urdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
urdu لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 12 جولائی، 2020

چار عناصر





اقبال نے مسلمان کے بارے میں کہا تھا
قہاری و غفاری وقدوسی وجبروت
یہ چارعناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
 ہمارے ایک دوست نے  اپنے کالم میں قوم بننے کے لیے بھی چار عناصر ہی گنوائے ہیں
سرمایہ و اختیار و علم و محبت
بے شک سرمایہ اور اختیار پر حکومتوں کا حق ہوا کرتا ہے مگر علم و محبت عوام کی میراث ہوتی ہے ۔ مسائل ان ہی معاشروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں اپنی اجارہ داریوں کے حصول کے بعد عوام کی میراث پر بھی قبضہ کر لیا جائے ۔  
گلے میں گلہ بان کے پاس ڈنڈا ہوتا ہے مگر اس ڈنڈے  کا اولین مقصد بکریوں کی حفاظت ہوتا ہے ۔ بکریاں نہیتی ہی ہوا کرتی ہیں مگر جب بھیڑیا آ جائے تو بزدار کے ڈنڈے کی طرف دیکھتی ہیں ۔ ہماری حکایات میں ایک ایسے بزدار کا تذکرہ ملتا ہے جو اس قدر صاحب علم تھا کہ زمین پر لکڑی سے لکیریں کھینچ کر مخاطب کا محل وقوع بتا دیا کرتا تھا۔ مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ علم عوام کا فخر اور انسان سے محبت اس کا مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔ موجودہ دور میں سرمایہ اور اختیار پر سرکار کا اجارہ ہی نہیں بلکہ مزید اختیار کی ہوس بھی پوشیدہ نہین ہے۔ گذرے زمانے میں علم برائے خود شناسی حاصل کیا جاتا تھا تو اج علم کا مقصد کم از کم ہمارے ہاں کچھ اور ہی ہے ۔
گیے وقتوں میں علم و محبت کے حصول میں صاحب سرمایہ و اختتیار حکومتیں عوام کی علم کے حصول میں عوام کی سرپرست ہوا کرتی تھیں ۔ آج حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔
حکمران اور رہنما میں فرق ہوتا ہے ۔ کسی ملک کا بادشاہ حکمران ہے تو کسی ملک کی وزیر اعظم رہنما ہے ۔ دونوں معاشروں کی سوچ رات اور دن کی طرح عیاں ہے ۔ اس فرق کو علمی تفریق کے سوا دوسرا نام دیا ہی نہیں جا سکتا ۔
مرحوم طارق عزیز (نیلام گھر والے ) نے اپنے ترکے میں ایک پنجابی کی کتاب بصورت شاعری چھوڑی ہے اس میں ایک شعر ہے
مڈھ قدیم توں دنیا اندر دو قبیلے آئے نیں
اک جنہاں زہر نی پیتے اک جنہاں زہر پلائے نیں

 مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں روز اول سے دو طبقات ہیں ایک جو زہر کا پیالہ پیتا ہے اور دوسرا جو پلاتا ہے ۔ علم انسان کوان دونوں طبقات کے اذہان کو منور کر کے عمل کی قابل عمل راہ دکھاتا ہے ۔
رہنماوں کے سرمایہ جمع کرنے اور اختیارات کی خواہش پوری کرنے میں تعلیم حائل نہیں ہوا کرتی ۔ بہت سارے ممالک اس رواں دواں کرہ ارض پر موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کو عام کیا اور امن و آشتی سے جی رہے ہیں ۔ ایسے حکمرانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو علم کو پابند سلاسل کر کے خود بھی قلعوں میں بند ہیں اور ان کی عوام بھی آپس میں دست و گریبان ہیں۔

دنیا میں ایسی قومیں موجود ہیں جو تباہ ہو کر وسائل کی کمی کا شکار ہو گئیں مگر انھوں نے امید کے بل بوتے پر خود کو دوبارہ قوموں کی برادری میں سر خرو کر لیا ۔ امید پر یقین علم ہی پیدا کرتا ہے ۔
علم پر بنیادی طور پر خالق کائنات کی اجارہ داری ہے ، اس نے ابن آدم پر احسان کیا اور اپنے ذاتی علم سے اسے عطا کیا ۔ ہم نے اس نعمت کے ساتھ بے انصافی یہ کی کہ انفرادی منفعت و ہوس کے بل بوتے پر کچھ علوم کو غیر نافع کا نام دیا اور اسے ایک بوری میں ڈالتے گئے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بوری اس قدر ثقیل ہو چکی ہے کہ اس کو اپنی جگہ سے سرکانا افراد کے بس سے باہر ہو چکا ہے ۔ مزید ظلم یہ کہ ہم نے اس بوری کا منہ اب بھی بند نہیں کیا ۔ ہٹلر کے بعد جرمنی والوں نے ابلاغیات کا علم نہیں بلکہ گوبلز کے اعمال بوری میں ڈالے تھے ۔
انسان کا عقلی ادراک کچھ بیانیوں کے تسلیم کرنے میں مزاحم ہوتا ہے ۔ جس دور میں زمین ساکت مانی جاتی تھی ، اس دورمیں بھی عقل اس بیانیے پر مطمئن نہیں تھی ۔ اگر اج ہم کچھ بیانیوں سے مطمن نہیں ہیں تو لازمی طور پر ان بیانیوں میں کہیں نہ کہیں سقم ہے ۔ گلوبل ویلج میں اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ کون سا بیانیہ اور عمل بوری کا مستحق ہے ۔ آج کے دور میں اسی استحقاق کے بیان کرنے  پر زہر پیے اور پلائے جا رہے ہیں ۔
محبت ایسا پھول ہے جو انصاف کی زمین پر اگتا ہے ہمارے ہان تو ابھی زمین ہی ہموار نہیں ہے ۔ ہم دوسروے ملکوں میں مظلوموں کو انصاف ملتا دیکھ کر خوش ضرور ہوتے ہیں ۔ مگر اپنے ہان عدالتوں کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے بھی بنا رکھے ہیں جن کا مقصد ہی یہ ہے کہ پھول اگلنے والی ہموار زمین کو لگا تار نا ہیموار کرتے رہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اختیارات کسی عمارت میں قید ہیں ۔ معیشت صاحبان پنجہ کی مٹھی میں بند ہے ۔ تعلیم کے لیے ہمارے پاس بچا ہی کچھ نہیں ہے اور محبت لوک داستانوں یا فقیروں کے آستانوں تک محدود ہے ۔
عوام  کو صبر کی تلقین کتاب سے پڑھ کر سنائی جاتی ہے  اور سکون قبر میں بتایا جاتا ہے ۔
 اقبال نے سچ ہی کہا تھا ۔ 
تحقیق میرے دوست  کی بھی برحق ہے
ہم تو اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کو بھی برحق بتاتے ہیں
بہتر سالوں سے مگر کر وہ رہے ہیں جو ہمارا دل کرتا ہے






منگل، 7 جولائی، 2020

شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے


برطانیہ کے ایک باسی کم  اے ویگنر کی2017 میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی  جس کا عنوان تھا  عالم بیگ کی کھوپڑی۔ کتاب کے مطابق  1857 کے غدر میں 7 یورپین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، اتر پردیش  (انڈیا)  کا  باسی حوالدار عالم بیگ جس کو بطور سزا بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، کی کھوپڑی اس کے پاس ہے۔ مصنف نے کتاب میں خواہش کی تھی کہ یہ کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کے لواحقین تک پہنچ جائے اور اسے اپنے وطن میں احترام کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔
فوجی تنازعوں میں جان قربان کرنے والے لوگ ایک طبقے کے مجرم ہوتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے ہیرو ہوتے ہیں۔ 
فرانس کے شہر پیرس کے ایک عجائب گھر میں 24 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں جو فرانس کے بقول اس کے باغی تھے۔ مگر الجزائریوں کے نزدیک وہ محترم اور جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ طویل عرصے سے الجزائری اپنے ہیرو کی باقیات کی واپسی کے لیے فرانس سے بات چیت کر رہے تھے۔ جولائی 2020 کی صبح ایک طیارہ فرانس سے ان چوبیس ہیروز کی کھوپڑیاں لے کر الجزائر کی حدود میں داخل ہوا تو طیارے کو جنگی جہازوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ الجزائر کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں میں بند ان باقیات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ فوجی دستے  نے اعزازی سلامی دی اور ملک کے صدر نے ان تابوتوں کے سامنے اپنا سر نگوں کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اور سرکاری طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جنگ آزادی کے ہیرو اپنی سر زمین پر لوٹ آئے ہیں۔
 امریکہ نے  1846  میں میکسیکو پر حملہ کیا اور آدہے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔  ایروزونا، کیلی فورنیا، نیواڈا،اوٹا ، ویومنگ اور نیو میکسیکو کے نام سے ان علاقوں کو امریکہ میں شامل کر لیا۔اس جنگ میں امریکہ کے جو فوجی میکسیکو میں مارے گئے تھے ان کی باقیات  امریکہ نے 170  سال بعد واپس حاصل کر لیں کہ  اپنی سرزمین پر لوٹ آنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
جرمنی اپنے نوآبادیاتی دور  (1884 ۔  1919) میں نمبیا سے  بیس انسانی کھوپڑیاں سائنسی تجربات کے لیے برلن لایا۔ مگر  2011 میں وہ  بنیادی انسانی حق کی بنیاد پر ان کھوپڑیوں کو  اپنی سرزمین پر لوٹانے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے چوبیس جون 2006 میں اپنے ایک غدار اور بنگلہ دیش کے ہیرو پائلٹ مطیع الرحمان جو  بیس اگست  1971 کو پاکستان ائر فورس کا جہاز اغوا کر کے بھارت لے جانے میں ناکام ہوا تھا کی باقیات کراچی کے مسرور ائر بیس کے قبرستان سے نکال کر بنگلہ دیش کے حوالے کی تھی۔ تو بھی وجہ بنیادی انسانی حق ہی بنی تھی۔
بنگالیوں نے اپنے ہیرو کی باقیات کو ڈہاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا اور اپنے ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پیش کیا۔ اور ہر سال اس کے نام کی ٹرافی اپنے بہترین کیڈٹ کو پیش کرتا ہے۔
پاکستان کا مایہ ناز فوجی میجرمحمد اکرم  (1938۔ 1971) جنھوں نے مشرقی پاکستان میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر اپنی جان نچھاور کی تھی اور پاکستان نے انھیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔ ان کا تعلق جہلم کے علاقے ڈنگہ سے تھا۔ جہلم شہر کے وسط میں ان کی یادگار بھی ہے مگر وہ خود بنگلہ دیش کے علاقے راجشاہی کے ایک گاوں بولدار میں دفن ہیں۔
جب جنرل مشرف بطور صدر مملکت بنگالی پائلٹ مطیع الرحمان کی باقیات بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا اور پاکستان میں میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کی واپسی کی آواز یں اٹھیں تھی مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم اپنے سویلین ہی نہیں فوجی ہیروز کو بھی بھول جاتے ہیں۔
نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو
(شہید جاتے ہیں جنت کو گھر کو نہیں آتے   (صابر ظفر

اتوار، 21 جون، 2020

آدمی ہر دل عزیز تھا


  
عبد العزیزپاکستانی جب جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تو اس منٹگمری (سائیوال) کے کربلا روڈ پر اسے رہنے کے  کے لیے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ ہوا۔ بلوے کا دور تھا۔ طارق عزیز بن عبدالعزیز  نے غربت،  محرومی،  نا انصافی  اور انسان کے ہاتھوں انسانیت کو قتل ہوتے اپنی دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سنتے کان بھی رکھتا تھا اور  اس کے سینے میں انسان دوست دل بھی تھا ۔



   ایک دفعہ چندہ لینے کے لیے "اس" بازار میں گیا۔ایک طوائف نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ طارق نے بھرے بازار میں اس کے پاوں چوم لیے    طارق عزیز کے بارے میں یہ جملہ راجہ انور  (جو ذولفقار علی بھٹو کے مشیر تھے) نے اپنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن میں لکھا ہے۔ 

طارق عزیز جب سائیوال سے لاہور کے لیے چلا  تو اس کی منزل فلمی دنیا تھی۔اس نے ہوٹلوں میں میز صاف کیے،  گاڑیوں کو 
دہویا،  لاہور کی سڑکوں پر سویا مگر اس نے ہار نہیں مانی۔اس نے خواب بڑا دیکھا ہوا تھا۔ قانون فطرت ہے کہ بار بار کی ناکامی انسان کو کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔ طارق عزیز کو کامیابی کی راہ ریڈیو پاکستان لے گئی۔ ریڈیو پاکستان کی بغل میں جب صدر ایوب خان نے 1964 میں پی ٹی وی کا افتتاح کیاتو ٹی وی پر افتتاحی اعلان کرنے والا طارق عزیز تھا۔1975 میں پروڈیسر عارف رانا کے ساتھ مل کر ظارق عزیز نے نیلام گھر کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئیز شو       ابتداء  ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے    سے شروع ہوتا اور    پاکستان زندہ باد   کے الفاظ پر ختم ہوتا مگر جمعرات کے دن ایک گھنٹے کا نیلام گھر اس لحاظ سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس نے نوجوانوں میں علم سیکھنے  اور کتاب پڑہنے کی جوت ہی نہیں جگائی بلکہ اپنی اقدار و روایات سے بھی روشناس کرایا۔ طارق عزیز خود طالب علم، کتاب دوست،  صداکار، شاعر، کمپیئر ، ادب شناس ہونے کے ساتھ بڑا پاکستانی بھی تھا۔ اس نے نیلام گھر کے ناظرین میں وطن کی محبت جاگزیں کی۔
  
بچپن کی محرومیوں نے اسے ما وزے تنگ کی بائیں بازو کی ناو میں بٹھا دیا تھا۔ جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں ماو کی دی ہوئی ٹوپی لہرائی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو طارق عزیز نے اکثر پاکستانیوں کی طرح بھٹو کا ساتھ دیا۔ مگر 1989  تک پیپلز پارٹی کی ناو کے لیے راوی کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ اب قوم کا نجات دہندہ نواز شریف تھا۔ طارق عزیز نے قوم کا ساتھ دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جب میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع ہوا اور کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو طارق عزیز کی ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہو گئیں۔ یہ المیہ سب ہی پاکستانیوں کا ہے اور طارق عزیز  تو بڑا پاکستانی تھا۔دراصل  وہ ایک نظریاتی، اصول پرست،  عوام دوست اور ذہین انسان تھا۔اس نے کہاتھا۔
مڈھ  قدیم توں دنیا اندر  دو قبیلے آئے نے
اک جنھاں زہر نی پیتے  دوجے جنہاں زہر پیائے نے

طارق عزیز کے حاسد اسے سیکولر بتاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کہا کرتا تھا    خاک میں خاک ہونے سے پہلے اس خاک
 شفا  (قران)  کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لو۔ دنیا بھی خوش اگلا جہاں بھی خوش 

 اس نے انسانیت،  سالگرہ،  قسم اس وقت کی ، کٹاری ، چراغ کہاں روشی کہاں اور ہار گیا انسان جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا مگر اس کو کامیاب انسان  نیلام گھر  نے بنایا۔ طارق عزیز کا بات کرنے کا،  لبا س پہننے کا  اور کام کرنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ جو کام کرتا  اس پر طارق عزیز کی چھاپ لگ جاتی۔آج مختلف چینلز پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی نیلام گھر تک نہیں پہنچ پایا۔ نیلام گھر پر طارق عزیز کی چھاپ لگ چکی تھی۔

وہ لکھاری بھی تھا مگر اپنی ہی طرز کا۔ اس نے کالم بھی لکھے مگر دوسروں سے مختلف، اس کے کالموں کے مجموعے کانام  داستان  ہے۔  اس نے ہمزاد دا دکھ  کے نام سے پنجابی میں شاعری بھی کی مگر اپنے ہی انداز میں۔ 
طارق حسن پرست بھی تھا۔ اس کا کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ   پندرہویں صدی    اس کی حسن پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کراچی ہی میں اس نے  کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ سے شادی کر لی ۔ ایک بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔

اس کی موت پر انور شعور نے کہا تھا

وہ دیکھنے کی چیز دکھانے کی چیز تھا
طارق عزیز آدمی ہر دل عزیز تھا

اتوار، 12 اپریل، 2020

نیا رونا



پرانے زمانے میں دولت مند بننے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کیا کرتے تھے۔ جو یہ کام نہیں کر پاتے تھے وہ اپنے اباو اجداد کی زمین بیچ کر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ وہ قیمتی چیز جس سے انسان واقف تھا وہ سونا ہی تھا۔ اس دور میں سب سے زیادہ  دولت ان حکیموں نے کمائی جو خود تو سونا نہیں بناتے تھے مگر سونا بنانے کے نسخے اپنے شاگردوں کو بتایا کرتے تھے۔ جب دنیا کے ایک کونے میں لوگ لوہے سے سونا بنانے میں مصروف تھے تو دنیا کے ایک دوسرے کونے میں انسان نے پہیہ بنا کر لوہے کو مشین میں تبدیل کرلیا۔ ان ہنر مندوں نے سونے سے بھی زیادہ دولت کما لی۔ یہ فن اس قدر مقبول ہوا کہ زمینداری کو پیچھے چھوڑ گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چند معاشروں نے پیداواری اجارہ داریاں قائم کر لیں۔ اور بیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے یہ اجارہ داریاں انفرادی سطح پرآ گئیں۔اس وقت دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی آمدن بعض ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ جب مقابلہ بازی انفرادی سطح  پر آتی ہے تو اس میں چال بازی بھی آ جاتی ہیں۔ منظم معاشرے ان چالبازیوں کو روکنے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ معاشرے ان اداروں سمیت ایک دوسرے سے چالبازیوں میں سبقت لے جانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
ایک وقت تھا انسان ریت پر ننگے چلا کرتا تھا۔ وہ گرمی تکلیف دہ ہوا کرتی تھی مگر انسان اسے برداشت کر لیا کرتا تھا۔ گرم لوہے پر پاوٗں اٹکانا انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ گرم لوہے کو پکڑنے کے لیے سنی وجود میں لائی گئی۔ اس سادہ سے اوزار نے جب روبوٹ کا روپ دہارا تو لوہے کی تپش تین ہزار سنٹی گریٹ تک جا پہنچی۔ ٹیکنالوجی کا کمال یہ رہا کہ اس تپش میں بھی لوہا، لوہا ہی رہتا ہے۔ بھاپ بن کر اڑتا ہے نہ بے قابو ہو کر بہتا ہے۔ مگر یہ لوہا وہ دہات نہیں ہے جس سے گندم کاٹنے والی درانتی بنائی جاتی تھی۔ یہ ایسا لوہا ہے جس میں بھانت بھانت کی دہاتیں اور رنگ دار اور بے رنگ کیمیکل شامل ہوتے ہیں۔ 
بے رنگ کیمیکل بالکل ہی بے رنگ نہیں ہوا کرتے۔ بعض اوقات تو وہ ایسا ایسا رنگ دکھاتے ہیں کہ انسان ماسک میں منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتا ہے، دولت کی ہوس انسان کو  قرنطینیہ  بھگتنے پر مجبور کردیتی ہے۔
کچھ باتیں قدرتی طور پر سب لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں، اچھائی کیا ہے اس کی تعریف مختلف  معاشروں میں مختلف ہو سکتی ہے مگر ہر انسان جانتا ہے کہ اچھائی وہی ہے جو دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانی لائے۔ آسانیاں بانٹنے ولا ہی سکھی رہ سکتا ہے۔ یہ ممکن نہیں مشکلات بیچ کر کوئی سکھی رہ سکے۔ یہ بات اگر فرد کے لیے درست ہے تو غلط معاشروں اور ملکوں کے لیے بھی نہیں ہے۔

جمعرات، 30 جنوری، 2020

'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ'


بھیڑیا ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ کا ﻏﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺷﯿﺮ ﺳﻤﯿﺖ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ تیز اور پھرتیلی ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣٌﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ یہی ﺟﻨﮕﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮬﯽ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﺆﻧﺚ ﭘﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮬﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮏ نہیں۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺆﻧﺚ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﺆﻧﺚ بھیڑیا ﺑﮭﯽ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﺍﯾﮏ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺟﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺗﯿﻦ ﻣﺎﮦ ﮐﮭﮍﺍ بطورِ ماتم ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ "ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺒﺎﺭ" ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ، ﯾﻌﻨﯽ 'ﻧﯿﮏ ﺑﯿﭩﺎ' اس لیئے ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺟﺐ اس کے ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮬﻮﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ یہ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ۔
ﺑﮭﯿﮍیئے ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺻﻔﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ، ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ، ﺧﻮﺩﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ حسنٍ ﺳﻠﻮﮎ مشہور ﮬﯿﮟ.
ﺑﮭﯿﮍﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ بطورٍ کارواں ﻣﯿﮟ کچھ یوں ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ؛
1 - ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
2 - ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺟﻮ ﺑﻮﮌﮬﮯ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بطورِ ابتدائی طبی امداد ‏(ﻓﺮﺳﭧ ﺍﯾﮉ) ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
3 - ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ (ہنگامی دستہ) ﭼﺎﮎ ﻭ ﭼﻮﺑﻨﺪ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ.
4 - ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﺎﻡ ﺑﮭﯿﮍیئے ﮨﻮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
5 - ﺳﺐ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮍﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﺭﮬﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ‏"ﺍﻟﻒ" ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﻼ 'ﮬﺰﺍﺭ' ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﺟﻮ ہمارے لیئے ﺑﺎﻋﺚ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﺑﮭﯿﮍیئے ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ بہترﯾﻦ ﺧﯿﺮﺧﻮﺍﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍسی لیئے ﺗﺮﮎ اﻭر ﻣﻨﮕﻮﻝ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﺮﮎ ﻭ ﻣﻨﮕﻮﻝ ﮐﺎ 'ﻗﻮﻣﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ' بھی ﮨﮯ ۔۔۔ !
Translated from National Geographic Arabic (UAE)

بدھ، 19 جون، 2019

سید قطب کے بعد محمد مرسی

بہار عرب کی انقلابی ہوائیں جب مصر میں داخل ہوئیں تو قاہرہ کے التحریر اسکواہر میں جمہوریت کے حامیوں کے سامنے حسنی مبارک کی آمریت نے دم توڑ دیا۔ فری ایڈ فیئر الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ تو اخوان المسلمین  کے حمائت یافتہ محمد مرسی (1951 ۔  2019)  مصر کے پانچویں اور عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے والے پہلے جمہوری صدر بنے۔
محمدمرسی ایک سیاستدان، پروفیسراور انجینئر تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور اسٹنٹ پروفیسر پڑہاتے رہے۔حافظ قرآن مرسی ابتداہ ہی سے اخوان کے ساتھ وابستہ تھے مگر امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بنائی یاد رہے اخوان المسلمین کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ اس پارٹی نے مرسی کی قیادت میں مصری عوام کی 51.7 فیصد حمائت حاصل کر لی۔ مصری عوام کو پہلی بار اقتدار نصیب ہوا تھا۔ لہذا الیکشن مین کامیابی حاصل کرتے ہی امریکہ سے تعلیم یافتہ محمد مرسی نے اپنی پارٹی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ وہ اب اپنی پارٹی کے نہیں بلکہ پورے مصر کے صدر ہیں۔ اہل جمہور نے ایک عبوری آئین نافذ کیا اور اس آئین کے تحت جمہوری صدر کو لا محدود اختیارات حاصل ہو گئے جن میں ایسے ادارے بھی شامل تھے جن کی باگ 1952 سے فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔فوج مرسی کے ان اقدامات پر غیر مطمئن تھی۔ مرسی کے سیاسی مخالفین، جنھوں نے ووٹ مرسی کے خلاف دیا تھا۔ التحریر اسکوائر میں دھرنا دینے اکھٹے ہونا شروع ہوئے۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے،  وہ ان اقدامات کی تحسین کر رہے تھے جو مرسی نے فوج کے اثر ورسوخ کو کم کرنے کے لیے کیے تھے۔ان اقدامات میں حسنی مبارک کے دور کے فوجی افسران کو ہٹا کر جونئیر افسران کی تعیناتی شامل تھی۔مرسی نے ان تمام جرنیلوں کو نکال باہر کیا تھا جو تیس سالون سے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے۔ حتیٰ کے طویل مدت تک وزیر دفاع رہنے والے فیلڈ مارشل اور اس کے متوقع جانشین کو بھی گھر بھجوا دیا تھا۔اور انٹیلی جنس چیف کو بھی فارغ کر دیا۔
عبد الفتح السیسی کو کو نیا وزیر دفاع خود مرسی نے مقرر کیا تھا۔
التحریر اسکوائر میں جمع مرسی کے حامی فوج کی نظر میں امن و امان کے لیے خطرہ تھے۔ فوج نے مرسی کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا کہ وہ سیاسی افراتفری کو روکیں۔ صدر محمد مرسی نے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا تو فوج نے قصر صدارت پر قبضہ کر کے صدر کو گرفتار کر لیا۔ مرسی کے حامی مزاحمتی دھرنے کے لیے التحریر اسکائر میں جمع ہوئے تو سات سو مظاہرین کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔  ہزاروں افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا۔
گرفتار صدر پر قتل،  قطر کے لیے جاسوسی کرنے،  جیل توڑنے اور حماس تنظیم جو مصر میں خلاف قانون قرار دی گئی تھی کے ساتھ روابط کے الزام لگے۔ 
شستہ اورروان لہجے میں انگریزی بولنے والے محمدمرسی کو عدالت میں پہلی بار پیش کیا گیا تو وہ ایک ساونڈ پروف پنجرے میں بند تھے۔ پہلی سماعت پر سابقہ صدر کا یہ موقف سامنے آیا کہ فوج نے غیر قانونی طور پر تختہ الٹا ہے اور عدالت کے اختیار سماعت کو بھی مسترد کر دیا۔ مصری عدالت نے تیز ی سے سماعت مکمل کی،  سابقہ صدر کو سزائے موت، دوسرے مقدمے میں بیس سال قید اورتیسرے مقدمے میں تین سال کی قید کی سزا سنائی۔ ان کی موت کی سزا تو اپیل کے بعد ختم کر دی گئی مگر دوسری سزاہیں بحال رہیں۔ 
کمرہ عدالت میں موت سے قبل محمد مرسی، جن کی تین بیویاں،  چار بیٹے اور ایک بیٹی  ہے، کو چھ سال تک اس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا کہ ان کے خانداں کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔ان کے خلاف ملک کے اندر زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ جس کے مطابق وہ غیر ملکی ایجنٹ، مصر کا غدار،  جیلوں کو توڑ کر اپنے حامی آزاد کرانے والا، قانون اور آئین کو نہ ماننے والا،  دہشت گردوں کا حامی، ملکی راز دوسرے ملکوں میں افشا ء کرنے والااور قاتل بتایا گیااور ملک کی فوج، عدلیہ اور اداروں کا دشمن ظاہر کیا گیا۔ ایمنسٹی والوں کا کہنا ہے دوران اسیری، ملک کے سابقہ صدر کو سونے کے لیے ننگا فرش میسر رہا۔ ان کا قرآن مہیا کرنے کا مطالبہ رد کر دیا گیا۔ان کے دونوں بھائیوں اور مصر میں موجود ان کے بیٹوں (دو بیٹے امریکی شہری ہیں)سمیت کسی کو بھی ان چھ سالوں میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔موت کے بعد جیل کے ہسپتال کے لان میں مرسی کے بیٹون کو جنازہ پڑہنے کی اجازت دی اور فوج نے اپنی نگرانی میں میت کو دفنا دیا۔
سید قطب کے بعد اخوان کے ہاں محمد مرسی طویل عرصہ تک یاد رکھے جائیں گے۔ البتہ ان کی سیاسی زندگی، قصر صدارت تک رسائی اور پھر بے کسی کی موت تاریخ کا حصہ ہے۔ 
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس وقت محمد مرسی کے چالیس ہزار حامی جیلوں میں بند ہیں۔
 ملکوں میں بٹی امت مسلمہ،  ملکوں کے اندر سیاسی طور پر تقسیم در تقسیم مسلمان،  شائد ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے ہیں کہ جنگ جاری ہے۔ سابقہ امریکی صدر بش سینٗرکے الفاظ میں یہ جنگ امریکہ سے دور ممالک میں لڑی جارہی ہے ۔اس جاری جنگ کی نوعیت پر ایک مصری اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا     مرسی، احمق ہی نہیں بے وقوف بھی ہے    اس اخبار کا اشارہ اس ڈیڑھ بلین ڈالر کی طرف تھا جو امریکہ مصری فوج کو ہر سال وعدوں کو پورا کرنے کے عوض ادا کرتا ہے۔ 

پیر، 10 جون، 2019

گر پڑی

                   
                   
راوی بیان کرتا ہے کہ ایک شخص کو ہندوستان میں اپنی زمین کے بدلے میں راولپنڈی کے مضافات میں واقع علاقے    ٹپئی    میں زمین  الاٹ ہوئی۔ اجنبی مسافر الاٹمنٹ لیٹر جیب میں ڈالے راولپنڈی کے ریلوے سٹیشن پر اترا۔ لوگوں سے مطلوبہ جگہ کا پتہ پوچھا مگر سٹیشن پر موجود مقامی لوگ بھی سرکاری کاغذ میں لکھے نام
Tai pai
سے واقف نہ تھے۔
 اس زمانے میں اجنبی مسافروں خاص طور پر ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کی مدد و رہنمائی کا جذبہ عروج پر تھا۔ لوگ اکٹھے ہو ئے اور کسی نے بتایا کہ انگریزی میں یہ نام    ٹپئی    کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اجنبی کی رہنمائی کی گئی اور اسے بتایا گیا کہ وہ کمپنی باغ میں موجود بسوں کے اڈے پر چلا جائے وہاں سے اسے    ٹپئی   جانے والی بس مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے انسان جو زبان بھی بولے سوچتا اپنی مادری زبان ہی میں ہے۔ اردو بولنے والے اس مسافر کے ذہن میں  ٹپئی کا سن کر   گر پڑی    کا تصور پید ا ہوا۔ جب وہ کمپنی باغ  (موجودہ نام لیاقت باغ) پہنچا تو اس کے سامنے مطلوبہ بس ڈہونڈنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس نے کاغذ دکھا کر کسی سے پتہ پوچھنے کا ارادہ کیا تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ کاغذ تو ریلوے سٹیشن پر ہی کسی کے ہاتھ میں تھما آیا ہے۔ اس نے اللہ کو یاد کیا اور    گر پڑی    جانے والی بس ڈہونڈنا شروع کی۔ اس کو بتایا گیا کہ گر پڑی نام کا تو کوئی گاوں ہے ہی نہیں۔ اجنبی مسافر کی رہنمائی کے لیے مجمع اکٹھا ہوا اور عقل اجتماعی نے فیصلہ کیا کہ مسافر اردو سپیکنگ ہے ناموں سے ناموس ہے یقینا اس نے   چڑ پڑی   جانا ہو گا۔ مسافر کو چڑپڑی جانے والی بس میں سوار کر دیا گیا۔ قصہ پاکستان بننے کے دنوں کا ہے، دلچسپ ہونے کی وجہ سے زبان زد عام ہوا، عام طور پر ایسے قصوں کی  تحقیق کی جائے تو لطیفہ ہی ثابت ہوتے ہیں، اس کے باوجود زبان کی چاشنی اسے علاقے میں مقبول رکھے ہوئے ہے، 
 پڑی   نام سے راولپنڈی میں کئی گاوں اور علاقے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ایک غیر معروف اور غیر ترقی یافتہ علاقے کا نام   تخت  پڑی    ہوا کرتا تھا۔ تخت پڑی جی ٹی روڈ کے کنارے اور راولپنڈی سے صرف چھ کلو میٹر دور ہونے کے باوجود غیر معروف علاقہ اس لیے تھا کہ 2210 ایکڑ پر پھیلا ہوا سرکاری جنگل تھا۔ جس کو مقامی زبان میں    رکھ    کہا جاتا تھا۔  (راولپنڈی کا موجودہ ایوب پارک بھی ان دنوں    توپی رکھ    ہوا کرتا تھاجس کا رقبہ 2300  ایکڑہوا کرتا تھا۔البتہ ایوب پارک کا اس وقت رقبہ 300  ایکڑ ہے) ۔ تخت پڑی کو شہرت اس وقت ملی جب اس جنگل کو کاٹ کر اس کے درخت بیچ دیے گئے۔ پھر اس سرکاری جنگل کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔    بندر بانٹ    کا دلچسپ مرحلہ حصہ نہ پانے والے بندر کا رد عمل ہوا کرتا ہے۔
تخت پڑی رکھ کی زمین کی بانٹ کے دوران رد عمل پیدا کرنے والوں نے معلومات میڈیا کو لیک کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اس میں کئی نامور اور بااثر خاندانوں کے افرادکے نام شامل ہیں۔ کچھ حصہ ایک ہاوسنگ سوسائٹی کو بھی الاٹ ہوا۔ جس نے اس جگہ کو ڈویلپ کر نا شروع کیا تو اپنے اثرو رسوخ کے بل بوتے پر 6000 کنال کے غیر الاٹ شدہ رقبے پر بھی قبضہ کر کے اسے اپنی ہاوسنگ سکیم میں شامل کر لیا۔ پہلے عام عوام نے حیرت کا اظہار کیا، پھر اخباروں میں مرچ مصالحے کے ساتھ کہانیاں شائع ہوئیں اور انجام کار بات عدالت تک جا پہنچی۔ ان دنوں ہمارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہوا کرتے تھے۔ عدالت اسی ہاوسنگ سوسائٹی کو کراچی میں الائٹ کی گئی زمین کے ساتھ غیر قانونی طور پر قبضہ میں لی گئی زمین کے بارے میں ایک کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے460  ارب روپے قسطوں میں بطور جرمانہ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے چکی تھی۔ اب راولپنڈی میں واقع  600 کنال کی غیر قانونی قابض زمین کا عدالت میں فیصلہ ہونا ہے۔ ہاوسنگ سوسائٹی والوں نے عدالت کو 15 لاکھ روپے فی کنال ادا کرنے کی تجویز دی ہے۔ہمیں ہاوسنگ سوسائٹی کے کردار سے دلچسپی ہے نہ سرکاری اداروں کی کرکردگی پر گلہ ہے۔ البتہ عدالت کو دیکھ کر وہ غریب، اجنبی مسافر یاد آتا ہے جو پنجابی کے لفظ    ٹپئی    کو اردومیں  بطور   گر پڑی    سوچتے سوچتے اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھا تھا۔ حالانکہ عدالت کے بارے میں  گر پڑی کا لفظ انتہائی نا مناسب ہے 

اتوار، 28 اپریل، 2019

کہانی بڑی پرانی


کہانی بڑی پرانی
کہانی ہے اور پرانی ہے مگر ہر دور میں ترمیم کر کے دہرائی جاتی رہی ہے۔جب شروع میں یہ کہانی لکھی گئی اس کا ہیرو،   یقین کی دولت سے مالا مال ایک غریب اور نیم خواندہ، نورحیات نام کاشخص تھا۔ اس نے ایک عالم دین کا وعظ سنا اور اپنی ساری جمع پونچی خرچ کر کے گاوں کے باہر اس رستے پر کنواں کھدوایاں جس رستے پر مسافروں کی آمدو رفت ہوا کرتی تھی۔ وہ صبح کی نماز پڑھ کر کنویں کی منڈہیر پر بیٹھ جاتا اور پیاسے مسافروں کو پانی پلاتا۔شیطان کو اس کا یہ عمل کھٹکتا تھا۔ اس نے نور حیات کے ساتھ دوستی لگائی اور انتظار کرنے لگا کہ موقع ملے تو اسے خدمت خلق سے باز رکھے۔ 
گرمیوں کی ایک دوپہر نور حیات نے ایک مسافر جو   راز دار لوح مقد ر تھا    کو پانی پلایا۔ مسافر کا کلیجہ تازہ پانی پی کرٹھنڈا ہوا تو اس نے نظر بھر کے نور حیات کو دیکھا اور بولا    اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے   ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا   جو چاہیں عطا کر دیں   ۔ مسافرنے اس کے ہاتھ ہر اپنی انگلی سے ایک کا ہندسہ لکھا اور چل دیا۔ چند دنوں میں ہی نورحیات کو احساس ہو گیاکہ اس کی آمدن بڑھ کر ایک روپیہ روز ہو گئی ہے۔ وقت گزرتا رہا کہ ایک دن نور حیات کے ہاتھوں سے ایک اور    راز دار لوح مقدر    نے پانی پیا اور کہا    اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے   ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا   جو چاہیں عطا کر دیں    مسافر نے اس کے ہاتھ پر ایک کا ہندسہ دیکھا تو اس کے دائیں طرف ایک صفر ڈال کر چل دیا۔ نور حیات کی روزانہ آمدن دس روپے ہوگئی۔ جس زمانے کی کہانی ہے دس روپے روازانہ بڑے بڑے رئیسوں کی آمدن بھی نہ تھی۔ طاق میں بیٹھے نور حیات کے دوست نے اسے یہ روپیہ کاروبار میں لگانے کا مشورہ دیا۔دونوں دوستوں نے مشورہ کیا اور اور اونے پونے داموں بنجر زمیں خرید کر اس پر اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگا لیا۔ دس روپے روزانہ میں بھٹے کی کمائی بھی شامل ہو گئی۔ چند سالوں میں نور حیات نے علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں کا جا ل پھیلا دیا۔ اس کا دوست اس کو مشورہ دیتا کہ وہ کنویں کی منڈہیر پر کسی ملازم کو بٹھائے اور خود اپنے کاروبار پر توجہ دے۔ مگر نورحیات کو کنویں پر لوگوں کو پانی پلا کر قلبی سکون ملتا تھا۔ ادھر اس کا دوست اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ نور حیات فیصلہ نہ کر پاتا کہ وہ دل کی مانے یا دوست کی۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن گرمیوں کی تپتی دوپہر کو ایک گھڑ سوار کہ    راز دار لوح مقدر    تھا ،  پنے ساتھی سمیت کنویں پر اترا۔نور حیات نے اسے پانی کا پیالہ پیش کیا اس نے پیالہ پکڑانے والے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کو دیکھا پھر نور حیات کے ماتھے کو پڑہا اور بولا     اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے    نور حیات نے ہاتھ پھیلا دیا۔ مسافر نے پوچھا بولتے کیوں نہیں کیا مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا ،  نور حیات نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مسافر نے اپنے ساتھی سے کہا۔
مولوی، اس کے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کے دائیں طرف ایک صفر ہماری طرف سے ڈال دے، ساتھ ہی مولوی کی طرف متوجہ ہو کر کہا تیرا چلہ بھی ختم ہوا اب تو اسی نیک بخت کے ساتھ رہ اور اسے مانگنے کا نہیں خرچ کرنے کاسلیقہ سکھا۔یہ کہہ کر مسافر گھوڑے پر سوار ہوکر چل دیا۔ 
گھڑ سوار کے جاتے ہی مولوی نے نور حیات کو باور کرا دیا کہ سو روپے میں نوے روپے اس کے استاد کے دیے ہوئے ہیں اس لیے یہ رقم سلیقہ سیکھنے پر ہی خرچ ہو گی۔ نور حیات رضا مند ہو گیا۔ 
مولوی کے مشورے پر نور حیات نے کنویں کے ساتھ ہی ایک مسافر خانہ بنا لیا۔ اس میں کھانا پکتا مسافر اور ارد گرد کے لوگ کھاتے اور نور حیات کو دعائیں دیتے۔ آمدن زیادہ تھی اور اخراجات کم۔کچھ ہی عرصے میں مولوی کے کہنے پر ایک مسجد بھی بن گئی، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اہل علم بھی علاقے کے راستوں سے آشنا ہوئے۔یہ سب نور حیات کے دوست کو پسند نہ تھا۔ اس نے علاقے کے لوگوں کو قائل کیا اور نور حیات کے خلاف کے تھانے میں، نیب کے دفتر اور انکم ٹیکس کے دفتر میں درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ تفتیش شروع ہوئی، پولیس کو ہدائت ہوئی   ایک کا ہندسہ   لکھنے والے کو گرفتار کیا جائے۔ کہا جاتا ہے پولیس چاہے تو ملزم کو پاتال سے بھی ڈہونڈ کر لا سکتی ہے۔ پولیس نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا، ملزم کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا لکھا ہوا    ایک کا ہندسہ    مٹائے۔ نیب کا خیال تھا کہ ایک کے مٹ جانے کے بعد، صفر، خواہ کتنے ہی ہوں اپنی وقعت کھو دیں گے۔ایسا ہی ہوا، اینٹوں کے سارے ہی بھٹے بیٹھ گئے۔ البتہ کہانی کے مطابق ایک مٹ جانے کے بعد وہ صفر بے وقعت ہو گیا جو ایک کو دس بناتا تھا  البتہ تیسرا  صفرجو سو بناتا تھا اپنے مقام پر قائم ہے مگر اس کی    قیمت    نوے ہے۔  
کہانی، کہانی ہی ہوتی ہے، ہمارا کام لکھنا ہے، نتیجہ نکالنا یا سبق حاصل کرنا قاری کا حق ہے اور پڑھ کر نذر انداز کردینے والوں کے اپنے حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا رواداری ہے، اس سے بڑھ کر رواداری کیا ہو سکتی ہے کہ دستر خوان بچھا کر معترض کو بھی کھلایا جائے اور اس کی تنقید کوبھی مسکرا کر سنا جائے۔



ہفتہ، 27 اپریل، 2019

زبان اور عمل کی لگام

؂
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے انسانوں کو ہدائت ار رہنمائی سے کبھی بھی محروم نہ رکھا۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی اسے عقل و شعورکے ساتھ ساتھ اپنی ایک بڑی صفت ْ علیم ْ میں سےعلم عطا فرما کر انسان کو اس قابل کر دیا کہ وہ راہ حیات کے روشن اور تاریک راستوں کو پہچان سکے۔ہم صبح و شام اپنے خدا سے سیدھی راہ کی طلب کرتے ہیں۔حالانکہ یہ راہ تو موجود ہے البتہ ہماری دعاوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ سیدہی راہ روشن ہو کر ہمیں اس طرح دکھائی دے کہ ہم یقین کامل اور دل کے اطمینان کے ساتھ اس پر چل سکیں۔ ذہنی بے یقینی انسان کی جبلت کا حصہ ہے، اس کے باوجود کامیاب لوگوں کی زندگی سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔
کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ مختلف لوگوں کے قابل تقلید لوگ (ہیرو) مختلف ہوتے ہیں۔البتہ اس عالم رنگ و بو میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دنیا کے اخلاقی طور پر تاریک ترین حصے میں روشن ہوااور اخلاقی، سماجی، نظریاتی اور عملی طور پر ایسے انقلابی اقدامات اٹھاٗے کہ دنیا کے کونے کونے سے اہل علم نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اس ہستی کا نام مبارک محمد    ہے جو اللہ کے اخری رسول ﷺ ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو ان کی اتباع میں لانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو بطور نمونہ اپنانے کے خواہش مند اپنے جبلی تعصبات سے بالا تر ہو کر بھی اس اجتماعیت سے دورہیں جس اجتماعیت نے رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں (اصحاب ) کے ایمان کو اس طرح راسخ کر دیا تھاکہ ان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی کامیابی گویا نظرآ رہی تھی۔جبلی طور پر انسان وہی ہے۔فطرت آدم بھی تبدیل نہیں ہوئی۔  قران بھی وہی ہے جو اصحاب رسول پڑہا کرتے تھے۔تعلیمات نبوی ﷺ بھی محفوظ ہیں ۔مگرآج اسلام کی وحدانیت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذہب ایک تقسیم کارآلہ بن کر رہ گیا ہے۔مقام غور ہے کہ ْ تبدیلی ْ کہاں ہوئی ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے

 ْ فی الحقیقت تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہائت ہی حسین نمونہ ہے ْ (الاحزاب)

اسوہ حسنہ عنوان ہے رسول اللہ کی حیات طیبہ کااور اس عنوان کے کئی ابواب اور پہلو ہیں، ان میں ایک پہلو کی خود خدا نے نشاندہی کی ہے ۔ فرمان الہی ہے

 ْ تم کیوں کہتے ہو جو کرتےنئیں ، بڑی بے زاری ہے اللہ کے یہاں ، کہ کہو وہ جو کرو نہ ْ ۔ اس عمل کو 

اردو کے ایک محاورے میں کہا گیا ہے ْ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ْ یہ عمل انسان کا ایسا کمزور پہلو ہے جس کی خدا نے نظریاتی طور پر اور خدا کے رسول نے عملی طور پر حوصلہ شکنی کی ہے۔سیرت النبی کا مطالعہ بتاتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہرنصیحت کے الفاظ میں عمل کی روح پھونک کراپنی تعلیمات کو ابدیت عطا فرمائی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا

 ْ جو قران میں الفاظ کی صورت میں ہے ،وہی حامل قرآن کی سیرت مین بطور عمل تھا ْ ۔

 انھوں نے اگر دوسروں کو کھلانے کی نصیحت کی تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا، اگر دوسروں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو ہند اوراس کے غلام کومعاف کیا، زہر کھلانے والوں سے در گذر کیا۔ اگر سوال کرنے والوں کے سوال پورا کرنے کی ہدایت کی تو شدید ضرورت کے ایام میں اپنی چادر اتار کر دے دی۔فرمان و اعمال میں ہم آہنگی کتاب اسوہ حسنہ کا روشن باب ہے۔اس فرمان نبی کا ہر لفظ عمل کی گردش پوری کرنے کے بعد زبان مبارک سے نکلا ہے

 ْ مومن وہ ہے جس کو لوگ امین سمجھیں ، مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ، 
مہاجر وہ ہے جس نے بدی کو چھوڑ دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصہ سے محفوظ نہ رہا ہو ْ 

قول و فعل کا ہم آہنگ نہ ہونا ایسا عیب ہے جو الفاظ کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔وعظ کو بے اثر بے جان الفاظ نہیں کیا کرتے۔ شخصیت کو گہن اقوال و افعال کی بے آہنگی لگایا کرتی ہے۔ ہمارے پاس خوبصورت اور مرصع الفاظ کی کمی ہے نہ دلپذیر حکائتوں کی قلت ۔ ناصحین کی بھی بہتات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زبان کو عمل کی لگام پہنانے کی ضرورت ہے

جمعرات، 18 اپریل، 2019

کالی ٹوپی

                           
 
ملک بھر میں دہشت گردی کے سبب سناٹا تھا۔  ایک شادی کے ولیمے کی دعوت تھی ۔ اس خوشی کے موقع پر بھی شرکاء کے چہروں پر خوشی کی بجائے انجانا خوف صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ شادی ہال میں میرے ساتھ بیٹھے دوستوں میں سے ایک نے چند ہفتےقبل ہونے والی سکول کی ایک تقریب کا ذکر چھیڑ دیا ۔یہ سکول راولپنڈی میں واقع ہے مگر تقریب اسلام آباد کے ْ محفوظْ مقام کنونشن سنٹر میں ہو رہی تھی۔ میں زندگی میں پہلی بار کسی ایسی تقریب میں شریک تھا جو ان بچوں کے لیے منعقد کی گئی تھی جو چند سال سکول میں گزار کر اس قابل ہو گئے تھے کہ پہلی جماعت میں داخلہ لے سکیں۔ اس تقریب کو سکول نے بچوں کی ْ
Graduation Ceremony
 کا نام دے رکھا تھا۔ بچوں نے باقاعدہ گاون پہنے ہوئے تھے اور سروں پر وہ ٹوپی سجا رکھی تھی۔ جس کے پہننے کی آرزو پوری کرنے کے لیے ہم نے سالوں کالج جانے والے رستے کو صبح و شام ناپا تھا۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ کالی ٹوپی صرف نوجوانوں ہی کا نہیں بلکہ پہلی جماعت تک پہنچ جانے والے بچوں کا سر بھی فخر سے بلند کر دیتی ہے۔تقریب کے بعد بچے بھی اپنی ٹوپیاں اچھال رہے تھے۔ ایک بچے نے خوشی کے اظہار میں ٹوپی اچھالی۔ قبل اس کہ وہ واپس بچے تک پہنچتی میں نے اسے ہوا میں ہی پکڑ کر بچے کے سر پر پہنا دیا۔ بچہ میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے پوچھا
 ْ مسٹر گریجویٹ یہ کیا ہےْ
 اس نے کہا ْ انکل یہ میری گریجویشن کی ری ہرسل ہے ۔ْ
 اپ کیا بننا چاہتے ہوْ
 جواب بے ساختہ تھا ْ اچھا مسلمان اچھا پاکستانی اور اچھا آئی ٹی گریجویٹ ْ 
ایک پھول کی طرح مسرت و شادمانی سے سرشار خاتون نے مسکراتے ہو ئے کہا ْ مسٹر گریجویٹْ ذیشان میرا بیٹا ہے۔ میں نے کہا ْ ذیشان کے
concepts
 اس عمر ہی کافی
clear
 ہیں۔ یہ آپ کی تربیت کا چمتکار ہے یا سکول نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری تربیت کا اثر بھی ہو سکتا ہے مگر میں اس کا کریڈٹ ذیشان کے اسکول ہی کو دوں گی ۔ تقریب کے اختتام پر میری اسلام آباد سے راولپنڈی واپسی پرنسپل صاحبہ کے ساتھ بات چیت کا موضوع کلیر اور ان کلیر کونسیپٹ ہی رہا ۔ پرنسپل نے ایک واقعہ سنایا جس کا خلاصہ ہے کہ بچہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے ،بچہ کامیاب ہو کر اپنی کامیابی کا ہار والدین اور اساتذہ کے گلے میں ڈالتا ہے اور ناکام رہ جانے والا نوجوان اپنی ناکامیوں کا بار والدین اور اساتذہ پر ہی ڈالتا ہے۔ کالی ٹوپی کے بارے میں ان کا کہنا تھاہم بچوں کو گاون اور ٹوپی پہنا کر ان کے ذہن میں ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اصلی گریجویشن کی اہمیت جان سکیں۔
ایک واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ ایک بی اے والد اور ایف اے والدہ کی بیٹی نے ایک دن راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں ایم اے کی ڈگری پانے کی خوشی میں منعقدہ تقریب کے بعد یونیورسٹی کے لان میں ٹوپی اچھالی تو اس کی ماں نے لپک پر اسے ہوا ہی میں اچک لیا۔اور بیٹی کے سر پر پہنایا، لڑکی نے دوبارہ اس ٹوپی کو اچھالا تو میں نے ہوا میں اچھل کر اسے اچک لیااور اپنے دوست کے سر پر پہنانا چاہا تو اس نے ٹوپی بیٹی کے سر پر پہنا کر کہا۔ یہ ٹوپی میرے قد سے اونچی ہے۔ خوشی سے میرے دوست کا چہرہ گلاب کی طرح کھل رہا تھا۔
 ڈہائی سال کے بعد میں ایک باراسی خاندان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر اس بار چہرے اترے ہوئے تھے۔ بات ڈھکی چھپی بھی نہ تھی ۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی اپنے خاندان میں اپنی پسند کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے ۔ جب کہ لڑکی نے اس شادی سے ماں کے سامنے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی نانی کو بھلا بھیجا تھا۔ اس کا خیال تھا لڑکی کو نانی راضی کر لے گی۔ مگر نانی سے آتے ہی اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔زیب النساء میں نے تجھے کہا تھا لڑکی نے ایف اے کر لیا ہے اب اس کی شادی کردو۔ اس وقت اس کے باپ کو شوق چڑہا ہوا تھا ماسٹر کرانے کا ۔ میں نے کہا نہیں تھا جب لڑکی کا قد والد ین سے اونچا ہو جائے تو خود سر ہو جایا کرتی ہے ۔ اس کا باپ تو کہا کرتا تھا میں اپنی بیٹی کو خود اعتمادی دے رہا ہوں اب اس میں خود اعتمادی آ گئی ہے تو اس خود اعتمادی کا بوجھ اس سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس سے پوچھو تو سہی کیااللہ اور اس کے رسول کا دیا ہوا حق اس لیے چھین لینا چاہتا ہے کہ اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ لوگ تو اولاد کو خوشیاں خرید کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی ہی بیٹی کی زندگی اجیرن کرنا چاہتا ہے۔ بلاو لڑکی کو کہاں ہے۔ لڑکی کا چہرہ بھی اترا ہوا تھااور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ نانی بولتی ہی گئی بس کرو یہ ٹسوے اور باپ کا سر چومو جس نے تمھیں کالی ٹوپی پہناتے پہناتے گنجا کر لیا ہے ۔ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی کہ والدین کو رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہے۔
ٓجس شادی ہال میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہاں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں انھوں نے سیاہ جناح کیپ پہن رکھی ہے۔ شادی کی اس تقریب میں دلہن میرے دوست کی بیٹی ہے، اس دلہن کی نانی کے الفاظ  میرے ذہن میں گویا چپک ہی گئے ہیں
 ْ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی ۔۔۔رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہےْ 

اتوار، 14 اپریل، 2019

فساد اور تبدیلی


ملک میں تبدیلی آرہی تھی ۔ عام لوگ تبدیلی کے حق میں جبکہ ایک طبقہ تبدیلی کے بالکل ہی مخالف تھا۔ بازار میں تبدیلی کے اثرات مہنگائی کو صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔چینی کی قیمت ایک دم ایک روپے سیر سے بڑھ کر سوا روپے سیر ہو جانے نے ملازم پیشہ افراد کے ذہن کے کئی طبق روشن کر دیے تھے۔ راولپنڈی میں بجلی ریپکو نام کی ایک نجی کمپنی پیدا ور تقسیم کرتی تھی۔اس لیے عوام کے اذہان کے کئی طبق روشن ہو جانے کے بعد بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوا۔میرے بچپن کا دور تھا۔ اس دور میں بچے سنتے زیادہ اور بولتے کم تھے۔ میری دادی مرحومہ کے پاس محلے کے ایک دوسرے گھر کی دادی گپ شپ لگانے آیا کرتی تھیں۔ موضوع مہنگائی ہی تھا۔ دوسرے گھر کی دادی نے کہا ْ میں عرصہ سے چار ٹوپے گیہوں دے کر پورے ہفتے کا سودا لاتی ہوں۔ کل بھی چار ٹوپے ہی میں پورے ہفتے کا سودا لے کر آئی ہوںْ 
بات پچپن سال پرانی ہے۔ میری یاد میں خریدو فروخت بارٹر سسٹم کے تحت ہوا کرتی تھی۔ ہر جنس کی ایک ْ ویلیوْ مقرر تھی۔ کسان کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سال اس کے لیے معاشی طور پر کیسا ہو گا۔ ملازم پیشہ کو یقین تھااس کی تنخواہ کہاں خرچ ہو گی۔ تاجر کا منافع معروف ہوا کرتا تھا۔اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا کرتا تھا۔
چند دن قبل ایک اخبار میں ایک دوست نے لکھا تھا ْ فرعون کے دور میں مرغی دو درہم کی تھی، آج بھی مرغی کی اصل قیمت دو درہم ہی ہے ْ جب میں یہ کالم پڑھ رہا تھاا میرے ذہن میں چار ٹوپے والی دادی کی تصویر ابھر رہی تھی۔
غور کیا جائے تو انسان کی کچھ جبلی ضروریات ہیں۔ جن میں روٹی، کپڑا، مکان اور سواری شامل ہیں۔ زندگی میں امن بھی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ جس معاشرے میں انسان کی یہ ضرورتیں پوری نہ ہو رہی ہوں وہ معاشرہ فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔
فساد یا فساد فی الارض ایسا گھناونا جرم ہے جس کی ہرعاقل انسان مذمت کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ فساد کہتے کس کو ہیں؟کسی بھی چیز کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا دینے کا نام فساد ہے۔مثال کے طور پر زمین سے پیدا ہونے والا آلو بیس روپے کا ایک کلو آتا ہے۔ ایک تاجر بیس روپے میں ایک ہزار گرام کی بجائے نو سو گرام آلو دے کربازار میں قیمتوں کا فساد پھیلا رہا ہے۔ یا ایک خاندان کا سربراہ اپنی میراث کو معروف قانون وراثت کی بجائے اپنی مرضی سے تقسیم کر کے بعض لواحقین کو بعض پر ترجیج دے کر نا انصافی کا مرتکب ہوتا ہے اور خاندان میں منافرت کے بیج بو کر ایسے اختلافات کا بیج بوتا ہے جو خاندان میں بغاوت اور سرکشی کا سبب بنتے ہیں ۔ خاندان کے اس سربراہ کے عمل کو فساد ہی کا نام دیا جائے گا۔ ایک حکمران اپنے عوام کو امن کی بجائے خوف اور دہشت پھیلا کر فساد کی بنیاد رکھتا ہے۔ 
ہم تیسری (غریب ) دنیا کے ممالک میں ماہرین معاشیات کے لیکچر سنتے ہیں۔ جس میں کاغذی کرنسی کو معاشیات میں فساد کی جڑ بتایا جاتا ہے ۔ ہم جمعے کے خطبے میں علماء دین کو ْ اعتدالْ سے گریز کو معاشرتی فساد کا سبب بتاتے سنتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماء ْ تبدیلیْ کو فساد کا منبع قرار دیتے ہیں۔ہمارے اسکالرزکا کہنا ہے کہ ہم لوگ علم کی بجائے ظن پر اعتقاد کرتے ہیں جو اصل فساد ہے۔ میڈیا کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ حق کو باطل اور باطل کو حق بتا کر معاشرے میں فساد پھیلایا جا رہا ہے۔
کیا معاشرے میں اصل اور نقل، حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، روشنی اور اندہیرے ، ہیرو اور غدار ، اپنا اور پرایا ، محسن اور ڈاکو کی پہچان ختم ہو چکی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور معاشرے میں اس ظن کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی تبدیلی کی زیادہ ضرورت ہے۔
ایک ذاتی تجربہ کی روداد۔ میرا پوتا جس کی عمرپانچ سال ہے بازار سے ایک ایسا کھلونا لے کر آیا جو بیٹری پر چلتا ہے۔ بیٹری ختم ہو جائے تو اس کو ْ ری چارج ْ کرنے کی سہولت بھی اس کھلونے کے اندر ہی موجود ہے اور ری چارج کرنے کا طریقہ بھی ایک صفحہ کے چھپے ہوئے کاغذ کی شکل میں موجود ہے۔ میرے پوتے نے میرے سامنے میز پر ہدایات کا کاغذ پھیلایا ۔ ہدائت نمبر ایک کے مطابق چارجر کی پن کو کھلونے کے نیچے دیے گئے سوراخ نمبر ایک میں گھسایا۔ ہدایت نمبر دو کے مطابق چاجر کے شو کو بجلی والی ساکٹ میں گھسایا، ہدایت نمبر تین کے مطابق بجلی مہیا کرنے والے ساکٹ کے بٹن کو دبا کر آن کیا۔ ہدائت نمبر چار کے مطابق عمل کرتے ہوے اس چھوٹی سی بتی کو چیک کیا جو بٹن آن ہونے کے بعد جل اٹھی تھی۔جب بت جل اٹھی اور اس کے کھلونے کی بیٹری چارج ہونا شروع ہو گئی تو اس نے وقت دیکھا ۔ اس کو یقین تھا ۔ چھپے ہوئے کاکاغذ پر دی گئی ساری ہدایت درست ثابت ہوئی ہیں اس لیے تیس منٹ بعد اس کا کھلونا دوبارہ ری چارج ہونے کے بعد اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اس سے مستفید ہو سکے۔
ہر انسان اشرف ہی نہیں زمین پر خالق کائنات کا خلیفہ یا نائب بھی ہے۔جب معاملات گڈ مڈ ہو جائیں ۔ ہمارے ذہن کی بیٹری ری چارجنگ مانگے تو ہمیں وہ ہدائت نامہ کھول کر سامنے رکھنا چاہیے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدائت اور شفا ہے۔ میرے پوتے نے اپنے ْ عملْ کے بعد یقین پایا کہ ہدائت نامہ پر نمبر شمار کے مطابق عمل کرنے سے ری چارج والی بتی جل اٹھتی ہے۔ 
اصل فسا د خود فریبی ہے۔ اور سب سے بڑی خود فریبی بے عملی ہے۔ اور بے عملی سے بڑا فساد اس کام کی تبلیغ کرنا ہے جس کام پر خود عمل پیرا نہ ہوا جائے۔

اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

پیر، 28 جنوری، 2019

اندھا کنواں ظالم ڈول



علم ہوکہ حکم، رویہ یا معاملہ جب اس کو فطرت کے اصول کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو ظلم کہلائے گا۔اور مظلوم وہ ہوتا ہے جس کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جاٗے جو اس کا نہ ہو۔ انفرادی زندگی میں ظلم کا نتیجہ بیماری، معذوری اور خود کشی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ خاندانوں میں ظلم نفرت، ناچاکی اور طلاق کا سبب بنتا ہے اور معاشروں میں جھوٹ، فریب، ڈاکہ ، دہاندلی اور قبضوں کا چن چڑہاتا ہے۔ ریاستی سطح پر بے اعتمادی، بد گمانی ، لوٹ کھسوٹ اور رشوت کو تقویت دیتا ہے۔ 

معاشرے کی مثال ایک دریا کی مانند ہوتی ہے جو اپنے فطری راستوں اور رفتار سے بہتا ہے۔ بہتے دریاو ں میں مخصوص موسموں میں طغیانی آنا بھی فطری عمل ہے البتہ بہتا دریا اچانک خشک ہو جائے تو یہ عمل فطری شمار ہو گا۔ پاکستان میں بہتے دریا خشک ہو گئے مگر ظلم یہ ہواکہ کسی جہاندیدہ بزرگ نے لاٹھی پکڑ کر پہاڑ پر نہ چڑہنا ہی گوارا نہ کیا۔

پاکستان کے عسکری ادارے کے ایک سربراہ نے اپنے ادارے اور حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو ادارے کے اندر سے کسی نے مزاحمت کی نہ کسی نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ وہ ملک جو بناتے وقت لاکھوں جانوں کی بلی دی گئی تھی ۔ اس کے دو لخت ہونے پر نہ کسی کی غلطی کی نشان دہی کی گئی نہ کسی پر مقدمہ چلا۔کیا اس کو ظلم کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟

ملک کی بنیاد رکھنے والوں نے صاف الفاط اور واضح لہجے میں بتایا تھا کہ یہ ایسا ملک ہوگا جہان تمام لوگوں کو امن میسر ہو گا۔ انگریز سے آزادی کا مطلب تھاشہریوں کو ریاست کے لیے قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے گا۔ انسان کی تکریم کی مثال قائم کی جائے گی تاکہ دوسرے ملکوں کو اس نظام کو اپنے ہاں نافذ کرنے کی حرص پیدا ہو۔ ظلم یہ ہوا کہ عملی طور پر ہم نے ایسا ملک بنایا جہاں انسانی جان بے وقعت ہو کر رہ گئی۔ ریاست عوام دوست کا کردار ادا کرنے کی میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ عوام دشمنی کو اپنی کامیابی گرداننے لگی۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو اپنی ہی سرزمین سے پکڑ کر دشمن کو فروخت کرے اور باقی ماندہ لوگوں کو ظلمتوں میں دھکیل کر بیرون ملک جا بسے اور ریاست چپ سادھ لے۔

ملک کی سب سے اونچی عدالت کے سب سے بڑے منصف کی عدالت میں منصف کے روبرو ایک شخص منصف پر رشوت مانگنے کا الزام لگائے ،الزام کی تردید ہو نہ عدالت کی توہین کا مقدمہ قائم کیا جائے نہ اس شخص کو پاگل خانے بھیجا جائے ۔ عدالتوں میں مقدما ت پر ریلیف دینے کی روائت تو کسی کتاب میں پڑہی نہ اخباروں مین دیکھی مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل درجنوں ملکوں سے بہتر ہے ۔ ایسی خود فریبی کو ظلم کے علاوہ دوسرا کیا نام دیا جائے۔

اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو پیشانی سے قابو کرتا ہے مگر ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے وہ مخالفین کو کرپشن کے نام پر پکڑتی ہیں۔ کرپشن وہ غبارہ ہے جس میں بے بنیاد پروپیگنڈے کی ہوا بھر کر اس کو پھلایا جاتا ہے اور عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ کرپشن سے بھرا ہوا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جو معاشرہ سول حکومت کے دوران کرپٹ ہوتا ہے ۔ کسی آمر کے آتے ہی حاجی اور پرہیز گار ہو جاتا ہے مگر جوں سول حکومت قدم رنجہ ہوتی ہے یہ شیطان اسی لمحے مخالفین پر اپنا جال پھینک کر انھیں کرپٹ بنا دیتا ہے۔ یہ جو اہل دانش کا فرما ن ہے کہ ظلم کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ ان کو کوئی جا کر خبر کرے ۔آو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو ہم نے ظلم کے غبارے میں اپنے جبر سے ہوا بھر کے اسے قائم بھی رکھاہوا ہے۔

کرپشن وہ اندھا کنواں ہے جس میں بار بار ڈول ڈالا جاتا ہے ۔ پہلے لوگ ڈول ڈالنے کے اس تماشے کو اشتیاق سے دیکھتے تھے۔ مگرہر بار اور بار بار یہ ڈول بے مراد ہی واپس آیا ہے۔ اب عوام بھی جان چکی ہے اس اندھے کنویں میں امید کا گمان بھی نہیں ہے ۔ جبر مگر یہ ہے کہ یہ ظالم ڈول ڈالنے والوں کے لیے خالی نہیں ٓتا۔اور یہی سب سے بڑا ظلم ہے ۔

جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

پاکستان اکیلا نہیں ہے اس حمام میں


‪CBI moin akhtar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                   
پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں سی بی آئی اسکینڈل چل رہا ہے جس میں ہونے 
والی تحقیقات کے دوران سی بی آئی کے کئی ایک ڈائریکٹرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے ہیں اور ان سب کے زوال کا سبب بنے والے شخص کا نام ہے معین اختر قریشی۔
ارب پتی معین اختر قریشی کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے اور اُن کا شمار گوشت کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔انہیں سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
معین اختر قریشی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سے سرکاری افسران کو خوش رکھنے کے لیے انہیں حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ان کی طرف سے نوازے جانے والوں میں سی بی آئی افسران اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معین قریشی کا نام 2014ء میں سامنے آیا جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے سی بی آئی چیف رنجیت سنہا سے 15ماہ کے دوران 70بار ملاقات کی۔حیدرآباد دکن کے بزنس مین ستیش بابو کے مطابق انہوں نے اپنے ایک دوست کی ضمانت کے لیے معین اختر قریشی کو ایک کروڑ روپے دیے تھے۔
2014ء کے بعد بھی معین اختر قریشی کے سی بی آئی کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور پیغامات کا تبادلہ جاری رہااور اب سی بی آئی کے نئے چیف الوک ورما بھی ان سے تعلقات رکھنے کے الزام میں اپنے سارے اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قریشی نے اپنے کاروبار کا آغاز 1993ء میں رامپور میں ایک چھوٹے سے مذبح خانے سے شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار بھارت کے چند بڑے گوشت برآمدکنندگان میں ہونے لگا۔25سال کے دوران ان کی کمپنیوں کی تعداد 25ہوگئیہے اوروہ برآمدات کے علاوہ تعمیرات اور فیشن انڈسٹری میں اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔