Saudia لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Saudia لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 5 جون، 2025

سعودی شہزادہ


 

عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے

تحریر: دلپزیر

سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔

پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔

اگر کوئی وجہ باقی ہے، تو وہ ہے سعودی تعلقات — اور خاص طور پر محمد بن سلمان کا وہ اثر جو ٹرمپ پر قائم ہوا۔ ایک حالیہ مثال رچرڈ گرنیل کی سرگرمی ہے، جو ٹرمپ کے مشیر رہے اور پاکستان کے خلاف سخت بیانیے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب وہ پاکستان پر تنقید کر رہے تھے، تو نہ کسی سفارتکار کی تقریر مؤثر ہوئی، نہ یوتھیاؤں کی امریکہ میں لابنگ کامیاب ہوئی۔
لیکن پھر ایک کال — سعودی وزیرِ دفاع کی طرف سے — اور رچرڈ گرنیل کی آواز بند ہو گئی۔

یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے — اور وہ ہے عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری۔
سعودی ولی عہد کو عمران خان کی شخصیت سے خاصی ناپسندیدگی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آ چکی ہیں:
اول، وہ قیمتی گھڑی جو
 MBS
 کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی، بازار میں بیچ دی گئی۔
دوم، عمران خان کی کابینہ یا قریبی حلقے سے 
MBS
 کے خلاف نازیبا کلمات سعودی سفارتی ذرائع تک پہنچے، جسے ولی عہد نے ذاتی توہین کے مترادف سمجھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما اگر کبھی پاکستان کے لیے کسی نرم گوشے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ نہ اسلام آباد ہے، نہ واشنگٹن کی کوئی پالیسی۔
وہ صرف اور صرف
 MBS
 کی ذاتی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہو گی۔

پاکستان کو مستقبل میں اگر دنیا میں کوئی حیثیت درکار ہے، تو اسے اپنے خارجی تعلقات کو انا، ضد اور ذاتی رویوں سے الگ رکھنا ہو گا۔
سفارت صرف بیانات اور تصویروں سے نہیں چلتی — یہ رشتوں، عزت داری، اور بھروسے سے چلتی ہے۔

یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔


ہفتہ، 6 جنوری، 2018

نئِ گرفتاریاں


سعودی عرب کے انتہائی طاقتور ہو جانے والے حکمران ولی عہد بن سلیمان کے خلاف مزاحمت کے آثار طاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ بن سلیمان جو ملک کے اندر طاقت کے حصول میں اپنے ذاتی دوست امریکی صدر ٹرمپ کے اعلیٰ مشیر کشنیر کے واسطے سے امریکی صدر کی معاونت حاصل کرتے رہے ہیں شائد اب وہ اب سعودی شہزادے کی مدد نہ کر پائیں ۔
 sabq.org 
پر شائع شدہ مواد کے مطابق سعودی شاہی خاندان کے لوگ بن سلیمان سے اس خون بہا کا مطالبہ کر رہے ہیں ، ویب سائٹ ، کے مطابق جو پچھلے ماہ جان بحق ہوا تھا۔ دسمبر کے مہینے میں سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کو پکڑ دھکڑ ہوئی تھی ، ایک ماہ بعد بھی ان میں سے کسی کا مقدمہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا ہے، سعودیہ میں خبروں کا حصول مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے اس کے باوجود کچھ سعودی شہری ملک سے باہر کچھ کہہ دیتے ہیں یا پھر کچھ ایسی ویب سائٹس ہیں جو اندر کی خبر لیک کرتی ہیں مگر جلد ہی وہ بھی انٹرنیٹ کے سمندر میں ڈوب جاتی ہیں ۔ ایسی ہی مذکورہ ویب سائٹ 
ہے اس نے یہ خبر لیک کی ہے کہ سعودیہ کے مشہور قصر الحکم میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادوں کا ایک اجلاس ہوا ، یہ شہزادے ولی عہد محمد بن سلیمان کے طریق کار کے مخالف ہیں اور ان کی کچھ پالیسوں کے ناقد بھی ۔ البتہ ان کا یہ مطالبہ بن سلیمان کے سامنے رکھنے کا ویب سائٹ نے دعوی کیا ہے ۔ اس ویب سائٹ کی کہانی کو تقویت مشہور سعودی اخبار عقاظ میں چھپی ایک رپورٹ سے ملتی ہے جس میں شاہی خاندان کے گیارہ شہزادوں کو حکومتی تحویل میں لینے کا ذکر ہے ۔ اخبار نے سعودی حکومت کے اس عزم کو دھرایا ہے کہ حکومت کی نظر میں سب شہری برابر ہیں خواہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ 
گرفتار شدہ گیارہ شہزادوں کے بارے میں مزید کوئی خبر کہیں سے بھی دستیاب نہیں ہے البتہ سعودی شاہی خاندان کے اندر محسوس کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر اور ان کے داماد کی جانب سے بن سلیمان کے لئے وہ گرمجوشی مدہم ہو رہی ہے جس کا اظہار پچھلے ماہ ، امریکی صدر کے ، اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو القدس میں منتقل کرنے کے اعلان سے پہلے ہو رہا تھا۔ 

جمعہ، 10 نومبر، 2017

سعودی ولی عہد کا تعارف




سعودی عرب میں مجوزہ تبدیلیوں کے علمبردار ، شہزادہ محمد بن سلیمان متحرک تو ہو گئے ہیں مگر انھوں نے بھی خبر باہر نہ نکلنے دینے کی روائت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ا س کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے ، سعودی عرب میں 
خبروں کی رسمی تصدیق کے بارے میں یہ بیانیہ عام ہے کہ ْ فوتیدگی کی خبرکی تصدیق میت کوفنانے کے بعد کی جاتی ہےْ 
اس روائتی معاشرے کو ملک شاہ سلیمان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے بدل ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ولہ عہد جن تبدیلوں کے داعی ہیں ان کا ذکر ان کے
vision 2030
کے علاوہ انکے میڈیا کو دیے گئے انٹرویو یا پھر مملکت کے اندر اور باہر ماہرین کے اندازوں سے اب تک جو نکھر کر سامنے آیا ہے یہ ہے

ٌ* مملکت کے اندر حالات کی بے یقینی کو ختم کرنا *
ٌ* جامد معاشرے کو فرسودہ خیالات سے آزاد کرانا*
* عورتوں کو ان کے حقوق دینا*
*نوجوانوں کو ذمہ داریوں میں حصہ دار بنانا*
*مذہبی حوالے سے قائم سختی کو نرمی میں تبدیل کرنا*
* شہزادوں سمیت حکومتی اداروں میں کرپشن کا خاتمہ*
* بدلتے معاشی حالات کے چیلیج کو قبول کر کے متبادل تلاش کرنا*
* مملکت اور علاقے میں انتہا پسندی اور جہادی تنظیموں کا قلع قمع کرنا*
* مغرب میں پھیلی اسلامی انتہا پسندی کو لگام دینا*
* خطے میں ایران کے بڑہتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا*
اس ایجنڈے پر غور و خوض تو چند مہینوں سے جاری تھا مگر آغاز کار کے طور پر یہ طے ہوا کہ ابتداء کرپشن کے خاتمے سے کی جائے۔اس کے کام کی ابتداء خادم الحرمین شریفین نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے فرمائی کہ انھوں نے اپنے ولی عہد کی سربراہی میں ایک کمیٹی کو وسیع اختیارات دے کر یہ کام اس کے سپرد کر دیا۔
اس کمیٹی کی کارکردگی، اس کے اثرات ، معیشت کے اس پر اثرات ، ممکنات اور نا ممکنات ، مملکت کے اندر عوام پر اس کے اثرات، ؑ علاقے میں تبدیلی کے لوازمات ، اور ممکنہ رد عمل پر مختلف لوگوں اور ماہرین کی رائے مملکت کے اندر سے اور دنیا بھر سے پیش کی جائے گی ۔مگر آج کی قسط میں شہزدہ محمد بن سلیمان کا ذاتی تعارف پیش کیا جائے گا ۔ اس مقالے میں طوالت سے بچنے کے لیے القابات سے صرف نظر کرتے ہوئے شہزدہ محمد بن سلیمان کے لیے ْ بن سلیمانْ اور خادم الحرمین شریفین کے لیے ْ شاہ سلیمانْ کا تخفیف شدہ نام استعمال کریں گے۔

بن سلیمان 13 اگست 1985 کو ریاض میں پیدا ہوئے
ان کی والدہ کا نام فضہ بنت فلاح بن سلطان ہے ان کا تعلق سعودیہ کے ایک با اثر قبیلے عجمان سے ہے ، اس قبیلے کے سرادر راکان بن ہیثلیم نامی بزرگ ہیں ۔ 
بن سلیمان کی 2008 میں شادی ہوئی ان کے3 بچے ہیں ، ان کی زوجہ کا نام شہزادی سارہ بنت مشہور بن عبد العزیر السعود ہے
سعودی شاہی خاندان کی روایات یہ رہی ہے کہ وہ اپنے شہزادوں کو تعلیم کے لیے برطانیہ ، امریکہ یا دوسرے ممالک میں بھجتے ہیں مگر ان روایات کے بر عکس بن سلیمان کی ساری تعلیم مملکت کے اندر ہی کی ہے۔
بن سلیمان نے کنگ سعود یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، یونیورسٹی کی تعلیم سے قبل ثانویہ (سکول کی مکمل ۲۱ سالہ تعلیم) بھی ریاض ہی کے ایک سکول سے مکمل کی تھی ۔اور پرائمری تعلیم بھی ریاض ہی کے ایک مقامی سکول سے حاصل کی تھی۔
اپنی تعلیم کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر
MiSK
کے نام سے ایک ادارہ بھی تشکیل دیا تھا۔ جس کا مقصد سعودی نوجوانوں کی خوبیوں کو اجاگر کرنا تھا۔اس ادارے کی اچھی کار کردگی پر انھیں 
Forbes Middle east 
ْ نے ْ سال کی شخصیت ْ کا خصوصی ایوارڈ پیش کیا تھا۔
ان کی سب سے پہلی تعیناتی ریاض کی مسابقاتی کونسل میں بطور سیکر ٹری جنرل تھی
وہ شاہ عبد العزیز فاونڈیشن کے بورڈ کے چیرمین کے خصوصی مشیر بھی رہے 
مملکت میں البیر سوسائٹی برائے ترقی ایک معروف ادارہ ہے، بن سلیمان اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
2007
میں انھیں کونسل آف منسٹرز کا مشیر بنا دیا گیا وہ دو سال اس عہدہ پر قائم رہے حتیٰ کہ
2009
میں وہ شاہ سلیمان کے مشیر مقرر ہوئے ، شاہ سلیمان اس وقت ریاض کے گورنر تھے ، ان ذمہ داریوں کے ساتھ وہ جز وقتی طور پر کونسل آف منسٹرز سے بھی وابستہ رہے، شاہ سلیمان کے مشیر کی حیثیت سے بن سلیمان نے اپنے والد کا اعتماد جیتا اور وہ اپنے والد کے دست راست ثابت ہوئے۔انھوں نے گورنر ریاض کے دفتر میں کئی بنیادی تبدیلیاں کی جن سے دفتر کی کار کردگی مزید مثبت ہو ئی
2015
میں جب شاہ سلیمان نے سعودی عرب کا تخت سنبھالا تو بن سلیمان کو وزیر دفاع اور نائب ولی عہد بنا دیا گیا۔
2016
جون کے مہینے میں وقت کے ولی عہد بن سلیمان کے حق میں اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔
اس وقت 
32 
سالہ بن سلیمان مملکت سعودی عرب کے تخت و تاج کے مالک 
81 
سالہ خادم الحرمیں شریفیں صاحب جلالہ ملک سلیمان بن عبد العزیز السعود کے ولی عہد، وزیر دفاع ، انسداد کرپشن کے چیرمین ، کونسل برائے مالی امور کے چیرمین ، 
Vision 2030
کے خالق ، جدیدیت کے داعی ، سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلیوں کے مبدی کے طور پر مملکت  سعودی 

عرب کے نوجوانوں اور خواتین کے مقبول رہنماء ہیں۔

.....جاری ہے