Iran لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Iran لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 1 فروری، 2018

نئے راستے


 ٓ تجارتی راستوں پر اجارہ داری اور ان کی حفاظت ، اور اپنے تجارتی سامان کی بحفاظت منڈیوں تک ترسیل ایک ایسا عمل ہے جس کو کوئی بھی ملک یا معاشرہ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی سرپرستی میں معرض وجود میں آنے والا
Asian Quad 
ایک ایسا ہی اتحاد ہے جس میں دوسروں کے ساتھ امریکہ، بھارت، جاپان اور اسٹریلیا شامل ہیں۔دوسری طرف چین کی سرپرستی میں 
One Belt One Route .OBOR
 کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جس میں چین کو روس کی حمائت حاصل ہے اور اس میں سری لنکا، مالدیپ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ 
اس خطہ میں امریکہ کی سرپرستی میں ناٹو کے نام سے ایک اتحاد پہلے ہی قائم ہے جو دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے لیے متحرک ہے، اس کے باوجود افغانستان سے لے کر لیبیا تک علاقائی طاقتور تنظیموں نے مقامی حکومتیں گرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
کیا ناٹو اپنی افادیت کھو چکی ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب اگر ہاں میں نہ ہو تو بھی اس کا کردار مشکوک ضرور ہو چکا ہے۔اس بے یقینی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک ْ اسلامی ْ ہیں ۔ اور ان ممالک میں خود حفاظتی کا گہرا حساس پایا جاتا ہے۔ مگر یہ ممالک انفرادی طور پر وسائل کی کمی اور سیاسی حالات کی ستم ظریفی کے باعث مجبور ہو گئے کہ وہ اپنے خطے کے تجارتی راستوں سمیت اپنے مفادات کی حفاظت خود کریں۔ان ممالک کو بنیادی طور پر خطرہ ان ہی طاقتور علاقائی تنظیموں سے ہے جو یا تو حکومتوں سے نظریاتی اختلاف رکھتی ہیں ، یا پھر وہ دشمن ممالک کے ساتھ مالی مفادات کے لیے گٹھ جوڑ رکھتی ہیں۔ اسلامی ممالک میں ایسی تنظیمی عام طور پر مذہبی بنیاد پر بنتی ہیں یا پھر مسلکی تقسیم ان کا نظریاتی اثاثہ ہوتی ہے اور پھر دشمن ممالک کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی مین ملوث ہو جاتی ہیں۔ 
ٰٰIMCTC
یا ْ التحالف الاسلامی العسکری لمحاربۃالارھاب ْ کے نام سے قائم ہونے والا اکتالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد ایک ایسی کوشش ہے ۔ پاکستان سمیت کچھ ممالک کے اندر اس اتحاد کے بارے میں عوام کا ایک طبقہ یہ کہتا پھر رہا ہے کہ یہ سعودی عرب کی سرپرستی میں سنی مسلک کے ممالک کا ایسا اتحا د ہے جس نے مگر سعودی و ایرانی علاقائی کشمکش میں سعودیہ کی طرف داری کر نا ہے۔ اور اس خدشہ کو تقویت اس اتحاد کی بناوٹ سے ملتی ہے ، سعودیہ نہ صرف اس اتحاد کا سرپرست ہے بلکہ اس کا اپریشنل مرکز بھی 
ریاض ہی میں ہے۔ اس اتحاد پر سب سے پہلے تحفظات کا اظہار بھی ایران ہی کی جانب سے کیا گیا تھا۔

مگر پاکستان کے آرمی چیف جناب باجوہ صاحب اپنے دورہ ایران کے دوران ایران کو یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ یہ صرف دہشت گردی کے خلاف اتحاد ہے اس کے بعد ایران کی جانب سے اس اتحاد مخالف بیانات کا سلسلہ رک گیا ہے۔ پاکستان آرمی کے سابقہ چیف جناب راحیل شریف صاحب کا اس اتحاد کی کمانڈ قبول کرنا ایسا عمل ہے جس نے ایران نے اس اتحاد کے بارے میں خدشات کو اگر ختم نہیں کیا تو بھی کم ضرور کیا ہے۔

جناب راحیل شریف نے یہ عہدہ قبول ہی اسی شرط پر کیا ہے کہ ایران کو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جائے گا۔اسلامی سربراہی کانفرنس اس اتحاد کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اقوم متحدہ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، چین نے اس اتحاد کو پسندکرتے ہو ئے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔مصر کی الازہر یونیورسٹی نے اسے تاریخی اور مثبت قرار دیا ہے۔جرمنی نے اس اتحاد کی حوصلہ افرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو بھی اس اتحاد کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس اتحاد کے اساسی بیانئے مین شامل ہے کہ یہ تمام ممبران ، امن دوست ممالک، عالمی اور علاقائی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرئے گا ۔
ریاض میں ملک کے اندر سخت گیر پالیسیوں کے خلاف گہرا اور مصمم ارادہ پایا جاتا ہے، اور وہ اکیسویں صدی میں دنیا کے ساتھ قدم بقدم شامل ہونا چاہتے ہیں ، قدامت پسندی کا چغہ اتار دیا گیا ہے ۔ حکمرانوں کی نئی سوچ نے نوجوان سعودیوں میں گویا نیا ولولہ پیدا کر دیا ہے اوریہ کہنا درست ہے کہ اس وقت ریاض میں ایک قوم پرست حکومت قائم ہے۔ 
نئے فوجی اتحاد کا بنیادی مقصدہی یہ ہے کہ ترقی کی راہ میں حائل قدامت پسندی کو کچلا جا سکے تاکہ علاقے کے باسی امن و سکون کے ساتھ ترقی کی شارع پر گامزن ہو سکیں۔امن وہ بنیادی عنصر ہے کہ جس کی غیر موجودگی انفرادی سکون اورمعاشرتی تحفظ کا حصول ممکن نہیں رہتا ۔ بد امنی کاروباری مقامات اور تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بناتی ہے۔ اور علاقائی تجارتی منڈیوں اور گذرگاہوں کا تحفظ سارے خطے ہی کے مفاد میں ہے ۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد امن کو قائم رکھنا ہے اور امن سے کسی کو بھی خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

جمعرات، 4 جنوری، 2018

تہذیوں کی جنگ

عالمی سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیزی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔عالمی قوتیں اس قدر جلدی میں ہیں ، ایک ملک کے امن کو دیاسلائی دکھائی جاتی ہے اور حالات پر تیل چھڑک کر دوسرے ملک کا رخ کر لیا جاتا ہے ۔ فلسطین میں قتل و غارت پر ماتم کناں انسانیت کی افسردگی اور بے چارگی سے شہہ پا کر ٹرمپ نامی انسانیت دشمن خونی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان تو چند دنوں کی معاشی مار ہے اور پاکستان کی سیکورٹی معطلی کے اعلان کے موقع پر امریکی ترجمان کے لہجے کی رعونت یہ رہی کہْ جب تکْ پاکستان امریکہ کے اطمینان کے مطابق اپنے ہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم نہیں کرتااس وقت تک امداد اور سیکورٹی معطل رہے گی اور جب پاکستان یہ کر لے گا تو پھر امداد کی بحالی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ 

امریکی صدر نے سعودیہ کے دورے کے دوران جہاز میں ْ اپنے میڈیا ْ کے لوگوں سے بات چیت کی جو بعد میں ایک امریکی اخبار میں اور وہاں سے شرق الاوسط کے ایک جریدے میں نقل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کو اپنی یہ طاقت استعمال کر کے دنیا پر اپنے رعب کو بحال کرنا ہو گا اور یہ محتاج ممالک
 Client States
 پر دھاک سے ہی ممکن ہے ۔القدس کے مسٗٗلے پر دھاک جما لینے کے بعد ہی اکلوتی سپر پاور کا رخ پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔اور ابھی پاکستان رد عمل کی تیاری میں ہی ہے تو سوچ لیا گیا ہے کہ پاکستان نے تو خود کشی کا راستہ اختیار کر ہی لیا ہے لہذا خطے میں پاکستان کے متبادل کے طور پر امریکہ کی نظر ایران پر ہے۔

مریکہ کا خیال ہے کہ ایران خطے میں تنہا ہے ، اس کے ہمسائیوں میں بھارت اسرائیل کی محبت میں کلی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔شام اور عراق برباد ہو چکے ہیں۔سعودیہ اور ایران کے حالات ْ تومار یا میں ماروںْ تک کشیدہ ہیں ۔ پاکستان کو اپنی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔ واحد سہارا ایران کی اندرونی یکجہتی ہے مگر اس کے خلاف امریکہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں حکومت مخالف ایرانی عناصر سر گرم ہو چکے ہیں ۔ جمعرات کے دن ایرانی حکومت کے مخالفین کی جانب سے جو تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں ۔ان میں یہ تصویر بھی شامل ہے۔
القدس میں سفارت خانے کی منتقلی کے بعد لگتا ہے امریکہ نے یقین کر لیا ہے کہ اس کی دھاک کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اسی لیے پاکستان کو کسی قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا اور ایران میں مظاہرین کی اعانت شروع کر دی گئی ہے ۔ امریکی عوام پر ایسا بدبخت ٹولہ مسلط ہو گیا ہے جس کو خود امریکہ میں مست ہاتھی کہا جا رہا ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا کا با خبر ترین ملک ہے ۔حکمران ٹولہ اپنے تھنک ٹنکس کی سنتا ہے نہ جرنیلوں کی ۔قدرت کو معلوم نہیں کس کا امتحان مقصود ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر امتحان کے بعد نتیجہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکہ نے خطے میں بہت وسیع امتحان گاہ چنی ہے اور اس کو یقین ہے کہ امتحان میں کامیابی چوہدری کے صاحبزادے کو ہی ہونی ہے ۔اور اس یقین دہانی میں بھارت کا بہت بڑا کردار ہے ، اور یہ طے ہے کہ بھارت نے پاکستان اور ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔ مگر رولا یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان( جو امریکہ کے نزدیک کمی کمین ہیں ) سترہ سالوں سے اسی امتحان کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور یقین یہ ہے کہ یہ ْ کمی کمین ْ دہاندلی کے باوجود پاس ہوں یا نہ ہوں البتہ فیل نہیں ہوں گے ۔مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ جذباتی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کے بارے میں امریکہ کی سوچ رعونت پر مبنی ہے تو ایران کے بارے اس کا یہ یقین کہ شیعہ ایران ،ایران کے اندر ،شام اور عراق میں شیعہ سنی لڑاہیوں کے باعث سنیوں کو اپنا دشمن بنا چکا ہے ۔ 

علاقے میں جاری تصادم مسلکی ہیں یا ان کا سبب معیشت ہے اس کا فیصلہ بھی اب امتحان کے بعد ہی ہو گا ۔ امریکہ جو کشیدگی دین کی بنیاد پر شروع کیے ہوئے ہے اس کشیدگی کو اسرائیل کی شہہ اور بھارت کی معاونت نے جنگ کے شعلوں میں تبدیل کرنا ہے ۔ اور اگر ( خدا نہ ، نہ ، نہ کرے ) جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی ابتداء ہو گی اور یہ جنگ افغانستان کی طرح سترہ سالوں تک بے نتیجہ نہیں رہے گی مگر سرعت کے ساتھ اس کا رخ سرمایہ داری 
Capitalism 
نظام کے خلاف ہو جائے گا ۔اس کے متحارب فریق ممالک نہیں بلکہ مفلوک الحال لوگ بمقابلہ سرمایہ دار ہوں گے ۔ سابقہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکیوں اورمغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ یہ جنگ ان کے گھروں سے دور لڑی جائے گی ۔جس جنگ کی ابتداء ہی بے اصولی پر ہو چکی ہے وہ کسی امریکی صدر کے اصول کی پابند کیوں اور کیسے رہ سکے گی کہ بھوک مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اس کا مداوا روٹی ہی ہے ۔ ایک امریکی دانشور نے لکھا تھا نا کہ یہ جنگ تہذیوں کی ہو گی ۔ اس نے سچ لکھا تھا۔ تہذیبیں مگر دو ہی ہیں ایک سرمایہ دار دوسری مفلوک الحال۔