اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی اب محض دو ریاستوں کا تنازعہ نہیں رہا۔ یہ ایک عالمی اقتصادی، عسکری اور سیاسی نظام کی بقا کی جنگ بنتی جا رہی ہے۔ اس کشمکش میں اسرائیل صرف ایک فریق نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے، جو ہر قیمت پر اپنے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹنے پر تُلا ہوا ہے۔ معاملہ صرف غزہ، شام یا نطنز کے حملوں تک محدود نہیں بلکہ اصل ہدف واشنگٹن کو اس تنازعے میں براہِ راست شامل کرنا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی ہے۔
امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کا قومی قرضہ 36 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس قرضے کا بوجھ کم کرنے کے لیے امریکہ عالمی منڈی میں ٹریژری بانڈز فروخت کرتا ہے، جنہیں اب بڑی معاشی طاقتیں جیسے چین، سعودی عرب اور جاپان ہاتھ لگانے سے بھی کترا رہی ہیں۔ بانڈز کی یہ گرتی ساکھ امریکی معیشت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ اس صورتحال میں اگر ایک بڑی جنگ چھڑ جائے تو عالمی سرمایہ ایک بار پھر خوف کے تحت "محفوظ سرمایہ کاری" کی طرف دوڑے گا، اور یہ محفوظ سرمایہ کاری امریکی بانڈز اور ڈالر سمجھے جائیں گے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں اسرائیل ایران پر حملے کر رہا ہے۔ تل ابیب چاہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال اس قدر کشیدہ ہو جائے کہ امریکہ اپنی معاشی بقا کی خاطر اس جنگ میں براہِ راست کودنے پر مجبور ہو جائے۔ کیونکہ جب جنگ ہوگی تو نہ صرف بانڈز کی مانگ بڑھے گی بلکہ امریکی اسلحہ ساز ادارے بھی منافع کی نئی بلندیاں چھوئیں گے۔ اسرائیل کا یہی دوہرا مفاد ہے، ایک طرف امریکہ کو اپنے دفاعی وعدوں کے تحت جنگ میں گھسیٹنا، دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی مالی سانسیں بحال کرنا۔
اسرائیل کو معلوم ہے کہ امریکہ صرف سیاسی اخلاقیات پر نہیں بلکہ معاشی مجبوریوں پر عمل کرتا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس، امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے جڑے ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان ایک ناقابل انکار مفاہمت ہے۔ اسرائیلی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اگر امریکی مارکیٹ میں خوف کی فضا پیدا ہو جائے تو امریکی حکومت پر اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ عالمی سرمایہ کو اعتماد دلانے کے لیے خود میدانِ جنگ میں اترے۔
یہ کوئی خفیہ بات نہیں کہ امریکہ کی موجودہ معیشت ٹیکس سے نہیں بلکہ قرض اور بانڈ فروشی سے چلتی ہے۔ جب عالمی سرمایہ بانڈ خریدنے سے گریز کرتا ہے تو امریکہ کے پاس اپنی بقا کا صرف ایک ہتھیار بچتا ہے: جنگ۔ ایسی جنگ جو امریکہ کو نہ صرف عالمی سیاسی رہنما کے طور پر دکھائے بلکہ اسے معاشی طور پر بھی فائدہ دے۔ اسرائیل یہی جنگ امریکہ پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ میں اسرائیل ایک بار پھر خود کو "مظلوم ہد ف" بنا کر پیش کر رہا ہے تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کرے اور امریکہ کو عسکری طور پر مداخلت پر مجبور کرے۔ مگر دراصل یہ ایک بڑی معاشی اسکرپٹ کا حصہ ہے، جس میں میدانِ جنگ مشرقِ وسطیٰ ہے، مگر اصل لڑائی وال اسٹریٹ اور امریکی خزانے میں لڑی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ اس جنگ میں داخل ہوتا ہے تو یہ ایران کی شکست نہیں بلکہ سرمایہ داری کی وقتی فتح ہو گی، جو اپنی ساکھ بچانے کے لیے لاکھوں جانیں قربان کرنے کو تیار ہے۔
اسرائیل اس وقت ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک نظام کا آخری سپاہی ہے۔ اس نظام کا نام ہے سرمایہ داری، اور اس کے سب سے بڑے محافظ کا نام ہے جنگ۔ اور اب وہ اپنے سب سے بڑے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں دھکیلنے کے لیے ہر چال کھیل رہا ہے۔ یہ ایک بارودی سازش ہے، جس میں گولی، میزائل اور حملہ محض ظاہری ہتھیار ہیں، اصل جنگ تو قرض، سود اور ڈالر کی ہے۔