منگل، 17 جون، 2025
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"
بدھ، 11 جون، 2025
طاق اور دیا
1980
کی سخت گرم مئی کا مہینہ تھا، اور ملک تھا کویت، جہاں درجہ حرارت کی گرمی انسان کو عاقبت یاد دلا دیتی تھی۔ میرے دوست عبدالباسط نے مجھ سے سوال کیا، "کل کون مرا ہے؟"
میں نے جواب دیا: "ٹیٹو" – (یعنی مارشل ٹیٹو، یوگوسلاویہ کا صدر)
یہ ایک سادہ مگر بہت بڑی بات تھی۔ ایک سچا عالم ایسا ہی حساس دل رکھتا ہے – وہ علم کو صرف کتب میں نہیں، انسانوں کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی ناکامی کو دنیاوی معیار پر نہیں، دعوتِ دین کے تقاضوں پر پرکھتا ہے۔
لیکن افسوس کہ آج علم کا معیار بدل چکا ہے۔ معاشرے میں ایسے "علماء" بھی پائے جاتے ہیں جو علم کو اللہ کی امانت نہیں بلکہ شہرت و دولت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مقصد دلوں کی اصلاح نہیں بلکہ مجمع جمع کرنا، سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھانا، یا کسی سیاسی یا مسلکی طاقت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں نرمی نہیں، لہجہ میں تکبر ہوتا ہے، اور دل میں اخلاص کی جگہ خودنمائی۔
ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھ کر انسان کے اندر عاجزی نہیں آتی، بلکہ تعصب، تنگ نظری اور دوسروں پر تنقید کی عادت پروان چڑھتی ہے۔ ان کے علم سے روحانی پیاس نہیں بجھتی، بلکہ دل مزید خشک ہو جاتا ہے۔ جب علم، دولت کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو وہ بوجھ بن جاتا ہے – نہ وہ عالم خود نجات پاتا ہے، نہ دوسروں کو نجات کی راہ دکھا سکتا ہے۔
معاشرے کے لیے سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ علم کی کرسی پر وہ لوگ براجمان ہو جائیں جو علم کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔ جب کردار سے خالی عالم، قوم کی رہنمائی کرے، تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
اس کے برخلاف، سچے علما ہمیشہ حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہوتی ہے، چہرے پر نور ہوتا ہے، اور کردار میں ایسا خلوص کہ لوگ ان کی محفل سے بدل کر نکلتے ہیں۔ ان کا دکھ بھی حقیقی ہوتا ہے – جیسا عبدالباسط نے مارشل ٹیٹو کے لیے محسوس کیا۔ وہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی ایک دل تک بھی اسلام کی روشنی نہ پہنچا سکے۔
علم ایک نور ہے عالم کے دل میں اترتا ہے البتہ عالم وہی ہے جس کو سن کر، پڑھ کر یا اس کی صحبت میں بیٹھ کر علم اور اخلاق میں بہتری آئے
پیر، 9 جون، 2025
صاف ستھرا پنجاب
یقین کیجیے، عید الاضحیٰ 2025 کے موقع پر پنجاب میں صفائی کے انتظامات نے ہر دل کو خوش کر دیا۔ اس بار صورتحال مختلف تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذاتی دلچسپی لیکر صفائی مہم کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا تھا۔ ان کا وژن تھا کہ عید کی خوشیاں شہر و دیہات میں صفائی کی خوبصورتی کے ساتھ منائی جائیں تاکہ شہریوں کو نہ صرف سکون ملے بلکہ ماحول بھی صاف ستھرا ہو۔
وزیر اعلیٰ کی نگرانی میں پنجاب بھر میں صفائی کے ایک منظم اور وسیع منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ 180,000 سے زائد صفائی کارکنوں کو متحرک کیا گیا اور 36,000 سے زائد گاڑیاں، ہزاروں بیلچے اور ہینڈ کارٹس ہر شہر کے کونے کونے تک پہنچائے گئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک نظم و ضبط اور سنجیدگی کی علامت تھی جو وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ممکن ہو سکی۔
لاہور ڈویژن میں خصوصی توجہ دی گئی جہاں 754 کیمپ قائم کیے گئے تاکہ شہری آسانی سے قربانی کی آلائشیں جمع کرا سکیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر صفائی کے عمل کی نگرانی کے لیے سیف سٹی اتھارٹی اور ڈرون کیمرے بھی استعمال کیے گئے، تاکہ کوئی کمی بیشی نہ رہے۔ بدبو کو ختم کرنے کے لیے لاکھوں لیٹر گلاب کے پانی اور فینائل کا استعمال ہوا، جو اس مہم کی باریکیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ صفائی مہم محض ایک انتظامیہ کی کوشش نہیں بلکہ ایک وژن تھی جس نے پنجاب کو صاف ستھرا اور خوشبودار بنایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی نے ثابت کیا کہ اگر قیادت سنجیدگی سے کام کرے تو معمولی مسائل بھی عظیم کامیابیوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس عید پر، پنجاب نے نہ صرف قربانی دی بلکہ صفائی کے جذبے کی بھی قربانی دی، جس کا سہرا بلا شبہ وزیر اعلیٰ کی قیادت کو جاتا ہے۔
یہی جذبہ ہے جو ہمارے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا، اور یہی مثال باقی صوبوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
حقیقی آزادی
اتوار، 8 جون، 2025
دودھ سے گولی تک
جمعہ، 6 جون، 2025
ایک سادہ سوال
قربانی کا بنیادی فلسفہ
جمعرات، 5 جون، 2025
انڈس واٹرز ٹریٹی کا دوطرفہ معاہدہ بننا: بھارت کے لیے ایک قدم آگے؟
انڈس واٹرز
ٹریٹی
بین الاقوامی معائدہ سے دو طرفہ
انڈس واٹرز ٹریٹی، جو 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا، برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پانی کے منصفانہ تقسیم کا ضامن ہے بلکہ خطے کی سیاسی کشیدگی میں بھی ایک نہ ختم ہونے والا موضوع رہا ہے۔ آج بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو ایک بین الاقوامی دستاویز سے ہٹا کر دوطرفہ سمجھوتے میں تبدیل کرنے کی خواہش سامنے آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو اس تبدیلی سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
سب سے پہلے بات کریں تو، بھارت کو اس تبدیلی سے اپنی پانی کی پالیسیوں پر زیادہ خودمختاری حاصل ہو گی۔ فی الوقت، انڈس واٹرز ٹریٹی کے تحت عالمی بینک اور دیگر ثالث فریق پانی کے منصوبوں پر نظر رکھتے ہیں، جس سے بھارت کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو اس بوجھ سے آزاد کرے گا اور وہ اپنی زمینی حدود میں پانی کے وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے گا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو پانی کے منصوبوں کی منظوری اور عملدرآمد میں تاخیر کا سامنا کم ہوگا۔ بین الاقوامی ثالثی کے بغیر بھارت تیزی سے فیصلہ سازی کر سکے گا، جو کہ زرعی، صنعتی اور توانائی کے شعبوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خاص طور پر، بھارت ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹس اور نئے ڈیم بنانے میں زیادہ آزاد ہو گا، جس سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔
اسی کے ساتھ، بھارت کی سلامتی کے حوالے سے خدشات بھی اس اقدام کے پیچھے کارفرما ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دیرینہ کشیدگی اور دہشت گردی کے الزامات نے بھارت کو محتاط بنا دیا ہے کہ وہ پانی جیسے حساس موضوع پر عالمی ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کرے۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ براہِ راست اور مضبوط مذاکرات کا موقع دے گا اور اسے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے زیادہ اختیار دے گا۔
آخر میں، یہ تبدیلی بھارت کو خطے میں اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع بھی دے سکتی ہے۔ عالمی ثالثوں کے بغیر بات چیت کا مطلب ہے کہ بھارت اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے منوا سکے گا اور پاکستان پر دباؤ بڑھا سکے گا۔
یقیناً، اس تبدیلی کے اپنے خطرات بھی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل اور خطے میں پانی کی تقسیم کے مسئلے پر کشیدگی بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ مگر بھارت کے لیے یہ قدم اپنی پانی کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو مقدم رکھنے کی واضح ترجیح ہے۔
لہٰذا، انڈس واٹرز ٹریٹی کو دوطرفہ معاہدے میں تبدیل کرنا بھارت کے لیے ایک ایسا سیاسی اور اقتصادی حربہ ہو سکتا ہے جو اسے مستقبل کے پانی کے انتظام اور علاقائی سیاست میں ایک مضبوط پوزیشن دلائے۔
راجہ کون
1965
کی پاک بھارت جنگ کے دوران شام کے اخبار میں اہک سرخی تھی "پاکستانی کرشمہ ساز لوگ ہیں۔" یہ جملہ مجھےاس لیے یاد ہے کہ میرے اردو کے استاد نے کہا تھا، " کرشمہ ساز نہیں ہوتا، کرشمہ گر ہوتا ہے۔"
پرانی باتیں کسی نہ کسی موقع پر یاد آ ہی جآتی ہیں، خاص طور پر جب میں اپنی زندگی کے سفر پر نظر ڈالتا ہوں۔ 1976 میں روزگار کی تلاش نے مجھے وطن سے دور کر دیا۔ مختلف ممالک میں وقت گزرا، مختلف تہذیبوں سے واسطہ پڑا۔ بہت کچھ دیکھا، سیکھا، مگر جو کمال، جو صبر، جو ہنر، اور جو حوصلہ پاکستانیوں میں دیکھا، وہ کہیں اور نہ پایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مٹی سے سونا کشید کرتے ہیں۔ سچ کہوں تو
، یہی ہیں اصل کرشمہ گر۔
ایسا ہی ایک کرشمہ میرے دوست کی زندگی میں بھی بسا ہوا ہے — جو آج کل امریکہ میں ایک کامیاب اور باوقار مقام پر فائز ہے۔ راولپنڈی کے مضافات میں پیدا ہوا۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں چھن گیا۔ ماں غیر ملکی تھی، مگر دل سے پاکستانی، اور حوصلے کا پہاڑ۔ جیسے جیسے حالات نے اسے جھنجھوڑا، ویسے ویسے وہ فولاد بنتی گئی۔
بیٹے کے دل میں یہ الفاظ جیسے پتھر پر لکیر ہو گئے۔ اس نے ماں کی آنکھوں کا خواب اور دل کا درد دونوں سمجھ لیا۔ وہ خاموشی سے سب سہتا رہا — رشتے داروں کی گالیاں، طعنے، دھتکار — مگر میٹرک کے امتحان میں وہ پورے بورڈ کے ٹاپ 10 طالب علموں میں شامل ہوا۔
ماں نے گھر کرائے پر دے دیا، خود ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہوئی، مگر بیٹے کو کالج میں داخل کرا دیا۔ بیٹے نے ماسٹرز مکمل کیا، پھر جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کی۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ "پوسٹ ڈاکٹریٹ" بھی کرے۔ امریکہ سے اس نے اعلیٰ ترین ڈپلومہ کیا، تو گویا کامیابیوں کی بارش ہونے لگی۔ ملازمتیں، پیشکشیں، مشورے، شراکت دار — سب کچھ اُس کے قدموں میں آنے لگا۔
مگر وہ اب بھی اُسی راولپنڈی کی مٹی کو یاد رکھتا تھا، جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ اس نے اپنے خاندانی گھر کو اپنی این جی او کے دفتر میں تبدیل کر دیا، ماں کی ہدایت پر ان ہی رشتہ داروں کو اپنی تنظیم میں جگہ دی، جنہوں نے اس پر ظلم کیے تھے — کیونکہ ماں نے سکھایا تھا کہ معافی، انتقام سے بڑی فتح ہے۔
آج اس کے پاس امریکہ میں اپنا گھر اور اسائش بھری اندگی ہے اور پاکستان میں اس کا خاندان اور عزت ہے۔پاکستان میں اس کی تنظیم کو چلانے والے سارے ہی اس کے "شریک" ہیں
اسے اور اس کے خاندان کو ائرپورٹ چھوڑنے گیا ۔ راستے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اس کی بیوئ نے کہا "عمران کے سارے رشتے دار ڈفر ہیں ، ہر کوئی امریکہ جانا چاہتا ہے مگر تعلیم حاصل کرتے ہوئے انھیں موت پڑتی ہے
میں نے بیک مرر میں دیکھا ۔عمران کا چہرے پر ملال تھا بولا میرے خاندان میں علم کو راجہ کہنے والی
جورجیا کے قبرستان میں سو سوئی ہوئی ہے
اسے الوداع کر کے واپس آ رہا تھا تو میرے زہن میں چل رہا تھا صیح لفط "کرشہ ساز" ہوتا ہے یا "کرشمہ گر" ، ذہن الجھ سا گیا ، یکایک خیال ایا "ساز" ہو یا "گر"۔ اصل تو "کرشمہ" ہے ، پھر جیال آیا کرشمہ اسی گھر میں جنم لیتا ہے جس گھر میں عمران کی مان جیسی ماں ہو ۔اس کے خاندان میں تو سب زمین والے راجے ہیں
سعودی شہزادہ
عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے
تحریر: دلپزیر
سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔
پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔
یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔
یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔
خصی بکرا، آنڈو بکرا
بدھ، 4 جون، 2025
معاشرتی دوغلاپن
پرانی ڈھولکی نئی تھاپ
اتوار، 12 جولائی، 2020
چار عناصر
منگل، 7 جولائی، 2020
شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے
اتوار، 21 جون، 2020
آدمی ہر دل عزیز تھا
اتوار، 12 اپریل، 2020
نیا رونا
پرانے زمانے میں دولت مند بننے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کیا کرتے تھے۔ جو یہ کام نہیں کر پاتے تھے وہ اپنے اباو اجداد کی زمین بیچ کر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ قیمتی چیز جس سے انسان واقف تھا وہ سونا ہی تھا۔ اس دور میں سب سے زیادہ دولت ان حکیموں نے کمائی جو خود تو سونا نہیں بناتے تھے مگر سونا بنانے کے نسخے اپنے شاگردوں کو بتایا کرتے تھے۔ جب دنیا کے ایک کونے میں لوگ لوہے سے سونا بنانے میں مصروف تھے تو دنیا کے ایک دوسرے کونے میں انسان نے پہیہ بنا کر لوہے کو مشین میں تبدیل کرلیا۔ ان ہنر مندوں نے سونے سے بھی زیادہ دولت کما لی۔ یہ فن اس قدر مقبول ہوا کہ زمینداری کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چند معاشروں نے پیداواری اجارہ داریاں قائم کر لیں۔ اور بیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے یہ اجارہ داریاں انفرادی سطح پرآ گئیں۔اس وقت دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی آمدن بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ جب مقابلہ بازی انفرادی سطح پر آتی ہے تو اس میں چال بازی بھی آ جاتی ہیں۔ منظم معاشرے ان چالبازیوں کو روکنے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ معاشرے ان اداروں سمیت ایک دوسرے سے چالبازیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔