج عرب دنیا میں عیدالاضحی ہے۔ مسلمان دنیا بھر میں حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، جانور قربان کیے جا رہے ہیں، ایسے میں جب "عید مبارک" کہنے کے لیے لب کھلتے ہیں، تو دل پر ایک بوجھ سا اتر آتا ہے۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور ذہن بار بار ایک ہی سمت دوڑتا ہے… غزہ!

وہ غزہ، جہاں آج بھی خون بہہ رہا ہے۔ جہاں نہ عید ہے، نہ خوشی، نہ مسکراہٹ۔ جہاں بچے قربانی کے جانور نہیں دیکھ رہے بلکہ بھوک اور پیاس اور دوائیوں کے نہ ہونے سے خود قربان ہو رہے  ہیں۔ جہاں ماؤں کے آنچل خون سے تر ہیں، اور باپ لاشیں ڈھونے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل کئی ماہ سے غزہ میں آگ اور بارود برسا رہا ہے۔ اور دنیا، خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ جنگ صرف اسرائیل کی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ طاقت کھڑی ہے جو دنیا کی بڑی طاقت کہلاتی ہے — امریکہ۔ وہی امریکہ جو مسلسل اسرائیل کو مالی، عسکری اور سفارتی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

دنیا کے متعدد ممالک نے اس جنگ پر احتجاج کیا، جنگ بندی کا مطالبہ کیا، مگر جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی میز پر پہنچا تو ایک ویٹو نے پوری دنیا کی آواز کو دفن کر دیا۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسا عالمی نظام ہے، جہاں ایک ملک کی مرضی پوری انسانیت کی رائے پر غالب آ جاتی ہے؟

کیا دنیا واقعی اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ اسے بچوں کی لاشیں بھی ہلا نہیں سکتیں؟ کیا عورتوں کی چیخیں، اور معصوموں کی آہیں بھی عالمی ضمیر کو نہیں جگا سکتیں؟

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے کا المیہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تذلیل ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہم مہذب دنیا میں زندہ ہیں، یا پھر اب بھی طاقت کا قانون ہی سب کچھ ہے؟

المیہ یہ ہے کہ جو قومیں کبھی ظلم کا شکار رہی ہیں، آج وہ خود ظلم کی علامت بن چکی ہیں۔ جو اپنے مظالم کی تاریخ سے سبق سیکھ سکتی تھیں، وہی آج بے گناہوں پر آگ برسا رہی ہیں۔

ادھر مغربی دنیا کے شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر مسلم دنیا؟ وہ یا تو خاموش ہے یا صرف بیانات سے آگے نہیں بڑھتی۔ عرب دنیا عید منا رہی ہے، مگر اس خوشی میں غزہ کے لہو کی تلخی ضرور گھلی ہوئی ہے۔

اور ایسے میں جب ہم حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، ہمیں ایک لمحہ رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ قربانی کا اصل فلسفہ کیا ہے؟ کیا صرف جانور ذبح کرنا کافی ہے، یا ہمیں اپنی بے حسی، اپنے خوف، اپنی خاموشی کو بھی قربان کرنا ہوگا؟

حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔

مگر آج… انسان کو جانور سمجھا جا رہا ہے۔ اسے مٹی میں دفنایا جا رہا ہے، اور اس کے وجود کو بے وقعت کر دیا گیا ہے۔ افسوس، کہ جس انسان کے لیے آسمان سے دنبہ اتارا گیا تھا، آج وہی انسان بمباری سے مٹایا جا رہا ہے۔

یہ عید نہیں، ایک سوال ہے —
کیا ہم واقعی انسانیت کے پیغام کو سمجھ پائے ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔



جمعرات، 5 جون، 2025

انڈس واٹرز ٹریٹی کا دوطرفہ معاہدہ بننا: بھارت کے لیے ایک قدم آگے؟

 



 انڈس واٹرز 

ٹریٹی 

بین الاقوامی معائدہ سے دو طرفہ  

انڈس واٹرز ٹریٹی، جو 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا، برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پانی کے منصفانہ تقسیم کا ضامن ہے بلکہ خطے کی سیاسی کشیدگی میں بھی ایک نہ ختم ہونے والا موضوع رہا ہے۔ آج بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو ایک بین الاقوامی دستاویز سے ہٹا کر دوطرفہ سمجھوتے میں تبدیل کرنے کی خواہش سامنے آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو اس تبدیلی سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟

سب سے پہلے بات کریں تو، بھارت کو اس تبدیلی سے اپنی پانی کی پالیسیوں پر زیادہ خودمختاری حاصل ہو گی۔ فی الوقت، انڈس واٹرز ٹریٹی کے تحت عالمی بینک اور دیگر ثالث فریق پانی کے منصوبوں پر نظر رکھتے ہیں، جس سے بھارت کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو اس بوجھ سے آزاد کرے گا اور وہ اپنی زمینی حدود میں پانی کے وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو پانی کے منصوبوں کی منظوری اور عملدرآمد میں تاخیر کا سامنا کم ہوگا۔ بین الاقوامی ثالثی کے بغیر بھارت تیزی سے فیصلہ سازی کر سکے گا، جو کہ زرعی، صنعتی اور توانائی کے شعبوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خاص طور پر، بھارت ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹس اور نئے ڈیم بنانے میں زیادہ آزاد ہو گا، جس سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔

اسی کے ساتھ، بھارت کی سلامتی کے حوالے سے خدشات بھی اس اقدام کے پیچھے کارفرما ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دیرینہ کشیدگی اور دہشت گردی کے الزامات نے بھارت کو محتاط بنا دیا ہے کہ وہ پانی جیسے حساس موضوع پر عالمی ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کرے۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ براہِ راست اور مضبوط مذاکرات کا موقع دے گا اور اسے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے زیادہ اختیار دے گا۔

آخر میں، یہ تبدیلی بھارت کو خطے میں اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع بھی دے سکتی ہے۔ عالمی ثالثوں کے بغیر بات چیت کا مطلب ہے کہ بھارت اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے منوا سکے گا اور پاکستان پر دباؤ بڑھا سکے گا۔

یقیناً، اس تبدیلی کے اپنے خطرات بھی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل اور خطے میں پانی کی تقسیم کے مسئلے پر کشیدگی بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ مگر بھارت کے لیے یہ قدم اپنی پانی کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو مقدم رکھنے کی واضح ترجیح ہے۔

لہٰذا، انڈس واٹرز ٹریٹی کو دوطرفہ معاہدے میں تبدیل کرنا بھارت کے لیے ایک ایسا سیاسی اور اقتصادی حربہ ہو سکتا ہے جو اسے مستقبل کے پانی کے انتظام اور علاقائی سیاست میں ایک مضبوط پوزیشن دلائے۔

راجہ کون

 





 1965

کی پاک بھارت جنگ کے دوران  شام کے اخبار میں اہک سرخی تھی  "پاکستانی کرشمہ ساز لوگ ہیں۔" یہ جملہ مجھےاس لیے یاد  ہے کہ میرے اردو کے استاد نے  کہا تھا، " کرشمہ ساز نہیں ہوتا، کرشمہ گر ہوتا ہے۔"

پرانی  باتیں کسی نہ کسی موقع پر  یاد آ ہی جآتی ہیں، خاص طور پر جب میں اپنی زندگی کے سفر پر نظر ڈالتا ہوں۔ 1976 میں روزگار کی تلاش نے مجھے وطن سے دور کر دیا۔ مختلف ممالک میں وقت گزرا، مختلف تہذیبوں سے واسطہ پڑا۔ بہت کچھ دیکھا، سیکھا، مگر جو کمال، جو صبر، جو ہنر، اور جو حوصلہ پاکستانیوں میں دیکھا، وہ کہیں اور نہ پایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مٹی سے سونا کشید کرتے ہیں۔ سچ کہوں تو

، یہی ہیں اصل کرشمہ گر۔

ایسا ہی ایک کرشمہ میرے دوست کی زندگی میں بھی بسا ہوا ہے — جو آج کل امریکہ میں ایک کامیاب اور باوقار مقام پر فائز ہے۔ راولپنڈی کے مضافات میں پیدا ہوا۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں چھن گیا۔ ماں غیر ملکی تھی، مگر دل سے پاکستانی، اور حوصلے کا پہاڑ۔ جیسے جیسے حالات نے اسے جھنجھوڑا، ویسے ویسے وہ فولاد بنتی گئی۔

شوہر کی موت کے بعد رستے داروں نے وراثتی جائیداد پر قبضہ کر لیا ۔زمین کے لالچ  میں اپنے ہی رشتے داری دشمن بن گئے۔ حتیٰ کہ ایک دن بڑے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ بیوہ ماں، ایک بیٹے اور خاوند کے بنائے  کرہوئے گھر کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ زمین جا چکی  تھی، مگر حوصلہ باقی تھا۔  بیٹے سے کہا کرتی تھئ:
" عمران زمین  راجہ نہیں ہوتی، علم راجہ ہوتا ہے۔"

بیٹے کے دل میں یہ الفاظ جیسے پتھر پر لکیر ہو گئے۔ اس نے ماں کی آنکھوں کا خواب اور دل کا درد دونوں سمجھ لیا۔ وہ خاموشی سے سب سہتا رہا — رشتے داروں کی گالیاں، طعنے، دھتکار — مگر میٹرک کے امتحان میں وہ پورے بورڈ کے ٹاپ 10 طالب علموں میں شامل ہوا۔

ماں نے گھر کرائے پر دے دیا، خود ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہوئی، مگر بیٹے کو کالج میں داخل کرا دیا۔ بیٹے نے ماسٹرز مکمل کیا، پھر جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کی۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ "پوسٹ ڈاکٹریٹ" بھی کرے۔ امریکہ سے اس نے اعلیٰ ترین ڈپلومہ کیا، تو گویا کامیابیوں کی بارش ہونے لگی۔ ملازمتیں، پیشکشیں، مشورے، شراکت دار — سب کچھ اُس کے قدموں میں آنے لگا۔

مگر وہ اب بھی اُسی راولپنڈی کی مٹی کو یاد رکھتا تھا، جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ اس نے اپنے خاندانی گھر کو اپنی این جی او کے دفتر میں تبدیل کر دیا،  ماں کی ہدایت پر ان ہی رشتہ داروں کو اپنی تنظیم میں جگہ دی، جنہوں نے اس پر ظلم کیے تھے — کیونکہ ماں نے سکھایا تھا کہ معافی، انتقام سے بڑی فتح ہے۔

آج اس کے پاس امریکہ میں اپنا گھر اور اسائش بھری اندگی ہے اور پاکستان میں اس کا خاندان اور عزت ہے۔پاکستان میں اس کی تنظیم کو چلانے والے سارے ہی اس کے "شریک" ہیں

اسے اور اس کے خاندان کو ائرپورٹ چھوڑنے گیا ۔ راستے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اس کی بیوئ نے کہا "عمران  کے سارے رشتے دار ڈفر ہیں ، ہر کوئی امریکہ جانا چاہتا ہے مگر تعلیم حاصل کرتے ہوئے انھیں موت پڑتی ہے 

میں نے بیک مرر میں دیکھا ۔عمران کا چہرے پر ملال تھا بولا میرے خاندان میں علم کو راجہ کہنے والی  

جورجیا کے قبرستان میں سو سوئی ہوئی ہے 

اسے الوداع کر کے واپس آ رہا  تھا تو میرے زہن میں چل رہا تھا صیح لفط "کرشہ ساز" ہوتا ہے یا "کرشمہ گر"  ، ذہن الجھ سا گیا ، یکایک خیال ایا "ساز" ہو یا "گر"۔ اصل  تو "کرشمہ" ہے ، پھر جیال آیا کرشمہ اسی گھر میں جنم لیتا ہے جس گھر میں عمران کی مان جیسی ماں ہو ۔اس کے خاندان میں تو سب زمین والے راجے ہیں

سعودی شہزادہ


 

عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے

تحریر: دلپزیر

سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔

پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔

اگر کوئی وجہ باقی ہے، تو وہ ہے سعودی تعلقات — اور خاص طور پر محمد بن سلمان کا وہ اثر جو ٹرمپ پر قائم ہوا۔ ایک حالیہ مثال رچرڈ گرنیل کی سرگرمی ہے، جو ٹرمپ کے مشیر رہے اور پاکستان کے خلاف سخت بیانیے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب وہ پاکستان پر تنقید کر رہے تھے، تو نہ کسی سفارتکار کی تقریر مؤثر ہوئی، نہ یوتھیاؤں کی امریکہ میں لابنگ کامیاب ہوئی۔
لیکن پھر ایک کال — سعودی وزیرِ دفاع کی طرف سے — اور رچرڈ گرنیل کی آواز بند ہو گئی۔

یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے — اور وہ ہے عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری۔
سعودی ولی عہد کو عمران خان کی شخصیت سے خاصی ناپسندیدگی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آ چکی ہیں:
اول، وہ قیمتی گھڑی جو
 MBS
 کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی، بازار میں بیچ دی گئی۔
دوم، عمران خان کی کابینہ یا قریبی حلقے سے 
MBS
 کے خلاف نازیبا کلمات سعودی سفارتی ذرائع تک پہنچے، جسے ولی عہد نے ذاتی توہین کے مترادف سمجھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما اگر کبھی پاکستان کے لیے کسی نرم گوشے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ نہ اسلام آباد ہے، نہ واشنگٹن کی کوئی پالیسی۔
وہ صرف اور صرف
 MBS
 کی ذاتی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہو گی۔

پاکستان کو مستقبل میں اگر دنیا میں کوئی حیثیت درکار ہے، تو اسے اپنے خارجی تعلقات کو انا، ضد اور ذاتی رویوں سے الگ رکھنا ہو گا۔
سفارت صرف بیانات اور تصویروں سے نہیں چلتی — یہ رشتوں، عزت داری، اور بھروسے سے چلتی ہے۔

یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔


خصی بکرا، آنڈو بکرا




ایک روز گاؤں کے اسکول میں شاگرد نے استاد سے بڑا سنجیدہ سوال پوچھ لیا:
"استاد جی، خصی بکرا اور آنڈو بکرے میں کیا فرق ہوتا ہے؟"

استاد نے مونچھوں کو تاؤ دیا، گلا کھنکارا اور ایسا جواب دیا کہ پورا گاؤں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا:
"وہی فرق ہوتا ہے جو آپریشن سندور سے پہلے اور بعد والے نریندرا مودی میں ہے!"

یہ بات سنتے ہی شاگرد کی آنکھیں پھیل گئیں، جیسے گویا پہلا فلسفیانہ نکتہ سمجھ آیا ہو۔
استاد نے بات آگے بڑھائی:
"بیٹا، جیسے گاؤں میں بکرے کو خصی کرنے والے ماہر قصائی ہوتے ہیں، ویسے ہی دنیا کے بڑے ملکوں کے وزیراعظموں کو خصی کرنے والے عالمی سیاست کے قصائی یعنی سپر پاورز ہوتے ہیں۔"

اب ذرا مودی بابا کی سن لیجیے۔ کبھی آنکھوں میں آگ، ہاتھ میں ڈنڈا، اور زبان پر "دیش بچاؤ" کا نعرہ لیے دندناتے پھرتے تھے۔ پھر اچانک امریکہ جیسے طاقتور ملک کے صدر کی نگاہِ خاص پڑی۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ اصل آپریشن نیتن یاہو نے کروایا۔ مودی کو ہتھیار دے کر بہلایا پھسلایا، پھر کہا،
"بس اب ذرا لکڑی کے پھٹے پر لیٹ جاؤ، درد تھوڑا ہوگا، پر سٹریٹیجک پارٹنرشپ بڑھے گی۔"

بس، مودی جھٹ سرینڈر مودی بن گئے اور لکڑی کے پھٹے پر آرام سے لیٹ گئے۔
خصی ہونے کی خبر جب بھارت پہنچی تو عوام بولی:
"ہمیں تو پتا ہی نہ تھا کہ ہمارا شیربالا اتنا نرم و نازک نکلے گا۔"

اب مودی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ عوام خود کر رہی ہے۔ کبھی سوشل میڈیا پر meme، کبھی بی جے پی کے جلسے میں سوالات، اور کبھی ووٹ کا چھرا!

اب آئیے دوسرے بکرے کی طرف، جس کا نام ہے زیلنسکی۔
جی ہاں، وہی یوکرین والا اداکار، جو اچانک صدر بن گیا۔ اس کا پھٹہ تیار کرنے میں یورپی ممالک نے بڑا خلوص دکھایا۔ اسے بھی یہی کہا گیا:
"بس تھوڑا سا لیٹ جاؤ، روس کو روکنا ہے۔"

بیچارہ زیلنسکی بھی ہتھیاروں کے لالچ میں لیٹ گیا۔ مگر خصی کرنے والے جو ماہر نکلے، وہ روسی تھے!
اب حال یہ ہے کہ زیلنسکی منظر سے ہی غائب ہو چکا ہے، اور روسی آنکھیں یورپ کو دکھا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں:
"ایک بکرا تو چلا گیا، اب تم لوگ بھی سنبھل جاؤ!"

آخر میں استاد جی نے نتیجہ اخذ کیا:
"بیٹا، بکرے آنڈو ہوں یا خصی، قصائی کی چھری سب پر چلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ بکرے سینہ تان کر قربانی دیتے ہیں، اور کچھ پُھس ہو کر بھی ڈھول بجواتے ہیں!"

واہ رے سیاست ، تیرا کمال!

بدھ، 4 جون، 2025

معاشرتی دوغلاپن




پاکستانی معاشرہ روایات، مذہب، اور قانون کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔ اس امتزاج میں ایک ایسا ادارہ بھی شامل ہے جو بظاہر محبت، ہم آہنگی اور رفاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے — یعنی "شادی"۔ مگر جب اس ادارے کے پردے ہٹتے ہیں تو ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: عورت کو آج بھی ایک مکمل انسان، برابری کے حقدار فریق اور خودمختار شریکِ حیات تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اسلام نے واضح طور پر مرد و عورت دونوں کو برابری کی بنیاد پر مقام دیا۔ قرآن مجید میں بدکاری کے جرم میں مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں سزا مقرر کی گئی ہے:
"الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ"
(سورۃ النور، آیت 2)
لیکن ہمارے ہاں جرم کی تلوار صرف عورت کی گردن پر چلتی ہے۔ اس کی عصمت پر سوال اٹھتا ہے، اس کی تربیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں، اور بدنامی صرف اس کے حصے میں آتی ہے۔ مرد بچ نکلتا ہے، جیسے وہ اس معاشرتی کھیل کا نگران ہو۔
صدر ایوب کے دور میں جب مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 نافذ ہوا، تو امید بندھی کہ شاید اب معاشرہ قانون کی سمت بڑھے گا۔ اس قانون میں 16 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی پر پابندی لگائی گئی اور مرد کو دوسری شادی کے لیے اجازت نامہ لازم قرار دیا گیا۔ لیکن آج، 60 سال بعد بھی ان قوانین پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔ گویا رسم و رواج کا راج قانون پر حاوی ہے۔
اکثر سنتے ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو ازدواجی زندگی کی تربیت دی جانی چاہیے۔ مگر یہ بات صرف تقریروں میں زندہ ہے۔ نہ اسکولوں میں کوئی نصاب ہے، نہ دینی مدارس میں کوئی شعور۔ مغرب کو ہم کافر کہہ کر رد کر دیتے ہیں، مگر وہاں شادی سے پہلے تربیت لازمی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شادی زندگی کی پہلی اور آخری بڑی تبدیلی ہے — اور سب کچھ خود سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے تجربہ گنیہ پگھلا دے گا۔
ایک اور تضاد دیکھیے: مرد کو گھر کا سربراہ کہا جاتا ہے، خواہ وہ مالی طور پر صفر ہو اور عورت کے ہاتھوں سے ہی چولہا جلتا ہو۔ قرآن کہتا ہے:
"الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَي النِّسَاءِ بِمَا أَنْفَقُوا..."
(سورۃ النساء، آیت 34)
مگر ہم نے قوامیت کو "حاکمیت" میں بدل دیا۔ مرد کی جنسی، مالی اور نفسیاتی ضروریات کو اولیت دی جاتی ہے۔ عورت کا وجود صرف اس کی "عفت" سے وابستہ کر دیا گیا ہے، اور اسے گھر کی عزت کا ستون بنا دیا گیا — چاہے مرد خود بے راہ روی کا شکار ہو۔
شادی کو بھی دو دلوں کا بندھن نہیں بلکہ دو خاندانوں، ذات برادریوں، اور سماجی طبقات کا "معاہدہ" بنا دیا گیا ہے۔ جہیز، رسم، رواج، وٹہ سٹہ، خاندان کی عزت — یہ سب شادی کے اصل مقصد سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔
کیا عورت مکمل انسان نہیں؟ کیا اس کی خواہشات، رائے، اور خودمختاری بے معنی ہیں؟ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو صرف پردے، حیا اور شرم کے اصولوں سے آراستہ کریں گے، یا انہیں شعور، تعلیم اور فیصلہ سازی کا حق بھی دیں گے؟
ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق؟ یا اس سماجی سانچے کے مطابق جو مرد کو خدا اور عورت کو گناہ سمجھتا ہے؟
یہ سوال صرف عورتوں کے لیے نہیں، بلکہ ایک بہتر معاشرے کے لیے ہے۔
شادی اگر برابری، محبت اور شعور پر مبنی ہو، تو یہ زندگی کا حسین ترین تجربہ بن سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک جبر کا نظام ہے — جس سے صرف ظالم کو سکون ہے، 
مظلوم کو نہیں۔
تحریر: دلپزیر

شادی کی عمر کے بارے میں ملک میں جاری بحث میں چند بنیادی حقائق کوپس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ اس کالم میں ان ہی پوشیدہ حقائق کو منظر عام پر لانا مقصود ہے

پرانی ڈھولکی نئی تھاپ


عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم          

جب قوم کے بچے بچے کو "نیوٹرل" کا مطلب سمجھ آ جائے، اور "پیرنی" گوگل پر ٹاپ ٹرینڈ بن جائے، تو سمجھ لیں کہ تبدیلی آ چکی ہے — اور تبدیلی کسی درخت پر نہیں، بنی گالہ کے ایوانوں میں پکی ہوئی ہے۔

جی ہاں، جناب عمران خان! ایک ایسا نایاب سیاسی پیکج جس میں تھوڑی سی کرکٹ، تھوڑا سا روحانیت کا تڑکا، اور باقی سب پیٹرن۔ جی ہاں، پیٹرن! وہی جس سے کپڑے تو بن سکتے ہیں، لیکن قوم کا مستقبل نہیں۔

شروع کرتے ہیں اُس مشہور زمانہ پیٹرن سے جس میں بغیر نکاح بچی بھی “نعمت” اور الزام بھی "سازش"۔ اسے کہتے ہیں "جدید خاندانی نظام"، جس پر مغرب بھی تحقیق کرنے لگا ہے۔

پھر آیا زکوٰة پیٹرن — جس میں اسپتال کے نام پر چندہ، اور بہنوں کے بزنس کے لیے بونس۔ یہ کوئی عام پیٹرن نہیں، یہ وہ ماڈل ہے جسے

Harvard Business School

نہیں سمجھ پایا ورنہ نصاب میں شامل ہو چکا ہوتا۔

جوئے والا پیٹرن تو خیر ورلڈ کپ جیتنے کے دن سے چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب اس میں "قوم کا مقدر" بھی شامل ہے — ہارے تو عوام، جیتے تو خان صاحب۔

اور بچوں کی پرورش؟ وہ بھی

Elite-International Style

میں۔ یعنی بچے گولڈ سمتھ کے کچن سے ناشتہ کرتے ہیں، اوربا شعور قوم خالی وعدوں سے دن کا آغاز کرتے ہیں

اُدھر جمائما نے بنی گالہ چھوڑا، اِدھر خان صاحب نے اس پر قبضہ جما لیا — اسے کہتے ہیں قبضہ اورپیار کا مکافات

اب آتے ہیں جنرل باجوہ والے پیٹرن کی طرف — پہلے "قوم کا باپ باجوہ"، پھر "میر جعفر"۔ یعنی مطلب درآمد اور تعلقات بر آمد

اور جس برق رفتاری سے خان صاحب نے مانیکا فیملی سے پیرنی کو الگ کیا، اُس پر لاہور ہائی کورٹ کو خود نوٹس لینا چاہیے تھا، کہ یہ کیس طلاق نہیں، تاوان کا بنتا ہے!


کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، کیونکہ خان صاحب کا کمال یہی ہے کہ ہر اسکینڈل ایک نئی قسط بن جاتا ہے۔
رمل علی کی ڈھولکی، مراد سعید کی ٹنل، اور عائلہ ملک کی چھاؤنی — سب کہانیاں "ایکسکلوسو" بھی ہیں، اور "چٹپٹی" بھی۔




توشہ خانہ میں تحفے رکھے نہیں، سیدھے بیچے — پھر رسید دکھا کر فرمایا: "یہ سب قانونی ہے!"
اور القادر ٹرسٹ؟ ارے بھائی، یہ کوئی عام ٹرسٹ نہیں، یہ ڈرامائی ٹرسٹ ہے، جہاں
Trust
کم اور
Trick
زیادہ ہے۔



آخر میں، سانحہ 9 مئی۔ اگر تاریخ میں کبھی "بغاوت کے ناکام خاکے" کے نام سے کوئی کتاب لکھی گئی تو اس کا پہلا باب خان صاحب کے نام سے منسوب ہوگا۔

اور آج خان صاحب خود بن گئے ہیں "پیٹرن اِن چیف" — یعنی ہر پیٹرن، ہر پلاٹ، ہر پلان کے بانی و مہربان!


قوم سوچ رہی ہے کہ "خان صاحب اب کیا کریں گے؟"
ہم عرض کرتے ہیں: خان صاحب کچھ نہ کریں، بس ڈٹیں رہیں… کیونکہ ڈرامے ختم ہو جائیں تو با شعور قوم
اداس ہو جائے گی



عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم

اتوار، 12 جولائی، 2020

چار عناصر





اقبال نے مسلمان کے بارے میں کہا تھا
قہاری و غفاری وقدوسی وجبروت
یہ چارعناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
 ہمارے ایک دوست نے  اپنے کالم میں قوم بننے کے لیے بھی چار عناصر ہی گنوائے ہیں
سرمایہ و اختیار و علم و محبت
بے شک سرمایہ اور اختیار پر حکومتوں کا حق ہوا کرتا ہے مگر علم و محبت عوام کی میراث ہوتی ہے ۔ مسائل ان ہی معاشروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں اپنی اجارہ داریوں کے حصول کے بعد عوام کی میراث پر بھی قبضہ کر لیا جائے ۔  
گلے میں گلہ بان کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے مگر اس ڈنڈے  کا اولین مقصد بکریوں کی حفاظت ہوتا ہے ۔ بکریاں نہیتی ہی ہوا کرتی ہیں مگر جب بھیڑیا آ جائے تو بزدار کے ڈنڈے کی طرف دیکھتی ہیں ۔ ہماری حکایات میں ایک ایسے بزدار کا تذکرہ ملتا ہے جو اس قدر صاحب علم تھا کہ زمین پر لکڑی سے لکیریں کھینچ کر مخاطب کا محل وقوع بتا دیا کرتا تھا۔ مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ علم عوام کا فخر اور انسان سے محبت اس کا مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔ موجودہ دور میں سرمایہ اور اختیار پر سرکار کا اجارہ ہی نہیں بلکہ مزید اختیار کی ہوس بھی پوشیدہ نہین ہے۔ گذرے زمانے میں علم برائے خود شناسی حاصل کیا جاتا تھا تو اج علم کا مقصد کم از کم ہمارے ہاں کچھ اور ہی ہے ۔
گیے وقتوں میں علم و محبت کے حصول میں صاحب سرمایہ و اختتیار حکومتیں عوام کی علم کے حصول میں عوام کی سرپرست ہوا کرتی تھیں ۔ آج حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔
حکمران اور رہنما میں فرق ہوتا ہے ۔ کسی ملک کا بادشاہ حکمران ہے تو کسی ملک کی وزیر اعظم رہنما ہے ۔ دونوں معاشروں کی سوچ رات اور دن کی طرح عیاں ہے ۔ اس فرق کو علمی تفریق کے سوا دوسرا نام دیا ہی نہیں جا سکتا ۔
مرحوم طارق عزیز (نیلام گھر والے ) نے اپنے ترکے میں ایک پنجابی کی کتاب بصورت شاعری چھوڑی ہے اس میں ایک شعر ہے
مڈھ قدیم توں دنیا اندر دو قبیلے آئے نیں
اک جنہاں زہر نی پیتے اک جنہاں زہر پلائے نیں

 مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں روز اول سے دو طبقات ہیں ایک جو زہر کا پیالہ پیتا ہے اور دوسرا جو پلاتا ہے ۔ علم انسان کوان دونوں طبقات کے اذہان کو منور کر کے عمل کی قابل عمل راہ دکھاتا ہے ۔
رہنماوں کے سرمایہ جمع کرنے اور اختیارات کی خواہش پوری کرنے میں تعلیم حائل نہیں ہوا کرتی ۔ بہت سارے ممالک اس رواں دواں کرہ ارض پر موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کو عام کیا اور امن و آشتی سے جی رہے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو علم کو پابند سلاسل کر کے خود بھی قلعوں میں بند ہیں اور ان کی عوام بھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔

دنیا میں ایسی قومیں موجود ہیں جو تباہ ہو کر وسائل کی کمی کا شکار ہو گئیں مگر انھوں نے امید کے بل بوتے پر خود کو دوبارہ قوموں کی برادری میں سر خرو کر لیا ۔ امید پر یقین علم ہی پیدا کرتا ہے ۔
علم پر بنیادی طور پر خالق کائنات کی اجارہ داری ہے ، اس نے ابن آدم پر احسان کیا اور اپنے ذاتی علم سے اسے عطا کیا ۔ ہم نے اس نعمت کے ساتھ بے انصافی یہ کی کہ انفرادی منفعت و ہوس کے بل بوتے پر کچھ علوم کو غیر نافع کا نام دیا اور اسے ایک بوری میں ڈالتے گئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بوری اس قدر ثقیل ہو چکی ہے کہ اس کو اپنی جگہ سے سرکانا افراد کے بس سے باہر ہو چکا ہے ۔ مزید ظلم یہ کہ ہم نے اس بوری کا منہ اب بھی بند نہیں کیا ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی والوں نے ابلاغیات کا علم نہیں بلکہ گوبلز کے اعمال بوری میں ڈالے تھے ۔
انسان کا عقلی ادراک کچھ بیانیوں کے تسلیم کرنے میں مزاحم ہوتا ہے ۔ جس دور میں زمین ساکت مانی جاتی تھی ، اس دورمیں بھی عقل اس بیانیے پر مطمئن نہیں تھی ۔ اگر اج ہم کچھ بیانیوں سے مطمن نہیں ہیں تو لازمی طور پر ان بیانیوں میں کہیں نہ کہیں سقم ہے ۔ گلوبل ویلج میں اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ کون سا بیانیہ اور عمل بوری کا مستحق ہے ۔ آج کے دور میں اسی استحقاق کے بیان کرنے  پر زہر پیے اور پلائے جا رہے ہیں ۔
محبت ایسا پھول ہے جو انصاف کی زمین پر اگتا ہے ہمارے ہان تو ابھی زمین ہی ہموار نہیں ہے ۔ ہم دوسروے ملکوں میں مظلوموں کو انصاف ملتا دیکھ کر خوش ضرور ہوتے ہیں ۔ مگر اپنے ہان عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے بھی بنا رکھے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ پھول اگلنے والی ہموار زمین کو لگا تار نا ہیموار کرتے رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اختیارات کسی عمارت میں قید ہیں ۔ معیشت صاحبان پنجہ کی مٹھی میں بند ہے ۔ تعلیم کے لیے ہمارے پاس بچا ہی کچھ نہیں ہے اور محبت لوک داستانوں یا فقیروں کے آستانوں تک محدود ہے ۔
عوام  کو صبر کی تلقین کتاب سے پڑھ کر سنائی جاتی ہے  اور سکون قبر میں بتایا جاتا ہے ۔
 اقبال نے سچ ہی کہا تھا ۔ 
تحقیق میرے دوست  کی بھی برحق ہے
ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو بھی برحق بتاتے ہیں
بہتر سالوں سے مگر کر وہ رہے ہیں جو ہمارا دل کرتا ہے






منگل، 7 جولائی، 2020

شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے


برطانیہ کے ایک باسی کم  اے ویگنر کی2017 میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی  جس کا عنوان تھا  عالم بیگ کی کھوپڑی۔ کتاب کے مطابق  1857 کے غدر میں 7 یورپین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، اتر پردیش  (انڈیا)  کا  باسی حوالدار عالم بیگ جس کو بطور سزا بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، کی کھوپڑی اس کے پاس ہے۔ مصنف نے کتاب میں خواہش کی تھی کہ یہ کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کے لواحقین تک پہنچ جائے اور اسے اپنے وطن میں احترام کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔
فوجی تنازعوں میں جان قربان کرنے والے لوگ ایک طبقے کے مجرم ہوتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے ہیرو ہوتے ہیں۔ 
فرانس کے شہر پیرس کے ایک عجائب گھر میں 24 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں جو فرانس کے بقول اس کے باغی تھے۔ مگر الجزائریوں کے نزدیک وہ محترم اور جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ طویل عرصے سے الجزائری اپنے ہیرو کی باقیات کی واپسی کے لیے فرانس سے بات چیت کر رہے تھے۔ جولائی 2020 کی صبح ایک طیارہ فرانس سے ان چوبیس ہیروز کی کھوپڑیاں لے کر الجزائر کی حدود میں داخل ہوا تو طیارے کو جنگی جہازوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ الجزائر کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں میں بند ان باقیات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ فوجی دستے  نے اعزازی سلامی دی اور ملک کے صدر نے ان تابوتوں کے سامنے اپنا سر نگوں کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اور سرکاری طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جنگ آزادی کے ہیرو اپنی سر زمین پر لوٹ آئے ہیں۔
 امریکہ نے  1846  میں میکسیکو پر حملہ کیا اور آدہے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔  ایروزونا، کیلی فورنیا، نیواڈا،اوٹا ، ویومنگ اور نیو میکسیکو کے نام سے ان علاقوں کو امریکہ میں شامل کر لیا۔اس جنگ میں امریکہ کے جو فوجی میکسیکو میں مارے گئے تھے ان کی باقیات  امریکہ نے 170  سال بعد واپس حاصل کر لیں کہ  اپنی سرزمین پر لوٹ آنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
جرمنی اپنے نوآبادیاتی دور  (1884 ۔  1919) میں نمبیا سے  بیس انسانی کھوپڑیاں سائنسی تجربات کے لیے برلن لایا۔ مگر  2011 میں وہ  بنیادی انسانی حق کی بنیاد پر ان کھوپڑیوں کو  اپنی سرزمین پر لوٹانے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے چوبیس جون 2006 میں اپنے ایک غدار اور بنگلہ دیش کے ہیرو پائلٹ مطیع الرحمان جو  بیس اگست  1971 کو پاکستان ائر فورس کا جہاز اغوا کر کے بھارت لے جانے میں ناکام ہوا تھا کی باقیات کراچی کے مسرور ائر بیس کے قبرستان سے نکال کر بنگلہ دیش کے حوالے کی تھی۔ تو بھی وجہ بنیادی انسانی حق ہی بنی تھی۔
بنگالیوں نے اپنے ہیرو کی باقیات کو ڈہاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا اور اپنے ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پیش کیا۔ اور ہر سال اس کے نام کی ٹرافی اپنے بہترین کیڈٹ کو پیش کرتا ہے۔
پاکستان کا مایہ ناز فوجی میجرمحمد اکرم  (1938۔ 1971) جنھوں نے مشرقی پاکستان میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر اپنی جان نچھاور کی تھی اور پاکستان نے انھیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔ ان کا تعلق جہلم کے علاقے ڈنگہ سے تھا۔ جہلم شہر کے وسط میں ان کی یادگار بھی ہے مگر وہ خود بنگلہ دیش کے علاقے راجشاہی کے ایک گاوں بولدار میں دفن ہیں۔
جب جنرل مشرف بطور صدر مملکت بنگالی پائلٹ مطیع الرحمان کی باقیات بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا اور پاکستان میں میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کی واپسی کی آواز یں اٹھیں تھی مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم اپنے سویلین ہی نہیں فوجی ہیروز کو بھی بھول جاتے ہیں۔
نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو
(شہید جاتے ہیں جنت کو گھر کو نہیں آتے   (صابر ظفر

اتوار، 21 جون، 2020

آدمی ہر دل عزیز تھا


  
عبد العزیزپاکستانی جب جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تو اس منٹگمری (سائیوال) کے کربلا روڈ پر اسے رہنے کے  کے لیے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ ہوا۔ بلوے کا دور تھا۔ طارق عزیز بن عبدالعزیز  نے غربت،  محرومی،  نا انصافی  اور انسان کے ہاتھوں انسانیت کو قتل ہوتے اپنی دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سنتے کان بھی رکھتا تھا اور  اس کے سینے میں انسان دوست دل بھی تھا ۔



   ایک دفعہ چندہ لینے کے لیے "اس" بازار میں گیا۔ایک طوائف نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ طارق نے بھرے بازار میں اس کے پاوں چوم لیے    طارق عزیز کے بارے میں یہ جملہ راجہ انور  (جو ذولفقار علی بھٹو کے مشیر تھے) نے اپنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن میں لکھا ہے۔ 

طارق عزیز جب سائیوال سے لاہور کے لیے چلا  تو اس کی منزل فلمی دنیا تھی۔اس نے ہوٹلوں میں میز صاف کیے،  گاڑیوں کو 
دہویا،  لاہور کی سڑکوں پر سویا مگر اس نے ہار نہیں مانی۔اس نے خواب بڑا دیکھا ہوا تھا۔ قانون فطرت ہے کہ بار بار کی ناکامی انسان کو کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔ طارق عزیز کو کامیابی کی راہ ریڈیو پاکستان لے گئی۔ ریڈیو پاکستان کی بغل میں جب صدر ایوب خان نے 1964 میں پی ٹی وی کا افتتاح کیاتو ٹی وی پر افتتاحی اعلان کرنے والا طارق عزیز تھا۔1975 میں پروڈیسر عارف رانا کے ساتھ مل کر ظارق عزیز نے نیلام گھر کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئیز شو       ابتداء  ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے    سے شروع ہوتا اور    پاکستان زندہ باد   کے الفاظ پر ختم ہوتا مگر جمعرات کے دن ایک گھنٹے کا نیلام گھر اس لحاظ سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس نے نوجوانوں میں علم سیکھنے  اور کتاب پڑہنے کی جوت ہی نہیں جگائی بلکہ اپنی اقدار و روایات سے بھی روشناس کرایا۔ طارق عزیز خود طالب علم، کتاب دوست،  صداکار، شاعر، کمپیئر ، ادب شناس ہونے کے ساتھ بڑا پاکستانی بھی تھا۔ اس نے نیلام گھر کے ناظرین میں وطن کی محبت جاگزیں کی۔
  
بچپن کی محرومیوں نے اسے ما وزے تنگ کی بائیں بازو کی ناو میں بٹھا دیا تھا۔ جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں ماو کی دی ہوئی ٹوپی لہرائی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو طارق عزیز نے اکثر پاکستانیوں کی طرح بھٹو کا ساتھ دیا۔ مگر 1989  تک پیپلز پارٹی کی ناو کے لیے راوی کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ اب قوم کا نجات دہندہ نواز شریف تھا۔ طارق عزیز نے قوم کا ساتھ دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جب میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع ہوا اور کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو طارق عزیز کی ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہو گئیں۔ یہ المیہ سب ہی پاکستانیوں کا ہے اور طارق عزیز  تو بڑا پاکستانی تھا۔دراصل  وہ ایک نظریاتی، اصول پرست،  عوام دوست اور ذہین انسان تھا۔اس نے کہاتھا۔
مڈھ  قدیم توں دنیا اندر  دو قبیلے آئے نے
اک جنھاں زہر نی پیتے  دوجے جنہاں زہر پیائے نے

طارق عزیز کے حاسد اسے سیکولر بتاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کہا کرتا تھا    خاک میں خاک ہونے سے پہلے اس خاک
 شفا  (قران)  کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لو۔ دنیا بھی خوش اگلا جہاں بھی خوش 

 اس نے انسانیت،  سالگرہ،  قسم اس وقت کی ، کٹاری ، چراغ کہاں روشی کہاں اور ہار گیا انسان جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا مگر اس کو کامیاب انسان  نیلام گھر  نے بنایا۔ طارق عزیز کا بات کرنے کا،  لبا س پہننے کا  اور کام کرنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ جو کام کرتا  اس پر طارق عزیز کی چھاپ لگ جاتی۔آج مختلف چینلز پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی نیلام گھر تک نہیں پہنچ پایا۔ نیلام گھر پر طارق عزیز کی چھاپ لگ چکی تھی۔

وہ لکھاری بھی تھا مگر اپنی ہی طرز کا۔ اس نے کالم بھی لکھے مگر دوسروں سے مختلف، اس کے کالموں کے مجموعے کانام  داستان  ہے۔  اس نے ہمزاد دا دکھ  کے نام سے پنجابی میں شاعری بھی کی مگر اپنے ہی انداز میں۔ 
طارق حسن پرست بھی تھا۔ اس کا کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ   پندرہویں صدی    اس کی حسن پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کراچی ہی میں اس نے  کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ سے شادی کر لی ۔ ایک بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔

اس کی موت پر انور شعور نے کہا تھا

وہ دیکھنے کی چیز دکھانے کی چیز تھا
طارق عزیز آدمی ہر دل عزیز تھا

اتوار، 12 اپریل، 2020

نیا رونا



پرانے زمانے میں دولت مند بننے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کیا کرتے تھے۔ جو یہ کام نہیں کر پاتے تھے وہ اپنے اباو اجداد کی زمین بیچ کر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ قیمتی چیز جس سے انسان واقف تھا وہ سونا ہی تھا۔ اس دور میں سب سے زیادہ  دولت ان حکیموں نے کمائی جو خود تو سونا نہیں بناتے تھے مگر سونا بنانے کے نسخے اپنے شاگردوں کو بتایا کرتے تھے۔ جب دنیا کے ایک کونے میں لوگ لوہے سے سونا بنانے میں مصروف تھے تو دنیا کے ایک دوسرے کونے میں انسان نے پہیہ بنا کر لوہے کو مشین میں تبدیل کرلیا۔ ان ہنر مندوں نے سونے سے بھی زیادہ دولت کما لی۔ یہ فن اس قدر مقبول ہوا کہ زمینداری کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چند معاشروں نے پیداواری اجارہ داریاں قائم کر لیں۔ اور بیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے یہ اجارہ داریاں انفرادی سطح پرآ گئیں۔اس وقت دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی آمدن بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ جب مقابلہ بازی انفرادی سطح  پر آتی ہے تو اس میں چال بازی بھی آ جاتی ہیں۔ منظم معاشرے ان چالبازیوں کو روکنے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ معاشرے ان اداروں سمیت ایک دوسرے سے چالبازیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
ایک وقت تھا انسان ریت پر ننگے چلا کرتا تھا۔ وہ گرمی تکلیف دہ ہوا کرتی تھی مگر انسان اسے برداشت کر لیا کرتا تھا۔ گرم لوہے پر پاوٗں اٹکانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ گرم لوہے کو پکڑنے کے لیے سنی وجود میں لائی گئی۔ اس سادہ سے اوزار نے جب روبوٹ کا روپ دہارا تو لوہے کی تپش تین ہزار سنٹی گریٹ تک جا پہنچی۔ ٹیکنالوجی کا کمال یہ رہا کہ اس تپش میں بھی لوہا، لوہا ہی رہتا ہے۔ بھاپ بن کر اڑتا ہے نہ بے قابو ہو کر بہتا ہے۔ مگر یہ لوہا وہ دہات نہیں ہے جس سے گندم کاٹنے والی درانتی بنائی جاتی تھی۔ یہ ایسا لوہا ہے جس میں بھانت بھانت کی دہاتیں اور رنگ دار اور بے رنگ کیمیکل شامل ہوتے ہیں۔ 
بے رنگ کیمیکل بالکل ہی بے رنگ نہیں ہوا کرتے۔ بعض اوقات تو وہ ایسا ایسا رنگ دکھاتے ہیں کہ انسان ماسک میں منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتا ہے، دولت کی ہوس انسان کو  قرنطینیہ  بھگتنے پر مجبور کردیتی ہے۔
کچھ باتیں قدرتی طور پر سب لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں، اچھائی کیا ہے اس کی تعریف مختلف  معاشروں میں مختلف ہو سکتی ہے مگر ہر انسان جانتا ہے کہ اچھائی وہی ہے جو دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانی لائے۔ آسانیاں بانٹنے ولا ہی سکھی رہ سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں مشکلات بیچ کر کوئی سکھی رہ سکے۔ یہ بات اگر فرد کے لیے درست ہے تو غلط معاشروں اور ملکوں کے لیے بھی نہیں ہے۔

جمعرات، 30 جنوری، 2020

'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ'


بھیڑیا ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ تیز اور پھرتیلی ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ یہی ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮬﯽ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ نہیں۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ بھیڑیا ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ بطورِ ماتم ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ "ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ، ﯾﻌﻨﯽ 'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ' اس لیئے ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﺐ اس کے ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮬﻮﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ یہ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ حسنٍ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ﮬﯿﮟ.
ﺑﮭﯿﮍﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ بطورٍ کارواں ﻣﯿﮟ کچھ یوں ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛
1 - ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
2 - ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بطورِ ابتدائی طبی امداد ‏(ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
3 - ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ (ہنگامی دستہ) ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ.
4 - ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
5 - ﺳﺐ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏"ﺍﻟﻒ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ 'ﮬﺰﺍﺭ' ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﺟﻮ ہمارے لیئے ﺑﺎﻋﺚ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍیئے ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ بہترﯾﻦ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍسی لیئے ﺗﺮﮎ اﻭر ﻣﻨﮕﻮﻝ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮﮎ ﻭ ﻣﻨﮕﻮﻝ ﮐﺎ 'ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ' بھی ﮨﮯ ۔۔۔ !
Translated from National Geographic Arabic (UAE)