India لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
India لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 10 جون، 2025

دانت ٹوٹنے کے بعد بھی ۔۔۔





دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا بھارت اب ایک ایسے ملک میں بدل چکا ہے جس کا اصل چہرہ ’’دکھانے والے دانتوں‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو باہر سے قانون، انسانیت، کثرتیت اور جمہوریت کی بات کرتا ہے، مگر اندر سے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے جہنم بن چکا ہے۔
ہندوتوا کا نظریہ اور RSS کی پالیسی
بھارت کا ریاستی بیانیہ اب مکمل طور پر ہندوتوا کے زہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے نظریہ ساز، ایم ایس گولوالکر نے لکھا تھا:
"ہندوؤں کے سوا باقی سب کو، یا تو ہندو بننا ہو گا، یا بھارت چھوڑنا ہو گا۔"
— We or Our Nationhood Defined (1939)
آج یہی نظریہ بھارتی سیاست، میڈیا، اور عدالتوں میں جھلکتا ہے۔ بی جے پی حکومت اسی فلسفے پر کاربند ہے۔
مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف ریاستی اور سماجی مظالم
▪ دہلی فسادات (2020)
بی جے پی رہنماؤں کی تقاریر کے بعد منظم مسلم کش فسادات ہوئے۔ 53 افراد مارے گئے، درجنوں مسجدیں جلائی گئیں۔
نریندر مودی کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ریاست گجرات میں 2,000 سے زائد مسلمان قتل ہوئے۔
شہریت ترمیمی قانون مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا۔
 NRC 
کی آڑ میں آسام اور بنگال میں لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔
▪ مساجد پر حملے، اذان پر پابندیاں، لو جہاد کا جھوٹا پروپیگنڈا
مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ اتر پردیش میں درجنوں مسلمان جوڑوں پر ’لو جہاد‘ کے تحت جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔
بھارتی میڈیا آج حکومت کا ہتھیار بن چکا ہے۔ وہ جو جرم خود کرتا ہے، اس کا الزام پاکستان، بنگلہ دیش، یا کسی مسلمان فرد پر لگا دیتا ہے۔
پلوامہ حملہ 
(2019)
 اس کی مثال ہے جہاں جھوٹے الزامات کے بعد پاکستان پر جنگی دباؤ بڑھایا گیا، حالانکہ بعد میں خود بی جے پی رہنماں نے تسلیم کیا کہ "انتخابی فائدے" کے لیے یہ سب کیا گیا۔
بھارت نے ایک بار پھر اپنے غرور میں پاکستان پر حملے کی کوشش کی، مگر مئی 2025 کی جنگ میں اسے عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جدید پاکستانی دفاعی حکمتِ عملی اور عوامی اتحاد کے آگے بھارتی فوج بوکھلا گئی۔
بھارت نے پہلے غرور سے حملہ کیا، اور پھر ترکی، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ کی منتیں کیں کہ "جنگ بندی" کرائی جائے۔ مگر جنگ بندی کے فوراً بعد، یہی بھارت اقوامِ عالم کو آنکھیں دکھانے لگا، گویا اسے شکست ہوئی ہی نہیں۔
یہ اس کی پرانی عادت ہے:
’’طاقتور کے قدموں میں جھک جانا، کمزور کو گلے سے دبوچ لینا۔‘‘
وہی بھارت جو دنیا کے سامنے للکار کر بولتا ہے، بند کمروں میں گڑگڑا کر اپنے مخالف کے پاؤں پکڑتا ہے۔ جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ کی میٹنگز میں بھارت نے جھوٹ پر جھوٹ بولا کہ اس نے "فتح حاصل کی ہے"، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے کئی طیارے تباہ ہوئے، بارڈر پر پسپائی ہوئی، اور عالمی سطح پر رسوائی الگ۔
آج کا بھارت:
مسجدیں گراتا ہے، مندر بناتا ہے۔
اقلیتوں کو شہریت سے محروم کرتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلاتا ہے۔
دنیا سے جھوٹ بولتا ہے، اور اپنے عوام کو دھوکہ دیتا ہے۔
جنگ میں شکست کھا کر بھی "جیت" کے بینر چھاپتا ہے۔
دنیا کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کے ’’دکھانے والے دانت‘‘ کچھ اور ہیں، اور کاٹنے والے دانت کچھ اور۔ یہ ملک صرف جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر اقلیتوں کو کچلنے، پروپیگنڈا پھیلانے، اور اپنے جرائم کا الزام دوسروں پر ڈالنے میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا اس ’’دکھاوے‘‘ کو پہچانے۔ بھارت کا اصل کردار بے نقاب ہو چکا ہے، مگر اس پر خاموشی جاری رہی، تو دنیا کو "جمہوریت کے لبادے میں فاشزم" کا سامنا ہو گا۔

جمعرات، 5 جون، 2025

Field Marsha Asim Munir



 In a landmark decision that will be remembered in Pakistan’s military and political history for years to come, General Asim Munir has been promoted to the highest military rank of Field Marshal—a rare and symbolic honor. The move was initiated by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif, approved by the federal cabinet, and formally endorsed by the President of Pakistan, Asif Ali Zardari. This unanimous act of state reflects a powerful message of unity, national pride, and deep appreciation for military leadership.

The entire country witnessed this moment with respect and admiration. The Pakistan Army celebrated the promotion as a symbol of continuity, strength, and stability. Among civilians, the sentiment was no different—streets, homes, and digital spaces echoed with pride as people recognized the elevation of a General who has never shied away from duty or sacrifice.

Field Marshal Asim Munir, known for his calm yet resolute demeanor, did not take the occasion as a personal victory. In a humble and deeply touching statement, he said, "This promotion is not for me, but an appreciation of the sacrifices made by our military and civilian martyrs." He further declared, "A thousand Asims will sacrifice for Pakistan," a statement that has since captured the hearts of millions. These words carry the power of inspiration—reminding every soldier and citizen that the spirit of sacrifice and love for the motherland is eternal.

In recent years, Pakistan has faced multiple regional and global challenges. Whether it is the looming threat from across the eastern border or international diplomatic pressure, Field Marshal Asim Munir has stood his ground with dignity and resolve. His ability to take timely, bold decisions and stay at the war front alongside his troops has not gone unnoticed.

Where many choose to lead from behind, he chose to lead from the front, showing the courage and confidence of a true commander. His Command  has sent a strong message to adversaries: Pakistan may face a force ten times larger, but it will never bend, never break.

In Field Marshal Asim Munir, the nation sees the return of something it had long yearned for: a man who speaks clearly, acts decisively, and embodies the will of the people and the soldier alike. His rise is not just a military promotion—it is a revival of faith in leadership, strategy, and national defense.

His words have stirred the soul of a nation, his actions have strengthened the resolve of the armed forces, and his presence has reminded the Muslim world what it looks like when a general stands with unwavering will and a clean heart.

This historic promotion has not only strengthened the morale of the military but also brought a renewed sense of unity and confidence to the people. For the first time in years, Pakistanis across the board feel that the state has recognized a General who leads with vision and loyalty, not for personal gain but for the cause of the nation.

At this proud moment, the people of Pakistan salute this decision taken by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif and President Asif Ali Zardari. Their act has not only strengthened the institution of the Army but also demonstrated the power of democracy working in harmony with national defense.

: بھارت – ایک ابھرتی ہوئی دہشت گرد ریاست

بدھ، 28 مئی، 2025

نریندرمودئ سے سرینڈرمودی تک کا سفر



مئی 2025 میں جب بھارت نے پہلگام حملے کے بعد "آپریشن سندور" کا اعلان کیا، تو نریندر مودی کا انداز، زبان اور لب و لہجہ مین روایتی "چوکیدار" مودی تھا جو پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرتا، گولی کا جواب گولی سے دینے کے نعرے لگواتا اور اپنے ووٹر کو ایک جارحانہ طاقت کا خواب دکھاتا تھا۔

آپریشن سندور بھی اسی بیانیے کا تسلسل تھا۔  بھارتی میڈیا پر جنگی ترانے، ٹاک شوز میں فتح کے نعرے، اور مودی کے چہرے پر روایتی اکڑ نمایاں تھی۔

مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ بیانیے صرف بولنے سے نہیں، نبھانے سے بنتے ہیں — اور یہی وہ مقام تھا جہاں "نریندر" کا بیانیہ "سریندر" میں بدلنے لگا۔

پاکستان کی طرف سے روایتی شور شرابے کے بجائے ایک غیر متوقع خاموشی دیکھنے کو ملی — لیکن یہ خاموشی طوفان سے کم نہ تھی۔ ایک طرف سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھرپور موجودگی دکھائی، اقوام متحدہ، چین، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کو صورتحال سے آگاہ کیا؛ دوسری طرف عسکری سطح پر بھارت کو سمجھا دیا گیا کہ "حقیقی طاقت وہ نہیں جو کیمرے دکھائیں، بلکہ وہ ہے جو دشمن کی زبان میں جواب دے۔"

بھارت کو اندرون خانہ دفاعی پوزیشن لینی پڑی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مودی حکومت کو اندازہ ہوا کہ بیانیہ اب نہیں چلے گا۔

مودی حکومت نے آہستہ آہستہ اپنی زبان بدلنی شروع کی۔ گولی، بدلہ، جنگ، دشمن، اور فتح جیسے الفاظ کی جگہ ترقی، خودانحصاری، آتم نربھر بھارت، نوجوانوں کی تربیت، اور میک ان انڈیا جیسے نرم مگر بھاری الفاظ نے لے لی۔

وزیر اعظم مودی نے ایک تقریر میں کہا:

"آپریشن سندور اب صرف فوجی کارروائی نہیں، ایک قومی مہم ہے۔ یہ ہماری اندرونی ترقی، قومی یکجہتی اور خودانحصاری کی علامت ہے۔"
یہ وہی مودی تھے جنہوں نے دو ہفتے قبل کہا تھا:

"ہم گھر میں گھس کر ماریں گے، اور دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔"

 

نریندر مودی اب اپنے بیانیے میں دفاعی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تحمل، تیاری اور بروقت ردعمل نے انہیں مجبور کیا کہ وہ عسکری رنگ کو دھندلا کر ترقیاتی رنگ چڑھائیں۔ ایک ایسا لیڈر جس کی پوری سیاست پاکستان مخالف جذبات پر کھڑی تھی، آج "ہر شہری آپریشن سندور کا سپاہی ہے" جیسے نعرے لگا رہا ہے۔

یعنی بندوقوں کی جگہ بازو، ٹینکوں کی جگہ تربیتی ادارے، اور "سرجیکل اسٹرائیک" کی جگہ "اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام"۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں نریندر، سریندر بنے۔

مودی کو یقین تھا کہ وہ جارحانہ فوجی کارروائی سے پاکستان کو دباؤ میں لے آئیں گے، جیسا کہ وہ اپنے ووٹروں کو باور کراتے تھے۔ مگر اس بار، ان کی غلط فہمی دور ہو گئی — اور وہ بھی اسی زبان میں جو وہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے مودی کو پیغام دے دیا کہ نہ صرف وہ تیار ہے، بلکہ اب دنیا کو بھی اپنا مؤقف منوانا جانتا ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو نریندر کو شاید سیاست کے میدان میں پہلی بار اتنے خاموش انداز میں پڑھایا گیا ہے۔

آج آپریشن سندور کا ذکر "ترقی" اور "یکجہتی" کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ روشنی اصل میں بیانیے کے اس دھوئیں سے نکلی ہے جو میزائل کی زبان میں بولا گیا اور خاموشی سے دفن ہوا۔

مودی کے لیے اب یہ بیانیہ نہ صرف شکست کی علامت ہے، بلکہ سیاسی چالاکی کی آخری پناہ بھی۔ مگر تاریخ یہ  ضرور لکھے گی کہ مئی 2025 میں مودی نے جو جنگ 
بیانیے کےٹھندے کمرے میں بیٹھ کر شروع کی تھی اسے پاکستان نے جنگ کے گرم محاذ پر دفن کر دیا ہے 


جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

پاکستان اکیلا نہیں ہے اس حمام میں


‪CBI moin akhtar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                   
پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں سی بی آئی اسکینڈل چل رہا ہے جس میں ہونے 
والی تحقیقات کے دوران سی بی آئی کے کئی ایک ڈائریکٹرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے ہیں اور ان سب کے زوال کا سبب بنے والے شخص کا نام ہے معین اختر قریشی۔
ارب پتی معین اختر قریشی کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے اور اُن کا شمار گوشت کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔انہیں سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
معین اختر قریشی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سے سرکاری افسران کو خوش رکھنے کے لیے انہیں حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ان کی طرف سے نوازے جانے والوں میں سی بی آئی افسران اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معین قریشی کا نام 2014ء میں سامنے آیا جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے سی بی آئی چیف رنجیت سنہا سے 15ماہ کے دوران 70بار ملاقات کی۔حیدرآباد دکن کے بزنس مین ستیش بابو کے مطابق انہوں نے اپنے ایک دوست کی ضمانت کے لیے معین اختر قریشی کو ایک کروڑ روپے دیے تھے۔
2014ء کے بعد بھی معین اختر قریشی کے سی بی آئی کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور پیغامات کا تبادلہ جاری رہااور اب سی بی آئی کے نئے چیف الوک ورما بھی ان سے تعلقات رکھنے کے الزام میں اپنے سارے اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قریشی نے اپنے کاروبار کا آغاز 1993ء میں رامپور میں ایک چھوٹے سے مذبح خانے سے شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار بھارت کے چند بڑے گوشت برآمدکنندگان میں ہونے لگا۔25سال کے دوران ان کی کمپنیوں کی تعداد 25ہوگئیہے اوروہ برآمدات کے علاوہ تعمیرات اور فیشن انڈسٹری میں اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔

جمعرات، 4 جنوری، 2018

تہذیوں کی جنگ

عالمی سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیزی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔عالمی قوتیں اس قدر جلدی میں ہیں ، ایک ملک کے امن کو دیاسلائی دکھائی جاتی ہے اور حالات پر تیل چھڑک کر دوسرے ملک کا رخ کر لیا جاتا ہے ۔ فلسطین میں قتل و غارت پر ماتم کناں انسانیت کی افسردگی اور بے چارگی سے شہہ پا کر ٹرمپ نامی انسانیت دشمن خونی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان تو چند دنوں کی معاشی مار ہے اور پاکستان کی سیکورٹی معطلی کے اعلان کے موقع پر امریکی ترجمان کے لہجے کی رعونت یہ رہی کہْ جب تکْ پاکستان امریکہ کے اطمینان کے مطابق اپنے ہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم نہیں کرتااس وقت تک امداد اور سیکورٹی معطل رہے گی اور جب پاکستان یہ کر لے گا تو پھر امداد کی بحالی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ 

امریکی صدر نے سعودیہ کے دورے کے دوران جہاز میں ْ اپنے میڈیا ْ کے لوگوں سے بات چیت کی جو بعد میں ایک امریکی اخبار میں اور وہاں سے شرق الاوسط کے ایک جریدے میں نقل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کو اپنی یہ طاقت استعمال کر کے دنیا پر اپنے رعب کو بحال کرنا ہو گا اور یہ محتاج ممالک
 Client States
 پر دھاک سے ہی ممکن ہے ۔القدس کے مسٗٗلے پر دھاک جما لینے کے بعد ہی اکلوتی سپر پاور کا رخ پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔اور ابھی پاکستان رد عمل کی تیاری میں ہی ہے تو سوچ لیا گیا ہے کہ پاکستان نے تو خود کشی کا راستہ اختیار کر ہی لیا ہے لہذا خطے میں پاکستان کے متبادل کے طور پر امریکہ کی نظر ایران پر ہے۔

مریکہ کا خیال ہے کہ ایران خطے میں تنہا ہے ، اس کے ہمسائیوں میں بھارت اسرائیل کی محبت میں کلی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔شام اور عراق برباد ہو چکے ہیں۔سعودیہ اور ایران کے حالات ْ تومار یا میں ماروںْ تک کشیدہ ہیں ۔ پاکستان کو اپنی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔ واحد سہارا ایران کی اندرونی یکجہتی ہے مگر اس کے خلاف امریکہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں حکومت مخالف ایرانی عناصر سر گرم ہو چکے ہیں ۔ جمعرات کے دن ایرانی حکومت کے مخالفین کی جانب سے جو تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں ۔ان میں یہ تصویر بھی شامل ہے۔
القدس میں سفارت خانے کی منتقلی کے بعد لگتا ہے امریکہ نے یقین کر لیا ہے کہ اس کی دھاک کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اسی لیے پاکستان کو کسی قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا اور ایران میں مظاہرین کی اعانت شروع کر دی گئی ہے ۔ امریکی عوام پر ایسا بدبخت ٹولہ مسلط ہو گیا ہے جس کو خود امریکہ میں مست ہاتھی کہا جا رہا ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا کا با خبر ترین ملک ہے ۔حکمران ٹولہ اپنے تھنک ٹنکس کی سنتا ہے نہ جرنیلوں کی ۔قدرت کو معلوم نہیں کس کا امتحان مقصود ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر امتحان کے بعد نتیجہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکہ نے خطے میں بہت وسیع امتحان گاہ چنی ہے اور اس کو یقین ہے کہ امتحان میں کامیابی چوہدری کے صاحبزادے کو ہی ہونی ہے ۔اور اس یقین دہانی میں بھارت کا بہت بڑا کردار ہے ، اور یہ طے ہے کہ بھارت نے پاکستان اور ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔ مگر رولا یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان( جو امریکہ کے نزدیک کمی کمین ہیں ) سترہ سالوں سے اسی امتحان کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور یقین یہ ہے کہ یہ ْ کمی کمین ْ دہاندلی کے باوجود پاس ہوں یا نہ ہوں البتہ فیل نہیں ہوں گے ۔مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ جذباتی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کے بارے میں امریکہ کی سوچ رعونت پر مبنی ہے تو ایران کے بارے اس کا یہ یقین کہ شیعہ ایران ،ایران کے اندر ،شام اور عراق میں شیعہ سنی لڑاہیوں کے باعث سنیوں کو اپنا دشمن بنا چکا ہے ۔ 

علاقے میں جاری تصادم مسلکی ہیں یا ان کا سبب معیشت ہے اس کا فیصلہ بھی اب امتحان کے بعد ہی ہو گا ۔ امریکہ جو کشیدگی دین کی بنیاد پر شروع کیے ہوئے ہے اس کشیدگی کو اسرائیل کی شہہ اور بھارت کی معاونت نے جنگ کے شعلوں میں تبدیل کرنا ہے ۔ اور اگر ( خدا نہ ، نہ ، نہ کرے ) جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی ابتداء ہو گی اور یہ جنگ افغانستان کی طرح سترہ سالوں تک بے نتیجہ نہیں رہے گی مگر سرعت کے ساتھ اس کا رخ سرمایہ داری 
Capitalism 
نظام کے خلاف ہو جائے گا ۔اس کے متحارب فریق ممالک نہیں بلکہ مفلوک الحال لوگ بمقابلہ سرمایہ دار ہوں گے ۔ سابقہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکیوں اورمغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ یہ جنگ ان کے گھروں سے دور لڑی جائے گی ۔جس جنگ کی ابتداء ہی بے اصولی پر ہو چکی ہے وہ کسی امریکی صدر کے اصول کی پابند کیوں اور کیسے رہ سکے گی کہ بھوک مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اس کا مداوا روٹی ہی ہے ۔ ایک امریکی دانشور نے لکھا تھا نا کہ یہ جنگ تہذیوں کی ہو گی ۔ اس نے سچ لکھا تھا۔ تہذیبیں مگر دو ہی ہیں ایک سرمایہ دار دوسری مفلوک الحال۔