saudi Arabia لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
saudi Arabia لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 1 فروری، 2018

نئے راستے


 ٓ تجارتی راستوں پر اجارہ داری اور ان کی حفاظت ، اور اپنے تجارتی سامان کی بحفاظت منڈیوں تک ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس کو کوئی بھی ملک یا معاشرہ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی سرپرستی میں معرض وجود میں آنے والا
Asian Quad 
ایک ایسا ہی اتحاد ہے جس میں دوسروں کے ساتھ امریکہ، بھارت، جاپان اور اسٹریلیا شامل ہیں۔دوسری طرف چین کی سرپرستی میں 
One Belt One Route .OBOR
 کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جس میں چین کو روس کی حمائت حاصل ہے اور اس میں سری لنکا، مالدیپ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ 
اس خطہ میں امریکہ کی سرپرستی میں ناٹو کے نام سے ایک اتحاد پہلے ہی قائم ہے جو دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے لیے متحرک ہے، اس کے باوجود افغانستان سے لے کر لیبیا تک علاقائی طاقتور تنظیموں نے مقامی حکومتیں گرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
کیا ناٹو اپنی افادیت کھو چکی ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب اگر ہاں میں نہ ہو تو بھی اس کا کردار مشکوک ضرور ہو چکا ہے۔اس بے یقینی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک ْ اسلامی ْ ہیں ۔ اور ان ممالک میں خود حفاظتی کا گہرا حساس پایا جاتا ہے۔ مگر یہ ممالک انفرادی طور پر وسائل کی کمی اور سیاسی حالات کی ستم ظریفی کے باعث مجبور ہو گئے کہ وہ اپنے خطے کے تجارتی راستوں سمیت اپنے مفادات کی حفاظت خود کریں۔ان ممالک کو بنیادی طور پر خطرہ ان ہی طاقتور علاقائی تنظیموں سے ہے جو یا تو حکومتوں سے نظریاتی اختلاف رکھتی ہیں ، یا پھر وہ دشمن ممالک کے ساتھ مالی مفادات کے لیے گٹھ جوڑ رکھتی ہیں۔ اسلامی ممالک میں ایسی تنظیمی عام طور پر مذہبی بنیاد پر بنتی ہیں یا پھر مسلکی تقسیم ان کا نظریاتی اثاثہ ہوتی ہے اور پھر دشمن ممالک کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی مین ملوث ہو جاتی ہیں۔ 
ٰٰIMCTC
یا ْ التحالف الاسلامی العسکری لمحاربۃالارھاب ْ کے نام سے قائم ہونے والا اکتالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد ایک ایسی کوشش ہے ۔ پاکستان سمیت کچھ ممالک کے اندر اس اتحاد کے بارے میں عوام کا ایک طبقہ یہ کہتا پھر رہا ہے کہ یہ سعودی عرب کی سرپرستی میں سنی مسلک کے ممالک کا ایسا اتحا د ہے جس نے مگر سعودی و ایرانی علاقائی کشمکش میں سعودیہ کی طرف داری کر نا ہے۔ اور اس خدشہ کو تقویت اس اتحاد کی بناوٹ سے ملتی ہے ، سعودیہ نہ صرف اس اتحاد کا سرپرست ہے بلکہ اس کا اپریشنل مرکز بھی 
ریاض ہی میں ہے۔ اس اتحاد پر سب سے پہلے تحفظات کا اظہار بھی ایران ہی کی جانب سے کیا گیا تھا۔

مگر پاکستان کے آرمی چیف جناب باجوہ صاحب اپنے دورہ ایران کے دوران ایران کو یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ یہ صرف دہشت گردی کے خلاف اتحاد ہے اس کے بعد ایران کی جانب سے اس اتحاد مخالف بیانات کا سلسلہ رک گیا ہے۔ پاکستان آرمی کے سابقہ چیف جناب راحیل شریف صاحب کا اس اتحاد کی کمانڈ قبول کرنا ایسا عمل ہے جس نے ایران نے اس اتحاد کے بارے میں خدشات کو اگر ختم نہیں کیا تو بھی کم ضرور کیا ہے۔

جناب راحیل شریف نے یہ عہدہ قبول ہی اسی شرط پر کیا ہے کہ ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے گا۔اسلامی سربراہی کانفرنس اس اتحاد کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اقوم متحدہ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، چین نے اس اتحاد کو پسندکرتے ہو ئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔مصر کی الازہر یونیورسٹی نے اسے تاریخی اور مثبت قرار دیا ہے۔جرمنی نے اس اتحاد کی حوصلہ افرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو بھی اس اتحاد کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس اتحاد کے اساسی بیانئے مین شامل ہے کہ یہ تمام ممبران ، امن دوست ممالک، عالمی اور علاقائی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرئے گا ۔
ریاض میں ملک کے اندر سخت گیر پالیسیوں کے خلاف گہرا اور مصمم ارادہ پایا جاتا ہے، اور وہ اکیسویں صدی میں دنیا کے ساتھ قدم بقدم شامل ہونا چاہتے ہیں ، قدامت پسندی کا چغہ اتار دیا گیا ہے ۔ حکمرانوں کی نئی سوچ نے نوجوان سعودیوں میں گویا نیا ولولہ پیدا کر دیا ہے اوریہ کہنا درست ہے کہ اس وقت ریاض میں ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ 
نئے فوجی اتحاد کا بنیادی مقصدہی یہ ہے کہ ترقی کی راہ میں حائل قدامت پسندی کو کچلا جا سکے تاکہ علاقے کے باسی امن و سکون کے ساتھ ترقی کی شارع پر گامزن ہو سکیں۔امن وہ بنیادی عنصر ہے کہ جس کی غیر موجودگی انفرادی سکون اورمعاشرتی تحفظ کا حصول ممکن نہیں رہتا ۔ بد امنی کاروباری مقامات اور تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بناتی ہے۔ اور علاقائی تجارتی منڈیوں اور گذرگاہوں کا تحفظ سارے خطے ہی کے مفاد میں ہے ۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد امن کو قائم رکھنا ہے اور امن سے کسی کو بھی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

جمعہ، 10 نومبر، 2017

سعودی ولی عہد کا تعارف




سعودی عرب میں مجوزہ تبدیلیوں کے علمبردار ، شہزادہ محمد بن سلیمان متحرک تو ہو گئے ہیں مگر انھوں نے بھی خبر باہر نہ نکلنے دینے کی روائت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ا س کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے ، سعودی عرب میں 
خبروں کی رسمی تصدیق کے بارے میں یہ بیانیہ عام ہے کہ ْ فوتیدگی کی خبرکی تصدیق میت کوفنانے کے بعد کی جاتی ہےْ 
اس روائتی معاشرے کو ملک شاہ سلیمان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے بدل ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ولہ عہد جن تبدیلوں کے داعی ہیں ان کا ذکر ان کے
vision 2030
کے علاوہ انکے میڈیا کو دیے گئے انٹرویو یا پھر مملکت کے اندر اور باہر ماہرین کے اندازوں سے اب تک جو نکھر کر سامنے آیا ہے یہ ہے

ٌ* مملکت کے اندر حالات کی بے یقینی کو ختم کرنا *
ٌ* جامد معاشرے کو فرسودہ خیالات سے آزاد کرانا*
* عورتوں کو ان کے حقوق دینا*
*نوجوانوں کو ذمہ داریوں میں حصہ دار بنانا*
*مذہبی حوالے سے قائم سختی کو نرمی میں تبدیل کرنا*
* شہزادوں سمیت حکومتی اداروں میں کرپشن کا خاتمہ*
* بدلتے معاشی حالات کے چیلیج کو قبول کر کے متبادل تلاش کرنا*
* مملکت اور علاقے میں انتہا پسندی اور جہادی تنظیموں کا قلع قمع کرنا*
* مغرب میں پھیلی اسلامی انتہا پسندی کو لگام دینا*
* خطے میں ایران کے بڑہتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا*
اس ایجنڈے پر غور و خوض تو چند مہینوں سے جاری تھا مگر آغاز کار کے طور پر یہ طے ہوا کہ ابتداء کرپشن کے خاتمے سے کی جائے۔اس کے کام کی ابتداء خادم الحرمین شریفین نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے فرمائی کہ انھوں نے اپنے ولی عہد کی سربراہی میں ایک کمیٹی کو وسیع اختیارات دے کر یہ کام اس کے سپرد کر دیا۔
اس کمیٹی کی کارکردگی، اس کے اثرات ، معیشت کے اس پر اثرات ، ممکنات اور نا ممکنات ، مملکت کے اندر عوام پر اس کے اثرات، ؑ علاقے میں تبدیلی کے لوازمات ، اور ممکنہ رد عمل پر مختلف لوگوں اور ماہرین کی رائے مملکت کے اندر سے اور دنیا بھر سے پیش کی جائے گی ۔مگر آج کی قسط میں شہزدہ محمد بن سلیمان کا ذاتی تعارف پیش کیا جائے گا ۔ اس مقالے میں طوالت سے بچنے کے لیے القابات سے صرف نظر کرتے ہوئے شہزدہ محمد بن سلیمان کے لیے ْ بن سلیمانْ اور خادم الحرمین شریفین کے لیے ْ شاہ سلیمانْ کا تخفیف شدہ نام استعمال کریں گے۔

بن سلیمان 13 اگست 1985 کو ریاض میں پیدا ہوئے
ان کی والدہ کا نام فضہ بنت فلاح بن سلطان ہے ان کا تعلق سعودیہ کے ایک با اثر قبیلے عجمان سے ہے ، اس قبیلے کے سرادر راکان بن ہیثلیم نامی بزرگ ہیں ۔ 
بن سلیمان کی 2008 میں شادی ہوئی ان کے3 بچے ہیں ، ان کی زوجہ کا نام شہزادی سارہ بنت مشہور بن عبد العزیر السعود ہے
سعودی شاہی خاندان کی روایات یہ رہی ہے کہ وہ اپنے شہزادوں کو تعلیم کے لیے برطانیہ ، امریکہ یا دوسرے ممالک میں بھجتے ہیں مگر ان روایات کے بر عکس بن سلیمان کی ساری تعلیم مملکت کے اندر ہی کی ہے۔
بن سلیمان نے کنگ سعود یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، یونیورسٹی کی تعلیم سے قبل ثانویہ (سکول کی مکمل ۲۱ سالہ تعلیم) بھی ریاض ہی کے ایک سکول سے مکمل کی تھی ۔اور پرائمری تعلیم بھی ریاض ہی کے ایک مقامی سکول سے حاصل کی تھی۔
اپنی تعلیم کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر
MiSK
کے نام سے ایک ادارہ بھی تشکیل دیا تھا۔ جس کا مقصد سعودی نوجوانوں کی خوبیوں کو اجاگر کرنا تھا۔اس ادارے کی اچھی کار کردگی پر انھیں 
Forbes Middle east 
ْ نے ْ سال کی شخصیت ْ کا خصوصی ایوارڈ پیش کیا تھا۔
ان کی سب سے پہلی تعیناتی ریاض کی مسابقاتی کونسل میں بطور سیکر ٹری جنرل تھی
وہ شاہ عبد العزیز فاونڈیشن کے بورڈ کے چیرمین کے خصوصی مشیر بھی رہے 
مملکت میں البیر سوسائٹی برائے ترقی ایک معروف ادارہ ہے، بن سلیمان اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
2007
میں انھیں کونسل آف منسٹرز کا مشیر بنا دیا گیا وہ دو سال اس عہدہ پر قائم رہے حتیٰ کہ
2009
میں وہ شاہ سلیمان کے مشیر مقرر ہوئے ، شاہ سلیمان اس وقت ریاض کے گورنر تھے ، ان ذمہ داریوں کے ساتھ وہ جز وقتی طور پر کونسل آف منسٹرز سے بھی وابستہ رہے، شاہ سلیمان کے مشیر کی حیثیت سے بن سلیمان نے اپنے والد کا اعتماد جیتا اور وہ اپنے والد کے دست راست ثابت ہوئے۔انھوں نے گورنر ریاض کے دفتر میں کئی بنیادی تبدیلیاں کی جن سے دفتر کی کار کردگی مزید مثبت ہو ئی
2015
میں جب شاہ سلیمان نے سعودی عرب کا تخت سنبھالا تو بن سلیمان کو وزیر دفاع اور نائب ولی عہد بنا دیا گیا۔
2016
جون کے مہینے میں وقت کے ولی عہد بن سلیمان کے حق میں اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔
اس وقت 
32 
سالہ بن سلیمان مملکت سعودی عرب کے تخت و تاج کے مالک 
81 
سالہ خادم الحرمیں شریفیں صاحب جلالہ ملک سلیمان بن عبد العزیز السعود کے ولی عہد، وزیر دفاع ، انسداد کرپشن کے چیرمین ، کونسل برائے مالی امور کے چیرمین ، 
Vision 2030
کے خالق ، جدیدیت کے داعی ، سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلیوں کے مبدی کے طور پر مملکت  سعودی 

عرب کے نوجوانوں اور خواتین کے مقبول رہنماء ہیں۔

.....جاری ہے

جمعرات، 9 نومبر، 2017

کالی رات لمبے خنجر



چارنومبر 2017 کی رات کو جو معرکہ برپا ہوا ، اسے عالمی میڈیا نے ْ لمبے خنجروں والی رات ْ کا نام دیا ہے، ناتجربہ کار، نوجوان ، اختیارات کا حریص سمجھا جانے والا 32 سالہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان اس بحران سے سعودی نوجوانوں اور خواتین کا ہیرو بن کے اٹھا ہے، شہزادے نے حیرت انگیز طور پر شاہی محل کے اندر ان شخصیات پر ہاتھ ڈالا جو مقتدر خیال کی جاتی تھیں۔ 
نومبر کے شروع میں جب ریاض کے ہوٹل کو خالی کرایا جا رہا تھا تو کسی کے وہم ہو گمان بھی نہ تھا کہ 4نومبر کو اس میں ایسے مہمان لائے جائیں جن کی امد پر ہوٹل میں موجود ہر شخص ادب سے سر جھکاتا تھا مگر اس دن کی صبح کو اس ہوٹل پر سیکورٹی اداروں کا مکمل کنٹرول ہو گیا تو طے شدہ پروگرام کے مطابق سورج غروب ہوتے ہی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیامگر یہاں انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے ہوٹل کا عملہ نہیں بلکہ سیکورٹی اور تفتیشی اداروں کے افسران تھے۔ سعودیہ میں ، لوگوں کو شک بھی نہیں ہو سکتا ، کہ ال سعود کے خلاف کوئی سازش نیشنل گارڈز یا مقامی طور پر الحرس الوطنی کے نام سے معروف ادارے سے اٹھ سکتی ہے جس کا اول و آخر مقصد ہی آل سعود اور بادشاہت کی حفاظت ہے مگر یہ آل سعود کے خلاف بغاوت بالکل بھی نہیں تھی۔



شہزادہ محمد بن سلیمان مملکت سعودی عرب کے ولی عہد ہی نہیں بلکہ اپنے والد کی پشت پناہی سے حقیقی حکمران بھی ثابت ہو رہے ہیں، انھوں نے اسی سال ایک ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا
 ْ جو کوئی کرپشن میں مبتلاء ہو گا اسے چھوڑا نہیں جائے گا خواہ وہ وزیر ہو یا شہزادہ ْ    
۔ انھوں نے سترہ شہزادوں اور درجنوں حاضر یا سابقہ وزراء ، وزراء مملکت اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں اور کاروباری شخصیات کو سرکاری تحویل میں لینے کا دبنگ فیصلہ ہی نہیں لیا بلکہ اس پر عمل بھی کر ڈالا، دو کروڑ سعودیوں جن میں خواتین اور نوجوان بھی ہیں نے شہزادے کے اس عمل کو خوش گوارحیرت سے دیکھا ، جو ان کے نزدیک 
تبدیلی ، جدیدیت اور کرپشن کے خلاف ہیرو بن کے اٹھا ہے




ولی عہد شہزادے کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے والا ایک طاقتور شہزادہ الولید بن طلال ہے ، جن کے مالی اثاثوں کی مالیت مملکت کے اندر اور باہر اتنی زیادہ ہے کہ انھیں عرب دنیا کا امیر ترین فرد کہا جاتا ہے


تحویل میں لیے جانے والے دوسرے طاقتور شہزادے کا نام متعب بن عبداللہ ہے جو مملکت کے اہم ادارے الحرس الوطنی کے وزیر تھے، وہ اسی ادارے کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں ان کو معزولی کے حکم کے ساتھ ہی حراست میں لے لیا گیا 




 

پرنس محمد بن سلیمان جو سعودیہ میں تبدیلی اور جدیدیت کے بانی کے طور پر خود کو متعارف کرانا پسند کرتے ہیں ، بات چیت میں عربی کے ساتھ ایک ہی جملے میں انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، سعودیہ میں ، جہاں عورتوں کو گاڑی چلانیکی اجازت دینا عشروں سے ایک سماجی مسٗلہ بنا ہوا تھا اس قسم کی زبان کا استعمال بھی ایک بڑا جرات مندانہ اقدام ہے، ولی عہد شہزادہ کی جرات اس وقت ہی دو چند ہو گئی تھی جب خادم الحرمیں شریفین نے 2015 میں ان کو مالی معاملات کی دیکھ بھا ل اور نگرانی کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس خود مختاری کے بعد جو
Vision 2030
 سامنے آیا ہے اس کے مطابق تبدیلی اور جدیدیت کا عملی مظاہرہ شروع ہو گیا ہے ، بول چال میں انگریزی 
زبان کے الفاظ کا استعمال خود شہزادے نے شروع کیا ہے، عورتوں کو گاڑی کی ڈرائیونگ کی اجازت دیا جانا ایک بڑا اور جدیدیت کا انقلابی فیصلہ شمار کیا جاتا ہے جو سعودی معاشرے کو بدل کر رکھ دے گا ،اصل ترقی اور خوشحالی کا دور اس وقت شروع ہونا ہے جب سرکاری کمپنی آرامکو کی نجکاری کا عمل شروع ہوگا جس کے اثاثوں کی مالیت کا اندازہ 2 ٹریلین امریکی ڈالر سے زیادہ بتایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ایک بالکل ہی نیا اور منفرد آئیڈیا مملکت کے اندر مجوزہ بسائے جانے والے اس شہر کا ہے جس کا نام شہزادے نے 
NEOM
 تجویز کیا ہے، اسی شہر کے بارے میں منعقدہ ایک سیمنار میں شہزادے نے نام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ
NEO
  کا مطلب تو
New
  ہے البتہ
M
 عربی زبان کے لفظ مستقبل کو ظاہر کرتا ہے۔ان تمام مجوزہ تبدیلیوں کے اعلان کے بعد مملکت میں پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس انقلاب نما جدیدیت کا ذکر تمام اذکار پر چھایا ہوا ہے حتیٰ کہ مملکت کے اندر بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس سال جون کے مہینے میں اس وقت کے طاقتور وزیر داخلہ اور شاہ سلیمان کے ولی عہد کو جدہ کے ایک محل میں اس بات پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ ولی عہدی کے عہدے سے شہزادہ محمد بن سلیمان کے حق میں دستبردار ہو جائیں، اس رات کی صبح کو دنیا نے یہ خبر حیرت سے سنی تھی کہ شہزداہ محمد بن نائف اپنے چچازاد کے حق میں ولی عہدی سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ولی عہدی کے منصب اور طاقتور وزارت داخلہ کے بعد وزرات الحرس الوطنی ایسا ادارہ تھا جو وزارت داخلہ سے بھی طاقت ور اور مملکت میں حکومت کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ادارے کو تو 1950 میں قائم کیا گیا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ ترقی کرتا رہا۔ اس وقت اس کی ہیت ترکیبی اس طرح ہے کہ اس ادارے میں آل سعود کے حلیف قبائل کے مستعد و پھر تیلے جوانوں کو لیا جاتا ہے اور ان کی کمان بھی متعلقہ قبیلہ یا مذہبی گروہ کا فرد ہی کرتا ہے ، اس ادارے کے بارے میں مملکت کے اندر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ادارہ جانتا ہے کہ کس گھر میں کون سا سالن پکے گا۔اس ادارے کی اپنی وزارت ہے اور اس کے وزیر شہزادہ متعب بن عبد العزیزتھے۔ 65 سالہ متعب ، مرحوم شاہ عبداللہ کے بیٹے میں ان کو اس قدر احترام حاصل تھا کہ شاہ سلیمان کی تخت نشینی کے موقع پر ان کا نام بھی تخت کے امیدوار کے طور پر سامنے آیا تھا۔ شاہ سلیمان کی تخت نشینی ، شہزادہ محمد بن سلیمان کے نائب ولی عہد بن جانے کے جب شہزادے محمد بن سلیمان کی وزارت داخلہ پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ان کو ولی عہدی کا منصب بھی حاصل ہوگیا تو ان کو حوصلہ ملا کہ وہ طاقت کے مرکز کی وزارت الحرس الوطنی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر کے اپنے تخت و تاج کو محفوظ کر لیں، مگر یہ کام اتنا آسان بھی نہ تھا۔ جیسے پانی اپنا رستہ خود بناتا ہے اسی طرح اقتدار بھی اپنے رستے میں آنے والی رکاوٹوں کو کچل دیتا ہے ، رکاوٹوں کو کامیابی سے کچل دینے والے انقلابی اور کامیاب حکمران کہلاتے ہیں اور ناکام ہونے والوں پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوتے ہیں ۔ بہرحال سعودیہ کے ولی عہد طاقتورحکمران بن کر ابھرے ہیں ، اب انھوں نے تخت و تاج اپنے نام کر لیا ہے اور ان کے رستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں ۔ حکمرانی کے اس کھیل میں کچھ بیرونی ، علاقائی اور اندرونی کھلاڑیوں کا ذکر کئے بغیر کہانی مکمل نہیں ہوتی ، سب سے پہلے امریکہ:ہ







جیسے سعودیہ کے حکمران خاندان اور آل سعود کے لیے

House of Alsaud
  کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے بالکل ویسے ہی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے
House of Trump
  کی اصطلاح مشہور اخبار فنانشل ٹائم میں استعمال ہوئی ہے، اسی اخبار نے ایک بار لکھا تھا کہ ترمپ کی خارجہ پالیسی میں خاندان اور زر بڑا کردار ادا کرتے ہیں، اخبار نے جاپان کے وزیر اعظم کے صدر ترمپ کی بیٹی 
Ivanka Trump and $ 50M
 اور خود صدر ترمپ کو گاف کی گولڈ پلیٹڈ گاف کھیلنے والی چھڑی کا تحفہ دیے جانے کاذکر کر نے کے 
بعد سعودیہ اور متحدہ امارات کی طرف سے
$100M
 ی گرانٹ کا ذکر کے کہا تھا یہ اقدام صدر امریکہ کا دل جیتنے کا سبب بنے تھے۔ صدر امریکہ کے بارے میں کہا گیا کہ چین جیسے کنجوس اور بنئیے ملک نے بھی 
Ivanka Trump Trademarks
 کی صورت میں صدر ترمپ کو سلامی پیس کی تھی۔ ہمیں ان کی حقیقت کا علم ہے نہ یہ ہمارا موضوع ہیں البتہ ان 
$ 110 Bn
 کی سعودی امریکہ دفاعی ڈیل کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا جس کے مطابق سعودیہ کو جو بحری جہاز اور انٹی میزائل سسٹم ملنے ہیں ابھی ان جہازوں نے بننا ہے اور میزائل سسٹم نے کاغذ کے نقشوں سے حقیقت کا روپ دہارنا ہے۔اس میں کون کس کو استعمال کر رہا ہے ہم نہیں جانتے مگر یہ حقیقت ہے کہ عرب بنیادی طور پر تاجر ہیں، سعودیوں نے ترمپ کے دور ے کے دوران ریاض میں جو سرخ قالینین بچھائیں تھیں اور شاہ نے تلوار ہاتھ میں لے کر روائتی رقص کے دوران اسامہ بن لادن کی باقیات کو ختم کرنے کا جو وعدہ کر کے صدر ترمپ کا دل جیت لیا تھا۔شاہ سلیمان کی اشیرباد سے اب سعودی ولی عہد ان سرخ قالینوں اور 
تحائف کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔جب سعودی عرب ۔میں ایک ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد ریاض کے ہوٹل
Ritz Carlton International 
 میں ولی عہد اپنے مخالفین کو چن چن کر جمع کر رہے تھے اس وقت دنیا نے امریکہ صدر کا یہ ٹوئیٹ پڑہا۔
The Crown Prince and his father know what they are doing
مرحوم شاہ عبدالعزیز کے فرزند شاہ سلیمان اور پوتے شہزادہ محمد کو تو معلوم ہی تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں مگر صدر امریکہ بھی اس سے بے خبر نہ تھے کہ وہ خود اپنے مشیر اور داماد کو بطور مدد ریاض روانہ کر چکے تھے۔اصل میں صدر امریکہ کا کلیجہ تو ولید بن طلال کے تحویل میں لئے جانے نے ٹھنڈا کیا تھا کہ اس خبر کے ساتھ ہی ولید کی دولت میں سے کتنے ملین کس کے اکاونٹ میں منتقل ہو گئے تھے یہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہمیں تو یہ عرض کرنا ہے کہ یمن کی جنگ میں امریکی صدر سعودی ولی عہد کے ساتھ رہے، قطر کے گھیراو کے عمل کی پشت پر صدر امریکہ ہی تھے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ قطر ایران کے زیادہ ہی قریب ہے۔علاقے کے حالات ایسے ہیں کہ ایران کو کر خود بخود ہی در آتا ہے۔
جیسے شمال مشرقی ایشیاء اور افغانستان کے سیاسی حالات پر تجزیے کے دوران پاکستان کا ذکر لازمی ہے بالکل اسی طرح مشرق وسطیٰ کے حالات بیان کرتے ہوئے ایران اور اسرائیل کا ذکر کیے بغیر بات بنتی ہی 

نہیں ہے۔




اسرائیل کا ذکر



اسرائیل کے بارے میں ہم بہت کچھ سنتے ہیں اور جانتے ہیں لیکن علاقے کے عوام اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اسرائیل میں جس کی بھی حکومت ہو وہ اول و آخر اپنے شہریوں کی محافظ ہے۔ اسرائیلی عوام کا اپنی حکومت پر بے حد بھروسہ ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے مابین اس طرح کا اعتماد علاقے کے کسی اور ملک میں نہیں ہے۔ دوسری بات اسرائیل کی پالیسی ہے ۔ آپ اسرائیل کی تاسیس کے دن سے لے کر اج تک دیکھ لیں اسرائیل امن کا حامی، انسانی حقوق کا علمبرداروغیرہ سب کچھ ہے اس کی زبان سے شہد ٹپکتا ہے اس نے کبھی جنگ کی بات نہیں کی نہ کبھی کسی ملک کو دہمکی دی ۔ عملی طور پر صابرہ اور شاتیلا میں خون کی ہولی کھیلنے سے لے کر بچوں ، عورتوں اور مریضوں تک کو تختہ مشق بنانا روزانہ کا معمول ہے ۔ مگر وہ اپنے آپ کو امن پسند اور انسان دوست ملک کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہی نہیں بہت زیادہ کامیاب ہے، صرف اشارہ کر رہا ہوں کہ اس کی کامیابی ان یونیورسٹیوں کی مرہون منت ہیں جہاں ہنگامی طور پر تحقیقات کا عمل جاری ہے۔اسرائیل کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ وہاں سے شائع شدہ کچھ نقشے ایسے ہیں جن 

میں اس یثرب کا ذکر پایا جاتا ہے جس کو مسلمان مدینہ المنورہ کے نام سے جانتے ہیں۔







ایران کا ذکر
جنت مکین ایک پاکستانی دانا نے لکھا تھا کہ ہم مسلمان خود کو شیعہ سنی یا دوسرے فرقوں سے منسوب کر کے اہک دوسرے کو کافر کہتے ہیں مگر صرف غیر مسلم ہی سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ امریکہ کے نزدیک شیعہ سنی دونوں مسلمان ہیں ، ایران اور سعودیہ اس کے نزدیک ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ کچھ ملک بہت خاموشی سے اس وقت کا انتطار کر رہے ہیں جب شیعہ ایران اور سنی سعودیہ اپنے اپنے حلیفوں سمیت ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں گے ۔ بعض واقعات نا ممکن نظر آتے ہیں مگر تاریخ بتاتی ہے 

ناممکن ، ممکن بن جایا کرتا ہے۔



ماضی میں زیادہ دور نہ جائیں بس سر گھما کر دیکھ لیں کیا فلسطینوں کو فلسطین سے ہمارے دیکھتے دیکھتے نکال نہیں دیا گیا۔ شام میں کیسے رد عمل کی سیاست کے ذریعے پورے ملک کو لہو لہان کر دیا گیانوبت یہاں تک تو پہنچ گئی ہے دوسرے فرقے کے زخمی کو دوا تو دور کی بات ہے پانی تک کوئی نہیں پلاتاْعراق کے حصے بخرے ہوتے کیا ہم نے اپنی انکھوں سے نہیں دیکھے، کیا ایران کے حکمران رات کو چین کی نیند سوتے ہیں، کیا لبنان کے حالات سعودیہ پر اثر انداز نہیں ہوتے ، کیا یمن کی طرف سے سعودیہ اطمینان کا سانس لینے کے قابل ہے، کیا مصر کچھ کر گزرنے کا دم ہے؟ ہم سعودیہ کے استحکام کے لیے اس لئے فکر مند رہتے ہیں ، کہ یہ علاقہ ہماری عقیدتوں کا حامل ہے۔ 
1974
 میں سعودی عرب میں شاہ فیصل کا قتل ہوا تھا مگر آل سعود نے خون کے بدلے خون کے ذریعے سوگوار خاندان کو انصاف مہیا کر کے اور مرحوم شاہ کے بیٹے کو وزارت خارجہ دے کر عزت کو بر قرا ر رکھا تھا ،قلیل مدت میں ہی دکھ مندمل ہو گئے تھے۔ اب کے بھی خون بہا ہے بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کے لاشے کو کندہا دیا ہے زخم گہرے ہیں ، مداوا ممکن ہے 



اسرائیل کے ایک اخبار نے موجودہ سعودی اقدامات پر لکھا ہے ْ نوجوان شہزادہ سعودیہ کے اندر نوجوانوں کا نمائندہ ہے، اس کا واشنگٹن میں احترام کیا جاتا ہے، وہ یمن کا سر جھکا نا جانتا ہے، اس نے کامیابی سے قطر  کا مقاطعہ کیا ہوا ہے، 
گلف کواپریشن کونسل میں کوئی بھی اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرتا ، عمان کے کثیر القومی وار روم میں جہاں مشترکہ کاروائیوں کی منظوری دی جاری ہے شہزادہ داخل ہو تو اسرائیل سمیت سب لوگ سر جھکا کر اس کا اس کا استقبال کرتے ہیں ْ یہ اور دوسرے تبصرے پڑھ کر لگتا ہے کہ ْ بابا آپ کو معلوم ہے میں نے آپ کی نہیں ماننی ، آپ حکم عدولی پر مجبور کر کے کیون گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ْ کیا یہ بگڑا شہزادہ ہے جو چند سالوں میں علاقے کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گا اور مملکت سعودی عرب پر آل سعود کی حکمرانی کو شخصی مطلق العنان حکومت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ؟ یاد رہے سعودی عرب میں آل سعود کی حکمرانی ہے ۔ شہزادوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، بادشاہ پوری آل کا مشترکہ نمائندہ ہوتا ہے۔ بادشاہت کا ادارہ لوگوں کی توقعات سے زیادہ مضبوط ہے، شاہ عبد العزیز نے اپنے بیٹوں ، جن کی مائیں مختلف قبیلوں سے تھیں، کی تربیت اس نہج پر کی ہے کہ جب تک ان کے بیٹوں میں سے ایک بھی زندہ ہے تفرقے کا امکان نہیں ہو سکتا ، ریاض کے شاہی محل میں سعودی سنگلاخ پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئے ہیں ابھی اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔