America لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
America لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 17 جون، 2025

"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"




دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری

چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز، اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے، اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری

امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے، جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ

امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ، اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین

اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ

امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"

اتوار، 15 جون، 2025

انسانیت معترض ہے




اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی اب محض دو ریاستوں کا تنازعہ نہیں رہا۔ یہ ایک عالمی اقتصادی، عسکری اور سیاسی نظام کی بقا کی جنگ بنتی جا رہی ہے۔ اس کشمکش میں اسرائیل صرف ایک فریق نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے، جو ہر قیمت پر اپنے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹنے پر تُلا ہوا ہے۔ معاملہ صرف غزہ، شام یا نطنز کے حملوں تک محدود نہیں بلکہ اصل ہدف واشنگٹن کو اس تنازعے میں براہِ راست شامل کرنا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی ہے۔

امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کا قومی قرضہ 36 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس قرضے کا بوجھ کم کرنے کے لیے امریکہ عالمی منڈی میں ٹریژری بانڈز فروخت کرتا ہے، جنہیں اب بڑی معاشی طاقتیں جیسے چین، سعودی عرب اور جاپان ہاتھ لگانے سے بھی کترا رہی ہیں۔ بانڈز کی یہ گرتی ساکھ امریکی معیشت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ اس صورتحال میں اگر ایک بڑی جنگ چھڑ جائے تو عالمی سرمایہ ایک بار پھر خوف کے تحت "محفوظ سرمایہ کاری" کی طرف دوڑے گا، اور یہ محفوظ سرمایہ کاری امریکی بانڈز اور ڈالر سمجھے جائیں گے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں اسرائیل ایران پر حملے کر رہا ہے۔ تل ابیب چاہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال اس قدر کشیدہ ہو جائے کہ امریکہ اپنی معاشی بقا کی خاطر اس جنگ میں براہِ راست کودنے پر مجبور ہو جائے۔ کیونکہ جب جنگ ہوگی تو نہ صرف بانڈز کی مانگ بڑھے گی بلکہ امریکی اسلحہ ساز ادارے بھی منافع کی نئی بلندیاں چھوئیں گے۔ اسرائیل کا یہی دوہرا مفاد ہے، ایک طرف امریکہ کو اپنے دفاعی وعدوں کے تحت  جنگ میں گھسیٹنا، دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی مالی سانسیں بحال کرنا۔

اسرائیل کو معلوم ہے کہ امریکہ صرف سیاسی اخلاقیات پر نہیں بلکہ معاشی مجبوریوں پر عمل کرتا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس، امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے جڑے ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان ایک ناقابل انکار مفاہمت ہے۔ اسرائیلی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اگر امریکی مارکیٹ میں خوف کی فضا پیدا ہو جائے تو امریکی حکومت پر اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ عالمی سرمایہ کو اعتماد دلانے کے لیے خود میدانِ جنگ میں اترے۔

یہ کوئی خفیہ بات نہیں کہ امریکہ کی موجودہ معیشت ٹیکس سے نہیں بلکہ قرض اور بانڈ فروشی سے چلتی ہے۔ جب عالمی سرمایہ بانڈ خریدنے سے گریز کرتا ہے تو امریکہ کے پاس اپنی بقا کا صرف ایک ہتھیار بچتا ہے: جنگ۔ ایسی جنگ جو امریکہ کو نہ صرف عالمی سیاسی رہنما کے طور پر دکھائے بلکہ اسے معاشی طور پر بھی فائدہ دے۔ اسرائیل یہی جنگ امریکہ پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ میں اسرائیل ایک بار پھر خود کو "مظلوم ہد ف" بنا کر پیش کر رہا ہے تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کرے اور امریکہ کو عسکری طور پر مداخلت پر مجبور کرے۔ مگر دراصل یہ ایک بڑی معاشی اسکرپٹ کا حصہ ہے، جس میں میدانِ جنگ مشرقِ وسطیٰ ہے، مگر اصل لڑائی وال اسٹریٹ اور امریکی خزانے میں لڑی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ اس جنگ میں داخل ہوتا ہے تو یہ ایران کی شکست نہیں بلکہ سرمایہ داری کی وقتی فتح ہو گی، جو اپنی ساکھ بچانے کے لیے لاکھوں جانیں قربان کرنے کو تیار ہے۔

اسرائیل اس وقت ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک نظام کا آخری سپاہی ہے۔ اس نظام کا نام ہے سرمایہ داری، اور اس کے سب سے بڑے محافظ کا نام ہے جنگ۔ اور اب وہ اپنے سب سے بڑے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں دھکیلنے کے لیے ہر چال کھیل رہا ہے۔ یہ ایک بارودی سازش ہے، جس میں گولی، میزائل اور حملہ محض ظاہری ہتھیار ہیں، اصل جنگ تو قرض، سود اور ڈالر کی ہے۔