Trump لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Trump لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 23 جون، 2025

ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی



ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی

ڈونلڈ ٹرمپ جب دوسری بار امریکی صدارتی دوڑ میں کامیاب ہوا تو اس نے امریکی عوام کو امید دلا کر ووٹ لیے کہ اب امریکہ دنیا میں امن کا علمبردار بنے گا، امریکی فوج کو لاحاصل جنگوں سے نکالا جائے گا، اور معاشی خوشحالی کا راستہ کھلے گا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی طاقت کو صرف امریکہ کی سرحدوں تک محدود رکھے گا اور غیر ملکی مداخلتوں کا سلسلہ ختم ہوگا۔

لیکن اقتدار سنبھالتے ہی جو منظر دنیا نے دیکھا، اس نے ثابت کر دیا کہ ٹرمپ نہ امن کا پیامبر ہے اور نہ کوئی اصولی سیاستدان بلکہ وہ بھی صیہونی اسلحہ سازوں اور اسرائیلی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلنے والا ایک اور مہرہ ہے۔

دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے سب سے پہلے اس نے معاشرے کے سب سے کمزور طبقے، غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ میں لاکھوں خاندانوں کو تقسیم کیا گیا، بچوں کو والدین سے جدا کر کے حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور اگر چاہے تو نہتے، بے بس اور کمزور لوگوں کو روند کر اپنی برتری ثابت کر سکتی ہے۔

لیکن طاقت کا مظاہرہ صرف اتنا کافی نہیں تھا۔ فلسطین میں، امریکہ کے اسلحے، مالی امداد اور سیاسی پشت پناہی سے اسرائیل نے عورتوں اور بچوں کو محصور کر کے غزہ کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ خاموش رہا بلکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ویٹو پاور کا بے دریغ استعمال کرتا رہا۔

پھر باری آئی کمزور ریاستوں کی۔ یمن، صومالیہ، عراق اور شام کو پراکسی جنگوں کے ذریعے کمزور کیا گیا۔ کہیں امریکہ براہِ راست حملہ آور ہوا، کہیں اسرائیل اور اس کے دوسرے اتحادیوں کو آگے بڑھایا گیا۔ ہر جگہ خون، بارود اور تباہی نے یہ پیغام دیا کہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی تباہ کن قوت ہے۔

روس جیسی بڑی فوجی طاقت کے خلاف بھی امریکہ نے سازشوں کا دائرہ بڑھایا۔ یوکرین کی جنگ میں نیٹو اور امریکی مداخلت نے روس کو اشتعال دلایا اور یہاں تک نوبت آئی کہ روس کے اندر ہوائی اڈوں پر کھڑے جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ امریکہ نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کے گھر کے اندر گھس کر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن اس بار اسرائیل اور امریکہ نے جنگی تھیٹر میں بھارت کو شامل کیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی شدت بڑھائی اور پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان نے نہ صرف سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارت کو جواب دیا بلکہ عسکری سطح پر بھی بھارت کی جارحیت کو ناکام بنا دیا۔ یوں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ چال ناکام ہوئی اور پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور امریکی سازشوں کے باوجود اس کی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔

جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کر کے اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا تو ایران نے نہایت محتاط انداز میں جواب دیا۔ اسرائیل پر میزائل برسے اور امریکہ کو اندازہ ہوا کہ ایران کوئی عام ملک نہیں، نہ اسے لبنان یا شام سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے پاس جنگ بندی کا ڈھونگ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ یوں دنیا کو بتایا گیا کہ جنگ ختم ہو گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف وقتی خاموشی ہے۔

شام میں ایک نئی چال چلی گئی۔ اسرائیل کی شہہ پر ایک مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مذہبی بنیاد پر شام میں نئی خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ فی الحال اس واقعے کو میڈیا سے چھپا لیا گیا ہے لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ شام کی سرزمین کو امریکہ اور اسرائیل جب چاہیں جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔

ٹرمپ، جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتا تھا، آج ثابت کر چکا ہے کہ وہ درحقیقت اسرائیل کے اشاروں پر چلنے والا ایسا جوکر ہے جو ہر گھنٹے بعد اپنا بیان بدلتا ہے، جو وعدے کرتا ہے مگر ان پر کبھی عمل نہیں کرتا۔ نیتن یاہو جیسے بچوں کے قاتل اور انسانیت کے دشمن کی کٹھ پتلی بن کر، ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔

اقوام عالم کے سامنے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے صدر کی شخصیت کا پول کھل چکا ہے ۔ کیا امریکی عوام کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کا نمائندہ امریکہ کے صدر کی بجائے ، نیتن یاہوجیسے جنگی مجرم کی کٹھ پتلی کا کرادار ادا کر رہا ہے ۔  

منگل، 17 جون، 2025

"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"




دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری

چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز، اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے، اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری

امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے، جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ

امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ، اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین

اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ

امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"